بانی فرقہ بریلویہ مولانا احمد رضا خان کا تعارف

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
پیدائش:
مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی، ہندوستان کے صوبہ یو۔پی کے شہر بانس بریلی میں ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ روز شنبہ وقت ظہر مطابق ۱۴ جون ۱۸۵۶ء موافق ۱۱ جیٹھ صدی ۱۹۱۳ء کو پیدا ہوئے۔ (۱)
آپ کے خاندان کا تعارف:
آپ کا خاندان ہندوستان کے باشندگان میں سے نہ تھا۔ بلکہ غیر ملکی ہے، چنانچہ آپ کے خلیفہ مولانا ظفر الدین صاحب بہاری (المتوفٰی ۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ئ) آپ کا سلسلہ نسب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عبدالمصطفیٰ احمد رضا خان ابن حضرت مولانا نقی علی خان بن حضرت مولانا رضا علی خان بن حضرت مولانا حافظ محمد کاظم علی خان بن حضرت مولانا شاہ محمد اعظم خان بن حضرت محمد سعادت یار خان بن حضرت محمد سعید اﷲ خانؒ حضور کے آبائو اجداد قندھار کے موقر قبیلہ بڑھیچ کے پٹھان تھے۔ (۲)
نادر شاہ ایرانی افشاری (المتوفٰی۱۱۶۰ھ/۱۷۴۷ئ) نے جو ایران کا ایک رافضی حکمران تھا۔ اس نے سلاطین اسلام کی حکومتوں کا تختہ الٹنے اور بیخ کنی کرنے کی پوری سعی و کوشش کی چنانچہ پہلے پہل سنی افغان بادشاہ اشرف کی حکومت کا ایران سے استیصال کیا۔ اشرف چار سال سے فارس کا بادشاہ چلا آ رہا تھا۔ چونکہ وہ اہل سنت والجماعت سے تعلق
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۲)
(۲) (دیکھیئے حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۲)
رکھتا تھا اس لیے نادر نے (۱۱۴۲ھ/۱۷۱۹ئ) اس کی بادشاہی کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ طہماسپ صفوی شیعی کو بادشاہ بنا دیا۔ اس کے تعصب کا یہیں خاتمہ نہیں ہو گیا۔ بلکہ وہ آگے بڑھا اور غیر شیعہ اقوام کو ایران سے نکال کر اس نے کابل و قندھار بھی فتح کر لیا۔ ہمارے شہر لاہور میں بھی آیا اور یلغار کرتا ہوا دہلی جا پہنچا۔ جہاں ۱۱۵۰ھ میں اس نے قتل عام کیا۔ اور تیس کروڑ مالیت کا مال غنیمت لے کر ایران کو واپس چلا۔ (۱)
جس وقت نادر شاہ ایرانی نے ہندوستان کی سنی حکومت کو تباہ کرنے اور سنی مسلمانوں کو شہید کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اس وقت ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے ایک سنی حکمران روشن اختر ملقب بہ محمد شاہ (المتوفٰی ۱۱۶۱ھ/۱۷۴۸ئ) کی حکومت تھی۔ نادر شاہ کی یہ ایرانی شیعہ فوج دو لاکھ سواروں اور پیادہ سپاہیوں اور پانچ ہزار توپوں پر مشتمل تھی۔ (۲)
مولانا احمد رضا خان بریلوی کا خاندان بھی اس شیعہ رافضی ایرانی فوج میں شامل تھا۔ اس کا ثبوت ملاحظہ ہو۔
ثبوت نمبر۱:
ابو المنصور حافظ محمد انور صاحب قادری ایم اے لکھتے ہیں آپ کے جد اعلیٰ حضرت محمد سعید خان کا تعلق قندھار کے باوقار قبیلے بڑہیچ کے پٹھانوں سے تھا، نادر شاہ نے جس وقت مغلیہ خاندان کے حکمران محمد شاہ رنگیلا پر حملہ کیا۔ تو ۱۷۳۹ء میں یہ بھی ہمراہ آئے۔ شروع میں ان کا قیام لاہور میں رہا۔ لاہور کا شیش محل ان ہی کی جاگیر میں تھا۔ بعد میں دہلی چلے آئے۔ (۳)
ـ
(۱) (دیکھئے مقدمہ مناظرہ نادرہ ما بین سنی و شیعہ ص۳ ملخصاً)
(۲) (دیکھئے اسلامی تاریخ پاکستان و ہند ج۲ ص۲۰۶ ہدایت اﷲ خان چودھری)
(۳) (دیکھئے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان ص۱۲)
ثبوت نمبر۲:
مولانا ظفر الدین صاحب لکھتے ہیں: ’’عالی جاہ شجاعت جنگ بہادر جناب مستغنی عن القاب شاہ سعید اﷲ خان صاحب قندھاری بزمانہ سلطان محمد شاہ، نادر شاہ کے ہمراہ دہلی آئے۔ اور منصب شش ہزاری پر فائز ہوئے۔ ان کو سلطان والا شان کے یہاں سے بہت سے مواضعات جو زیرین ریاست رامپور میں معانی علی الدوام پر ملے تھے۔ یہ مواضعات ان کی اولاد کے پاس اب موجود نہیں۔ ان کا ایک شیش محل لاہور میں تھا۔ جس کا ابھی تک کچھ اثر باقی ہے۔ (۱)
برادران اسلام:
اس معتبر ثبوت سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت بریلوی کا خاندان نادر شاہ ایرانی کی شیعہ ایرانی فوج میں شامل تھا اور لڑائی کے لیے آیا تھا۔ چنانچہ لاہور کے شیش محل پر غاصبانہ قبضہ بھی جما لیا تھا۔ مگر نادر شاہ نے اپنی رافضی ایرانی فوج کو حکم دیا کہ لاہور چھوڑ کر دہلی پر حملہ کریں۔ تو ایرانی فوج نے اپنے مذہبی حکمران کا حکم تسلیم کرتے ہوئے لاہور چھوڑ کر دہلی پہنچے۔ چنانچہ جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ اعلیٰ حضرت بریلوی کے جد اعلیٰ بھی نادر شاہ کے ہمراہ دہلی پہنچے۔ اور علماء ہند کا شان دار ماضی ج۲ ص۳۴ میں ہے کہ نادر شاہ کا قتل عام ذیقعدہ ۱۱۵۱ھ فروری ۱۷۳۸ء میں ہوا۔ سو چند گھنٹوں میں یعنی صبح سے دوپہر تک شہر دہلی مردہ لاشوں سے پٹ گیا، مقتولین کی تعداد آٹھ ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک بیان کی گئی ہے۔ اور سیر المتاخرین والے نے رافضی ہونے کے باوجود لکھا ہے کہ مردہ لاشوں میں بدبو پھیل گئی اور راستے مسدود ہو گئے تو بغیر تمیز مسلم و کافر کے سب لاشوں کے جلانے کا حکم نادر شاہ نے دے دیا تو سب مردہ لاشوں کو جلا دیا گیا۔ (ملخصاً)
(۱) (حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۳)
پھر نادر شاہ کے معاہدے کے بارے میں ہدایت اﷲ خان چودھری لکھتا ہے۔ ’’معاہدے کی رو سے یہ قرار پایا کہ نادر شاہ پچاس لاکھ روپے بطور تاوان وصول کر کے فوراً واپس چلا جائے گا۔ اور مطلوبہ رقم مختلف اقساط سے اسے ادا کر دی جائے گی۔ آخری قسط اسے ایران جاتے ہوئے دریائے سندھ کو پار کرتے ہی پیش کر دی جائے گی۔ لیکن نظام الملک کے دشمن سعادت خان گورنر اودھ نے نادر شاہ کو مطلوبہ رقم میں اضافہ کر دینے پر رضا مند کر لیا۔ نادر شاہ نے تاوان کی رقم بیس کروڑ روپے مقرر کی۔ اور نظام الملک کو لکھا کہ مغل شاہ کو دوبارہ اس کے حضور پیش ہو۔ محمد شاہ جوں ہی نادر شاہ کو ملنے کے لیے ایرانی لشکر میں پہنچا اسے گرفتار کر لیا گیا۔ شہنشاہ کی قید کے ساتھ ہی تمام ہندوستانی سلطنت کے قفل کو کھولنے والی کنجی اب نادر شاہ کے ہاتھ تھی۔ (۱)
قارئین کرام! نادر شاہ ایرانی تو واپس چلا گیا، مگر اعلیٰ حضرت بریلوی کے جد اعلیٰ سعید اﷲ خان قندھاری واپس اپنے ملک نہ گئے بلکہ یہاں ہندوستان میں اقامت پذیر ہو گئے بلکہ محمد شاہ کے معتمد خاص ہو گئے۔ اور منصب شش ہزاری پر فائز ہوئے۔ اور بہت سے مواضعات جو زیرین ریاست رام پور میں تھے۔ انہیں ہمیشہ کے لیے عطا کئے گئے جیسا کہ بحوالہ گزر چکا ہے۔ پھر سعید اﷲ خان کے لڑکے سعادت یار خان تو محمد شاہ کے وزیر بن گئے۔ اور بہت سی زمین ضلع بدایوں میں انہیں ہمیشہ کے لیے عطا کر دی گئی۔ جس سے ان کی نسل در نسل مستفید ہوتی رہی۔ (۲)
اب قابل غور یہ بات ہے کہ قندھار کے مسافر محمد شاہ کے منظور نظر کیسے ہو گئے دو باتیں سمجھ آتی ہیں ان میں سے ایک ضرور ہو گی۔
(۱) (اسلامی تاریخ پاکستان و ہند ج۲ ص۲۰۷)
(۲) (حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۳، ۱۴)
1… نادر شاہ کے چونکہ ہمراہ آئے تھے اس لیے اس نے محمد شاہ کو کہا ہو کہ یہ میرے معتمد ہیں ان کو بڑے عہدے دے کر اپنے پاس رکھو تاکہ میرے اور تمہارے درمیان یہ ایجنٹی کا کام کرتے رہیں۔
2… یا یہ کہ یہ حضرت اپنی قابلیت کی بنا پر محمد شاہ کے منظور نظر ہو گئے اور محمد شاہ کا منظور نظر و انعامات کا مستحق وہ شخص ہوتا تھا جو کہ اس کی رنگ رلیوں کے لیے سامان تعیش مہیا کرتا تھا۔
ہدایت اﷲ خان چودھری لکھتا ہے: وہ رنگ رلیوں ہی میں مستغرق رہتا اسی واسطے اسے محمد شاہ رنگیلا کہا جاتا ہے۔ اس کے عہد میں اکثر صوبے مغلیہ سلطنت سے آزاد ہو گئے۔ اور مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ ۱۷۳۹ء میں نادر شاہ نے حملہ کر کے سلطنت کو بالکل ہی تباہ کر ڈالا، علی وردی خان بنگال میں سعادت علی خان اودھ میں اور نظام الملک دکن میں خود مختار بن بیٹھے۔ (۱)
اور ماہنامہ الرشید دار العلوم دیوبند نمبر ص۳۹۸ میں ہے۔ عالمگیر کے پوتے جہاںدار شاہ نے تحت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اپنی ایک منظور نظر طوائف کے بھائی کو دہلی کا افسر مقرر کیا۔ پھر جہاندار شاہ کے پڑپوتے محمد شاہ رنگیلے نے تو کمال ہی کر دیا۔ اس نیلال قلعہ کے اندر حوضوں میں شراب بھروائی۔
سعادت یار خان کی اولاد کا ذکر:
مولانا ظفر الدین بہاری لکھتے ہیں: ’’ان کی نرینہ اولاد تین تھے، بڑے شاہزادے والا تبار محمد اعظم خان صاحب ہیں اور یہی اعلیٰ ح/span۱)/pfont-size: 16.0pt; line-height: 150%; font-family: ضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے مورث اعلیٰ ہیں یہ اپنی وزارت کے عہدہ سے علیحدہ ہو کر زہد و ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ (۲)
ـ
(۱) (اسلامی تاریخ پاکستان و ہند ج۲ ص۱۸۷)
(۲) (حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۳، ۱۴)
اعظم خان کی اولاد کا ذکر:
ظفر الدین صاحب لکھتے ہیں: ’’اعظم خان صاحب نے دو عقد کیے پہلی زوجہ سے حافظ کاظم علی خان صاحب ہیں۔ اور دوسری بیوی سے چار صاحبزادیاں ہوئیں۔ حافظ کاظم علی خان صاحب آصف الدولہ کے یہاں وزیر تھے۔ (۱)
برادران اسلام:
حافظ کاظم علی خان صاحب، اعلیٰ حضرت بریلوی کے پڑدادا ہیں۔ کاظم علی صاحب کے لڑکے مولانا رضا علی خان صاحب تھے۔
ان کے لڑکے مولانا نقی علی خان تھے ان کے لڑکے مولانا احمد رضا خان صاحب تھے۔ جو بلا شرکت غیرے امام اہل سنت بن گئے۔ کاظم علی خان صاحب، آصف الدولہ کے وزیر بن گئے۔
یہ آصف الدولہ کون ہے؟:
نواب آصف الدولہ غالی قسم کا رافضی شیعہ تھا۔ نوابان اودھ میں سے تھا۔ اس ریاست اودھ پر قبضہ کرنے والا اور اس کی بادشاہت کا بانی نواب برہان الملک سعادت خان نیشاپوری (ایرانی) شیعہ رافضی تھا اور اسی شخص نے مغلیہ خاندان کی سنی حکومت کے برباد کرنے اور زیادہ تاوان لینے کے لیے نادر شاہ کو ابھارا تھا۔ جیسا کہ بحوالہ گزر چکا ہے۔ ان نوابان اودھ کا جو یکے بعد دیگرے اس ریاست پر حکمران ہوئے نقشہ ذیل سے حال معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
1 نواب برہان الملک سعادت خان نیشاپوری، ۱۱۳۵ھ/۱۷۲۴ء تا
۱۱۵۱ھ/ ۱۷۳۹ء (سولہ سال)
ـ
(۱) (حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۴)
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
2 نواب صفدر جنگ منصور علی خان ۱۱۵۱ھ/۱۷۳۹ء تا ۱۱۶۷ھ/ ۱۷۵۳ئ(۱۶ سال)
3 نواب شجاع الدولہ مرزا جلال الدین حیدر۔ ۱۱۶۷ھ/ ۱۷۵۳ء تا
۱۱۸۸ھ/ ۱۷۷۵ء (۲۱ سال)
4 آصف الدولہ مرزا یحییٰ عرف مرزا امانی ۱۱۸۸ھ/۱۷۷۵ء تا ۱۲۱۲ھ/ ۱۷۹۷ء
(۲۲ سال)
5 نواب یمین الدولہ مرزا سعادت علی خان پسر شجاع الدولہ ۱۲۱۳ھ/ ۱۷۹۸ء تا
۱۲۲۹ھ/ ۱۸۱۴ء (۱۶ سال)
6 غازی الدین حیدر بادشاہ ۱۲۲۹ھ/ ۱۸۱۴ء تا ۱۲۴۳ھ/۱۸۲۷ء
7 نصیر الدین حیدر بادشاہ ۱۲۴۳ھ/۱۸۲۷ء تا ۱۲۵۳ھ/ ۱۸۳۷ء
8 محمد علی شاہ پسر سعادت علی خان ۱۲۵۳ھ/ ۱۸۳۷ء تا ۱۲۵۸ھ/ ۱۸۴۲ء
9 امجد علی شاہ ۱۸۴۲ء تا ۱۸۴۷ء
0 واجد علی شاہ ۱۸۴۷ء تا ۱۸۵۶ء (۱)
شیعہ شاہان اودھ:
ہفت روزہ شیعہ کا تبصرہ ملاحظہ ہو۔ برصغیر میں شیعہ سید موسوی النسل و شاہان اودھ نے ایک عظیم تہذیب کی بنیاد رکھی۔ جو اتحاد بین الاقوامی کی علم بردار تھی اور جو اب تک مسلمانوں کی رواداری و احترام باہمی کا درس دیتی ہے۔ اس نفیس و لطیف تہذیب کے بانی شجاع الدولہ، نواب آصف الدولہ، نواب امجد علی شاہ اور نواب واجد علی شاہ تھے۔ جن کی سعی سے لکھنو میں جامعہ سلطان المدارس مدرسۃ الواعظین امام بارگاہ آصفیہ، امام بارگاہ حسین آباد، درگاہ حضرت امام حسین و درگاہ حضرت عباس علم بردار تعمیر ہوئیں۔ شہر لکھنو کی شاہراوں پر
(۱) (مقدمہ وقائع دل پذیر ص۱۲)
ماتمی جلوسوں کی اور تعزیہ و علم مبارک کے جلوس انہی بادشاہوں کے عہد میں برآمد ہوتے تھے اور یہ مجلس و ماتم کی روایت تب ہی سے آج تک ہندوستان میں جاری ہے۔ الخ۔ (۱)
شمالی ہند میں تعزیہ سازی اور محرم کے جلوس میں ان کے گشت کرانے کی ابتداء بھی آصف الدولہ کے زمانے سے لکھنو سے شروع ہوئی۔ (۲)
مجتہد العصر مولانا دلدار علی صاحب نصیر آبادی لکھنوی ولادت ۱۷۵۳ء وفات ۴ مئی ۱۸۲۰ء وہ ہندوستان کے پہلے مجتہد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ شیعہ مذہب ان کے ذریعے پھیلا۔ ملا محمد کشمیری (شیعہ) نے فضیلت نماز جماعت پر ایک رسالہ لکھا۔ جس میں نواب آصف الدولہ کی وجہ اس طرف دلائی۔ کہ اس ملک میں مولانا سید دلدار علی جیسا دین دار اور مجتہدین کربلا و مشہد کا مانا ہوا عالم موجود ہے۔ جو پیش نماز ہونے کے ہر طرح لائق ہے۔ اگر نواب نماز پنجگانہ اس کے پیچھے پڑھیں۔ تو ہر جگہ نماز جماعت کا رواج ہو جائے۔ نواب نے ملا محمد علی کشمیری کا یہ مشورہ قبول کیا۔ اور مولانا دلدار علی کو نماز جماعت میں پیش امام بننے پر آمادہ کر لیا۔ اور اودھ میں ایک نئی مذہبی زندگی کا آغاز ہوا۔(۳)
ان شیعہ نوابان اودھ کے اہل سنت والجماعت پر ظلم کرنے کی داستان بہت طویل ہے۔ اور سنی مسلمانوں کو رافضی بنانے کی سعی نہایت عمیق ہے۔
برادرانِ اسلام
آپ کو بتانا یہ تھا کہ ان شیعہ نوابان اودھ کے ساتھ اعلیٰ حضرت بریلوی خاندان کے تعلقات بہت ہمدردانہ تھے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ حضرت بریلوی کے پڑدادا جناب کاظم علی صاحب، نواب آصف الدولہ رافضی کے وزیر بن گئے۔ (انا ﷲ وانا الیہ راجعون)
(۱) (ہفت روزہ شیعہ لاہور ایڈیٹر ملک رضا علی، جلد نمبر۶۰ یکم مارچ ۱۹۸۲ء نمبر۱۷، ۱۸ ص۴)
(۲) (بادشاہ بیگم اودھ) ص۱۲۳ مترجم محمود عباسی)
(۳) (رود کوثر ص۶۳۲۔ ۶۳۳ از شیخ محمد اکرام صاحب)
نواب آصف الدولہ (متوفٰی ۱۲۱۲ھ/۱۷۹۷ئ) کا لکھنو میں بہت بڑا امام باڑہ بنا ہوا ہے۔ پروفیسر محمد اسلم استاد شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تاثرات عینی شاہد کی حیثیت سے ماہنامہ البلاغ ص۸۰ ربیع الثانی جمادی الاولیٰ ۱۴۰۰ھ میں ملاحظہ کریں۔
ایسے غالی رافضیوں کا ایک سنی مسلمان کس طرح وزیر بن سکتا ہے۔
خاندانی تعارف کے بعد مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کا تعارف ملاحظہ فرمائیں۔
اس امام باڑہ پر دس لاکھ روپے کی لاگت آئی اور اس آصف الدولہ نے نجف اشرف میں دریائے فرات سے ایک نہر نکلوائی جس سے زوارکوپانی کی سہولت ہوئی۔
(مقدمہ فضیلت صحابہ واہل بیت از ڈاکٹر محمد ایوب قادری ص46)
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ آصف الدولہ کے زمانے میں اس مسلک (شیعہ) کی سب سے زیادہ اشاعت ہوئی اس کے زمانے میں نظام حکومت تو بالکل ڈھیل پڑگیا انگریزی کی گرفت سخت سے سخت ترھوگئی مگر اثناعشری مسلک کی تنظیم کی بنیاد دیں خوب مضبوط ہوگئیں ۔
(مقدمہ فضیلت صحابہ واہل بیت از ڈاکٹر محمد ایوب قادری ص48ڈاکٹرمحمد ایوب قادری کے متعلق بریلوی علماء کا خیال ہے کہ بریلوی تھے ملاحظہ فرمائے مجالس علماء از مختارعالم صاحب)
بانی فرقہ
مولانا احمد رضا خان بریلوی
نام:
مولانا محمد صابر نسیم بستوی لکھتے ہیں:
حضور کا پیدائشی اسم گرامی محمد ہے۔ والدہ ماجدہ محبت و شفقت میں امَّنْ میاں، والد ماجد اور دیگر اعزہ احمد میاں کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے۔
جد امجد علیہ الرحمۃ نے آپ کا اسم شریف احمد رضا رکھا اور تاریخی نام المختار ۱۳۷۲ھ ہے اور خود آپ نے اپنے نام کے اول میں عبدالمصطفیٰ لکھنے کا التزام فرما لیا تھا اور اسلامی دنیا میں آپ کو اعلیٰ حضرت اور فاضل بریلوی کے بصد ادب و احترام یاد کیا جاتا ہے۔(۱)
ناظرین آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ مولانا کو کوئی نام پسند نہ آیا اور خود انہوںنے اپنا نام عبدالمصطفیٰ رکھ لیا تھا۔
سلسلہ نسب:
اگلے صفحہ پر سلسلہ نسب کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں۔
(۱) (اعلیٰ حضرت بریلوی ص۲۵۔۲۶)
سلسلہ نسب
سعید اﷲ خان (شجاعت جنگ بہادر)
سعادت یار خان (وزیر مالیات)
محمد معظم خان
محمد اعظم خان
محمد مکرم خان
چار صاحبزادیاں
حافظ کاظم علی خان
تین صاحبزادیاں
حکیم نقی علی خان
امام العلماء رضا علی خان
جعفر علی خان
تین صاحبزادیاں
رئیس الاتقیاء نقی علی خان
محمد رضا خان
امام احمد رضا
حسن رضا خاں
دو صاحبزادیاں
ایک صاحبزادی
(اہلیہ حضور مفتی اعظم ہند)
حسین رضا خان
حسنین رضا خان
سبطین رضا خان
تحسین رضا خان
دو صاحبزادیاں
حبیب رضا خان
امام احمد رضا
(اولاد احمد رضا )
مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان
حجۃ الاسلام حامد رضا خان
پانچ صاحبزادیاں
انوار رضا خان (دو سال کی عمر میں انتقال ہو گیا)
چھ صاحبزادیاں
چار صاحبزادیاں
ابراہیم رضا خان
عرف جیلانی میاں
حماد رضا خان عرف نعمانی میاں
(جن کا خاندان پاکستان میں ہے)
یزدانی میاں
رضوانی میاں
نورانی میاں
تین صاحبزادیاں
ریحان رضا خان
تنویر رضا خان
(مفقود الخبر)
اختر رضا خان
قمر رضا خان
عفان رضا خان
تین صاحبزادیاں
اسجد رضا خان
فیضان رضا خان
عثمان رضا خان
توقیر رضا خان
توصیف رضا خان
تسلیم رضا خان
دو
صاحبزادیاں
(ماخوذ ماہنامہ المیزان بمبئی)
مولانا احمد رضا خان کا حلیہ مبارک
آپ کے رنگ کی آب و تاب ختم ہو چکی تھی:
مولانا نسیم بستوی لکھتے ہیں:
ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ چمک دار گندمی تھا۔ ابتدا سے وقت وصال تک مسلسل محنت ہائے ساقہ نے رنگ کی آب و تاب ختم کر دی تھی۔(۱)
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
آپ درد گردہ میں مبتلا تھے:
آپ کے بھتیجے مولانا حسنین رضا خاں لکھتے ہیں:
آپ کو چودہ (۱۴) برس کی عمر میں درد گردہ لاحق ہوا جو آخر عمر تک رہا۔ کبھی کبھی اس کے شدید دورے پڑ جاتے تھے۔ (۲)
آپ لاغر تھے:
حسنین رضا خاں لکھتے ہیں:
لاغری کے سبب سے چہرہ میں گدازی نہ رہی تھی مگر ان میں ملاحت اس قدر عطا ہوئی تھی کہ دیکھنے والے کو اس لاغری کا احساس بھی نہ ہوتا تھا۔ (۳)
آپ کا سینہ باوجود اس لاغری کے خوب چوڑا محسوس ہوتا تھا۔ (۴)
آپ کی اکثر آنکھیں خراب ہو جاتی تھیں:
مولانا خود فرماتے ہیں:
مجھے نو عمری میں آشوب چشم اکثر ہو جاتا اور بوجہ حدت مزاج بہت تکلیف دیتا تھا۔(۵)
(۱) (اعلیٰ حضرت بریلوی ص۲۰) (۲) (اعلیٰ حضرت بریلوی ص۲۱)
(۳) (اعلیٰ حضرت بریلوی ص۲۰) (۴) (اعلیٰ حضرت بریلوی ص۲۰)
(۵) (ملفوظات مکمل چار حصے ص۲۰ مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی)
آپ کی ایک آنکھ کچھ دب سی گئی تھی:
مولانا احمد رضا فرماتے ہیں:
اسی زمانہ میں صرف دو مرتبہ ایسا ہوا کہ آنکھ کچھ دبتی ہوئی معلوم ہوئی دو چار دن بعد وہ صاف ہو گئی۔ دوسری دبی۔ پھر وہ بھی صاف ہو گئی۔ (۱)
آگے مزید فرماتے ہیں:
ایک روز شدت گرمی کے باعث دوپہر کو لکھتے لکھتے نہایا سر پر پانی پڑتے ہی معلوم ہوا کہ کوئی چیز دماغ سے د ہنی آنکھ میں اتر آئی، بائیں آنکھ بند کر کے د ہنی سے دیکھا تو وسط شے مرئی میں ایک سیاہ حلقہ نظر آیا اس کے نیچے شے کا جتنا حصہ ہوتا وہ ناصاف اور دبا ہوا معلوم ہوتا۔ (۲)
نظر کی کمزوری کی وجہ سے روٹیان نظر نہ آئیں:
پروفیسر مختار الدین احمد لکھتے ہیں:
اعلیٰ حضرت نحیف الجثہ اور نہایت قلیل الغذا تھے ان کی عام غذا چکی کے پسے آٹے کی روٹی اور بکری کا قورمہ تھا۔ آخر عمر میں ان کی غذا اور بھی کم رہ گئی تھی ایک پیالی شوربا بکری کا بغیر مرچ کے ایک یا ڈیڑھ بسکٹ سوجی کا۔ کھانے پینے کے معاملے میں اس قدر سادہ مزاج تھے کہ ایک بار بیگم صاحبہ نے ان کی علمی مصروفیت دیکھ کر جہاں وہ کاغذات اور کتابیں پھیلائے ہوئے بیٹھے تھے دسترخوان بچھا کر قورمہ کا پیالہ رکھ دیا اور چپاتیاں دستر خوان کے ایک گوشے میں لپیٹ دیں کہ ٹھنڈی نہ ہو جائیں۔ کچھ دیر بعد وہ دیکھنے تشریف لائیں کہ حضرت کھانا تناول فرما چکے یا نہیں تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ سالن آپ نے نوش فرما لیا ہے لیکن چپاتیاں دسترخوان میں اسی طرح لپٹی رکھی ہوئی ہیں۔
(۱) (ملفوظات ص۲۰) (۲) (ملفوظات ص۲۰۔۲۱)
پوچھنے پر آپ نے فرمایا چپاتیاں تو میں نے دیکھی نہیں، سمجھا ابھی نہیں پکی ہیں میں نے اطمینان سے بوٹیاں کھا لیں اور شوربا پی لیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ (۱)
آپ کو اکثر درد سر اور بخار کی حرارت رہتی تھی:
مولانا احمد رضا فرماتے ہیں:
الحمد ﷲ کہ مجھے اکثر حرارت درد سر رہتا ہے۔ (۲)
آپ کی کمر میں بھی درد رہتا تھا:
آپ کے خلیفہ ظفر الدین صاحب لکھتے ہیں:
حضور پر نور کے طریقہ نشست عرض کر دوں چونکہ کمر میں ہمیشہ درد رہا کرتا تھا۔ (۳)
طبیعت اچھی نہیں رہتی:
مولانا احمد رضا فرماتے ہیں:
طبیعت اچھی نہیں رہتی ہے ایک ہفتہ میں بخار کے تین دورے ہو چکے ہیں۔ (۴)
آپ کو نسیان بھی تھا:
جب تک لکھتے یا کتاب دیکھتے چشمہ لگائے رہتے جب لکھنا موقوف فرماتے عینک کو پیشانی کے اوپر چڑھا لیتے ایسا معلوم ہوتا کہ اعلیٰ حضرت کی نگاہ شورٹ سائڈ تھی، دور کی نگاہ اچھی نزدیک کی کمزور تھی جیسا کہ عام طور پر بوڑھے لوگوں کی نگاہ ہوا کرتی ہے اسی لیے لکھنے پڑھنے کے وقت چشمہ لگا لیا کرتے اور فارغ وقتوں میںوہ چشمہ خارج ہو جاتا اوپر چڑھا لیا
(۱) (انوار رضا ص۳۶۶ مطبوعہ ضیاء القرآن، لاہور)
(۲) (ملفوظات ص۶۴ مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی)
(۳) (حیات اعلیٰ حضرت بریلوی ص۲۸)
(۴) (حیات اعلیٰ حضرت بریلوی ص۲۷۹)
کرتے تھے اسی عادت کی وجہ سے ایک مرتبہ بہت دقت ہوئی چشمہ حضرت نے پیشانی پر چڑھا لیا تھا کچھ دیر تک لوگوں سے باتوں میں مشغول رہے اس کے بعد کچھ لکھنا چاہا تو ذہن سے یہ بات اوتر گئی کہ چشمہ اوپر چڑھا لیا ہے چشمہ کی تلاش شروع کی مگر چشمہ نہ ملا اتنے ہی میں اتفاقیہ منہ پر ہاتھ پھیرا تو چشمہ پیشانی پر سے ڈھلک کر آنکھوں پر آ رہا۔ (۱)
ایک دفعہ آپ کو طاعون کی بیماری لگ گئی تھی:
چار روز مجھے شدید بخار آیا پانچویں دن درد پہلو پیدا ہوا پھر وہ درد جگر سے متبدل ہوا۔(۲)
تعلیم:
مولانا احمد رضا خاں صاحب کے اساتذہ کرام:
مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کسی باقاعدہ عربی مدرسہ یا دار العلوم کے تعلیم یافتہ نہ تھے، آپ کی اکثر دینی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ آپ کے پہلے استاد مرزا غلام قادر تھے، ان کے بعد آپ اپنے والد مولانا نقی علی خاں سے پڑھتے رہے۔ مولانا نقی علی خاں بھی کسی معروف عربی مدرسہ یا دار العلوم کے فارغ التحصیل نہ تھے، وہ بھی گھر میں ہی پڑھتے رہے نہ آپ نے کسی مدرسہ میں کبھی پڑھایا تھا اس کے باوجود آپ نے مولانا احمد رضا خاں کو تیرہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل کر دیا اور آپ کو اس قابل کر دیا کہ بریلویوں نے آپ کو اسی عمر میں ’’علوم و فنون کا ہمالہ‘‘ سمجھ لیا۔ (۳)
