حضرت مولانا محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ

  • موضوع کا آغاز کرنے والا قاسمی
  • تاریخ آغاز
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
………………………
حضرت مولانا مفتی محمود صاحب گنگوھی رحمتہ اللہ علیہ کے نام نامی و اسم گرامی سے کون سا اہل علم نا واقف ہوگا۔ آپ اپنے وقت کے جید عالم، بے مثال محدث اور قاری قرآن کے ساتھ ساتھ زبردست ’’داعی‘‘ تھے۔ دعوت کے خلاف ایک لفظ سننا آپ کو بالکل گوارہ نہ تھا اور نہ ہی سن کر برداشت کرلینے کی طاقت تھی۔ قوت حافظہ کا تویہ عالم تھا کہ جب درس کے دوران کبھی کسی شعر پر کچھ روشنی ڈالنی ہوتی تو سیکڑوں اشعار لگاتار بغیر کسی تاخیر و تو قف کے سنا ڈالتے جس میں گلستاں اور بوستاں سے لے کر درجات عالیہ کی کتابوں کے سیکڑوں اشعار ہوتے جن کو سن کر طلباء اساتذہ اور دوسرے حضرات دنگ رہ جاتے۔ آپ کو شعر اور شا عری سے اتنی دلچسپی تھی کہ آپ وقت نکال کر اکثر مشاعرے میں جاتے جہاں تہذیب کے دائرہ کے اندر رہ کر مشاعرہ کا اہتمام ہوتا وہیں تشریف لے جا تے وگر نہ نہیں۔ایک بار حضرت مفتی صاحب حج کے لئے (تشریف لے) گئے ہوئے تھے وہاں کہیں پر سر زمین حجاز میں مشاعرہ تھا وہاں آپ بھی پہنچ گئے ۔ وہاں’’ اسٹیج‘‘ پر چند شعراء بیٹھے اپنا ا پنا کلام عربی زبان میں سنا رہے تھے۔ حضرت مفتی صاحب نے ایک شخص کو دیکھا کہ کتاب کھول کر پرانے اشعار سنا رہا ہے اور خوب واہ وا۔ واہ وا ۔ سبحان اللہ۔ سبحان اللہ کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ جب اس شخص نے اپنا سلسلہ کلام ختم کیا ۔ حضرت مفتی صاحب اس کے بالکل قریب پہنچے اور اس کے کان میں کہا’’بھائی اب تم یہ کتاب مجھے دیتے جاؤ۔ نہ میں تمہارے بارے میں کسی سے کچھ کہوں گا نہ تم کسی سے کہنا‘‘ یہ سن کر وہ خاموشی سے کتاب دے کر مجمع سے غائب ہو گیا۔ بعد میں حضرت مفتی صاحب نے فرمایا’’وہ شخص جو لہک لہک کر شعر سنا رہا تھا وہ جنات تھا کسی پرانے شاعر کی کتاب چرا کرلایا۔ وہ سمجھا کہ کوئی مجھے تو پہچانے گا نہیں ۔لیکن جب میں پہچان لیا کہ یہ انسان نہیں بلکہ جن ہے تو بدرجہ مجبوری’’ طوعاًو کرہاً ‘‘ کتاب دے کر چلا گیا‘‘
حضرت مفتی صاحب جب ’’ جامع العلوم کان پور‘‘ میں تھے۔ اس وقت ان کو تین تنخواہ کے ٹوٹل پچھتر (75) روپئے ماہانہ ملتے تھے ۔ پچیس روپئے صدر مدرس کی تنخواہ، پچیس روپئے دار الافتاء کی تنخواہ اور پچیس روپئے شیخ الحدیث و التفسیر کی تنخواہ۔ یہ تینوں مل کر میزان پچھتر (75) روپئے ہوئے۔ حضرت مفتی صاحب نے کبھی ان میں سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔ وہ ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو ناظم صاحب کے دفتر جاتے اور وہاں پر رجسٹر میں تین جگہ دستخط کر کے 75روپئے ہاتھ میں لے کر ناظم صاحب کے دفتر سے ایک قدم باہر نکالتے اور دوبارہ وہاں ناظم صاحب کے دفتر میں جا کر یہ رقم ناظم صاحب کے ہاتھ پر رکھدیتے اور فرماتے’’ناظم صاحب یہ رقم میری طرف سے مدرسہ کی امداد ہے‘‘ اور خالی ہاتھ اپنی درسگاہ میں واپس آجاتے۔ مگر اس مرد خدا کے دستر خوان پر میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ صبح کے ناشتہ میں دوپہر کے کھانا میں اور رات کے کھانا میں پتہ نہیں کتنے آدمی خوب ڈٹ کر کھاتے تھے۔ کھلانے والا تو کھلا رہا تھا۔ مگر کہاں سے آرہا تھا یہ اللہ ہی جانے۔
