وہ پرندہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
[size=x-large]
تعارفی خاکہ​
salma+sanam.jpg

نام:سلمہ بانو
والدمحترم: سید اکبر صاحب
والدہ محترمہ: حلیمہ بی صاحبہ
لکچرر:زولوجی ،بنگلور یونیورسٹی
تاریخ پیدائش: 4/اگست، 1966 پنمبور،منگلور۔
قلمی نام۔۔۔۔۔۔۔۔سلمہ صنم
افسانہ نگاری کی ابتدا: 1990
پہلا افسانہ: روشنی
اولین افسانوی مجموعہ ٹور پر گیا ہوا شخص
شن اشاعت:2007
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پرندہ​

سلمیٰ صنم بنگلور​

وہ پرندہ۔۔۔۔ بہت ہولے سے بہت چپکے سے ہزاروں میل کا سفر طئے کر کے جب سے پرندوں بھری اس جھیل میں آیا تھا ۔ بہت اکیلا تھا ،وہ ۔۔۔۔۔پہلی ہجرت۔۔۔۔۔اجنبی سر زمین ،اپنا تو کوئی نہیں۔وہ کیا کرے؟خدایا وہ کیا کرے ؟
پرندوں بھری جھیل میں بے شمار پرندےتھے۔جگمگاتے رنگوں والے نرم ونازک ،ملائم خوب چہکتے ہو ئے ،پھدکتےہوئے ، پانی کی سطح پر منڈلاتے تھےسارے۔اور جھیل کے کنارے ایک درخت پہ بیٹھا عجیب سی کیفیتوں میں مبتلا وہ پرندہ چپ چاپ ، گم سم اپنے ارد گرد سے بے خبر اپنے آپ میں ڈوبا ہزاروں میل دور سے اپنے دیس کو شام وسحر یاد کئے جاتا۔وہ میرا وطن وہ میرا پیارا وطن وہ الساتی تجسس وہ تھرکتی شامیں ۔جادو ،خوشبو،انوکھا لطف ،انجانی لذت۔
خوبصورت کیفیت وہ مسرور کر دینے والا موسم ،وہ خوشگوار نیم گرم ہوائیں ،وہ سرسبز شاداب ملائم لباس پہنے درخت ،وہ اس کا ننھا سا گھونسلہ ،وہ اس کی ٹولی ،وہ ان کے ہمراہ ہر دم اڑتا ہوا ، پھدکتا اپنی سحر انگیز آواز میں محبت کے میٹھے میٹھے نغمے گاتا ہوا۔
آہ !سب جانے کیا ہوا؟جیسے ہی موسم بدلا ایک نئی رُت نے انگڑائی لی ،پتہ نہیں اس کے اندر جانے کیا ہوا ۔ایک انو کھی کپکپاہٹ ایک عجیب سی پھڑ پھڑا ہٹ ۔ساری ٹولی ہجرت کر گئی ۔وہ بھی ساتھ ہو لیا کیوں؟ خدایا کیوں ہوتی ہے یہ ہجرت وہ سب اڑتے رہے پھر پتہ نہیں کیا ہوا وہ بچھڑ گیا اس اجنبی سر زمین پہ آگیا ۔ یہ پرندوں بھر ی جھیل اور یہ اکیلا پن اس کا سارا جوش ،شوخی ، قہقہے چہچہاہٹ وہ تو جیسے وطن ہی میں رہ گئے ۔
اور پھر تنہائی اور بیچارگی کا کر بناک احساس وہ اداس لمحوں کا سارا عذاب اس کے نغموں میں در آیا ۔اس کی خونیں آنسوؤں میں بھیگی ہو ئی آواز فضاؤں میں ایک درد سا جگانے لگی جس کی لپک پر کئی ایک پرندے اڑ کر اس کی جانب آئے مگر وہ نہ جانے کیوں کسی کی جانب ملتفت نہ ہوا۔
وہ میرا وطن۔۔۔ وہ میرا وطن ۔۔۔ وہ الساتی صبحیں،وہ تھرکتی شامیں ، جادو، خوشبو، انوکھا لطف ، انجانی لذت خوبصورت کیفیت ،وہ اس کا ننھا سا گھونسلہ ،اور اس کی ٹولی وہ کیا کرے ،خدایا کیا کرے ؟

