دلوں کی زندگی۔۔۔۔۔اللہ کے ذکر میں

مبصرالرحمن قاسمی

وفقہ اللہ
رکن
ذکر سے خالی دل مردہ ہے:
جو شخص ذکر کے مفہوم کو سمجھنے سے محروم رہا وہ آرام دہ اور اطمئنان بخش زندگی سے محروم رہا، یہی وجہ ہے کہ مومن کو ہمہ وقت ذکر الٰہی سے رطب اللسان رہنا چاہیے۔ امام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: "دل کے لیے ذکر اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک مچھلی کے لیے پانی، "۔ حضرت ابودرداء ؓ کہتے ہیں: "ہر چیز کو (پالش) کیا جاتا ہے، اور دلوں کی پالش اللہ رب العزت کا ذکر ہے"۔
ذکر کے بدلے ۔۔۔جنت کے مکانات
آپ ﷺ کا ارشاد ہے: لقيت ليلة أسري بي إبراهيم الخليل عليه السلام، فقال: يا محمد أقرئ أمتك السلام، وأخبرهم أن الجنة طيبة التربة، عذبة الماء، وأنها قيعان، وأن غرسها سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر» [حسن
جس رات مجھے معراج لے جایا گیا، حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے میری ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا: اے محمد : اپنی امت کو سلام کہیے اور انہیں یہ بتایئے کہ جنت بہترین مٹی اورمیٹھے پانی والی ہے، اور یہ (درخت وغیرہ سے خالی) دو چٹیل زمینیں ہیں، البتہ ان میں شجرکاری کے ذرائع سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالہ الا اللہ اور اللہ اکبر ہیں۔(حسن)
جنت کے گھرذکر کے ذریعے تعمیر کیئے جاتے ہیں، جب ذاکر(ذکرکرنے والا)اللہ کے ذکر سے رک جاتا ہے، تو فرشتے بھی جنت میں گھر کی تعمیر سے رک جاتے ہیں، پھر جب ذاکر ذکر الٰہی شروع کرتا ہے تو فرشتے بھی اپنے کام(یعنی گھر کی تعمیر) میں لگ جاتے ہیں۔
ذکر الٰہی۔۔۔۔۔۔ذریعۂ نجات
ذکر کرنے والا بندۂ مومن ، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہوجاتا ہے، اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی معیت ورحمت کے سبب مطمئن رہتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: ما عمل ابن آدم عمل أنجى له من عذاب الله من ذكر الله عز وجل قالوا: يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: ولا الجهاد في سبيل الله، إلا أن تضرب بسيفك حتى ينقطع، ثم تضرب به حتى ينقطع
ترجمہ: آدم کے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ کوئی عمل نجات نہیں دے سکتا، صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول، اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے میں جھاد بھی نہیں، مگر یہ کہ تم اپنی تلوار سے (اتنا لڑو کہ) وہ ٹوٹ جائے ، پھر اتنا لڑو کہ وہ ٹوٹ جائے۔
فضیل بن عیاض کہتے ہیں: ہمیں یہ روایت پہنچی کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے میری بندے تو مجھے صبح کے بعد کچھ دیر یاد کر، اسی طرح عصر کے بعد ، میں تیرے لیے ان اوقات کے درمیان کے لیے کافی ہوجاؤں گا۔
(بروایت حضرت ابوہریرہ )
حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں: اہل جنت کو جنت میں کسی چیز پر اتنا افسوس نہیں ہوگا سوائے اس گھڑی کے جو انھوں نے ذکر الٰہی کے بغیر گذاری تھی…
لہٰذا۔۔۔۔
میرے محترم بھائی!
اپنے لیے ہر روز صبح وشام تک ذکر الٰہی کے لیے ایک وقت متعین کیجئے تاکہ اس کے ذریعہ تم آسمان وزمین کے برابر کشادگی والی جنت حاصل کرسکو۔
ذکر اور دعا کے آداب:
۱۔ دعا کے لیے مندرجہ ذیل اوقات کے منتظر رہے:
سال میں عرفہ کا دن، مہینوں میں ماہ رمضان، ہفتے میں جمعہ کا دن، اور اوقات میں سحر کا وقت
۲۔ ان مبارک حالات سے فائدہ اٹھائے
اللہ کے راستے میں لشکروں کے باہم مڈبھیڑ کے وقت، بارش کے نزول کے وقت اور نماز کے قائم ہونے کے وقت
۳۔ قبلہ رخ ہوکر دونوں ہاتھوں کو اٹھاکر دعا کرے۔
۴۔ دھیمی اور بلند یعنی درمیانی آواز میں دعا کرے۔
۵۔ دعا میں تکلف کے طور پر الفاظ کا استعمال نہ کرے بلکہ تضرع اور عاجزی ہو۔
۶۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع، عاجزی ، انکساری اور تضرع کا مظاہرہ کرے۔
۷۔ دعا ،قبولیت کے یقین کے ساتھ کرے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔
۸۔ دعا اصرار سے مانگے اور تین تین بار دہرائے۔
۹۔ دعا کا آغاز اللہ تعالیٰ کے ذکر اور آپ ﷺ پر دورود وسلام کے ذریعے کرے۔
۱۰۔ سچی توبہ ، اپنے باطن کی اصلاح ، حلال کھانے اور ظلم کا خاتمہ پر توجہ دے۔
جنت میں لیجانے والے اذکار:
آپ ﷺ کا ارشاد ہے: من قال في يوم وليلة سبحان الله وبحمده مائة مرة حُطت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر» [صحيح