(۱) (حیات اعلیٰ حضرت بریلوی ص۶۴)
(۲) (حیات اعلیٰ حضرت بریلوی ص۶۴)
(۳) (المیزان امام احمد رضا نمبر کے ایک مضمون کی سرخی ۳۳۷)
علم جفر کی تعلیم:
دینی تعلیم کے بعد آپ نے علم ہیئت اور نجوم مولانا عبدالعلی صاحب رام پوری سے اور علم جفر اور تکسیر اپنے مرشد مولانا ابو الحسین نوری سے سیکھا ان دنوں گدی نشینوں کو علم جفر اور نجوم میں بہت مہارت تھی اور جتنی ان علوم میں دسترس ہو ان کا حلقہ عقیدت اتنا ہی وسیع ہو جاتا ہے۔ مارہرہ شریف کے گدی نشین علم جفر میں ماہر تھے۔ مولانا احمد رضا خاں نے علم جفر انہی سے سیکھا تھا۔ (۱)
اور یہی کشش انہیں آستانہ مرشد پر لے آئی تھی۔ آپ علم جفر میں اتنے کھوئے ہوئے تھے کہ مدینہ منورہ جہاں ہر طالب آنحضرتa کے حضور حاضری کی تمنا لیے حاضر ہوتا ہے۔ آپ وہاں بھی اس لیے گئے کہ شاید وہاں کوئی علم جفر کا ماہر مل جائے اور اس کے ذریعہ آپ کا کام چل نکلے۔ آپ کے ملفوظات میں ہے۔
’’خیال کیا کہ یہ شہر کریم تمام جہاں کا مرجع و ملجا ہے اہل مغرب بھی یہاں آتے ہیں ممکن ہے کوئی صاحب جفر دان مل جائیں کہ ان سے اس فن کی تکمیل کی جائے۔‘‘ (۲)
ستاروں کا علم:
مولانا احمد رضا خاں صاحب ستاروں کے اثرات کے بھی قائل تھے المیزان امام احمد رضا نمبر میں ہے۔ ستاروں کے اثرات کے قائل تھے مگر اصلی فاعل حضرت عزۃ جل شانہ کو جانتے تھے۔ (۳)
مولانا احمد رضا خاں عطائی طور پر انبیاء اور اولیاء کے تکوینی اختیارات کے بھی قائل
(۱) (المیزان امام احمد رضا نمبر کے ایک مضمون کی سرخی ۳۳۲)
(۲) (ملفوظات مکمل ص۲۸)
(۳) (المیزان امام احمد رضا نمبر کے ایک مضمون کی سرخی ۳۴۲)
تھے اور ستاروں میں بھی ان اثرات کا اعتقاد رکھتے تھے۔
بہرحال مولانا احمد رضا خاں نے جس دن مار ہرہ شریف میں بیعت کی تو مرشد نے اسی دن آپ کو خلافت دے دی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں تک سلوک و طریقت اور مجاہدہ و ریاضت کا تعلق ہے آپ ان کے تجربات سے نہیں گزرے اور آپ کا علم مسائل طریقت میں بھی علم شریعت کی طرح ناپختہ ہی رہا۔
المیزان کے امام احمد رضا نمبر میں ہے کہ آپ کے مرشد گرامی نے آپ کو یونہی خلافت دے دی تھی۔ آپ نے بغیر مشقت و مجاہدہ کے امام احمد رضا کو خلافت دے دی۔ (۱)
مارہرہ شریف سے تعلق جب زیادہ تر علم جفر اور تکسیر کی بنا پر تھا تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں سلوک و طریقت کی منزلیں طے کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ پیر و مرید اسی فضول علم میں کھوئے ہوئے تھے جس کے بارے میں وہ خود حضور اکرمaسے جواب لے چکے تھے کہ یہ علم فضول ہے مولانا احمد رضا خاں کہتے ہیں کہ حضورa نے خواب میں مجھے ایک تھان دکھایا جس پر ۱…ھ…ذ کے حروف لکھے تھے اس کی تعبیر مولانا احمد رضا خاں صاحب نے خود یہ بیان کی ۱، ھ، ذ کے معنی ہیں فضول بک۔ (۲)
اس وقت کی مشہور درس گاہیں:
دار العلوم دیوبند کو ایک طرف رہنے دیجیے اس وقت کئی اور بھی درس گاہیں موجود تھیں جن میں نادر روزگار علمی شخصیتیں موجود تھیں اور علم و فن کے متلاشی دور دور سے آ کر ان کے حلقہ درس میں شامل ہوتے تھے مولانا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی طلب علم میں وقت کے جن مشہور مراکز علمی میں گھومے مولانا احمد رضا خاں صاحب ان میں سے کسی مرکز علم سے
ـ
(۱) (المیزان احمد رضا نمبر ص۳۶۷)
(۲) (ملفوظات حصہ اول ص۱۰۵)
فیض یاب نہ ہو سکے۔
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
اس وقت مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوری (۱۲۹۷ھ)، مولانا فیض الحسن سہارنپوری (۱۳۰۴ھ)، شاہ عبدالرزاق فرنگی محلی (۱۳۰۷ھ)، مولانا احمد حسن کانپوری (۱۳۲۲ھ)، حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی (۱۳۱۳ھ) اور مولانا لطف اﷲ صاحب علی گڑھی جیسے حضرات موجود تھے۔ جن سے مولانا احمد رضا خاں صاحب بخوبی استفادہ کر سکتے تھے۔ پیر مہر علی شاہ صاحب کے تذکرہ ’’مہر منیر‘‘ میں ان نادر روزگار علمی شخصیتوں کا ذکر موجود ہے مگر حیرت ہے کہ مولانا احمد رضا خاں کو اساتذہ کی کمی پر ہمیشہ فخر رہا حالانکہ زیادہ سے زیادہ علماء سے استفادہ کرنا علماء سلف کے لیے سرمایہ افتخار رہا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہe نے تقریباً چار ہزار اساتذہ سے استفادہ کیا تھا۔ جہاں بھی کسی صاحب علم کی شہرت ہوتی علماء وہاں پہنچتے اور اپنے دامن کو علم کے موتیوں سے بھرتے۔
بریلوی حلقے اس پر فخر کرتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خاں نے مرزا غلام قادر اور اپنے والد نقی علی خاں، مولانا عبدالعلی رام پوری اور شاہ ابو الحسین صاحب نوری کے سوا کسی سے نہیں پڑھا۔
ان کے سوا کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا۔ (۱)
علم لدنی کا دعویٰ:
مولانا احمد رضا خاں کا تعلیمی پہلو اتنا کمزور رہا کہ آپ کے پیرو مجبور ہوئے کہ آپ کے لیے علم لدنی کا دعویٰ کریں اور اعتقاد رکھیں کہ آپ کے علم و فن کے کمالات وہبی تھے جو آپ خدا کی طرف سے اپنے ساتھ لائے تھے۔
ـ
(۱) (ملفوظات حصہ دوم ص۲۸)
تین برس کی عمر میں فصیح عربی میں گفتگو:
مولانا عرفان علی صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مولانا احمد رضا خاں صاحب نے فرمایا:
میری عمر تین ساڑھے تین برس کی ہو گی اور میں اپنے محلے کی مسجد کے سامنے کھڑا تھا ایک صاحب اہل عرب کے لباس میں جلوہ فرما ہوئے، انہوں نے مجھ سے عربی زبان میں گفتگو فرمائی میں نے بھی فصیح عربی میں ان کی باتوں کا جواب دیا۔‘‘ (۱)
یہ حکایت محض اس لیے وضع کی گئی ہے کہ مولانا احمد رضا خاں کے لیے اساتذہ کی کمی کا جبر ہو سکے اور مولانا کے لیے علم لدنی ثابت کرنے کی بنیاد فراہم کی جا سکے تاہم تعجب ہوتا ہے کہ جب تین ساڑھے تین برس کی عمر میں علم کی یہ شان تھی تو چار سال کی عمر میں طوائف کے سامنے قمیص اوپر کیوں اٹھا لیتے تھے۔ فتاویٰ رضویہ کے مقدمہ میں ہے:
نظر کی حفاظت:
چار برس کی عمر میں ایک دن بڑا سا کرتہ پہنے باہر تشریف لائے تو چند بازاری طوائفوں کو دیکھ کر کرتے کا دامن چہرہ مبارک پر ڈال لیا یہ دیکھ کر ایک عورت بولی واہ میاں صاحب زادے آنکھیں ڈھک لیں اور ستر کھول دیا۔ (۲)
ہم اپنے آپ کو کس طرح سمجھائیں کہ ساڑھے تین سال اور چار سال کی عمروں کے یہ دونوں واقعات کیسے سچ ہو سکتے ہیں دروغ گورا حافظہ نباشد کہہ کر بھی ہم آگے نکلنا نہیں چاہتے کہ یہ مولانا کے ادب کے خلاف ہو گا۔
ـ
(۱) (المیزان امام احمد رضا نمبر ۳۳۹)
(۲) (فتاویٰ رضویہ ج۲ ص۷ شائع شدہ لائل پور)
چھ سال کی عمر میں فصیح تقریر:
بریلوی لٹریچر میں یہ روایت بھی ملتی ہے:
چھ سال کی مبارک عمر میں کہ ماہ ربیع الاول تھا ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے منبر پر جلوہ افروز ہو کر آپ نے پہلی مرتبہ تقریباً دو گھنٹے تک علم و عرفان کے دریا بہائے۔ (۱)
مولانا احمد رضا خاں نے چھ سال کی عمر میں تقریباً دو گھنٹے علم و عرفان کے دریا بہائے آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ میرا کوئی استاد نہیں تھا:
میرا کوئی استاد نہیں میں نے اپنے والد ماجد علیہ الرحمۃ سے صرف چار قاعدے جمع و تفریق ضرب تقسیم محض اس لیے سیکھے تھے کہ ترکے کے مسائل میں ان کی ضرورت پڑتی تھی۔ شرح چغمینی شروع کی ہی تھی کہ حضرت والد ماجد نے فرمایا کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ (اصل بات یہ ہے کہ مولانا نقی علی خاں کو شرح چغمینی خود نہ آتی تھی اب پڑھائیں کیا؟ کتاب سے جان چھڑانے کا یہ ایک مصلحتی انداز تھا جو آپ نے اختیار کیا اگر یہی بات جو انہوں نے کہی تھی تو پھر مولانا احمد رضا خاں مولانا عبدالعلی صاحب رامپوری سے یہی کتاب پڑھنے کیوں جاتے افسوس کہ آپ وہاں بھی اس کے چند اسباق ہی پڑھ سکے۔ حضرت استاد ہونے کا فخر … مولانا عبدالعلی رامپوری کو حاصل ہوا جن سے حضرت نے شرح چغمینی کے کچھ اسباق لیے۔ (۲)
مصطفی پیارے کی سرکار سے یہ علوم تم کو خود ہی سکھا دیے جائیں گے۔ (۳)
ـ
(۱) (مقدمہ فتاویٰ رضویہ ص۷)
(۲) (المیزان احمد رضا نمبر ص۳۳۲)
(۳) (المیزان احمد رضا نمبر۴۴۲)
تیرہ سالہ مفتی:
مولانا احمد رضا خاں مرزا غلام قادر اور اپنے والد نقی علی خاں سے پڑھ کر ۱۳ سال کی عمر میں دینی تعلیم سے فارغ ہوئے اور اسی دن والد نے آپ کو مسند افتاء پر بٹھایا۔ آپ اسلام کی چودہ صدیوں میں پہلے مفتی ہیں جنہوں نے تیرہ چودہ سال کی عمر میں فتویٰ کا قلم دان سنبھالا۔
بریلوی حضرات کا عقیدہ ہے کہ مولانا احمد رضا خاں جو ۱۲۷۲ھ میں پیدا ہوئے تھے اسی دن مسند افتاء پر بیٹھے جس دن آپ پر نماز فرض ہوئی تھی:
’’تیرہ سال کی عمر میں … ایک فتویٰ لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا جواب بالکل صحیح تھا والد صاحب نے جودت ذہنی دیکھ کر اسی وقت سے افتاء کا کا آپ کے سپرد کر دیا۔‘‘ (۱)
بریلوی فرقہ والے یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خاں اسی دن سے مجدد کامل بھی تھے۔
آپ نے ۱۲۸۶ھ میں علوم مروجہ درسیہ علم سے فراغت حاصل کی اور منصب افتاء پر بٹھائے گئے اسی دن سے ان کی زندگی کا اگر ایمان دارانہ جائزہ لیا جائے تو ان کا مجدد کامل ہونا مہر نیمروز کی طرح ظاہر و آشکار ہے۔ (۲)
یہ بات ان لوگوں کی محض اپنی روایت نہیں بلکہ ان کے اعلیٰ حضرت کا بیان بھی اس بارے میں یہ ہے کہ:
فقیر نے ۱۴ شعبان ۱۲۸۶ھ کو ۱۳ برس کی عمر میں پہلا فتویٰ لکھا۔ (۳)
ـ
(۱) (المیزان احمد رضا نمبر ص۱۹۷ خلاصہ)
(۲) (احمد رضا نمبر ص۳۸۱)
(۳) (احمد رضا نمبر ص۵۶۹)
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
ان روایات کا حاصل یہ ہے کہ اسی دن آپ فارغ التحصیل ہوئے اسی دن مسند افتاء پر بیٹھے اسی دن نماز آپ پر فرض ہوئی اور اسی دن سے آپ مجدد ٹھہرے آپ کی یہ چار خصلتیں ایک ہی دن کی یاد ہیں۔
بریلوی مذہب کے لوگ بسا اوقات کہہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں آپ کی ہزاروں کتابوں پر نظر تھی اور ہزاروں کتابیں آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھیں ان حضرات کا یہ کہنا درست نہیں۔
پچاس کتابیں زیر مطالعہ:
درسیات کے علاوہ صرف پچاس سے کچھ زائد کتابوں کا آپ نے مطالعہ کیا تھا اس وسعت مطالعہ پر آپ کی اپنی ایک شہادت بھی موجود ہے خود فرماتے ہیں:
درس نظامی کی تمام کتب اور پچاس سے زائد کتب میرے درس و تدریس اور مطالعہ میں رہیں۔ (۱)
مولانا احمد رضا اور مدرسہ بریلی کی علمی حیثیت:
مولانا احمد رضا خاں نے جب ہوش سنبھالا تو بریلی میں مدرسہ مصباح التہذیب موجود تھا لیکن اس پر علمائے دیوبند کے اثرات بہت گہرے تھے بریلی میں بس انہی کی بات چلتی تھی پھر ایک مدرسہ اشاعت العلوم ۱۳۱۲ھ میں قائم ہوا وہ بھی رفتہ رفتہ علمائے دیوبند کے زیر اثر چلا گیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ مولانا احمد رضا خاں فرض نماز تک گھر میں پڑھتے تھے۔
افسوس ہے کہ مولانا احمد رضا خاں بڑے ہو کر بھی کوئی وسیع اور کامیاب دار العلوم کہیں
ـ
(۱) (احمد رضا نمبر ص۵۷۲)
نہ بنا سکے جو ان کا مدرسہ تھا اس کا کل سرمایہ مولانا ظفر الدین اور لال خاں ہی تھے۔ آپ اپنے ایک خط میں اس حالت کا ذکر کرتے ہیں۔
افسوس کہ ادھر نہ مدرس ہے نہ واعظ۔ نہ ہمت والے مال دار۔ ایک ظفر الدین کدھر جائیں اور ایک لال خاں کیا کیا بنائیں۔ وحسبنا اﷲ و نعم الوکیل ۔ (۱)
یہ لال خاں کون تھا اور کیا کام کرتا تھا یہ مولانا احمد رضا خاں جانیں لیکن یہ بات ایک حقیقت ہے کہ آپ نے (مولانا احمد رضا نے) باقاعدہ کسی مدرسہ میں نہیں پڑھایا یہی مولانا ظفر الدین لکھتے ہیں:
اعلیٰ حضرت نے چونکہ باضابطہ کسی مدرسہ میں مدرس بن کر نہیں پڑھایا۔ (۲)
کھڑے ہو کر سبق پڑھانا:
ایک دفعہ بزور مطالعہ حدیث پڑھانے بیٹھے تو یہ پتہ نہ تھا کہ حدیث کس طرح بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے حدیث کھڑے ہو کر پڑھانے لگے جس طرح یورپ کے تعلیمی اداروں میں استاد کھڑے ہو کر لیکچر دیتا ہے مولانا احمد رضا خاں بھی کھڑے ہو کر حدیث پڑھانے لگے۔
مفتی احمد یار صاحب گجراتی لکھتے ہیں:
اعلیٰ حضرت کتب حدیث کھڑے ہو کر پڑھایا کرتے تھے دیکھنے والوں نے ہم کو بتایا کہ خود بھی کھڑے ہوتے اور پڑھنے والے بھی کھڑے ہوتے تھے۔ (۳)
یہ ماحول خود بتا رہا ہے کہ وہ مدرسہ کس درجے کا ہو گا جہاں پڑھائی اس خلافِ فطرت انداز میں ہوتی ہو گی تاہم یہ بات لائق غور ہے کہ اس آن بان کے باوجود آپ کوئی بڑا
ـ
(۱) (المیزان احمد رضا نمبر ص۵۷۰)
(۲) (حیات اعلیٰ حضرت ص۲۱۲)
(۳) (جاء الحق ص۲۵۶)
مدرسہ بنانے میں ناکام رہے نہ یہ آپ کا ذوق تھا ان حالات میں پچاس سے زیادہ کتابیں کیسے آپ کے مطالعہ میں رہ سکتی تھیں۔
حضرت مولانا عبدالحق ؒخیر آبادی کی خدمت میں حاضری اور آپ کی بد نصیبی :
حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی کے صاحبزادہ مولانا عبدالحق خیر آبادی رام پور میں اپنے وقت میں معقولات کے شیخ تھے، مولانا احمد رضا خاں رام پور گئے تو نواب صاحب نے مشورہ دیا کہ مولانا خیر آبادی سے کچھ منطق پڑھ لیں۔ مولانا خیر آبادی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا منطق میں انتہائی کتاب آپ نے کون سی پڑھی ہے؟ مولانا احمد رضا خاں نے کہا: قاضی مبارک۔ مولانا خیر آبادی نے جاننا چاہا کہ نچلی کتابیں ترتیب سے پڑھ آئے ہو یا کمال ذہانت سے اونچی کتابوں پر دسترس پالی ہے۔ انہوں نے پوچھا شرح تہذیب پڑھی ہے۔ اب بجائے یہ کہنے کہ میں نے نچلی کتابیں سب ترتیب سے پڑھی ہیں۔ آپ نے شیخ وقت کے سامنے گستاخانہ لہجہ اختیار کیا۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پروفیسر مختار الدین صاحب لکھتے ہیں:
حضرت نے فرمایا: کیا جناب کے ہاں قاضی مبارک کے بعد شرح تہذیب پڑھائی جاتی ہے؟ علامہ خیر آبادی نے گفتگو کا رخ بدل دیا اور پوچھا بریلی میں آپ کا کیا شغل ہے؟ فرمایا: تدریس و تصنیف اور افتاء پوچھا کس فن میں تصنیف کرتے ہو۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا جس مسئلہ دینیہ میں ضرورت دیکھی اور رد وہابیہ میں۔ علامہ نے فرمایا: آپ بھی رد وہابیہ کرتے ہیں۔ ایک وہ ہمارا بدایونی خبطی ہے کہ ہر وقت اس خبط میں مبتلا رہتا ہے … اعلیٰ حضرت آزرُدہ ہوئے۔ (۱)
ـ
(۱) (المیزان احمد رضا نمبر ۳۳۲)
مولانا احمد رضا خاں استاذ وقت کے سامنے اگر یہ گستاخانہ لہجہ اختیار نہ کرتے تو ممکن ہے آپ کو منطق میں کچھ شُد بُد حاصل ہو جاتی۔
آپ کی منطق دانی:
نامناسب نہ ہو گا کہ ہم یہاں خاں صاحب کو ان کی ایک تحریر کی روشنی میں منطق کے آئینہ میں اتاریں خان صاحب لکھتے ہیں:
نسبت و اسناد دو قسم ہے۔ حقیقی کہ مسند الیہ حقیقت میں متصف ہو اور مجازی کہ کسی علاقہ کی وجہ سے غیر متصف کی طرف نسبت کر دیں۔ جیسے نہر کو جاری یا جالس سفینہ کو متحرک کہتے ہیں۔ حالانکہ حقیقتاً آب و کشتی جاری و متحرک ہیں پھر حقیقی بھی دو قسم ہے۔ ذاتی کہ خود اپنی ذات سے بے عطائے غیر ہو اور عطائی کہ دوسرے نے اسے حقیقتاً متصف کر دیا ہو۔ خواہ وہ دوسرا بھی خود بھی اس وصف سے متصف ہو۔ جیسے واسطہ فی الثبوت ہیں یا نہیں۔ جیسے واسطہ فی الاثبات ہیں۔ (۱)
مولانا احمد رضا خاں نے یہاں واسطہ فی الاثبات کی اصطلاح غلط استعمال کی ہے۔ واسطہ فی الاثبات اسے نہیں کہتے۔ جو خان صاحب نے سمجھ رکھا ہے۔ قارئین کی سہولت کے لیے ہم واسطہ کی کچھ ابتدائی بحث درج کیے دیتے ہیں:
واسطہ مصطلحہ اہل حکمت:
واسطہ موصوف اور صفت کے درمیان ایک علاقہ ہے جیسے العالم حادث لانہ متغیر ا س میں عالم ذات ہے اور حادث اس کی صفت، عالم تغیر کے واسطہ سے حادث ہے۔ اس میں واسطہ متغیر اور ذوالواسطہ العالم دونوں صفت کے ساتھ متصف ہیں۔ عالم اور
ـ
(۱) (الامن والعلٰی ص۱۵)
متغیر ہر دو حدوث کے ساتھ متصف ہیں اور حادث ہیں، متغیر براہِ راست حدوث سے متصف ہے اور عالم باالواسطہ… یہ مثال واسطہ فی الاثبات ہے۔
(۲) واسطہ بالعروض: جیسے کشتی میں بیٹھے آدمی کو متحرک کہیں، وہ بذات خود حرکت میں نہیں ہوتا کشتی کے واسطہ سے حرکت کر رہا ہوتا ہے۔ اس میں واسطہ کشتی ہے۔ جو حرکت کے ساتھ حقیقتاً اور بالذات موصوف ہے۔ ذوالواسطہ (کشتی میں بیٹھا آدمی) حرکت سے مجازاً اور بالعرض موصوف ہے۔
(۳) واسطہ فی الثبوت … اس کی دو قسمیں ہیں:
واسطہ فی الثبوت غیر سفیر محض … اس میں واسطہ اور ذوالواسطہ دونوں صفت سے حقیقتاً متصف ہوتے ہیں۔ جیسے انسان قلم کے واسطہ سے لکھتا ہے۔ قلم واسطہ ہے اور ہاتھ ذوالواسطہ اور دونوں حرکت سے حقیقتاً متصف ہیں۔ ہاتھ کی حرکت، ہاتھ کے ساتھ اور قلم کی حرکت قلم کے ساتھ قائم ہے… ہاتھ چابی سے تالہ کھول رہا ہے، ہاتھ بھی حرکت سے متصف ہے اور چابی بھی ہاتھ کے واسطہ سے حرکت کرتی ہے۔
واسطہ فی الثبوت سفیر محض… اس میں واسطہ صفت سے متصف نہیں ہوتا۔ نہ حقیقتاً نہ مجازاً، صرف ذوالواسطہ صفت سے متصف ہوتا ہے۔ ایک شخص چھری سے مرغی ذبح کر رہا ہے، ذبح سے مرغی (ذوالواسطہ) تو متصف ہے۔ لیکن چھری (واسطہ) متصف نہیں، وہ ذبح میں صرف واسطہ ہے، ذبح سے حقیقتاً یا مجازاً موصوف نہیں، رنگ ساز کے واسطہ سے کپڑا رنگا جاتا ہے۔ لیکن رنگ سے صرف کپڑا موصوف ہے رنگ ساز نہیں۔ رنگ ساز واسطہ بنا کپڑا ذوالواسطہ ہے وہ رنگ سے موصوف ہے مگر واسطہ رنگ سے موصوف نہیں۔
الحاصل: واسطہ فی الثبوت کی دو قسمیں ہیں، واسطہ اور ذوالواسطہ دونوں صفت سے موصوف ہوں۔ تو واسطہ فی الثبوت غیر سفیر محض ہے اور اگر واسطہ خود اس سے متصف نہ ہو تو یہ واسطہ فی الثبوت سفیر محض ہو گا۔
اب دیکھیے مولانا احمد رضا خاں نے اس فن میں کتنی فاش غلطی کی ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں:
’’وہ دوسرا خود بھی اس وصف سے متصف ہو جیسا واسطہ فی الثبوت میں یا نہیں جیسے واسطہ فی الاثبات میں۔ (۱)
اعلیٰ حضرت کی علم منطق میں یہ بے مائیگی دیگر علماء عصر سے کچھ ڈھکی چھپی نہ تھی۔ خیر آبادی سلسلہ کے مولانا معین الدین اجمیریe صدر مدرس مدرسہ عثمانیہ اجمیر شریف جو جناب پیر قمر الدین صاحب سیالوی کے استاد اور مولانا احمد رضا خاں کے ہمعصر تھے مولانا احمد رضا خاں کی علمی قابلیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
اعلیٰ حضرت ایک عرصہ سے فنون عقلیہ کو بزعم خود طلاق مغلظہ دے چکے پس جس فن سے ناآشنائی ہو اس میں دخل دینے سے سوائے اس کے کہ اصل حقیقت ظاہر ہو جائے کسی فائدہ کی توقع نہیں۔ لہٰذا اعلیٰ حضرت خواہ مغالطہ دہی ترک نہ فرمائیں۔ لیکن جن فنون کی ان کی بارگاہ تک رسائی نہ ہو اگر ان سے کنارہ کش رہیں تو اس میں بڑی مصلحت ہے۔ (۲)
اس علمی بے مائیگی میں اگر آپ واسطہ فی الثبوت غیر سفیر محض اور واسطہ فی الاثبات میں فرق نہ کر سکے تو قارئین کو متوحش نہ ہونا چاہیے۔
اہل علم حضرات اس عبارت کو غور سے دیکھیں منطق کا ادنیٰ طالب علم بھی اس معنی میں واسطہ فی الاثبات کا لفظ نہ بولے گا۔ یہ عبارت خان صاحب کے علم کی تہہ کا پورا پتہ دے رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ آپ واقعی اعلیٰ حضرت تھے۔
ـ
(۱) (الامن والعلیٰ ص۱۵)
(۲) ( تجلیات انوارمعین)
مولانا احمد رضا خاں کے بارہ بج گئے:
مولانا احمد رضا خاں کی مجلسوں میں نجومیوں کی باتیں عام رہتی تھیں۔ آپ کے معاصرین میں ایک صاحبِ کمال بزرگ مولانا غلام حسین بھی تھے۔ جو بڑے نجومی کے طور پر مشہور تھے:
ایک دن مولانا غلام حسین تشریف لائے اعلیٰ حضرت نے پوچھا فرمایئے بارش کا کیا انداز ہے؟ کب تک ہو گی مولانا نے ستاروں کی وضع سے زائچہ بنایا اور فرمایا اس مہینے میں پانی نہیں آئندہ ماہ میں ہو گی یہ کہہ کر وہ زائچہ اعلیٰ حضرت کی طرف بڑھایا حضرت نے دیکھ کر فرمایا اﷲ کو سب قدرت ہے وہ چاہے تو آج ہی بارش ہو مولانا نے کہا یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ ستاروں کی چال نہیں دیکھتے۔
مولانا احمد رضا خاں صاحب یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ خدا کی قدرت کو بھی دیکھو وہ جس وقت چاہے ستاروں کی رفتار بدل دے آپ نے یہ سمجھانے کے لیے گھڑی کی طرف رخ کیا اور پوچھا کیا وقت ہے؟ وہ بولے سوا گیارہ بجے۔ فرمایا بارہ بجے میں کتنی دیر ہے؟ جواب ملا پون گھنٹہ۔ اس پر مولانا احمد رضا خاں صاحب اٹھے اور اس وقت گھڑی پر بارہ بجا دیئے۔ (یعنی گھڑی بارہ پر کر دی)
اعلیٰ حضرت نے فرمایا اسی طرح رب العزت جل جلالہٗ قادر مطلق ہے کہ جس ستارے کو جس وقت جہاں چاہے پہنچا دے۔ (۱)
علم کلام میں آپ نے مولانا کی گفتگو دیکھ لی یہ بھی سمجھ لیا کہ ان کی مجلس میں نجومیوں کی سی باتیں کیسے چلتی تھیں اور آپ کا ذوق علم و جستجو کیا تھا آپ یہ بھی دیکھیں کہ بطور مفتی ان کی ملکی شہریت کیا کیا تھی اور علماء اور طلباء انہیں کہاں تک جانتے تھے۔
(۱) (المیزان امام احمد رضا نمبر۲۴۲)
مولانا کا علمی حلقوں میں تعارف:
خانپور کے بریلوی مدرسہ دار العلوم خانپور کے مفتی سراج احمد صاحب مولانا کی ملکی شہریت کا پتہ دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ مجھے اعلیٰ حضرت کے وصال سے دو سال پہلے ان کا پتہ معلوم نہ ہوا۔ (۱)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک طلباء کے حلقے میں ان کا کوئی خاص تعارف نہ تھا دو سال بعد تو آپ چل ہی بسے تھے اب جتنی شہرت ہو گی وہ فوت شدہ کی ہو گی زندہ کی نہیں حضرت الشیخ مولانا عبدالغنی صاحب شاہ جہاں پوری لکھتے ہیں:
علماء میں ان کا کچھ شمار ہی نہ تھا اور علماء نے کبھی قابل خطاب ہی نہ سمجھا تھا۔ (۲)
امام ابو یوسفe اور امام محمدe کی برابری کا دعویٰ:
اس علمی کمزوری کے باوجود آپ کے معتقد آپ کو حضرت امام ابویوسفe اور امام محمدe کے برابر کا درجہ دیتے ہیں فتاویٰ رضویہ کا ناشر اس کی جلد اول کے تعارف میں ایک فرضی نام سے بیان کرتا ہے:
میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس فتاویٰ کو امام ابو حنیفہ نعمانl دیکھتے تو یقینا ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور اس کے مولف کو اپنے اصحاب امام ابو یوسف اور امام محمد کے زمرے میں شمار فرماتے۔ (۳)
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
شیعہ کتابوں سے بے خبری:
حافظ امیر عبداﷲ بریلوی ایک صاحب تھے جنہوں نے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھی
ـ
(۱) (احمد رضا نمبر۱۸۷)
(۲) (الجنہ ص۱۱۳)
(۳) (فتاویٰ رضویہ ج۴ عرض ناشر مطبوعہ لائل پور)
