کتاب وسنت یعنی قرآن وحدیث ہمارے دین ومذہب کی اولین اساس وبنیاد ہیں، پھر ان میں کتاب الٰہی اصل اصول ہے اور احادیث رسول اس کی تبیان و تفسیر ہیں۔ خدائے علیم وخبیر کا ارشاد ہے ”وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیّن لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ“ (الآیة) اور ہم نے اتارا آپ کی طرف قرآن؛ تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اسے خوب واضح کردیں۔
فرمان الٰہی سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا مقصد عظیم قرآن محکم کے معانی و مراد کا بیان اور وضاحت ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے اس فرض کو اپنے قول و فعل وغیرہ سے کس طور پر پورا فرمایا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اسے ایک مختصر مگر انتہائی بلیغ جملہ میں یوں بیان کیا ہے ”کان خلقہ القرآن“ یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسم قرآن تھی، لہٰذا اگر قرآن حجت ہے (اور بلا ریب وشک حجت ہے) تو پھر اس میں بھی کوئی تردد و شبہ نہیں ہے کہ اس کا بیان بھی حجت ہوگا، آپ نے جو بھی کہا ہے،جو بھی کیا ہے، وہ حق ہے، دین ہے، ہدایت ہے،اور نیکی ہی نیکی ہے، اس لئے آپ کی زندگی جو مکمل تفسیر کلام ربانی ہے آنکھ بند کرکے قابل اتباع ہے ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ“ خدا کا رسول تمہارے لئے بہترین نمونہٴ عمل ہے، علاوہ ازیں آپ صلى الله عليه وسلم کو خداے علی وعزیز کی بارگاہ بے نہایت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام بلند نصیب ہے کہ ساری رفعتیں اس کے آگے سرنگوں ہیں حتی کہ آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر بغیر کسی تردد وتوقف کے اپنی مرضی سے دستبردار ہوجانا معیار ایمان و اسلام ٹھہرایا گیا ہے۔ وَمَا کَان لموٴمِنٍ وَلاَ مُومِنَةٍ اِذا قَضی اللّٰہُ ورَسُولُہ اَمْرًا ان یکون لہم الخِیَرَة من امرہم کسی مومن مرد وعورت کو گنجائش نہیں ہے جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم دے تو پھر ان کے لئے اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے۔ ربّ علیم وعزیز کی ان واضح ہدایات کے بعد بھی کیا کسی کو یہ حق پہنچ سکتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اقوال و افعال میں اپنی جانب سے تقسیم و تفریق کرے کہ یہ ہمارے لئے حجت ہے، اور یہ حجت نہیں ہے۔
نیز رسولِ خدا علیہ الصلوٰة والسلام کا ارشاد ہے:
الا انی اُوتیت الکتاب ومثلہ معہ الا یوشِکُ رجلٌ شَبعَانُ علی اریکتہ یقول: علیکم بہذا القرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فاحلّوہ، وما وجدتم فیہ من حرام فحرّموہ، الا لا یحلّ لکم الحمار الاہلی، ولا ذی ناب من السبع، ولا کل ذی مِخلب من الطیر“ الحدیث (رواہ ابوداوٴد في السنن في کتاب السنة والاطعمة)
بغور سنو! مجھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے قرآن دیاگیا ہے، اور قرآن کے ساتھ قرآن ہی جیسی (یعنی حدیث وسنت بھی) دی گئی ہے، خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آسودہ حال شخص اپنی آراستہ سیج پر بیٹھا کہے گا، اسی قرآن کو لازم پکڑو پس جو چیز اس میں از قبیل حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور جو اس میں از قبیل حرام پاؤ اسے حرام جانو، خبردار تمہارے لئے گھریلو گدھا حلال نہیں ہے اور نہ ہی شکاری درندہ اور نہ ہی شکاری پرندہ حلال ہے (حالانکہ صراحت سے ان جانوروں کے حرام ہونے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے)
