اسلامی نظام کے خد وخال اہل حدیث کی نظر میں

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
اسلامی نظام کے خد وخال
اہل حدیث کی نظر میں


مولانامفتی محمد ولی درویش رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۹۹۹ء-۱۴۲۰ھ)سابق استاذ ونگران تخصص فی الدعوة والارشاد وناظم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا یہ بیش بہا‘ قیمتی مضمون آج سے ۲۹/ سال قبل ماہنامہ خدام الدین لاہور (۲۶/رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ - یکم ستمبر ۱۹۷۸ء) میں چھپا تھا‘ اس وقت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جامعہ علوم اسلامیہ میں تخصص فی ا لفقہ کے طالب علم تھے‘مضمون کی افادیت کے پیش نظر قارئین بینات کے لئے پیش خدمت ہے۔

مولوی محمد صادق سیالکوٹی جو غیر مقلدوں کے مشہور عالم ہیں‘ جن کے افادات آئے دن غیر مقلدوں کے رسائل اور مجلات میں چھپتے رہتے ہیں‘ بڑے مزے کے آدمی ہیں‘ وہ روزانہ ایسی نئی نئی باتیں اپنے ذہن ودماغ سے گھڑتے ہیں کہ سارے غیر مقلدین ان کو پڑھ کر عش عش کرتے ہیں۔ یہ اپج حقیقت میں مولوی صاحب کا خاص حصہ ہے‘ ہر غیر مقلد عالم کا دماغ اتنا شاداب کہاں کہ وہ ان حقائق تک پہنچ سکے۔

حال ہی میں ان کا ایک مضمون ”اسلامی نظام کے خد وخال“ ہفت روزہ اہل حدیث بابت ۱۹/جمادی الاولیٰ ۱۳۹۸ھ نظر سے گذرا‘ پڑھ کر خیال آیا کہ ان کی پُر لطف باتوں سے تنہا مزہ لینا صحیح نہیں‘ ان کی تحقیقات کو عام کرنا چاہئے اور ان کی تحریر میں جو رموز اور حقائق پنہاں ہیں‘ ان کو واضح کرکے عام لوگوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہئے‘ تاکہ وہ بھی ان کی فکر رسا سے باخبر ہوں۔ نیز وہ امور جو ابھی تک مولوی صاحب کے سینہ معارف گنجینہ میں مستور ہیں‘ ان کو پردہٴ خفا سے باہر نکلوانا چاہئے‘ تاکہ مولوی صاحب کی یہ اچھوتی تحقیقات عام ہوں۔

اتنی تمہید کے بعد اب ہم اپنے قارئین کو مزید انتظار کی زحمت نہیں دینا چاہتے اور مولوی صاحب کے لطائف کو وقف عام کرتے ہیں‘ آپ بھی غور سے پڑھیں اور مولوی صاحب کی اس اپج کی داد دیں‘ سہولت کے لئے ہم مولوی صاحب کی ان پُر لطف تحقیقات کو نمبروار پیش کرتے ہیں:

۱:․․․مولوی محمد صادق صاحب اپنے مضمون میں فرماتے ہیں:
”حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی“ وغیرہ مکاتبِ فکر ہیں‘ بریلوی اور دیوبندی بھائی بھی حنفی ہیں‘ ان سب کی خدمت میں بڑے ادب وخلوص سے گذارش ہے کہ نجات ان ناموں یعنی نسبتوں میں نہیں ہے اور نہ یہ نسبتیں ضروری ہیں‘ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ رسالہ قول سدید میں فرماتے ہیں:
”اعلم انہ لم یکلف اللہ تعالیٰ احداً من عبادہ بان یکون حنفیاً او مالکیاً او شافعیاً او حنبلیاً‘ بل اوجب علیہم الایمان بما بعث بہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم“۔
ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ حنفی یا مالکی یا شافعی یا حنبلی ہو‘ بلکہ ان پر محمد ا کے لائے ہوئے دین پر ایمان لانا فرض کیا ہے“۔

سیالکوٹی صاحب سے اس بارے میں عرض یہ ہے کہ قول سدید نامی کتاب کے بارے میں تو آج تک ہم یہی سنتے چلے آرہے تھے کہ یہ محمد بن عبد العظیم بن فروح المکی الحنفی کی کتاب ہے‘ جیساکہ ایضاح المکنون علی اذیان کشف الظنون‘ ج:۲‘ ص:۲۴۹ میں مذکور ہے‘ مولوی محمد صادق صاحب نے کمال کردیا کہ کتاب کسی کی ہے‘ منسوب کسی کی طرف کررہے ہیں‘ خدا خوش رکھے‘ انہوں نے :