تھیں ایک شیعہ سے اختلافی مسائل میں ان کی گفتگو ہوئی وہ پریشان ہو کر بریلی کے نامی علماء کے پاس آٗے کہ ان کے سوالات کا جواب دیا جائے۔ حافظ سردار احمد بریلوی لکھتے ہیں کہ مولوی احمد رضا خان صاحب کی طرف سے ان کو جواب ملا کہ ہاں جواب تو ممکن ہے مگر ایک ہزار روپیہ چاہیے۔ حافظ صاحب نے فرمایا آخر جواب کے لیے اتنی کثیر رقم کی کیا ضرورت ہے؟ تو معلوم ہوا کہ ان کی مذہبی کتابیں خرید کر مطالعہ کی جائیں گی اس وقت جواب لکھا جائے گا۔ بغیر اس کے جواب ممکن نہیں ہے۔ (۱)
مولانا احمد رضا خاں کی طرف سے اب تک اس واقعہ کی تردید نہیں ہوئی۔
حدیث کے دوسرے علماء کی طرف رجوع:
مولانا عبدالقیوم صدر مدرس مدرسہ حنفیہ خان پور جو مولانا اشرف صاحب کچھوچھوی کے استاد تھے اپنے رسالہ میزان الحدیث میں لکھتے ہیں:
مولانا وصی احمد صاحب سورتی محدث پیلی بھیتی (۱۳۳۳ھ) کی خدمت میں امام المتکلمین اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب ہمارے زمانہ میں اپنے عقیدت مند طلبہ کو علم حدیث پڑھنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ (۲)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا احمد رضا خاں کے مدرسہ منظر الاسلام بریلی میں حدیث پڑھانے کا کوئی خاص اہتمام نہ تھا نہ یہاں کوئی صاحب فن محدث موجود تھا۔ مولانا وصی احمد صاحب کے پاس بھیجنا اس بات کی دلیل ہے کہ مولانا احمد رضا خود حدیث شریف نہیں پڑھاتے تھے۔
ـ
(۱) (تذکرۃ الخلیل ص۱۶۱ مطبوعہ کراچی)
(۲) (میزان الحدیث ص۱۹ مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ)
خواب میں درسی خدمات:
مولانا احمد رضا خاں کے پیرئوں نے جب دیکھا کہ اعلیٰ حضرت نے کبھی کسی مدرسہ میں جم کر نہیں پڑھایا اور ظاہر ہے کہ بدوں تدریس علم پختہ نہیں ہوتا تو انہوں نے ایک خواب تجویز کیا اور بتایا کہ اعلیٰ حضرت کو خواب آیا تھا کہ وہ ایک مدرسے میں پڑھا رہے ہیں اور آپ نے خواب میں علوم و فنون کی جملہ کتابیں پڑھائیں اور پھر آپ کو جاگ آ گئی۔ بریلویوں کے ہاں مولانا احمد رضا خاں کی خواب کی درسی خدمات بہت مشہور ہیں۔ جناب پیر قمر الدین صاحب سیالوی کے استاد مولانا معین الدین اجمیری کے مندرجہ ذیل بیان میں اس خواب کی طرف اشارہ ہے۔ مولانا اجمیری مولانا احمد رضا خاں کے مجدد ہونے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
منصب مجددیت ان کو کیسے حاصل ہوا۔ ظاہر ہے کہ محض فتویٰ نویسی اس کا سبب نہیں ہو سکتی۔ ورنہ ہندوستان کے تمام مفتیان کرام اس منصب عالی کے کیوں سزاوار نہیں کیونکہ اسلامی ریاستوں مثل حیدر آباد دکن، بھوپال ٹونک وغیرہ کے مفتیان کرام کہ وہ منجانب ریاست خدمت فتویٰ نویسی کے لیے فارغ کر دیئے گئے ہیں اور جن کا شب و روز یہی کام ہے اس وجہ سے یہ نہایت قرین قیاس ہے کہ وہ اعلیٰ حضرت سے بھی زائد وسیع النظر ہوں پس محض فتویٰ نویسی ہی اگر اس کا سبب ہوتی تو پھر مجددیت کا سہرا بجائے اعلیٰ حضرت کے اس کے سر بندھنا چاہیے رہی تدریس تو اس کا اعلیٰ حضرت نے کسی زمانہ میں صرف خواب ہی دیکھا ہے کہ وہ ان کو خواب پریشان کی طرح یاد بھی نہ رہا۔ کثرت تالیفات کے باعث بھی وہ اس منصب کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ کیوںکہ کثرت تعداد کی صورت میں کسی طرح وہ نواب صدر الدین حسین خان صاحب بڑودہ سے نہیں بڑھ سکتے۔ (۱)
(۱) (تجلیات انوار ص۳۱، ۳۲)
حضرت مولانا اجمیری تو علماء دیوبند میں سے نہ تھے ایک غیر جانبدار کی حیثیت سے حضرت کا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں یہ دو باتیں کھل کر سامنے آ گئیں۔
اعلیٰ حضرت میں کوئی ایسا علمی کمال نہ تھا جو ان کے دیگر ہمعصروں میں نہ پایا جاتا ہو بڑے بڑے مفتی اور مصنف موجود تھے۔ جو علم میں ان سے بڑھ کر تھے۔ اور یہ بات خان صاحب کے مخالفین میں ہی نہیں ان کے ہم مسلک حلقوں میں بھی مسلم تھی۔ مولانا معین الدین اجمیری نے آپ کے کچھ فضائل ذکر کیے ہیں اور بتایا ہے کہ آپ کیسے یہ مقام مجددیت پا گئے۔
اعلیٰ حضرت کی شان مجددیت:
مولانا احمد رضا خاں چودہویں صدی کے مجدد کیسے بنے؟ یہ سوال پہلے آ چکا ہے اور ناظرین جان چکے ہیں کہ حضرت میں کوئی علمی کمال نہ تھا جو اس مرتبہ عظمیٰ کا موجب ہوا ہو حضرت مولانا معین الدین اجمیری سلسلہ خیر آبادیہ کے مشہور بزرگ گزرے ہیں انہوں نے اس عنوان سے کہ وہ کیا فضائل ہیں۔ جس نے خاک پاک بریلی کے ایک مفتی کو مجدد بنا دیا۔ (۱)
اس پر پوری بحث کی ہے آپ کے یہ فضائل آپ کے علم و فضل اور زبان و عمل کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ حضرت اجمیری نے آپ کے یہ فضائل ذکر کیے ہیں:
فضیلت ۱:… پہلو دار گوئی: کئی کئی پہلوئوں والی بات کرنا
فضیلت ۲:… تکفیر: مسلمانوں کو وہابی کہہ کر کافر بنانا
فضیلت ۳: … عمل بالحدیث: صحابہ کرام کے فیصلوں سے گریز کرنا
فضیلت۴: … خود ستائی: اپنی مدح و ثنا میں خوشی منانا
ـ
(۱) (تجلیات انوار المعین ص۳۳)
پہلو وار گفتگو میں آپ کو فحش گفتگو بہت پسند تھی۔ وہ اسے فحش تسلیم نہ کرتے تھے پہلودار بات کہتے تھے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
انہیں کوئی پہلودار لفظ کہا اور ان مسلمان بننے والوں کی تہذیب میں آگ لگی۔ (۱)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے مقابل سنی مسلمان ہوتے تھے اور وہی آپ کی پہلو دار زبان کا تختہ مشق بنتے تھے۔ آپ اپنے مخالفین کو اس چھبتے انداز سے مسلمان کہنا بتا رہا ہے کہ مسلمان مولانا کو بہت چھبتے تھے۔
آپ کے علمی کمالات کی پوری جھلک دیکھنی ہو تو یہ دیکھئے کہ آپ نے تکفیر کی مہم کو سر کرنے کے لیے اپنے لیے کون سا زینہ اختیار فرمایا۔ 1پہلے سنی مسلمان کو وہابی قرار دینا۔ 2پھر کافر کہنا اور 3پھر ملنا جلنا اور سلام اور کلام سب کچھ حرام ٹھہرانا۔
اعلیٰ حضرت نے ایک دنیا کو وہابی کر ڈالا، ایسا بدنصیب وہ کون ہے جس پر آپ کا خنجر وہابیت نہ چلا ہو۔ وہ اعلیٰ حضرت جو بات بات میں وہابی بنانے کے عادی ہوں۔ وہ اعلیٰ حضرت جن کی تصانیف کی عصمت غائیہ وہابیت جنہوں نے اکثر علماء اہل سنت کو وہابی بنا کر عوام کالانعام کو ان سے بدظن کرا دیا۔ جن کے اتباع کی پہچان یہ ہے کہ وہ وعظ میں اہل حق سنیوں کو وہابی کہہ کر گالیوں کا مینہ برساتے ہیں۔ (۲)
دنیا میں شاید کسی نے اس قدر کافروں کو مسلمان نہیں کیا ہو گا جس قدر اعلیٰ حضرت نے مسلمانوں کو کافر بنایا … مگر در حقیقت یہ وہ فضیلت ہے جو سوائے اعلیٰ حضرت کے کسی کے حصہ میں نہیں آئی۔ (۳)
ایں جنس گرامی ہمہ کس راند ہند (۴)
(۱) (مقتل اجہل اکذب ص۱۲) (۲) (تجلیات انوار ص۴۲)
(۳) (تجلیات انوار ص۴۲) (۴) (تجلیات انوار ص۳۷)
عمل بالحدیث کے عنوان سے صحابہ کرام کے نقش قدم اور فقہ حنفی کی حدود سے نکلنا مولانا احمد رضا خاں کا عمل خاص رہا ہے۔ جس کا دل چاہے خان صاحب کی بدایونیوں سے معرکہ آرائی کا پورا نقشہ دیکھ لے۔ رہی آپ کی چوتھی فضیلت جو آپ کی اپنے بارے میں خود ستائی ہے۔ وہ آپ کو ایک عالم کی حیثیت میں نہیں ایک جنگجو پہلوان کی حیثیت میں پیش کرتی ہے۔ ایک مقام پر اپنا تعارف ان لفظوں میں کرتے ہیں۔
وہ رضا کے نیزے کی مار ہے کہ اعداء کے سینے میں خار ہے
کسے چارہ جوئی کا وار ہے یہ وار وار سے پار ہے (۱)
پھر ایک دوسرے مقام پر اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
محمدی کھچار کا شیر شرزہ حیدری نعرہ کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ (۲)
پھر سد القرار میں لکھا ہے:
وہ اکیلا محمدی شیر جو اس بھرے میدان اعداء میں یا رسول اﷲ کہہ کر کود پڑا اور تنہا چار طرف تلوار کر رہا ہے۔ (۳)
یہ تلوار صرف کر ہی رہا ہے چلا نہیں رہا، ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خاں کس جرأت و محبت سے میدان میں اترتے تھے۔ اسے حضرت مولانا اجمیری کی زبان سے سنیے۔
گھر بیٹھے قلم کے نیزے چلا رہا ہے۔ جس کو اس بازی سے اتنی بھی فرصت نہیں ملی کہ کبھی مجمع عام میں آ کر کسی سے برسر پیکار ہوتا۔ پھر وہ خواہ مات کھا کر ہی گھر لوٹتا۔ لیکن خلقت یہ کہنے سے تو باز رہتی کہ از ابتدا معرکہ اور درمیان نبود۔ (۴)
(۱) (حدائق بخشش حصہ دوم ص۴۴ مطبوعہ دہلی)
(۲) (اجلی انوار الرضا ص۱۷)
(۳) (سد االفرار ص۳) (۴) (تجلیات انوار ص۴۵)
مولانا احمد رضا خاں کو اپنی علمی بے مائیگی کا پورا احساس تھا اس لیے آپ کبھی کسی کے سامنے علمی مبازرت میں نہ نکلے البتہ گھر بیٹھے گھوڑے خوب دوڑاتے تھے حضرت مولانا معین الدین اجمیری کی اس شہادت سے اعلیٰ حضرت کی علمی سطحی پوری نظر آ جاتی ہے۔
ان غیر جانبدار شہادتوں سے یہ بات پوری طرح کھل جاتی ہے کہ مولانا احمد رضا خاں علمی میدان کے آدمی نہ تھے اور کبھی کسی علمی معرکہ میں نہیں دیکھے گئے۔
مولانا احمد رضا خاں فنون عقلیہ میں خاصے کمزور تھے اور اس بارگاہ علم تک ان کی رسائی نہ ہوئی تھی۔ ہاں مغالطہ دہی میں بڑے مشاق تھے اور اکابر علماء عصر جانتے تھے کہ آپ اپنی عادت سے مجبور ہیں۔
اعلیٰ حضرت کے پیرؤں کی علمی شان:
مولانا احمد رضا خاں کے علمی کمالات کے تذکرہ میں نامناسب نہ ہو گا کہ ناظرین ان کے پیرؤں کی بھی ایک علمی جھلک دیکھ لیں ہم اس سلسلہ میں علمائے دیوبند، علمائے ندوہ، یا علمائے دہلی کی رائے پیش نہیں کرتے سلسلہ خیر آبادیہ کے بزرگ حضرت مولانا معین الدین اجمیری صدر مدرس مدرسہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف جنہیں بریلوی علماء آفتاب علم تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی رائے ملاحظہ کیجیے:
اعلیٰ حضرت کے مشتری اطرافِ ہندوستان میں حشرات الارض کی طرح پھیلے ہیں۔ اعلیٰ حضرت کے احکام (علماء دیوبند کو کافر کہنا اور ان سے سلام و کلام کو حرام قرار دینا اور لوگوں کو اس پر اکسانا کہ جہاں ان کے قبرستان ہوں وہاں اپنے مردے دفن نہ کرو۔ یہ اعلیٰ حضرت کے احکام ہوتے تھے۔) کی جا بجا تبلیغ و اشاعت ان کا کام ہے۔ یہ لوگ گو خود علم سے محض نا آشنا ہوتے ہیں۔ جن کا مبلغ علم کل یہ ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ حضرت کے اردو رسالے اس طرح پڑھ دیں کہ فی سطر کم از کم دس جگہ غلطیاں ضرور کر جائیں لیکن علماء ربانین کی ت style=FAquot;;font-size: 16.0pt; line-height: 150%; font-family: quot;;/span lang=کفیر و توہین ان کا شعار اور ان کی تضلیل و تفسیق ان کا دثار ہے جس سرزمین میں جہالت عروج پر ہوتی ہے وہاں ان کے قدم خوب جمتے ہیں اور جس خطہ پاک میں علمی چرچا ہوتا ہے اس طرف وہ ادھر کا رخ نہیں کرتے۔ کیوںکہ گو علوم سے واقف نہ سہی لیکن اپنی حقspan style= style=/spanیقت سے خوب واقف ہوتے ہیں۔ (۱)
مولانا احمد رضا خاں کے علمی مقام کو سمجھنے کے لیے ان کے پیرؤں کی یہ علمی حالت بہت مفید و راہنما ہے۔ اعلیٰ حضرت کا سایہ بھی جہاں پڑا وہاں کی زمین پر یہی بہار آئی ہے۔
عن المرء الاتسئل وابصر قرینہ


فان القرین بالقارن یقتدی
ان جہلاء میں یہ مشنری ولولہ کہاں سے آ گیا؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کے پیرو اگر واقعی ایسے ہی جہلاء تھے جیسا کہ اجمیر شریف کے بزرگوں نے کہا تو وہ اس مخلصانہ انداز میں ان کے پیرو کس طرح بن گئے؟
حضرت مولانا معین الدین اجمیری ایک جگہ لکھتے ہیں:
اعلیٰ حضرت کے خاص الخاص مشنریوں سے انصاف کی توقع اس لیے نہیں کہ ان کو اعلیٰ حضرت کی ذات سے منافع دنیوی حاصل ہیں۔ جن پر ان کا کارخانہ زندگی چل رہا ہے اور اسی لیے وہ دنیا کے قدر شناس، علم و عقل سے پاک۔ (۲)
اس پس منظر میں یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ مولانا احمد رضا خاں کے پیرو اس مشنری جوش سے کیسے چلتے تھے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے میں کس طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھتے تھے۔
اعلیٰ حضرت کے پیرئوں کی علمیت کا یہ بیان محض ایک ضمنی بات تھی۔ بات اعلیٰ حضرت کے اپنی علمی کمالات کی ہو رہی تھی۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں بات کھٹکے کہ اعلیٰ حضرت
ـ
(۱) (تجلیات انوار ص۶) (۲) (تجلیات انوار المعین ص۶)
واقعی کسی مدرسہ کے فارغ التحصیل نہ تھے۔ شاعر سے عالم بن گئے تھے اور محض مطالعہ کے زور سے کتابیں لکھتے تھے تو انہوں نے اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء سے کس طرح ٹکر لے لی۔
جواباً گزارش ہے کہ انہیں زندگی بھر کسی مستند عالم سے رو در رو علمی مناقشے کی نوبت نہیں آئی۔ نہ انہوں نے علمائے دیو بند میں سے کسی سے مناظرہ کیا۔ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری بار بار انہیں مناظرے کے لیے للکارتے رہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت ایسے ہر موقع پر بیمار پڑ جاتے تھے۔ اس لیے یہ سوال اصولاً درست نہیں۔ جہاں تک تحریر کا تعلق ہے مولانا احمد رضا خاں نے اس کے ذریعہ بے شک بہت سے اکھاڑے بنائے۔ لیکن ان میں خان صاحب ایسی زبان استعمال کرتے تھے کہ شریف آدمی ان کے خلاف لکھنے میں بہت بوجھ محسوس کرتا تھا۔ علمی بے مائیگی میں آپ کن حیلوں سے کام لیتے تھے۔ انہیں آپ حضرت مولانا معین الدین اجمیریe کی زبانی سنیئے:
مولانا احمد رضا خاں کے مناظرانہ حیلے:
۱… اعلیٰ حضرت جب دلائل مخالفین کے جواب سے معذور ہو جاتے ہیں۔ تو اپنی بند خلاصی کے لیے اصلی دعوے ہی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ (۱)
۲… الزام بما لم یلتزم یعنی جس امر کا مخالف کو التزام نہ ہو شرعاً عرفاً اس کا لزوم ہو اس کو اپنے مخالف کے سر تھونپ دینا اعلیٰ حضرت کی صفت خاصہ ہے۔ (۲)
۳… مظالطہ دہی، یہ خاصیت اعلیٰ حضرت کی تمام تالیفات کی جان اور روح رواں ہے۔ (۳)
ـ
(۱) (ص۷ تجلیات)
(۲) (ص۸ تجلیات)
(۳) (ص۹ تجلیات)
(اس سے خان صاحب کی تمام تالیفات کی حقیقت سامنے آ گئی۔ یہ وہ بنیادی بات ہے جس کی وجہ سے خان صاحب کی کتابیں پڑھے لکھے حلقوں میں مقبول نہ ہو سکیں)
۴… بہتان طرازی۔ (۱)
۵… خروج از دائرہ بحث، جب اعلیٰ حضرت جواب سے عاجز درماندہ ہوتے ہیں تو مبحوث عنہ کو چھوڑ کر غیر متعلق مباحث کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ (۲)
۶… مجادلہ، یہ صفت اعلیٰ حضرت کا آخری حیلہ ہے۔ (۳)
۷… حق پوشی۔ (۴)
۸… بادبدستی، اعلیٰ حضرت سے جب کچھ بن نہیں پڑتا تو باد ہوائی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ (۵)
۹… کج بحثی، جواب سے عاجزی کے وقت اس حربہ خاص کا بھی استعمال اعلیٰ حضرت بکثرت کرتے ہیں۔ (۶)
۱۰… خلاف بیانی۔ (۷)
۱۱… افتراء و تحریف۔ (۸)
۱۲… خود فراموشی، اعلیٰ حضرت اپنی شان و مرتبہ کو فراموش کر کے صحابہ کرامn اور مجتہدین پر اپنی ذات کو قیاس کر بیٹھنے کے بے حد عادی ہیں۔ (۹)
(۱) (ص۱۱ تجلیات) (۲) (ص۱۲ تجلیات)
(۳) (ص۱۳ تجلیات) (۴) (ص۱۴ تجلیات)
(۵) (ص۱۵ تجلیات) (۶) (ص۱۶ تجلیات)
(۷) (ص۱۷ تجلیات) (۸) (ص۱۷ تجلیات)
(۹) (ص۱۸ تجلیات)
۱۳… تحکم و حکومت طلبی، کبھی اس طرح کہ ہاں میں ہاں ملانے والے شخص کو مسند فضل و کمال کا صدر نشین بنا دیا۔ پھر جو لہر آئی تو اس کو ایک دم جاہل و احمق جیسے معزز خطاب دے دیتے۔ (۱)
حضرت مولانا اجمیریe نے مولانا احمد رضا خاں کی ان تیرہ صفات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ (۲)
اور ان کی ہر ایک خصوصیت پر ان کی تحریرات سے مثالیں پیش کی ہیں۔ حضرت اجمیری نے خان صاحب کے علم و فضل کو اس طرح بے نقاب کیا ہے کہ اب خان صاحب کو اس آئینہ میں اتارنے کی کوئی اور حاجت نہیں رہ جاتی۔ المیزان بمبئی نمبر میں مدنی میاں کا یہ تاثر بالکل صحیح ہے کہ مولانا احمد رضا خاں کے متعلق پڑھے لکھے حلقوں کی رائے یہ ہے:
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
آج اہل دانش امام احمد رضا کی عبقری ذات کو نہ تو جانتے ہیں نہ ہی پہچانتے ہیں۔
ان کا اسم گرامی ایک مذہبی گالی سمجھا جاتا ہے۔ (۳)
پروفیسر مسعود احمد صاحب بھی درست لکھتے ہیں:
کہ مولانا احمد رضا خاں کے متعلق مدتوں یہی تاثر رہا ہے کہ گویا آپ جاہلوں کے پیشوا تھے۔ (۴)
نواب کلب علی خاں کی خدمت میں:
رام پور کے نواب کلب علی خاں صاحب علمی اور ادبی ذوق رکھتے تھے، نوجوانوں سے
(۱) (ص۱۹ تجلیات)
(۲) (تجلیات انوار المعین ص۷ سے ۱۰ تک)
(۳) (المیزان احمد رضا نمبر ص۳۸)
(۴) (فاضل بریلوی اور ترک موالات ص۵)
ملنے کا انہیں بہت شوق تھا ’’المیزان‘‘ میں ہے:
’’انہیں ایک ایسے طالب علم سے ملنے کا اشتیاق ہوا جس نے چودہ سال کی عمر میں درسیات سے فراغت حاصل کر لی ہو، جب حضرت (مولانا احمد رضا خاں) نواب صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے خاص پلنگ پر بٹھایا اور بہت لطف و محبت سے باتیں کرتے رہے۔‘‘ (۱)
استاد کی نظر میں:
مانا میاں پیلی بھیتی لکھتے ہیں کہ بچپن میں بھی آپ کے استاد مرزا غلام قادر بھی اعلیٰ حضرت کے بہت شیدا تھے اور آپ پر قربان ہوتے تھے۔ اعلیٰ حضرت کے یہ استاد اعلیٰ حضرت پر جان چھڑکتے تھے۔ (۲)
مولانا احمد رضا خاں کی چلبلی طبیعت:
مولانا احمد رضا خاں کی طبیعت بہت چلبلی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ فحش شعر بھی کہہ لیتے تھے۔ ملاحظہ فرمائیں:
تنگ و چست ان کا لباس اور وہ جوبن کی بہار
مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک لے کر
یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن میرے دل کی صورت
کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و بر (۳)
ـ
(۱) (امام احمد رضا نمبر ص۳۳۲)
(۲) (سوانح اعلیٰ حضرت ص۳۰)
(۳) (حدائق بخشش حصہ سوم ص۳۷۔ مولانا حشمت علی کے بھائی لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ اشعار اعلیٰ حضرت کی بیاض سے نہایت احتیاط کے ساتھ نقل کیے۔ ماہ نامہ سنی لکھنؤ ذوالحجہ ۱۳۷۴ھ)
بریلوی مذہب والوں نے مولانا احمد رضا خاں صاحب کی طبیعت پر یہ تبصرہ نہایت نامناسب الفاظ میں کیا ہے، انہیں مولانا کی اس قسم کی باتوں پر پردہ ڈالنا چاہیے تھا نہ کہ ان کی اس طرح تشہیر کریں (سچ ہے خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے) یہ عجیب بات ہے کہ آپ کے سوانح نگار آپ کی اس قسم کی باتوں کو تو نقل کرتے ہیں لیکن کام کی کوئی بات ذکر نہیں کرتے۔
سیرت میں صوفیہ کا کوئی رنگ نہیں:
ہم ’’المیزان‘‘ کے احمد رضا نمبر کی اس تصریح سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’’سوانح نگاروں نے اعلیٰ حضرت کی صوفیانہ زندگی، عشق رسول، سوز جگر، حزن و ملال اور کیفیت قلبی، سرور باطنی، احتیاط ظاہری کا کہیں پر ذکر تک نہ کیا۔‘‘ (۱)
مضمون نگار کو اس پر افسوس نہ کرنا چاہیے کچھ ہوتا تو سوانح نگار ذکر کرتے، آپ کی رہائش جس علاقے میں تھی اس کا لازمی اثر تھا کہ آپ کی طبیعت چلبلی سی رہے اور عشق رسول aمیں کہیں آپ کی کیفیت قلبی اور اسرارِ باطنی کا پتہ نہ ملا، یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے مارہرہ شریف کے آستانہ پر حاضری دی تھی لیکن یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ مرشد مرید سے کس قسم کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اور مرید کس شوق سے انہیں پورا کیا کرتے تھے۔
مولانا کے شیخ طریقت کی فرمائش:
مرشد کی اپنے اس مرید خاص سے کس قسم کی فرمائشیں تھیں؟ اس کے لیے ’’المیزان‘‘ کے احمد رضا خان نمبر کو دیکھیے:
’’سجادہ نشین صاحب نے ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت سے رکھوالی کے لیے دو کتوں کی
ـ
(۱) (امام احمد رضا نمبر ص۲۱۷)
فرمائش کی تو اعلیٰ حضرت نے اعلیٰ نسل کے دو کتے خانقاہ عالیہ کو دیکھ بھال کے لیے بذات خود دیے۔‘‘ (۱)
پتہ چلتا ہے کہ مولانا احمد رضا خاں کو کتے پالنے کا بھی شوق تھا یا کتے پالنے والوں کے ساتھ آپ کے گہرے روابط تھے۔ تبھی تو مرشد گرامی نے آپ سے ان کی فرمائش کی تھی۔ مرشد گرامی کی مالی حالت معلوم ہوتی ہے بہت مضبوط ہو گی تبھی تو اس کی حفاظت کے لیے مرشد و مرید دونوں کو کتوں کی فکر تھی۔ جب توجہ ہی ان جیسے امور کی طرف ہو تو طریقت کی منزلیں کیا طے ہوں گی۔ بریلوی علماء اعتراف کرتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کی سیرت پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں صوفیہ کرام کے طرز کی کوئی بات نہیں ملتی:
’’جو کچھ سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے وہ سب علمی اکھاڑے کی باتیں ہیں، ان کتابوں میں کہیں بھی سلوک کی پکھڈنڈی نظر نہیں آتی جو انتشار پسند ذہنوں کو تقویت پہنچا سکے۔ (۲)
خرقہ خلافت بلا ریاضت ملا:
یہ صحیح ہے کہ آپ مارہرہ شریف کی گدی سے خرقہ خلافت پا چکے تھے لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ آپ نے اپنے مرشد کی زیر تربیت واقعی کوئی سلوک کی منزلیں طے کی ہوں گی، مولانا احمد رضا خاں اس لائن کے ہی نہ تھے کہ انہیں طریقت میں چلنے کا کوئی موقع ملتا۔ رہا یہ مسئلہ کہ پھر طریقت نے خلافت کیسے دے دی تو اسے خود انہی حضرات کی زبان سے سنیے اور اعلیٰ حضرت کی بزرگی پر سر دھنیے:
’’آپ نے بغیر مشقت و مجاہدہ کے امام احمد رضا کو خلافت دے دی۔‘‘ (۳)
ـ
(۱) (امام احمد رضا نمبر ص۲۱۹) (۲) (امام احمد رضا نمبر ص۲۱۸)
(۳) (امام احمد رضا نمبر ص۳۶۷)
ساری عمر رسول اﷲa کی زیارت نہ ہوئی:
یوں تو مولانا احمد رضا خاں نے ایسے خواب بھی سنائے کہ حضور a تشریف لائے اور ان کے مقتدی بنے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو زندگی بھر حضور aکی زیارت نصیب نہ ہوئی تھی۔ ایک جگہ خود فرماتے ہیں:
جان تو جاتے ہی جائے گی قیامت یہ ہے
کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ہے نظارہ تیرا (۱)
اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ مجھے موت کے بعد ہی آپ کی زیارت نصیب ہو سکے گی۔ اس سے پہلے کسی حالت میں ممکن نہیں۔
مولانا احمد رضا خاں صاحب کی نماز:
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیe فرماتے ہیں:
’’مشائخ نفلوں کو بھی فرض کی سی اہمیت دیتے ہیں، بندہ مومن نفلوں کے ذریعہ خدا کا محبوب بنتا ہے۔‘‘ (۲)
اب دیکھیے مولانا احمد رضا خاں صاحب اس یاد الٰہی میں کہاں تک جذب تھے۔
سنت معاف نفل صاف:
مولانا احمد رضا خاں (اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہیں) لکھتے ہیں:
’’میں اپنی حالت وہ پاتا ہوں جس میں فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ سنتیں بھی ایسے شخص کو معاف ہیں لیکن الحمد ﷲ سنتیں کبھی نہ چھوڑیں نفل البتہ اسی روز سے چھوڑ دیے ہیں۔‘‘ (۳)
ـ
(۱) (حدائق بخشش حصہ اول ص۵)
(۲) (الفتح الربانی مجلس ۶۱ ص۴۴۶)
(۳) (ملفوظات حصہ چہارم ص۵۰)
معلوم ہوتا ہے مولانا سنت کو بھی اپنے لیے معاف سمجھتے تھے، معلوم نہیں فقہاء کرام نے کہاں فتویٰ دیا ہے کہ اپنی علمی مصروفیات کی وجہ سے بے شک سنت بھی چھوڑ دو۔