اس حدیث سے درج ذیل امور معلوم ہوئے:
(الف) قرآن ہی کی طرح احادیث بھی منجانب اللہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام کو دی گئی ہیں، (ب) قرآن کی طرح احادیث بھی احکام میں حجت ہیں، (ج) اور قرآن ہی کی طرح ان کی اتباع اور ان پر عمل لازم ہے۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات کے مطابق حضرات صحابہ، تابعین، محدثین، فقہائے مجتہدین اور تمام علماء اہل سنت والجماعت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت اور اس کی تشریعی حیثیت پر بصیرت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں، اہل اسلام کے کسی گروہ، یا فرد نے جب کبھی بھی حدیث پاک کی اس شرعی حیثیت پر ردوقدح کی ہے تو اسے یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔
غرضیکہ علماء حق کا یہی جادئہ متوارثہ ہے۔ اپنے تمام اساتذہ کو بھی اسی موقف پر پایا، اور اب تک اس موضوع پر جن کتابوں کے مطالعہ کی توفیق ملی وہ تقریبا ایک درجن سے زائد ہیں ان میں صرف فرقہ قرآنیہ کے بعض مصنّفین کی دو ایک کتابوں کے علاوہ سب میں قابل قبول قوی دلائل کے ساتھ حجیت حدیث کے مذہب منصور کا اثبات اور تائید و توثیق کی گئی ہے۔ بایں ہمہ ایک ہم عصر مشہور فاضل نے جو اپنی وسیع علمی خدمات کی بناء پر اوساط علمیہ میں اعتبار واستحسان کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اپنی ایک تحریر میں اس بارے میں میرے علم کے مطابق سب سے الگ ایک جدید نقطئہ نظر پیش کیا ہے جو انھیں کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”حدیث اور سنت میں فرق (ہے) اور حجت سنت ہے حدیث نہیں“ زیر نظر تحریر میں اسی نقطئہ نظر کا اپنے علم و فہم کے مطابق جائزہ لیاگیا ہے۔ واللّٰہ ہو الملہم الصواب والسداد، وعلیہ التکلان والاعتماد.
(الف) سنت کا لغوی معنی
۱- امام لغت مطرزی متوفی ۶۱۰ھ ”لفظ سنن“ کے تحت لکھتے ہیں:
”السنة“ الطریقہ ومنہا الحدیث في مجوس ہَجَر ”سنّوا بہم سنّة اہل الکتاب“ ای اسلکوا بہم طریقہم یعنی عاملوہم معاملة ہٰوٴلاء في اعطاء الامان باخذ الجزیة منہم. (المُغرِب، ج:۱، ص:۴۱۷)
”سنت“ طریقہ کے معنی میں ہے اسی معنی میں مجوسِ ہجر کے بارے میں حدیث ہے ”سنّوا بہم سنة اہل الکتاب“ ان مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب جیسا طریقہ اختیار کرو یعنی جزیہ لے کر امن دینے کا جو معاملہ اہل کتاب کے ساتھ کرتے ہو یہی معاملہ ان مجوسیوں کے ساتھ کرو۔
۲- امام محی الدین ابوزکریا نووی متوفی ۶۷۶ھ لفظ ”السنة“ کے تحت رقمطراز ہیں:
”سنة النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلہا الطریقہ، وتطلق سنتہ صلی اللّٰہ علیہ علی الأحادیث المرویة عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وتطلق السنة علی المندوب، قال جماعة من أصحابنا في أصول الفقہ: السنة، والمندوب، والتطوع، والنفل، والمرغب، والمستحب کلہا بمعنی واحد وہو ما کان فعلہ راجحاً علی ترکہ ولا اثم علی ترکہ“ (تہذیب الاسماء واللغات، ج:۳،ص:۱۵۶)