چہ خوشتر گفت سعدی در زلیخا
الا یایہا الساقی ادر کاساً و ناولہا​

کی روایت پھر دہرا کر اہلِ ذوق کے لئے تفریح طبع کا سامان مہیا کیا۔ اگر مولوی صادق صاحب کے پاس قول سدید کا نسخہ ہو تو از راہِ کرم ذرا یہ بتایا جائے کہ یہ کتاب کہاں چھپی ہے‘ کب چھپی ہے‘ کتنی ضخیم ہے‘ نایاب ہے یا کمیاب‘ تاکہ ہم بھی اس کے حصول کے لئے جد وجہد کریں اور اگر قلمی ہے‘ مطبوعہ نہیں ہے تو ہم مولوی صاحب سے پُر زور التجا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی اس کی ایک فوٹو اسٹیٹ کاپی لینے کی اجازت مرحمت فرمائیں‘ ہم عمر بھر ان کے ممنون ہوں گے۔
۲:․․․مولوی محمد صادق صاحب نے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایسی بات منسوب کردی کہ خود شاہ صاحب کی کتابوں سے اس کی تکذیب ہوتی ہے‘ دیکھئے! شاہ صاحب اپنی کتاب عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید ص:۵۳ میں فرماتے ہیں:
”باب‘ تاکیدا لاخذ بہذہ المذاہب الاربعة والتشدید فی ترکہا‘ والخروج عنہا‘ اعلم ان فی الأخذ بہذہ المذاہب الاربعة مصلحة عظیمةً وفی الاعراض عنہا کلہا مفسدة کبیرة“۔
ترجمہ:․․․”باب ان مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے اور ان کے ترک میں اور ان سے نکلنے کی سختی کے بیان میں‘ جان لے کہ ان چاروں مذاہب کو اختیار کرنے میں عظیم الشان مصلحت ہے اور ان سے اعراض اور روگردانی میں بہت بڑا فساد ہے“۔
کتاب مذکور کے ص:۵۶ پر لکھتے ہیں:

”ولیسمذہب فی ہذہ الازمنة المتأخرة بہذہ الصفة الا ہذہ المذاہب الاربعة الا مذہب الامامیة والزیدیة وہم اہل البدعة لایجوزالاعتماد علی اقاویلہم“۔
یعنی اس زمانے میں کوئی مذہب ایسا باقی نہیں رہا جس کو اختیار کیا جائے‘ سوائے مذاہب اربعہ کے‘ ہاں امامیہ وزیدیہ لیکن وہ اہل بدعت ہیں‘ ان کے اقوال پر اعتماد جائز نہیں ہے۔
اسی صفحہ پر آگے چل کر فرماتے ہیں:
”قال رسول اللہ ا: اتبعوا السواد الاعظم ولما اندرست مذاہب الحقة الا ہذہ المذاہب الاربعة کان اتباعہا اتباعا للسواد الاعظم والخروج عنہا خروجاً عن السواد الاعظم“۔
ترجمہ:․․․”رسول اللہ ا نے فرمایا کہ:” سواد اعظم (بڑی جماعت) کی اتباع کرو“ اور جب ان مذاہب اربعہ کے علاوہ باقی سچے مذاہب مفقود ہوگئے توان مذاہب کا اتباع سواد اعظم کا اتباع ہے اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے“۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی شافعی ہیں‘وہ اپنی کتاب الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ص:۴۸ میں امام بخاری کے بارے میں فرماتے ہیں:
”ومن ہذا القبیل محمد بن اسماعیل البخاری فانہ معدود فی طبقات الشافعیة“
ترجمہ:․․․”اسی قبیل سے امام محمد بن اسماعیل بخاری بھی ہیں‘ ان کا شمار طبقات شافعیہ میں کیا گیاہے“۔
اسی کتاب کے ص: ۵۷ پر امام ابوداؤد ‘ امام ترمذی‘ امام ابن ماجہ اور امام دارمی کے بارے میں فرماتے ہیں:
”واما ابوداؤد والترمذی فہما مجتہد ان منتسبان الی احمد واسحاق‘ وکذلک ابن ماجہ والدارمی فیما نری واللہ اعلم“۔
یہ حضرات بھی حنبلی اور اسحاقی ہوگئے۔ نیز اس صفحہ پر امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
”واما مسلم وابو العباس الاصم جامع مسند الشافعی والام والذین ذکرنا ہم بعدہ فہم منفردون لمذہب الشافعی یتاصلون دونہ“۔
لیجئے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ تو خالص شافعی ہوگئے‘ امام ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں حنبلی ہیں‘ خود شاہ ولی اللہ کے بارے میں جناب نواب صدیق حسن خان مرحوم اپنی کتاب اتحاف النبلا ‘ص:۲۹۷ میں فرماتے ہیں:
”خاندان ایشاں خاندان علوم حدیث وفقہ حنفی است“۔
صادق صاحب! ان کبار ائمہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟ صحاح ستہ کے مصنفین بھی یا تو شافعی المسلک ہیں یا حنبلی‘ آپ اس کو غلط نہیں کہہ سکتے‘ کیونکہ خود حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ان کو شافعی اور حنبلی بتا رہے ہیں‘ اگر آپ اس کی تغلیط کریں گے تو یہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تکذیب ہوگی۔