رہا نماز تہجد کا مسئلہ تو مولانا احمد رضا خاں اسے سنت کفایہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ محلے میں کوئی شخص بھی تہجد پڑھ لے تو سب کی طرف سے ادا ہو جاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ مولانا کو اس دن سے نفل کی توفیق نہ ہوئی، شیطان کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ انسان سے پہلے مستحبات و نوافل وغیرہ چھڑواتا ہے پھر اس کے لیے آگے چلنے کا راستہ بڑا ہموار ہو جاتا ہے۔
ان حالات میں مولانا کے تذکروں میں طریقت و سلوک کی پگڈنڈی اگر کہیں نظر نہ آئے تو ’’المیزان‘‘ کے مضمون نگار اعجاز لائبریرین کو شکوہ نہ ہونا چاہیے تھا۔ (۱)
بریلوی مذہب کے لوگ ممکن ہے کہ مولانا کی طرف سے یہ کہیں کہ آپ نے گو نفل چھوڑ دیے تھے لیکن آپ کی فرض نماز بہت بلند شان تھی۔ اس میں نفلوں کی کمی سب ادا ہو جاتی تھی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم مولانا کی فرض نماز کا نمونہ بھی ہدایہ قارئین کر دیں۔ اس سے بریلویوں کی عام نمازوں کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔
فرض نماز میں نفس کی حرکت سے بند ٹوٹ گیا:
بریلویوں کے مولوی محمد حسین صاحب میرٹھی کا بیان ہے کہ:
’’ایک سال امام احمد رضا کی مسجد میں بیس رمضان المبارک سے میں معتکف ہوا، جب چھبیس رمضان المبارک کی تاریخ آئی تو امام احمد رضا نے بھی اعتکاف فرما لیا۔ قبل اعتکاف ایک دن کا واقعہ ہے کہ عصر کے وقت حضور امام احمد رضا تشریف لائے اور نماز پڑھا کر تشریف لے گئے میں مسجد کے اندر کونے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک صاحب آئے
ـ
(۱) (دیکھئے امام احمد رضا نمبر ص۲۱۸)
اور مجھ سے کہنے لگے۔ آپ نے ابھی عصر کی نماز نہیں پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ ابھی حضور کے پیچھے پڑھی ہے تو ان صاحب نے تعجب سے کہا کہ حضور تو اب پڑھ رہے ہیں …
میں نے عرض کیا حضور میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ابھی نماز پڑھائی ہے اور پھر پڑھ رہے ہیں، نوافل کا بھی اس وقت سوال نہیں تو امام احمد رضا نے ارشاد فرمایا کہ قعدہ اخیرہ میں بعد تشہد حرکت ِ نفس سے میرے انگرکھے کا بند ٹوٹ گیا چونکہ نماز تشہد پر ختم ہو جاتی ہے اس وجہ سے آپ لوگوں سے نہیں کہا اور گھر میں جا کر بندوبست کرا کر اپنی نماز احتیاطاً پھر سے پڑھ لی۔‘‘ (۱)
احتیاط کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ اگر پہلی نماز ادا نہ ہوتی تو اب یہ نماز لائق ادا ہو جائے۔ اس صورت میں کیا مقتدیوں کی نماز بھی احتیاطاً دوبارہ نہ ہونی چاہیے تھی؟ اگر یقین تھا کہ نماز صحیح ادا ہو گئی ہے تو پھر احتیاطاً دوبارہ کا کیا مطلب تھا؟ یہ اس وقت موضوع سخن نہیں، اس وقت اپنے قارئین کو صرف یہ بتلانا ہے کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کی فرض نمازوں کی رمضان المبارک میں کیا شان تھی کہ نفس کی حرکت سے انگرکھے کا بند ٹوٹتا تھا۔
عضو تناسل پر خاص تحقیق:
’’مرد کی شرم گاہ کے اعضاء کو نو ثابت کرنا آپ کی فقہ دانی پر ایسی شہادت ہے جو آفتاب نیم روز سے زیادہ درخشاں اور تابندہ ہے چنانچہ آپ نے پہلے چالیس مستند و معتبر کتب فقیہہ اور فتاویٰ کے حوالہ سے شرمگاہ کے اعضاء کو مدلل و محقق فرمایا پھر تدقیق نظر سے ایک اور عضو شرمگاہ پر دلائل ثبت فرما کر ثابت کیا کہ مرد کی شرمگاہ کے اعضا نو ہیں۔ (۲)
ـ
(۱) (المیزان امام احمد رضا نمبر ص۲۳۴)
(۲) (امام احمد رضا نمبر ص۲۱۲)
گائوں کی اٹھارہ سالہ لڑکی پر نگاہ:
حدیث کی رو سے غیر محرم عورت پر خود نگاہ کرنا جائز نہیں مگر مولانا احمد رضا فرماتے ہیں کہ:
’’میں نے خود دیکھا کہ گائوں میں ایک لڑکی اٹھارہ یا بیس برس کی تھی، ماں اس کی ضعیفہ تھی اس کا دودھ اس سے نہ چھڑایا تھا، ماں ہر چند منع کرتی وہ زور آور تھی پچھاڑتی تھی اور سینے پر چڑھ کر دودھ پینے لگتی۔‘‘ (۱)
غیر محرم عورت کو خود دیکھنا اور اس کی ماں کی چھاتی پر بھی نگاہ ڈالنا اور بار بار مشاہدہ کرنا کہ ماں ہر چند اسے منع کرتی ہے اور وہ رکتی نہیں انہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جن کی نماز ابھی پوری شان سے قائم نہ ہوئی ہو ورنہ نماز تو بے حیائی سے روکتی ہے۔
آہ یہ وہی آنکھیں ہیں جو بچپن میں غیر محرم کے چہرے سے بچتی تھیں اب جوانی میں غیر محرم چھاتیوں سے بھی نہیں چوکتیں۔
کھانے پینے کا ذوق:
مولانا احمد رضا خاں صاحب کو کھانے پینے کا بہت شوق تھا، کھاتے پیتے تو سب ہی ہیں لیکن شوق و ذوق کچھ اور شے ہے۔ آپ نے وفات سے پہلے لذیذ کھانوں کی جو فہرست مرتب کی اور اس آخری وقت میں بھی کھانوں کی لذت کو نہ بھولے مولانا احمد رضا کے وصایا شریف کی روشنی میں
اسی جماعت کے ایک پیرو مولانا محمد عمر اچھروی بھی تھے، آپ نے حنفیت کے معیار پر ایک کتاب لکھی ہے جس کے بعض عنوانات یہ ہیں:
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
ـ
(۱) (ملفوظات حصہ سوم ص۵۸)
فضیلت جمعرات (۱)
فضیلت دودھ (۲)
فضیلت حلوا و شہد (۳)
فضیلت گوشت (۴)
پراٹھے پکا کر بزرگوں کی نذر کرنا۔ (۵)
مفتی احمد یار صاحب لکھتے ہیں:
’’شب برات کا حلوہ اورمیت کی فاتحہ اس کھانے پر جو میت کو مرغوب تھی اسی سے مستنبط ہے۔ ‘‘ (۶)
مولانا احمد رضا لکھتے ہیں:
’’نیاز کا ایسے کھانے پر ہونا بہتر ہے جس کا کوئی حصہ پھینکا نہ جائے جیسے زردہ یا حلوہ یا خشکر یا وہ پلائو جس میں سے ہڈیاں علیحدہ کر لی گئی ہوں۔‘‘ (۷)
ان عنوانات سے اور اس قسم کے استنباط سے ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ بریلوی مذہب کس چیز کا نام ہے، آج بھی بریلوی مسلک کے علماء زیادہ تر انہی لذیذ کھانوں کے پیچھے پڑے ہوئے ملیں گے۔ ماہ نامہ ’’المیزان‘‘ بمبئی اپنے ہم مشرب علماء کا شکوہ ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’یا پھر امام احمد رضا کا نام لے کر ’’شکم پروری‘‘ میں مبتلا ہیں۔‘‘ (۸)
ـ
(۱) (مقیاس حنفیت ص۵۰۵) (۲) (مقیاس حنفیت ص۵۰۹)
(۳) (مقیاس حنفیت ص۵۱۰) (۴) (مقیاس حنفیت ص۵۱۱)
(۵) (مقیاس حنفیت ص۵۱۱) (۶) (تفسیر نور العرفان ص۵۱)
(۷) (فتاویٰ رضویہ ج۴ ص۲۳۶) (۸) (المیزان احمد رضا نمبر ص۴۶)
یہ بریلویوں کا ایک دوسرے سے اندرونی شکوہ ہے ہم ان کے اختلاف میں دخل دینا نہیں چاہتے ہم یہاں صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا احمد رضا خاں نے وفات سے دو گھنٹے سترہ منٹ پہلے عمدہ اور لذیذ کھانوں کی جو فہرست ترتیب دلوائی اس سے ان کے کھانے کے ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے، آپ نے مندرجہ ذیل لذیذ کھانوں کی وصیت فرمائی تھی۔ فرماتے ہیں:
’’اعزہ سے اگر بطیب خاطر ممکن ہو تو فاتحہ ہفتہ میں دو تین بار ان اشیاء سے بھی کچھ بھیج دیا کریں، دودھ کا برف خانہ ساز اگر بھینس کا دودھ ہو، مرغ کی بریانی، مرغ پلائو خواہ بکری کا ہو، شامی کباب، پراٹھے بالائی فیرنی، اردکی پھریری دال مع ادرک و لوازم، گوشت بھری کچوریاں، سیب کا پانی، انار کا پانی، سوڈے کی بوتل، دودھ کا برف۔ (۱)
اس وصیت پر مولانا ظفر علی خان نے یہ شعر کہا ہے:
تربت احمد رضا خاں پر چڑھاوا ہے فضول
جب تک اس میں ماش کی دال اور بالائی نہ ہو
سادہ زندگی بسر کرنے، قرآنی احکام پر عمل پیرا ہونے اور تقویٰ و ریاضت اختیار کرنے سے اخلاق فاضلبریلوی مذہب کے لوگ ممکن ہے کہ مولانا کی طرف سے یہ کہیں کہ آپ نے گو نفل چھوڑ دیے تھے لیکن آپ کی فرض نماز بہت بلند شان تھی۔ اس میں نفلوں کی کمی سب ادا ہو جاتی تھی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم مولانا کی فرض نماز کا نمونہ بھی ہدایہ قارئین کر دیں۔ اس سے بریلویوں کی عام نمازوں کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔mso-tab-count: 1;AR-SA/spanFAہ کی دولت ملتی ہے، اخلاق رذیلہ چھٹ جاتے ہیں اور انسانی زندگی پر ان کا اثر ظاہر ہوتا ہے انسان کی زبان میں شرافت اور گفتگو میں حیا آ جاتی ہے۔
مولانا کی اخلاقی زبان:
مولانا احمد رضا خاں صاحب سے مسئلہ پوچھا گیا کہ جوان عورت سے مرد ضعیف نکاح کرنا چاہے تو خضاب سے بال سیاہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ نہیں۔ اسلام میں کسی کو دھوکا دینا جائز نہیں مگر مولانا احمد رضا خاں کا جواب سنیے اور اندازِ
ـ
(۱) (وصایا شریف ص۸)
تخاطب پر داد دیجیے:
(۱) ’’بوڑھا بیل سینگ کاٹنے سے بچھڑا نہیں ہو سکتا۔‘‘ (۱)
انسان کو بغیر اس کے کسی قصور کے جانور بنا دینا کون سی خوش اخلاقی ہے، یہ مسئلے کا جواب ہے یا اس بیچارے پر طعن و تشنیع کا انبار ہے، جو لوگ علماء سے شرعی رہنمائی چاہیں ان سے اس قسم کی زبان استعمال کرنا کیا مجددانہ شان ان کے موافق تھی؟
(۲) ایک صاحب کو جدید فقہ لکھنے کا شوق تھا، مولانا احمد رضا خاں اس کے خلاف تھے آپ اسے مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کہاں کا اسلام کیسی ملت مجوسیت کو نہال کیجیے
مزے سے الو کا گوشت کھا کر پھوپھی بھتیجی حلال کیجیے (۲)
علمائے دیوبند کے خلاف بد زبانی:
مولانا احمد رضا خاں کی مشہور کتاب خالص الاعتقاد کی تمہید میں ان علماء کے بارے میں جو علمائے دیوبندf کی طرف سے مناظرہ کرنے آئے تھے، لکھا ہے:
(۳) ’’شریفہ ظریفہ رشیدہ رمیدہ نے اپنے اقبال وسیع سے ان کے ادبار پر ضیق کو فراخی حوصلہ کی لے سکھائی کہ چاہیں تو ایک ایک منٹ میں اپنے مضمون کی ’’ایک ایک کتاب‘‘ کا جواب لکھ دیں۔‘‘ (۳)
شریفہ ظریفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویe کو اور رشیدہ رمیدہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیe کو کہا ہے، رمیدہ بھاگی ہوئی عورت کو کہتے ہیں۔ اقبال وسیع سے مراد عام کھلی قبولیت ہے کہ جو چاہے آئے ادبار دُبر کی جمع ہے۔ یہ پچھلے حصے کو کہتے ہیں پر ضیق
ـ
(۱) (امام احمد رضا نمبر ص۱۷۱)
(۲) (سیف المصطفیٰ ص۵۷)
(۳) (خالص الاعتقاد ص۱۰)
نہایت تنگ گزار راستے کو کہتے ہیں۔ فراخی حوصلہ سے مراد کھل جانا ہے۔ یہ تمام الفاظ آستانہ بریلی کی بد زبانی کی کھلی شہادت ہے۔
آپ سوچیں یہ زبان کس شریف انسان کی ہو سکتی ہے۔ پھر حضرت تھانوی کے بارے میں لکھا ہے:
’’وہ تین توڑے دیکھ کر بھی لب نہ کھولیں گے آپ کی مہر دہن تو جب ٹوٹے کہ کچھ گنجائش سوجھے۔‘‘ (۱)
تین توڑے سے آپ کا اشارہ کدھر ہے، شریف حلقے اس کی تصریح کے گر انبار نہیں ہو سکتے، پھر دیکھیے مولانا احمد رضا خاں جانوروں کی جفتی (INTERCOURSE) کا تصور قائم کر کے حضرت مولانا تھانوی کے بارے میں کیا لکھتے ہیں:
تھانوی جی نہ تھان چھوڑیں گے
اور نہ ہم ان کے کان چھوڑیں گے
ہم انہیں ٹکٹکائے جائیں گے
وہ کبھی تو مکان چھوڑیں گے
ہم نے کیسا چکھایا ڈنڈا کیوں
پھر اوچھل کر پلان چھوڑیں گے
وہ دولتی چلائیں ہم ان کو
پیٹھ پر جا کے کان چھوڑیں گے (۲)
ڈنڈا چکھانا اور پیٹھ پر جا کر کان چھوڑنا مولانا کے ذوق درونی کا پتہ دے رہے ہیں اس پر بھی چین نہ آیا تو آپ نے مولانا کو پھر ایک اور گالی دی:
اضر حبلٰی من نتائج ردہ
اشرف علی لعبۃ الصبیان
انھی جراء ک فی الحسان عن العواء
انت انجی یا کلبۃ الشیطان (۳)
ـ
(۱) (رماح القہار علی کفر الکفار ص۱۰)
(۲) (حدائق بخشش حصہ سوم ص۹۲)
(۳) (حدائق بخشش حصہ سوم ص۸۹)
ترجمہ: ارتداد کے بچوں سے بدترین حاملہ اشرف علی بچوں کی گڑیا ہے (اے حاملہ) تو اپنے پِلّوں کو اچھوں میں بھونکنے سے روک۔ اے شیطان کی کتیا تو خود بھونک۔ معاذ اﷲ
اس زبان کے باوجود کوئی شخص مولانا احمد رضا خاں کو شریف انسانوں میں جگہ دے۔ تو اس کی بہت ہی بڑی مروت ہو گی ورنہ حقیقت خود ظاہر ہے۔
مولانا احمد رضا خاں صاحب لکھتے ہیں:
حضرت ممدوح صدر الصدور صاحب بالقابہ نے اور بھی آسانی دیکھی، بدایوں کو دوہی کا جوتا بویا ملا تھا۔ رہے وہابیہ و رامپوری انہیں تین کا ملا۔ (۱)
تین چوٹوں پر تین روپیہ انعام… فی چوٹ ایک روپیہ۔ (۲)
کیا بازاری گفتگو ہے۔ خدارا فیصلہ کیجیے۔ کیا یہ علماء کی زبان ہے؟ کیا یہی ان کا درس اخلاقیات ہے؟ پھر صرف لفظ تین پر اکتفا نہیں کرتے، ان میں ایک کی اس طرح تعین کرتے ہیں۔ تیسرا ان کے نصیبوں کا سب میں سیدھا۔ (۳)
تیسرا دونوں سے بڑھ کر مضر۔ (۴)
اب خان صاحب آگے دیکھنے کی بھی دعوت دے رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
ہمارے اگلے تین پر پھر نظر ڈالیے دیکھئے وہ رسلیا والے پر کیسے ٹھیک اتر گئے۔ (۵)
بریلی کے ان علمائے نامدار سے اور سنیے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویe نے
ـ
(۱) (اجلی انوار الرضا ص۳)
(۲) (مقتل کذب وکید ص۵۶)
(۳) (سد الفرار ص۱۱)
(۴) (سد الفرار ص۵۶۔ وقعات السنان ص۲۸)
(۵) (سد الفرار ص۵۶)
اپنے رسالہ حفظ ال lang= style=span style=ایمان میں ایک موضوع کو تین شقوں (اجزائ) میں تقسیم کیا تھا۔ آپ اس پر تنقید کرتے ہوئے مولانا تھانویe کے بارے میں لکھتے ہیں:
اگر بہ کمال بے حیائی اپنی دو شقی میں وہ تیسرا احتمال داخل بھی کر لے… الخ (۱)
ان الفاظ کو نقل کرتے ہوئے شرافت کانپتی ہے۔ لیکن خان صاحب اور ان کے شاہزادوں کی عملی اور اخلاقی حالت اس کے بغیر کھلتی بھی تو نہیں۔ حامد رضا خاں حضرت تھانویe کے لیے مؤنث کے الفاظ اختیار کر کے پھر یہ بھی لکھ گئے۔
مسمات یہ تیسرا بھی کیسا ہضم کر گئی۔ (۲)
’’اس (مولانا تھانویe) کی دوشقی میں اس تیسرے کا دخول‘‘ (۳)
حضور a تو مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے آئے تھے۔ علماء کا کام حضور aکی اخلاقی تعلیم کو عام کرنا ہے نہ کہ اس قسم کی فحش یا پہلو دار گفتگو سے اپنے ذوق درونی کو تسکین دینا۔ بریلی کے یہ شہزادے لفظ تین کے ساتھ اسی تصور میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایک اور بحث میں لکھتے ہیں:
آپ معمول مجعول کا پیوند جوڑ کر دخول کی مشکل آسان بھی کر لیں۔ (۴)
بات اذان کے داخل مسجد ہونے کی چل رہی تھی۔ آپ داخل کے لفظ سے لفظ دخول کی طرف منتقل ہو گئے اور سنیے:
تمہارا نام الف کے تلے لیں… (۵)
ـ
(۱) (وقعات النسان ص۲۸)
(۲) (وقعات السنان ص۴۶)
(۳) (وقعات السنان ص۲۵)
(۴) (سد الفرار ص۵۲)
(۵) (سد الفرار ص۳۹)
ہے ہے آدھی… ہے ہے پوری نہ لی۔ (۱)
پھر اور سنیے اور ان حضرت کی اخلاقی حالت کا ماتم کیجیے۔
رسلیا والا (رسلیا لفظ رسالہ کو بگاڑ کر لکھا ہے اس سے حضرت مولانا تھانویe کا رسالہ حفظ الایمان مراد ہے) بھی کیا یاد کرے گا کہ کسی کرے سے پالا پڑا تھا۔ اب وہ کھولوں جس سے مخالف چندھیا کرپٹ ہو جاوے۔ (۲)
اف ری رسلیا تیرا بھولا پن خون پونچھتی جا اور کہہ خدا جھوٹ کرے۔ (۳)
رسلیا کی چک پھیریاں تو گوہر کو بھی مات کر گئیں۔ اب مسلمان کے چہلنے کو پھر کاوا کاٹتی ہے۔
سب پر ابلیس ایک طرح سوار … دوسرا اور مسماۃ کی گرہیں کھولتا ہے۔
آپ غور کریں اور دیکھیں کہ آستانہ بریلی میں کس قسم کی زبان بولی جاتی تھی اور ان کے گھر میں کن لوگوں کی اصطلاحیں رائج تھیں۔ مولانا تھانوی کی کتاب حفظ الایمان کو رسلیا کہتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’رسلیا کہتی ہے میں یوں نہیں مانتی میری ٹھہرائی پر اترو، دیکھوں تو اس میں تم میری گرہ کیسے کھول لیتے ہو۔‘‘
مولانا احمد رضا خاں اور ان کے شاہزادے تو ان الفاظ کو صرف پہلو دار بتاتے ہیں فحش نہیں مانتے۔ لیکن مولانا معین الدین اجمیری کے تاثرات یہ ہیں:
ان الفاظ کی نسبت خلقت کہتی ہے کہ یہ صریح فحش ہے اور اس وجہ سے اعلیٰ حضرت پر اس طرح طعن کرتی ہے کہ ایسے شخص کو نیکی کا اسفل درجہ بھی نہیں دیا جا سکتا نہ کہ معاذ اﷲ اس کو
ـ
(۱) (وقعات ص۱۷)
(۲) (وقعات ص۴۸)
(۳) (وقعات ص۱۷)
شیخ وقت اور مجدد تسلیم کر لینا۔ یہ ایسی زبردست سفاہت و حماقت ہے کہ اس کے بعد حماقت کا کوئی درجہ نہیں اس بازاری گفتگو پر بھی اگر کوئی جماعت اس کو مقتدا تسلیم کر لیتی ہے تو پھر وہ بازاریوں کی کیوں معتقد نہیں ہو جاتی۔ (۱)
ایسے شیخ وقت اور پیر فانی کی زبان و قلم سے ایسے سو قیافہ جملے نکلے ہوئے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اب قیامت آنے میں کچھ دیر ہے تو صرف چند لمحات کی۔ (۲)
خان صاحب کا تین کے تصور میں لذت لینا:
حضرت مولانا معین الدین اجمیری جنہیں ماہنامہ المیزان بمبئی کے امام احمد رضا نمبر میں آفتاب علم تسلیم کیا گیا ہے۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:
ان پہلو دار الفاظ میں آپ کو لفظ تین زیادہ مرغوب ہے۔ خلقت اس کو فحش و بازاری گفتگو کہتی ہے۔ مگر یہ اس کی غلطی ہے اور اعلیٰ حضرت کے ساتھ سوء ظنی ہم ان کی بعض کتب سے بحوالہ چند صفحات چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جن سے ناظرین خود فیصلہ کر لیں گے۔ کہ اعلیٰ حضرت کا یہ ارشاد صحیح ہے کہ کوئی پہلودار لفظ کہا یا عام مخلوق کا یہ گمان کہ وہ پہلودار لفظ نہیں بلکہ فحش و بازاری گفتگو ہے۔ (۳)
لیکن خلقت کا یہ اعتراض ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اصل یہ ہے کہ خلقت کی اصطلاح میں فحش وہ ہے جس کی طرف ذہن کا انتقال فی الجملہ ہو جائے… اعلیٰ حضرت کے نزدیک فحش کی صرف ایک صورت ہے۔ وہ یہ کہ لفظ خاص فحش کے لیے موضوع ہو۔ (۴)
ـ
(۱) (تجلیات انوار ص۳۴)
(۲) (تجلیات انوار ص۳۵)
(۳) (تجلیات انوار ص۳۳)
(۴) (تجلیات: ۳۴)
یہ فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خاں اور ان کے پیرو صرف پہلودار الفاظ کے چٹخارے لیتے ہیں یا واقعی فحش گو ہیں۔ تاہم شمس العلماء حضرت مولانا معین الدین اجمیری جو علماء دیوبند میں سے نہیں سلسلہ خیر آبادیہ کے مشہور بزرگ اور محدث تھے ان کا فیصلہ ضرور ہدیۂ قارئین کیے دیتے ہیں:
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
ایسے حضرات کو جو عباد الرحمن اور حضرت انور a کے سچے وارث ہیں صاف لفظوں میں مؤنث کہا گیا ہے کہ جس کو سن کر بازاری اوباش تک کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں۔ اب اس کے بعد وہ کون سا درجہ ہے جس کی بنا پر اعلیٰ حضرت کو فحش گو قرار دیا جائے۔ دنیا میں جب اعلیٰ درجے کا فحش گو اپنی انتہائی فحش کی نمائش کرتا ہے تو اس کی فحش گوئی کا خاتمہ بھی ایسے جملوں پر ہوتا ہے جن کا صدور آئے دن اعلیٰ حضرت کی ذات سے علماء کرام کی شان میں ہوتا رہتا ہے۔ فرق ہے تو صرف اس قدر کہ اس کی فحش گوئی کے لیے کوئی طائفہ مخصوص نہیں اور اعلیٰ حضرت کی فحش گوئی کا مورد خاص علماء کرام کا ایک طبقہ ہے۔ (۱)
اعلیٰ حضرت کے بعد ان کے پیرو اس خاص میدان کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے علماء کے دائرہ سے کچھ آگے بھی قدم بڑھائے اور انگریزوں کے خلاف کام کرنے والے سپاہی کارکنوں پر بھی اس فحش گوئی کی کچھ مشق کی اور کچھ عربی الفاظ درمیان میں لا کر اپنے ذوق درونی کا اظہار کیا۔
فحش کلامی کے ساتھ بدزبانی بھی:
اعلیٰ حضرت فحش کلامی کے علاوہ بدزبانی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ اس میں آپ بسا اوقات قرآن کریم کے الفاظ سے بھی کھیلتے تھے اور اس سے عجیب عجیب الفاظ بناتے۔
ـ
(۱) (تجلیات:۳۶)
ان کے پیرو اسے آپ کی علمی تجلیات سمجھتے اور آپ اسے اپنے مخالفین کے خلاف ایک لسانی جہاد کہتے… اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم سورۃ القمر میں قوم ثمود کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ حضرت صالحk کو اَشِر کہتے تھے۔ اشر کے معنی بڑائی مارنے والا بڑا بننے والا کے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جواباً فرمایا:
{سَیَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْکَذَّابُ الْاَشِرُ} (۱)
’’عنقریب کل جان لیں گے کہ کون ہے جھوٹا بڑائی مارنے والا‘‘
مولانا احمد رضا خاں نے یہاں اشر کی دو قسمیں بتائی ہیں۔ زبان سے بڑائی مارنے والا اور عملاً بڑائی مارنے والا … پہلے کو اشر قولی کہا اور دوسرے کو اشر فعلی … چودہ سو سال کے مفسرین مترجمین اور علمائے اخلاق میں سے کسی بزرگ نے اشر کی یہ دو قسمیں نہ بتائیں۔ مولانا احمد رضا خان نے یہ دو قسمیں کیوں بتائیں یا یہ دو قسمیں کیوں بنائیں؟ اس لیے کہ اشر فعلی لکھ کر حضرت مولانا اشرف علی پر چٹخارے دار قہقہہ لگا سکیں اور اس طرح اپنی مجلس کو باغ و بہار بنائیں… مولانا احمد رضا خاں لکھتے ہیں:
کل قیامت کو کھل جائے گا کہ مشرک، کافر، مرتد، خاسر کون تھا سیعلمون غدا من الکذاب الاشر اشر بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اشر قولی کو زبان سے بک بک کرے اور اشر فعلی کہ زبان سے چپ اور خباثت سے باز نہ آئے۔ وہابیہ اشر قولی اور اشر فعلی دونوں ہیں۔ (۲)
خاں صاحب کو نہ قادیانیوں میں کوئی اشر نظر آیا نہ شیعوں میں… ایسا دکھائی دیا… آپ نے اشر کا لفظی ترجمہ بھی نہ کیا۔ عربی لفظ کو ویسے ہی لیا اور قولی اور فعلی کی تقسیم کر کے بات کی تان (مولانا) اشرف علی پر توڑ دی۔
ـ
(۱) (پ:۲۷، القمر:۲۶)
(۲) (خالص الاعتقاد ص۴۴)
ندوۃ العلماء لکھنؤ کے خلاف بد زبانی:
مولانا احمد رضا خاں فحش کلامی اور گندی زبان میں یہاں تک آگے بڑھ چکے تھے کہ ایک مقام پر گالی دیتے ہوئے انہیں لفظ سنت کا احترام بھی مانع نہ آیا۔ آپ ندوہ کے بارے میں فارسی میں لکھتے ہیں کہ فارسی میں اس لیے لکھا کہ کچھ تو پردہ رہ جائے ورنہ بات کیا تھی لفظ سنت کی کھلی توہین تھی اور ایک کھلی گالی تھی:
اسپ سنت مادہ خر از بدعت آوردہ بہم
استر ندوہ بدست آرند ومفخر می کنند (۱)
’’سنت کا گھوڑا جب بدعت کی گدھی پر آیا تو ندوہ کا خچر پیدا ہوا اسی پر ندوہ والے فخر کر رہے ہیں۔‘‘
سنت اور بدعت شرعی اطلاقات تھے۔ افسوس کہ مولانا احمد رضا خاں نے اپنی بدکلامی کے جوش میں یہاں لفظ سنت کی بھی توہین کر ڈالی اور بڑی بے حیائی سے آپ نے یہ لفظ استعمال کیا… کیا یہ اصطلاحات دینی سے کھلا تلاعب نہیں؟ اب آپ ہی بتائیں اصطلاحات دینی سے کھلا تلاعب کیا اسلام ہے؟
کیا یہ وہ فکری کمال ہے جس کے بل بوتے پر آپ مجدد وقت ہونے کے مدعی ہوئے؟ کیا یہی وہ فضیلت ہے جس نے اعلیٰ حضرت کو یہ مقام بخشا؟ کیا انہی باتوں کے سہارے آپ کو شیخ الاسلام و المسلمین اور مجدد مائۃ حاضرہ کہا جاتا ہے؟ دنیا سے اگر انصاف رخصت نہیں ہو گیا تو اس فحش گوئی کی تحقیق کے بعد کون شخص ہے جو اپنے آپ کو اعتقاد بریلوی کہہ سکے۔
ـ
(۱) (حدائق بخشش حصہ سوم ص۳۲)
دیگر بریلوی علماء کی بدزبانی:
آستانہ بریلی کی اس فحش کلامی نے آنے والے بریلوی علماء کو بھی یہی زبان سکھائی بریلوی جماعت کے مولوی ابو الطاہر محمد طیب دانا پوری کی کتاب ’’قہر القادر‘‘ میں آپ کی ایک تحریر خاکسار تحریک کے خلاف دیکھیے: مولانا دانا پوری حزب الاحناف لاہور کے معروف فاضل اور مولانا حشمت علی کے داماد اور مولانا ابو البرکات سید احمد کی خاص زبان تھے، آپ لکھتے ہیں:
’’خاکسار مجاہد والی تحریر کی ابھی تک سیرابی نہیں ہوئی (اسے پانی نہیں ملا) اس لیے اب اس کو دوسری کروٹ لٹاتا ہوں اور برق بار خاراشگاف (پتھر میں سوراخ کر دینے والے) قلم کو جولانی (اچھلنے) کا حکم دیتا ہوں۔ فاقول وعلی الخاکساریۃ بنت ایلیگیۃ اصول (۱)
