مسلمان،مساجد اورجوتے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مسلمان،مساجد اورجوتے
مفتی ناصرالدین مظاہری

جون جولائی کامہینہ تھا،میں نے اپنے موبائل سے سلیپرکلاس کاٹکٹ نکالا، سیٹ پرپہنچا،لیٹ کر’’کہاں گئے یہ لوگ‘‘پڑھناشروع ہی کیاتھاکہ نہایت سڑی ہوئی بدبونے اچانک مزاج کومکدرکرکے رکھ دیا،میں سوچ میں پڑگیاکہ اتنی دیرتک توماحول ٹھیک ٹھاک تھایہ عجیب قسم کی بدبوکہاں سے آنے لگی،میں تھوڑا سابے باک بھی واقع ہواہوں ،اپنے قریب بیٹھے لوگوں سے پوچھاکہ ہم لوگ کافی دیرسے پرسکون بیٹھے تھے یہ اچانک بدبوکہاں سے آنے لگی ہے۔ایک صاحب نے اوپروالی سامنے کی سیٹ پربیٹھے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کیاکہ اس بدبوکاذمہ داریہ لڑکاہے۔اس نے جیسے ہی سیٹ پرپہنچ کرجوتے اتارے پورے کیبن میں بدبوہی بدبوپھیل گئی ہے۔میں نے اْس نوجوان سے نیچے اترکر پاؤں دھوکرپھر بیٹھنے کے لئے بولا، اس نے ایساہی کیااوراپنے جوتے ایک کاغذمیں لپیٹ کربیگ میں ڈالے۔
اصل میں انسان جس ماحول میں رہتاہے اسی میں رچ بس جاتاہے،ہم ٹھہرے مدرسہ والے،جہاں ماشاء اللہ اکثریت صاف شفاف،معطراورمعنبررہتی ہے،کم ازکم پانچ سات بار وضوکی بھی توفیق مل ہی جاتی ہے،لیکن ہمارا نوجوان طبقہ عموماً اورخاص کرعصری تعلیم یافتہ طبقہ جوتے توبہت شوق سے پہنے گا،مئی جون کے موسم میں بھی موزے چڑھاکررکھے گا،پوراپورادن جوتے اتارنے کی نوبت نہیں آئے گی توپھراس کانتیجہ یہی ہوگا پہلے موزے پھرپیراورپھرجوتے ہی بدبودار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتے پہنے بھی ہیں اورجوتے پہننے کی ترغیب بھی دی ہے،جوتوں سے پیروں کی حفاظت بھی ہوتی ہے اورجوتے زینت کا حصہ بھی ہیں،جس طرح ہم اپنے کپڑوں پرتوجہ دیتے ہیں جوتے بھی اسی توجہ کے محتاج ہوتے ہیں،بلکہ جوتے چونکہ پیروں میں رہتے ہیں جن کوگندگی،کیچڑ،پانی،مٹی وغیرہ سے سابقہ پڑتاہے اس لئے جوتوں کی دیکھ ریکھ زیادہ کرنی چاہئے۔
جوتوں کے معاملہ میں ہمارابڑا طبقہ نہایت ہی غیرذمہ دارواقع ہواہے مثلاً ہمیں حکم دیاگیاکہ جب جوتے پہنوتو پہلے جوتوں کوخوب صاف کرلو،جھاڑلوتاکہ خدانخواستہ اندرکوئی موذی جانوراورکنکرپتھرہوتواس سے پیروں کوپچایاجاسکے،اسی طرح ہمیں حکم دیاگیاکہ پہلے دایاں پیرجوتے میں ڈالیں پھربایاں پیربائیں جاتے میں ڈالیں۔بہت سے پڑھے لکھے لوگ جوتے اتارکردائیں ہاتھ میں لے کرچلناشروع کردیتے ہیں حالانکہ ہمیں حکم دیاگیاکہ جوتے ہمیشہ بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اوراس کے متصل والی انگلی سے اٹھائیں۔اسی طرح بعض عقیدت مند توایسے بھی ہیں جوجوتوں کوان کی جگہ رکھ کرہاتھ دھوئے بغیرہی مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھادیتے ہیں۔