ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت كے دلائل

أضواء

وفقہ اللہ
رکن
ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت كے دلائل
مجھے ايك بھائى نے بتايا كہ ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنا حرام ہے،
اس كا ثبوت كئى ايك احاديث سے ملتا ہے،
ميں اس موضوع كے متعلق آپ كى رائے معلوم كرنا چاہتا ہوں.

الحمد للہ:

آپ كے دوست كى بات حق ہے،
نبى كريم صلى اللہ عليه وسلم سے بہت سارى احاديث ميں
ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے سے منع فرمايا ہے
ان احاديث ميں سے چند ايك احاديث درج ذيل ہيں:
صحيح بخارى ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليه وسلم نے فرمايا:
" چادر كا جو حصہ ٹخنوں سے نيچے ہے وہ آگ ميں ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5787 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليه وسلم كا فرمان اس طرح ہے:
" روز قيات اللہ تعالى تين قسم كے افراد كى جانب نہ تو ديكھے گا
اور نہ ہى انہيں پاك كريگا، اور انہيں دردناك عذاب ہو گا،
ان ميں ايك تو ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے والا ہے،
اور دوسرا احسان جتلانے والا،
اور تيرا اپنا سامان جھوٹى قسم سے فروخت كرنے والا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 106 ).
اور ايك حديث ميں فرمان نبوى اس طرح ہے:
" قميص اور پگڑى اور تہ بند ميں اسبال ہے،
جس نے بھى اس سے كچھ بھى تكبر كے ساتھ لٹكا كر
كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب نہيں ديكھےگا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4085 )
سنن نسائى حديث نمبر ( 5334 )
صحيح سند كے ساتھ مروى ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليه وسلم كا فرمان ہے:

" ٹخنوں سے نيچے چادر لٹكانے والے كى طرف اللہ تعالى نہيں ديكھےگا "
نسائى كتاب الزينۃ باب اسبال الازار حديث نمبر ( 5332 ).
اور حذيفه رضى اللہ تعالى عنه بيان كرتے ہيں كہ
رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم نے ميرى يا اپنى پنڈلى
كے عضل ( گوشت والا حصہ ) كو پكڑ كر فرمايا:
" چادر كى يہ جگہ ہے، اگر تم انكار كرو تو پھر
اس سے نيچے، اور اگر اس سے بھى انكار
كرو تو پھر چادر كو ٹخنوں ميں كوئى حق نہيں ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1783 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے.
اوپر جتنى بھى احاديث گزرى ہيں وہ ٹخنوں سے كپڑا نيچے ركھنے
كى ممانعت ميں عام ہيں، چاہے اس كا مقصد تكبر ہو يا نہ ہو،
ليكن اگر مقصد تكبر ہو تو بلا شك گناہ اور جرم زيادہ ہو گا،
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليه وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اپنى چادر تكبر سے نيچے ركھ كر
كھينچى تو اللہ تعالى اس كى جانب نہيں ديكھےگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5788 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2087 ).

اور ايك حديث ميں ہے جابر بن سليم رضى اللہ تعالى عنه
بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم نے مجھے فرمايا:
" تم چادر ٹخنوں سے نيچے ركھنے بچا كرو،
كيونكہ يہ چيز تكبر ميں سے ہے،
اور اللہ تعالى تكبر كو پسند نہيں كرتا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2722 ) اسے ترمذى نے صحيح قرار ديا ہے.
پھر يہ بھى ہے كہ انسان اپنے آپ كو تكبر سے برى نہيں كر سكتا چاہے
وہ اس كا دعوى بھى كرے تو بھى اس سے قبول نہيں كيا جائيگا
كيونكہ يہ اس كا خود اپنى جانب سے تزكيہ نفس ہے،
ليكن جس كے متعلق اس كى گواہى وحى نے دى تو وہ ٹھيك ہے،
جيسا كہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليه وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر سے كھينچا اور
لٹكايا تو اللہ تعالى روز قيامت اسے ديكھے گا بھى نہيں "
تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنه كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليه وسلم:
ميرى چادر ڈھيلى ہو جاتى ہے، ليكن ميں اس كا خيال ركھتا ہوں،
تو رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم نےفرمايا:
" يقينا تم ان ميں سے نہيں جو اسے بطور تكبر كرتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5784 ).

ٹخنوں سے نيچے كپڑا اور چادر يا سلوار وغيرہ ركھنا چاہے
وہ تكبر كى بنا پر نہ بھى ہو يہ بھى منع ہے،
اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنه بيان كرتے ہيں
كہ رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم نے فرمايا:
" مسلمان كا لباس نصف پنڈلى تك ہے، نصف پنڈلى اور
ٹخنوں كے درميان ہونے ميں كوئى حرج نہيں،
اور جو ٹخنوں سے نيچے ہو وہ آگ ميں ہے،
اور جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر سے كھينچا
اللہ تعالى اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4093 ) اس كى سند صحيح ہے.
دونوں حديثوں ميں مختلف عمل بيان ہوا ہے،
اور اس كى سزا بھى مختلف بيان كى گئى ہے.
اور امام احمد نے عبد الرحمن بن يعقوب سے بيان كيا ہے
وہ كہتے ہيں ميں نے ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنه سے دريافت كيا:
كيا آپ نے رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم سے

چادر كے متعلق كچھ سنا ہے ؟

تو انہوں نے فرمايا: جى ہاں سنا ہے، تم بھى اسے معلوم كر لو،
ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" مومن كا لباس اس كى آدھى پنڈليوں تك ہے،
اور اس كے ٹخنوں اور نصف پنڈليوں كے
درميان ركھنےميں كوئى حرج نہيں،
اور جو ٹخنوں سے نيچے ہو وہ آگ ميں ہے، آپ نے يہ تين بار فرمايا "
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم كے پاس سے گزار
تو ميرى چادر ڈھيلى ہو كر نيچے ہوئى ہوئى تھى،
تو رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم فرمانے لگے:
" اے عبد اللہ اپنى چادر اوپر اٹھاؤ،
تو ميں نے اسے اوپر كر ليا،
پھر رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم نے فرمايا:
اور زيادہ كرو، تو ميں نے اور اوپر كر لى.
اس كے بعد ميں ہميشہ اس كا خيال ركھتا ہوں،
لوگوں ميں سے كسى نے دريافت كيا: كہاں تك ؟
تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:
آدھى پنڈليوں تك "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2086 ) كتاب الكبائر للذھبى ( 131 - 132 ).