’’میں یہ کہتا ہوں اور مسلم لیگ کی بیٹی تحریک خاکسار پر چڑھتا ہوں۔‘‘
ان کی شریفانہ زبان کی ایک اور جھلک دیکھیے:
’’اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے دھرم میں تمہاری جورو اور اماں دونوں ایک، تمہارا باپ اور بیٹا دونوں ایک، گوبر اور حلوہ دونوں ایک، فرینی اور پاخانہ دونوں ایک، تمہارا منہ اور پاخانہ پھرنے کی جگہ ایک… حلوے کے بدلے پاخانہ کھائو، شربت کے بدلے پیشاب نوش فرمائو۔ (۲)
کہاں تک انسان اس گندگی کی نشاندہی کرے، یہ چند مثالیں مولانا احمد رضا خاں کے زہد و عمل اور ان کے حلقہ ارادت کی نجابت و شرافت کو واشگاف کرنے کے لیے کافی ہیں،
ـ
(۱) (قہر القادر علی الکفار اللیادر ص۲۹)
(۲) (تجانب اہل السنۃ ص۴۲۸ مصدقہ مولانا حشمت علی یہ فرقہ بریلویہ کے مشہور مناظر تھے)
یہ آستانہ بریلی کے زہد و ریاضت کی ایک منہ بولتی تصویر ہے۔
جس شخص کی اخلاقی حالت اس قدر نمایاں ہو کہ پہلو دار گفتگو کر کے بچوں کی نہی مسخری کرے لیکن اس کی جماعت اسے ایسے کمالات میں مجدد ماننے لگے تو کیا شرافت سر پیٹ کر نہ رہ جائے گی؟ جن علماء کا ظاہر یہ ہو ان کا باطن کیا ہو گا۔ یہ جان لینا اب کوئی مشکل نہیں رہا، رہے ان لوگوں کو عشقِ رسول کے نعرے۔ تو یہ بات اب کسی سے مخفی نہیں رہی کہ یہ سب ایک دکھاوا ہی دکھاوا ہیں۔ یہ لوگ روضۂ رسول پر بھی حاضر ہوں تو اخلاص و محبت سے خالی نظر آئیں گے۔
تحریک خاکسار کو ہم بھی ٹھیک نہیں سمجھتے۔ مگر ایسی بازاری زبان سے توبہ۔
مولانا احمد رضا خاں کو مدینہ منورہ میں علم جفر کی تلاش :
مدینہ منورہ پہنچ کر ہر شخص عشق رسالت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے اور اس کی بہترین سعادت یہی سمجھی جاتی ہے کہ اسے روضہ انور پر سلام عقیدت پیش کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملیں گے مگر مولانا احمد رضا خاں صاحب کو دیکھیے کہ وہاں بھی علم جفر کے چکر میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ روضہ انور کی حاضری کا کیا یہی حق ہے کہ تم وہاں بھی دنیوی امور کی گرد پیمائی میں سرگرداں رہو، بہرحال ملاحظہ کیجیے مولانا احمد رضا خاں کیا کہتے ہیں:
’’خیال کیا کہ یہ شہر کریم تمام جہان کا مرجع و ملجا ہے اہل مغرب بھی یہاں آتے ہیں کہ کوئی صاحب جفر دان مل جائیں کہ ان سے اس فن کی تکمیل کی جائے۔ ‘‘ (۱)
افسوس کہ مدینہ پہنچ کر بھی انہیں حضور a کی محبت نہ ملی اور یہ لوگ روحانی لذت نہ پا سکے۔
ـ
(۱) (ملفوظات ص۳۸)
مولانا احمد رضا خاں اپنے عمل و اخلاق کے آئینہ میں آپ کے سامنے ہیں۔ ان تحریرات میں ان کی زبان انداز، کردار اور جذبات تک ایک کھلی کتاب ہیں۔ ایسے شخص کی امانت اور دیانت اب کچھ ڈھکی چھپی نہیں۔
اولاد، شاگرد، خلفائ:
مولانا احمد رضا خان کے دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں۔
صاحب زادگان:
1… بڑے بیٹے مولانا حامد رضا خان تھے جو ۱۳۶۲ھ/ ۱۹۴۲ء میں وفات پا گئے تھے۔
2… چھوٹے بیٹے مولانا مولانا محمد مصطفی رضا خان تھے۔ جو اپنے بھائی سے تقریباً دس سال چھوٹے تھے۔
صاحب زادیاں:
1… مصطفائی بیگم
2… کنیز حسن
3… کنیز حسین
4… کنیز حسنین
5… مرتضائی بیگم (۱)
دونوں بھائیوں میں لڑائی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے مصطفی رضا خان نے دار العلوم منظر اسلام کے مقابلہ میں اپنا الگ مدرسہ دار العلوم مظہر اسلام بریلی کے دوسرے محلے میں بنا لیا تھا۔
ـ
(۱) (حیات مولانا احمد رضا خان بریلوی ص۲۱۱، ۲۱۲)
مولانا حامد رضا کے بیٹے ابراہیم رضا تھے اور ان کے بیٹے مولانا اختر رضا خاں و ریحان رضا خاں تھے۔ بقایا تفصیل نقشہ میں گزر چکی ہے۔
دونوں بھائیوں نے اپنے والد کی طرح اہل حق کی مخالفت میں زندگی صرف کی۔ مولانا حامد رضا خاں صاحب نے الصارم الربانی، سد الفرار وغیرہ رسالہ شائع کیے۔ جب کہ محمد مصطفی رضا خان صاحب نے ملفوظات اور الطاری الداری، تنویر الحجہ، الحجۃ الباہرہ، القول العجیب، وقعات السنان اور طرق الہدیٰ وغیرہ کتابیں شائع کیں۔ یہ کتابیں پڑھ کر ان کے علم و عمل کا ہر آدمی اندازہ لگا سکتا ہے ہمیں یہاں پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
تلامذہ:
مولانا احمد رضا خاں صاحب کے حالات پر جو دو کتابیں مشہور ہیں حیات اور سوانح۔ ان میں آپ کے پڑھانے کا کوئی تذکرہ نہیں۔ آپ کیا پڑھاتے تھے کون کون سی کتابیں پڑھائیں۔ کتنا عرصہ پڑھا۔ کچھ پتہ نہیں۔ اس لیے شاگردوں کا کیسے پتہ چلے۔ جو خلفاء ہیں وہ ہی شاگرد ہیں اکثر سوانح نگار نے یہ کسب کیا ہے۔
مشہور بریلوی عالم پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد ایم۔ اے پی۔ ایچ ڈی لکھتے ہیں:
ہندوستان و پاکستان اور ممالک اسلامیہ خصوصاً حرمین شریفین میں مولانا بریلوی کے بکثرت خلفاء تھے جن کی تعداد ۱۰۰ سے متجاوز ہے۔
تلامذہ کی تعداد زیادہ نہیں کیوںکہ مولانا بریلوی نے ابتداء میں صرف چند سال درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد دوسری علمی مصروفیتوں کی وجہ سے یہ سلسلہ چھوٹ گیا۔ (۱)
ـ
(۱) (حیات مولانا احمد رضا ص۲۱۶)
ڈاکٹر صاحب نے کسی شاگرد کا نام نہیں لکھا۔ نہ چند سال کے شاگردوں کی تعداد بتائی نہ یہ بتایا کہ چند سال کون کون سی کتابیں پڑھp class=span style=span style=quot;;اتے رہے۔ مولانا نے باقاعدہ تدریس بالکل نہیں کی صرف اگر کوئی صاحب کوئی بات دریافت کرتا تو جواب دے دیتے۔
خلفاء کرام:
ڈاکٹر مسعود احمد صاحب نے پاکستان و ہندوستان کے تمام خلفاء کی تعداد ۲۳ لکھی ہے ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس وقت تک مولانا احمد رضا کے متعلق پوری دنیا سے مواد جمع کر کے اور کھینچ تان کر کے یہ تعداد جمع کی ہے۔
مولانا بریلوی کے خلفاء میں مشہور یہ ہیں:
1 مولانا محمد حامد رضا خان (بیٹا)
2 مولانا محمد مصطفی رضا خاں (بیٹا)
3 مولانا ظفر الدین بہاری۔ حیات اعلیٰ حضرت کے مصنف
4 مولانا سید محمد دیدار علی الوری۔ علامہ اقبال پر کفر کا فتویٰ لگانے والے (۱)
5 مولانا امجد علی اعظمی۔
یہ بہار شریعت کے مصنف اور کراچی کی میمن مسجد کے خطیب قاری رضاء المصطفیٰ کے
والد ہیں۔
6 مولانا نعیم الدین مراد آبادی۔ بریلوی مذہب کی سب سے پہلی تفسیر خزائن العرفان جو مولانا احمد رضا خاں کے ترجمہ کنز الایمان کے حاشیہ پر موجود ہے۔ اس کے مصنف ہیں۔ اس تفسیر میں بہت سی جگہ پر مصنف نے اپنے فرقہ کے مخصوص عقائد شامل کر دیئے ہیں۔
ـ
(۱) دیکھئے زنداں راود لاہور ج۳ ص…)
بعض جگہ کی نشان دہی ہمارے استاذ محترم امام اہل سنت شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرe نے اپنی کتاب ’’تنقید متین بر تفسیر نعیم الدین‘‘ میں کر دی ہے۔ اسے ضرور ملاحظہ فرمائیں۔ ان کی دوسری کتاب الکلمۃ العلیاء ہے۔
اس میں انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے علاوہ انبیاء کرام، اولیاء عظام کو عالم الغیب ثابت کیا ہے۔
ان کی تیسری کتاب ’’اطیب البیان‘‘ ہے۔ یہ شاہ اسماعیل شہید کی مسئلہ توحید پر لکھی جانے والی مشہور زمانہ کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے ردّ میں لکھی ہے۔
فرقہ بریلویہ کے ہاں شاہ اسماعیل شہیدe کے رد میںلکھی جانے والی تمام کتابوں میں اس کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ مولانا نعیم الدین صاحب نے مولانا فضل حق خیر آبادی مولانا فضل رسول بدایونی سے لے کر مولانا احمد رضا اور دیگر تمام مخالفین شاہ اسماعیل شہید کی کتابوں کو سامنے رکھ کر یہ کتاب مرتب کی ہے۔ اس لیے تقویۃالایمان کے رد میں اس کو حرفِ آخر کی حیثیت حاصل ہے۔ نعیم الدین مراد آبادی صاحب کے جواب میں مراد آباد کے ایک غیر مقلد مولانا عزیز الدین مراد آبادی نے ’’اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی اور نعیم الدین صاحب کے ہر ہر اعتراض کا جواب دیا۔ اس کے بعد آج تک کوئی بریلوی عالم اس کا جواب نہ دے سکا ہم قارئین کرام کو دعوت دیتے ہیں کہ دونوں کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ حقیقت حال اچھی طرح واضح ہو جائے۔
ان ہی کے شاگرد خاص مشہور بریلوی عالم مفتی احمد یار خان گجراتی جاء الحق کے مصنف گزرے ہیں۔
7 مولانا احمد مختار میرٹھی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا جان
8 مولانا عبد العلیم میرٹھی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے والد صاحب
9 مولانا محمد شریف کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ۔ یہ ابو النور بشیر کے والد ہیں کافی عرصہ امرتسر سے الفقیہ رسالہ نکالتے رہے۔
0 مولانا سید ابو البرکات سید احمد قادری۔ یہ سید دیدار علی الوری کے بیٹے اور سید محمود احمد رضوی مدیر رسالہ رضوان کے والد ہیں اور مرکزی دار العلوم حزب الاحناف لاہور ان ہی کا مدرسہ ہے۔ ہم نے یہاںپر دس (۱۰) خلفاء کا ذکر کر دیا ہے۔
تصانیف:
مولانا احمد رضا کی تصانیف کے متعلق ان کے عقیدت مندوں نے بہت زیادہ مبالغہ آرائی اور غلط بیانی کی ہے۔ کوئی کچھ کہتے ہیں اور کوئی کچھ۔ ان کے مختلف اقوال کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
پہلا قول: اعلیٰ حضرت کی تصنیفات ۲۰۰ کے قریب تھیں۔ (۱)
دوسرا قول: ۳۵۰ کے قریب تھیں۔ (۲)
تیسرا قول: ۴۰۰ کے قریب تھیں۔ (۳)
چوتھا قول: ۵۴۸ تھیں۔ (۴)
پانچواں قول: ۶۰۰ سے بھی زائد تھیں۔ (۵)
چھٹا قول: ایک اندازہ کے مطابق فاضل بریلوی نے ایک ہزار کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں۔ (۶)
ـ
(۱) (مقدمۃ الدولۃ المکیہ)
(۲) (المبمل المعدد لتالیفات المجدد)
(۳) تالیفات مجدد از ظفر الدین بہاری)
(۴) (تالیفات مجدد)
(۵) (حیات اعلیٰ حضرت)
(۶) (انوار رضا ص۳۳۱)
ہماری معلومات کے مطابق مولانا احمد رضا نے مستقل کوئی کتاب نہیں لکھی۔ لوگ ان سے سوالات کرتے تھے اور وہ اپنے متعدد معاونین کی مدد سے جوابات تیار کرتے اور پھر جوابات کو مختلف کتب اور رسالوں کے نام سے شائع کر دیتے۔ اگر جواب بڑا ہوتا تو مستقل رسالہ بنا دیتے اگر جوابات مختصر ہوتے تو بہت سے سوالات کے جوابات اکھٹے جمع کر دیتے۔ پھر انہی کتب اور رسائل کو جمع فرما کر فتاویٰ رضویہ کی شکل میں بھی شائع کر دیتے۔ ہمارے پاس مولانا احمد رضا کی جتنی کتب و رسائل ہیں وہ سب سوال جواب کی ہی شکل میں ہیں۔ جس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے۔
مولانا احمد رضا خاں کی اس حقیقت پسندی کی ہم داد دیتے ہیں کہ آپ نے تفسیر یا حدیث کی کسی خدمت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس کی کوئی شہادت موجود تھی تاہم ان کے پیرئووں نے بمصداق پیراں نمے پرند و مریداں مے پرانند۔ آپ کو تفسیر و حدیث کی خدمت میں بھی اٹھانے کی بہت کوشش کی ہے۔ (۱)
تفسیر میں بیضاوی شریف، معالم تنزیل اور درمنثور کے حاشیے لکھنے کا دعویٰ کیا ہے پڑھنے والے کا ذہن فوراً اس طرف جاتا ہے کہ جس طرح الصاوی علی الجلالین القنوی علی البیضاوی خفاجی علی البیضاوی، عبد الحکیم علی البیضاوی اور انتصاف علی الکشاف وغیرھا تفسیری حواشی ہیں۔ مولانا احمد رضا خاں نے بھی کچھ ایسے یہ حاشیے لکھے ہوں گے اپنے حلقوں کو خوش کرنے کا یہ ایک حیلہ بنا رکھا ہے ورنہ کہاں مولانا احمد رضا خاں کا علمی مقام اور کہاں ان کتابوں کی علمی خدمت؟ آخر دونوں میں کچھ تو مناسبت چاہیے۔ جب پوچھا جائے کہ یہ علمی حاشیے کہاں ہیں؟ تو کہہ دیتے ہیں کہ ابھی چھپے نہیں جب پوچھا جائے کہ کب چھپیں گے اب تو مولانا کو وفات پائے
ـ
(۱) (دیکھئے المیزان احمد رضا نمبر ص۳۰۶)
بھی ساٹھ سال سے زیادہ ہونے کو ہیں؟ تو کہتے ہیں پتہ نہیں، اگر کچھ ہو تو پتہ ہو۔
بات صرف یہ ہے کہ جس طرح علماء حضرات اپنی زیر مطالعہ کتابوں پر کہیں کہیں اپنی یاد داشتیں اور نوٹ لکھ لیتے ہیں یا اضافی حوالے لگا دیتے ہیں تاکہ ضرورت کے وقت آسانی سے وہ مقام نکال سکیں۔ مولانا احمد رضا خاں نے اپنی ان کتابوں پر کہیں اپنے حوالے لگائے ہوں گے اور کہیں کہیں یادداشت کے نوٹ لکھے ہوں گے ان پڑھ مریدوں نے انہیں علم تفسیر کی خدمت اور بیضاوی و معالم کے علمی حاشیے سمجھ لیا حالانکہ حقیقت کچھ بھی نہیں۔ مولانا کو علمی دنیا میں لانے کی ایک جذباتی حرکت ہے۔
ان لوگوں نے مولانا احمد رضا خاں کے پندرہ پندرہ بیس بیس صفحوں کے رسالوں کو جن میں کسی ایک مسئلے کی بحث تھی علم تفسیر کی خصوصی خدمت سمجھ لیا اور یہ کہہ کر مولانا نے تفسیر پر بڑی کتابیں لکھی ہیں اپنے آپ کو مطمئن کر لیا۔
۲۔ حدیث میں ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ مولانا احمد رضا خاں کے پاس حدیث اورعلم رجال کی ۳۸ کتابیں موجود تھیں ان میں مسند احمد، فتح الباری، عینی علی البخاری، مرقات اور تہذیب التہذیب جیسی ضخیم کتابیں بھی تھیں۔ مولانا نے ان کتابوں پر کہیں اپنے حوالے لگائے ہوں گے اور یادداشتیں لکھی ہوں گی۔ ان کی پیروئوں نے انہیں بھی علم حدیث کی مستقل خدمت سمجھ لیا اور دعویٰ کیا کہ مولانا نے ان ۳۸ کتابوں پر علمی حاشیے لکھے تھے ان ۳۸ حاشیوں کی ایک لمبی فہرست آپ کو المیزان کے احمد رضا نمبر میں ملے گی۔ (دیکھئے ص۳۰۷) جب حقیقت حال کا جائزہ لیں گے تو بات کچھ نہ نکلے گی اپنے آپ کو خوش کرنے کے لیے ایک فہرست ضرور سامنے آ جائے گی۔ جس شخص نے حدیث باقاعدہ نہ کہیں پڑھی ہو نہ پڑھائی ہو اس کا حدیث کی کتابوں کے شرح و حواشی لکھنا کبھی کوئی لکھا پڑھا آدمی تسلیم نہ کر سکے گا اپنے جاہل مریدوں میں بات چل جائے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
۳۔ اس طرح عقائد و کلام کے عنوان سے بھی ایک لمبی فہرست دی گئی ہے اور عقائد کی جتنی کتابوں کے نام ان کے علماء کو یاد تھے یا انہوں نے سن رکھے تھے۔ ان سے پہلے لفظ حاشیہ اضافہ کر کے انہوں نے انہیں مولانا احمد رضا خاں کی تالیفات میں لکھ دیا ہے۔ جسے حاشیہ شرح فقہ اکبر، حاشیہ خیالی، حاشیہ شرح عقائد عضدیہ، حاشیہ شرح مواقف، حاشیہ شرح مقاصد، شرح مسامرہ و مسائرہ حاشیہ بین التفرقہ بین الکلام والزندقہ وغیرہ۔ (ایضاً ص۳۰۹)
حالانکہ یہ علمی حاشیے نہ کہیں عالم وجود میں آئے نہ کسی مطبوعہ یا غیر مطبوعہ شکل میں دنیا کے کسی حصے میں موجود ہیں مولانا احمد رضا خاں نے کسی کتاب کے حاشیہ پر کہیں یہ نوٹ بھی دیا کہ کتاب کس سن میں خریدی گئی یا کہاں سے لی گئی تو اسے بھی ان لوگوں نے حاشیہ کتاب کے نام سے حضرت کی تالیفات میں لکھ دیا اور دنیا کو بتایا کہ حضرت نے یہ علمی کام بھی کیا ہے اور ان کی عقائد و کلام پر گہری نظری تھی۔
متوازی عقائد کا انہیں کہاں تک علم تھا اس باب میں شیعہ فرقہ کو ہی لیجیے آپ نے شیعوں کے رد میں ایک رسالہ رد الرفضہ بھی تالیف فرمایا لیکن آپ شیعہ حضرات کی اصل کتابوں سے کہاں تک آشنا تھے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل روایت پر غور کیجیے۔
حافظ امیر اﷲ صاحب بریلوی کی کسی شیعہ عالم سے تکرار ہو گئی تو انہوں نے شیعہ اعتراضات کے جوابات کے لیے مولانا احمد رضا خاں کی طرف رجوع کیا آپ نے کیا کہا اس کے لیے اس روایت کو دیکھیے اور خاں صاحب کی علمی قابلیت کی داد دیجیے۔
حافظ سردار احمد بریلوی لکھتے کہ مولوی احمد رضا خاں صاحب کی طرف سے ان کو جواب ملا کہ ہاں جواب تو ممکن ہے مگر ایک ہزار روپیہ ہونا چاہیے حافظ صاحب نے فرمایا آخر جواب کے لیے اتنی کثیر رقم کی کیا ضرورت ہے؟ تو معلوم ہوا کہ ان کی مذہبی کتابیں خرید کر مطالعہ کی جائیں گی اس وقت جواب لکھا جائے گا بغیر اس کے جواب ممکن نہیں ہے۔
۴۔ پھر اسی طرح فقہ اور اصول فقہ کی خدمات میں جتنی کتابوں کے نام ان حضرات کو یاد تھے یا سنے تھے انہوں نے ان سے پہلے لفظ حاشیہ اضافہ کر کے انہیں مولانا احمد رضا خاں کی تالیفات میں شمار کر دیا جیسے حاشیہ فواتح الرحموت، حاشیہ حموی شرح الاشباہ، حاشیہ الاسعاف، حاشیہ اتحاف، حاشیہ کشف الغمہ، حاشیہ کتاب الخراج، حاشیہ معین الحکام، حاشیہ ہدایہ، حاشیہ فتح القدیر، حاشیہ بدائع الصنائع، حاشیہ جوہرہ، حاشیہ مراقی الفلاح، حاشیہ مجمع الانہر، حاشیہ جامع الفصولین، حاشیہ جامع الرموز، حاشیہ بحر الرائق، حاشیہ تبین الحقائق، حاشیہ غنیۃ المستملی، حاشیہ رسائل شامی، حاشیہ فتح المعین، حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار، حاشیہ فتاویٰ عالم گیری، حاشیہ فتاویٰ خانیہ، حاشیہ فتاویٰ سراجیہ، حاشیہ خلاصتہ الفتاویٰ، حاشیہ بزازیہ، حاشیہ فتاویٰ عزیزیہ وغیرہ۔
یہ ایک الف لیلہ کی داستان ہے جو مولانا احمد رضا خاں کی علمی خدمات کے نام سے مریدوں کو سنائی جا رہی ہے یہ علمی حاشیے دنیا کے کسی کونے میں مطبوعہ یا غیر مطبوعہ شکل میں موجود نہیں جتنی کتابوں کے ان FAspan style=لوگوں نے کہیں سے نام سنے ہوتے ہیں لفظ شرح بڑھا کر جھٹ سے اسے الف لیلیٰ کی داستان میں شامل کر دیتے ہیں۔ احساس کمتری کی انتہا ہے۔
۵۔ فتاویٰ رضویہ کی ۱۲ ضخیم جلدیں۔ ان کی تفصیل آگے مستقل عنوان کے تحت آ رہی ہے۔
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
ہمارے علم کے مطابق مولانا احمد رضا نے ایک تو قرآن پاک کا ترجمہ املاء کرایا، دوسرے آپ کے فتاویٰ کے مجموعے جو مختلف ناموں کے ساتھ مطبوعہ ہوئے ہیں۔ مثلاً احکامِ شریعت، عرفانِ شریعت، فتاویٰ افریقہ وغیرہ وغیرہ اور بڑا مجموعہ جو فتاویٰ رضویہ کے نام سے مشہور ہے۔ تیسرا آپ کے ملفوظات ہیں۔ یہ بھی اصل میں فتاویٰ جات ہی کی طرز پر quot;;MsoNormalspan style=ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا کی کوئی تصنیف نہیں ہے۔ جو بھی رسالہ یا کتاب آپ کی طرف منسوب ہے وہ حقیقت میں آپ کا فتویٰ ہے یا مختلف فتوئوں کا مجموعہ ہے۔
احمد رضا کا فقہی مقام
اس بحث میںہم اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے اپنے محترم بزرگ شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاںe کے رسالہ ’’فاضل بریلوی کے فقہی مقام کی حقیقت‘‘ کا انتخاب پیش کرتے ہیں جو اس بحث میں کافی شافی ہے۔ ہمیں مزید اپنی طرف سے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ (از مرتب)
پہلا مسئلہ، اقسام احکام شرعیہ کے متعلق فاضل بریلوی کی غلط بیانی:
فقہی مقام میں ’’رنگ اجتہاد‘‘ کے زیر عنوان لکھا ہے کہ عام طور پر کتب اصول میں احکام شرعیہ کی سات قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔ فرض، واجب، مستحب، مباح، حرام، مکروہ تحریمی، مکروہ تنزیہی۔ لیکن اعلیٰ حضرت عظیم البرکت نے احکام کی گیارہ قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ پھر ان قسموں کا بیان ہے کہ فرض، واجب، سنت مؤکدہ، سنت غیر مؤکدہ، مستحب، مباح، حرام، مکروہ تحریمی، اساء ت، مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ۔ یہ گیارہ چیزیں گنائی گئی ہیں اور ان کی تعریفات ذکر کی گئی ہیں۔ اور لکھا ہے کہ
’’یہ وہ تقسیم ہے جس کے بارے میں خود اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں۔ کہ تقریر منیر کو حفظ کر لیجیے کہ ان سطور کے غیر میں نہ ملے گی اور ہزارہا مسائل میں کام دے گی اور صدہا عقدوں کو حل کرے گی۔ کلمات اس کے موافق، مخالف سب طرح کے ملیں گے۔ مگر بحمد اﷲ تعالیٰ حق اس سے متجاوز نہیں۔ فقیر طمع رکھتا ہے کہ اگر حضور سیدنا امام اعظمl کے حضور یہ تقریر عرض کی جاتی، ضرور ارشاد فرماتے کہ یہ عطر مذہب و طراز مذہب ہے۔ انتہا کلامہ الشریف (۱)
ـ
(۱) (ماخوذ از فتاویٰ رضویہ جلد اول ص۱۷۳ تا ۱۷۵) (اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام ص۱۱۔۱۲)
ہم نے یہ ساری تعریفیں پڑھیں۔ بظاہر آپ کے لکھنے کا مقصد یہ لگتا ہے کہ یہ علمی بحثیں کسی اور نے نہیں لکھیں یہ فقط اعلیٰ حضرت کا کمال ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
دیکھیے ’’شامی‘‘ میں مستقل عنوان کے تحت اساء ت اور کراہت کی بحث دی گئی ہے۔
’’مطلب فی قولہم الاساء ۃ دون الکراہۃ‘‘ (۱)
علامہ شامی نے اس بحث میں سنت موکدہ، سنن ہدیٰ اور سنن زوائد یعنی سنت غیر موکدہ اور مستحب کا ذکر بھی کیا ہے۔ اور کراہت تحریمی، اساء ت اور کراہت تنزیہی کا بھی اور اساء ت کی تشریح میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ وہ عمل ہے کہ جس کے کرنے والے کو گمراہ کہا جائے گا۔ اور ملامت کی جائے گی۔ غرض اس تفصیلی بحث میں یہ تمام اقسام احکام اور اقوال ائمہ درج ہیں۔ اب رہی اولیٰ کی بات تو یہ بھی شامی میں ایک مستقل عنوان کے تحت ذکر کی گئی ہے۔
’’مطلب اذا تردد الحکم بین سنتہ وبدعۃ کان ترک السنۃ اولٰی‘‘
جب کسی حکم کے سنت و بدعت ہونے میں تردد ہو تو سنت کو ترک کر دینااولیٰ ہے۔ (۲)
شامی ہی میں اس سے اگلے صفحہ پر ایک مسئلہ کے ذیل میں تحریر ہے:
’’او اراد بالمباح ما لیس بمحظور شرعا وخلاف الاولٰی غیر محظور‘‘ (۳)
’’یا مباح سے مراد ہے کہ جو شرعاً منع نہ ہو اور خلاف اولیٰ ممنوع نہیں ہوتا۔‘‘
غرض یہ گیارہ کی گیارہ قسمیں کتب فتاویٰ میں لکھی ہوئی چلی آ رہی ہیں بلکہ صرف
ـ
(۱) (شامی ۴۷۴ جلد اول)
(۲) (شامی جلد اول ص۶۴۲)
(۳) (شامی ص۶۴۳)
شامی ہی میں موجود ہیں۔ فاضل بریلوی کو آپ اتنی سی بات پر مجتہد کا درجہ دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ان اقسام کو نقل کر دیا ہے اور اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ فاضل بریلوی بھی خود اس پر ناز فرما رہے ہیں۔
اقسام احکام شرعیہ کی تعریفات میں کمی:
اب آپ اپنی لکھی ہوئی تعریفات کی کمی پر بھی غور فرمائیں۔ سنت موکدہ کی تعریف میں جو الفاظ آ رہے ہیں وہی سنت غیر موکدہ کی تعریف میں بھی آ رہے ہیں۔
آپ حضرات نے لکھا ہے:
سنت موکدہ:
اس کا عادتاً ترک کرنا موجب استحقاق عذاب ہو اور نادراً ترک کرنا موجب استحقاق عتاب خواہ یہ ترک عادتاً ہو یا نادراً۔
سنت غیر موکدہ:
جس کا کا ترک کرنا موجب استحقاق ہو خواہ یہ ترک عادتاً ہو یا نادراً۔
اول تو سنت موکدہ کی تعریف کی عبارت ہی اصلاح طلب ہے کہ وہاں بھی یہی الفاظ آ رہے ہیں۔ خواہ یہ ترک عادتاً ہو یا نادراً۔ دوسرے یہ کہ جب سنت غیر موکدہ کا نادراً اور عادتاً دونوں طرح ترک کرنا موجب استحقاق عتاب ہوا اور سنت موکدہ کا بھی یہی حکم بیان ہوا ہے۔ تو دونوں میں فرق کیا رہا؟ سنت غیر موکدہ کا عادتاً تارک بن جانا خود بخود موجب استحقاق عذاب بن جائے گا۔ اور دونوں کی تعریف ایک ہو جائے گی۔
فاضل بریلوی کے فتاویٰ کی حقیقت:
آپ نے پرزور الفاظ میں تحریر فرمایا ہے:
