علاج کے لیے پیشاب سے قرآن لکھنا

M

Malang009

خوش آمدید
مہمان گرامی
ایک دھاگے میں ابن بشیر صاحب نے فقہ حنفیہ کی عبارت اس حوالے سے اعتراضی طور پر پیش کی تھی ۔ کچھ عرصہ ہوا اس پر مفصل مضمون لکھا تھا ، چونکہ انہوں نے عبارت پیش کر دی اسی لیے سوچا یہاں بھی ساتھیوں کے ساتھ بانٹ لوں ۔

پیشاب سے سورۃ فاتحہ لکھنا

از ملنگ​

بشکریہ مہنامہ اہلحق شمارہ دو

آجکل اکثر ساتھی میسج کر کے مفتی تقی عثمانی صاحب کے فتوے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے یہ کہا ہے کہ پیشاب سے سورۃ فاتحہ لکھنا جایز ہے؟

سب سے پہلے یہ شوشہ بریلویوں نے چھوڑا تھا ۔ چونکہ غیر مقلدین اور بریلوی آپس میں بہن بھای ہیں جو چیز ایک کہ پاس ہو دوسرا لے ہی لیتا ہے جیسے غیر مقلدوں کی مجتہد طالب الرحمٰن نے بریلویوں کی کتاب زلزلہ سے حوالے چوری کر کے اپنی کتاب الدیوبندیہ لکھی اسی طرح غیر مقلد لا مذہبوں نے مفتی تقی عثمانی صاحب پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ "پیشاب سے سورت فاتحہ لکھنا جایز ہے " اصل میں مسلہ یہ ہے کہ جب کوی عالم ، فقیہ یا محدث کسی مسلہ پر بحث کرتا ہے تو اس کے بارے میں موجود تمام دلایل کو جمع کرتا ہے اور پھر مخالف دلایل کا رد کر کے اپنا موقف پیش کرتا ہے ۔ چونکہ بریلوی اور لا مذہب غیر مقلد دونوں کا کتابوں سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا اسی لیے اس بات کو سمجھنے سے انکی عقل قاصر ہے ۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ جیسے کسی مسلمان کا ایمان قرآن اور فرشتوں کے پر ایمان لاے بغیر مکمل نہیں ہوتا اسی طرح بریلویوں اور غیر مقلدوں کا ایمان بھی خیانت اور دھوکے بازی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اسی لیے آپ جب بھی دیکھیں گے بریلوی اور غیر مقلد ہمیشہ نامکمل عبارت ہی آپکے سامنے رکھیں گے ۔ اس مسلہ میں بھی انٹرنیٹ پر جو مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتاب فقہی مقالات کی جلد 4 کے سکین صفحات موجود ہیں وہ بھی نامکمل ہیں ۔ ان خاینوں کی خیانت کی حد کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ شروع کے غیر متعلقہ صفحات تو لگا دیے ہیں لیکن نیچے جہاں اس مسلہ پر یعنی تداوی بالحرام پر بحث ہو رہی ہے اسکا ایک ہی صفحہ لگایا ہے جسکو پڑھ کر اصل مسلہ بھی کسی عام قاری کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا چل رہا ہے ۔

اصل مسلہ یہ ہے کہ فقہا کہ یہاں ایک مسلہ تداوی بالحرام کا بھی ہے کہ آیا کہ حرام کے زریعے علاج کرنا جایز ہے یا نہیں یعنی اگر کسی کو کوی ایسی بیماری ہو جسکا علاج کسی حلال چیز کے زریعے منمکن نہ ہو تو کیا اسکا علاج کسی حرام چیز سے کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اب جب حلال چیز کے زریعے علاج ممکن نہیں تو کیا اس مریض کو مرنے دیا جاے ؟ یا اسکی جان بچانے کے لیے کسی حرام چیز سے علاج کر لیا جاے ۔