ایک بار کسی گجراتی مسلمان نے مفتی صاحب کو خط لکھا’’حضرت اتنی قلیل تنخواہ پر آپ وہاں کام کر رہے ہیں ( یعنی پچھتر روپئے) آپ ہمارے مدرسہ میں آجائیے ہم آپ کی خدمت میں ماہانہ ’’پانچ سو روپئے‘‘ پیش کریں گے۔ اس لکھنے والے نے سوچا ہوگا یہ مفتی دنیاوی کتا ہے میرے بلانے سے بھاگتا چلا آئے گا۔ مگر یہ پتہ نہیں تھا کہ کس کو خط لکھ رہا ہے اور کیا لکھ رہا ہے؟ حضرت مفتی صاحب نے خط پڑھا اور ایک طرف رکھ دیا-
کچھ جواب نہیں دیا۔ اس لکھنے والے نے دوبارہ خط لکھ کر سوچا کہ شاید یہ رقم کم ہو لہٰذا اور بڑھا کر لکھا ’’آپ ہمارے مدرسہ میں آجائیے ہم آپ کو ماہانہ ایک ہزار روپئے بھی دیں گے اور ایک کار مع ڈرائیور کے دیں گے جہاں بھی آپ جانا چاہیں گے آرام سے جا سکیں گے‘‘ اب مفتی صاحب کو جوش آگیا۔ طالب علموں سے کہا’’جلدی ایک خط لاؤ ابھی ابھی لکھنا ہے‘‘ پھر آپ نے خط کا جواب لکھا’’ آپ کے دونوں خط مل گئے اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ ایک کام کریں آپ ہمارے پاس جامع العلوم میں آجائیں۔ آپ کو ایک کام کرنا ہے کہ طلباء جب درسگاہ میںآتے ہیں تو آگے بیٹھنے کے لئے اتنی تیزی سے بھاگتے ہیں کہ جوتا اور چپل کی جوڑی ادھر ادھر ہو جاتی ہے۔ آپ ہمارے طلباء کے جوتے اور چپل کی جوڑی ملا کر صحیح ترتیب سے رکھ دیا کریں تاکہ درس کے بعد جب طلباء جانے لگیں تو ان کو جوتا چپل ڈھونڈنا نہ پڑے بلکہ بڑی آسانی سے دستیاب ہوجائے۔ انشاء ا للہ دو ہزار روپیہ ہر ماہ نذرانہ آپ کی خدمت میں پیش کیاجائے گا‘‘
مفتی صاحب کا خط جب ان صاحب کو ملا بڑا تعجب ہوا اپنے چند ساتھیوں کو خط دکھایا انھوں نے ان ہی کو خوب ڈانٹا او برا بھلا کہا کہ کیا تم نے مفتی صاحب جیسے اللہ والے اور بزرگ ہستی کو بازاری مدرس سمجھ کر خط لکھا تھا۔ اب ایک ہی صورت ہے کہ تم خود جاؤ اور حضرت مفتی صاحب سے معافی مانگو-
خیر وہ صاحب آئے اور معافی کی درخواست کی۔ حضرت نے فرمایا بھئی اس میں تم نے کون ساگناہ کیا ہے جو معافی چاہ رہے ہو تم نے اپنی حیثیت کے موافق تنخواہ دینے کا اعلان کیا۔ میں نے توکلت علی اللہ دو ہزار روپیہ طے کیا دونوں برابر ہوگئے۔ خیر جاؤ میں نے معاف کیا اللہ بھی تم کو معاف کرے۔ حضرت مفتی محمود حسن گنگوھی علیہ رحمہ کو ’’ طی ّالارض‘‘ بھی حاصل تھا۔ وہ بہت جلد ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے تھے۔ یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر سال مفتی صاحب کو لوگو ں نے کبھی مکہ میں دیکھا کبھی مدینہ میں۔ کوئی کہتا ہم نے عرفات کے میدان میں دیکھا ہے کوئی کہتا کہ منیٰ میں مجھ سے مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی-
حضرت مولانا عبدالشکور فرنگی محلی کا انتقال لکھنؤ میں ہوگیا۔ یہاں کان پور میں خبر آگئی شام کے وقت… لوگوں نے مشورہ کیا کہ کب چلنا ہے؟ کوئی کہتا کہ ہم تو ابھی رات کو ہی چلے جائیں گے تاکہ جنازہ میں شرکت کر سکیں۔ کوئی کہتا کہ ہم صبح کو جائیں گے ۔اپنی نماز بغیر جماعت کے پڑھ کر نکل جائیں گے۔مفتی صاحب سے جب لوگو ں نے پوچھا تو آپ نے کیا جواب دیا یہ سننے کی چیز ہے مفتی صاحب نے فرمایا’’ جنازہ میں شرکت کرنا نہ فرض ہے وہ واجب کیا ضرورت ہے کہ اس کے لئے ہم صبح کی نماز کی جماعت ترک کریں میں تو صبح کی نماز جماعت سے پڑھو ںگا اس کے بعد جاؤں گا۔ اگر اللہ نے پہنچا دیا تو اس کا کرم ہے ورنہ اپنے ہاتھ میں کیا ہے؟ اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟
الغرض بہت سے حضرات نے صبح کی نماز انفرادی پڑھی اور لکھنؤ پہنچ گئے۔ وہاں پر دیکھا کہ مفتی صاحب تو بیٹھے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا بھائی مجھے یہاں پہنچ کر تقریباً پندرہ بیس منٹ ہو چکے ہیں اور میں جامع العلوم میں جماعت سے صبح کی نماز پڑھ کر چلا ہوں۔ یعنی پہلے چل دینے والے حضرات بہت بعد میں پہنچے اور حضرت مفتی صاحب پہلے پہنچ گئے۔ تب لوگوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ شاید حضرت کو طی ّالارض حاصل ہے۔ حضرت مفتی صاحب کے پاس مولانا ابرار ا لحق صاحب ہردوئی والے اور مولانا صدیق احمد صاحب باندہ والے بہت کثرت سے آیا کرتے تھے اور ان دونوں پر حضرت مفتی صاحب کو فحر تھا۔ فرمایا کرتے تھے کہ اگر خدا نے قیامت کے دن یہ سوال کر دیا کہ ’’مفتی محمود دنیا سے کیا کما کر لائے ہو؟‘‘ تو میں ایک ہاتھ سے پکڑ کر ابرار الحق کو اور دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر صدیق احمد کو خدا کے حضور پیش کردو ں گا اور کہوں گا ’’ اے باری تعالیٰ میری زندگی بھر کی کمائی یہی دونوں میرے شاگرد ہیں‘‘ غرض کہ مفتی صاحب کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں جن پر اگر لکھنا چاہیں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ مفتی صاحب کے چاہنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں آپ ان کے یہاں تشریف بھی لے جایا کرتے تھے اس میں چند حضرات’’افریقہ‘‘ میں بھی رہ رہے ہیں ۔ حضرت مفتی صاحب کو وہ لوگ بڑے اصرار سے بلاتے اور آپ افریقہ تشریف لے جاتے بھی تھے۔ آ پ کی زندگی کا آخری سفر بھی افریقہ کا ہوا۔ آپ اپنے محبین کے یہاں تشریف لے گئے ہوئے تھے وہاں جا کر مختصر علالت کے بعد آپ کا انتقال بھی افریقہ ہی میں ہوا۔ اور وہیں افریقہ میں سپرد خاک کر دئیے گئے۔ آپ کی یاد میں صرف ایک مصرع میں اکثر پڑھا کرتا ہوں’’ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے-‘‘
bxkr
بشکریہ شعا ئیں[/size]
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
مضمون کے شیئر کرنے کا شکریہ
کرامات اوراس قبیل کی چیزیں ایسی ہیں جن کو عام طورپر بیان کرنا مناسب نہیں ہوتاکیونکہ لوگ پھر رد وکد میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے بجائے مفتی صاحب کی زندگی کے ایسے گوشے جس سے خلق خدا کی اصلاح ہو اوران کوفیض پہنچے۔طالب علموں کو رہ نمائی ملے اورعوام الناس سبق حاصل کریں ۔ایسے واقعات لکھنے زیادہ ضروری ہیں۔
یہ چند باتیں ذہن میں آئیں اوراس کو لکھ دیاگیا۔
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
بےشک کرامات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں رہتی۔فرمایا گیا اگر لاکھ کرامات ہوں اوربندہ سنن وغیرہ کی پابندی نہ کرے تو صاحب کرامات کی حیثیت اللہ والوں کی فہرست میں مشکوک رہتی ہے ۔ارباب سالکین فرماتے ہیں!
فرائض ،واجبات کے ساتھ سنن ومستحبات پر پا بندی ہی اصل کرامت ہے۔
اس کے باوجود جب کسی اللہ والا ۔متقی پر ہیز گار ،اپنی زندگی کا ہر ہر لمحہ اتباع مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں گزرتا ہے
تو ایسی بزرگ شخصیات کا تذکرہ کر تے ہوئے ضمنا کرامات کا تذکرہ کرناکوئی معیوب بات نہیں۔خواہ مخواہ کے اعتراض کا جواب حکیم لقمٰن کے پاس نہیں۔اور نہ ہی الغزالی ایسی باتوں کو پسند کرتا ہے۔آزادی رائے کا مطلب تضحیک وتفسیق نہیں بلکہ تحقیق ہے اور اس سلسلہ میں اسلاف امت نے کافی کچھ لکھا ہے۔
والسلام
 
Top