۳:․․․مولوی صادق صاحب نے آگے ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ- کی کتاب شرح عین العلم سے بھی اس قسم کی عبارت نقل کی ہے:
”ان اللہ سبحانہ وتعالیٰ ما کلف احداً ان یکون حنفیاً او شافعیاً او مالکیاً او حنبلیاً“۔
اس بارے میں عرض یہ ہے کہ مولوی صادق صاحب نے پوری عبارت نقل نہ کرکے خیانت کی ہے‘ اس سے آگے عبارت یوں ہے:
”من کلفہم ان یعملو بالسنة ان کانوا علماء او یقلدوا ان کانوا جہلاء“۔
یعنی عالم ہونے کی صورت میں سنت پر عمل کرے اور جاہل ہو تو تقلید کرے۔
مولوی صادق صاحب نے عبارت کا آخری حصہ جو ان کے مدعا کے صریح خلاف تھا‘ حذف کردیا پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ جس بزرگ کے قول سے حنفی وغیرہ نسبتوں کے ضروری نہ ہونے پر استدلال کرتے ہیں‘ خود انہی کے نام کے ساتھ حنفی بھی لکھتے ہیں‘ صادق صاحب کی عبارت ملاحظہ ہو:
”حضرت ملا علی قاری حنفی شرح عین العلم میں فرماتے ہیں“۔

۴:․․․ سیالکوٹی صاحب آگے لکھتے ہیں:
”قبر میں منکرین یہ سوال بھی کریں گے ”مادینک“ تو جواب میں کوئی نہیں کہے گا کہ میں حنفی ہوں‘ میں شافعی ہوں‘ میں مالکی ہوں‘ میں حنبلی ہوں‘ میں بریلوی ہوں‘ میں دیوبندی ہوں (انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ صادق صاحب یہاں یہ بھی ذکر فرما دیتے کہ یہ بھی کوئی نہیں کہے گا کہ میں غیر مقلد ہوں‘ میں سلفی ہوں‘ میں ظاہری ہوں‘ میں محمدی ہوں‘ میں غربائے اہل حدیث میں سے ہوں‘ میں مرکزی اہل حدیث سے ہوں‘ میں لامذہب ہوں‘ لیکن سیالکوٹی صاحب سے انصاف کی توقع خود انصاف کا خون کرناہے) بلکہ صحیح جواب جس پر نجات موقوف ہے بقول حضرت رحمة اللعالمین ا یہ ہے ”دینی الاسلام“۔
مولوی صادق صاحب ان نسبتوں کے غیر ضروری ہونے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ان کے اس نظریئے کی تردید خود ان کے کلام میں موجود ہے‘ خط کشیدہ جملہ ملاحظہ ہو:” جب کوئی یہ نہیں کہے گا کہ میں حنفی ہوں یا شافعی ہوں“ اور بالکل نہیں کہے گا‘ کیونکہ مذہب کا تعلق صرف فروعی مسائل سے ہے‘ اعتقادات سے نہیں‘ اعتقادیات میں کوئی کسی کی تقلید نہیں کرتا‘ نکیرین کا سوال دین کے بارے میں ہوگا‘ نہ کہ مذہب کے بارے میں۔ مولوی صاحب کو دین اور مذہب کا فرق بھی معلوم نہیں ہے۔ کتابوں میں جب اختلافی مسائل کا بیان ہوتاہے تو کہیں یہ نہیں لکھا جاتا کہ یہ دین امام بخاری کا تھا یہ دین امام مسلم کا تھا‘بلکہ یہی لکھتے ہیں کہ: یہ مذہب امام بخاری کا تھا‘ یہ مذہب امام مسلم کا تھا۔ ابھی شاہ ولی اللہ صاحب کی تصریح گذری کہ امام بخاری ‘امام مسلم کا مذہب شافعی تھا انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ ان کا دین شافعی تھا۔ کیا مولوی صادق صاحب غیر مقلدیت کو بھی مذہب کے بجائے دین سمجھتے ہیں‘ اگر ایسا ہے تو پھر وہ سب مسلمانوں سے الگ دین کے مدعی ہیں۔

دین ان عقائد کا نام ہے جن کی دعوت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ا تک سارے انبیاء برابر دیتے چلے آئے ہیں‘ مذہب ان قواعد عقلیہ کا نام ہے جن کو سامنے رکھ کر کتاب وسنت سے مسائل نکالے جاتے ہیں‘ مثلاً :ثبوت روایت کے سلسلے میں امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ اگر دو راوی معاصر ہوں اور ان میں سے ایک دوسرے سے حدیث روایت کرے تو جب تک تاریخ میں ایک دوسرے سے ملاقات کا ذکر نہ ہو‘ اس وقت تک وہ حدیث متصل نہیں سمجھی جائے گی‘ امام مسلم کے نزدیک صرف امکان لقاء شرط ہے‘ بالفعل لقاء شرط نہیں ہے‘ دیکھئے محدثین ان میں سے ایک کو امام بخاری کا اور دوسرے کو امام مسلم کا مذہب کہتے ہیں‘ یہ نہیں کہتے کہ امام بخاری کا دین یہ ہے اور یہ امام مسلم کا دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف جائز ہے۔ مذہب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی نہیں کرتا۔
ادیانِ سماویہ تو کہا جاتاہے‘ لیکن مذاہب سماویہ نہیں کہا جاتا افسوس ہے کہ مولوی صاحب اتنا فرق بھی نہ سمجھ سکے اور لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے تلبیس کا ارتکاب کیا۔
لہذا نکیرین کے جواب میں ان نسبتوں کے کار آمد نہ ہونے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ یہ نسبتیں غیر ضروری ہیں۔ اور اگر بالفرض ہم مان بھی لیں کہ صادق صاحب کی اس تقریر سے ان نسبتوں کا غیر ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر مقلد ہونا‘ لامذہب ہونا‘ اہل حدیث ہونا‘ ظاہری ہونا‘ غربائے اہل حدیث ہونا‘ سلفی ہونا‘ مرکزی اہل حدیث ہونا بھی تو ایک نسبت ہے۔ صادق صاحب نے ان کے بارے میں کچھ بھی ارشاد نہیں فرمایا۔ ارباب صحاح ستہ بھی شاہ ولی اللہ کے قول کے مطابق شافعی‘ حنبلی اور اسحاقی ہیں ۔بتایئے! ان حضرات ائمہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟

اگر یہ نسبتیں غیر ضروری ہیں تو مولوی محمد حسین بٹالوی مرحوم نے لفظ وہابی سے اپنا اور اپنے فرقے کا پیچھا چھڑانے کے لئے اور اہل حدیث کا خطاب حاصل کرنے کے لئے ۱۳۹۲ھ میں ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ لکھ کر جہاد کو منسوخ کیوں قرار دیا؟ اور شیخ الکل برطانوی شمس العلماء مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی بٹالوی صاحب کی تمام پالیسیوں میں ممد ومعاون‘ بلکہ سرپرست کیوں رہے؟ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو‘ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ص:۶۳ تا ص:۶۸ مؤلفہ پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب۔
جاری ہے

بشکریہ ماہنامہ بینات
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
RE ((0: اسلامی نظام کے خد وخال اہل حدیث کی نظر میں

آخری حصہ​

۵:․․․ صادق صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں:
”سب مکاتب فکر اللہ تعالیٰ کو گواہ کرکے بیعت کریں‘ دست سنت پر (جو ایک طرح کے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ہی بیعت ہوگی کہ سنت اور حدیث سربراہ مرسلان کے قائم مقام ہے‘ اے اللہ! گواہ رہ کہ ہم تیرے پیارے اور سچے رسول حضرت محمد ا کی سنت کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرتے ہیں کہ ہم صرف سنت کو اپنائیں گے الخ“۔
ہم سیالکوٹی صاحب سے عرض کرتے ہیں کہ حضرت ہم صرف سنت کو نہیں اپناتے‘ بلکہ قرآن کریم کو بھی اپناتے ہیں‘ نجات ان دونوں پر منحصر ہے‘ صرف قرآن میں بھی نجات نہیں ہے‘ کیونکہ قرآن کریم کے مطالب حدیث کے بغیر سمجھ میں نہیں آئیں گے اور نہ وہ مطالب معتبر ہیں جو حدیث اور صحابہ کرام کی آراء کی روشنی میں نہ لئے گئے ہوں‘ کیونکہ قرآن کریم کی سب سے عمدہ تفسیر حدیث نبوی ہی ہے۔ اسی طرح صرف سنت پر بھی نجات نہیں‘ جب تک قرآن کریم اس کے ساتھ نہ ہو‘ بلکہ قرآن کریم کا رتبہ حدیث سے مقدم ہے‘ معلوم نہیں صادق صاحب صرف سنت کا نام تو لیتے ہیں اور قرآن کریم کو بھول جاتے ہیں‘ آخر آپ کتاب وسنت دونوں کا نام کیوں نہیں لیتے؟
آپ فرماتے ہیں کہ سنت سربراہ مرسلان کے قائم مقام ہے تو پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے بعد حضرت عمرفاروق اس کے بعد حضرت عثمان اور اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ رضوان اللہ علیہم کو خلیفہ یعنی پیغمبر کا نائب اور جانشین کیوں مقرر کیا؟ کیا صحابہ رضوان اللہ علیہم کے سامنے احادیث نبوی نہیں تھیں اور اگر حدیث ہی پیغمبر کا خلیفہ ہو تو پھر خلافت راشدہ اور اس کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس کی خلافتیں سب خلاف شریعت ٹھہریں گی‘ کیونکہ قائم مقام پیغمبر کے ہوتے ہوئے ان کو خلیفہ بننے کا حق نہیں تھا
۔
صادق صاحب! آج آپ نے حدیث کو پیغمبر علیہ السلام کا قائم مقام کہا‘ کل قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کا قائم مقام کہوگے‘ کچھ تو سوچ کر لکھتے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں‘ اگر تم ان پر عمل پیرا رہوگے تو کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے اور وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ہیں‘ یہاں حضور علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ میں تم میں اپنا قائم مقام چھوڑ کر جارہا ہوں۔
نیز صادق صاحب کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ امت کے راہ راست پر رکھنے کے لئے پیغمبر علیہ السلام صرف سنت ہی نہیں‘ بلکہ کتاب اللہ بھی چھوڑ کر گئے ہیں۔ صادق صاحب نے صرف سنت کو لے لیا اور کتاب اللہ کی طرف دیکھا بھی نہیں‘ افسوس کہ اتباع سنت کے دعویدار کتاب اللہ کو بھی نظر انداز کر گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون‘ شاید اپنے آپ کو اہل حدیث کہلوانے میں ہی راز مضمر ہو۔ صادق صاحب! اگر آپ سنت کے ساتھ کتاب اللہ کو بھی مانتے ہیں تو پھر اپنے آپ کو اہل کتاب یا کتابی اور یا کتابی اہل حدیث لکھیں‘ کیونکہ کتاب اللہ کا درجہ سنت سے مقدم ہے۔