سنت کا اصل معنی طریقہ ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ اصطلاحاً رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے مروی احادیث پر بولا جاتا ہے نیز سنت کا اطلاق امر مستحب پر بھی ہوتا ہے ہمارے شوافع فقہائے اصول کی ایک جماعت کا قول ہے کہ سنت، مندوب، تطوع، نفل، مرغّب، اور مستحب یہ سب الفاظ ایک معنی میں ہیں یعنی وہ فعل جس کا کرنا نہ کرنے پر راجح ہے اور اسے چھوڑ دینے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
۳- ماہر لغت ابن المنظور متوفی ۷۱۱ھ اپنی گرانقدر تصنیف ”لسان العرب“ میں لکھتے ہیں:
وقد تکرر في الحدیث ذکر السنة وما تصرّف منہا، والأصل فیہ الطریقة، والسیرة، واذا اطلقت في الشرع فانما یراد بہا ما أمر بہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونہی عنہ وندب الیہ قولاً وفعلاً مما لم ینطق بہ الکتاب العزیز ولہذا یقال في أدلة الشرع الکتاب والسنة أي القرآن والحدیث (فصل السین حرف النون، ج:۱۷،ص:۸۹)
سنت اور اس کے مشتقات کا ذکر حدیث میں بار بار آیا ہے، اس کا اصل معنی طریقہ اور چال چلن کے ہے، اور شرع میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ کام لیا جاتاہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، یا جس سے منع کیا، یا جس کی اپنے قول و فعل کے ذریعہ دعوت دی جن کے بارے میں کتاب عزیز نے (صراحت) سے کچھ نہیں کہا ہے، اسی بناء پر دلائل شرعیہ (کے بیان) میں کہا جاتا ہے ”الکتاب والسنة“ یعنی ”قرآن وحدیث“۔
علامہ ابن المنظور کے کلام میں ”ما أمر بہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونہی عنہ“ عام ہے جس میں امر وجوبی، وغیروجوبی اور نہی تحریمی وغیرتحریمی سب داخل ہوں گی۔
۴- المعجم الوسیط مادہ سنن میں ہے:
السَّنَن‘ الطریقة والمثال یقال بنوا بیوتہم علی سنن واحد... والسنة الطریقة والسیرة حمیدة کانت او ذمیمة، وسنة اللّٰہ حکمہ في خلیقتہ، وسنة النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما ینسب الیہ من قول او فعل او تقریر، ”وفي الشرع“ العمل المحمود في الدین مما لیس فرضاً ولا واجباً“ (ص:۴۵۶)
سنن طریقہ اور مثال کے معنی میں ہے اسی معنی میں بولا جاتا ہے ”بنوا بیوتہم علی سنن واحد“ یعنی اپنے گھروں کو ایک طریقہ اور ایک نمونہ پر بنایا... اور سنت بمعنی طریقہ اور طرز زندگی ہے یہ طریقہ خواہ محمود ہو یا مذموم، اور ”سنت اللہ“ کا معنی اللہ کا اپنی مخلوق کے متعلق فیصلہ کے ہیں، اور سنت رسول سے مراد وہ قول وفعل اور تقریر ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہیں، اور فقہ میں یہ لفظ دین میں اس پسندیدہ عمل پر بولا جاتا ہے جو فرض واجب نہیں ہیں۔
(ب) حدیث کا لغوی معنی
۱- لسان العرب میں ہے:
الحدیث نقیض القدیم ... والحدیث کون الشيء لم یکن، ... والحدیث الجدید من الاشیاء، والحدیث الخبر یأتي علی القلیل والکثیر والجمع أحادیث (ج:۲،ص:۴۳۶ و ۴۳۸ فصل الحاء حرف الثاء)
حدیث قدیم کا نقیض (یعنی مقابل مخالف) ہے، حدیث شیٴ کا ہوجانا جو پہلے نہیں تھی، بمعنی جدید اور نئی، بمعنی خبر خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر، اور جمع احادیث ہے۔
۲- ابن سیدہ متوفی ۴۵۸ھ المخصص میں لکھتے ہیں:
