میرا قیمہ بنا دو

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
میں ٹولنٹن مارکیٹ میں چھوٹے گوشت کی ایک دکان پر کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا اور کچھ اس قسم کے ’’جذباتی‘‘ سوال جواب سن رہا تھا۔

’’نسیم بھائی پہلے میرا قیمہ بنا دیجیے‘‘ ایک خاتون کہہ رہی تھیں۔’’بہن جی آپ فکر ہی نہ کریں، میں آپ کا ایسا قیمہ بنائوں گا کہ آپ یاد کریں گی …!‘‘’’ذرا جلدی کریں نسیم بھائی۔‘‘’’بس آپ کھڑی رہیں۔ آپ کے کھڑے کھڑے میں آپ کا قیمہ بنا دوں گا۔‘‘’’قیمہ روکھا بنائوں یا موٹا …‘‘’’ روکھا ٹھیک رہے گا لیکن میں ذرا جلدی میں ہوں۔‘‘’’بہن جی یہ قریشی صاحب کا قیمہ ہے یہ والا جو میں کوٹ رہا ہوں، اس کے بعد ان شاء اﷲ آپ کا قیمہ بنے گا۔‘‘’’نسیم صاحب … مغز چاہیے، مل جائے گا؟‘‘ ایک صاحب دریافت کرتے ہیں۔’’کیوں نہیں جناب … یہ ہمارے لیڈران کرام تھوڑی ہیں، بکرے ہیں۔ ان میں بہت مغز ہے، ابھی دیتا ہوں۔‘‘’’اور میرے گردوں کا کیا ہوا؟‘‘ ایک آواز آتی ہے۔’’یہ والے!‘‘ نسیم کا بھائی جو شکل سے ہیرو لگتا ہے چند گردے فضا میں بلند کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’آپ کے گردے ہیں … ابھی نکالے ہیں، بنا کر دیتا ہوں۔‘‘’’اور میری ران …‘‘’’یہ رہی آپ کی ران، بالکل نرم اور تازہ تازہ‘‘۔’’اور میری سری …‘‘’’ابھی توڑتا ہوں …‘‘’’ایک صاحب جو آرڈر دے کر جا چکے تھے، واپس آکر پوچھتے ہیں’’یار ابھی تک میرا گوشت نہیں بنایا …‘‘’’اوہو آپ یہ بتائیں کہ آپ کی بوٹیاں کیسے کاٹوں! چھوٹی یا بڑی … میں پانچ منٹ میں آپ کا گوشت بناتا ہوں جناب … ہم آپ کا گوشت نہیں کاٹیں گے تو اور کس کا کاٹیں گے …‘‘بالآخر میری باری آتی ہے اور میں ایک مختصر سا آرڈر دیتا ہوں۔’’تارڑ صاحب‘‘ نسیم مسکراتے ہوئے کہتا ہے ’’اتنا گوشت تو پورے محلے کے لیے کافی ہو گا، کیا کریں گے؟ اتنے گوشت کو دیگ میں پکائیں گے؟‘‘’’بھائی آپ براہِ کرم جگتیں نہ کریں اور گوشت بنا دیں … اور یہ والی بوٹی تو اچھی نہیں ہے! یہ نہ ڈالنا۔‘‘’’یہ والی؟‘‘ … وہ بوٹی کو اٹھا کر اس کی نمائش کرتا ہے ’’یہ والی بوٹی تو بڑی جذباتی بوٹی ہے تارڑ صاحب …‘‘نسیم اپنے گوشت کے بارے میں ’’جذباتی‘‘ کا لفظ بے دریغ استعمال کرتا ہے … مثلاً جناب یہ گردہ ملاحظہ کیجیے بالکل جذباتی ہے … یہ چانپ جو آپ دیکھ رہے ہیں ، جذباتی ہو رہی ہے آہستہ آہستہ، یہ ران تو خیر ہے ہی جذباتی … ویسے میرے پاس غیر جذباتی گوشت بھی ہے لیکن آپ کو مزا نہیں آئے گا … وہ سامنے والا بکرا جو لٹک رہا ہے، وہ شہنشاہِ جذبات ہے اور بکری جو ہے، یہ ملکۂ جذبات ہے۔ اس کی ٹانگ پیش کروں؟‘‘گوشت کے بارے میں کالم لکھنا کچھ غیر ادبی سا فعل ہے لیکن کیا کیا جائے، یہ مہنگا ہوتا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کی ’’مسلمانی‘‘ کم ہوتی جارہی ہے۔ گوشت اور مسلمان لازم وملزوم ہیں … ہمارے گائوں میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ گوشت کھانے سے ایمان مضبوط ہوجاتا ہے، لوہے کی طرح… ظاہر ہے اگر گوشت مہنگا ہوگا تو کم کھایا جائے گااور اسی حساب سے’’ مسلمانی‘‘ کم ہوتی جائے گی۔ میں بھی اسی لیے فکر مند ہوں…گوشت کی قیمتوں میں یک دم اضافہ ہو گیا ہے اور کہیں سے احتجاج کا ایک لفظ سنائی نہیں دیا… سگریٹ مہنگے ہو جائیں تو چھوڑ دو، چائے مہنگی ہو جائے تو کم پیو۔ آٹامہنگا ہو جائے تو کیک کھا لیںلیکن گوشت تو کم نہیں کھایا جا سکتا… مجھے چونکہ گوشت کی قیمتوں میں اضافے کی خبر نہ تھی، اس لیے میں نے جیب میں پڑی رقم کے مطابق آرڈر دیا اور پھر بعد میں بل زیادہ بننے پر خوب خوب شرمندہ ہوا… آج گوشت کا بیاں چلتا رہے چنانچہ چھوٹے گوشت کی مارکیٹ سے باہر آجائیے۔ پنجاب پبلک لائبریری کے سامنے بڑے گوشت کی مارکیٹ ہے… یہاں بھی علم اور گوشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس مارکیٹ کے اندر بھی دکاندار تقریباً ایک ہی علاقے اور ایک ہی خاندان سے متعلق ہیں۔ ایک مرتبہ میرے والد صاحب جو انتہائی حساس طبیعت کے مالک تھے، گوشت خریدنے آئے۔ قصاب نے ایک بوٹی اٹھا کر کہا ’’چوہدری صاحب، بالکل بچے کی بوٹی ہے، بھون کے کھائیے، مزا آجائے گا‘‘۔ وہ دن اور آج کا دن والد صاحب کبھی بڑا گوشت خریدنے نہیں گئے۔ وہاں پر گوشت کے عجیب و غریب شوقین نظر آتے ہیں، ایسے شوقین جو پلائو کے لیے الگ گوشت منتخب کرتے ہیں اور کریلے پکانے کے لیے الگ۔ ان میں وہ حضرات بھی شامل ہوتے ہیں جو صرف سری پایوں کی تلاش میں یہاں آتے ہیں۔گوشت کھانا مسلمان کی اور خاص طور پر پاکستانی مسلمانوں کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ وہ خوشی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو بھنا ہوا گوشت کھائیں گے یا شکرانے کے طور پر ایک دو بکرے حلال کر دیں گے۔ اگر فوتیدگی ہو جائے تو بھی مہمانوں کی تواضح آلو گوشت سے کی جائے گی۔میرے ماموں اللّٰہ بخشے کہا کرتے تھے کہ بالکل گلا ہوا نرم گوشت کس کام کا جو نوچ نوچ کر کھایا جائے۔ایک چھوٹا سا قصہ ہے، جس میں گوشت کے بارے میں ہی کچھ بیاں ہے … میں اس وقت تقریبًا ۱۵ ۔۱۶ برس کا تھا اور پہلی مرتبہ ولایت جا رہا تھا۔ جہاز میں میرے برابر کی نشست پر ایک مولانا براجمان تھے۔ وہ خاصے معصوم تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ کیوں چچا جان آپ کس سلسلے میں انگلستان جا رہے ہیں تو کہنے لگے! بیٹا کافروں کو مسلمان کرنے جا رہا ہوں۔ میں نے پوچھا، آپ کو انگریزی آتی ہے؟کہنے لگے نہیں، جس نے مسلمان ہونا ہوگا اسے خودبخود میری زبان سمجھ آجائے گی…اُن دنوں ابھی جیٹ مسافر بردار طیارے اڑا نہیں کرتے تھے چنانچہ پنکھوںوالا جہاز بڑے مزے سے ہوائوں اور بادلوں سے اٹکھیلیاں کرتامنزل کی جانب جاتا تھا۔ ہم کراچی سے چلے اور پھر طہران، قاہرہ، ایتھنز وغیرہ میں رکتے روم پہنچے۔ روم میں دو گھنٹے کا سٹاپ تھا اور ائیرلائن کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ مسافر حضرات ہوائی اڈے کے ریستوران میں جا کر اپنی پسند کا کھانا تناول فرمائیں، بل کمپنی کے ذمے ہو گا۔ اس اعلان پر مسافر حضرات بے حد خوش ہوئے۔ میں بھی خوش ہوا اور مولانا تو بے حد خوش ہوئے کیونکہ ہمیں شدید بھوک لگی تھی۔ریستوران میں بیٹھے تو ایک خوبرو اطالوی خاتون ہاتھ میں مینو پکڑے ہمارے قریب آگئی… مولانا کھانسے اور نا پسندیدگی کا اظہار کیا، میں چونکہ ابھی بچہ تھا اس لیے مجھے کھانسی بالکل نہ آئی۔ میں نے اپنے لیے ایک عدد روسٹ چکن منگوا لیا اور اپنے ہم راہی سے دریافت کیا: ’’مولانا آپ کیا کھائیں گے؟‘‘ انھوں نے منہ بنا کر جواب دیا ’’اس گوری گوری لڑکی سے کہو کہ میرے لیے صرف ابلی ہوئی سبزیاں لے آئے کیونکہ گوشت تو یہاں پر حلال نہیں ہوگا‘‘ ۔اب میںنے تو اس معاملے کے بارے میں غور نہیں کیا تھاکہ یہاں گوشت کس قسم کا ہوتا ہے اور مجھے بھوک بھی بہت لگی ہوئی تھی۔ بہرحال میں نے ان کا آرڈر بھی دے دیا۔ آدھے گھنٹے بعد ویٹرس کھانا لے آئی… ایک ٹرالی پرمیرا روسٹ مرغ ابھی تک روسٹ ہو رہا تھا۔ اس کی خوشبو پورے ریستوران میں پھیلی تھی۔ مرغ کے گرد انڈے اور آلو کے کتلے اور سلاد وغیرہ بہار دکھا رہے تھے … یہ سب کچھ میرے آگے رکھ دیا گیا۔ پھر ویٹرس واپس گئی اور ایک چھوٹی سی پلیٹ مولانا کے آگے لا کر رکھ دی۔ اس میں ایک ابلی ہوئی گاجر اور ایک دو آلو تھے۔ سفری چچا جان نے گاجر کھانے کی کوشش کی لیکن ان کی نظریں میرے روسٹ مرغ پر سے اٹھائے نہ اٹھتی تھیں۔ میں مزے سے کھاتا جا رہا تھا اور وہ مجھے دیکھتے جا رہے تھے۔ بالآخر انھوں نے گرج کر کہا ’’برخوردار‘‘۔’’جی جناب‘‘ میں نے گھبرا کر جواب دیا۔’’یہ ہوٹل والی زنانی کو کہو کہ میرے لیے بھی یہی مرغ لے آئے، یہ شکل سے حلال لگتا ہے‘‘۔کہنے کا مطلب ہے کہ گوشت کھانے کے شوق میں ہم بعض اوقات اپنی مسلمانی کو بھی خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔لاہور کے ایک بہت ہی معروف ڈاکٹر صاحب اکثر بازار جا کر ایک بکرا خرید لاتے۔ گھر جا کر اسے خود ذبح کرتے، گوشت بناتے خود ہی بھونتے اور پھر اپنے بیٹوں کے ہمراہ ایک ہی نشست میں اسے چٹ کر جاتے۔ موصوف فرمایا کرتے تھے کہ گوشت ہونا چاہیے، چاہے گدھے کا ہی کیوں نہ ہو …میں نے مکان بنایا تو ایک مزدورتقریباً روزانہ شام کو مزدوری کی رقم وصول کرتا، اس کا گوشت خریدتا اور بھون کر کھا جاتا۔ میں خود اگرچہ کھانے پینے کا زیادہ شوقین نہیں لیکن گوشت کھائے ہوئے اگر دو چار دن گزر جائیں تو جمائیاں آنے لگتی ہیں اور اپنے مسلمان ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے … لیکن اب تو قیمت زیادہ ہونے سے ایسا لگ رہا ہے کہ قیمہ بکرے کا نہیں ہمارا اپنا بن رہا ہے … ہمارے گردے نکالے جا رہے ہیں اور مغز کھایا جا رہا ہے…اور وہ دن دُور نہیں جب ہم گوشت کی دکان پر جا کرقصائی کے آگے لیٹ کر کہیں گے ’’براہِ کرم میرا قیمہ بنا دیجیے۔

بشکریہ
اردو ڈائجسٹ
 
پ

پیامبر

خوش آمدید
مہمان گرامی
[]---[]---[]--- جذبات بھری بوٹیاں کیسی ہوتی ہوں گی۔؟ یا پھر مرغا شکل سے حلال کیسے لگ سکتا ہے؟[]---
 
Top