اسلامی نظام کے خد وخال
اہل حدیث کی نظر میں
مولانامفتی محمد ولی درویش رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۹۹۹ء-۱۴۲۰ھ)سابق استاذ ونگران تخصص فی الدعوة والارشاد وناظم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا یہ بیش بہا‘ قیمتی مضمون آج سے ۲۹/ سال قبل ماہنامہ خدام الدین لاہور (۲۶/رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ - یکم ستمبر ۱۹۷۸ء) میں چھپا تھا‘ اس وقت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جامعہ علوم اسلامیہ میں تخصص فی ا لفقہ کے طالب علم تھے‘مضمون کی افادیت کے پیش نظر قارئین بینات کے لئے پیش خدمت ہے۔
مولوی محمد صادق سیالکوٹی جو غیر مقلدوں کے مشہور عالم ہیں‘ جن کے افادات آئے دن غیر مقلدوں کے رسائل اور مجلات میں چھپتے رہتے ہیں‘ بڑے مزے کے آدمی ہیں‘ وہ روزانہ ایسی نئی نئی باتیں اپنے ذہن ودماغ سے گھڑتے ہیں کہ سارے غیر مقلدین ان کو پڑھ کر عش عش کرتے ہیں۔ یہ اپج حقیقت میں مولوی صاحب کا خاص حصہ ہے‘ ہر غیر مقلد عالم کا دماغ اتنا شاداب کہاں کہ وہ ان حقائق تک پہنچ سکے۔
حال ہی میں ان کا ایک مضمون ”اسلامی نظام کے خد وخال“ ہفت روزہ اہل حدیث بابت ۱۹/جمادی الاولیٰ ۱۳۹۸ھ نظر سے گذرا‘ پڑھ کر خیال آیا کہ ان کی پُر لطف باتوں سے تنہا مزہ لینا صحیح نہیں‘ ان کی تحقیقات کو عام کرنا چاہئے اور ان کی تحریر میں جو رموز اور حقائق پنہاں ہیں‘ ان کو واضح کرکے عام لوگوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہئے‘ تاکہ وہ بھی ان کی فکر رسا سے باخبر ہوں۔ نیز وہ امور جو ابھی تک مولوی صاحب کے سینہ معارف گنجینہ میں مستور ہیں‘ ان کو پردہٴ خفا سے باہر نکلوانا چاہئے‘ تاکہ مولوی صاحب کی یہ اچھوتی تحقیقات عام ہوں۔
اتنی تمہید کے بعد اب ہم اپنے قارئین کو مزید انتظار کی زحمت نہیں دینا چاہتے اور مولوی صاحب کے لطائف کو وقف عام کرتے ہیں‘ آپ بھی غور سے پڑھیں اور مولوی صاحب کی اس اپج کی داد دیں‘ سہولت کے لئے ہم مولوی صاحب کی ان پُر لطف تحقیقات کو نمبروار پیش کرتے ہیں:
۱:․․․مولوی محمد صادق صاحب اپنے مضمون میں فرماتے ہیں:
”حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی“ وغیرہ مکاتبِ فکر ہیں‘ بریلوی اور دیوبندی بھائی بھی حنفی ہیں‘ ان سب کی خدمت میں بڑے ادب وخلوص سے گذارش ہے کہ نجات ان ناموں یعنی نسبتوں میں نہیں ہے اور نہ یہ نسبتیں ضروری ہیں‘ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ رسالہ قول سدید میں فرماتے ہیں:
”اعلم انہ لم یکلف اللہ تعالیٰ احداً من عبادہ بان یکون حنفیاً او مالکیاً او شافعیاً او حنبلیاً‘ بل اوجب علیہم الایمان بما بعث بہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم“۔
ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ حنفی یا مالکی یا شافعی یا حنبلی ہو‘ بلکہ ان پر محمد ا کے لائے ہوئے دین پر ایمان لانا فرض کیا ہے“۔
سیالکوٹی صاحب سے اس بارے میں عرض یہ ہے کہ قول سدید نامی کتاب کے بارے میں تو آج تک ہم یہی سنتے چلے آرہے تھے کہ یہ محمد بن عبد العظیم بن فروح المکی الحنفی کی کتاب ہے‘ جیساکہ ایضاح المکنون علی اذیان کشف الظنون‘ ج:۲‘ ص:۲۴۹ میں مذکور ہے‘ مولوی محمد صادق صاحب نے کمال کردیا کہ کتاب کسی کی ہے‘ منسوب کسی کی طرف کررہے ہیں‘ خدا خوش رکھے‘ انہوں نے :