الحدیث الخبر، وقال سیبویہ: والجمع أحادیث. (ج:۳،ص:۳۲۳)
حدیث کے معنی خبر کے ہیں اور سیبویہ نے کہا ہے کہ اس کی جمع احادیث ہے۔
۳- علامہ قاضی محمد اعلیٰ تھانوی متوفی ۱۱۹۱ھ کشاف اصطلاحات الفنون میں لکھتے ہیں:
الحدیث لغة ضد القدیم ویستعمل في قلیل الکلام وکثیرہ (۲۷۹)
حدیث قدیم کا ضد ہے، اور کلام قلیل وکثیر میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
۴- علامہ راغب اصفہانی متوفی ۵۰۳ھ لکھتے ہیں:
کل کلام یبلغ الانسانَ من جہة السمع او الوحي في یقظتہ أو منامہ یقال لہ حدیث. قال عزّ وجلّ: ”وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلی بَعْضِ اَزْوَاجِہ حدیثًا (التحریم:۳، مفردات الفاظ القرآن، ص:۱۲۴)
ہر وہ کلام جو انسان تک پہنچتا ہے کان کی جانب سے یا وحی کی جانب سے بیداری یا خواب کی حالت میں اسے حدیث کہا جاتا ہے۔ اللہ عزّ وجلّ کا ارشاد ہے: واذ اَسرّ النبیّ“ الآیة اور جب کہ کہی نبی نے اپنی بعض بیوی سے ایک بات۔
علمائے لغت کی مندرجہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوا کہ ”حدیث“ از روئے لغت، جدید، غیرموجود کا وجود میں آجانا، خبر اور کلام یعنی بات کے معنی میں بولا جاتا ہے۔
سنت وحدیث کی اس لغوی معنوی تحقیق کے بعد ان ہر دو کی اصطلاحی تعریف ملاحظہ کیجئے، جس کے تحت علمائے حدیث، علمائے اصول فقہ، اور فقہ حنفی کی الگ الگ تعریفات نقل کی جارہی ہیں؛ تاکہ مسئلہ زیربحث میں ہرجماعت و طبقہ کی اصطلاحات سامنے رہیں اور خلط مبحث سے بچا جاسکے۔ سب سے پہلے حدیث کی تعریف محدثین کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔
جاری ہے
فرمان الٰہی سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا مقصد عظیم قرآن محکم کے معانی و مراد کا بیان اور وضاحت ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے اس فرض کو اپنے قول و فعل وغیرہ سے کس طور پر پورا فرمایا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اسے ایک مختصر مگر انتہائی بلیغ جملہ میں یوں بیان کیا ہے ”کان خلقہ القرآن“ یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسم قرآن تھی، لہٰذا اگر قرآن حجت ہے (اور بلا ریب وشک حجت ہے) تو پھر اس میں بھی کوئی تردد و شبہ نہیں ہے کہ اس کا بیان بھی حجت ہوگا، آپ نے جو بھی کہا ہے،جو بھی کیا ہے، وہ حق ہے، دین ہے، ہدایت ہے،اور نیکی ہی نیکی ہے، اس لئے آپ کی زندگی جو مکمل تفسیر کلام ربانی ہے آنکھ بند کرکے قابل اتباع ہے ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ“ خدا کا رسول تمہارے لئے بہترین نمونہٴ عمل ہے، علاوہ ازیں آپ صلى الله عليه وسلم کو خداے علی وعزیز کی بارگاہ بے نہایت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام بلند نصیب ہے کہ ساری رفعتیں اس کے آگے سرنگوں ہیں حتی کہ آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر بغیر کسی تردد وتوقف کے اپنی مرضی سے دستبردار ہوجانا معیار ایمان و اسلام ٹھہرایا گیا ہے۔ وَمَا کَان لموٴمِنٍ وَلاَ مُومِنَةٍ اِذا قَضی اللّٰہُ ورَسُولُہ اَمْرًا ان یکون لہم الخِیَرَة من امرہم کسی مومن مرد وعورت کو گنجائش نہیں ہے جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم دے تو پھر ان کے لئے اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے۔ ربّ علیم وعزیز کی ان واضح ہدایات کے بعد بھی کیا کسی کو یہ حق پہنچ سکتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اقوال و افعال میں اپنی جانب سے تقسیم و تفریق کرے کہ یہ ہمارے لئے حجت ہے، اور یہ حجت نہیں ہے۔
