دختر قصاب

alheri

وفقہ اللہ
رکن
ذو معانی اور بعید المعانی اشعار​
بعض اشعار جو وہبی نہیں کسبی ہوتے ہیں ذو معنی کہے جاتے ہیں ،اردو کی لچیلی زبان ان کے حسن وخوبصورتی کو دوبالا کر دیتی ہے ،ایک زمانے میں اظہار اثر نے اس موضوع پر آج کل میں ایک مضمون لکھا تھا اس میں ایسے کئی اشعار ہدیۂ ناظرین کئے تھے ،بعض اشعار سے آپ بھی محظوظ ہوں،،
ایک فتنہ ہے دخترِ قصاب
سینہ دکھلاکے ٹانگ دیتی ہے
دخترِ درزی کا سینا دیکھ کر
جی میں آتا ہے کہ مل مل دیجئے
چھالیاغم نے ترے ورنہ میں ایسا کدتھا
چوں نا کروں گا میں ،پان سے گا لی دے لے​
(اس شعر میں صوتی مارف سے معانی تبدیل کئے گئے ہیں ،،کد تھا صوتی اعتبار سے کتھّا پڑھا جائیگا اور چوں نا چونا (پان میں چونے )کا کام دے گا،پان سے دیہات میں پانچ سوکو کہتے ہیں شعر کیا پنواڑی کا ‘‘کھاجا‘‘ہے
اسی طرح بعید المعانی اشعار بھی کسبی ہو تے ہیں کچھ اشعار سے محظوظ ہوں
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا​
شاعر کہتا ہے کہ اگر باغ میں مکھی چلی گئی تو وہ وہاں شہد تیا کرے گی ،اس سے موم نکلے گا،جس کی شمع بن کر جلے گی اور اس پر پروانہ آکر مرے گا۔
حشر میں دعویٰ کرونگا موسیٰ پہ خون کا
کیوں اس نے آب دی مرے قاتل کی تیغ کو​
شاعر کہتا ہے کہ موسیٰ ؑ نے طور پر رب ارنی کہا، طورتجلیِ رب کی تاب نہ لاتے ہوئے جل کر سرمہ بنا،جسے محبوب نے آنکھ میں لگایا ،اوریوں اسکی حسین آنکھیں قاتل بنیں اور میرا قتل ہوگیا
گھر مرے مہمان آیا،تمہارے باغ میں سویا
سر اس کا کاٹ کر لادو کہ دعوت مہماں کی ہے​
یہاں سویا سے وہ سویا(سبزی) مراد ہے جو چٹنی وغیرہ میں ڈال کر کھایا جاتا ہے ،شاعر اس کی کونپل منگوانا چاہتا ہے ۔
بیل کولہو کا چلے ،اس طرح چلتا ہوں میں
پر مرے کاٹ دو تو دوڑنے لگتا ہوں میں​
گر الگ کردو مرے اول وآخر حروف
پھر تو خالی تین حرفوں پر’’ رکا ‘‘رہتا ہوں میں​
متکلم پرکا رہے شاعرکہتا ہے کہ جس طرح کولہو کا بیل گول گول چلتا ہے میں اس طرح چلتا ہوں ’’پرکار ‘‘ کے پر الگ کردو تو کار بن جاتا ہوں اگر شروع سے ’’پ‘‘ اور آخر سے ’’ر‘‘ کو الگ کردو تو ’’رکا‘‘ رہ جاتا ہوں
 
Top