کی روایت پھر دہرا کر اہلِ ذوق کے لئے تفریح طبع کا سامان مہیا کیا۔ اگر مولوی صادق صاحب کے پاس قول سدید کا نسخہ ہو تو از راہِ کرم ذرا یہ بتایا جائے کہ یہ کتاب کہاں چھپی ہے‘ کب چھپی ہے‘ کتنی ضخیم ہے‘ نایاب ہے یا کمیاب‘ تاکہ ہم بھی اس کے حصول کے لئے جد وجہد کریں اور اگر قلمی ہے‘ مطبوعہ نہیں ہے تو ہم مولوی صاحب سے پُر زور التجا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی اس کی ایک فوٹو اسٹیٹ کاپی لینے کی اجازت مرحمت فرمائیں‘ ہم عمر بھر ان کے ممنون ہوں گے۔
۲:․․․مولوی محمد صادق صاحب نے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایسی بات منسوب کردی کہ خود شاہ صاحب کی کتابوں سے اس کی تکذیب ہوتی ہے‘ دیکھئے! شاہ صاحب اپنی کتاب عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید ص:۵۳ میں فرماتے ہیں:
”باب‘ تاکیدا لاخذ بہذہ المذاہب الاربعة والتشدید فی ترکہا‘ والخروج عنہا‘ اعلم ان فی الأخذ بہذہ المذاہب الاربعة مصلحة عظیمةً وفی الاعراض عنہا کلہا مفسدة کبیرة“۔
ترجمہ:․․․”باب ان مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے اور ان کے ترک میں اور ان سے نکلنے کی سختی کے بیان میں‘ جان لے کہ ان چاروں مذاہب کو اختیار کرنے میں عظیم الشان مصلحت ہے اور ان سے اعراض اور روگردانی میں بہت بڑا فساد ہے“۔
کتاب مذکور کے ص:۵۶ پر لکھتے ہیں:
”ولیسمذہب فی ہذہ الازمنة المتأخرة بہذہ الصفة الا ہذہ المذاہب الاربعة الا مذہب الامامیة والزیدیة وہم اہل البدعة لایجوزالاعتماد علی اقاویلہم“۔
یعنی اس زمانے میں کوئی مذہب ایسا باقی نہیں رہا جس کو اختیار کیا جائے‘ سوائے مذاہب اربعہ کے‘ ہاں امامیہ وزیدیہ لیکن وہ اہل بدعت ہیں‘ ان کے اقوال پر اعتماد جائز نہیں ہے۔
اسی صفحہ پر آگے چل کر فرماتے ہیں:
”قال رسول اللہ ا: اتبعوا السواد الاعظم ولما اندرست مذاہب الحقة الا ہذہ المذاہب الاربعة کان اتباعہا اتباعا للسواد الاعظم والخروج عنہا خروجاً عن السواد الاعظم“۔
ترجمہ:․․․”رسول اللہ ا نے فرمایا کہ:” سواد اعظم (بڑی جماعت) کی اتباع کرو“ اور جب ان مذاہب اربعہ کے علاوہ باقی سچے مذاہب مفقود ہوگئے توان مذاہب کا اتباع سواد اعظم کا اتباع ہے اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے“۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی شافعی ہیں‘وہ اپنی کتاب الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ص:۴۸ میں امام بخاری کے بارے میں فرماتے ہیں:
”ومن ہذا القبیل محمد بن اسماعیل البخاری فانہ معدود فی طبقات الشافعیة“
ترجمہ:․․․”اسی قبیل سے امام محمد بن اسماعیل بخاری بھی ہیں‘ ان کا شمار طبقات شافعیہ میں کیا گیاہے“۔
اسی کتاب کے ص: ۵۷ پر امام ابوداؤد ‘ امام ترمذی‘ امام ابن ماجہ اور امام دارمی کے بارے میں فرماتے ہیں:
”واما ابوداؤد والترمذی فہما مجتہد ان منتسبان الی احمد واسحاق‘ وکذلک ابن ماجہ والدارمی فیما نری واللہ اعلم“۔
یہ حضرات بھی حنبلی اور اسحاقی ہوگئے۔ نیز اس صفحہ پر امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