نیز رسولِ خدا علیہ الصلوٰة والسلام کا ارشاد ہے:
الا انی اُوتیت الکتاب ومثلہ معہ الا یوشِکُ رجلٌ شَبعَانُ علی اریکتہ یقول: علیکم بہذا القرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فاحلّوہ، وما وجدتم فیہ من حرام فحرّموہ، الا لا یحلّ لکم الحمار الاہلی، ولا ذی ناب من السبع، ولا کل ذی مِخلب من الطیر“ الحدیث (رواہ ابوداوٴد في السنن في کتاب السنة والاطعمة)
بغور سنو! مجھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے قرآن دیاگیا ہے، اور قرآن کے ساتھ قرآن ہی جیسی (یعنی حدیث وسنت بھی) دی گئی ہے، خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آسودہ حال شخص اپنی آراستہ سیج پر بیٹھا کہے گا، اسی قرآن کو لازم پکڑو پس جو چیز اس میں از قبیل حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور جو اس میں از قبیل حرام پاؤ اسے حرام جانو، خبردار تمہارے لئے گھریلو گدھا حلال نہیں ہے اور نہ ہی شکاری درندہ اور نہ ہی شکاری پرندہ حلال ہے (حالانکہ صراحت سے ان جانوروں کے حرام ہونے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے)
اس حدیث سے درج ذیل امور معلوم ہوئے:
(الف) قرآن ہی کی طرح احادیث بھی منجانب اللہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام کو دی گئی ہیں، (ب) قرآن کی طرح احادیث بھی احکام میں حجت ہیں، (ج) اور قرآن ہی کی طرح ان کی اتباع اور ان پر عمل لازم ہے۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات کے مطابق حضرات صحابہ، تابعین، محدثین، فقہائے مجتہدین اور تمام علماء اہل سنت والجماعت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت اور اس کی تشریعی حیثیت پر بصیرت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں، اہل اسلام کے کسی گروہ، یا فرد نے جب کبھی بھی حدیث پاک کی اس شرعی حیثیت پر ردوقدح کی ہے تو اسے یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔
غرضیکہ علماء حق کا یہی جادئہ متوارثہ ہے۔ اپنے تمام اساتذہ کو بھی اسی موقف پر پایا، اور اب تک اس موضوع پر جن کتابوں کے مطالعہ کی توفیق ملی وہ تقریبا ایک درجن سے زائد ہیں ان میں صرف فرقہ قرآنیہ کے بعض مصنّفین کی دو ایک کتابوں کے علاوہ سب میں قابل قبول قوی دلائل کے ساتھ حجیت حدیث کے مذہب منصور کا اثبات اور تائید و توثیق کی گئی ہے۔ بایں ہمہ ایک ہم عصر مشہور فاضل نے جو اپنی وسیع علمی خدمات کی بناء پر اوساط علمیہ میں اعتبار واستحسان کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اپنی ایک تحریر میں اس بارے میں میرے علم کے مطابق سب سے الگ ایک جدید نقطئہ نظر پیش کیا ہے جو انھیں کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”حدیث اور سنت میں فرق (ہے) اور حجت سنت ہے حدیث نہیں“ زیر نظر تحریر میں اسی نقطئہ نظر کا اپنے علم و فہم کے مطابق جائزہ لیاگیا ہے۔ واللّٰہ ہو الملہم الصواب والسداد، وعلیہ التکلان والاعتماد.