اس مسلہ میں ہمارے فقہاء کرام نے اختلاف کیا ہے بالخصوص سیدنا امام اعظم ابو حنیفہؒ نے علاج بالحرام کو ناجایز کہا ہے کیونکہ حرام میں شفاء نہیں ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر موت واقع ہونے اور جان جانے کا خطرہ بھی ہو تب بھی حرام سے علاج کی اجازت نہیں۔ شامی میں امام حادی قدسیؒ سے منقول ہے حتی یخشی علیہ الموت و قد علم انہ لو کتب فاتحہ الکتاب او الا خلاص بذالک الدم علی جبھتۃ ینقطع فلا یرخص فیہ یعنی اگر نکسیر والے کو موت کا خطرہ بھی ہو اور اسے کسی ذریعہ سے اس بات کا یقین بھی ہو کہ اگر نکسیر کے خون سے اس کی پیشانی پر سورۃ فاتحہ یا اخلاص لکھی جاے تو نکسیر ختم ہو جاے گی اور جان بچ جاے گی پھر بھی خون کے ساتھ لکھنے کی اجازت نہیں ۔ شامی کی اس عبارت سے دو باتیں پتا چلیں ۔

۔1۔ کہ یہ مسلہ مفتی تقی عثمانی یا دیوبندیوں کا نہیں بلکہ حنفیوں کا ہے اور بریلیوں کا اس مسلہ پر اعتراض کرنا فقہ حنفیہ سے جہالت کو ثبوت ہے ۔

۔ 2۔ شامی میں صراحتاً جب اس بات کی اجازت نہیں تو غیر مقلدین کا اعتراض کرنا خیانت ، بغض اور عناد کی دلیل ہے ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب فقہی مقالات کی جلد 4 میں جہاں اس مسلہ پر بحث کی ہے اور بریلوی اور غیر مقلد جو صفحہ اہل سنت والجماعت دیوبندیوں کو دکھاتے نہیں تھکتے اگر اس کو ہی صحیح سے پڑھ لیا ہوتا تو مسلہ حل ہو جاتا، لیکن ان لوگوں کا اصل مقصد صرف اور صرف فتنہ پھیلانا ہوتا ہے اسی لیے وہ بغیر پڑھے ہی اپنے ملاوں کی سنی سنی بتاوں کو آگے پہنچانے لگ جاتے ہیں ۔

مفتی تقی عثمانی صاحب نے وہاں لکھا ہے کہ کہ " اسی طرح صاحبِ ہدایہ نے "تجنیس" میں اسی کو اختیار فرمایا ہے چناچہ فرمایا" ، مفتی تقی عثمانی صاحب، صاحبِ ہدایہ یعنی ہدایہ کتاب لکھنے والے کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے تجنیس میں اسکو اختیار فرمایا ہے اور اسی عبارت میں آگے چل کر لکھتے ہیں "چناچنہ فرمایا" کوی بھی منصف مزاج آدمی یہ پڑھ کر جان سکتا ہے کہ یہاں مفتی صاحب اپنی بات نہیں کر رہے بلکہ کسی کی بات کو نقل کر رہے ہیں ۔ تف ہے ان جاہلوں کی عقل پر کہ اگر یہ پڑھ کر بھی اعتراض کرتے ہیں تو کتنے جاہل ہیں ۔ اور پھر مفتی صاحب خود ہی آخر میں لکھتے ہیں "لیکن یہ منقول نہیں" یعنی یہ صاحبِ ہدایہ سے بھی منقول نہیں بلکہ انکی طرف بھی منسوب ہے جسکو آسان اردو میں ایسے سمجھ لیں کہ صاحبِ ہدایہ نے یہ کہا نہیں ہے بلکہ انکے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے ایسا کہا ہے ۔ پھر مفتی صاحب اپنے فتاویٰ جو فتاویٰ عثمانی کے نام سے چھپ چکا ہے اس کے صفحہ 226 پر لکھتے ہیں کہ