۶:․․․ صادق سیالکوٹی صاحب آگے فرماتے ہیں:
” اور سچے دل سے عہد کرتے ہیں کہ سنت اور حدیث کے مغائر ہرعقیدے ‘ عمل‘ رسم‘ اور فقہی مواد کو مٹادیں گے“۔

صادق صاحب ! آپ کو فقہ سے دشمنی کیوں اور کیسے ہو گئی‘ یہ تو ہوسکتاہے کہ کچھ فقہی مسائل ضعیف یا غلط ہوں‘ لیکن چند مسائل کی وجہ سے تمام فقہی مواد کو مٹانا‘ یہ کون سی عقل کی بات ہے؟ آخر فقہ شریعت میں کوئی شجر ممنوعہ تو نہیں ہے؟ دیکھئے! صحابہرضوان اللہ علیہم میں بڑے بڑے فقہاء تھے‘ تابعین میں بڑے بڑے فقہاء تھے‘ فقہاء سبعہ کے نام سے تو شاید آپ بھی واقف ہوں گے‘ فقہی مواد سے تو خیر القرون بھی خالی نہ تھا۔
آپ کی یہ فقہ دشمنی دو وجہوں سے ہوسکتی ہے یا تو آپ اس علم سے بفضلہ تعالیٰ بالکل کورے ہیں اور ”الناس اعداء لما جہلوا“ کے تحت آپ اس کو اپنے غیظ وغضب کا نشانہ بنا رہے ہیں‘ یا در پردہ کسی صہیونی تنظیم سے رابطہ ہے اور ان کے اشارے پر یہ مشورہ دے رہے ہیں‘ ورنہ ایک مسلمان سے بعید ہے کہ لوگوں کو اس قدر احمقانہ مشورہ دے‘ اگر آپ کو اس علم سے کوئی مناسبت نہیں ہے‘ تو نہ سہی:
خلق اللہ للحروب رجالا
وخلق الناس لقصعة وثرید
آپ اس قسم کے مشورے دوسروں کو مت دیجئے‘ اور اگر آپ نے واقعی اس فقہی مواد کے مٹانے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے تو سب سے پہلے فتاویٰ نذیریہ‘ فتاویٰ ثنائیہ‘ فتاویٰ اہل حدیث‘ فتح العلام‘ سبل السلام‘ مسک الختام‘ دلیل الطالب علی ارجح المطالب ‘ الروضة الندیة شرح الدرر البہیة‘ کنز الحقائق عرف الجادی من جنان‘ ہدی الہادی السیل الجرار‘ بل الغمام وغیرہ سب کو دریا برو کر دیں کیونکہ یہ تمام فقہی مواد سے بھری ہوئی ہیں۔
نیز ان شروح احادیث اور تفاسیر کو بھی دریا برو کر دیجئے جن میں کچھ فقہی مواد موجود ہو‘ جیسے شوکانی کی فتح القدیر اور نیل الاوطار‘ عبد الرحمن مبارک پوری مرحوم کی تحفہ الاحوذی‘ علامہ شمس الحق صاحب کی عون المعبود‘ عبید اللہ کی مرعاة المفاتیح‘ ان میں سے کسی کو مت چھوڑیئے‘ اسی طرح صحاح ستہ اور حدیث کی جن کتابوں میں مختلف مسائل پر ابواب قائم کئے گئے ہیں‘ ان سب ابواب کو نیز جملہ کتب حدیث میں جو مجتہدین کے اقوال درج ہیں‘ جیسے کہ صحیح بخاری اور ترمذی ہیں‘ ان سب کو نکال کر حدیث کو رہنے دیں‘ خاص کر صحیح بخاری کے ابواب ‘ کیونکہ ان کے بارے میں تو ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ فقہی مواد ہیں ”فقہ البخاری فی تراجمہ“ کا مقولہ شاید آپ نے بھی سنا ہوگا بس وقت یہ خبر پہنچ جائے کہ صادق صاحب نے ان تمام کتابوں کو چناب کے حوالے کردیا تب ہم سمجھیں گے کہ صادق صاحب واقعی صادق ہیں اور ان کے بارے میں جو یہ مشہور ہے کہ صادق صاحب اپنے نام کی نقیض ہیں‘ محض غلط ہے‘ معلوم نہیں‘ یہ خبر ہم کب سنیں:
اے خوش آں روز کہ آئی وبصد ناز آئی
یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر فقہی مواد واقعی دین اسلام کے خلاف ہے تو غیر مقلدین ان کتابوں سے مسائل کیوں لیتے ہیں‘ جن میں فقہی مواد بکثرت موجود ہے‘ جیسے فتح الباری ‘ قسطلانی عمدة القاری وغیرہ۔