ترجمہ: جس نے دن ورات میں سبحان الله وبحمده سو مرتبہ پڑھا ، اس کے سمندر کے جھاگ کے برابر بھی گناہ ہو تو معاف کردیئے جائیں گے۔
نیز آپ کا ارشاد ہے: من قال سبحان الله العظيم وبحمده غرست له نخلة في الجنة» [صحيح].
ترجمہ: جس نے سبحان الله العظيم وبحمده کہا اس کے لیے جنت میں ایک کھجور کا درخت لگادیا جاتا ہے۔
اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے: من قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير في يوم مائة مرة كانت له عدل عشر رقاب وكتبت له مائة حسنة، ومحيت عنه مائة سيئة، وكانت له حرزاً من الشيطان يومه ذلك حتى يمسي، ولم يأت أحد بأفضل مما جاء به إلا رجل عمل أكثر منه» [صحيح
ترجمہ: جس نے لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير دن میں سو مرتبہ پڑھا ، اس کے لیے دس غلاموں کو آزاد کرنے اور سو نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے، اور سو گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے، اور شام تک شیطان سے اس کو محفوظ کردیا جاتا ہے، اور اس عمل کرنے والے سے زیادہ افضل کوئی شخص نہیں آتا مگر وہ جس نے اس سے زیادہ عمل کیا ہو۔
دل کو اللہ کے ذکر سے کیسے زندہ رکھیں؟
جب ذکر کی اتنی اہمیت ہے تو دل کو ذکر الٰہی سے زندہ رکھنے کے بارے میں ہمارا کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟
ابن قیم کہتے ہیں: کبھی کبھی ذکر دل اور زبان دونوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے، اور یہ ذکر کا افضل طریقہ ہے، لیکن کبھی ذکر صرف دل میں کیا جاتا ہے، یہ طریقہ دوسرے درجہ پر ہے، اسی طرح کبھی کبھی صرف زبان سے ذکر کیا جاتا ہے اور دل غیر حاضر ہوتا ہے، تو یہ ذکر کا تیسرا درجہ ہے۔
افضل ذکر یہ ہے کہ زبان اور دل حاضر ہو،اور صرف دل کا ذکر زبان کے ذکر سے افضل ہے اس لیے کہ دل میں ذکر کرنے کی وجہ سے معرفت الٰہی عطا ہوتی ہے اور معرفت مراقبہ کو دعوت دیتی ہے۔
یقینا آپ کہیں گے کہ ذکر کے دوران دل اور زبان کے اجتماع پر کون قادر ہے۔
میرے محترم بھائی! ہم سب کمزور ہیں، لیکن زبان کے ساتھ دل کا ذکر ایمان کا معیار ہے۔
ذکر کا طریقہ:
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں فکر کرنا، دائمی محاسبہ اور مراقبہ کرنا، اللہ تعالیٰ کی قدرت اورصنعت کو پہچاننا۔ جب یہ عمل کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ اس کے نتیجے میں ہمارا دل اللہ کی یاد سے زندہ رہیں گے۔
ذکر کے فوائد:
ذکر کے بہت سارے فوائد ہیں جن میں سے چند ہم یہاں بیان کررہے ہیں:
۱۔ شیطان دور بھاگتا ہے، اور رحمن راضی ہوتا ہے۔
۲۔ دل اور بدن قوی ہوتا ہے، اور چہرہ اور دل منور ہوتا ہے۔
۳۔ ذکر کرنے والے کا چہرہ رعب، حلاوت اور تازگی سے لبریز ہوتا ہے۔
۴۔ ذکر سے مراقبہ حاصل ہوتا ہے یہاں تک کہ بندہ احسان کے باب میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرتا ہے گویا اسے دیکھ رہا ہے۔
۵۔ بندے کے حق میں ذکر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول حاصل ہوتا ہے: : {فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ} [البقرة: 152].
۶۔ ذکر سے گناہ مٹتے ہیں، اس لیے کہ ذکر سب سے بڑی نیکی ہے۔
۷۔ ذکر ،رحمت الٰہی،سکینت الٰہی اور مغفرت الٰہی کے نرول کا ذریعہ ہے۔
۸۔ کثرت سے ذکر کرنا نفاق سے حفاظت کا ذریعہ ہے: وَلاَ يَذْكُرُونَ اللّهَ إِلاَّ قَلِيلاً} [النساء: 142]
ترجمہ: اور وہ (منافقین) اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔
۹۔ذکر، دل کی سنگدلی اور سختی کے لیے باعث شفا ہے۔
۱۰۔ ذکر الٰہی رزق کے عظیم دروازوں میں سے ایک ہے۔
ذکر کے بارے میں علماء کے اقوال:
حضرت حسن کے پاس ایک آدمی آیا، اور ان سے کہا: او! ابوسعید۔۔ میں اپنے دل کی سختی کی شکایت کرتا ہوں، انھوں نے ارشاد فرمایا: اپنے دل کی سنگدلی کو ذکر الٰہی سے پگھلادو۔
مکحول کہتے ہیں: اللہ کا ذکر کرنا شفا ہے،اور بندوں کا ذکر کرنا بیماری ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنا مجھے زیادہ پسند ہے کہ میں اتنی ہی تعداد میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں دنانیر خرچ کروں۔
حضرت مالک بن دینار کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرح مزہ لینے والوں نے کسی اور چیز کا مزہ نہیں اٹھایا۔

ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی، ریڈیو کویت 18۔04۔2011
بشکریہ :عربی رسالہ :الذکر حیاۃ القلوب، ناشر، دار طیبہ
 
Top