”واما مسلم وابو العباس الاصم جامع مسند الشافعی والام والذین ذکرنا ہم بعدہ فہم منفردون لمذہب الشافعی یتاصلون دونہ“۔
لیجئے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ تو خالص شافعی ہوگئے‘ امام ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں حنبلی ہیں‘ خود شاہ ولی اللہ کے بارے میں جناب نواب صدیق حسن خان مرحوم اپنی کتاب اتحاف النبلا ‘ص:۲۹۷ میں فرماتے ہیں:
”خاندان ایشاں خاندان علوم حدیث وفقہ حنفی است“۔
صادق صاحب! ان کبار ائمہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟ صحاح ستہ کے مصنفین بھی یا تو شافعی المسلک ہیں یا حنبلی‘ آپ اس کو غلط نہیں کہہ سکتے‘ کیونکہ خود حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ان کو شافعی اور حنبلی بتا رہے ہیں‘ اگر آپ اس کی تغلیط کریں گے تو یہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تکذیب ہوگی۔
۳:․․․مولوی صادق صاحب نے آگے ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ- کی کتاب شرح عین العلم سے بھی اس قسم کی عبارت نقل کی ہے:
”ان اللہ سبحانہ وتعالیٰ ما کلف احداً ان یکون حنفیاً او شافعیاً او مالکیاً او حنبلیاً“۔
اس بارے میں عرض یہ ہے کہ مولوی صادق صاحب نے پوری عبارت نقل نہ کرکے خیانت کی ہے‘ اس سے آگے عبارت یوں ہے:
”من کلفہم ان یعملو بالسنة ان کانوا علماء او یقلدوا ان کانوا جہلاء“۔
یعنی عالم ہونے کی صورت میں سنت پر عمل کرے اور جاہل ہو تو تقلید کرے۔
مولوی صادق صاحب نے عبارت کا آخری حصہ جو ان کے مدعا کے صریح خلاف تھا‘ حذف کردیا پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ جس بزرگ کے قول سے حنفی وغیرہ نسبتوں کے ضروری نہ ہونے پر استدلال کرتے ہیں‘ خود انہی کے نام کے ساتھ حنفی بھی لکھتے ہیں‘ صادق صاحب کی عبارت ملاحظہ ہو:
”حضرت ملا علی قاری حنفی شرح عین العلم میں فرماتے ہیں“۔
۴:․․․ سیالکوٹی صاحب آگے لکھتے ہیں:
”قبر میں منکرین یہ سوال بھی کریں گے ”مادینک“ تو جواب میں کوئی نہیں کہے گا کہ میں حنفی ہوں‘ میں شافعی ہوں‘ میں مالکی ہوں‘ میں حنبلی ہوں‘ میں بریلوی ہوں‘ میں دیوبندی ہوں (انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ صادق صاحب یہاں یہ بھی ذکر فرما دیتے کہ یہ بھی کوئی نہیں کہے گا کہ میں غیر مقلد ہوں‘ میں سلفی ہوں‘ میں ظاہری ہوں‘ میں محمدی ہوں‘ میں غربائے اہل حدیث میں سے ہوں‘ میں مرکزی اہل حدیث سے ہوں‘ میں لامذہب ہوں‘ لیکن سیالکوٹی صاحب سے انصاف کی توقع خود انصاف کا خون کرناہے) بلکہ صحیح جواب جس پر نجات موقوف ہے بقول حضرت رحمة اللعالمین ا یہ ہے ”دینی الاسلام“۔
مولوی صادق صاحب ان نسبتوں کے غیر ضروری ہونے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ان کے اس نظریئے کی تردید خود ان کے کلام میں موجود ہے‘ خط کشیدہ جملہ ملاحظہ ہو:” جب کوئی یہ نہیں کہے گا کہ میں حنفی ہوں یا شافعی ہوں“ اور بالکل نہیں کہے گا‘ کیونکہ مذہب کا تعلق صرف فروعی مسائل سے ہے‘ اعتقادات سے نہیں‘ اعتقادیات میں کوئی کسی کی تقلید نہیں کرتا‘ نکیرین کا سوال دین کے بارے میں ہوگا‘ نہ کہ مذہب کے بارے میں۔ مولوی صاحب کو دین اور مذہب کا فرق بھی معلوم نہیں ہے۔ کتابوں میں جب اختلافی مسائل کا بیان ہوتاہے تو کہیں یہ نہیں لکھا جاتا کہ یہ دین امام بخاری کا تھا یہ دین امام مسلم کا تھا‘بلکہ یہی لکھتے ہیں کہ: یہ مذہب امام بخاری کا تھا‘ یہ مذہب امام مسلم کا تھا۔ ابھی شاہ ولی اللہ صاحب کی تصریح گذری کہ امام بخاری ‘امام مسلم کا مذہب شافعی تھا انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ ان کا دین شافعی تھا۔ کیا مولوی صادق صاحب غیر مقلدیت کو بھی مذہب کے بجائے دین سمجھتے ہیں‘ اگر ایسا ہے تو پھر وہ سب مسلمانوں سے الگ دین کے مدعی ہیں۔
دین ان عقائد کا نام ہے جن کی دعوت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ا تک سارے انبیاء برابر دیتے چلے آئے ہیں‘ مذہب ان قواعد عقلیہ کا نام ہے جن کو سامنے رکھ کر کتاب وسنت سے مسائل نکالے جاتے ہیں‘ مثلاً :ثبوت روایت کے سلسلے میں امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ اگر دو راوی معاصر ہوں اور ان میں سے ایک دوسرے سے حدیث روایت کرے تو جب تک تاریخ میں ایک دوسرے سے ملاقات کا ذکر نہ ہو‘ اس وقت تک وہ حدیث متصل نہیں سمجھی جائے گی‘ امام مسلم کے نزدیک صرف امکان لقاء شرط ہے‘ بالفعل لقاء شرط نہیں ہے‘ دیکھئے محدثین ان میں سے ایک کو امام بخاری کا اور دوسرے کو امام مسلم کا مذہب کہتے ہیں‘ یہ نہیں کہتے کہ امام بخاری کا دین یہ ہے اور یہ امام مسلم کا دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف جائز ہے۔ مذہب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی نہیں کرتا۔
ادیانِ سماویہ تو کہا جاتاہے‘ لیکن مذاہب سماویہ نہیں کہا جاتا افسوس ہے کہ مولوی صاحب اتنا فرق بھی نہ سمجھ سکے اور لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے تلبیس کا ارتکاب کیا۔
لہذا نکیرین کے جواب میں ان نسبتوں کے کار آمد نہ ہونے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ یہ نسبتیں غیر ضروری ہیں۔ اور اگر بالفرض ہم مان بھی لیں کہ صادق صاحب کی اس تقریر سے ان نسبتوں کا غیر ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر مقلد ہونا‘ لامذہب ہونا‘ اہل حدیث ہونا‘ ظاہری ہونا‘ غربائے اہل حدیث ہونا‘ سلفی ہونا‘ مرکزی اہل حدیث ہونا بھی تو ایک نسبت ہے۔ صادق صاحب نے ان کے بارے میں کچھ بھی ارشاد نہیں فرمایا۔ ارباب صحاح ستہ بھی شاہ ولی اللہ کے قول کے مطابق شافعی‘ حنبلی اور اسحاقی ہیں ۔بتایئے! ان حضرات ائمہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
اگر یہ نسبتیں غیر ضروری ہیں تو مولوی محمد حسین بٹالوی مرحوم نے لفظ وہابی سے اپنا اور اپنے فرقے کا پیچھا چھڑانے کے لئے اور اہل حدیث کا خطاب حاصل کرنے کے لئے ۱۳۹۲ھ میں ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ لکھ کر جہاد کو منسوخ کیوں قرار دیا؟ اور شیخ الکل برطانوی شمس العلماء مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی بٹالوی صاحب کی تمام پالیسیوں میں ممد ومعاون‘ بلکہ سرپرست کیوں رہے؟ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو‘ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ص:۶۳ تا ص:۶۸ مؤلفہ پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب۔
جاری ہے
بشکریہ ماہنامہ بینات
اہل حدیث کی نظر میں
