اپنی حیثیت پہچانئے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!

اپنی حیثیت پہچانئے!

ناصرالدین مظاہری

ایک زمانہ تھا جب پانچ سو کا نوٹ سب سے بڑا مانا جاتا تھا پھر ایک ہزار کے نوٹ نے پانچ سو کی اہمیت کم کردی،ابھی ایک ہزار کے نوٹ نے ٹھیک سے اپنے پیروں پر چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا کہ دوہزار کے نوٹ نے دستک دیدی۔دو ہزار کا نوٹ مارکیٹ میں کیا آیا کہ تمام لوگ دو دھڑوں اور دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ جو امیر تھے انھوں نے ذخیرہ اندوزی کے لئے اپنی تجوریاں بھرلیں اور جو غریب تھے انھوں نے دو ہزار سے ایسے ہی کنارہ کشی اختیار کی جیسے شریف انسان جھگڑالو شخص سے دوریاں بناکر رکھتاہے۔

دوہزار کا نوٹ کبھی بھی وہ پذیرائی اور مقبولیت حاصل نہ کرسکا جو چھوٹے نوٹوں کو حاصل تھی پھر یکایک پانچ سو نوٹوں کے ستارے گردش میں آئے۔ایک ہزار کے نوٹوں پر آسمانی بجلی گری، دوہزار کے نوٹوں پر سرکاری شکنجہ کسا اور کستا چلاگیا یہاں تک کہ اگلے مہینے کہ آخری تک کو دوہزار کے نوٹ کی آخری سانس اور آخری ہچکی طے کردی گئی۔

اس عمل سے ہم نے یہ سیکھا کہ زیادہ بلند چٹانیساور عمارتیں زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں، ہواؤں میں تیرتے طیارے ، فضاؤں میں پرواز کرتے ہیلی کاپٹر اور زمین سے دور فضاؤں میں محو خرام اڑن کھٹولے ہمیشہ خطرات کی زد پہ رہتے ہیں۔

ہم نے یہ بھی سیکھا کہ غرور کا سر آخرکار نیچا ہوتا ہے،گھمنڈ کی قسمت میں زوال ہے،تواضع کی قسمت میں بلندی ہے،یہ بھی جانا کہ آہستگی اور سبک خرامی میں حادثات کا تناسب صفر کے درجے میں ہے اور تیزگامی کا ہر لمحہ خطروں اور آلام کے قریب رہتاہے۔یہ بھی جانا کہ بوجھ بوجھ ہوتاہے چاہے دنیا میں ہو یا آخرت میں ہو۔جولوگ زیادہ امیر ہیں انکم ٹیکس کے لوگ ایسے لوگوں کو سونگھتے پھرتے ہیں اور جو خالی جیب ہیں وہ کہیں بھی سڑک کے کنارے اونگھتے نظر آتے ہیں انھیں کوئی چھیڑتا بھی نہیں۔یہ بھی جانا کہ دولت کی وقعت کیا ہے۔ ہمارے گھروں میں،ہماری تجوریوں میں، ہماری بوریوں میں جو کچھ کاغذی کرنسی ہے وہ ایک منٹ میں کباڑ میں جانے کے لائق ہوسکتی ہے،جن نوٹوں پر ہمیں غرہ ہے ،تکبر سے ہماری گردنیں تنی ہوئی ہیں ،نخوت سے ہم غریبوں کو دیکھتے ہیں، سب کو اپنے سے حقیر وکمتر سمجھتے ہیں لیکن وقت آنے پر وہی دولت ہمارے لئے وبال جان بن سکتی ہے۔آج کوئی بھی شخص محض غربت کے جرم میں جیل میں نہیں ہے۔کوئی بھی غریب غربت کے باعث اپنے ملک سے نہیں بھاگا،جو بھی جیل گیا،جو بھی ملک چھوڑکر کھیل گیا،جس کسی کے پیچھے محکمہ انکم ٹیکس پڑا ہوا ہے وہ سبھی ارب پتی اور کروڑ پتی لوگ ہیں۔

بالکل یہی حال ہماری زندگیوں کاہے ،کراما کاتبین ہماری نیکیوں اور برائیوں کو لکھنے پر مامور ہیں۔ہم سے ہمارے کئے کا حساب ہوگا،یہ فرشتے محکمہ انکم ٹیکس کے افسران کے مانند ہیں۔شریف کو چھیڑتے نہیں بدمعاش کو چھوڑتے نہیں۔

اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملا کہ زندگی گزارو تو ایسی کہ بالکل سنت وشریعت کے مطابق ہو۔ہماری ذات سے نہ حکمراں ناراض ہو، ناحاکم چیں بہ جبیں ہو۔نہ مالک کو غصہ آئے نہ عبد کا معبود سے رشتہ کمزور ہو۔اپنے دامن کو صاف رکھئے۔اپنے معاملات کو صاف رکھئے،کسی کو تکلیف مت دیجیے بدلے میں کسی سے تکلیف مت لیجیے۔

جب پانچ سو ہزار اور دوہزار کے نوٹ اپنی جگہ پڑے پڑے بے حیثیت ہوسکتے ہیں تو ہم بھی کسی عمل اور کسی حرکت کے بغیر اپنی قدر کھو سکتے ہیں۔نماز،روزے،حج،زکوۃ یہ سب چیزیں اسی لئے تو فرض ہیں تاکہ ہم سست اور کاہل نہ بن جائیں اپنے دفاع کی تیاری ہرمسلمان پرفرض ہے۔اور اگر حرکت وعمل سے ہماری زندگیاں عبارت نہیں رہیں تو ردی کے بھاؤ بکنے والی کرنسی سے زیادہ خراب حالت ہماری ہوسکتی ہے۔

اپنے کو سدھارئیے۔اپنے ماحول کو سدھارئیے۔اپنے حلقہ اور اپنے ماتحتوں میں بیداری پیدا کیجیے ورنہ بند شدہ کرنسی کے مانند ذلیل اور خوار ہونے کے لیے تیار رہیے۔

گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی اسی لئے برتر وبہتر ہے کہ گیدڑوں کے اندر محتاجگی ہے،دوسروں کے رحم وکرم اور دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کی عادت نے انھیں " گیدڑ " بنادیا ہے جس طرح ہم آج "سرکاری اناج" کے رحم وکرم پر " گیدڑ"بنتے جارہے ہیں۔ہمارے اندر سستی اور کاہلی آتی جارہی ہے۔ہماری نظر سرکاری اناج سے شروع اور سرکاری اناج پر ختم ہوجاتی ہے۔توکیا اللہ پاک نے اتنی قوت،اتنی طاقت اتنا دماغ اور اتنی بڑی جماعت وجمعیت اسی لئے دی ہے کہ ہم معاشرہ کا "عضومعطل" اور "ناکارہ جز "بن کر رہ جائیں؟
 
Top