کتاب کہانی

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
امریکہ میں %۷۲ لائبریریاں الیکٹرونک کتابیں فراہم کر رہی ہیں کتاب سے انسان کی دوستی ہمیشہ بے مثال رہی ہے۔ دوستی کے اس سفر میں کتاب نہ صرف انسانی علم کو محفوظ بنا کر ہمارے لیے لاتعداد آسانیاں پیدا کرتی رہی بلکہ ترقی کی نئی راہیں بھی کھولتی رہی ہے۔ یہ دین، تاریخ، سیاست، سماج اور ادب کے رنگارنگ پھولوں سے انسانی شعور کا آنگن بھی مہکاتی رہی۔ اس نے ان گنت ذہنوں کی سوچ کو وسعت دی اور بے شمار دلوں کو اطمینان کی دولت سے بھی مالا مال کیا۔ یہ کتاب ہی تھی جس نے آنے والی نسلوں تک علم کی منتقلی کو یقینی بنایا۔کتاب کا کاغذ کی شکل میں آنے کا سفر بھی بہت دل چسپ رہا۔ پرانی تہذیبوں میں جب لکھنے کا طریقہ ایجاد ہوا تو پتھر، دھات کی تختیوں سمیت ہر اس چیز کو استعمال کیا گیا جس پہ لکھا جا سکتا تھا۔ قدیم مصر میں، دریائے نیل کے کنارے اگنے والے آبی پودے کے ڈنٹھل سے بنائے پاپیرس کو استعمال کیا گیا۔ کاغذ کا آغاز ۲ سو قبل مسیح میں چین سے ہوا اور ۱۳ویں صدی میں یہ اسلامی دنیا کے ذریعے یورپ پہنچا۔کتاب ایک طویل مدت سے کاغذ اور اس پہ پھیلے ہوئے لفظوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے یہ بات طے کر دی کہ کتاب نئی شکلیں بھی اختیار کرے گی۔ یہ کاغذ سے ڈیجیٹل شکل میں بھی منتقل ہو رہی ہے جسے کمپیوٹر یا موبائل کی سکرین پہ پڑھا جا رہا ہے۔کاغذ کی کتاب سے انسان کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ شائد وہ کاغذ کے لمس، اس کی خوشبو اور اس کی صفحہ پلٹنے کی آواز کو کبھی بھلا نہ پائے لیکن امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کتاب کی نئی شکلوں سے بھی مانوس ہوتا جائے گا۔ کتاب اپنی ہر شکل میں ہماری بہترین رفیق رہے گی اور ہمیں تاریخ کا یہ سبق بھی یاد دلاتی رہے گی کہ وہی افراد اور قومیں کامیاب اور سرفراز ٹھہرتی ہیں جو کتاب اور علم سے اپنی نسبت قائم رکھتی ہیں۔مستقبل کی کتاب الیکٹرونک کتاب ہوگی۔ الیکٹرونک کتاب یا ای کتاب سے مراد ایسی کتاب ہے جو کاغذ کے بجائے ڈیجیٹل شکل میں موجود ہو یعنی اسے موبائل، کمپیوٹر یا کسی دوسرے الیکٹرونک آلے کی سکرین پہ پڑھا جائے۔ اسی طرح الیکٹرونک ریڈر یا ای ریڈر موبائل جیسا آلہ ہے جس کی سکرین کو الیکٹرونک کتاب پڑھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔دنیا میں پہلی الیکٹرونک کتاب (ای کتاب( ۱۹۷۱ء میں سامنے آئی جب مائیکل ایس۔ ہارٹ نے امریکی آزادی کا اعلامیہ کمپیوٹر میں ٹائپ کیا۔ اسی نے گٹن برگ منصوبہ بھی شروع کیا جس کا مقصد دوسری کتابوں کی الیکٹرونک نقول تیار کرنا تھا۔ ۹۳۔۱۹۹۲ء میں پہلا الیکٹرونک ریڈر انسیپٹ کے نام سے سامنے آیا۔ابتدا میں الیکٹرونک کتابیں تکنیکی معلومات سے تعلق رکھنے والے موضوعات پہ تیار کی جاتی تھیں۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں انٹرنیٹ کو مقبولیت حاصل ہوئی تو کاغذی کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کی الیکٹرونک نقول بھی سامنے آنے لگیں۔ پھر ایسی الیکٹرونک کتابیں بھی مقبول ہونے لگیں جو صرف ڈیجیٹل وجود رکھتی تھیں۔ آج دنیا میں سیاست، نفسیات، صحت، کھیل، ادب اور سائنس کے میدان سے تعلق رکھنے والی بے شمار کتابیں کاغذ کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل شکل میں موجود ہیں۔مقبول عام کتابوں کی فہرست جاری کرنے والے اداروں میں ایک معتبر نام نیویارک ٹائمز اخبار کا ہے۔ یہ ہر ہفتے مقبول کتابوں کی فہرست جاری کرتا ہے اور یہ سلسلہ ۱۹۴۲ء سے جاری ہے۔ ان مقبول کتابوں کی فہرست میں اب الیکٹرونک کتابیں بھی اپنی جگہ بنانے لگی ہیں۔مستقبل میں کتاب منتخب کرنے، خریدنے اور اسے پڑھنے کا تجربہ ہمارے آج کے تجربے سے بہت مختلف ہوگا۔ قارئین کتاب خریدنے کے لیے اپنے موبائل کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ پہ موجود سٹور پر جائیں گے۔ وہاں ادب، صحت، سیاست، نفسیات، کھیل اور سائنس جیسے مختلف موضوعات پہ لاکھوں کتابیں ان کی منتظر ہوں گی۔ وہاں انھیں نئی مقبول کتابیں بھی ملیں گی اور پرانے ادوار کی شہرہ آفاق کتابیں بھی۔ آن لائن سٹور ہماری راہ نمائی کرے گا کہ کون سی کتابیں زیادہ پسند کی جا رہی ہیں اور پڑھنے والے ان کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ قاری خود کسی کتاب کی موجودگی کے بارے میں بھی سوال پوچھ سکے گا۔ اسی طرح وہ اپنی مطلوبہ کتاب خریدنے سے پہلے اس کے چند صفحات اپنے کمپیوٹر کی سکرین پر پڑھ کر اس کی خریداری کے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکے گا۔خریداری کے بعد کتاب قاری کے کمپیوٹر پہ محفوظ ہو جائے گی اور وہ کسی بھی وقت اس کو سکرین کے ذریعے پڑھ سکے گا۔ اس کے کمپیوٹر پہ بے شمار کتابیں محفوظ ہو سکیں گی اور اسے جگہ کی کمی کی شکایت بھی نہیں ہوگی۔ یوں سفر کرتے ہوئے بھی ہزاروں کتابیں اس کے ہمراہ ہوں گی۔کتاب پڑھنے کا مرحلہ بھی بہت دل چسپ ہوگا۔ ٹچ سکرین کے ذریعے کمپیوٹر کو ہدایات دی جا سکیں گی۔ قاری اپنی آسانی کے لیے متن کی جسامت چھوٹی بڑی کر سکے گا۔ اسی طرح وہ کسی مشکل لفظ کا مطلب بھی ایک کلک کے ذریعے دیکھ سکے گا اور کسی جملے یا صفحے کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ بھی کر سکے گا۔ اسی طرح کتاب اسے اپنا متن خود پڑھ کر بھی سنا سکتی ہے یا قاری کتاب پڑھتے ہوئے کمپیوٹر سے اپنی پسند کی موسیقی بھی سن سکتا ہے۔قاری کتاب پڑھتے ہوئے اپنے نوٹس یا تبصرے بھی وہاں محفوظ کر سکے گا۔ کمپیوٹر قاری کے مطالعہ کا حساب بھی رکھے گا کہ اس نے کس وقت کون سی کتاب پڑھی۔ قاری اپنی پسند کے حصوں کو دوسروں کے لیے نمایاں بھی کر سکے گا۔آپ کی الیکٹرونک کتاب آپ کی پسند اور مطالعہ کے معمول کو دیکھتے ہوئے آپ کو مزید کتابوں کا مشورہ بھی دے گی۔ اس طرح علم دوستی کے لمبے سفر میں وہ آپ کے ساتھ ساتھ رہے گی۔الیکٹرونک کتاب سے بے شمار آسانیاں پیدا ہوں گی۔ آپ کے دوست جاننے والے کسی کتاب پہ کیے گئے آپ کے تبصروں کو بھی دیکھ سکیں گے۔ آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو آپ کی منتخب کتابوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کی کتاب دوستی آپ کے لیے نئے دوستوں کے تعارف کا باعث بھی بنے گی۔