مالم جبّہ… پاکستان کا بلند ترین سیاحتی مقام

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
یہ سطح سمندر سے 8 ہزار 7 سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے
سردیوں میں مالم جبہ برف کی موٹی سفید چادر اوڑھ لیتا ہے
دنیا بھر سے برفباری دیکھنے کے شوقینوں کی پہلی ترجیح مالم جبہ ہوتی ہے
یہاں سے 2 ہزار سال پرانے بدھا کے مجسمے اور دیگر تاریخی آثار برآمد ہوئے ہیں


اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو قدرتی حسن سے مالامال کرتے وقت بڑی فیاضی سے کام لیا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اپنی آنکھوں کو قدرتی مناظر سے خیرہ کرنے کیلئے شمالی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ مالم جبّہ پاکستان کی بلند ترین تفریح گاہ ہے جو سطح سمندر سے 8 ہزار 7 سو فٹ کی بندی پر واقع ہے۔ سردیوں میں مالم جبہ برف کی سفید چادر اوڑھ لیتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہ پاکستان کا سب سے بڑا سیاحتی مرکز بنتا جا رہا ہے۔

پاکستان کو قدرت نے قدرتی حسن سے مالامال کرتے وقت بڑی فیاضی سے کام لیا ہے، اپنے بے پناہ قدرتی حسن کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں کا اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے کوئی جواب نہیں، یہ اپنی اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں لیکن حالیہ برسوں کے دوران جس جگہ نے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے وہ سیاحتی مقام مالم جبّہ ہے۔
سردیوں کے دوران مالم جبّہ برف کی سفید چادر اوڑھ لیتا ہے۔ یہ اب پاکستان میں سب سے بڑی سردیوں کی تفریح کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے۔ یہ سوات کی وادی میں واقع ہے اور سطح سمندر سے 8 ہزار 7 سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ دنیا کے بلند ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں یہ واحد سیاحتی اور تفریحی مقام ہے جہاں پر 800 میٹر بلند برف کی چوٹیوں سے پھسلا جا سکتا ہے۔ وادی سوات کے دوسری سیاحتی مقامات پر ناقص انتظامات اور انفراسٹرکچر کے باعث بہت کم سیاح آتے ہیں لیکن مالم جبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ پوری دنیا سے قدرتی مناظر دیکھنے کے شوقین افراد کی کوشش ہوتی ہے وہ مالم جبہ ضرور جائیں لیکن انہیں اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب انہیں مالم جبہ کے واحد 3 منزلہ ہوٹل میں کمرہ نہیں ملتا اور ان کی مالم جبہ دیکھنے کی خواہش دل میں ہی رہ جاتی ہے۔
مالم جبہ تاریخی قراقرم ہائی وے سے ذرا ہٹ کر ہے۔ یہ پشاور سے صرف 2 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ پشاور سے مالم جبہ کو جائیں تو راستے میں عظیم سلسلہ کوہ ہندوکش اور قراقرم کے سیاہ پہاڑ استقبال کرتے ہیں۔ راستے میں بل کھاتی ندیاں، سرسبز وادیاں اور چیڑ کے درخت ہمیں ایک عجیب دنیا میں لے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے بلند سیاحتی مقام ہے کیونکہ گلگت میں عام سیاحوں کا داخلہ سختی سے منع ہوتا ہے اور وہ صرف فوجی استعمال کیلئے مخصوص ہوتا ہے۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