مولانامفتی محمد ولی درویش رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۹۹۹ء-۱۴۲۰ھ)سابق استاذ ونگران تخصص فی الدعوة والارشاد وناظم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا یہ بیش بہا‘ قیمتی مضمون آج سے ۲۹/ سال قبل ماہنامہ خدام الدین لاہور (۲۶/رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ - یکم ستمبر ۱۹۷۸ء) میں چھپا تھا‘ اس وقت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جامعہ علوم اسلامیہ میں تخصص فی ا لفقہ کے طالب علم تھے‘مضمون کی افادیت کے پیش نظر قارئین بینات کے لئے پیش خدمت ہے۔
مولوی محمد صادق سیالکوٹی جو غیر مقلدوں کے مشہور عالم ہیں‘ جن کے افادات آئے دن غیر مقلدوں کے رسائل اور مجلات میں چھپتے رہتے ہیں‘ بڑے مزے کے آدمی ہیں‘ وہ روزانہ ایسی نئی نئی باتیں اپنے ذہن ودماغ سے گھڑتے ہیں کہ سارے غیر مقلدین ان کو پڑھ کر عش عش کرتے ہیں۔ یہ اپج حقیقت میں مولوی صاحب کا خاص حصہ ہے‘ ہر غیر مقلد عالم کا دماغ اتنا شاداب کہاں کہ وہ ان حقائق تک پہنچ سکے۔
حال ہی میں ان کا ایک مضمون ”اسلامی نظام کے خد وخال“ ہفت روزہ اہل حدیث بابت ۱۹/جمادی الاولیٰ ۱۳۹۸ھ نظر سے گذرا‘ پڑھ کر خیال آیا کہ ان کی پُر لطف باتوں سے تنہا مزہ لینا صحیح نہیں‘ ان کی تحقیقات کو عام کرنا چاہئے اور ان کی تحریر میں جو رموز اور حقائق پنہاں ہیں‘ ان کو واضح کرکے عام لوگوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہئے‘ تاکہ وہ بھی ان کی فکر رسا سے باخبر ہوں۔ نیز وہ امور جو ابھی تک مولوی صاحب کے سینہ معارف گنجینہ میں مستور ہیں‘ ان کو پردہٴ خفا سے باہر نکلوانا چاہئے‘ تاکہ مولوی صاحب کی یہ اچھوتی تحقیقات عام ہوں۔
اتنی تمہید کے بعد اب ہم اپنے قارئین کو مزید انتظار کی زحمت نہیں دینا چاہتے اور مولوی صاحب کے لطائف کو وقف عام کرتے ہیں‘ آپ بھی غور سے پڑھیں اور مولوی صاحب کی اس اپج کی داد دیں‘ سہولت کے لئے ہم مولوی صاحب کی ان پُر لطف تحقیقات کو نمبروار پیش کرتے ہیں:
۱:․․․مولوی محمد صادق صاحب اپنے مضمون میں فرماتے ہیں:
”حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی“ وغیرہ مکاتبِ فکر ہیں‘ بریلوی اور دیوبندی بھائی بھی حنفی ہیں‘ ان سب کی خدمت میں بڑے ادب وخلوص سے گذارش ہے کہ نجات ان ناموں یعنی نسبتوں میں نہیں ہے اور نہ یہ نسبتیں ضروری ہیں‘ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ رسالہ قول سدید میں فرماتے ہیں:
”اعلم انہ لم یکلف اللہ تعالیٰ احداً من عبادہ بان یکون حنفیاً او مالکیاً او شافعیاً او حنبلیاً‘ بل اوجب علیہم الایمان بما بعث بہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم“۔
ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ حنفی یا مالکی یا شافعی یا حنبلی ہو‘ بلکہ ان پر محمد ا کے لائے ہوئے دین پر ایمان لانا فرض کیا ہے“۔
سیالکوٹی صاحب سے اس بارے میں عرض یہ ہے کہ قول سدید نامی کتاب کے بارے میں تو آج تک ہم یہی سنتے چلے آرہے تھے کہ یہ محمد بن عبد العظیم بن فروح المکی الحنفی کی کتاب ہے‘ جیساکہ ایضاح المکنون علی اذیان کشف الظنون‘ ج:۲‘ ص:۲۴۹ میں مذکور ہے‘ مولوی محمد صادق صاحب نے کمال کردیا کہ کتاب کسی کی ہے‘ منسوب کسی کی طرف کررہے ہیں‘ خدا خوش رکھے‘ انہوں نے :