’’یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی شخصیت اجتہادی شان کی حامل تھی اور جس شخص نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی فقہی تحقیقات کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہے اس کے لیے یہ کوئی نظری مسئلہ نہیں ہے ہم آپ کے سامنے ایسی دو مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جن سے اعلیٰ حضرتeکی فقیہانہ عظمت کا اندازہ ہو سکے گا اور آفتاب سے زیادہ روشن طریقہ پر ثابت ہو جائے گا کہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت اگرچہ مجتہد فی الشرع یا مجتہد مطلق تو نہیں ہیں لیکن آپ کی تحریروں میں اجتہاد کا رنگ جھلکتا ہے۔ اور آپ کی تقریروں سے استنباط کی مہک آتی ہے۔‘‘ (۱)
اس دعوت پر ہم نے بھی فاضل بریلوی کے فتاویٰ کا مجموعہ خریدا۔ آپ کے اس رسالہ کا بغور مطالعہ کیا۔ فتاویٰ کی دیگر جلدوں کا بھی کہیں کہیں سے مطالعہ کیا۔ مگر جب گہری نظر ڈالتے ہیں تو کمزوریاں صاف نظر آتی ہیں اور قواعد فقیہیہ کے بے محل استعمال کا عجیب تماشہ نظر آتا ہے۔
دوسرا مایہ ناز فقہی مسئلہ، فاضل بریلوی سید طحطاویe کی بات نہیں سمجھ سکے:
اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام لکھنے والے صاحب نے ان کا اور طحطاوی کا تقابل بھی کیا ہے اور یہ مسئلہ لیا ہے کہ طحطاویe نے یہ فرمایا ہے کہ زکام کی حالت میں ناک سے پانی آئے اس سے بھی وضو جاتا رہتا ہے۔ حالانکہ یہ ان مثالوں کے ساتھ انہوں نے تحریر فرمایا ہے۔ جہاں وہ ایسی بیماریوں کا ذکر کر رہے ہیں کہ جن میں پانی کے ساتھ خون مل جاتا ہے۔ چاہے
ـ
(۱) (فقہی مقام ص۱۰۔۱۱)
آنکھ میں کسی بیماری کی وجہ سے ایسا ہو یا کہیں اور۔ پھر اس مسئلہ کے متصل وہ یہ لکھتے ہیں:
’’وکذا کل ما یخرج بوجع ولو من اذن ومشدی وسرۃ ظاہرہ یعم الانف اذا زکم‘‘ (۱)
’’یہی حکم ہر اس پانی کا ہو گا جو تکلیف کی وجہ سے نکل رہا ہو۔ چاہے کان سے نکلے یا پستان سے یا ناف سے یعنی بظاہر اس حکم میں ناک بھی داخل ہے جب اسے زکام ہو۔‘‘
سید طحطاویe کی مراد وہ صورت ہے کہ جب فلو کی قسم کا شدید زکام ہو جس میں ناک میں خراش بلکہ زخم ہو جاتے ہیں (ایسا زکام ہمارے علاقہ میں کم ہوتا ہے) اگر کسی کو اس قسم کا زکام ہو کہ ناک سے بے اختیار خراش کا پانی بہتا ہو تو اس کا ناک کی ریزش کا اور حکم ہو گا۔ طحطاوی نے اسی صورت کا حکم بیان فرمایا ہے۔
بعض دفعہ مریض کے بے حد چھینکیں آتی ہیں اور ناک میں زخم ہو جاتے ہیں اور مسلسل ریزش بہتی رہتی ہے اسے نماز پڑھنی بھی مشکل ہوتی ہے ایسی حالت میں اعلیٰ حضرت کے مداح پیروکار کیا مسئلہ بتلائیں گے؟ ظاہر ہے وہ بھی کہیں گے کہ یہ شخص اس وقت ایسا ہے کہ اسے ناک کی ریزش کے لیے الگ کپڑا رکھنا چاہیے۔ فاضل بریلوی اگر اس مسئلہ پر غور فرماتے تو سمجھ سکتے تھے کہ فاضل بریلوی اور سید طحطاوی کے تقابل کی بات ہی بے کار ہے۔ زکام کی جو صورت ہم نے لکھی ہے وہ خود فاضل بریلوی کی اس عبارت کے تحت آ جاتی ہے اور درست قرار پاتی ہے:
’’بالجملہ مجر ّد رطوبت کی مرض سے، سائل ہو مطلقاً فی نفسہا ہر گز ناقص نہیں بلکہ احتمال خون و ریم کے سبب ولہذا امام ابن الہمام کی رائے اس طرف گئی ہے کہ مسائل مذکورہ میں امام محمد کا حکم وضو
ـ
(۱) (شامی ج۱ ص۳۰۵)
استحبابی ہے۔‘‘ (۱)
(فائدہ: بعض لوگوں کے منہ سے سوتے وقت رال بہتی ہے۔ شامی نے ساتھ ہی تصریح کر دی ہے کہ وہ اگر یہ بدبودار بھی ہو تو ناپاک نہیں۔ (۲)
تیسرا مایہ ناز علمی مسئلہ، فاضل بریلوی کی علم حدیث میں کمزوری:
اسی مقالہ میں ایک عنوان ہے ’’علامہ شامی اور اعلیٰ حضرت‘‘ اس کے تحت اس حدیث کے ثبوت اور عدم ثبوت پر بحث کی گئی ہے۔ جناب رسول اﷲ a نے خود بھی اذان دی ہے یا نہیں… حافظ ابن حجر عسقلانیe کی رائے ہے کہ آنحضرت a نے خود اذان نہیں دی۔
علامہ شامیe نے ایک جگہ مستقل عنوان دے کر ’’مطلب ہل باشر النبی a الاذان بنفسہٖ‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانیeکی رائے نقل کی کہ جناب رسالت مآب a نے خود اذان نہیں دی۔ (۳)
دوسری بات شامی نے التحیات کے باب میں اس (مسئلہ) کی تشریح کرتے ہوئے لکھی ہے کہ معراج میں باری تعالیٰ سے ہم کلامی کے وقت جو کلمات ادا ہوئے ان کی نقل التحیات ہے اور اسے تشہد اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں دو شہادتوں کا ذکر ہے۔ توحید کی شہادت اور رسالت کی شہادت۔
چونکہ اس جگہ ’’درمختار‘‘ میں لکھا ہے کہ نبی کریمb فرمایا کرتے تھے:
ـ
(۱) (فتاویٰ رضویہ ج۱ ص۳۷ آخری سطور)
(۲) (شامی ص۳۰۵)
(۳) (شامی ج۱ ص۴۰۱)
(اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ وَاَنِّیْ رَسُوْل اﷲ) ’’کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں خدا کا رسول ہوں‘‘
اس لیے شامیe نے حافظ ابن حجر عسقلانیe کے حوالہ سے اس کا رد کیا ہے بانہ لا اصل لذالک کہ اس بات کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ جناب رسالت مآب a بھی التحیات میں یہی کلمات ادا فرماتے تھے جو آج تک ہم نماز میں پڑھتے ہیں:
’’الفاظ التشہد متواترۃ عنہ صلی اﷲ علیہ وسلم انہ کان یقول اشہد ان محمدا رسول اﷲ وعبدہ ورسولہ‘‘
’’تشہد (التحیات) میں شہادت کے کلمات جناب رسالت مآب a سے تواتر سے منقول ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے اشہد ان محمدا رسول اﷲ وعبدہ و رسولہ۔
پھر علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں کہ تحفہ میں ہے کہ اگر (صاحب در مختار یا ان سے پہلے) کسی شخص نے یہ بات کہی ہے تو التحیات کے بارے میں تو غلط ہے البتہ اذان کے بارے میں ہو سکتی ہے۔
’’نعم ان اراد تشہد الاذان صح لانہ صلی اﷲ علیہ وسلم اذن مرۃ فی سفر فقال ذالک قلت و کذالک فی البخاری من حدیث سلمۃ بن الاکوعl قال خفت ازواد القوم الحدیث … فقال صلی اﷲ علیہ وسلم اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ واشہد انی رسول اﷲ‘‘ وہٰذا کان خارج الصلٰوۃ لما ظہرت المعجزۃ علٰی یدیہ من البرکۃ فی الزاد۔ (۱)
ـ
(۱) (شامی ج۱ ص۵۱۰)
’’ہاں اگر اس کی مراد اذان میں کلمہ شہادت ہے تو یہ بات ٹھیک ہے کیوںکہ رسول اﷲ a نے ایک بار سفر میں اذان دی تو یہ فرمایا اور میں کہتا ہوں کہ اسی طرح بخاری میں حضرت سلمہ بن الاکوعl کی روایت میں آیا ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ لوگوں کے پاس کھانے کا سامان بہت ہی کم رہ گیا۔ (آپ a نے جو کچھ لوگوں کے پاس تھا جمع فرما لیا پھر دعا فرمائی۔ پھر فرمایا اس میں سے اپنے اپنے لیے لے لو۔ اتنی برکت ہوئی کہ ہر ایک نے اپنا توشہ دان بھر لیا۔) اسی حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت a نے فرمایا اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ واشہد انی رسول اﷲ ۔ اور یہ (نماز میں نہ تھا) نماز کے باہر فرمایا جس وقت آپ کے دست مبارک سے اس معجزہ کا ظہور ہوا کہ کھانے میں برکت ہو گئی۔‘‘
یہ سارا قصہ اور ساری عبارتیں تو اس لیے لکھی ہیں کہ آپ کے سامنے پوری بحث اور مسائل آ جائیں۔ اب دیکھیے کہ فاضل بریلوی نے حافظ ابن حجر کی وہ عبارت اور فیصلہ جو شامی نے ص۴۰۱ پر لکھا ہے نقل کیا ہے پھر شامی کی عبارت بحوالہ تحفہ جو ص ۵۱۰ پر ہے نقل کی پھر لکھا:
’’وقد اشار ابن حجر الی صحتہ‘‘ (۱)
’’اور ابن حجر (مکی) نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘
یہ بھی سمجھ لیجیے کہ ابن حجر مکی اور ابن حجر عسقلانی دونوں الگ الگ آدمی ہیں۔ ابن حجر عسقلانی علم حدیث میں بہت بلند پایہ شمار ہوتے ہین تو اول تو ان پر ابن حجر مکی کی رائے نہیں چل سکتی۔
پھر ابن حجر مکی نے بھی جو بات فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اشہد انی رسول اﷲ فرمانا التحیات میں ہوا ہے تو غلط ہے اور اگر اس کی مراد اذان ہے تو صحیح ہے یعنی وہ
ـ
(۱) (فتاویٰ رضویہ ج۲ ص۳۸۸)
اس کہنے والے کی بات کے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں فرما رہے ہیں نہ کہ اس روایت کے بارے میں یہ روایت صحیح ہے اگر وہ اس روایت کی صحت کے بارے میں فرماتے، تو عبارت یہ ہوتی:
’’فقد صح انہ صلی اﷲ علیہ وسلم اذا مرۃ فی سفر فقال ذالک‘‘
’’یہ درست ہے کہ رسول اﷲ a نے سفر میں ایک بار اذان دی تو یہ فرمایا‘‘
فاضل بریلوی نے اس فرق کا لحاظ رکھا ہے اس لیے ہوشیاری سے انہوں نے فقط اشارہ کا لفظ استعمال کیا۔
’’کہ ابن حجر مکی نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘
پھر اس اشارہ پر بنیاد رکھ کر فاضل بریلوی نے حسب ذیل نتیجہ نکال ڈالا ہے۔
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
’’کیوںکہ تحفہ ابن حجر میں مذکورہ عبارت آ گئی ہے لہٰذا آنجناب کا خود اذان دینا ثابت ہو گیا۔ اور اس اذان میں اشہد انی رسول اﷲ آپ نے فرمایا ہے اور اشہد انی رسول اﷲ فرمانا نص مفسر ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اور امام نووی نے اس روایت کو جو تقویت دینی چاہی ہے اسے اس سے تقویت پہنچتی ہے۔‘‘
ارے بھائی نص کا مفسر ہونا اور مجمل ہونا وغیرہ سب کا مدار اس پر ہے کہ اس کا نص ہونا یعنی حدیث ہونا تو ثابت ہو اسے ثابت کرنے کے لیے خود (لفظ اشار) اشارہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پھر لحظہ بھر بعد اسے نص مفسر قرار دے رہے ہیں۔
آپ حضرات نے یہ مثال اعلیٰ حضرت کی فقاہت ثابت کرنے کے لیے دی ہے۔ لیکن اس سے ان کی جلد بازی اور علم حدیث میں کمزوری کے سوا کوئی چیز ظاہر نہیں ہو رہی۔
آپ حضرات کے لکھنے کا مطلب تو یہ تھا کہ علامہ شامی نے ایک جگہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی رائے لکھ دی اور دوسری جگہ انہوں نے صاحب تحفہ کی رائے لکھ دی پھر بھول گئے اور فاضل بریلوی نے اسے پکڑ لیا اور علامہ شامی کو ان کے لکھے ہوئے کے تحت قائل کر لیا۔ یعنی فاضل بریلوی کی دقتِ نظر، وسعت علم و حافظہ دکھانا چاہتے تھے۔ لیکن سب کچھ آپ کے سامنے ہے کہ کیا ثابت ہو رہا ہے اور ان کی دلیل کی بنیاد فقط اشارہ پر ہے۔ جو نہایت کمزور ہے اس لیے کہا جائے گا کہ علامہ شامی کا رجحان اپنی جگہ قائم رہا اور سب کچھ دیکھ کر جو ان کی رائے تھی وہ انہوں نے ایک مستقل باب میں ذکر کر دی تھی۔ ’’مطلب ہل باشر النبیﷺ الاذان بنفسہٖ‘‘ اور وہاں حافظ ابن حجر عسقلانی جیسے بلند پایہ محدث کی بات لکھ دی تھی۔
یہ نہ سمجھئے کہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ آنحضرت aنے اذان نہیں دی یا اس کے قائل ہیں کہ آپ نے اذان دی۔ ہم تو صرف فاضل بریلوی کے انداز تفقہ کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔
مایہ ناز تحقیق کا حال چوتھا مسئلہ تقبیل ابہامین:
’’فقہی مقام‘‘ رسالہ میں تقبیل ابہامین کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویe نے اپنے فتویٰ میں تحریر فرمایا ہے۔
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
اول تو اذان ہی میں انگوٹھے چومنا کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں اور جو کچھ بعضے لوگوں نے اس بارہ میں روایت کیا ہے وہ محققین کے نزدیک ثابت نہیں الخ‘‘ (۱)
حضرت تھانوی کے فتویٰ پر فاضل بریلوی نے جو اعتراضات کیے۔ ان میں سے منتخب کر کے فقہی مقام میں لکھے گئے ہیں۔ اس مسئلہ میں ہم ان ہی کے پیش کردہ چیدہ نکات آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔
ـ
(۱) (امداد الفتاویٰ ج۵ ص۲۵۹)
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
اس باب میں کوئی صحیح مرفوع حدیث وارد نہیں۔
تقبیل ابہامین سیدنا ابو بکر صدیقl سے ثابت ہے۔
فاضل بریلوی کو اس کے ثبوت کے لیے حضرت ابو بکرl کی حدیث مع سند مفصل نقل کرنی چاہیے تھی۔ اگر وہ صحیح ثابت کر دیتے تو حضرت تھانویe ضرور رجوع فرما لیتے اور شامی سے بھی اختلاف نہ فرماتے۔ مسئلہ واضح ہو جانے پر فوراً رجوع کر لینا ان کی خاص عادت تھی۔ مگر اس کے برعکس فاضل بریلوی یہ بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ حدیث صحیح موجود نہیں ہے۔ کیوںکہ وہ لکھتے ہیں: صحیح حدیث کی نفی سے معتبر حدیث کی نفی سمجھ لینا (غلط ہے) اور فضائل اعمال میں احادیث معتبرہ بالاجماع کافی ہیں اگرچہ صحیح بلکہ حسن بھی نہ ہوں۔ ان کی مکمل عبارت ایک دو سطر بعد آ رہی ہے۔
فاضل بریلوی کی اصطلاحات حدیث سے بے خبری:
فاضل بریلوی نے اس مقام پر حضرت تھانویe کے علم حدیث سے واقفیت پر طعن کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’صحیح حدیث کی نفی سے معتبر حدیث کی نفی سمجھ لینا جیسا کہ تھانوی صاحب نے اس فتویٰ میں کہا ہے کہ تقبیل فی الاذان کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔ فن حدیث سے جہالت پر مبنی ہے۔ کتب رجال میں جا بجا مذکور ہے۔ یعتبر بہ ولا یحتج بہ اور فضائل اعمال میں احادیث معتبرہ بالاجماع کافی ہیں۔ اگرچہ صحیح بلکہ حسن بھی نہ ہوں۔‘‘ (۱)
ـ
(۱) (اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام ص۳۴ سطر ۵تا۹)
یہ عبارت فاضل بریلوی اور مقالہ نگاروں دونوں ہی کی اصطلاحات حدیث سے بے خبری اور ناواقفیت کی دلیل ہے۔ انہوں نے بڑی فاش غلطی کی ہے کہ یعتبر بہ کا ترجمہ یہ سمجھا ہے کہ اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ یعنی یعتبر بہ کو اردو میں معتبر اور غیر معتبر کے ہم معنی سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ علم حدیث کی ایک خاص اصطلاح ہے اور یعتبر بہ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث اصول حدیث میں ذکر کردہ ’’اعتبار‘‘ کے کام میں لائی جا سکتی ہے اور اسے بطور حجت و دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ کہنا مقصود ہوتا کہ معتبر ہے تو عربی میں ’’بہ‘‘ کے لانے کی ضرورت نہ تھی۔ مگر اعلیٰ حضرت زور کلام میں بے سمجھے فرماتے چلے جا رہے ہیں۔ احادیث معتبرہ بالاجماع کافی ہیں۔
فاضل بریلوی کی اصول حدیث سے ناواقفیت کی تشریح:
آپ اصول حدیث کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں
امام نوویe نے تقریب میں اور اس کی شرح تدریب الراوی میں حافظ جلال الدین سیوطیe نے اس اصطلاح کو سمجھانے کے لیے مستقل عنوان قائم کیا ہے:
’’النوع الخامس عشر معرفتہ الاعتبار والمتابعات والشواہد ہٰذہ امور یتداولہا اہل الحدیث (یتعرفون بھا حال الحدیث) ینظرون ہل تفرد بہ راویہ ام لا۔ وہل ہو معروف اولا فالاعتبار ان یاتی الی حدیث لبعض الرواۃ فیعتبرہ بروایات غیرہ من الرواۃ بسبر طرق الحدیث لیعرف ھل شارکہ فی ذالک الحدیث راو غیرہ فرواہ عن شیخہ اولا؟ فان لم یکن فینظر ہل تابع احد شیخ شیخہ فرواہ عمن روی عنہ؟ وہٰکذا الی اخر الاسناد وذالک المتابعۃ فان لم یکن فینظر ہل اتی بمعناہ حدیث اٰخر وہو الشاہد فان لم یکن فالحدیث فرد فلیس الاعتبار قیما للمتابع والشاہد بل ہو ہیئۃ التوصل الیھما فمثال الاعتبار ان یردی حماد بن سلمۃ (مثلا حدیثا لا یتابع علیہ عن ایوب عن ابن سیرین عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فینظر ہل رواہ ثقۃ غیر ایوب عن ابن سیرین فالم یوجد) ثقۃ غیرہ (فغیر ابن سیرین عن ابی ہریرۃ والا) ای وان لم یوجد ثقۃ عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فای ذالک وجد علم) بہ (ان لہ اصلا یرجع الیہ و الا) ای وان لم یوجد شیء من ذالک (فلا) اصل لہ۔ کالحدیث الذی رواہ الترمذی من طریق حماد بن سلمۃ عن ایوب عن ابن سیرین عن ابی ہریرۃ اراہ رفعہ احبب حبیبک ہونا ما الحدیث قال الترمذی غریب لانعرفہ بہٰذا الاسناد الا من ھٰذا الوجہ ای من وجہ یثبت والا فقد رواہ الحسن بن دینار عن ابن سیرین والحسن متروک الحدیث لا یصلح للمتابعات۔ (۱)
پندرہویں نوع اعتبار اور متابعات اور شواہد کی پہچان کے بیان میں ہے۔ یہ وہ امور ہیں، جنہیں محدثین استعمال کرتے ہیں جن سے وہ حدیث کا حال پہچانتے ہیں وہ یہ غور کرتے ہیں کہ کیا راوی حدیث اس حدیث کو نقل کرنے میں اکیلا ہے یا نہیں اور یہ کہ وہ خود بھی معروف ہے یا نہیں؟ پس اعتبار کا طریقہ یہ ہے کہ کسی (ایک) راوی کی حدیث کو اس کے علاوہ دوسرے راویوں کی حدیثوں سے ملا کر دیکھنا (اس طرح کہ) اس حدیث کی دوسری سندوں کو (تلاش کر کے) گہری نظر ڈالی جائے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ آیا اس حدیث میں اس راوی کا کوئی اور بھی ساتھی (استاد بھائی) ہے جس نے استاد سے وہ حدیث روایت کی ہو یا نہیں ہے اگر نہ ہو تو یہ دیکھیں کہ کیا یہ روایت کسی نے اس کے استاذ الاستاد
ـ
(۱) (تدریب الراوی ص۱۵۱۔۱۵۲)
سے لی ہے یا نہیں۔ اسی طرح اوپر تک (اس کے استادوں اور ان کے ساتھیوں کو ایک حدیث کے لیے دیکھتے چلے جائیں گے) اس کا نام اصول حدیث میں متابعت ہے۔ اگر اس حدیث میں کہیں بھی ساتھی راوی اوپر تک نہ مل سکیں تو پھر یہ تلاش کیا جائے کہ کیا اس حدیث کے مضمون کو کسی محدث نے دیا ہے یا نہیں۔ اگر ہم معنی حدیث مل جائے۔ (چاہے الفاظ بدلے ہوئے ہوں) تو اس حدیث کو شاہد کہیں گے اور ہم معنی حدیث بھی نہ ملے تو یہ حدیث فرد کہلائے گی۔ پس اعتبار متابع اور شاہد کا قسیم (ہر قسم) نہیں ہے بلکہ یہ متابع اور شاہد تک پہنچنے کے لیے جو کچھ کیا جاتا ہے اس کا نام ہے۔ پس اعتبار کی مثال یہ ہے کہ مثلا حماد بن سلمہ کوئی ایسی روایت بیان کر رہے ہوں کہ جس میں ان کا کوئی ساتھی عن ایوب عن ابن سیرین عن ابی ہریرۃ عن النبی a وہ روایت نہ نقل کر رہا ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ ان کے استاد ایوب کے سوا کوئی اور قابل اعتماد راوی ابن سیرینe سے یہ حدیث لے رہا ہے یا نہیں؟ اگر ایوب کے ساتھیوں میں ان کے سوا کوئی ثقہ راوی نہ ملے تو پھر ان کے استاد ابن سیرین کے ساتھیوں میں کوئی محدث تلاش کریں گے۔ جو حضرت ابو ہریرہl عن النبیa کی یہ روایت نقل کر رہا ہو۔ ان میں سے جس طرح کبھی بھی حدیث پائی جا رہی ہو۔ اس سے جان لیا جائے گا کہ اس حدیث کی اصلیت ہے۔ اس کی طرف رجوع کیا جائے گا ورنہ اگر ان میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے تو یہ حدیث بے اصل مانی جائے گی جیسے ترمذی شریف کی روایت جو انہوں نے حماد بن سلمہ عن ایوب عن ابن سیرین عن ابی ہریرہ اراہ رفعہ کہہ کر نقل کی ہے کہ اپنے دوست سے ہلکی ہلکی محبت رکھو۔ الحدیث۔ امام ترمذی نے اس پر فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے یعنی صرف اسی سند سے یہ حدیث قابل ثبوت طریقہ سے ملی ہے (اس کی دوسری کوئی سند قابل اعتماد نہیں ورنہ یوں تو یہی حدیث حسن بن دینار ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں لیکن حسن متروک الحدیث ہیں ان کی روایت متابعت کے قابل نہیں ہوتی۔
اسی طرح مقدمہ ابن صلاح میں ہے۔ النوع الخامس عشر معرفتہ الاعتبار والمتابعات والشواہد۔ پندرہویں نوع اعتبار اور متابعات اور شواہد کی پہچان کے بیان میں۔ (۱)
تدریب الراوی اور مقدمہ ابن اصلاح تو بہت مفصل کتابیں ہیں۔ بخاری شریف کے شروع میں جو مقدمہ ہے۔ اس میں ہی ص۱۱ پر دیکھ لیں کہ ’’اعتبار‘‘ کسے کہتے ہیں۔
میں نے یہاں تدریب الراوی کی پوری عبارت لکھ دی ہے اور اس کا مفہوم بھی تاکہ طلبہ مستفید ہوں اور علماء فاضل بریلوی کی علم حدیث میں بصیرت کا تماشہ دیکھیں۔ فاضل بریلوی اصول حدیث سے اس درجہ ناواقف تے جیسا کہ آپ کے سامنے ہے۔ مگر آپ انہیں پھر بھی امام مجتہد فی المذہب بنانے کی فکر میں ہیں۔ اپنے دل میں ذرا غور کیجیے کہ ایسا کم علم شخص کیا مفتی بھی ہو سکتا ہے چہ جائیکہ وہ مجتہد فی المذہب بنے اور اپنے قیاس سے نئے نئے مسائل نکالے لاحول ولا قوۃ الا باﷲ۔
غرض حضرت تھانویe کے لیے اعلیٰ حضرت کی طرف سے اور آپ حضرات کی طرف سے یہ جواب ہونا چاہیے تھا کہ حدیث شریف کی سند یہ ہے اور یہ سند قابل احتجاج ہے کیوںکہ اذان ایسا شعار نہیں ہے جو سر عام نہ ہوتا ہو۔ اور صدیق اکبرlکی شخصیت ایسی نہیں ہے جس کا عمل سینکڑوں ہزاروں صحابہn اور تابعینf کے سامنے نہ ہوا ہو۔ اس لیے ان کے عمل کی روایت کرنے والے بہت لوگ ہونے چاہییں۔ اور آپ کو بہت سی روایتیں سامنے لانی چاہیے تھیں نہ کہ صرف ایک حدیث جس کے بارے میں صدیوں پہلے سے محدثین صرف موضوع (من گھڑت) ہونے نہ ہونے ہی بحث کرتے رہے ہوں۔
ـ
(۱) (مقدمہ ابن اصلاح ص۷۴)
(ہمارے پاس مسند ابی بکر صدیقl ہے۔ جس میں آپ کی ساری روایات جمع کی گئی ہیں۔ ان میں اذان کے وقت یہ کلمات اور انگوٹھا چومنے کی روایت ہی نہیں ہے۔)
سیدنا ابو بکر صدیقl کی روایت کے بارے میں حافظ سخاویe فرماتے ہیں ولا یصح یعنی یہ موضوع (کسی کی من گھڑت) ہے۔ (۱)
کیوںکہ موضوع حدیثوں کے بیان میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں لایصح، لا یثبت، یا لم یصح وغیرہ سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ موضوع ہے۔ لہٰذا یہاں لا یصح کے معنی یہ ہوں گے کہ ثابت ہی نہیں (کسی کی من گھڑت ہے) موضوع ہے نہ کہ ضعیف۔ دیکھیے مقدمہ الموضوعُ فی معرفۃ الحدیث الموضوع جو ملا علی قاریe کی تصنیف ہے ص۱۰ مطبوعہ حلب اس کے بعد ملا علی قاری لکھتے ہیں:
’’واوردہ الشیخ احمد الرداد فی کتابہ موجبات الرحبۃ بسند فیہ مجاہیل مع انقطاعہ عن الخضر علیہ السلام‘‘
یعنی یہ روایت شیخ احمد داد نے اپنی کتاب موجبات الرحمہ میں حضرت خضرk سے ایسی سند سے دی ہے کہ جس میں مجہول راوی ہیں اور سند بھی منقطع ہے۔
پھر ملا علی قاری حضرت سیدنا صدیق اکبرl کی روایت پر عمل کو جائز لکھ کر لکھتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نہ اس پر عمل کرے اور نہ اس پر عمل کرنے والے کو منع کیا جائے۔
پھر لکھتے ہیں:
’’وغرابتہ لا تخفی علی ذوی النہی‘‘ (۲)
’’اس روایت کی غرابت سمجھ دار آدمی پر مخفی نہیں ہے۔‘‘
ـ
(۱) (الموضوعات الکبریٰ لملا علی قاری ص۱۰۸)
(۲) (الموضوعات الکبریٰ ص۱۰۸)
یعنی چاہے سیدنا صدیق اکبرl کی طرف منسوب کردہ روایت ہی ہو وہ بھی غریب ہے۔ کیوںکہ صحیح ترین احادیث مقدسہ میں مثلاً بخاری شریف وغیرہ میں یہ مسئلہ وضاحت سے آتا ہے کہ جب موذن اشہد ان محمد رسول اﷲ کہے تو سننے والے بھی جواب میں اشہد ان محمد رسول اﷲ کہیں۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا حدیث کی مشہور کتابوں میں کہیں نہیں آیا ہے۔ اگر امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابو دائود، امام نسائی، امام ابن ماجہ، امام طحاوی اور ائمہ کرام یعنی امام اعظم، امام مالک، امام شافعی، امام احمدf سے یہ حدیث مخفی رہ گئی ہے۔ تو اب اسے ظاہر فرمائیں۔ علم حدیث کسی کے گھر کا نہیں ہے۔ حضرت تھانویe کے سامنے جب دلیلیں آتیں تو وہ کہاں جاتے۔ اور چلیے اب روایت اور راوی حضرات کے بارے میں آپ ہی لکھیں تاکہ اس میں اختلاف ختم ہو۔ صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہو سکتی ہے کہ انکار کرے۔ بلکہ انگوٹھے نہ چومے، مگر فاضل بریلوی اجتہادی رنگ میں قیاس پر قیاس کرتے چلے گئے اور انہوں نے تکبیر میں بھی انگوٹھے چومنے جائز قرار دیئے۔ حالانکہ پہلے حدیث کے ثبوت کی کوشش تو کی ہوتی۔