۷:․․․مولوی صادق صاحب آگے فرماتے ہیں:
”اگر آپ سب مکاتب فکر نے ”حتی اکون احب الیہ“ کی فضا میں سنت کے ہاتھ پر بیعت کی ہے تو ذیل کے امور کتاب وسنت کو سینے سے لگائیں اور ریزولیشن کی صورت میں حکومت کو بھیج دیں کہ وہ ملک میں نافذ کردے“۔
آگے ہم ان امور کا ذکر کرتے ہیں جن کا استنباط مولوی صادق صاحب نے اپنی خدا داد قابلیت کی بنیاد پر براہ راست کتاب وسنت سے کیا ہے۔

۸:․․․صادق صاحب فرماتے ہیں:
”اسلامی حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر پاکستانی کو نماز کی پابندی کا حکم دے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو کوڑوں اور جرمانے کی سزا دے‘ چونکہ بروئے حدیث بے نماز کافر اور جہنمی ہے‘ لہذا حکومت کا فرض ہے کہ مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے انہیں کفر سے باز رکھے اور آگ سے بچائے“۔

صادق صاحب! بے نمازی کے لئے جرمانے کی سزا کون سی آیت اور صحاح ستہ کی کس حدیث سے ثابت ہے؟ حوالہ دیجئے۔ نیز جب بے نماز کافر ہوا اور جہنمی ہوا تو کافر سے نماز کی پابندی کرانے کے کیا معنی ؟ حالانکہ جب مسلمان کافر ہوجاتاہے تو اس کی سزا قتل ہے‘ بتایئے! آپ کے اس مسئلے کا ثبوت کس آیت اور کس حدیث سے ہوتا ہے‘ جب آپ کے خیال میں تارک صلوٰة کافر ہے تو آخر آپ اس پر مرتد کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ بینوا وتوجروا۔

۹:․․․مولوی محمد صادق صاحب آگے فرماتے ہیں:
”اسلامی نظریہ کی کونسل کو چاہئے کہ وہ حکومت کے پاس نماز کے بارے میں نرم الفاظ کے ساتھ سفارش نہ کرے‘ بلکہ حکومت کو قرآن اور حدیث کا حکم بتایئے‘ تاکہ حکومت لوگوں سے سختی سے عمل کرائے‘ دیکھئے ارشاد ہوتا ہے: ”اقیموا الصلوٰة ولاتکونوا من المشرکین“ ۔ نما ز قائم کرو اور نماز چھوڑ کر مشرکوں سے نہ ہوجاؤ تو ترک نماز شرک اور کفر سے الحاق ہے“۔ صادق صاحب! جب ترک نماز کا شرک اور کفر سے الحاق ہے تو مشرک اور کافر سے نماز کی پابندی کرانا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیونکہ کافر اور مشرک کی نماز قبول ہی نہیں ہوتی‘ قرآن کریم میں ہے: ”وما دعاء الکافرین الا فی ضلال “ احناف کے نزدیک ترک نماز شرک نہیں بلکہ گناہ کبیرہ ہے‘ نماز کا منکر کافر ہے‘ ترک صلوٰة احناف کے نزدیک نہ کفر ہے نہ شرک‘ بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ مولوی محمد

صادق صاحب اپنی پرسنل لاء کے اعتبار سے ایک ریزویشن حکومت کو بھیج دیں کہ جو غیر مقلد نماز ترک کرے‘ ہمارے نزدیک وہ کافر اور مشرک ہوجاتاہے ‘حکومت اس کو کوڑوں کی سزا دے اور اس سے جرمانہ وصول کرے۔

۱۰:․․․ صادق صاحب فرماتے ہیں:
”ایسے ہی ماہ رمضان میں علانیہ کھانے پینے والوں کو کوڑوں کی سزا اور جرمانہ کرنا چاہئے‘ فقہاء نے ایسے شخص کو انتباہ کے بعد قتل کرنے کا فتویٰ دیا ہے“۔ صادق صاحب! دوباتوں کی وضاحت فرمایئے!
ایک یہ کہ روزہ میں علانیہ کھانے پینے والوں کو کوڑوں اور جرمانے کی سزا کس حدیث سے ثابت ہے‘ آپ کی کوئی بات حدیث کے بغیر نہیں ہونی چاہئے‘ کیونکہ آپ تو سنت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے مدعی ہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ فقہی مواد جن کے مٹانے کے آپ درپے ہیں‘ وہ فقہاء ہی کے اقوال تو ہیں جن سے آپ استدلال کرکے کہیں تضادبیانی کا شکار تو نہیں ہورہے؟

