دودھ کا قرض دیپک کنول ممبئی

  • موضوع کا آغاز کرنے والا قاسمی
  • تاریخ آغاز
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
[
size=xx-large]دودھ کا قرض[/size]​

مہرو دین سات سال پہلے بڑی خوشحال زندگی بسر گزار رہا تھا ۔ اس کے پاس دس پندرہ سے زیادہ ڈھورڈنگر تھے۔ چار مکئی کے کھیت تھے۔ ایک اچھا بھلا کوٹھا تھا جہاں وہ اپنی بیوی گل بانو کے ساتھ اچھے خاصے دن گزار رہاتھا۔ اس کا چاچا نور خان بڑا بد نیت، بے ایمان اور شاطر آدمی تھا۔ خود تو کچھ کرتا دھرتا نہیں تھا بس ہر دم مہر و دین کی چھاتی پرسوار رہتا تھا۔ مہرودین بڑا نیک او ر شریف بندہ تھا۔ وہ نور خان کو اپنا سمجھ کر اس پرتوکل کر کے بیٹھا تھا۔ اس کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اس کا چاچا اس کے لئے تباہی و بربادی کا فرمان لے کر آئے گا۔ ہوا یوں کہ نور خان نے اس علاقے کے پٹواری سے سانٹھ گانٹھ کر کے نہ صرف مہرو دین کے کھیت کھلیان ہتھیا لئے بلکہ اس کے آدھے سے زیادہ ڈھورڈنگر بھی اپنے حصے میں کر لئے۔ مہرو دین لاکھ سر پٹختا رہا ۔با رہمولہ کی تحصیل میں جاکر، تحصیلدار کے سامنے روتا گڑگڑاتا رہا پر اس سارے خشوع خضوع کے باوجود کسی نے اس کی داد فریاد نہ سنی اور وہ روتا پیٹتا گھر چلا آیا۔
مہرو دین ، کئی روز تک اپنی بربادی کا سوگ مناتا رہا۔ نور خان نے کس عیاری کے سا تھ اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا۔ ڈائن بھی دس گھر کے کھاتی ہے۔ پر اس خبیث نے تو جس تھالی میں کھایا تھا اسی میں چھید کیا تھا۔ مہرودین کا بس چلتا تو وہ نور خان کو فنا کے گھاٹ اتار دیتا پر سچ بات تو یہ تھی کہ وہ اندر سے بڑا کمزور اور ڈرپوک آدمی تھا۔ زندگی میں اس نے ایک چیونٹی تک نہ ماری تھی وہ بھلا نور خان کو کیا ماردیتا۔ وہ تو بس قہر درویش برجان درویش کے مصداق اندر رہی اندر خون کے گھونٹ پیتا رہا۔
مہرو دین کا کوٹھا اوڑی کی ایک خوبصورت پہاڑی پر واقع تھا جس کے چاراطراف چیڑھ کے شاداب پیڑ سنتریوں کی طرح ہر دم سینہ تانے کھڑے رہتے تھے۔ سامنے دور تک پھیلی ہوئی ایک گل پوش چرا گاہ تھی جہاں بہت سارے ڈھورڈنگر گھاس چرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ وہ جب ان چوپایوں میں اپنے وہ ڈھورڈنگر چرتے ہوئے دیکھتا تھا جو نور خان نے بے ایمانی کر کے اس سے ہتھیالئے تھے تو اس کے سینے میں جیسے برچھیاں اتر جاتی تھیں او روہ اپنے ان مویشیوں کو دیکھ کر اپنی چھاتی پیٹنے لگتا تھا۔ گل بانو اس کی یہ حالت دیکھ کر من مسوس کر رہ جاتی تھی۔