آنکھوں کے بارے میں ایک حدیث:
دیکھیے! ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب رسالت مآب a نے ایک نابینا صحابی کو بینائی درست ہونے کے لیے دعا تعلیم فرمائی اور طریقہ یہ بتلایا کہ دو رکعت نماز پڑھ کر جناب رسالت مآبa کے توسل سے دعا مانگیں اور یہ کلمات تعلیم فرمائے:
’’اللہم ان اتوسل الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجہت بک الی ربی فی حاجتی اللہم فشفعہ فِیَّ‘‘
’’اے اﷲ! میں تیرے دربار میں محمدa کے وسیلہ سے جو نبی رحمت ہیں (دعا کرتا ہوں) اے محمد میں اپنے پروردگار کی طرف آپ کے ذریعہ اور وسیلہ سے اپنی حاجت روائی کے لیے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے اﷲ! تو ان کو میرے حق میں مقبول الشفاعت فرما۔‘‘
ان نابینا صحابی نے اس پر عمل کیا ان کی بینائی لوٹ آئی۔
یہ حدیث متعدد معتبر کتب حدیث میں آئی ہے اور ابن ماجہ میں بھی ہے ابن ماجہ نے اس روایت کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
کہنا یہ ہے کہ اس حدیث پر علماء دیو بند کا عمل ہے کیوںکہ حدیث ثابت ہے اور روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ بعد میں ان صحابی نے کسی اور ضرورت مند کو یہ دعا رسول کریمb کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد تعلیم فرمائی۔ لہٰذا علماء دیوبند کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ یہ بدعت ہے اور تقبیل ابہامین کی روایت کا حال جو کتابوں میں موجود ہے وہ ہم نے لکھا اب آپ اس کی صحیح سند لائیں۔ تاکہ مذکورہ بالا حدیث توسل کی طرح سب اس کے قائل ہو جائیں اور عمل کریں۔
محدثین و فقہا کا ضعیف حدیث سے استدلال کا قاعدہ:
آپ حضرات فاضل بریلوی سے لے کر اب تک یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل ہو سکتا ہے اور اسی قاعدہ پر آپ کے دس گیارہ اختلافی مسائل کی بنیاد ہے گویا بریلویت کی عمارت اسی پر اٹھائی گئی ہے لہٰذا اس کا صحیح قاعدہ بھی یہاں ذکر کرنا ضروری ہے اور مفید معلوم ہوتا ہے تاکہ واضح ہو سکے کہ بریلوی علماء اس کے استعمال کو عام کر کے بہت بڑی غلطی کرتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطیe فرماتے ہیں: (ان کی عبارت اور ساتھ ہی تقریبی ترجمہ لکھا جاتا ہے)
’’(و یجوز عند اہل الحدیث وغیرہم التساحل فی الاسانید) الضعیفہ {وروایۃ ما سوی الموضوعات من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ فی غیر صفات اﷲ تعالٰی} وما یجوز ویستحیل علیہ وتفسیر کلامہ (و الاحکام کالحلال والحرام وغیرھما وذالک کالقصص وفضائل الاعمال والمواعظ وغیرہما مما لا تعلق لہ بالعقائد والاحکام) و ممن نقل عنہ ذالک ابن حنبل وابن مہدی وابن المباquot;Jameel Noori Nastaleeq)رک قالوا اذا روینا فی الحلال والحرام شددنا واذا روینا فی الفضائل ونحوھا تساہلنا۔‘‘
محدثین وغیرہم کے نزدیک ضعیف السند روایتوں میں سہولت دینا جائز ہے اور موضوع (گھڑی ہوئی) روایتوں کے علاوہ ضعیف روایتوں کو بیان کرنا اور ان کے ضعیف ہونے کی تصریح نہ کرنا (بھی جائز ہے) (بشرطیکہ) یہ ایسی روایتیں ہوں کہ جن میں حق تعالیٰ کی صفات کا ذکر نہ ہو اور یہ (نہ ہو) کہ یہ بات تو حق تعالیٰ کے بارے میں خیال کرنا درست ہے اور یہ بات محال ہے اور تفسیر کلام پاک اور احکام جیسے حلال و حرام وغیرہما کا اس سے تعلق نہ ہو اور اس کی صورت یہ ہے کہ روایت میں مثلاً قصے اور فضائل اعمال اور وعظ وغیرہ ایسی چیزوں کا ذکر ہو کہ جن کا تعلق عقائد اور احکام سے نہ ہو جن حضرات سے یہ قاعدہ منقول ہے ان میں امام احمد بن حنبل، ابن مہدی، ابن مبارکf ہیں ان حضرات نے فرمایا ہے کہ جب ہم کوئی روایت حلال و حرام کے بارے میں پڑھاتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اس میں ہم سختی کرتے ہیں اور جب فضائل اعمال جیسی چیزیں بیان کرتے ہیں تو اس میں نرمی کرتے ہیں۔
پھر تنبیہ فرماتے ہیں:
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
ایسی صورت میں جو شافعی حضرات مذکورہ قاعدہ پر تقویٰ کی وجہ سے عمل کرنا چاہیں گے وہ کہیں گے کہ دوبارہ وضو کر لینی بہتر ہے۔
ـ
(۱) (تدریب الراوی ص۱۹۶)
(۲) (تدریب الراوی، حافظ جلال الدین سیوطیe)
یہی قاعدہ حدیث کے علاوہ اقوال ائمہ میں بھی جاری ہے۔ مثلاً مَس مرأۃ سے مس ذکر سے مامستہ النار سے نکسیر سے اور کہیں سے بھی خون نکل کر بہہ جانے اور بڑی قے سے وضو کہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی سب اپنے اپنے امام کے علاوہ دوسرے امام کے قول پر جو ان کے نزدیک اپنے امام کے قول سے لامحالہ ضعیف ہو گا احتیاطاً عمل کریں۔ (یہ مسئلہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی سب حضرات کے نزیک مسلم ہے)
شافعی حضرات کے نزدیک خون کے نکلنے سے وضو نہیں جاتا اور یہی قول ان کے نزدیک قوی ہے۔ مگر شافعی مسلمان کو چاہیے کہ دوسرے ائمہ کے قول پر احتیاطاً عمل کر کے وضو کرے ایسا کرنا اس کے لیے مستحب ہے۔
مس مراۃ یعنی عورت کو ہاتھ لگ جانے سے چاہے وہ کوئی بھی ہو شافعی حضرات کے نزدیک مرد کا وضو جاتا رہتا ہے۔ حنفی حکیم اگر عورت کی نبض دیکھے تو اس کے لیے دوبارہ وضو کرنا مستحب ہے۔ حنفی حکیم کے نزدیک حنفی قول قوی ہے اور شافعی مسلک ضعیف ہے۔ مگر احتیاطاً وضو کرے تو یہ اچھی پسندیدہ بات (مستحب) ہے۔
فاضل بریلوی کی مبالغہ آرائی اور فریب دہی:
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
’’تھانوی صاحب نے سلب کلی کر دیا کہ اذان میں تقبیل کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں حالانکہ ایک ہزار سے زیادہ کتب فقہ میں یہ روایت موجود ہے۔‘‘ (۱)
گزارش یہ ہے کہ فاضل بریلوی کی عادت تھی کہ وہ پرجوش کلمات لکھتے تھے اسی طرح انہوں نے یہاں بھی لکھ دیا ہے۔ کئی سو سال سے قد روی کنز الدقائق شرح وقایہ اور ہدایہ کی
ـ
(۱) (اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام ص۳۵ سطر۵،۶، ۷)
ہر چہار جلد فقہ حنفی میں تمام مدارس میں دیوبندی ہوں یا بریلوی پڑھی پڑھائی جاتی ہیں۔ ان میں تو یہ مسئلہ کہ اذان میں انگوٹھے چومے، کہیں نہیں ہے۔ معلوم نہیں وہ ہزار سے زیادہ کتب فقہ کون سی ہیں۔ ان میں سے آپ ہزار نہیں صرف ایک سو فقہ کی ایسی معتبر کتابوں کا حوالہ لکھ دیں۔ جو متقدمین کی لکھی ہوئی ہوں انگریزی اختلافی دور سے پہلے کی ہوں۔ ورنہ ایسی مبالغہ آرائیوں کے فریب میں آنا چھوڑ دیں اور خود بھی فریب دہی سے تائب ہوں۔
لیکن بریلوی عالموں نے کسی قاعدہ کو نہیں مانا، اپنی خواہش کو سب سے بڑا قاعدہ سمجھا۔
انہوں نے یہ ظلم کیا کہ:
(۱)… ایسی روایات کو جن کے ضعیف ہونے میں بھی کلام ہے ان کے بارے میں محدثین کے ایک بڑے طبقہ کی یہ رائے رہی ہے کہ یہ ضعیف نہیں بلکہ موضوع (بے اصل کسی کی گھڑی ہوئی) روایت ہے۔ بڑھا کر حدیث ضعیف کا درجہ دے دیا۔
(۲)… پھر اس پر عملاً اتنا تشدد کیا گیا کہ لوگ اسے ہی دین سمجھنے لگے اور عقیدہ کا جز بنا لیا۔
(۳)… اس پر عمل نہ کرنے والوں کی اس قدر مذمت کی کہ انہیں اسلام ہی سے نکال دیا اور (معاذ اﷲ) گستاخ رسول کہنا شروع کر دیا۔ اور امت میں تفریق کا بیج بو دیا۔
اب آپ ہی خدا کے حضور پیش ہونے کا خیال کر کے غور کریں کہ آپ دوسروں کو جس وجہ سے حقیر نظروں سے دیکھتے ہیں۔ برے برے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ انہیں کافر سمجھتے ہیں۔ اس کی جڑ بنیاد ہے ہی کیا؟ صرف ایسی ہی کمزور ترین یا موضوع حدیثیں یا پھر احمد رضا خان صاحب کا قیاس و اجتہاد۔
ایسی کمزور دلیل و قیاس پر اتنا بھروسہ کرنا کہ اسے دین سمجھنے لگیں۔ کیسی بڑی غلطی ہے، انگوٹھے چومنے کی۔ اس بحث میں آپ نے فاضل بریلوی کے چیدہ نکات میں شامل کر کے ان کا پیش کردہ قاعدہ لکھا ہے کہ:
’’لا یلزم من ترک المستحب ثبوت الکراہۃ اذ لابد لھا من دلیل خاص‘‘ (۱)
ترک مستحب سے کراہت لازم نہیں آتی کیوںکہ اس کے لیے دلیل خاص کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس قاعدہ سے آپ کو کیا فائدہ پہنچا؟ آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ اذان میں نام اقدس سن کر انگوٹھا چومنا مستحب ہے اور اس قاعدہ سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ جو انگوٹھے نہ چومے اس نے ترک مستحب کیا اور انگوٹھے نہ چومنے کو مکروہ کہنے کے لیے الگ خاص دلیل ہونی چاہیے۔ اس سے تو فاضل بریلوی نے حضرت تھانویe کے موقف کو تقویت دی ہے اور انگوٹھے نہ چومنے کو کراہت سے بھی نکال دیا ہے۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ فاضل بریلوی بکثرت فقہی قاعدوں کا بے محل استعمال کرتے ہیں یہ بات ان کی تحریرات اور فتاویٰ سے ظاہر ہے۔
کم از کم اب بعد میں لکھنے والے صاحب کو تو سوچنا ہی چاہیے تھا کہ کیا لکھا جا رہا ہے آپ فاضل بریلوی کی بات ثابت کرنے کے لیے مضمون لکھ رہے ہیں یا حضرت تھانویe کی بابت ثابت کرنے کے لیے۔
پانچواں مسئلہ فاضل بریلوی کی ایک اور نادر تحقیق:
نوٹ جو رائج الوقت ہے آپ نے اس پر جو لکھا ہے وہ پڑھا ہو گا۔ ذرا پانچ روپے یا دس روپے کا نوٹ لیجیے۔ دیکھیے اس پر لکھا ہے۔
ـ
(۱) (فقہی مقام ص۳۵، ۳۶ بحوالہ بحر الرائق ج۲ ص۱۷۶)
بینک دولت پاکستان
پانچ روپیہ
حامل ھٰذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔
حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا۔
عثمان علی
گورنر
بینک دولت پاکستان
یہ ساری عبارت سطروں میں لکھی ہوئی ہے اور نوٹوں پر چھپی ہوئی ہے۔ اس سے صاف سمجھ میں آ رہا ہے کہ نوٹ مال نہیں ہے۔ بلکہ اس سونے چاندی وغیرہ کے بجائے جو حکومت پاکستان کی تحویل میں ہے۔ یہ جاری کیا گیا ہے تو اس لحاظ سے یہ خود مال نہ ہوا بلکہ مال کی رسید ہوا کہ سونا چاندی وغیرہ تو حکومت کے پاس ہے اور یہ خاص کاغذ ( جو گورنمنٹی ہے) آپ کے پاس ہے۔ اسٹیٹ بینک یعنی مرکزی بیت المال کی مالیت مالی سال پورا ہوتے وقت دیکھی جاتی ہے کہ اس کے قبضہ میں کتنی دولت ہے اتنے ہی نوٹ چھاپے جاتے ہیں جو رعایا کے ہاتھوں میں آتے ہیں اور گردش میں رہتے ہیں۔ اگر کبھی حکومت اس مالیت سے زیادہ نوٹ چھاپ بیٹھے تو افراط زر کا دور شروع ہو جاتا ہے اور حکومت کو اپنے سکہ کی قیمت گھٹانی پڑتی ہے۔ جیسے کہ ہم چند سالوں سے اس مصیبت کے شکار ہیں۔
قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیe کی بہت ہی گہری فقیہانہ نظر تھی۔ انہوں نے نوٹ کو تمسک (مال کی رسید) قرار دیا۔ (اور عرفاً اس سے خرید و فروخت ایسے ہی کی جاتی ہے جیسے وہ خود روپیہ ہو، اس لحاظ سے انہوں نے اسے بمنزلہ سونے چاندی کے قرار دیا)
اگر کسی نوٹ پر یہ عبارت نہ ہو تو ایسے کاغذ سے جو پانچ روپے کے نوٹ کے برابر بڑا ہو آٹھ آنے کی چیز بھی نہیں خرید سکتے۔ اس نوٹ کو کوئی محلہ کی گلیوں کا دکان دار بھی نہیں لے گا۔ چاہے آپ اس سے کتنا بھی کہتے رہیں کہ بھائی نوٹ بھی کاغذ ہوتا ہے اور یہ بھی کاغذ ہے تم یہ لے لو اور مجھے سودا دے دو۔ اس سے مزید معلوم ہوا کہ پانچ روپے اس کاغذ کی قیمت نہیں ہوتی۔ حکومت کی اس تحریری ضمانت ہی کی وجہ سے نوٹ کے ذریعہ بے تکلف خرید و فروخت کی جاتی ہے اگر نوٹ ذرا بھی مشکوک ہو تو دکان دار کبھی نہیں لے گا۔
۳… آپ آئے دن اسمگلنگ کی روک تھام کے احکام اور قصے سنتے رہتے ہیں۔ کیوںکہ اسمگلر یہ نوٹ دوسرے ملکوں میں پہنچا دیتے ہیں پھر وہ ملک ہمارے ملک سے ان نوٹوں پر لکھے ہوئے وعدے اور ضمانت کی وجہ سے سونا چاندی وغیرہ لیتا ہے جس سے ہمارے ملک کی مالی جڑ بنیاد کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ صرف اسمگل کرنے والا گروہ نفع کماتا ہے اور پورا ملک اس کا نقصان اٹھاتا ہے۔ مزید سمجھ لیجیے کہ اگر نوٹ پر یہ عبارت نہ ہوتو حج کے زمانہ میں کسی حاجی کو پاکستانی سو کے نوٹ کے بدلے میں ایک ریال بھی نہ ملے اور وہ نوٹ کسی حکومت میں نہ چلے اور حج کے موقعہ پر حجاج جو پاکستانی سکہ کی قیمت سعودی سکہ سے کم دیتے لیتے ہیں اس کا مدار اس بات پر ہے کہ حکومت پاکستان خود اپنے سکہ کی کتنی قیمت رکھتی ہے۔ پہلے زیادہ تھی، تو پاکستانی سو روپے کے نوٹ کے ایک سو آٹھ ریال یا اس سے بھی زیادہ ریال ملتے تھے یعنی موجودہ صورت کے برعکس۔
ضمانت کی یہ عبارت ہر ملک کو لکھنی پڑتی ہے ورنہ اس ملک کا نوٹ کوئی ملک نہیں لے سکتا۔ سکہ کی جس قیمت کا اعلان سکہ جاری کرنے والی گورنمنٹ کر دیتی ہے دوسرے ملکوں میں اسی حساب سے نوٹ کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
آپ نے دیکھا یہ ہے ضمانت لکھنے کا اثر تو آپ ہی سوچئے کہ نوٹ خود مال ہوا یا رسید؟
۴… یہ عبارت آج بھی لکھی جاتی ہے اور انگریز کے زمانہ میں بھی لکھی جاتی تھی۔ اور دنیا کے تمام ملکوں کا اسی پر عمل ہے۔ اعلیٰ حضرت اگر کسی پڑھے لکھے آدمی سے پہلے پڑھوا لیتے کہ نوٹ پر کیا لکھا ہوا ہے تو انہیں ایسا اشکال نہ رہتا۔
۵… آپ نے اخبارات میں یحییٰ خان کے زمانہ میں نوٹ کینسل ہونے کے قصے پڑھے ہوں گے، لوگوں نے نوٹ بوریوں میں بھر کر بہا دیئے وہ بہہ نہ سکے تو صبح کو لوگوں کے لیے تماشہ کا سامان بن گئے۔
یعنی جب کوئی گورنمنٹ اپنے کسی نوٹ کی ضمانت ختم کرنے کا اعلان کر دے تو نوٹ سوائے ردی میں جلانے کے کسی کام کا نہیں رہتا۔
مگر افسوس یہ ہے کہ یہ واضح مسئلہ بریلویوں کے ’’فقیہ اجل‘‘ اور ’’ابو حنیفہ دوراں‘‘ جسے وہ امام لکھتے ہیں اور ’’مجدد مائۃ حاضرہ‘‘ احمد رضا خاں کی سمجھ میں نہ آیا۔ حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنویe نے سمجھانا چاہا تو انہیں بھی اعلیٰ حضرت بریلویہ نے ایسی جلی کٹی سنائیں کہ اپنی عزت کے لیے وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔
قطب الارشاد حضرت گنگوہی قدس سرہ اﷲ العزیز کا فتویٰ مبارکہ حضرت کی وفات کے بعد کہیں اعلیٰ حضرت بریلویہ کی نظر پڑ گیا۔ بس کیا تھا اسی دن سے ان کے در پے ہو گئے۔ کیوںکہ اسی فتویٰ میں بھی نوٹ کو تمسک فرمایا گیا ہے۔ حضرت اقدس گنگوہی رحمہ اﷲ رحمۃً واسعۃً ورفع درجاتہ کو ’’آنجہانی‘‘ لکھا۔ انہوں نے اس فتویٰ کا بھی مذاق اڑایا کہ کیا کاغذ کی دنیا میں خرید و فروخت نہیں ہوتی یا مولوی صاحمثلاً حنفی مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں اتنی زور سے ہنسے کہ آس پاس کے لوگ ہنسی کی آواز سن لیں تو اس کی نماز بھی ٹوٹ جائے گی اور وضو بھی۔ (اب اس وضو سے نماز نہیں ہو گی) کیوںکہ یہ مسئلہ حدیث مرسل صحیح میں آیا ہے۔ اور باقی ضعیف روایات تو آٹھ دس ہیں۔ لیکن شافعی حضرات کہتے ہیں کہ وضو نہیں ٹوٹے گا۔ کیوںکہ یہ مسئلہ کسی ایسی حدیث میں نہیں آیا ہے جو مرفوع بھی ہو اور صحیح بھی ہو۔( style=… ب کے گائوں میں ابھی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ کاغذ بھی بکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
خان صاحب کی دلیل یہ ہے کہ ہر آدمی کو اپنا مال اپنی مرضی کی قیمت پر بیچنے کا حق ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کو دس روپے کا نوٹ دیتا ہے اور اس سے اس کے گیارہ روپے یا گیارہ سو روپے لیتا ہے تو اگر لینے دینے والے دونوں راضی ہیں تو یہ معاذ اﷲ جائز ہے اور سود نہیں ہے۔
خان صاحب کہتے ہیں کہ آدمی نوٹ کو اسی طرح رکھتا ہے جیسے روپے کو اور مال کو۔ اسی طرح اسے جمع بھی کرتا ہے۔ جیسے روپے کو اور اپنے مال کو اس لیے یہ نوٹ ہی مال ہے۔ یہ کاغذ ہے اور کاغذ کی قیمت اس کا مالک جو چاہے مقرر کرے اس لیے دس کے نوٹ کی ہزار روپے بھی قیمت لے سکتا ہے۔
(اس کا مطلب یہ ہے یعنی نوٹ کی مالیت مقرر کرنے کا حق حکومت کو نہیں ہے نوٹ جس کے قبضہ میں ہے اسی کو اس کی مالیت کم یا زیادہ مقرر کرنے کا حق ہے۔)
یہ ان کی دلیل ہے، اسی سے ان کی فقہی گہرائی کا اندازہ کریں، کیسی بچگانہ باتیں ہیںَ
مولانا عبدالحئی صاحب لکھنویe حیات تھے۔ ان کے پاس بریلوی اعلیٰ حضرت کا فتویٰ پہنچا۔ انہوں نے اس کا جواب لکھ دیا۔ نوٹ اس کو اس پر تحریر کردہ رقم سے زیادہ کے نوٹوں کے بدلے لین دین کو انہوں نے سود قرار دیا۔ یہ بات اعلیٰ حضرت بریلوی کو سخت ناگوار گزری۔ پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ گئے۔ بہت ملمع کی ہوئی گالیاں لکھیں اور ساتھ ہی حضرت گنگوہیe کو بھی۔ حضرت مولانا عبدالحئی صاحب نے سمجھ لیا ہو گا کہ یہ شخص کج بحث ہے اور ہر حال میں سود کو جائز ہی قرار دینے کے در پے ہے۔ اس لیے انہوں نے اعرض عن الجاہلین اور واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما پر عمل کرتے ہوئے مزید بحث نہیں بڑھائی۔ اعلیٰ حضرت بریلوی نے اسے اپنی فتح قرار دیا۔ اور ایک سو اڑسٹھ صفحات پر مشتمل طویل رسالہ لکھا۔ جس کا نام ’’کفل الفقیہ‘‘ رکھا۔ اس کے آخر میں بڑے دھڑلے سے لکھا کہ میرے دلائل کا جواب کوئی نہیں لکھ سکا۔ لہٰذا مسئلہ یہی ہے کہ نوٹوں میں جتنا چاہو سود لو اس کا نام نفع ہو گا۔ سود نہیں۔
بریلوی علماء کی طرف سے آج یہ فتویٰ بطور نمونہ اعلیٰ حضرت کے امام مجتہد ہونے کے ثبوت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (۱)
جسے لکھتے ہوئے ایک عالم دین کو شرم آنی چاہیے تھی کیوںکہ اس فتویٰ پر کسی بریلوی نے بھی شاید عمل نہیں کیا۔ ان کا عمل اسی فتویٰ پر رہا ہے جو حضرت اقدس گنگوہی اور مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی کا تھا اور اگر کسی بریلوی نے احمد رضا خاں کے فتوے پر عمل کر کے سود لیا ہے تو آپ حضرات اس کا نام پیش کریں تاکہ لوگ اس فقیہہ کے اس سود خور پیرو کار کو جان لیں۔
ابھی ابھی آپ کے سامنے وہ عبارت آئی ہے جو نوٹ پر تحریر ہوتی ہے اور یہ کہ خاص سرکاری چیز ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کاغذ بنا کر اس پر اس طرح سے چھاپنے لگے تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا اور اس پر غداری تک کا مقدمہ چل سکے گا مگر احمد رضا خان صاحب کا اصرار ہے کہ نوٹ کی یہ قیمت لوگوں نے خود ہی مقرر کر لی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہم فتح القدیر سے بیان کر آئے ہیں کہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہزار کو بک سکتا ہے اور اس کے لیے صرف اتنا درکار ہے کہ بائع اور مشتری دونوں اس پر راضی ہوں۔ تو اس کا کیا کہنا جس پر گروہ کے گروہ راضی ہوں اور ان قطعوں کی یہ قیمتیں اپنی اصطلاح میں ٹھہرا لیں۔‘‘ (۲)
ناظرین کرام! اعلیٰ حضرت بریلوی کی حقیقت سے بے خبری ملاحظہ فرما لیں۔ کیا نوٹوں کی قیمت لاہور والے یا کراچی والے مقرر کرتے ہیں یا محلہ محلہ گائوں گائوں مقرر کی جاتی ہے یا حکومت مقرر کرتی ہے؟
ـ
(۱) (اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام ص۲۸۔۳۱ شائع کردہ مرکزی مجلس رضا لاہور)
(۲) (کفل الفقیہ فتویٰ احکام قرطاس الدراہم ص۱۷ مطبوعہ نوری کتب خانہ لاہور)
اعلیٰ حضرت بریلوی نے ایک طرف تو اسے محض کاغذ کا ایسا ٹکڑا بتلایا ہے کہ جس کی کوئی قیمت لوگ معین کر لیں۔ دوسری طرف اسی کتاب میں سرکاری چھاپ کی وجہ سے سرکار کی مقرر کردہ قیمت کا بھی ذکر کرتے ہیں اور اسے معتبر مانتے ہیں وہ لکھتے ہیں:
’’ضرب سلطانی سرکاری چھاپ شرع کے نزدیک بھی قیمتی ہے دیکھو جو شخص دس درہم سکہ کے چرائے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور جو ایسی چاندی بے سکہ کے چرائے جس کا وزن دس درہم بھر ہو اور اس کی قیمت سکہ کے دس درہم تک نہ پہنچے اس کا ہاتھ نہ کٹے گا۔ جیسا کہ ہدایہ وغیرہ عام کتب مذہب میں تصریح ہے۔‘‘ الی آخر ما قال (۱)
جب وہ ضرب سلطانی (سرکاری چھاپ) کو معتبر مان رہے ہیں تو ان کا یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ لوگ خود نوٹ مقرر کر لیتے ہیں کیا ان کے زمانہ میں یا جب سے رائج ہوا ہے کبھی بھی نوٹ بغیر سرکاری چھاپ کے ہوتا تھا؟ اور جب سرکاری چھاپ کو معتبر مان رہے ہیں تو اس پر جس عبارت کی چھاپ ہے اسے کیوں نہیں پڑھتے، وہ عبارت دیکھیں جو نوٹ پر صاف لکھی ہوئی ہے اس کے لحاظ سے یہ نقدین کی اسٹیٹ بینک میں محفوظ سرمایہ کی رسید ہے اس کا نام ’’نوٹ‘‘ ہے۔ اسے کوئی کاغذ نہیں کہتا۔ اگر کسی کے نوٹ گم ہو جائیں تو وہ تھانہ میں جا کر اپنے کاغذ گم ہونے کی رپورٹ درج کرائے گا تو لوگ اسے احمق کہیں گے۔
جب نوٹ ایجاد ہوا تو حضرت گنگوہی قدس سرہ سے فتویٰ دریافت کیا گیا کہ نوٹوں پر زکوٰۃ ہو گی یا نہیں؟ انہوں نے تحریر فرمایا:
’’نوٹ وثیقہ اسی روپے کا ہے جو خزانہ حاکم میں داخل کیا گیا ہے۔ مثل تمسک کے اس واسطے کہ اگر نوٹ میں نقصان آ جائے تو سرکار سے بدلا سکتے ہیں اور اگر گم ہو جائے تو بشرط ثبوت اس کا بدل لے سکتے ہیں۔ اگر نوٹ بیع ہوتا تو ہر گز مبادلہ نہیں ہو سکتا تھا۔ دنیا
ـ
(۱) (کفل الفقیہ ص۱۷)
میں کوئی بیع بھی ایسا ہے کہ بعد قبض مشتری کے اگر نقصان یا فنا ہو جاوے تو بائع سے بدل لے سکیں۔ پس اس تقریر سے آپ کو واضح ہو جائے گا کہ نوٹ مثل فلوس کے نہیں ہے۔ فلوس مبیع ہے اور نوٹ نقدین۔ ان میں زکوٰۃ نہیں اگر بہ نیت تجارت نہ ہوں اور نوٹ تمسک ہے اس پر زکوٰۃ ہو گی۔ فقط واﷲ تعالیٰ اعلم۔ اکثر لوگوں کو مثل آپ کے شبہ ہو رہا ہے کہ نوٹ مبیع سمجھ کر زکوٰۃ نہیں دیتے اور کاغذ کو مبیع سمجھ رہے ہیں سخت غلطی ہے۔ فقط والسلام۔‘‘
حضرت گنگوہی قدس سرہٗ نے اپنے بہت مختصر فتوے میں نوٹ کی حقیقت بتلائی کہ وہ وثیقہ ہے اور یہ درست ہے۔ پانچ روپے یا دس روپے کے نوٹ پر لکھی ہوئی عبارت پڑھ لیں پھر اس کی عرفی حیثیت بتلائی کہ وہ سونے چاندی کے سکے طرح قیمتی شمار ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ نوٹ نقدین میں داخل ہے اور فلوس جو تانبے کا سکہ ہے وہ تانبہ ہے۔ شریعت نے سونے چاندی کا اور رکھا ہے اور دوسری دھاتوں کا اور حکم ہے وہ تھوڑے بہت کسی کے پاس ہوں تو ان پر زکوٰۃ نہیں۔ ہاں اگر وہ بہ نیت تجارت ہوں تو ان کی مالیت کا حساب کیا جائے گا اور زکوٰۃ لگ جائے گی۔ پھر فرمایا نوٹ تمسک ہے یعنی نقدین کا اور یہ ایسا تمسک ہے جو سلطانی ہے اس لیے اس پر زکاۃ ہو گی۔
اس کی مثال یہ ہے کہ آپ مثلاً یکم رمضان کو زکوٰۃ نکالتے ہیں مگر اس دفعہ ایک دوست جو آپ سے روپیہ لیتا دیتا رہتا ہے قابل اعتبار ہو، یکم شعبان کو دس ہزار ادھار لے لیے اور رسید لکھ دی کہ عید کے چاند ادا کریں گے۔ جب یکم رمضان ہوئی تو اب آپ کا اپنا سرمایہ بیس ہزار نکلا تو زکوٰۃ دینی چاہیے، کیوںکہ جس دوست نے قرض لیا ہے وہ قابل اعتبار ہے سچا ہے۔ لیتا دیتا رہتا ہے۔ اب آپ پر ان دس ہزار کی بھی زکوٰۃ واجب ہو گی جو آپ کے دوست کے پاس ہیں اور آپ کے پاس فقط ان کی رسید ہے۔ لیکن شریعت کی نظر میں وہ رقم محفوظ ہونے کی وجہ سے ایک طرح آپ کے پاس ہی ہے۔