بعض توان سے بھی آگے ہیں جوبیت الخلاء سے نکلتے ہیں،ابھی ان کے ہاتھ گیلے ہیںاورسامنے آپ مل گئے توفوراً مصافحہ کے لئے بڑھادیتے ہیں۔کچھ نمونے ایسے بھی ہیں جوتازہ تازہ وضو سے فارغ ہوئے ہیں،پانی کے قطرات ابھی ٹپک رہے ہیں اوراپنے شیخ یااستاذمحترم کے سامنے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھادئے۔اللہ کے بندے یہ بھی نہیں سوچتے کہ سردی کاموسم ہے،بزرگ استاذنے سردی سے حفاظت کی خاطر اپنے ہاتھ اپنی چادرمیں چھپارکھے ہیں ایسی حالت میں کم ازکم صرف سلام سے کام چلالیں ورنہ کم ازکم اپنے ہاتھوں کوتولیہ وغیرہ سے خود پونچھ لیں تاکہ انھیں زحمت نہ ہو۔
میں نے ایک صاحب علم کودیکھا وہ مسجدکے کافی اندرجاکرجوتے اتارتے تھے ،مجھ سے برداشت نہ ہوا،میں نے کہاکہ محترم !آپ کے جوتے زیادہ مقدس ہیں یامسجدزیادہ مقدس ہے یاآپ نے اپنے ہی تقدس کوملحوظ رکھاہے ؟پھرمیں نے کہاکہ آپ اگرجوتے اتنے مبالغہ کے ساتھ مسجدکے اندرلائیں گے تویقین کیجئے کہ آپ کے طلبہ منبرتک جوتوں سمیت پہنچناشروع کردیں گے اورجب کبھی کتاب اللباس پڑھائیں گے وہاں جوتوں کے پہننے اوراتارنے کی سنتیں آپ طلبہ کے سامنے بیان کریں گیتوطلبہ ایک طرف آپ کی تقریرسنیں گے دوسری طرف آپ کے اِس عمل کوبھی تولیں گے۔
عوام غلطی کریں تودل کہتاہے کہ درگزرکروکیونکہ ان کوشایداب تک کسی نے بتایاہی نہیں ہوگالیکن علمائے دین اورطلبۂ کرام اگرکوئی ایسی ویسی حرکت کردیں تومزاج کامکدرہونایقینی ہے ،اگرکسی صاحب کے دائیں ہاتھ میں چپل جوتے ہوں اوربائیں ہاتھ میں کتاب ہوتوآپ کیاکہیں گے،اتنی موٹی کتاب یہ بندہ پڑھ کربھی وہیں کاوہیں رہا۔
میں ایک دفعہ گولڈن ٹیمپل امرتسرگیا،زبردست صفائی تھی،عملہ بھی خوب ایکٹیو اورمستعدتھا،کسی کے بھی سرننگے نہیں دکھائی دئے ،گولڈن ٹیمپل کے شروع حصہ میں ہی مجھ سے میرے جوتے لے لئے گئے ،اندرپہنچاتوعملہ نے کتنی ضیافت اورمحبت سے نوازامیں بتانے پرآؤں توپورامضمون تیارہوجائے گا۔واپسی پرجس شخص نے مجھ سے میرے جوتے لئے تھے اسی نے میری طلب سے پہلے ہی میرے جوتے نہایت ادب سے دئے میرے سامنے رکھ دئے،میری نظراپنے جوتوں پرپڑی تودنگ رہ گیا،کیونکہ میرے جوتے پیدل چلنے کی وجہ سے غبارآلود تھے لیکن اب بالکل صاف شفاف،پالش سے چمکتے ہوئے۔میں نے پالش کے پیسے دینے چاہے توہمیں بتایاگیاکہ یہ چیزہمارے یہاں مہمانوں کی ضیافت اورخدمت میں شامل ہے پیسے نہیں لئے جائیں گے۔
ایک ہماری جامع مسجددہلی چلے جائیں، جگہ جگہ آپ کوپے پردہ کھلے سرخواتین دکھائی دیں گی،مائیں توپھربھی پردے میں مل جائیں گی لیکن ان کی جوان بیٹیاں ادھرسے ادھرتتلی کے مانندبے باکی کے ساتھ اپنی سیلفیاں لیتے دکھائی دیتی ہیں ۔یہ شایدمسجدکے ہرشخص کواپنا’’بھائی‘‘سمجھتی ہیں۔