روایتی کتاب کا تصور بدل رہا ہے تو ساتھ ہی کتب خانوں کا تصور بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک مکمل ڈیجیٹل لائبریری میں آپ کو کاغذ کی بنی کوئی کتاب نظر نہیں آئے گی۔ آپ دور بیٹھے اس کتب خانے کی کسی بھی کتاب کو اپنے کمپیوٹر پہ پڑھ سکتے ہیں۔ روایتی کتب خانے بھی اپنے پڑھنے والوں کو الیکٹرونک کتابوں تک رسائی دے رہے ہیں۔ امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق امریکہ میں ۷۲ فیصد لائبریریاںالیکٹرونک کتابیں فراہم کر رہی ہیں۔ دنیا کے ایک بڑے کتب خانے شکاگو پبلک لائبریری میں ایک اندازے کے مطابق ۳۶ہزار الیکٹرونک کتابیں موجود ہیں۔ذیل میں اس وقت مقبول الیکٹرونک ریڈرز ، ای بک سٹورز الیکٹرونک کتابوں کے بڑے منصوبوں کا تعارف پیش خدمت ہے۔ایمزون انٹرنیٹ پر کتابیں فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ۱۹۹۵ء میں امریکہ میں قائم ہوا۔ دنیا کا مقبول الیکٹرونک ریڈر، کینڈل بھی ایمزون نے متعارف کروایا۔ یہ موبائل جیسا آلہ ہے جس کی سکرین پہ الیکٹرونک کتاب کو پڑھاجا سکتا ہے۔ یہ آلہ ۲۰۰۷ء میں سامنے آیا۔ کینڈل کے ذریعے قارئین ایمزون کے آن لائن بک سٹور تک جا سکتے ہیں۔ یہاں وہ الیکٹرونک کتاب کو منتخب کرکے اپنے پڑھنے کے لیے محفوظ کر سکتے ہیں۔ یہ آلہ دس لاکھ سے زائد کتابوں تک قارئین کی رسائی ممکن بناتا ہے۔ ان کے علاوہ ۲۰؍ لاکھ سے زائد ایسی کتابیں جن کی اشاعت کے حقوق ختم ہو چکے ہیں وہ بھی یہاں دستیاب ہیں۔ اس میں کتابوں کے علاوہ اخبارات اور رسالوں کو بھی پڑھا جا سکتا ہے۔کینڈل کا وزن ایک روایتی کتاب سے کم ہوتا ہے۔ اس کی سکرین سے سورج کی روشنی میں بھی پڑھنا ممکن ہوتا ہے۔ ایمزون کا دعویٰ ہے کہ اس میں ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس سے قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ کاغذ پہ لکھی تحریر پڑھ رہا ہو۔کینڈل کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ جب اسے فروخت کے لیے پیش کیا گیا تو یہ ابتدائی ساڑھے پانچ گھنٹوں میں فروخت ہوگیا۔ پھر اگلے پانچ مہینے یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ابتدا میں فروخت ہونے والے آلات کی تعداد ۳ ؍ سے ۵ ؍ لاکھ کے درمیان تھی۔ایمزون کے سربراہ، چیف بی زوس نے کہا کہ ہم ۱۵؍سال سے انٹرنیٹ پر کتابیں فروخت اور تقریباً ۴؍ سال سے کینڈل فروخت کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ مستقبل الیکٹرونک کتاب کا ہے لیکن اس کا تصور اتنی تیزی سے مقبولیت حاصل کرے گا، یہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ایمزون اپنے الیکٹرونک ریڈر کو قارئین کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لیے نئے منصوبے بھی متعارف کرواتا رہتا ہے۔۲۰۱۱ء میں ایمزون نے کینڈل استعمال کرنے والوں کو امریکہ کے ۱۱؍ہزار کتب خانوں تک رسائی دینے کے منصوبے کا آغاز کیا۔ اسی طرح کینڈل کی قیمت کو کم کرنے کے لیے اس کی سکرین پہ اشتہارات کا سلسلہ بھی شروع کیا لیکن اس میں اس بات کا خیال بھی رکھا گیا کہ قاری کو کتاب پڑھنے میں دشواری نہ ہو۔