سلام میں پہل کی فضیلت

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!

سلام میں پہل کی فضیلت

ناصرالدین مظاہری

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:البادی بالسلام بری من الکبر(سلام میں پہل کرنے والاکبرسے پاک ہوتاہے)

اس حدیث سے ایک بات تو بالکل واضح ہے جس کی تفصیل اور تفسیرکی بالکل ضرورت نہیں ہے کہ جو شخص سلام میں پہل نہ کرے وہ گھمنڈی ہے جی ہاں کیونکہ ہرچیزکے دوہی رخ ہوتے ہیں ایک مثبت دوسرا منفی ہے ، آپ نے مثبت پر عمل نہیں کیا تومنفی کے زمرے میں شامل ہوگئے۔

جوشخص سلام میں پہل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و رافت سے قریب ہوتا ہے چنانچہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے لوگوں میں اللہ تعالی کی رحمت کے وہ شخص زیادہ قریب ہے جوسلام میں پہل کرے۔

اس سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جوشخص سلام میں پہل نہ کرے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دورہے ۔

بہت سے متکبرلوگ اس فکر اورخیال میں رہتے ہیں کہ کوئی انھیں سلام کرے گا حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں بھی ایک اصول متعین فرمادیا ہے چنانچہ کسی نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دولوگ آپس میں ملیں توان میں سلام میں پہل کون کرے توفرمایاکہ جواللہ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہو۔یعنی فطری طورپرسلام میں پہل وہی کرے گاجواللہ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہوگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام میں بخل کرنے والے کوبخیل ترین فرمایاہے چنانچہ الفاظ حدیث یہ ہیں:ان اعجن الناس من عجزمن الدعاوان ابخل الناس من بخل بالسلام ۔

اساتذہ محترم حضرت مولانا عبدالخالق مظاہری سہارنپوریؒ کاایک عمل ہمیشہ دیکھا کہ وہ اپنے چھوٹوں اوربڑوں کو بلاتفریق سلام میں پہل کرتے تھے ،بارہاایساہواکہ میں نے ارداہ کرلیاکہ آج سلام میں پہل کروں گالیکن حضرت الاستاذنے دورسے ہی سلام کردیا۔ان کے اس عمل سے جوقدرومنزلت ان کے شاگردوں میں بیٹھ گئی ہے ان شاء اللہ وہ کبھی نہ نکلے گی۔

آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھاہوگاجو آپ کودیکھ رہے ہیں ،واقف بھی ہیں، تعلقات بھی ہیں ،مراسم بھی ہیں لیکن ان سب کے باوجود وہ یہی چاہتے ہیں کہ دوسرا ان کوسلام کرے کیونکہ ان کاگھمنڈ انھیں سلام جیسی رحمت اور برکت سے روکے ہوئے ہوتا ہے،ان کے اندرکانفس اور شیطان بالکل نہیں چاہتاکہ یہ بندہ کبر سے پاک ہویایہ بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہو۔

اس باب میں صاحبان عبا و قبا اور علم و تربیت سے محروم سبھی کامعاملہ یکساں ہے ،البتہ پڑھے لکھوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سلام میں پہل کریں کیونکہ انھیں سلام اور اس کے فضائل کاعلم ہوتا ہے۔لوگوں کوچاہئے کہ سوارپیادہ پا کوسلام کرے،چلنے والا بیٹھنے والے کوسلام کرے، تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کوسلام کریں،کم عمرشخص اپنے سے بڑے کوسلام کرے۔یسلم الصغیرعلی الکبیر، والمارعلی القاعد،والقلیل علی الکثیر(ترمذی)

اکثردیکھا گیاہے کہ اساتذہ حضرات اپنے طلبہ کوسلام نہیں کرتے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ طالب علم کاحق ہے کہ وہ ان کوسلام کرے۔یہ بھی دیکھاگیاہے کہ بعض پیران محترم کسی امیر کبیر سے نہ صرف سلام کے مکمل بول بولتے ہیں بلکہ کھڑے ہوکر معانقہ بھی کرلیتے ہیں اوراپنے مرید سے بمشکل تمام مصافحہ کرتے ہیں اور مصافحہ میں بھی بمشکل دوتین انگلیوں کا استعمال کرتے ہیں۔

یہ بھی دیکھاگیاہے کہ اپنے شاگردوں اور مریدوں سے مصافحہ نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی خفگی کااظہار بھی کردیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ صرف سلام ہی کافی ہے تو پھر امیر اور مالدارکے لئے آپ نے اتنی خوش اخلاقی کا برتاؤ کس لئے کر رکھاہے کہیں ایساتونہیں کہ وہاں کچھ لالچ پوشیدہ ہو،مفاد وابستہ ہویا دنیادار سے مرعوب ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے :ان المؤمن اذالقی المؤمن فسلم علیہ واخذبیدہ فصافحہ تناثرت خطایاہما کمایتناثرورق الشجر(حذیفہ بن یمان)

جب دومسلمان آپس میں سلام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑکر مصافحہ کرتے ہیں توان کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑتے یں۔

اب ذیل میں جامعۃ العلوم علامہ بنوری ٹاؤن کے ایک فتوے سے چند آداب لکھ کر ہم بات ختم کرتے ہیں:

(۱)اتنی آواز سے سلام کرے کہ دوسرا سن لے۔ اور جواب بھی اتنی آواز سے دے کہ سلام کرنے والا سن لے۔(شمائل کبری)

(۲)اگر کسی مجلس میں آئے اور مجلس میں کوئی خاص گفتگو ہو رہی ہو تو جہراً (بلند آواز سے) سلام نہیں کرنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت)

(۳)جھک کر سلام نہیں کرنا چاہیے۔(آداب المعاشرت)

(۴)اجنبی مرد اجنبی عورتوں کواور اجنبی عورتیں اجنبی مردوں کو سلام نہ کریں۔ (عمل الیوم واللیلہ ابن السنی)

(۵)سلام ہر مسلمان کو کرناچاہیے، خواہ اْسے پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔ (صحیح بخاری)

(۶)تلاوت، ذکر، وظیفہ وغیرہ میں مشغول شخص کو سلام نہ کر نا چاہیے۔ (جامع الفتاوی)

(۷)علمی مشغلہ میں مصروف شخص کو سلام نہ کرنا چاہیے۔ (جامع الفتاوی)

(۸)اگر کوئی سونے کے لیے لیٹاہو تو اتنی آواز سے سلام کیا جائے کہ اگر وہ جاگ رہا ہو تو جواب دے دے اور اگر سو رہا ہو تو بیدار نہ ہو۔ (جامع ترمذی)

(۹)اذان کے دوران سلام نہ کرنا چاہیے۔ (جامع الفتاوی)

(۱۰)جب مسجد میں آئے اور لوگ ذکر وغیرہ میں مشغول ہوں تو سلام نہ کرنا چاہیے۔ (امداد الفتاوی)
 
Top