کڑے ہوں گے

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
وہ لاغری میں بھی میدان میں لڑے ہوں گے
جو بے ہنر تھے سمجھ لینا دِن کڑے ہوں گے

تُمہارے چاہنے والوں کی اِک علامت ہے
سِتارے بُجھتی سی آنکھوں میں بھی جڑے ہوں گے

چنابؔ وقت کی اِن سونیوںؔ سے ہار گیا
سبھی کے ڈھال فقط کچّے سے گھڑے ہوں گے

تُمہارا مان رکھا لو ہُؤا میں آمادہ
وہ مُجھ کو دیکھ کے رنجِیدہ، رو پڑے ہوں گے

سُکُون لُوٹ لیا اب تو چھوڑ، خُوش فہمی
پڑا جو وقت کڑا ساتھ سب کھڑے ہوں گے

مکاں کِرائے کا ہے لوگ ٹِک نہیں پاتے
جہاں پہ گھر کبھی بستا تھا اب چھڑے ہوں گے

خزاں رسِیدہ شجر ہم نے برہنہ دیکھا
اُجاڑ ایسا کہ پھل آس کے جھڑے ہوں گے

"ق"

کوئی جو حل نہِیں نکلا تو یہ سمجھ آئی
یہ ضِد کے پکّے تو وہ لوگ بھی اڑے ہوں گے

رشِیدؔ تھوڑی لچک ہو تو کام چل نِکلے
انا ہے بِیچ میں تو مسئلے بڑے ہوں گے


رشِید حسرتؔ
 
Top