میری پسند

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر


ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر
دل سے گزری ہیں تاروں کی باراتیں اکثر
عشق راہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں اکثر
ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں باراتیں اکثر
ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی
وہ تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر
ان سے پوچھو کبھی چہرے بھی پڑھے ہیں تم نے
جو کتابوں کی کیا کرتے ہیں باتیں اکثر
حال کہنا ہو کسی سے تو مخاطب ہے کوئی
کتنی دلچسپ ہوا کرتی ہیں باتیں اکثر
اور تو کون ہے جو مجھ کو تسلی دیتا
ہاتھ رکھ دیتی ھیں دل پر تری باتیں اکثر
شاعر جاں نثار اختر​
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
ہزاروں راز عریاں ہو رہے ہیں
گراؤ آنکھ پر چلمن گراؤ
مصطفےٰ زیدی
 

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن

پھر یوں‌ہوا کہ دکھ ہی اُٹھائے تمام عُمر
پھر یوں ہوا کہ آنسو بہائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ نِکلے کسی کی تلاش میں
پھر یوں ہوا کہ خود کو نہ پائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ باتوں میں ہم اُس کی آگئے
پھر یوں ہوا کہ دھوکے ہی کھائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دل میں کسی کو بسا لیا
پھر یوں ہوا کہ خواب سجائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ وعدہ وفا کر نہ سکا وہ
پھر یوں‌ہوا دیپ جلائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دامنِ دل داغ داغ تھا
پھر یوں ہوا کہ داغ مٹائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ راستے ویران ہو گئے
پھر یوں‌ہوا کہ پھول کِھلائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دکھ ہمیں محبوب ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ دل سے لگائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ اور کسی کے نہ ہو سکے
پھر یوں ہوا کہ وعدے نبھائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ فاصلے بڑھتے چلے گئے
پھر یوں ہوا کہ رنج بُھلائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ بیٹھ گئے راہ میں غیاث
پھر یوں ہوا کہ وہ بھی نہ آئے تمام عُمر​
 
Top