سوشل نیٹ ورکس کی دُنیا

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
یہ محض باہم دوستی و رابطے کا ذریعہہی نہیں بلکہ کئی کاروبار بھی اِس کی مدد سے ترقی کر رھے ھیں اب سوشل نیٹ ورکنگ کے بنا زندگی ادھوری رہے گیprofile سوشل نیٹ ورک سے مُراد ایسی ویب سائٹ ہے جہاں آپ اپنا ایک تعارفی خاکہ بنا سکتے ہیں ۔ یہ آپ کی شخصیت کے بارے میں معلومات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہاں آپ دوسرے لوگوں سے پیغامات، تصاویر، ویڈیو(Video)اور دیگر معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے سوشل نیٹ ورکس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ معروف ویب سائیٹس میں فیس بک (Face book)،ٹوئٹر(Twitter)اور لنکڈ اِن(Linked in)شامل ہیں۔ہاورڈ بزنس سکول میں (Management practices)کے پروفیسر بل جارج کے مطابق ۳۰۰؍ملین افراد ایک دن میں کم از کم ایک گھنٹہ فیس بک پہ موجود ہوتے ہیں۔۲۰۰؍ملین افراد ٹوئٹر (Twitter) استعمال کرتے اور ۱۰۰؍ملین افراد ِلنکڈ ان (Linked In)استعمال کرتے ہیں۔فیس بک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اسے ایک ملک تصور کیا جائے تو یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہو گا۔ عام طور پہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان ویب سائیٹس کا استعمال غیر مفید باتوں کے آپس میں تبادلے تک محدود ہے۔لیکن ان ویب سائٹس کے مثبت استعمال میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔لوگوں نے ان نیٹ ورکس کو سیاسی طور پہ منظم ہونے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ اسی طرح سماجی فلاح و بہبود کے ادارے بھی اپنے مقاصد کے لیے ان نیٹ ورکس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ ان نیٹ ورکس کے اثرات کاروباری دُنیا میں بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ ان کی مدد سے بے شمار چھوٹے کاروباربھی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکس کی بدولت خبر کی دنیا میں اہم تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے قارئین کے اختیارات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اب وہ اپنی آراء اور تبصرے آسانی سے اخبارات اور نیوز چینلز تک پہنچا سکتے ہیں۔فیس بک (Face book)اس ویب سائٹ پر آپ کا تعارفی خاکہ (پروفائل) آپ کی شخصیت کے بارے میں معلومات پرمشتمل ہوتا ہے ۔ یہ لوگوں کے لیے آپ کے تعارف یا پہچان کا کام دیتا ہے۔ یہاں پر آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ پیغامات، تصاویر، ویڈیواور دیگر معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اس ویب سائٹ کا آغاز۲۰۰۴ء میں ہوا۔دنیا میں اس کے استعمال کرنے والوںکی تعداد ۷۵۰؍ملین ہے۔ استعمال کرنے والوں کے حوالے سے امریکہ پہلے نمبر پہ جبکہ دوسرے بڑے ممالک میں انڈونیشیا، بھارت ، ترکی اور برطانیہ شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس ویب سائٹ کے استعمال کرنے والوںکی تعداد۵۰؍لاکھ سے زائد ہے۔ٹوئٹر(Twitter)اس ویب سائٹ کے ذریعے آپ دوسرے لوگوں کو مختصر پیغا مات بھیج سکتے یا کسی اور کی طرف سے بھیجا گیا پیغام پڑھ سکتے ہیں ۔ ان مختصر پیغامات کو ٹوئیٹس کہا جاتا ہے۔اگر آپ۲۰؍لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں تو ان کی طرف سے بھیجے گئے پیغامات آپ کو ٹوئٹر اکاوئنٹ کے مین پیج پر آئیں گے۔ٹوئٹرکا آغاز ۲۰۰۱ء میں ہوا۔ دنیا بھر میں اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد۲۰۰؍ملین کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ٹوئٹر استعمال کرنے والوں کی تعداد ۹ئ۱؍ملین ہے۔لِنکڈاِن (Linked In)یہ پیشہ وارانہ نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ہے جہاں آپ اپنا تعارفی خاکہ (پروفائل) بنا سکتے ہیں جو آپ کے آن لائن Resumeکی طرح ہوتا ہے۔ یہ ویب سائٹ ان لوگوں کے ساتھ رابطے کا ذریعہ ہے جن کے ساتھ آپ کا م کر چکے ہوں۔ اس کے علاوہ یہاں نئے لوگوں کے ساتھ رابطے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یہ ویب سائٹ آپ کو ملازمت کے نئے مواقع ڈھونڈنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ اس ویب سائٹ کا آغاز ۲۰۰۳ء میں ہوا۔ دنیا میں اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد۱۲۰؍ملین کے قریب ہے۔ پاکستان میں بھی اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔صحافت کی دُنیااخبارات اور نیوز چینلز کی سوشل نیٹ ورکس کی موجودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے ذریعے خبر سے وابستہ اداروں کو اپنے قارئین اور ناظرین کے تبصرے اور آراء سے آگاہی کے بھر پور مواقع ملتے ہیں۔