" میں نے ایسا کوی فتویٰ نہیں دیا ، پیشاب یا کسی بھی نجاست سے قرآن کریم کی کوی آیت لکھنا بالکل حرام ہے ، اور میں معاذاللہ اسے جایز قرار دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں نے میری طرف یہ منسوب کیا ہے ان کی تردید کر چکا ہوں، جو "روزنامہ اسلام" کی 12اگست 2004 کی اشاعت میں شایع ہو چکی ہے ، میری جس کتاب کا حوالہ میری طرف منسوب کر کے دیا جا رہا ہے، اس کی حقیقت بھی میں نے اپنی تردید میں واضح کر دی ہے، اس کے باوجود جو لوگ اس فتوے کو میری طرف منسوب کر رہے ہیں ، انھیں اللہ تعالیٰ سے اور کسی پر بہتان لگانے سے ڈرنا چاہیے"

مفتی صاحب کے اس واضح جواب کے باوجود یہ الزام لگانے والوں کو جوتے تو ضرور لگانے چاہیں اے کاش اگر پاکستان میں اسلامی حکومت ہوتی تو ایسے لوگوں پر قذف لگایا جاتا جسکے یہ اصل حقدار ہیں۔


الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے

دوسری بات یہ ہے کہ غیر مقلدین جو اس مسلہ پر بہت اعتراض کرتے ہیں انکے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ حالت اضطرار میں علاج بالحرام جایز ہے جیس اکہ نزل الابرار من فقہ نبی المختار کے صفحہ 301 میں علامہ وحید الزمان غیر مقلد لکھتے ہیں کہ اذا ستعمل برای الطبیب الحاذق اور صفحہ 31 پر ہے و قیل یرخص اذا علم فیہ الشفاء ولم یوجد دواء افر حلال یوثر اثرہ کما رخص الخمر العطشان واکل المیتۃ للمضطر یعنی جب کہ ماہر حکیم کی راہے سے استعمال کی جاے تو اس بات کی اجاز ہے کہ علاج بالحرام جایز ہے ۔ جب کہ کوی دوسری دواء حلال موثر نہ پای ہے جیس اکہ بوقت ضرورت پیاسے کے لیے شراب اور بھوکے کے لیے مردار جایز ہے ۔ جب غیر مقلدین کے نزدیک یہ جایز ہے تو پھر اکابر علماء دیوبند جو اسکو جایز بھی نہیں سمجھتے( جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب کے فتویٰ سے ظاہر ہے) ان پر فتوے لگانا چہ معنی دارد

تیسری بات یہ ہے کہ غیر مقلدین کے نزدیک تو پیشاب بھی پاک ہے بلکہ پاک ہی نہیں غیر مقلدین تو اسکو قابل شرب(یعنی پینے کے قابل) بھی مانتے ہیں چناچہ غیر مقلدین کی مشہور کتاب فتاویٰ ثنایہ کے صفحہ 312 میں لکھا ہے کہ اونٹ گاے بکری بلکہ گھوڑے کا پیشاب پینا بھی جایز ہے اور اسی قسم کا مفہوم عرف الجادی اور نزل الابرار صفحہ 299 میں بھی غیر مقلدین نے لکھا ہے۔

بہرحال یہ چند باتیں آپ ساتھیوں کے سامنے اس مسلہ کی تفصیل میں پیش کر دی ہیں مزید تفصیل کے لیے دیکھیں حقایق الفقہ باجواب حقیقت الفقہ صفحہ 425 سے 429۔
http://haqulmubeen.com/home/mazameen/haqiqat-ghair-muqallidiyat/129-2011-05-28-16-45-41
 

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
واقعی سچ فر مایا ۔ شکریہ
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر ہیں پھینکتے
دیوار آہنی پر حماقت تو دیکھئے


نایاب ارشادات

''منی کھانا بھی ایک قول میں پاک ہے '' ( فقہ محمدیہ ص 49ج1)

کتے اور خنزیر کے نجس عین ہونے کا دعویٰ اور خمر اور بہتے ہوئے خون اور مردار حیون کے
پلید ہونے کا دعویٰ نا تمام ہے ( عرف الجادی ص 10)

بحر حال جانور کا پیشاب پا خانہ پاک ہے اور بوقت ضرورت کھانا پینا بھی جائز ہے۔ ( فتاویٰ ستاریہ ص 63ج1)

والصحیح ان الخمر لیس بنجس ( نزل الابرار)

تبصرہ قارئین الغزالی کے حوالے۔
 
Top