جانے کتنے دن گذر گئے کہ دفعۃ اس نے دیکھا کسی دن اس درخت پر جانے کہاں سے وہ ایک چڑیا آئی ، مقنا طیسی کشش ،اور معصوم آنکھوں والی اس نے قریبی شاخ پہ اپنا گھونسلہ بنا یا اور پھر وہ جب بھی درد بھرے نغمے گا تا وہ چڑیا معصوم آنکھوں میں بے تحا شا چمک لئے اس کی اور دیکھتی ،بار بار لگاتار کچھ اتنے دلکش اور دل فریب انداز میں کہ پرندے کا دل ڈوبنے لگتا ۔اسے جانے کیا ہوا ۔اب اسے لگنے لگا جیسے تنہائی کا احساس مٹ گیا ہو۔ چڑیا سے اس کی دوستی ہو گئی اور پرندوں کے نغمے کی لے بدل گئی۔

وہ پیار کے انو کھے رنگ ، وہ نزاکتیں وہ لطافتیں وہ حلاوتیں ، وہ رفاقتیں ، وہ نہیں جا نتے تھے قسمت نے شب خوں مارا تو ، حالات نے بدلی دھارا تو ایک قہر بھی آسکتا ہے ۔
پھر کسی دن پتہ نہیں پرندوں بھری جھیل کو جانے کیا ہوا ۔ وہ بے شمار پر ندے جگمگاتی آنکھوں والے نرم نازک ، ملائم خوب چہکتے ہو ئے ، پھدکتے ہوئے پانی کی سطح پر منڈلاتے ہوئے آسمان کی بلندیوں میں اڑتے ہو ئے پتہ نہیں ، انہیں کیا ہوا وہ سارے مرنے لگے ۔ وہ جانے کیسی ہوا تھی کیسا قہر تھا جو چڑیا کو بھی لے گیا ۔
اور وہ پرندہ اداس ، اکیلا عجیب سی کیفیتوں میں مبتلا اس کو ہزاروں میل دور بسا اپنا وطن ، وہ میرا پیارا وطن ، وہ الساتی صبحیں وہ تھرکتی شامیں ،جادو ، خوشبو، انوکھا لطف ،انجانی لذت خوبصورت کیفیت ۔
وہ سفر کی صعوبتیں جھیلتا بہت ہو لے سے بہت چپکے سے ہزاروں میل کا سفر طئے کر کے جب وطن پہنچا تو اسے معلوم نہ تھا ۔وہاں کے لوگ اس سے بد گمان ہو گئے ہیں ۔انہیں یقین تھا وہ اجنبی دیس کی بیماری اپنے ساتھ لایا ہے اور یہاں کی فضاؤں میں بھی وہ زہر پھیل جا ئے گا ۔ ہوائیں مسموم ہو جائیں گی ۔اور پھر اپنے شہر میں اس کی آواز کہیں کھو گئی ۔سدا کے لئے چپ ہو گئی۔
[/size]
 

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
احمدقاسمی نے کہا ہے:
[size=x-large]
تعارفی خاکہ​
نام:سلمہ بانو
والدمحترم: سید اکبر صاحب
والدہ محترمہ: حلیمہ بی صاحبہ
لکچرر:زولوجی ،بنگلور یونیورسٹی
تاریخ پیدائش: 4/اگست، 1966 پنمبور،منگلور۔
قلمی نام۔۔۔۔۔۔۔۔سلمہ صنم
افسانہ نگاری کی ابتدا: 1990
پہلا افسانہ: روشنی
اولین افسانوی مجموعہ ٹور پر گیا ہوا شخص
شن اشاعت:2007
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پرندہ​

سلمیٰ صنم بنگلور​

وہ پرندہ۔۔۔۔ بہت ہولے سے بہت چپکے سے ہزاروں میل کا سفر طئے کر کے جب سے پرندوں بھری اس جھیل میں آیا تھا ۔ بہت اکیلا تھا ،وہ ۔۔۔۔۔پہلی ہجرت۔۔۔۔۔اجنبی سر زمین ،اپنا تو کوئی نہیں۔وہ کیا کرے؟خدایا وہ کیا کرے ؟


سلمہ صنم جی واقعی کمال کا افسانہ لکھا۔ جو اپنے دیس سے دور بہت دور اپنوں سے بچھڑ کے رہتے ہیں ان کی حالت اس پرندے سے کم نہیں رہتی۔اکیلا پن، اجنبیت ،گھٹن،احساس دوری ومجبوری ۔بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے ۔خدایا میں کیا کروں؟۔
اس دل کو چھو لینے والی خوبصورت تحریر پر مبارکباد۔
 
Top