۱۱:․․․․صادق صاحب فرماتے ہیں:
”چوری‘ زنا‘ شراب نوشی‘ لواطت‘ رہزنی‘ ڈاکہ اغوا‘ جوا کی معروف سزائیں جو قرآن وحدیث اور فقہ میں آئی ہیں فی الفور ملک میں نافذ کی جائیں“۔
مولوی صادق صاحب کے اس مطالبے سے ہمیں سرمو اختلاف نہیں‘ لیکن صادق صاحب کے نزدیک چونکہ فقہ غیر معتبر ہے اور اس کے مٹانے کے لئے وہ سنت کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں اس لئے انہیں فقہ کا نام نہیں لینا چاہئے۔

۱۲:․․․اس کے بعد فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ بدعتی آدمی کا نہ روزہ قبول کرتاہے نہ نماز ‘ نہ زکوٰة‘ نہ حج ‘ نہ عمرہ اور بدعتی اسلام سے اس طرح خارج ہو جاتاہے‘ جس طرح گوندھے ہوئے آٹے سے بال باہرکردیا جاتاہے“۔ (ابن ماجہ)

یہاں عرض یہ ہے کہ اگر بدعتی اسلام سے خارج ہوجاتاہے تو پھر ان اہل بدعت راویوں کا کیا ہوگا جن کی روایتوں سے صحاح ستہ بھری پڑی ہے‘ سنن کی کتابیں چھوڑ کر ہم صرف ان بدعتی راویوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں‘ جن سے امام بخاری اور امام مسلم یا ان دونوں میں کسی ایک نے روایت کی ہے۔
علامہ سیوطی تدریب الراوی ص:۳۲۹‘ ج:۱) طبع ثانی اور طبع اولیٰ ص: ۲۱۹ میں فرماتے ہیں:
” اردت ان ابردہنا من رمی ببدعتہ ممن خرج البخاری ومسلم او احدہما وہم ابراہیم بن طہمان ایوب بن عائذ الخ “۔
علامہ سیوطی نے ایسے رواة کی ایک لمبی چوڑی فہرست نقل کی ہے اور اس سلسلہ میں تراسی افراد کو نام بنام گنوا کر آخر میں فرماتے ہیں:
”فہولاء المبتدعة ممن اخرج لہم الشیخان او احدہما“ ۔
یعنی یہ وہ متبدع رواة ہیں جن سے شیخین (امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ تعالیٰ یا ان دونوں میں سے کسی ایک نے اپنی کتاب میں روایت کی ہے‘ اگر یہ رواة اپنی بدعت کی وجہ سے العیاذ باللہ! کافر ہوگئے اور اسلام سے گوندھے ہوئے بال کی طرح نکل گئے تو پھر آپ امام بخاری اور امام مسلم کی ان حدیثوں کو کیوں نہیں نکال دیتے؟ کیونکہ کافر کی کوئی روایت مقبول نہیں ہے اور اس صورت میں صحیح بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہنا کیسے صحیح ہوگا؟ جبکہ اس میں مولوی صادق صاحب کی تقریر کے مطابق کافر راویوں سے بھی روایات لی گئی ہیں‘ یہی حال صحیح مسلم اور باقی سنن کی کتابوں کا بھی ہوگا۔
نیز زیدیہ بدعتی ہیں‘ جیساکہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا قول ہم عقد الجید سے نقل کر چکے ہیں:
”الا مذہب الامامیة والزیدیة وہم اہل البدعة لایجوز الاعتماد علی اقاو یلہم“ علامہ شوکانی زیدی ہیں‘ لہذا وہ بھی بدعتی ہوا۔

اب ابن ماجہ کی اس حدیث کی روشنی میں ان کا مقام متعین کرنا مولوی محمد صادق صاحب دامت برکاتہم کا کام ہے‘ نیز نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم اپنی کتابوں میں جابجا علامہ شوکانی کے لئے بڑی عزت کے القاب ذکر کرتے ہیں‘ کیا نواب صاحب مرحوم ”من وقر صاحب بدعة فقد اعان علی ہدم الاسلام“ کے تحت آئیں گے یا نہیں۔ نواب صدیق حسن اکثرعلامہ شوکانی کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں‘ حالانکہ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: ”لایجوز الاعتماد علی اقاویلہم“ امامیہ اور زیدیہ کے اقوال پر اعتماد جائز نہیں ہے۔

صادق صاحب ایک حدیث کا ترجمہ فرماتے ہیں ملاحظہ ہو:
”مشکوٰة میں حضورا نے فرمایا: مردے دعا کے لئے‘ اللہ تعالیٰ زندوں کی دعا کے سبب مردوں کو پہاڑ کے برابر ثواب پہنچاتاہے“۔

مولوی صادق صاحب کی علمی استعداد ملاحظہ ہو‘ کیسے شاندار ترجمہ فرمایا کہ معنی کچھ بھی سمجھ میں نہ آئے۔ صادق صاحب! یہ حدیث کا ترجمہ کیا ہے یا کوئی جنترمنتر لکھ دیا ہے‘ خدا کے بندے ! جب خود ترجمہ کرنا نہیں آتا تو اس میں شرم کی کیا بات ہے؟ کسی سے پوچھ لیا ہوتا‘ علم کے حصول میں عار نہیں کرنا چاہئے۔