چہ خوشتر گفت سعدی در زلیخا
الا یایہا الساقی ادر کاساً و ناولہا
الا یایہا الساقی ادر کاساً و ناولہا
کی روایت پھر دہرا کر اہلِ ذوق کے لئے تفریح طبع کا سامان مہیا کیا۔ اگر مولوی صادق صاحب کے پاس قول سدید کا نسخہ ہو تو از راہِ کرم ذرا یہ بتایا جائے کہ یہ کتاب کہاں چھپی ہے‘ کب چھپی ہے‘ کتنی ضخیم ہے‘ نایاب ہے یا کمیاب‘ تاکہ ہم بھی اس کے حصول کے لئے جد وجہد کریں اور اگر قلمی ہے‘ مطبوعہ نہیں ہے تو ہم مولوی صاحب سے پُر زور التجا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی اس کی ایک فوٹو اسٹیٹ کاپی لینے کی اجازت مرحمت فرمائیں‘ ہم عمر بھر ان کے ممنون ہوں گے۔
۲:․․․مولوی محمد صادق صاحب نے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایسی بات منسوب کردی کہ خود شاہ صاحب کی کتابوں سے اس کی تکذیب ہوتی ہے‘ دیکھئے! شاہ صاحب اپنی کتاب عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید ص:۵۳ میں فرماتے ہیں:
”باب‘ تاکیدا لاخذ بہذہ المذاہب الاربعة والتشدید فی ترکہا‘ والخروج عنہا‘ اعلم ان فی الأخذ بہذہ المذاہب الاربعة مصلحة عظیمةً وفی الاعراض عنہا کلہا مفسدة کبیرة“۔
ترجمہ:․․․”باب ان مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے اور ان کے ترک میں اور ان سے نکلنے کی سختی کے بیان میں‘ جان لے کہ ان چاروں مذاہب کو اختیار کرنے میں عظیم الشان مصلحت ہے اور ان سے اعراض اور روگردانی میں بہت بڑا فساد ہے“۔
کتاب مذکور کے ص:۵۶ پر لکھتے ہیں:
”ولیسمذہب فی ہذہ الازمنة المتأخرة بہذہ الصفة الا ہذہ المذاہب الاربعة الا مذہب الامامیة والزیدیة وہم اہل البدعة لایجوزالاعتماد علی اقاویلہم“۔
یعنی اس زمانے میں کوئی مذہب ایسا باقی نہیں رہا جس کو اختیار کیا جائے‘ سوائے مذاہب اربعہ کے‘ ہاں امامیہ وزیدیہ لیکن وہ اہل بدعت ہیں‘ ان کے اقوال پر اعتماد جائز نہیں ہے۔
اسی صفحہ پر آگے چل کر فرماتے ہیں:
”قال رسول اللہ ا: اتبعوا السواد الاعظم ولما اندرست مذاہب الحقة الا ہذہ المذاہب الاربعة کان اتباعہا اتباعا للسواد الاعظم والخروج عنہا خروجاً عن السواد الاعظم“۔
ترجمہ:․․․”رسول اللہ ا نے فرمایا کہ:” سواد اعظم (بڑی جماعت) کی اتباع کرو“ اور جب ان مذاہب اربعہ کے علاوہ باقی سچے مذاہب مفقود ہوگئے توان مذاہب کا اتباع سواد اعظم کا اتباع ہے اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے“۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی شافعی ہیں‘وہ اپنی کتاب الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ص:۴۸ میں امام بخاری کے بارے میں فرماتے ہیں:
”ومن ہذا القبیل محمد بن اسماعیل البخاری فانہ معدود فی طبقات الشافعیة“
ترجمہ:․․․”اسی قبیل سے امام محمد بن اسماعیل بخاری بھی ہیں‘ ان کا شمار طبقات شافعیہ میں کیا گیاہے“۔
اسی کتاب کے ص: ۵۷ پر امام ابوداؤد ‘ امام ترمذی‘ امام ابن ماجہ اور امام دارمی کے بارے میں فرماتے ہیں:
”واما ابوداؤد والترمذی فہما مجتہد ان منتسبان الی احمد واسحاق‘ وکذلک ابن ماجہ والدارمی فیما نری واللہ اعلم“۔
یہ حضرات بھی حنبلی اور اسحاقی ہوگئے۔ نیز اس صفحہ پر امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
