رعایا کی نگرانی...!!!

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک مرتبہ تاجروں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ پہنچا۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا:
( (ہَلْ لَّکَ أَنْ نَحْرِسَہُمْ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃَ۔))
’’کیا آپ اس بات سے راضی ہیں کہ ہم دونوں مل کر تجارت کی غرض سے مدینہ منورہ آنے والے اس قافلے کی آج کی رات نگرانی کریں ۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہاں ! میں آپ کے ساتھ یہ کام انجام دینے کو تیار ہوں ۔ چنانچہ دونوں مل کر رات کو اس قافلے کی نگرانی کرنے لگے اور باری باری نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ اسی دوران امیر المومنین کے کانوں میں ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آپ اس آواز کی طرف لپکے اور اس کی ماں سے فرمایا:
( (اِتِّقِ اللّٰہَ وَأَحْسِنْ اِلٰی صَبِیِّکَ۔))
’’خاتون! اللہ سے ڈرو اور اپنے بچے کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘
خاتون سے یہ کہہ کر امیر المومنین اپنی جگہ پر لوٹ گئے اور قافلے کی نگرانی میں مشغول ہو گئے۔ رات کا بیشتر حصہ گزر چکا تھا۔ صبح صادق نمودار ہوا چاہتی تھی۔ پرندے اپنے گھونسلوں میں سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ بادِ سحر کی لطیف ہوائیں ابھی کچھ ہی دیر قبل شروع ہوئی تھیں ، کہ اتفاق سے امیر المومنین کے کانوں سے پھر ایک بچے کے رونے کی آواز ٹکرائی۔ امیر المومنین آواز کی طرف چلے۔ دیکھا تو اتفاق سے وہی بچہ رو رہا تھا جس کی ماں کو اس کی دیکھ بھال کرنے کی ہدایت آپ کر چکے تھے۔
آپ نے پھر اس کی ماں سے فرمایا:
( (وَیْحَکِ! اِنَّکِ أُمُّ سَوْئٍ، مَا لِیْ أَرٰی ابْنَکِ لَا یَقِرُّ مُنْذُ اللَّیْلَۃِ مِنَ الْبُکَائِ۔))
’’تیرا ناس ہو! تو یقیناً نا ہنجار ماں ہے، آخر بات کیا ہے کہ میں تیرے اس بچے کو دیکھ رہا ہوں کہ رات سے بے قرار سا ہے (روتا چلاتا رہا ہے)۔‘‘

خاتون کہنے لگی:
( (یَا أَبَا عَبْدِاللّٰہِ! اِنِّیْ أُشْغِلُہٗ عَنِ الطَّعَامِ فَیَأْبٰی ذٰلِکَ۔))
’’ابو عبداللہ! میں اسے کھانا دے کر اس کی توجہ دودھ سے ہٹانا چاہتی ہوں ، مگر یہ مانتا ہی نہیں ہے (اور دودھ کے لیے چیختا چلاتا ہے)۔‘‘

امیر المومنین نے دریافت فرمایا کہ آخر کیوں تو اس بچے کا دودھ چھڑا کر اسے کھانا کھانے پر مجبور کر رہی ہے؟

خاتون کہنے لگی:
( (لِأَنَّ عُمَرَ لَا یَفْرِضُ اِلَّا لِلْمَفْطُوْمِ۔))
’’بات دراصل یہ ہے کہ عمر صرف اسی بچے کا وظیفہ مقرر کرتے ہیں جو دودھ چھوڑ چکا ہوتا ہے (اسی لیے میں چاہتی ہوں کہ میں جلدی سے اپنے بچے کو بھی دودھ چھڑا دوں تاکہ اس کا وظیفہ بھی مقرر ہو جائے)۔‘‘
امیر المومنین نے پوچھا: تیرے اس بچے کی عمر کتنی ہے؟
خاتون نے بچے کی عمر اس مدت سے کم بتائی جتنی مدت کہ ایک بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے۔
امیر المومنین نے خاتون کا جواب سن کر فرمایا:
( (وَیْحَکِ! لَا تُعْجِلِیْہِ عَنِ الْفِطَامِ۔))
’’تیرا ناس ہو! تو اس بچے کا دودھ مت چھڑانے میں اس قدر جلدی سے کام نہ لے (کیونکہ ابھی یہ شیر خوار ہے، اسے ماں کا دودھ چاہیے)۔‘‘
اتنے میں صبح کی نماز ہو گئی اور امیر المومنین مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ نمازِ فجر آپ
نے ہی پڑھائی۔ دورانِ نماز آپ اتنا روئے کہ آپ کی ہچکی بندھ گئی اور آپ کی آہ و زاری سے مقتدیوں کے لیے آپ کی آواز پہچاننا مشکل ہو گیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو نمازیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
( (بُؤْسًا لِّعُمَرَ! کَمْ قَتْلَ مِنْ أَوْلَادِ الْمُسْلِمِیْنَ۔))
’’عمر کی تباہی ہو! نہ معلوم مسلمانوں کے کتنے ہی بچوں کو اس نے مار ڈالا۔‘‘
پھر آپ نے اپنے منادی کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا:
( (لَا تَعْجِلُوْا صِبْیَانَکُمْ عَنِ الْفِطَامِ، فَاِنَّا نَفْرِضُ لِکُلِّ مَوْلُوْدٍ فِی الْاِسْلَامِ۔))
’’تم لوگ اپنے شیر خوار بچوں کا دودھ چھڑانے میں جلدی سے کام مت لو، کیونکہ ہم ہر مسلمان نو مولود کے لیے وظیفہ مقرر کر رہے ہیں...
چنانچہ اس حکم کو پورے ملک میں نافذ کر دیا گیا اور ہر جگہ منادی بھیج کر اس حکم سے مسلمانوں کو آگاہ کر دیا گیا۔
٭٭٭
یہ واقعہ تاریخ کی متعدد کتابوں میں مذکور ہے...
میں نے حافظ ابن کثیر کی مایہ ناز تاریخ کی کتاب ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ سے اس واقعے کو نقل کیا ہے...!!!
 
Top