وادی سوات میں مالم جبہ کے علاوہ اور بھی کئی سیاحتی مقامات ہیں وہ سب سیدہ شریف سے تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔ ان مقامات میں بدیان، بحرین، مرغزار اور کالام شامل ہیں۔ کالام سے تھوڑے ہی فاصلے پر مٹل تان کا مشہور قصبہ واقع ہے جو ان لوگوں کیلئے پرسکون جگہ ہے جو لوگوں کی بھیڑ سے دور بھاگتے ہیں، ایسے تنہائی پسند لوگ دریائے سوات کے کنارے تنہائی میں خوبصورت وقت گزار سکتے ہیں۔ وہاں پر البتہ قیام و طعام کیلئے زیادہ ہوٹل وغیرہ نہیں ہیں شاید ایک یا دو ہوٹل ہی ہیں، بجلی وہاں پر صرف رات کے اوقات میں دستیاب ہوتی ہے۔ مٹل تان سے جیپ پر 2 گھنٹے کی مسافت پر ’’ماہو ڈند‘‘ کی مشہور اور خوبصورت جھیل واقع ہے۔ پشتو زبان میں ماہو کا مطلب مچھلی اور ڈند کا مطلب جھیل ہوتا ہے اس طرح ماہو ڈنڈ کا مطلب مچھلی والی جھیل بنتا ہے۔ اس جھیل پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو جھیل کے دوسری طرف جو پہاڑ نظر آتے ہیں وہ دو وادیوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ اگر وہاں پر خوش قسمتی سے مقامی رہنما یا گائیڈ مل جائے تو وہ پہاڑوں کے دوسری طرف چترال تک آسانی سے لے جاتا ہے۔ چترال اپنے تاریخی کالاش عوام کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ کالاش قبیلہ 4 ہزار سال سے یہاں پر رہ رہا ہے، ان کی اپنی تہذیب اور رہن سہن کا انداز ہے۔ اس قبیلے کے لوگوں نے صدیوں سے اپنی روایات کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے اور وہ اپنی روایات پر فخر کرتے ہیں۔
برفباری کے دنوں میں مالم جبہ کو جانے والے راستے برف کے باعث بند ہو جاتے ہیں، کرینوں اور دیگر بھاری مشینری کے ذریعے ان راستوں کو کھولا جاتا ہے۔ مالم جبہ کے راستے میں تمام پہاڑ اور درخت برف سے ڈھکے ہوتے ہیں جو دیکھنے والے سیاحوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ پاکستان ٹوارزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے اہلکار بھاری مشینری کے ساتھ ہمہ وقت مستعد اور چوکس رہتے ہیں تاکہ برف سے بند ہو جانے والے راستوں کو فوری طور پر کھولا جا سکے اس لئے اب راستے زیادہ دیر کیلئے بند نہیں ہوتے۔ پی ٹی ڈی سی کے اہلکار وقتاً فوقتاً ان راستوں کو صاف کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس طرح کے اقدامات نے سیاحوں کو راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مالم جبہ صرف فطرت کے حسین مناظر سے ہی مالامال خطہ نہیں ہے یہاں سے 2 ہزار سال پرانے تاریخی آثار ملے ہیں ان میں بدھا کے مجسمے اور دیگر تاریخی آثار ملے ہیں۔ یہاں سے ملنے والے بدھ مت کی تہذیب کے آثار سکندر اعظم سے بھی پرانے ہیں۔ مالم جبہ سے ملنے والے تاریخی آثار اور ٹیکسلا سے ملنے والے تاریخی آثار میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی تہذیب سے ہے۔ وہاں پر بہت خوبصورت ٹریکنگ ٹریک بھی ہیں ان میں سے ایک ٹریک گھوربند سے شانگلہ وادی کو جاتا ہے۔ یہ بل کھاتا ہوا راستہ 18 کلومیٹر تک طویل ہے، دوسرا راستہ وادی سابونی کو جاتا ہے جس کے ساتھ ساتھ سیب، آڑو اور چیڑ کے باغات ہیں۔
وادی سوات میں مالم جبہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سیاحوں کی طرف سے دلچسپی کو دیکھتے ہوئے حکومت بھی وہاں پر ترقیاتی کاموں میں بھرپور دلچسپی لے رہی ہے۔ مالم جبہ سے کھڑے ہو کر پوری وادی اور اس کے خوبصوت مناظر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے جہاں پر وادی کا حسن سیاحوں کیلئے طلسماتی کشش رکھتا ہے۔ مالم جبّہ میں سیاح آتے ہیں تو وہ برفباری سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سیاح وہاں پر برف کے گولے بنا کر ان سے کھیلتے ہیں اور وہاں پر برف کے مجسمے بناتے ہیں۔
مالم جبّہ کی ایک اور خصوصیت وہاں کے لوگ ہیں جو بہت زیادہ مہمان نواز ہوتے ہیں۔ وہ سیاحوں کی ہر طریقے سے مدد کرتے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی کا کوئی جواب نہیں، وہ سیاحوں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
تصاویر کے آئینے میں

image014.jpg


image013.jpg


image016.jpg


image010.jpg
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
راجہ بھیا بہت خوب
واقعی قابل دید مناظر ہیں۔
 
Top