”واما مسلم وابو العباس الاصم جامع مسند الشافعی والام والذین ذکرنا ہم بعدہ فہم منفردون لمذہب الشافعی یتاصلون دونہ“۔
لیجئے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ تو خالص شافعی ہوگئے‘ امام ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں حنبلی ہیں‘ خود شاہ ولی اللہ کے بارے میں جناب نواب صدیق حسن خان مرحوم اپنی کتاب اتحاف النبلا ‘ص:۲۹۷ میں فرماتے ہیں:
”خاندان ایشاں خاندان علوم حدیث وفقہ حنفی است“۔
صادق صاحب! ان کبار ائمہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟ صحاح ستہ کے مصنفین بھی یا تو شافعی المسلک ہیں یا حنبلی‘ آپ اس کو غلط نہیں کہہ سکتے‘ کیونکہ خود حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ان کو شافعی اور حنبلی بتا رہے ہیں‘ اگر آپ اس کی تغلیط کریں گے تو یہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تکذیب ہوگی۔
۳:․․․مولوی صادق صاحب نے آگے ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ- کی کتاب شرح عین العلم سے بھی اس قسم کی عبارت نقل کی ہے:
”ان اللہ سبحانہ وتعالیٰ ما کلف احداً ان یکون حنفیاً او شافعیاً او مالکیاً او حنبلیاً“۔
اس بارے میں عرض یہ ہے کہ مولوی صادق صاحب نے پوری عبارت نقل نہ کرکے خیانت کی ہے‘ اس سے آگے عبارت یوں ہے:
”من کلفہم ان یعملو بالسنة ان کانوا علماء او یقلدوا ان کانوا جہلاء“۔
یعنی عالم ہونے کی صورت میں سنت پر عمل کرے اور جاہل ہو تو تقلید کرے۔
مولوی صادق صاحب نے عبارت کا آخری حصہ جو ان کے مدعا کے صریح خلاف تھا‘ حذف کردیا پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ جس بزرگ کے قول سے حنفی وغیرہ نسبتوں کے ضروری نہ ہونے پر استدلال کرتے ہیں‘ خود انہی کے نام کے ساتھ حنفی بھی لکھتے ہیں‘ صادق صاحب کی عبارت ملاحظہ ہو:
”حضرت ملا علی قاری حنفی شرح عین العلم میں فرماتے ہیں“۔
۴:․․․ سیالکوٹی صاحب آگے لکھتے ہیں:
”قبر میں منکرین یہ سوال بھی کریں گے ”مادینک“ تو جواب میں کوئی نہیں کہے گا کہ میں حنفی ہوں‘ میں شافعی ہوں‘ میں مالکی ہوں‘ میں حنبلی ہوں‘ میں بریلوی ہوں‘ میں دیوبندی ہوں (انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ صادق صاحب یہاں یہ بھی ذکر فرما دیتے کہ یہ بھی کوئی نہیں کہے گا کہ میں غیر مقلد ہوں‘ میں سلفی ہوں‘ میں ظاہری ہوں‘ میں محمدی ہوں‘ میں غربائے اہل حدیث میں سے ہوں‘ میں مرکزی اہل حدیث سے ہوں‘ میں لامذہب ہوں‘ لیکن سیالکوٹی صاحب سے انصاف کی توقع خود انصاف کا خون کرناہے) بلکہ صحیح جواب جس پر نجات موقوف ہے بقول حضرت رحمة اللعالمین ا یہ ہے ”دینی الاسلام“۔
مولوی صادق صاحب ان نسبتوں کے غیر ضروری ہونے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ان کے اس نظریئے کی تردید خود ان کے کلام میں موجود ہے‘ خط کشیدہ جملہ ملاحظہ ہو:” جب کوئی یہ نہیں کہے گا کہ میں حنفی ہوں یا شافعی ہوں“ اور بالکل نہیں کہے گا‘ کیونکہ مذہب کا تعلق صرف فروعی مسائل سے ہے‘ اعتقادات سے نہیں‘ اعتقادیات میں کوئی کسی کی تقلید نہیں کرتا‘ نکیرین کا سوال دین کے بارے میں ہوگا‘ نہ کہ مذہب کے بارے میں۔ مولوی صاحب کو دین اور مذہب کا فرق بھی معلوم نہیں ہے۔ کتابوں میں جب اختلافی مسائل کا بیان ہوتاہے تو کہیں یہ نہیں لکھا جاتا کہ یہ دین امام بخاری کا تھا یہ دین امام مسلم کا تھا‘بلکہ یہی لکھتے ہیں کہ: یہ مذہب امام بخاری کا تھا‘ یہ مذہب امام مسلم کا تھا۔ ابھی شاہ ولی اللہ صاحب کی تصریح گذری کہ امام بخاری ‘امام مسلم کا مذہب شافعی تھا انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ ان کا دین شافعی تھا۔ کیا مولوی صادق صاحب غیر مقلدیت کو بھی مذہب کے بجائے دین سمجھتے ہیں‘ اگر ایسا ہے تو پھر وہ سب مسلمانوں سے الگ دین کے مدعی ہیں۔
دین ان عقائد کا نام ہے جن کی دعوت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ا تک سارے انبیاء برابر دیتے چلے آئے ہیں‘ مذہب ان قواعد عقلیہ کا نام ہے جن کو سامنے رکھ کر کتاب وسنت سے مسائل نکالے جاتے ہیں‘ مثلاً :ثبوت روایت کے سلسلے میں امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ اگر دو راوی معاصر ہوں اور ان میں سے ایک دوسرے سے حدیث روایت کرے تو جب تک تاریخ میں ایک دوسرے سے ملاقات کا ذکر نہ ہو‘ اس وقت تک وہ حدیث متصل نہیں سمجھی جائے گی‘ امام مسلم کے نزدیک صرف امکان لقاء شرط ہے‘ بالفعل لقاء شرط نہیں ہے‘ دیکھئے محدثین ان میں سے ایک کو امام بخاری کا اور دوسرے کو امام مسلم کا مذہب کہتے ہیں‘ یہ نہیں کہتے کہ امام بخاری کا دین یہ ہے اور یہ امام مسلم کا دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف جائز ہے۔ مذہب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی نہیں کرتا۔
ادیانِ سماویہ تو کہا جاتاہے‘ لیکن مذاہب سماویہ نہیں کہا جاتا افسوس ہے کہ مولوی صاحب اتنا فرق بھی نہ سمجھ سکے اور لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے تلبیس کا ارتکاب کیا۔
لہذا نکیرین کے جواب میں ان نسبتوں کے کار آمد نہ ہونے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ یہ نسبتیں غیر ضروری ہیں۔ اور اگر بالفرض ہم مان بھی لیں کہ صادق صاحب کی اس تقریر سے ان نسبتوں کا غیر ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر مقلد ہونا‘ لامذہب ہونا‘ اہل حدیث ہونا‘ ظاہری ہونا‘ غربائے اہل حدیث ہونا‘ سلفی ہونا‘ مرکزی اہل حدیث ہونا بھی تو ایک نسبت ہے۔ صادق صاحب نے ان کے بارے میں کچھ بھی ارشاد نہیں فرمایا۔ ارباب صحاح ستہ بھی شاہ ولی اللہ کے قول کے مطابق شافعی‘ حنبلی اور اسحاقی ہیں ۔بتایئے! ان حضرات ائمہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
اگر یہ نسبتیں غیر ضروری ہیں تو مولوی محمد حسین بٹالوی مرحوم نے لفظ وہابی سے اپنا اور اپنے فرقے کا پیچھا چھڑانے کے لئے اور اہل حدیث کا خطاب حاصل کرنے کے لئے ۱۳۹۲ھ میں ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ لکھ کر جہاد کو منسوخ کیوں قرار دیا؟ اور شیخ الکل برطانوی شمس العلماء مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی بٹالوی صاحب کی تمام پالیسیوں میں ممد ومعاون‘ بلکہ سرپرست کیوں رہے؟ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو‘ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ص:۶۳ تا ص:۶۸ مؤلفہ پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب۔
جاری ہے
بشکریہ ماہنامہ بینات