ایک دن گل بانو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔’’ منے اک گلدسو۔تنے رب پر بھروسو ہے؟‘‘ مہرودین نے آنکھیں پونچھ کر اثبات میں سر ہلایا۔ گل بانو اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر بولی: ’’ جدتنوں اپنے رب پہ بھروسو ہے تو پھر تو دل چھوٹو کرکے کیوں بسن لگے ہو۔ ماری اک گل سن۔ اج ساڑھے قول کچھ نہیں پر اک گل یا د رکھ جسنے کو،رو دیو وا گھوڑو بھی دیوگا۔‘‘ مہرو دین نے تعریفی نظروں سے گل بانو کی طرف دیکھا جو ان پڑھ گنوار ہونے کے باوجود بڑی عقل کی باتیں کرتی تھیں۔ مہرو دین اب اپنی دو بچی کچی بھینسوں پر دھیان دینے لگا جن میں ایک کانام کالی تھا اور ایک کا نام بدری تھا۔ بدری میں اس کی جان بسی تھی۔ سرمئی رنگ کی بدری جب چلتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے کوئی مہارانی چل رہی ہو۔ اس کے چلنے میں ایک ادا تھی ، اس کی آنکھوں میں ایک کشش تھی۔ وہ جب کجراری آنکھوں سے مہرودین کی طرف دیکھتی تھی تو مہرو دین کواپنی ماں بلقیس یاد آجاتی تھی۔ اس کی آنکھیں بھی ایسی ہی کجراری تھیں۔ بدری بڑی اصیل اور سندر تھی۔ اس کے سامنے مہرودین چلا جائے یا گل بانو وہ دونوں کو بڑے پیار اور دلار سے نہارتی تھی۔ کیا مجال جو آج تک اس نے ان دو میں سے کسی کولات ماری ہو یا سینگ دکھائے ہوں۔ گل بانو جب اسے دوہنے جاتی تھی تو وہ تب تک وہ ہلتی ڈھلتی نہیں تھی جب تک گل بانو اس کے تھن سے دودھ کی آخری بوند تک نچوڑ کر نہیں چلی جاتی تھی۔ اتنا ہی نہیں۔ وہ مہرودین کے ہر اشارے کو سمجھتی تھی۔ اس نے اپنی بدری کو اس طرح ٹٹکاری پر لگا دیا تھا کہ وہ جہاں بھی ہوتی، اس کی ایک آواز پر دوڑتی ہوئی چلی آتی تھی۔
جب نور خان چاچا نے دھوکے سے بٹوارہ کرالیا تو اس کی نظر بدری پر تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بدری اچھی نسل کی بھینس ہے۔ اگر وہ اس کے حصے میں آگئی تو اس کے پوبارہ ہو جائیں گے۔ بدری ساری بھینسوں میں سب سے زیادہ دودھ دیتی تھی۔ جب بٹوارے کی گھڑی آگئی تو نور خان نے جوڑتوڑ کر کے بدری کو اپنے حصے میں کر لیا۔ مہرودین بدری کے چھن جانے کے ا حساس سے اپنا کلیجہ پیٹنے لگا۔ اس نے خوب واویلا مچایا ،پٹوار ی کے پاؤں پکڑے ، بستی کے چودھری کے آگے سر پٹخا مگر کسی نے اس کی آہ و زاری پر دھیان نہ دیا اور نہ ہی کسی نے اس کی طرفداری کی۔ نور خان نے سب کی منہ بھرائی کی تھی اس لئے یہاں بھی وہی بازی مار گیا۔جب وہ ڈنگر لے جانے لگا تو بدری اڑ کر نیچے بیٹھ گئی۔نور خان اس پر ڈنڈے برساتا رہا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ادھر اس پر لاٹھیاں برس رہی تھیں ادھر نور خان کا کلیجہ پھٹا جا رہاتھا۔ بدری پر پڑنے والی ہر چوٹ پر وہ بلبلا اٹھتا تھا۔اسے ایسالگ رہاتھا جیسے وہ بدری کونہیں مار رہے ہوں بلکہ اسے چوٹ پہنچا رہے ہوں۔ نور خان کے سارے حمایتی بدری کو مارتے پیٹتے رہے مگر وہ چار چوٹ کی مار کھانے کے باوجود مہرو دین کا دوار چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھی۔ جب ساری کو ششیں بے کار ثابت ہونے لگیں تو بستی کے چودھری شہنواز خان نے یہ صلاح دی کہ نور خان بدری کے بدلے دوسری بھینس لے کر جائے۔ نور خان چوں چپڑ کرنے لگا تو چودھری نے اسے ڈانٹ ڈپٹ دیا۔ چودھری کی ڈانٹ کھا کر وہ ڈھیلا پڑ گیا اور دوسری بھینس لینے پر آمادہ ہو گیا۔