خبر کی دُنیا کے بڑے ادارے بی بی سی کے نئے ڈائریکٹر نے اپنے ملازمین سے کہا کہ وہ سوشل نیٹ ورکس سے فائدہ اٹھا کر اپنے کام کو بہتر بنائیں ۔سوشل میڈیا کے آنے سے قارئین کے اختیارات میں بھی اضافہ ہوا۔ وہ آن لائن خبر پڑھتے ہوئے ایک کلک کے ذریعے اپنے دوستوں کو بھی اُس خبر کے پڑھنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ عام لوگ ٹریفک کی صورتحال ، کسی حادثے یا قدرتی آفت سے متعلق معلومات، کسی سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹ کے ذریعے دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔بعض اوقات عا م لوگوں کی طرف سے ٹوئٹر پہ بھیجے گئے پیغامات اہم بین الاقوامی خبروں کی بنیاد بھی بنے ہیں۔قدرتی آفات کے مواقع پر بھی ان نیٹ ورکس سے فائدہ اُٹھایا گیا۔ اس سال جاپان میں آنے والے زبر دست زلزلے کے بعد لوگوں نے سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے اپنی آنکھوں سے دیکھے جانے والے حالات دوسرے لوگوں تک پہنچائے۔ مین سٹریم(Main streem)میڈیا کے لیے حالات کی ایسی کوریج کسی طرح بھی ممکن نہ تھی۔ امدادی کاموں میں مصروف افراد اور ٹیموں نے بھی سوشل نیٹ ورکس پر آنے والی معلومات سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔پاکستان میں اخباری صنعت کے تمام اہم ادارے سوشل نیٹ ورکس پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ صحافی بھی فیس بک اور ٹوئٹر جیسی ویب سائیٹس کے ذریعے اپنے قارئین کے ساتھ رابطے میں رہتے اور ان سے اپنے کام کے حوالے سے فیڈ بیک حاصل کرتے رہتے ہیں۔سیاست اور دیگر سماجی میدانوں میںسوشل نیٹ ورکس کے اثرات سیاست کی دنیا میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ان نیٹ ورکس کو عوام کے ساتھ اپنا رابطہ بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ میں بارک اوباما کی صدرکے الیکشن کے لیے چلائی جانے والی مہم میں سوشل نیٹ ورکنگ کا کردار بہت اہم تھا۔سوشل نیٹ ورکس کے اثرات بین الاقوامی تعلقات پر بھی دیکھے جا رہے ہیں ۔امریکی صدر اوباما نے جب منتخب ہونے کے تھوڑ ے عرصہ بعد گھانا کا دورہ کیا تو انہیں براعظم افریقہ کے طول و عرض سے ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعے ۲لاکھ ۵۰؍ہزار سوالات موصول ہوئے۔سماجی فلاح و بہبود سے تعلق رکھنے والے ادارے بھی لوگوں کے ساتھ رابطے اور ان تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ان نیٹ ورکس کو استعمال کر رہے ہیں۔ان نیٹ ورکس سے عام لوگوں کو سیاسی یا سماجی مسائل و معاملات کے حوالے سے اکٹھے ہونے اور آپس میں خیالات کے تبادلے کے مواقع ملتے ہیں۔ مکالمے (Dialogue) کی ایسی فضا جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے بھی خوش آیند ہے۔سوشل نیٹ ورکس کی افادیت دیکھتے ہوئے تعلیم کے میدان میں بھی انہیں متعارف کروایا جا رہا ہے۔ سوشل نیٹ ورک کی مدد سے اساتذہ والدین اور طلبا آپس میں رابطے کے ذریعے ایک کمیونٹی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔سوشل نیٹ ورکس سے جہاں مختلف ادارے عوام سے رابطے میں رہتے ہیں، وہاں عوام بھی ان اداروں تک اپنی آواز بھی پہنچا سکتے ہیں۔عوام سے رابطہ بڑھانے کے لیے ممبئی پولیس نے حال ہی میں فیس بک پر اپنا صفحہ بنایا تو لوگوں نے اس پر پولیس کی کرپشن کے بارے میں ثبوت فراہم کرنا شروع کر دیے ۔مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگسوشل میڈیا کے آنے سے دنیا بھر میں مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کے روایتی طریقے بھی تبدیل ہو رہے ہیں ۔ ادارے ان نیٹ ورکس پر موجودگی کے ذریعے صارفین تک اپنی اشیا اور خدمات کے بارے میں معلومات پہنچا اور صارفین کی ضروریات کو بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں۔ کاروبا ر کی دنیاآج تمام قابل ذکر کاروباری ادارے سوشل نیٹ ورکس پر موجود ہیں۔ یہ ان کے لیے کسٹمرزکے ساتھ رابطے کا اہم ذریعہ ہیں۔ کئی چھوٹے کاروبار Businessesبھی سوشل نیٹ ورکس سے سامنے آنے والے نئے مواقع سے فائدہ اٹھا کر تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ادارے نئے ملازمین کی تلاش کے سلسلے میں بھی ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

بشکریہ
اردو ڈائجسٹ
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
انتہائی حیرت انگیز معلومات
کاش مسلمہ بھی ان ذرائع ابلاغ سے بھر پور فائدہ اٹھائے۔
 
Top