تو اسبال جس طرح مردوں ميں ہے
اسى طرح عورتوں ميں بھى ہو گا،
جس كى دليل
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں
كہ رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر كے ساتھ
كھينچا اللہ تعالى اس كى جانب نہيں ديكھےگا "
تو ام سلمه رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليه وسلم:
تو پھر عورتيں اپنے چادروں كا كيا كريں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم نے فرمايا:
" وہ ايك بالشت نيچے لٹكا ليا كريں "
ام سلمه رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:
اس طرح تو عورتوں كے پاؤں نظر آيا كرينگے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم نے فرمايا:
" وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اس سے زيادہ نہيں "
سنن نسائى كتاب الزينۃ باب ذيول النساء.
اور ہو سكتا ہے تكبر كرنے والے كو آخرت سے
قبل اس كى سزا دنيا ميں بھى مل جائے،
جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنه بيان كرتے ہيں
كہ رسول كريم صلى اللہ عليه وسلم نے فرمايا:
" ايك شخص تكبر كے ساتھ اتراتا ہوا
اپنى دو چادروں ميں چلا جا رہا تھا
اور اسے اپنا آپ بڑا پسند اور اچھا لگا،
تو اللہ تعالى نے اسے زمين ميں دھنسا ديا،
تو وہ قيامت تك اس ميں دھنستا ہى چلا جائيگا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2088 ).

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد ( السعوديه)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
RE: ٹـخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت كے دلائل

جزاک اللہ خیرا
ہو سکے تو شیخ محمد صالح حفظہ اللہ کا بھی تعارف کرادیں.
 

أضواء

وفقہ اللہ
رکن
RE: ٹـخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت كے دلائل

احمدقاسمی نے کہا ہے:
جزاک اللہ خیرا
ہو سکے تو شیخ محمد صالح حفظہ اللہ کا بھی تعارف کرادیں.

موضوع پر آپ کی آمد اور ہمت آفزائی کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔

اللہ یجزاک خیر و بارک اللہ فیک ۔۔۔


محمد بن صالح المنجد عالم دين إسلامي سعودي .

17-09-1431%2001-48-05%20%D8%B5.png



نشأته

ولد المنجد في يوم 30/12/1380 هجرية ونشأ في الرياض
. وأنهى المرحلة الأولى من تعليمه الابتدائي والمتوسط والثانوي في مدينة الرياض
. ثم أنتقل إلى الخبر ودرس وتخرج من جامعة الملك فهد للبترول والمعادن
بشهادة بكالوريس إدارة صناعية.



مشائخ شیخ محمد صالح ۔۔


1.الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز: وهو الذي أمره بالتدريس وإلقاء المحاضرات في
المنطقة الشرقية وكان عمره دون الثلاثين
2.الإمام العلامة محدث العصر محمد ناصر الدين الألباني
3.الشيخ محمد بن صالح العثيمين
4.الشيخ عبد الله بن عبد الرحمن بن جبرين
5.الشيخ صالح بن فوزان آل فوزان
6.الشيخ عبد الرحمن البراك
7.الشيخ عبد الله بن محمد الغنيمان
8.الشيخ محمد ولد سيدي الحبيب الشنقيطي
9.الشيخ عبد المحسن الزامل
10.الشيخ عبد الرحمن بن صالح المحمود



أعماله ونشاطه العلمي۔۔۔

محمد المنجد هو إمام وخطيب جامع عمر بن عبد العزيز بالعقربية في مدينة الخبر
وله نشاط كبير في الدعوة إلى الإسلام عن طريق الدروس والمحاضرات الذي يلقيها في مسجده.
وله برنامج أسبوعي على قناة المجد الفضائية بعنوان الراصد، كما أن له برنامج أسبوعي في إذاعة القرآن الكريم.
كم أن له برامج في قنوات محلية وخليجية وعربية وله
أكثر من 3000 مادة منشور معظمها عبر الشبكة. كما أن له العديد
من الأشرطة في دروس متنوعة تزيد على (4500) ساعة صوتية.


مؤلفاته۔۔۔۔


مؤلفات محمد المنجد فقد ألف مجموعة من الكتب مثل:

أربعون نصيحة لإصلاح البيوت
أريد أن أتوب ولكن
شكاوى وحلول
ظاهرة ضعف الإيمان
أخطار تهدد البيوت
التنبيهات الجلية لكثير من المنهيات الشرعية
كيف تقرأ كتابا
الأساليب النبوية في التعامل مع أخطاء الناس
مسابقات في العلم الشرعي
ماذا تفعل في الحالات الآتية
33 سبباً للخشوع في الصلاة
العادة السيئة
الدليل إلى الموضوعات الإسلامية صدر منه ثلاثة أجزاء
مسائل في الدعوة والتربية
محرمات استهان بها الناس ـ يجب الحذر منها
وسائل الثبات على دين الله، 70 مسألة في الصيام.
 
Top