یہ بات بھی اہم ہے کہ ۲۰۱۰ء کی آخری سہ ماہی میں ایمزون کی امریکہ میں الیکٹرونک کتابوں کی فروخت کاغذی جلد والی کتابوں سے زیادہ ہو چکی تھی۔جدت کے میدان میں مزید آگے بڑھتے ہوئے الیکٹرونک کتابیں پڑھنے کے لیے ایمزون نے کینڈل فائر کے نام سے موبائل کمپیوٹر بھی متعارف کروایا ہے۔نوک (Nook) کے نام سے الیکٹرونک ریڈر امریکہ کے کتابیں فروخت کرنے والے ایک بڑے ادارے بارنز اینڈ نوبل نے ۲۰۰۹ء میں متعارف کروایا۔اس ادارے کی جدید پراڈکٹ نوک سمپل ٹچ کے ذریعے ۵ئ۲ ملین کتابوں تک رسائی ممکن ہے۔ ۲۰۱۱ء کی دوسری سہ ماہی میں نوک اور اس سے متعلقہ اشیا کی فروخت ۲۲۰؍ملین ڈالر رہی۔سونی ریڈر بھی ایک الیکٹرونک ریڈر ہے جسے الیکٹرونکس سے تعلق رکھنے والی معروف جاپانی کمپنی سونی نے متعارف کروایا ہے۔ اس کی سکرین سے سورج کی روشنی میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کی مدد سے صارف کئی ممالک کے کتب خانوں سے الیکٹرونک کتابیں لے کر پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح قارئین سونی ای بک سٹور سے الیکٹرونک کتابیں خرید سکتے ہیں۔کوبو ای ریڈر ٹورنٹو کی کمپنی کوبو نے تیار کیا ہے۔ اس میں الیکٹرونک اِنک ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو کاغذ پر سے پڑھنے جیسا احساس پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔گوگل ای بکس پروگرام انٹرنیٹ سرچ سے تعلق رکھنے والی کمپنی گوگل کی طرف سے ۲۰۱۰ء میں شروع ہوا۔ اس کے ذریعے صارف گوگل کے ای بک سٹور سے خریدی گئی الیکٹرونک کتابیں آن لائن پڑھ سکتا ہے یا بعد میں پڑھنے کے لیے محفوظ کر سکتا ہے۔ اس پہ تیس لاکھ کتابیں موجود ہیں۔ جن میں مقبول بھی شامل ہیں۔ صارفین یہ کتابیں لیپ ٹاپ، سمارٹ فون اور موبائل کمپیوٹر پر پڑھ سکتے ہیں۔۲۰۱۰ء میں دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے آئی پیڈ کے نام سے موبائل کمپیوٹر متعارف کروایا۔ آئی پیڈ استعمال میں بھی آسان تھا اور اس کے ڈیزائن کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس میں ۹ ؍گھنٹے تک بیٹری لائف کی سہولت بھی موجود تھی۔ اس پر موسیقی، گیمز، فلموں اور انٹرنیٹ کی معلومات کے ساتھ ساتھ آئی بک سٹور کے نام سے سہولت موجود تھی جس کے ذریعے قارئین کتابیں خرید کر انھیں پڑھ سکتے تھے۔بھارت نے ونک کے نام سے الیکٹرونک ریڈر متعارف کروایا ہے۔ اس کے ذریعے ۲ ؍ لاکھ سے زائد کتابیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ ان کی تعداد میں ہر ماہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر بھارت کی ۱۵ ؍ زبانوں میں کتابیں موجود ہیں۔ قاری ایک مرتبہ چارج کرنے سے اس آلے پر ایک ہزار صفحات یا ۱۰؍گھنٹوں تک کی موسیقی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔اسی طرح بھارت میں ایک الیکٹرونک ریڈر پائی کے نام سے موجود ہے۔ اس کا وزن ایک رسالے کے وزن سے کم ہے۔ یہ قارئین کو ایک لاکھ سے زائد کتابوں تک رسائی دیتا ہے۔ ان میں ہندی، سنسکرت اور کئی دوسری زبانوں میں کتابیں موجود ہیں۔ اسے تعلیم کے میدان میں بھی استعمال کرنے پہ غور کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں آئی پیڈ کی طرز کا کم قیمت موبائل کمپیوٹر بھی متعارف کروایا گیا ہے جسے تعلیمی مواد کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔پاکستان میں بھی محدود پیمانے پر چند ایسے منصوبے موجود ہیں جن کے ذریعے الیکٹرونک کتابوں تک لوگوں کو رسائی دی جا رہی ہے۔ ہائریجوکیشن کمیشن کا ادارہ اپنے نیشنل ڈیجیٹل لائبریری پروگرام کے تحت طالب علموں کی علمی جرائد کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک کتابوں تک رسائی ممکن بنا رہا ہے۔ اس لائبریری میں ۷۵؍ہزار سے زائد کتابیں، جرائد اور مضامین موجود ہیں۔اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت سائبر لائبریری منصوبے پہ کام کر رہی ہے جس کا مقصد قومی اور دیگر مقامی زبانوں میں انٹرنیٹ پہ مواد کی فراہمی ہے۔ اس لائبریری میں مذہب، ادب، تاریخ اور سائنسی موضوعات پہ کتب موجود ہیں۔گوگل بکس کی سہولت انٹرنیٹ سرچ سے تعلق رکھنے والی بڑی کمپنی گوگل نے ۲۰۰۴ء میں متعارف کروائی ہے۔ اس کے ذریعے صارفین اس پروگرام میں موجود کتابوں میں کوئی لفظ یا تصور تلاش کر سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں دنیا کے سو سے زائد ممالک کے ۳۵؍ہزار پبلشروں کی ۱۵؍ملین سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ یہ کتابیں دنیا کی ۳۰۰؍ زبانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ صارفین ان کے چند صفحات ملاحظہ بھی کر سکتے ہیں۔گوگل کے اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں ۱۳۰؍ملین کے قریب کتابیں موجود ہیں۔ گوگل کا عزم ہے کہ وہ جلد ان تمام کتابوں کو اپنے پاس محفوظ کر لے گا۔ اس طرح وہ انسانی علم کے سب سے بڑے مجموعہ کے طور پر سامنے آئے گا۔گٹن برگ الیکٹرونک شکل کتابوں کی مفت فراہمی سے تعلق رکھنے والا ایک اور منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت ۳۸؍ہزار کتابیں آن لائن موجود ہیں۔انٹرنیٹ آرکائیو ، ایک غیرکاروباری، غیر منافع بخش منصوبہ ہے۔ یہ ایک ڈیجیٹل لائبریری ہے جس کا مقصد عام لوگوں کی علم تک رسائی ممکن بنانا ہے۔ اسے ۱۹۹۶ء میں شروع کیا گیا۔ اس میں ۳۰؍ لاکھ کے قریب حقوقِ اشاعت نہ رکھنے والی کتابیں موجو د ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق ای کتاب کی مارکیٹ میں ایپل اور گوگل جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے آنے سے مسابقت کا رجحان بڑھے گا۔ اس سے قارئین کو کم قیمت الیکٹرونک کتاب اور الیکٹرونک ریڈر ملے گا۔ جس کی خصوصیات بھی زیادہ ہوں گی اور یہ قارئین کی زیادہ کتابوں تک رسائی کو یقینی بنائے گا۔کاغذ اور روایتی کتاب کے وجود میں آنے سے مخصوص طبقات کی اجارہ داری ختم ہوئی اور عام لوگوں کی تعلیم کو فروغ ملا۔ اسی طرح الیکٹرونک کتاب عام لوگوں کی علم کے ذریعے ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی

بشکریہ
اردو ڈائجسٹ
 
Top