مسجدمیں آپ کی مرضی جہاں چپل جوتے رکھ دیں،نہ کوئی جوتوں کی دیکھ ریکھ والاملے گا،نہ جوتوں کورکھنے کے لئے کوئی معقول نظم دکھائی دے گاالبتہ یہ توممکن ہے کہ آپ اپنے جوتے کہیں رکھیں اورپھرقیامت کاانتظارکریں کہ چورآخروہاں توپکڑاہی جائے گا۔
کسی بھی مسجدکے گیٹ پراپنے اچھے خاصے جوتے اتاردئے توپھریقین کریں کہ اتنی دیرمیں لوگ آپ کے جوتوں کوروندکرایسی حالت کردیں گے کہ آپ اپنے ہی جوتے پہچان نہیں سکیں گے، پہچان بھی گئے توپہننے میں تأمل ہوگاکہ بغیرموچیکے پاس لے جائے کیسے پہنوں۔دوسری طرف آپ کسی بھی گرجاگھرچلے جائیں ،آپ کونہایت سلیقہ سے چپل جوتے ترتیب واررکھے ہوئے ملیں گے۔
بہت سے لوگ تومساجدسے نکلتے وقت جوتوں کی نہیں بلکہ اپنی اوقات دکھادیتے ہیں ،کچھ لوگ اپنے جوتوںکو محفوظ رکھنے کے چکرمیں دوسروں کے محفوظ جگہ پررکھے چپلوں اورجوتوں کوکھسکاکریاہٹاکراپنے جوتے چپل رکھ دیتے ہیں، حکیم الامت حضرت تھانویؒ کاارشادہے:
’’لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جب مسجدمیں آئے تواوروں کی جوتیوں کوادھر ادھرہٹاکرجگہ کرکے اپنی جوتیاں اتاردیں اورمسجدمیں داخل ہوگئے ،میں اس کوناجائز سمجھتاہوں کیونکہ جس نے اپنی جوتیاں جس جگہ اتاری ہیں وہ وہیں ان کوتلاش کرنے آئے گااورجب نہ پائے گاتوپریشان ہوگا ۔دوسرے کوایذادیناکہاں جائزہے کہ جہاں تک جوتیاں رکھی جاچکی ہیں اس سے علاحدہ اپنی جوتیاں اتارے،دوسرے کی جوتیاں منتشرکرنے کاکوئی حق نہیں ‘‘۔
ہم الحمدللہ صاحب کتاب ہیں،ہمارے پاس ہمارا آخری نبی ہے،ہمارے پاس مستقل دین اورمکمل شریعت ہے۔ہمارے نبی نے جوتے پہننے ،بالوں میں کنگھی کرنے حتیٰ کہ پیشاب اوربیت الخلاجانے آنے بیٹھنے اور صفائی ستھرائی تک کے اصول اورقاعدے بتادئے ہیں تب بھی ہمارا یہ حال ہے۔
ہمارے مظاہرعلوم میں ایک استاذہیں مفتی محمدراشدندوی ،مفتی صاحب طلبہ کوچپل جوتے اتارنے،رکھنے اورپہننے کی خاص طورپرتعلیم وتاکیداورہدایت کرتے رہتے ہیں اس کانتیجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے جن جن درجات میں مفتی صاحب موصوف سبق پڑھانے جاتے ہیں وہاں طلبہ کے چپل جوتے نہایت سلیقے اورقرینے سے رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
دیگرقومیں ہمارے ایک ایک فعل کوناپتی اورتولتی ہیں ،تول رہی ہیں،تولتی رہیں گی۔ہمیں خودہی بیداراورہوشیاررہنے کی ضرورت ہے۔صرف اپنے نبی کوماننے سے کام نہیں چلے گاجب تک ہم نبی کی نہیں مانیں گے کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
 
Top