لفظ "جناب" کی حقیقت:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
*انتہائی دلچسپ*

لفظ "جناب" کی حقیقت:
لفظ "جناب" کسی زمانے میں گالی ہوتی تھی اس کی مثال کچھ یوں دی گئی
ایک جگہ پر کچھ انگریزی خواں لوگ تھے وہ دینی طلبہ کو بہت تنگ کرتے تھے اور عربی مدارس کے طلباء کو قربانی کا مینڈھا کہتے۔ غرض کبھی کچھ کبھی کچھ۔
ایک دن سب طلبہ نے طے کیا کہ انگریزی خواں لوگوں کیلئے کوئی ایسا لفظ بنائیں جس میں ان کی ساری صفات آ جائیں۔ غور کیا گیا تو چار باتیں مشترک تھیں۔۔
پہلی یہ لوگ بڑے جاھل تھے،
دوسری یہ نالائق تھے،
تیسری احمق تھے،
اور
چوتھی بیوقوف تھے۔
اس کے بعد طے پایا کہ چاروں صفات کے پہلے حرف کو لے کر ایک لفظ بنایا جائے اور پھر۔۔۔
جاھل سے ج لیا،
نالائق سے ن ،
احمق سے ا ،
اور
بیوقوف سے *ب*۔
لفظ بن گیا "جناب"
اس کے بعد طلبہ نے ھر انگریزی خواں کو جناب کہنا شروع کر دیا۔
یہ لفظ ایسا مشہور ہوا کہ آج کسی کو پتا ہی نہیں کہ یہ بنا کیسے تھا سب ایک دوسرے کو جناب کہتے پھرتے ہیں.....
(خطبات فقیر، جلد۹ صفحہ۱۹)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
Untitledrrrr.png
Untitledrttyy.png


پیر ذوالفقار احمد نقشبندی نے خطبات فقیر، جلد۹ صفحہ۱۹ پر یہ تحریر لکھی ہے جس کا لنک اور اسکرین شاٹ منسلک ہیں

بقول ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے یہ من گھڑت ہے اور بطور ثبوت ۱۸۰۴ء میں کے باغ و بہار میں ایک جملے ’’خدا کی جناب سے نا امید ہونا ہرگز مناسب نہیں ‘‘ پیش کیا ہے لیکن رد کے لئے کوئی مناسب وجہ بھی پیش نہیں کر سکتا ہے

لیکن اس جملے کے جناب کو جانب کے طور پر لکھا پڑھا جاتا تھا ہو سکتا ہے کہ کسی فرد کے لئے نام تجویز کرنے کے لیے جناب کا لفظ تخلیق کیا گیا ہو

ہم پٹھان پختون کے لفظ کو درج ذیل جملوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں
پ پت
خ خیگڑہ
ت تورہ
و وفا
ن ننگ

بحرحال ممکنات کو رد نہیںٰ کیا جا سکتا
 
Top