شیخ الإسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمہ اللہ

حیدرعلی صدّیقی

وفقہ اللہ
رکن

بسلسلہ 5 دسمبر 1957ء یومِ وصال جانشین شیخ الہند، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ


مولانا حسین احمد مدنیؒ 19 شوال سن 1246ھ کو گاؤں بانگرمئو ضلع اناؤ میں پیدا ہوئے، جہاں انکے والد مولانا حبیب اللہ صاحب اردو مڈل اسکول کے ہیڈماسٹر تھے۔ عیسوی سن تاریخ کے متعلق حضرت مدنی ؒ خود لکھتے ہیں کہ والد محترم نے اپنی بیاض میں یہی لکھا ہے، تاریخ و سن عیسوی کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ حساب لگانے سے یہ 16 اکتوبر 1879ء آتا ہے۔ حضرت مدنی ؒ کے والد محترم عہدۂ صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے آبائی وطن ٹانڈا (فیض آباد) تشریف لائے، اس وقت حضرت مدنی ؒ کی عمر تین سال تھی اور یہیں سے انکی ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوگیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 12 سال کی عمر میں حضرت مدنی ؒ کو شیخ الہند مولانا محمودحسن ؒ کے خدمت میں دارالعلوم دیوبند بھیجا گیا، سات سال کے دورانیہ میں علوم نبویہ کے تکمیل کے بعد آپ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔
1316ھ میں آپکے والد نے اپنے اہل و عیال سمیت حجاز مقدس ہجرت کرنے کا قصد کیا، آپ بھی انکے ساتھ چلے گئے اور اپنے استاذ مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ کے ہدایت پر مکہ میں مقیم حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ کے زیرتربیت سلاسل سلوک طے کرنے کے بعد مدینہ کے جانب ہجرت کرگئے۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ وہاں پر علوم نبویہ کے درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔
مدینہ میں قیام کے دوران آپ عملی طور سیاسی تحاریک اور تنظیموں سے خاصہ دور رہے۔ لیکن تحریک ریشمی رومال کے وساطت سے جب حضرت شیخ الہندؒ حجاز مقدس تشریف لے گئے تو فریضۂ حج کے ادائیگی کے بعد آپ اپنے استاذ محترم کے ساتھ عملی طور تحریک میں شامل ہوگئے اور پھر آخر دم تک اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔
ابھی شیخ الہندؒ تحریک کے سلسلے میں حجاز ہی میں تھے کہ شریف مکہ نے انگریزوں سے ساز باز کرکے خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت کردیا۔ اور انگریز ہی کے ایماء پر شریف مکہ نے حضرت شیخ الہندؒ اور انکے رفقاء -جن میں حضرت مدنیؒ کے علاوہ حکیم نصرت حسینؒ، مولانا عذیرگلؒ، مولانا وحیداحمدؒ شامل تھے- کو گرفتار کرکے انگریزوں کے حوالے کیا، اور انگریز نے انھیں مالٹا منتقل کیا۔ مالٹا کے ہجر و صعوبت کی راتیں، قید و بند کے ایام، بھوک و پیاس کی تکالیف، جسمانی سزا اور صعوبتیں برداشت کیے لیکن یارانِ باوفا کا یہ مختصر قافلہ منزل آزادی کے سفر سے پیچھے نہیں ہٹا۔ اور یہیں پر محبت و الفت کی ایک ایسی داستاں رقم ہوئی کہ جس کے سامنے محبت کے تمام داستانیں خیرہ ہوگئیں۔
چار سال تک مختلف تکالیف جھیلنے کے بعد یارانِ باصفا کا یہ قافلہ رہا ہوکر 8 جون 1920ء کو ہندوستان پہنچ گیا۔

حضرت مدنی ؒ تحریک شیخ الہندؒ میں اس طرح راسخ و مضبوط ہوئے کہ پھر دنیا کی کسی بھی عہدہ و مراعات اور طاقت سے مرعوب نہ ہوئے۔ قید و بند کی صعوبتیں، ہجر و الم کے سختیاں برادشت کیے، عہدہ و مراعات کو خیرباد کہہ دیا۔ لیکن عزیمت اور وفا کے جس راستے پر استاذ چھوڑ کے گئے تھے اس سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ کراچی میں جیل سے جب حضرت مدنی ؒ رہا ہوئے تو بنگال کونسل کے ایک رہنماء نے ان سے کہا کہ چالیس ہزار روپے نقد اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں ماہانہ پانچ سو روپے کے پروفیسر کا عہدہ آپ کےلیے منتظر ہیں، آپ اس کو قبول فرمالیں!
حضرت مدنی ؒ نے پوچھا مجھے کیا کام کرنا ہوگا؟
اس بنگالی رہنماء نے کہا کہ بس صرف سیاسی تحاریک (انگریز مخالف تحاریک) میں شمولیت چھوڑ دیجیے۔ حضرت مدنی ؒ نے جواب دیا: ”جس راستے پر حضرت شیخ الہندؒ لگا گئے ہیں، اس سے میں نہیں ہٹ سکتا۔“

حضرت مدنیؒ عزیمت و وفا کے راستے کے ایک خضرِراہ تھے، صدائے حق اور باطل کو للکارنے پر آپ نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ کسی عہدے یا مراعات کے پیشِ نظر اپنے مؤقف سے نہیں ہلے۔ ہر تکلیف و صعوبت برادشت کی لیکن اپنے ملت و قوم سے غداری اور بےوفائی کو گوارا نہ کیا۔ جمعیت علماء ہند کے قیام کے بعد آپ مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ (امیر دوم جمعیت علماء ہند) کے بعد امیر سوم جمعیت علماء ہند منتخب ہوئے۔
مختلف گرفتاریاں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد راہِ عزیمت اور وفا کے یہ عظیم راہ رو، برٹش سامراج اور اسکے حلیفوں کے خلاف برسرپیکار مجاہد، قافلۂ حق کے سرخیل، آزادی کا متوالا، کاروان امت کے خضرِ راہ، 5 دسمبر 1957ء کو راہ گزیں عالم جاوِداں ہوئے۔ شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحبؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے استاذ حضرت شیخ الہندؒ کے قریب آسودۂ خاک ہوئے۔
رحمہُ اللہ رحمۃً واسعۃً

رہے فقط نامِ خــــــدا
 
Top