(الف) سنت کا لغوی معنی
۱- امام لغت مطرزی متوفی ۶۱۰ھ ”لفظ سنن“ کے تحت لکھتے ہیں:
”السنة“ الطریقہ ومنہا الحدیث في مجوس ہَجَر ”سنّوا بہم سنّة اہل الکتاب“ ای اسلکوا بہم طریقہم یعنی عاملوہم معاملة ہٰوٴلاء في اعطاء الامان باخذ الجزیة منہم. (المُغرِب، ج:۱، ص:۴۱۷)
”سنت“ طریقہ کے معنی میں ہے اسی معنی میں مجوسِ ہجر کے بارے میں حدیث ہے ”سنّوا بہم سنة اہل الکتاب“ ان مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب جیسا طریقہ اختیار کرو یعنی جزیہ لے کر امن دینے کا جو معاملہ اہل کتاب کے ساتھ کرتے ہو یہی معاملہ ان مجوسیوں کے ساتھ کرو۔
۲- امام محی الدین ابوزکریا نووی متوفی ۶۷۶ھ لفظ ”السنة“ کے تحت رقمطراز ہیں:
”سنة النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلہا الطریقہ، وتطلق سنتہ صلی اللّٰہ علیہ علی الأحادیث المرویة عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وتطلق السنة علی المندوب، قال جماعة من أصحابنا في أصول الفقہ: السنة، والمندوب، والتطوع، والنفل، والمرغب، والمستحب کلہا بمعنی واحد وہو ما کان فعلہ راجحاً علی ترکہ ولا اثم علی ترکہ“ (تہذیب الاسماء واللغات، ج:۳،ص:۱۵۶)
سنت کا اصل معنی طریقہ ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ اصطلاحاً رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے مروی احادیث پر بولا جاتا ہے نیز سنت کا اطلاق امر مستحب پر بھی ہوتا ہے ہمارے شوافع فقہائے اصول کی ایک جماعت کا قول ہے کہ سنت، مندوب، تطوع، نفل، مرغّب، اور مستحب یہ سب الفاظ ایک معنی میں ہیں یعنی وہ فعل جس کا کرنا نہ کرنے پر راجح ہے اور اسے چھوڑ دینے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
۳- ماہر لغت ابن المنظور متوفی ۷۱۱ھ اپنی گرانقدر تصنیف ”لسان العرب“ میں لکھتے ہیں:
وقد تکرر في الحدیث ذکر السنة وما تصرّف منہا، والأصل فیہ الطریقة، والسیرة، واذا اطلقت في الشرع فانما یراد بہا ما أمر بہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونہی عنہ وندب الیہ قولاً وفعلاً مما لم ینطق بہ الکتاب العزیز ولہذا یقال في أدلة الشرع الکتاب والسنة أي القرآن والحدیث (فصل السین حرف النون، ج:۱۷،ص:۸۹)
سنت اور اس کے مشتقات کا ذکر حدیث میں بار بار آیا ہے، اس کا اصل معنی طریقہ اور چال چلن کے ہے، اور شرع میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ کام لیا جاتاہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، یا جس سے منع کیا، یا جس کی اپنے قول و فعل کے ذریعہ دعوت دی جن کے بارے میں کتاب عزیز نے (صراحت) سے کچھ نہیں کہا ہے، اسی بناء پر دلائل شرعیہ (کے بیان) میں کہا جاتا ہے ”الکتاب والسنة“ یعنی ”قرآن وحدیث“۔
علامہ ابن المنظور کے کلام میں ”ما أمر بہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونہی عنہ“ عام ہے جس میں امر وجوبی، وغیروجوبی اور نہی تحریمی وغیرتحریمی سب داخل ہوں گی۔
۴- المعجم الوسیط مادہ سنن میں ہے:
السَّنَن‘ الطریقة والمثال یقال بنوا بیوتہم علی سنن واحد... والسنة الطریقة والسیرة حمیدة کانت او ذمیمة، وسنة اللّٰہ حکمہ في خلیقتہ، وسنة النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما ینسب الیہ من قول او فعل او تقریر، ”وفي الشرع“ العمل المحمود في الدین مما لیس فرضاً ولا واجباً“ (ص:۴۵۶)
سنن طریقہ اور مثال کے معنی میں ہے اسی معنی میں بولا جاتا ہے ”بنوا بیوتہم علی سنن واحد“ یعنی اپنے گھروں کو ایک طریقہ اور ایک نمونہ پر بنایا... اور سنت بمعنی طریقہ اور طرز زندگی ہے یہ طریقہ خواہ محمود ہو یا مذموم، اور ”سنت اللہ“ کا معنی اللہ کا اپنی مخلوق کے متعلق فیصلہ کے ہیں، اور سنت رسول سے مراد وہ قول وفعل اور تقریر ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہیں، اور فقہ میں یہ لفظ دین میں اس پسندیدہ عمل پر بولا جاتا ہے جو فرض واجب نہیں ہیں۔
(ب) حدیث کا لغوی معنی
۱- لسان العرب میں ہے:
الحدیث نقیض القدیم ... والحدیث کون الشيء لم یکن، ... والحدیث الجدید من الاشیاء، والحدیث الخبر یأتي علی القلیل والکثیر والجمع أحادیث (ج:۲،ص:۴۳۶ و ۴۳۸ فصل الحاء حرف الثاء)
حدیث قدیم کا نقیض (یعنی مقابل مخالف) ہے، حدیث شیٴ کا ہوجانا جو پہلے نہیں تھی، بمعنی جدید اور نئی، بمعنی خبر خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر، اور جمع احادیث ہے۔
۲- ابن سیدہ متوفی ۴۵۸ھ المخصص میں لکھتے ہیں:
الحدیث الخبر، وقال سیبویہ: والجمع أحادیث. (ج:۳،ص:۳۲۳)
حدیث کے معنی خبر کے ہیں اور سیبویہ نے کہا ہے کہ اس کی جمع احادیث ہے۔
۳- علامہ قاضی محمد اعلیٰ تھانوی متوفی ۱۱۹۱ھ کشاف اصطلاحات الفنون میں لکھتے ہیں:
الحدیث لغة ضد القدیم ویستعمل في قلیل الکلام وکثیرہ (۲۷۹)
حدیث قدیم کا ضد ہے، اور کلام قلیل وکثیر میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
۴- علامہ راغب اصفہانی متوفی ۵۰۳ھ لکھتے ہیں:
کل کلام یبلغ الانسانَ من جہة السمع او الوحي في یقظتہ أو منامہ یقال لہ حدیث. قال عزّ وجلّ: ”وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلی بَعْضِ اَزْوَاجِہ حدیثًا (التحریم:۳، مفردات الفاظ القرآن، ص:۱۲۴)
ہر وہ کلام جو انسان تک پہنچتا ہے کان کی جانب سے یا وحی کی جانب سے بیداری یا خواب کی حالت میں اسے حدیث کہا جاتا ہے۔ اللہ عزّ وجلّ کا ارشاد ہے: واذ اَسرّ النبیّ“ الآیة اور جب کہ کہی نبی نے اپنی بعض بیوی سے ایک بات۔
علمائے لغت کی مندرجہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوا کہ ”حدیث“ از روئے لغت، جدید، غیرموجود کا وجود میں آجانا، خبر اور کلام یعنی بات کے معنی میں بولا جاتا ہے۔
سنت وحدیث کی اس لغوی معنوی تحقیق کے بعد ان ہر دو کی اصطلاحی تعریف ملاحظہ کیجئے، جس کے تحت علمائے حدیث، علمائے اصول فقہ، اور فقہ حنفی کی الگ الگ تعریفات نقل کی جارہی ہیں؛ تاکہ مسئلہ زیربحث میں ہرجماعت و طبقہ کی اصطلاحات سامنے رہیں اور خلط مبحث سے بچا جاسکے۔ سب سے پہلے حدیث کی تعریف محدثین کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔
جاری ہے