خیال وخواب ہوئی محبتیں کیسی : عبید اللہ علیم

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن

خیال وخواب ہوئی محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ھیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ھیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ھیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ھیں پسِ جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ھیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکائتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ھے
میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عناتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ھے سیاستیں کیسی

نہ صاحبانِ جنوں ھیں نہ اہل کشف وکمال
ہمارے عہد میں‌آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ھے سو وہ اب سنگ وخشت لاتا ھے
فضا یہ ہو تو دلوں کی نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ھے بچا رکھو خود کو
یہاں‌صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

عبید اللہ علیم
 
Top