۱۴:․․․آگے فرماتے ہیں:
”نذر ونیاز چڑھاوا عبادت ہے اور عبادت غیراللہ کے لئے حرام ہے“۔ (کتب فقہ)
مسئلہ کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں‘ لیکن صادق صاحب کو فقہ کی کتابوں کا نام نہیں لینا چاہئے‘ کیونکہ وہ تو اس کے مٹانے کے درپے ہیں‘ چند دنوں کے بعد ہم اسی خبر کے منتظر ہیں کہ صادق صاحب نے فتاویٰ نذیریہ وغیرہ سب دریا برو کر دی ہیں‘ صادق صاحب کو صرف سنت کا نام لینا چاہئے‘ کیونکہ وہ ابھی ابھی سنت کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں۔

۱۵:․․․صادق صاحب فرماتے ہیں:
”چونکہ لوگ دور دراز مقامات سے کار ثواب سمجھ کر نبیوں اور بزرگوں کی قبروں پر آتے تھے‘ کوہ طور کا سفر بھی کرتے تھے‘ ان جگہوں پر میلے لگاتے تھے ‘عرس کرتے تھے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تمام سفروں کو ناجائز اور حرام قرار دیا“۔
صادق صاحب! ان امور کے خلاف شریعت ہونے میں کوئی شک نہیں‘ لیکن آپ جس حدیث یعنی حدیث شدرحال سے استدلال کرتے ہیں‘ یہ استدلال تام نہیں ہے۔ مسند احمد میں مستثنیٰ منہ مسجد موجود ہے‘ لہذا منع دیگر مساجدکی طرف سفر کرنے سے ہے‘ یہ دوسرے اسفار کی ممانعت آپ نے کہاں سے مستنبط کی‘ نیز ہم تو سمجھتے تھے کہ عرس وغیرہ بہت بعد کی پیداوار ہیں‘ آپ نے اس کو بعثت نبوی اسے پہلے بھی ثابت کیا‘ ذرا بتایئے صحاح ستہ کی کون سی حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ا کے زمانے میں یا اس سے قبل عرس ہوا کرتے تھے۔

۱۶:․․․ صادق صاحب کا ایک نیا انکشاف ملاحظہ ہو: اسی شمارہ ․․․میں فرماتے ہیں:
”اسلام دودھ پینے والے مجنون سے نفرت کرتا ہے اور نفس کا خون پینے والے مجنون کو سینے سے لگاتاہے“۔

صادق صاحب! ذرا یہ تو بتایئے کہ اسلام میں دودھ کا پینا کب سے حرام ہوا؟ کہ اسلام اس کے پینے والے سے نفرت کرے اور خون کا پینا کب حلال ہوا کہ اسلام اس کے پینے والوں کو سینے سے لگائیں‘ ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ خون آپ کے نزدیک پاک ہے۔
ملاحظہ ہو: دلیل الطالب مؤلفہ نواب صدیق حسن خان مرحوم‘ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ کے نزدیک اس کا پینا بھی حلال ہے‘ نواب صاحب نے خون کے پینے کو حلال نہیں کیا‘ آپ بتایئے کہ: یہ حکم قرآن کریم کی کس آیت اور صحاح ستہ کی کس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

دیکھئے! اسلامی نظام کا ہر مسئلہ کسی آیت یا حدیث پر مبنی ہونا چاہئے اور آپ تو ماشاء اللہ ابھی ابھی سنت کے ہاتھ پر بیعت ہوچکے ہیں‘ آپ کی ہر بات سنت کے موافق ہونی چاہئے اور ”من کذب علیّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار“ کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔

۱۷:․․․صادق صاحب فرماتے ہیں :
”پس بدعات کو بھی خلافِ قانون قرار دے کر مرتکب کے لئے کوڑوں کی سزا قید اور جرمانہ ہونا چائے“۔

مولوی صاحب! جہاں تک بدعات کے خلاف قانون قرار دینے کا مطالبہ ہے‘ اس میں ہم سو فیصد آپ کے ہمنوا ہیں‘ لیکن ذرا مہربانی فرما کر مذکورہ بالا سزاؤں کے لئے کوئی دلیل پیش کیجئے! بدعات پر کوڑوں‘ قید اور جرمانے کی سزا کس آیت اور صحاح ستہ کی کس کس حدیث سے ثابت ہے‘ خاص کر یہ جرمانے کی سزا اس کے بارے میں ضرور کوئی دلیل پیش کریں‘ تاکہ اسلامی نظریہ کی کونسل کو ہم مطمئن کرسکیں کہ دیکھئے فلاں حدیث سے اس کا ثبوت ہوتا ہے‘ کیونکہ اسلامی قانون کی ہر دفعہ قرآن وحدیث پر مبنی ہونی چاہئے‘ ورنہ ہم یہی سمجھیں گے کہ العیاذ باللہ! مولوی محمد صادق صاحب سیالکوٹی ایک ایسے نئے دین کی بنیاد رکھ رہے ہیں جس کا دینِ محمدی ا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
واللہ ہو الہادی الی سبیل الرشاد
 
Top