ہر طرف تو اسی کا فائدہ ہو رہاتھا ، وہ بھی ہینگ لگے نہ پھٹکری ، رنگ بھی آئے چوکھا۔ مہر و دین بیچارے نے زندگی بھر محنت و مشقت کر کے یہ چھوٹی سی دنیا آباد کی تھی جس پر نور خان نے شب خون مارا تھا۔ ایک تو برسوں برس مفت کی روٹیاں توڑتا رہا اوپر سے مہرودین کی ساری دنیا ہی اجاڑ کر چلا گیا۔ وہ کہتے ہیں نا انڈے سئے بی فاختہ بچے کوے کھائیں ۔ نور خان بھی اپنے بھتیجے کی زندگی بھر کی کمائی دھوکہ دھڑی اور بے ایمانی سے لوٹنے میں کامیاب ہوا تھا اس لئے اس نے فوراً چودھری کی بات مان لی اور اس طرح بدری اپنے کھونٹے سے الگ نہ ہو سکی۔ اس دن مہرودین بدری کے گلے سے لگ کر چھاجوں رویا۔ ایسے جیسے اس کی ماں بدری کے روپ میں کھڑی ہواور اس کے دکھ درد سے بڑی دکھی اور پریشان ہو اور وہ اپنے بچے سے کسی بھی قیمت پر جدا ہونے کے لئے تیار نہ ہو۔ جب سے مہرودین اور گل بانو کے دلوں میں بدری کی عزت اور عقیدت اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ مہرودین کبھی کبھی فرط محبت سے بدری کو چومتے ہوئے گل بانو سے کہتا تھا۔ ’’منے تو پکو یقین ہے کہ یہ بدری ماری اما ں کی روح لئے گھوم رہی ہے۔‘‘
بدری واقعی ایک ماں کی طرح ان دونوں کی سنبھال رہی تھی۔ آج بھی سب سے زیادہ وہ دودھ ہی دیتی تھی جسے بیچ کر مہر و دین کے گھر کا گزارہ چل رہا تھا۔ نور خان، مہرودین کی زندگی میں اس طرح کھلے عام ڈاکہ ڈال کر نہ ہی نادم و پشیمان دکھائی دے رہا تھا اور نہ ہی اسے مہرو دین پر ترس آ رہا تھا۔ وہ اب بھی مہرودین کے پیچھے ملک الموت کی طرح لگا تھا۔ اب بھی اس کی نگاہیں بدری پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ بدری کو اس کی وفا داری کا مزہ چکھانا چاہتا تھا۔ ایک دن بدری کالی کے ساتھ چرتے چرتے بہت آگے نکل گئی۔ نور خان تاک میں بیٹھا تھا۔ اس نے آگے پیچھے جب کسی کونہ پایا تو اس نے بڑی بے رحمی سے بدری کی ایک ٹانگ توڑ ڈالی۔ بدری تڑپڑا کر نیچے بیٹھ گئی۔ گل بانو نے جب بدری کو غائب پایا تو اسے فکر و تشویش ہونے لگی۔ وہ ہر روز سورج ڈھلتے ہی لوٹ کے آجایا کرتی تھی۔ اس نے ادھر ادھر بدری کو تلاش کیا وہ کہیں نہ ملی۔ ا س کا دل بیٹھا جانے لگا۔ مہرو دین شام کو جب اوڑی کے بازار سے گھر لوٹا تو گل بانو کو باہر پریشانی کے عالم میں کھڑا پایا ۔ مہرودین نے گھبرا کے پوچھا۔ ’’کے دلیل ہے؟‘‘
’’ بڑو قہر ہو گئیو۔ بدری پتو نہیں کتھونس گئی۔کالی تو کار آگئی پر بدری کت گئی، کچھ پتو نہیں۔‘‘ اس خبر سے مہرو دین کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ وہ مری ہوئی آواز میں گل بانو سے بولا۔’’بدری کت جا سکدی ہے۔ وہ کدی یوعلاقوچھڑکے نہیں گئی۔اج کت تڑ گئی؟‘‘
’’ کے خبر کتھوں نس گئی‘‘
مہرو دین نے سارا سامان نیچے پھینک کر بھوکا پیاسا بدری کی تلاش میں نکل پڑا۔ شام کے سیاہ دھندلکے پھیلتے جا رہے تھے۔ مہر دین پاگلوں کی طرح بدری کو کبھی نام سے بلا بلا کر ڈھونڈ رہا تھا اور کبھی سیٹی مار مار کر اسے تلاش کرتا پھر رہا تھا۔ جو ں جوں اجالا سیاہی میں ضم ہوتا جا رہا تھا اس کادل بیٹھا جا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر بدری نہ ملی تو وہ اس کے بنا پھر کیسے جی پائے گا۔ اس کا گھر کیسے چلے گا۔ بہ بدری کویاد کرتے ہوئے رونے لگا۔ وہ روتاجا رہاتھا اور ان سے دور رہ ہی نہیں سکتی ہے۔ وہ ادھر ادھر کہیں بھٹک گئی ہوگی۔ وہ آج نہیں تو کل ضرور لوٹ آئے گی۔ جو بھینس اپنے دوار کو مار کھانے کے بعد چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو وہ بھلا گھر سے دور کیسے رہ سکتی ہے۔ ضرور وہ کہیں دور نکل گئی ہوگی۔ وہ بدری بدری چلاتا ہوا اچانک ایک کھائی میں اسے بدری کی آواز سنائی دی۔ وہ خوشی سے اچھل پڑا اور اس سمت دوڑنے لگا جہاں سے اسے بدری کی آواز سنائی دی تھی۔
وہ جب بدری کے قریب پہنچا تو اس نے کیا دیکھا کہ وہ نیچے بیٹھی ہوئی ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ وہ بے ساختہ اس سے لپٹ کر رو پڑا اور شکایت بھرے لہجے میں بولا۔ ’’ہائے تو اتھے کے کر رہی ہے۔ تنے پتو ہے مجارو کے حال ہو گئیو ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اس کے بدن پر ہاتھ پھیرنے لگا ، اچانک اس کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ اس کاہاتھ خون سے بھیگ گیا تھا۔ وہ تڑپ کر بدری کی ٹانگ کو ٹٹولنے لگا۔ یہ دیکھ کر اس کا آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ بدری کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی۔ وہ بدری کا یہ حال دیکھ کر اپنا سر پیٹنے لگا اور زور زور سے چلانے لگا ۔ اتنے میں گل بانو اپنے ساتھ ایک دو پاس پڑوسیوں کے ساتھ پہنچی۔ وہ بھی بدری کی یہ حالت دیکھ کر چھاتی پردودو ہتڑ مار کر رونے لگی۔
سب لوگوں نے مل کر بدری کو کھڑا کر دیا اور پھر وہ سارے لوگ اسے کھینچتے کھانچتے کوٹھے تک لے آئے۔ رات بہت گہری ہو چلی تھی۔ مہر ودین کی بھوک و پیاس چین و آرام سب کچھ لٹ چکا تھا۔ بہ بسری کے حکیم شجاعت علی کے پاس بھاگا اور اس کے کئی جڑی بوٹی لے کے آیا۔ اس کا لیپ تیار کروا کے اس نے وہ لیپ بدری کی کٹی ہوئی ٹانگ پر لگا دیا اور پھر اس ٹانگ کو موٹے کپڑے سے باندھ لیا۔ بدری کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ شاید اسے بہت پیڑا ہو رہی تھی پر و ہ بے زبان اپنا دکھ بیان نہیں کر سکتی تھی۔ مہر و دین اس کی پیڑا کو شدت سے محسوس کر رہا تھا اس لئے وہ گھڑی گھڑی گردن پر ہاتھ پھیر کر اسے چوم رہا تھا، اسے پچکار ریا تھا۔ کئی روز کی کڑی محنت کے بعد بدری کا گھاؤ تو بھر گیا مگر ٹانگ ناکارہ ہو گئی۔ اب وہ کھڑی تو ہو سکتی تھی پر پہلے کی طرح چل پھر نہیں سکتی تھی۔ پیچھے کی بائیں ٹانگ اب ایک بوجھ کی طرح بدن سے لٹکی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ مہرودین بدری کی یہ حالت دیکھتا تو اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا۔ بار بار ایک ہی سوال اس کے من میں اٹھتا تھا۔ کیا بدری اب باقی کی زندگی اپاہج بن کر جئے گی؟کیا وہ پہلے کی طرح اب کبھی قلانچیں بھرتی ہوئی نظر نہیں آئے گی؟یہ سوال اس کے دل و دماغ کو پراگندہ اور پریشان کرتے رہتے تھے۔
بدری نے اب دودھ دینا بند کر دیا تھا۔ وہ اب چرنے کے لئے بھی چراگاہ میں نہیں جا سکتی تھی۔ یہ تو مہرودین تھا جو ا پنی بدری کے لئے جنگل سے گھاس کاٹ کاٹ کے لے آتا تھا اور بڑے پیارسے اس کے سامنے رکھ دیتا تھا۔ بدری تشکر بھری نظروں سے مہرودین کو گھورتی رہتی تھی۔ گل بانو شروع شروع میں بدری کے ناز و نخرے اٹھایا کرتی تھی مگر دھیرے دھیرے اس کا موہ مایا کم ہونے لگی اور اسے بدری بوجھ کی طرح لگنے لگی۔ وہ جب بھی بدری کو بیچنے کی بات کرتی تھی تومہرودین بھپر اٹھتا تھا۔ وہ گل بانو کو متنبہ کر کے کہتا۔ ’’ماری بدری کو کدی بوجھو مت سمجھنا۔ ماجد تک زندہ ہوں بدری دی خدمت کراں گو اوردوجی گل بھی سن لے۔ کدری بدری نوبیچن دا خیال بھی اپنو من مالان دی کوشش مت کرنا۔ بدری ات رہے گو ۔ اس کارتے چھڑکے کت نا جاوے گو۔‘‘ مہرودین کے تیکھے تیور دیکھ کر بانو سہم گئی۔ اس دن کے بعدوہ طوعاً و کراہاً بدری کو گوارہ کرتی رہی۔ کل تک جس بدری کو دیکھ کر وہ پھولے نہیں سماتی تھی اب وہی اس کی سوت کی طرح دکھائی دینے لگی۔
کہنے والے سچ ہی کہہ گئے ہیں۔بے فیض یوسف ثانی بھی ہوتو کس کام کا۔بے مطلب اپنے بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔ یہ تو ایک چوپائے تھا جسے پالنا آسان نہ تھا مگر مہرو دین بدری کاایسا دیوانہ تھا کہ وہ اس کی خاطر گل بانو سے بھی کنار کر سکتا تھا یہ بات گل بانو اچھی طرح جانتی تھی سو وہ مہرو دین کو خوش رکھنے کے لئے بدری کی دیکھ بھال سے مفر نہ ہو سکی۔ مہرودین کو اب بدری کا بدل ڈھونڈنا تھا۔وہ کالی کے سہارے زیادہ نوں تک جی نہیں سکتے تھے۔ کالی ایک تودودھ بہت کم دیتی تھی اور دودھ بھی بدری کی طرح کا گاڑھا نہیں بلکہ پتلا ہوتا تھا جس میں پانی ملانے کی گنجائش بہت کم ہوتی تھی ۔ ایسے میں جینے کے لئے کوئی نئی سبیل توڈھونڈ نی ضروری تھی سو ایک دن مہر ودین مزدوری کرنے اوڑی چلا گیا۔ جاتے جاتے وہ گل بانو کو تاکید کر کے گیا کہ وہ بدری کا پورا پورا خیال رکھے۔ اس کے جاتے ہی ، کالو خان نے گل بانو سے رجوع کیا۔ اس کے بیٹے کی شادی تھی۔ پکانے کے لئے گوشت کی ضرورت تھی۔ وہ اگر ہٹا کٹا بیل یا بھینس خریدنے نکلتا تو بھاؤسن کے اس کا دم نکل جاتا۔ نور خان نے گل بانو سے ملنے کی صلاع دی۔ وہ جانتا تھا کہ گل بانو بدری سے بیزار ہے اور وہ اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے سو کالے خان ، گل بانو سے ملنے چلا آیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ اصلی مدعے پر آگیا۔ اسنے گل بانو کو بھڑے پر چڑھا کر خریدنے کی بات چھیڑ دی۔ گل بانو کا من تو کر رہا تھا بدری سے پنڈ چھڑانے کا مگر مہرو دین کا خیال آتے ہی وہ ٹھنڈی پڑ جاتی تھی۔ اس نے کالے خان سے اپنی مجبوری بیان کرتے ہوئے کہا۔
’’سچ سچ دسوں، منے بھی اس لنگڑی سے بڑی چڑ ہون لگی ہے پر مسلویا ہے کہ مہرو اس لنگڑی کو اتنو پیار دلار کواہے کہ بیچن دی گل چھوڑ وااس نو ٹیڑھی اکھ نال دکھن دی اجازت نہیں دیو گو۔ پتو ن ہیں اس لنگڑی ما کے لب کے بیٹھو ہے۔ وایہ نہیں سوجد ا کہ اس لنگڑی کاکے بنے گو۔ کد تک وہ یہ بوجھو جھلے گو۔‘‘ کالے خان بھی بڑا شاطر آدمی تھا۔ وہ گل بانو کو سمجھاتے ہوئے بولا۔ ’’اک گل منے دس۔ کل کو اگر یہ مکی (مر)گئی تو واکے کرے گو،ماری گل من جا۔ اس بیس نومنے بیچ۔ مہرو جد آوے توکہہ دیو بدری مرگئی۔ میں بدری دی کھال تنے دے کے جاواں گا۔ اس کر کے مارو کم بھی ہوئے گو اور تھا ری گل بھی بن جاوے گو‘‘گل بانو کو کالے خان کی یہ تجویز پسند آگئی۔ اس نے سوچا کہ وہ مہرو کے آتے ہی خوب رونا دھونا کر ے گی اور مہرو سے کہے گی کہ بدری مرگئی۔ ثبوت میں وہ بدری کی کھال اسے دکھائے گی۔ مہرو کھال دیکھ کے یقین کرلے گا کہ بدری سچ مچ میں مرگئی ہے اور اس طرح ایک پتھر سے دو شکار ہو جائیں گے ۔ اسے بدری سے پیچھا بھی چھوٹ جائے گا اور کچھ رقم بھی ہاتھ میں آجائے گی۔ اس نے کالے خان کے ہاتھ آٹھ سو روپے میں بدری کا سودا کر لیا۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ بدری کالے خان کو پاس بھی پھٹکنے نہ دے گی سو وہ اسے بہلا پھسلا کر بہت دور تک لے گئی ۔ جب گل بانو کو لگا کہ اب کا لے خان بدری کو آسانی سے گھر تک لے جائے گا تو وہ اسے غچا دیکر نکل گئی۔ بدری بہت جلد اس چھل کو سمجھ گئی۔ اس نے کالے خان کو ادھر ادھر دوڑانا شروع کیا۔ اسے اتفاق کہئے یا معجزہ کہ اسی شام مہرودین گھر میں ٹپک پڑا۔ اسے دیکھ کر گل بانو کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ وہ اسے دل ہی دل میں کوستے ہوئے بولی کہ یہ مردود آج ہی کیوں نازل ہوگیا۔ مہرو نے آتے ہی بدری کے بارے میں پوچھا۔گل بانو بد حواس ہو کر اپنی چھاتی زور زور سے پیٹنے لگی۔ گل بانو کو اس طرح واویلا کرتے دیکھ کر مہرود ین کے ہوش اڑ گئے ، گھبرا کے پوچھا۔ ’’کے قہر ہوگئیو بانو؟‘‘
’’بدری ۔۔۔‘‘ وہ سیاپا کرتے ہوئے بولی’’ بدری مکی گئیو‘‘ یہ خبر سن کر مہرودین کچی دیوار کی مانند نیچے بیٹھ گیا اور مری ہوئی آواز میں گل بانو سے پوچھنے لگا۔’’وا تو بھلو چنگو تھو۔ یا قہر کیسو ہو گئیں؟‘‘
’’موت بھی کدی پوچھ کے آندی ہے۔ وقت برو بر تھو اس کر بدری مکی گئیو۔‘‘ مہرودین بدری کو یاد کر کے پھڑک پھڑک کے رونے لگا۔ وہ اس کھونٹے سے لپٹ گیا جس کے ساتھ بدری بندھی رہتی تھی۔ بہت دیر تک وہ زمین پر لوٹنے لگا۔ جب دم اکھڑنے لگا تو بدن ٹوٹنے لگا تو اس نے گل بانو کی طرف جارحانہ انداز سے دیکھتے ہوئے کہا۔’’ہون چل کے منے واقبر دکھا جدھر بدری کو دفن کردیوہے۔‘‘اب کے گل بانو چکرا گئی۔ اس کا جھوٹ پکڑا جانا طے تھا سو وہ آلے بالے ٹالے کرنے لگی۔ مہرو دین بی آسانی سے ٹہلنے والا نہ تھا سو وہ اس کے پیچھے پڑ گیا۔ گل بانو اب پھوٹ ہی پڑی۔ اس نے ، مہرو دین کے سامنے سارا سچ اگل دیا۔ اتنی بھیانک سچائی جاننے کے بعد مہرودین کا خون کھول اٹھا۔ وہ گل بانو پر بھوکے بھیڑیے کی مانند جھپٹ پڑا اور وہ اسے ہاتھوں سے لاتوں سے پیٹنے لگا۔ جب اس سے بھی دل کی بھڑاس نہ نکلی تو وہ اس کے جھونٹے کھسوٹ کھسوٹ کر اسے زمین پر پٹختا رہا۔ گل بانو چیختی رہی چلاتی رہی مگر مہرودین کے تیور دیکھ کر کسی نے بھی بیچ میں کودنے کی ہمت نہ کی۔ مہرودین کے سر پر تو خون سوار تھا۔ وہ گل بانو کو پٹخ پٹخ کے مارتا رہا۔ چار چوٹ کی مار کھانے کے بعدگل بانو بے ہوش ہو کے زمین پر گر پڑی۔ بدری کے اس انجام سے اس کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بے درد قصائی اس کی ماں کو ذبح کرنے لے گیا ہو پر اس میں ان کا کیا قصور ۔ جب اپنے ہی قصائی بن جائیں تو دوسروں کا کیا دوش۔
وہ بے تحاشہ کالے خان کے گھر کی جانب چلا جا رہاتھا ۔ وہ جب کالے کے گھر سے صرف چار ہاتھ کی دوری پر تھا اس نے دیکھا کہ ایک آدمی کاندھے پر بھینس کی کھال اٹھائے اسی کی اور بڑھ رہا تھا۔ مہرودین کو لگا جیسے کسی نے اس کے دل پر ہتھوڑا مار دیا ہو۔ کھال دیکھ کر اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ چکرا کے زمین پر گرا۔ وہ اپنی بدری کا یہ انجام ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا تھا اس لئے و ہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکا۔ تھوڑی دیر تک زمین پر تڑپنے کے بعداس کا دم نکل گیا۔ اس کی لاش گھر پر لائی گئی۔ گل بانو اس کی لاش کو دیکھ کر چھاتی پر دو ہتڑ مار کر سیاپا کرنے لگی۔عین اسی وقت ایک معجزہ ہو گیا۔ بدری لنگڑاتے ہوئے اندر آگئی اور سیدھے جاکے مہرودین کی لاش کے پاس کھڑی ہوگئی۔ اس کے پیچھے خون میں لت پت کالے خان ایس تبرا سناتے ہوئے آرہا تھا۔ بدری کو دیکھ کر سبھی دم بخود اور حیران رہ گئے۔ وہ زبان نکال کر مہرو دین کو چاٹنے لگی او رپھر اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ گل بانو نے آٹھ سو اٹھا کر بے حال کالے خان کے منہ پر ماردئے اور پھر وہ مہرو دین کے پاس بیٹھ کر بین کرنے لگی۔ بدری ٹکٹکی باندھے مہرودین کی لاش کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ اس کی آنکھوں سے اب بھی آنسو رواں تھے۔
بشکریہ ذریں شعائیں
 
Top