فتاویٰ رشیدیہ میں اس عبارت کے بعد فقط واﷲ تعالیٰ اعلم تحریر ہے اور یہ ہم نے آسان انداز میں اس مختصر فتوے کی تشریح بھی کر دی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت گنگوہی کے سامنے نوٹ کے متعلق اور بھی سوالات آئے ہوں گے۔ کیوںکہ اس وقت وہ نیا نیا چلا تھا، اس لیے فتوے کا جواب مکمل کرنے کے بعد آخر میں مزید تحریر فرمایا۔
’’اکثر لوگوں کو آپ کے مثل شبہ ہو رہا ہے کہ نوٹ مبیع سمجھ کر زکوٰۃ نہیں دیتے اور کاغذ کو مبیع سمجھ رہے ہیں، سخت غلطی ہے۔ فقط والسلام۔‘‘
یعنی اگر نوٹ کو فقط کاغذ کی حیثیت دی جائے تو وہ تو دس روپے سیر مل جاتا ہے سیر بھر نوٹوں کو سیر بھر کاغذ کے برابر سمجھ کر چھوڑ دیا جائے اور ان کی مالیت کا لحاظ نہ کیا جائے تو یہ سخت غلطی ہے۔
بحمد اﷲ فتویٰ یہی چلتا رہا ہے اور اسی پر ہر باعمل مسلمان کار بند رہا ہے۔ اگرچہ احمد رضا خان صاحب کے ماننے والوں نے بہت چاہا کہ ان کی یہ کتاب خوب بکے اور اس پر عمل ہو۔
اس فتوے کی نقل میں علمی خیانتیں:
بریلوی حضرات کے حوالوں میں علمی خیانت کی یہ قسم بہت ملتی ہے کہ جس سے ان کی مخالفت ہو اس کی پوری بات کبھی نقل نہیں کرتے۔ ان کے حوالوں کا اعتبار کرنا خود کو دھوکہ دینا ہے۔ آج کل ان کے پی، ایچ ڈی تک اپنے رسائل میں اسی طرح کی دھوکہ دہی کر رہے ہیں۔
اس مضمون میں یہ کاروائی کی گئی ہے کہ حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی کا فتویٰ ناتمام نقل کیا ہے۔ فتویٰ میں آگے چل کر جو عبارت تھی وہ مطالبہ کرنے والے پر اثر انداز ہو سکتی تھی اس لیے سعیدی صاحب نے اسے حذف ہی کرنا بہتر سمجھا۔
ہم ان کا فتویٰ مکمل نقل کرتے ہیں:
استفتائ:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں نوٹ صد روپیہ (۱۰۰) مثلاً کسی بیع و شراء کمی و زیادتی پر جائز ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا
جواب: ہو المصوب، نوٹ ہر چند کہ خلقۃً ثمن نہیں مگر عرفاً ثمن میں ہے، بلکہ عین ثمن سمجھا جاتا ہے اس وجہ سے کہ اگر نوٹ سو روپیہ کا کوئی ہلاک کر دے تو اصل مالک سو روپیہ تاوان لیتا ہے اور سو روپے کا نوٹ جب بیچا جاتا ہے تو مقصود اس سے قیمت ملنا اس کاغذ کی نہیں ہوتی ہے۔ کیوںکہ یہ ظاہر ہے کہ وہ کاغذ دو پیسہ کا بھی نہیں ہے بلکہ مقصود سو روپیہ کا بیچنا اور اس کی قیمت لینا ہوتا ہے اور نوٹ سو روپے کا اگر کوئی شخص قرض لے تو بوقت ادا خواہ نوٹ سو روپے کا دیوے یا سو روپیہ دیوے دونوں امر مساوی سمجھے جاتے ہیں اور دائن کو کسی کو لینے میں مدیون سے غدر نہیں ہوتا ہے۔ حالانکہ اگر مدیون غیر جنس بوقت ادا دیوے تو دائن نہیں لیتا ہے۔ بخلاف پیسوں کے کہ وہ بھی اگرچہ عرفا ثمن ہیں مگر یہ کیفیت ان کی نہیں ہے۔ اگر ایک روپیہ کے عوض میں کوئی چیز خرید لے یا ایک روپیہ کسی سے قرض لے اور بوقت ادا پیسے ایک روپیہ دے دے تو دائن اور فروخت کنندہ کو اختیار رہتا ہے کہ وہ لے یا نہ لے اور حاکم کی طرف سے اس پر جبر نہیں ہو سکتا کہ وہ خواہ مخواہ وہ پیسے لے لے، پیسے اگرچہ عرفاً ثمن ہیں۔ مگر عین ثمن خلقی نہیں سمجھے گئے ہیں بخلاف نوٹ کے کہ یہ عین ثمن خلقی ہے گو عینیت خلقیہ نہیں بلکہ عینیت عرفیہ ہو پس تفاضل بیع فلوس میں جائز ہونے سے یہ نہیں لازم کہ نوٹ میں بھی جائز ہو جائے کیوںکہ پیسے غیر جنس ثمن ہیں۔ حقیقۃً بھی اور عرفاً بھی۔ گو بوجہ اصطلاح اور عرف کے اس میں صفت ثمنیت کی آ گئی ہو۔ پس ہر گاہ نوٹ عرفاً جمیع احکام میں عین ثمن خلقی سمجھا گیا۔ باب تفاضل میں اسی کی بناء پر حکم دیا جائے گا اور تفاضل اس میں حرام ہو گا۔ (غلام رسول سعیدی صاحب نے حضرت مولانا عبدالحئی صاحب کے فتوے کا حوالہ دیتے ہوئے آخری فقرہ کو درمیان میں کاٹ دیا ہے جو تسلسل کے ساتھ ہم لکھ رہے ہیں) فانما الاعمال بالنیات ولکل امرء مانوٰی اور اگر اس میں رِبا حقیقتاً نہ ہو تو شبہ ربٰو سے تو مفر نہیں اور تمام کتب فقہ میں مرقوم ہے کہ شبہ رِبٰو باعث حرمت ہے۔
علاوہ ازیں جو بیع و شراء نوٹ میں تفاضل اختیار کرے گا مقصود اس کو بجز اس کے بعوض کم روپیہ کے زیادہ روپیہ حاصل ہو جاویں اور کچھ نہ ہو گا۔ مگر بطور حیلہ کے وہ نوٹ کا معاملہ کرے گا اور یہ ظاہر ہے کہ اسے ارتکاب حیلہ سے حکم حلت کا نہیں ہو سکتا۔ تہذیب الایمان میں ہے:
’’انما المحرم ان یقصد بالعقود الشرعیہ غیر ما شرعھا اﷲ لم فیصیر مخادعا لدینہ کائد الشرعہ فان مقصودہ حصول الشیء الذی حرم اﷲ تبلک الحیلۃ او اسقاطہ ما اوجبہ۔ انتہٰی‘‘
پس اگر نوٹ میں تفاضل قضاء ً جائز بھی ہو لیکن دیانۃً فیما بینہ و بین اﷲ کسی طرح سے درست نہ ہو گا۔
اسی وجہ سے کتب فقہ میں بیع عینیہ اور شراء باقل مما باع وغیر ذالک کی ممانعت مذکور ہے۔ اور احادیث اس باب میں بکثرت وارد ہیں جن سے حرمت ایسے حیل کی ثابت ہوتی ہے۔
اگر یہ شبہ ہو کہ نوٹ ہر گاہ ثمن خلقی نہیں ہے پس حکم اس کا بعینہٖ کیوںکر ہو سکتا ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ چونکہ عرفاً وہ عین ثمن خلقی سمجھا گیا اور تمام مقاصد ثمن خلقی کے اس کے ساتھ متعلق ہوئے۔ لاجرم باب تفاضل میں اسی کا اعتبار ہو گا۔ لا سیما دیانۃ فانھا متعلقۃ بالمقاصد وان کانت خفیۃ
باقی رہا قول فتح القدیر کا ’’لو باع کاغذۃ بالف یجوز‘‘ انتہٰی
پس مراد اس کی یہ کاغذ نہیں کہ عین ثمن خلقی سمجھا گیا کیوںکہ اس کا وجود ان زمانوں میں نہ تھا بلکہ سادہ کاغذ ہٰذا ما سنح لی۔ واﷲ اعلم بالصواب وعندہ ام الکتاب
حررہٗ الراجی عفو ربہ القوی ابو الحسنات محمد عبدالحئی
تجاوز اﷲ عن ذنبہ الجلی والخفی
حضرت مولانا عبدا لحئی صاحب لکھنوی کی دلیلوں کا جواب فاضل بریلوی نے لکھا ضرور لیکن اگر بنیاد ہی میں فساد آ جائے تو چاہے بحث کو کتنا بھی طول دے دیں۔ فساد ہی پر اس کی بنیاد رہے گی اور سب دلیلیں بے محل ہوں گی۔ اس لیے ان کی طنز و تعریض سے بھری ہوئی یہ طویل و عریض تحریر بالکل بے کار ہے۔ اور ان کے سب حیلے حرام کو یعنی سود کو جائز کرنے کے لیے ہیں۔ فاضل بریلوی نے اس مقصد جلیل کے لیے ساری کتب فقہ میں حیلوں کی تدابیر دیکھ ڈالیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’خامساً ۸۰ تا ۸۵ وہ چھ حیلے یاد کیجیے جو ائمہ کرام نے ارشاد فرمائے اور رسالہ کے ص۷۸ سے ص۸۲ تک گزرے۔ یہاں ارتکاب حیلہ سے حکم حلت کیسے ہو گیا۔
سادساً یہی چھ کیا ہزار حیل ہیں جن کی تصریحات جلیہ کلمات ائمہ میں مذکور۔ اگر ان کو جمع کیجیے تو آپ کی اس جلد بھر سے زیادہ ہوں گے۔ سرِ دست عالم گیری کی کتاب الحیل ہی ملاحظہ ہو کہ ساری کی ساری کتاب اسی میں ہے۔‘‘ (۱)
فاضل بریلوی نے اپنی بات کی پچ میں ائمہ کرام اور کتب فقہ کی اہانت میں بھی باک نہیں کیا۔ العیاذ باﷲ۔
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
ـ
(۱) (کفل الفقیہ ص۱۵۳)
ہم کہتے ہیں حیلہ اس لیے نہیں ہوتا کہ اس پر عمل کیا جائے۔ بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ اگر کوئی بے چارہ مصیبت میں پھنس گیا ہو۔ اسے مصیبت سے نکال دیا جائے۔ ورنہ سب سے زیادہ باعمل عالم وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ حیلے باز ہوتا ہے۔ بریلوی علماء ہو سکتا ہے اپنے امام احمد رضا کے کہے پر چلتے ہوں اور حیلوں پر عمل کو فضیلت کی باspan style=p class=AR-SAت جانتے ہوں۔
غرض اس پوری بحث میں آخر کتاب تک خان صاحب اسی پر اصرار کرتے رہے کہ پانچ روپے کا نوٹ ہزار میں کیوں نہیں بک سکتا۔ وہ مولانا عبدالحئی صاحب کے فتوے پر لکھتے ہیں:
اقول قولاً عَیْنِیَّتْ تو بارہا گھر تک پہنچا دی گئی۔ اس کی آڑ تو چھوڑیئے اور اب فرمائیے کہ نوٹ اور پرچہ کاغذ میں وجہ فرق کیا ہے۔ سادہ پرچہ تو ہزار روپے کو بک سکے مگر جس پر پانچ روپے کا لفظ و ہندسہ لکھ دیا وہ پانچ سے زیادہ کو بیچنا حرام ہو جائے۔ بڑی منحوس گھڑی سے چھاپا تھا کہ چھپتے ہی نو سو پچانوے اڑ گئے۔
(یہ ہے اس فقیہ کا سنجیدہ انداز فتویٰ نویسی انا اﷲ وانا الیہ راجعون ابھی اور ملاحظہ فرمایئے، فرماتے ہیں:
ثانیًا عینیت کے جو قاہر رد ہوئے انہیں جانے دیجیے تو آپ خود اپنے تنزل اخیر میں اس سے یکسر گزر چکے ہیں۔ مہربانی فرما کر اپنی اس تقدیر پر فرق کی تقریر سنا دیجیے۔ جی ہاں سادہ کاغذ کو بیچنا جائز بتا رtext-align: justify; line-height: 150%; direction: rtl; unicode-bidi: embed;ہا ہے اور کیسا کاغذ ناجائز ہے۔ ذرا بتایئے تو۔
ثالثًا صاف انصاف تو یہ ہے کہ علماء نے مطلق کاغذ فرمایا ہے جو سادہ لکھے قلمی اور چھپے نوٹ اور اور غیر نوٹ سب کو شامل ہے۔ یہ سادگی تو آپ کی زیادت ہے اور مطلق کا کوئی مقید نیا پیدا ہو تو صرف اس بنا پر اسے حکم مطلق سے اخراج سراسر خلاف فقاہت ہے۔ ہزارہا حوادث نئے پیدا ہوتے جاتے ہیں اور تاقیامت ہوتے رہیں گے۔ ان کے احکام اطلاقات ائمہ کرام سے لیے جاتے ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں اس زمانہ میں کب تھیں لہٰذا یہ ان کی مراد وزیر حکم نہیں۔
رابعًا سنئے تو جناب نے اس جرم پر کہ وہ کاغذ دو پیسے کا بھی نہیں، بیچارے نوٹ کو قصد بیع کے قابل نہ سمجھا بلکہ خود سو روپے بیچنا مقصود بتایا تھا۔ اب یہ سادہ پرچہ کہ دھیلے چھدام کا بھی نہیں۔ یہ کیسے ہزار روپے کو بکنے لگا۔ یہاں کون سے روپے لائیے گا جن کا بیچنا مقصود بتائیے گا۔ محقق عالم کو لکھتے وقت خود اپنے آگے پیچھے کا خیال تو رہے۔ نہ یہ کہ ایک ہی صفحہ میںنسی ماقدمت یداہ
خامسًا جناب نے یہ بھی ملاحظہ کیا کہ امام ابن الہمام نے یہ یجوز ولا یکرہ بلا کراہت جائز ہے۔ کسی بحث میں فرمایا ہے۔ بیع عینہ کی بحث میں اب وہ بیع عینہ کی ممانعت کدھر گئی۔ یہ تو پانچ ہی سطر میں نسی ما قدمت یداہ ہو گیا۔ کیا اسی دن کے لیے جناب نے لایکرہ چھوڑ انتہیٰ لکھ دی تھی۔
اس کے بعد اسی خامساً میں پھر فاضل بریلوی اپنے دل کی آرزو لکھتے ہیں:
’’اب تو کہہ دیجیے سو کا نوٹ دو سو کو بیچنا ایسا جائز ہے جس میں کراہت بھی نہیں۔ آپ کی اسی انتہا پر انتہا کر دوں کہ رد و اعتراض کا عدد بفضلہ تعالیٰ ایک سو بیس تک تو پہنچ گیا۔ وﷲ الحمد۔‘‘ (۱)
اگر خان صاحب زندہ ہوتے تو خان صاحب سے عرض کرتے کہ جناب آپ نے صرف ایک سو بیس ہی پر انتہا کر دی اور آپ کے لوگوں نے اسے چار سو بیس کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ اسی لیے آپ کی کتاب کے اشتہارات بھی دیئے گئے (آگے ایک معتبر اشتہار کی نقل آنے والی ہے) لیکن نوٹ پر لکھی ہوئی قیمت سے زیادہ لینی حرام اور سود ہی
ـ
(۱) (کفل الفقیہ ص۱۶۴، ۱۶۵)
رہی اور رہے گی آج کے دور میں تو ان حضرات کی بات جن کی دلیلوں کا آپ نے رد لکھا ہے ہر خاص و عام پر واضح ہو گئی ہے کہ وہ ہی صحیح تھی اور آپ کا خیال غلط ہی رہا کہ دو آدمی آپس میں طے کر کے کسی نوٹ کی جو چاہیں قیمت مقرر کر لیں۔
کفل الفقیہ کے آخر میں ان الفاظ سے خود اپنے آپ کو اور اپنے ماننے والوں کو اپنی رائے کے ناقابل شکست ہونے کا یقین دلانا چاہتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’رائیں ملنے سے علم پختگی پاتے ہیں اور اس کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ ذی رائے حضرات موافقت فرمائیں دوسری یہ کہ خلاف کرنے والوں کو انتہائی کوششیں سن لی جائیں اور باطل و بے اثر ثابت ہوں۔ یہ پہلی صورت سے بھی اقویٰ ہے کہ جب مخالفانہ کوششیں اثبات خلاف میں عرق ریزی کر کے ناکام رہیں واضح ہو جاتا ہے کہ بحمد اﷲ تعالیٰ مسئلہ حق ہے اور خلاف کی طرف راہ مسدود، بفضلہ تعالیٰ اس مسئلہ نے دونوں قسم سے خطِ دانی پایا۔‘‘(۱)
شروع میں گزرا ہے کہ حضرت اقدس گنگوہیe کا فتویٰ فاضل بریلوی نے ان کی وفات کے بعد دیکھا۔ اور وہ کل آٹھ سطروں کا ہے۔ (۲)
اور مولانا عبدالحئی صاحب کا فتویٰ ان کے فتاویٰ میں صرف اکتیس سطر کا ہے۔ ان بزرگوں کی عرق ریزی کا تو اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ فاضل بریلوی کا فتویٰ ایک سو ارسٹھ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ جس میں انہوں نے جا بجا قواعد فقیہہ کا بے محل استعمال کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور بڑی عرق ریزی فرمانے کے باوجود ان کی تحریر الالد الخصم کی تحریر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
ـ
(۱) (کفل الفقیہ ص۱۶۷)
(۲) (دیکھیں فتاویٰ رشیدیہ ص۱۴۴ ج۱ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
اس ہمت کی داد دیجیے کہ نوٹوں کے تبادلہ میں سود کے جواز کے لیے کتنی بے باکی سے انہوں نے کتاب الحیل استعمال کی ہے اور کس دلیری سے نوٹوں پر لکھی ہوئی قیمت کو لوگوں کی فرض کی ہوئی قیمت بتا کر انہیں ترغیب اور اجازت دے رہے ہیں کہ پانچ روپے کے نوٹ کے ہزار روپے لیے جائیں۔ العیاذ باﷲ
فاضل بریلوی نے اس رسالہ کے آخر میں لکھا ہے:
’’فان یک صوابا فمن اﷲ تعالٰی وان یک خطائً فمنی ومن الشیطان‘‘
’’تو اگر (یہ نوٹوں کے ذریعہ سود خواری کے جواز کا فتویٰ) صحیح ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘ (۱)
جناب اعلیٰ حضرت بریلوی! ہماری اس تنقیح و تنقید نے اس شک کو دور کر کے واضح کر دیا ہے کہ جناب کا یہ فتویٰ یقینا نفس و شیطان کا دھوکہ ہی تھا۔ جس میں آپ گرفتار ہوئے۔
’’عن کعب بن مالک قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم من طلب العلم لیجاری بہ العلماء او لیماری بہ السفہاء او یصرف بہ وجوہ الناس الیہ ادخلہ اﷲ النار۔‘‘ (۲)
’’حضرت کعب بن مالکl سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ aنے فرمایا جو شخص اس لیے علم حاصل کرتا ہے کہ علم کے زور سے علماء سے جھگڑے گا یا کم سمجھ (جاہل) لوگوں سے جھگڑے گا یا اس لیے کہ لوگوں کو اس کے ذریعہ اپنی طرف متوجہ کرے گا اﷲ تعالیٰ اسے آگ میں داخل کرے گا۔‘‘
بریلوی احباب سے گزارش ہے کہ ہمارے اس سخت انداز بیان کی وجہ یہ ہے کہ
ـ
(۱) (کفل الفقیہ ص۱۶۸)
(۲) (رواہ الترمذی، وابن ماجۃ عن ابن عمر مشکٰوۃ ص۳۴)
قرآن کریم میں سود کے علاوہ کسی بھی گناہ کے لیے اتنی سخت وعید نہیں آئی جتنی سود کے بارے میں آئی ہے اور فاضل بریلوی کی بے خوفی کا حال آپ کے سامنے ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
{فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ} (۱)
’’پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اﷲ اور اﷲ کے رسول سے لڑائی کا‘‘ (ترجمہ فاضل بریلوی)
اور جو شخص اس کے لیے دلیل بازی کرے اسے جواب دیا گیا ہے:
{وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰی}(۲)
’’اور اﷲ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود‘‘ (ترجمہ فاضل بریلوی)
اور جو اس کے جواز کے لیے اپنی عقل استعمال کرے قیامت میں اس کی سزا معاذ اﷲ یہ ہو گی کہ اس کی عقل سلب کر لی جائے گی۔ اسے دورے پڑتے ہوں گے لوگ دور سے دیکھ کر پہچان جائیں گے اس شخص کو سود کی سزا مل رہی ہے۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ الرِّبَا لاَ یَقُوْمُوْنَ اِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا اِنَّمَا الْبَیْْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا‘‘ (۳)
’’وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے، مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے حاشیہ نمبر۸ پر نعیم الدین صاحب مراد آبادی نے سود کی خرابیاں
ـ
(۱) (پ۳ رکوع۶)
(۲) (البقرۃ:۲۷۵، پ۳، رکوع۶)
(۳) (پ۳ رکوع۶)
لکھ دی ہیں اور آخر میں لکھا ہے۔
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول کریمaنے سود خور اور اس کے کار پرداز اور سودی دستاویز کے کاتب اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔
قرآن پاک اور احادیث مقدسہ میں اس قدر شدید وعیدوں کے باوجود جو شخص کتاب الحیل استعمال کر کے نوٹ کی حقیقت کو جان بوجھ کو بدلنا چاہے اور سمجھانے والوں کو مذاق اڑائے کیا اس کے متعلق اس خوش فہمی کی گنجائش ہے کہ اس کے دل میں کبھی تقویٰ کا گزر بھی ہوا style= style=text-align: justify; line-height: 150%; direction: rtl; unicode-bidi: embed;span style=/spanquot;; mso-bidi-language: FA;/spanfont-size: 16.0pt; line-height: 150%; font-family: ہے مجتہد اور مجدد ہونا تو کجا کیا اس کے کسی فتویٰ پر دوسرے علماء سے پوچھے بغیر عمل کیا جا سکتا ہے۔
ہر مسلمان پر اپنا دین و ایمان بچانا فرض ہے۔ ایسے لوگوں کو ماننے والوں کی باتوں کو پرکھا کیجیے بغیر سوچے نہ مانئے اور انہیں مسلمانوں میں تفریق ڈالنے سے باز رکھیئے اور اپنے واعظ سے یہ بھی پوچھ لیا کیجیے کہ مولانا صاحب! نوٹوں میں آپ کے نزدیک سود ہوتا ہے یا نہیں اگر وہ صحیح مسئلہ بتائے کہ سود ہوتا ہے تو پوچھئے کہ جو شخص نوٹوں میں سود کو جائز کہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
جو آدمی صاف بات کرے اور اسے حرام کہے اور جائز کہنے والے کو یہ کہے کہ اس نے غلطی کی اس کی بات سنئے ورنہ اسے چلتا کیجیے، ا style=FAور اپنا ایمان بچائیے۔
ہم نے گزشتہ سطور میں اس کتاب میں اشتہار کا ذکر کیا تھا اب ہم اس کی نقل پیش کرتے ہیں۔ انجمن حزب الاحناف لاہور کے سابق مفتی و شیخ الحدیث جناب ابو البرکات سید احمد (م۱۳۹۸ھ/۱۹۷۸ئ) نے اس کتاب ’’کفل الفقیہ‘‘ کا اشتہار بایں الفاظ شائع کیا تھا۔
’’نوٹ کے متعلق جملہ مسائل کو جائز طور پر خاطر خواہ نفع حاصل کرو اور سود نہ ہو، نیز گنگوہی اور مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی کے فتووں کا رد۔‘‘
ملاحظہ ہو حسام الحرمین حزب الاحناف صفحہ آخر۔
از مقدمہ رسائل چاند پوری، ناشر انجمن ارشاد المسلمین ۶۔ بی شاداب کالونی لاہور، حاشیہ ص۷، ۸
جس مسلمان نے یہ کتاب پڑھی ہو گی لاحول بھی پڑھی ہو گی اور خدا نے اسے سود کی لعنت سے بچا لیا ہو گا۔
’’عن النعمان بن بشیر قال قال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم الحلال والحرام بین و بینھا امور مشتبہۃ فمن ترک ما شبہ علیہ من الاثم کان لما استبان لہ اترک ومن اجتراء علی ما یشک فیہ من الاثم او شک ان یواقع ما استبان۔ والمعاصی حمی اﷲ من یرتع حول الحمی یوشک ان یواقعہ۔‘‘ (۱)
’’حضرت نعمان بن بشیرl سے روایت ہے کہ نبی کریمb نے ارشاد فرمایا کہ حلال کھلی ہوئی چیز ہے اور حرام کھلی ہوئی چیز ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں تو مسلمان گناہ کی مشتبہ چیز چھوڑ دے گا وہ کھلم کھلا گناہ کی چیز تو ضرور ہی چھوڑ دے گا اور جو گناہ کی مشکوک چیز پر جرأت کر کے اس کا ارتکاب کرے گا قریب ہے کہ وہ اس گناہ میں بھی مبتلا ہو جائے جو واضح طرح گناہ ہو اور معصتیں ایک اﷲ کی چہار دیواری میں (سرکاری) چراہ گاہ کی طرح ہیں جو آدمی سرکاری چراگاہ کے اردگرد اپنے جانوروں کو چراتا ہے تو قریب ہے (خطرہ ہوتا ہے کہ اس کا جانور) اس کے اندر چلا جائے۔‘‘
’’عن وابصۃ بن معبد ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال یا وابصۃ
ـ
(۱) (بخاری ص۲۷۵، وص۱۳)
جئت تسأل عن البر والاثم قلت نعم قال فجمع اصابعہ فضرب بھا صدرہ وقال استفت نفسک استفت قلبک ثلٰثا البر ما الھما انت الیہ النفس واطمأن الیہ القلب والاثم ما حاک فی النفس وتردد فی الصدر وان افتاک الناس۔‘‘ (۱)
’’حضرت وَابِصَہ ابْن مَعْبَدْl سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲa نے فرمایا اے وابصہ تم نیکی اور گناہ پوچھنے آتے ہو۔ میں نے عرض کیا جی ہاں آپ نے اپنے دست مبارک کی انگلیاں اکھٹی کر کے ان کے منہ پر ماریں اور ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ سے پوچھا کرو اپنے دل سے پوچھا کرو یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی، نیکی (اور بھلائی) وہ ہے جس پر تمہارا نفس اور تمہارا دل مطمئن ہو اور گناہ (اور برائی) وہ ہے جس سے تمہاری روح اور تمہارا دل تردد اور دھکڑ پکڑ محسوس کرے چاہے لوگ فتوے دیتے رہیں۔‘‘
حضرت ابن عمرo کی روایت بخاری شریف میں ہے:
’’لا یبلغ العبد حقیقۃ التقوٰی حتی یدع ما حاک فی الصدر۔‘‘ (۲)
وقال حسان بن ابی سنان ما رأیت شیئًا اھون من الورع دع مَا یُرِیْبُکَ إِلٰی مَا یُرِیبکَ۔ (۳)
’’بندہ تقویٰ کی حقیقت پر اس وقت تک نہیں پہنچتا جب تک وہ چیز نہ چھوڑ دے جو دل میں کھٹکتی ہو اور حضرت حسان بن ابی سنان نے فرمایا کہ میں نے تقویٰ سے زیادہ آسان کوئی چیز نہیں دیکھی کہ جو چیز تمہیں شک کی لگے وہ چھوڑ دو اور وہ اختیار کر لو جس میں تمہیں شک نہ ہو۔‘‘
ـ
(۱) (رواہ احمد والدارمی، مشکوٰۃ ص۲۴۲)
(۲) (بخاری ص۶)
(۳) (بخاری: ۲۷۵)
اور دع مَا یُرِیْبُکَ إِلٰی مَا یُرِیبکَ حضرت سیدنا حسن بن علیo سے بھی مروی ہے۔ (۱)
اور یہ تو حرام صریح اور سود کا مسئلہ ہے جس کے گواہ اور لکھنے والے سب پر لعنت آئی ہے۔ والعیاذ باﷲ۔ حضرت مولانا عبدالحئی اور حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی کے فتاویٰ اسی خوف و خشیۃ اﷲ اور رسول اﷲaکی انہیں ہدایات پر مبنی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہر اہل سنت مسلمان کو اس گناہ سے بچائے۔ چاہے وہ بریلوی علماء ہی سے تعلق رکھتا ہو بلکہ ہر مسلمان کو بچائے وہ جہاں بھی بستا ہو۔ آمین!!
ـ
(۱) (مشکوٰۃ: ۲۴۲)
مولانا احمد رضا کا کارنامہ نمبر۱
کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد!
بریلی صوبہ یو۔پی انڈیا میں ایک شہر کا نام ہے۔ پنجاب سے گزر کر کلکتہ جانے والی لائن پر یہ شہر آتا ہے۔ پنجاب کی سرحد دریائے جمنا پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے پار یو۔پی کا پہلا شہر سہارنپور آتا ہے۔ پھر ضلع بجنور کا حصہ پھر مراد آباد پھر ضلع رام پور اور پھر بریلی۔ بریلی کا فاصلہ پنجاب کی سرحد سے دو سو میل کے قریب ہے۔ بریلی انگریزوں کے زمانہ میں بھی ضلع تھا۔ اور وہاں دماغی امراض کا ہسپتال مشہور تھا۔ اور ریاست رام پور کو اب ضلع بنا دیا گیا ہے۔ ریاست پہلے ضلع مراد آباد میں داخل تھی۔ اس طرح مراد آباد اور بریلی ایک دوسرے سے متصل اضلاع تھے۔
احمد رضا خاں صاحب بریلی میں تھے اور نعیم الدین صاحب مراد آباد میں ایک صاحب نے ترجمہ قرآن لکھا اور دوسرے نے تفسیر کے نام سے اس کا مختصر حاشیہ لکھا۔
فاضل بریلوی شوال ۱۲۷۲ھ (جون ۱۸۵۶ئ) میں بریلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے والد سے پڑھا اور ۱۲۸۶ھ (۱۸۶۹ئ) میں فارغ التحصیل ہوئے۔ پھر ۱۸۷۷ء (۱۲۹۴ھ) میں مار ہرہ کے سجادہ نشین سید آل رسول صاحب سے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ فاضل بریلوی نے پہلا حج ۱۲۹۳ھ میں کیا اور دوسرا حج ۱۳۲۳ھ (۱۹۰۵ئ) میں کیا۔ (۱)
ـ
(۱) (انوار رضا ص۳۱ ناشر شرکت حنفیہ لمیٹڈ گنج بخش روڈ لاہور)
انہوں نے ترجمہ قرآن پاک جس کا نام کنز الایمان رکھا ۱۹۱۱ء (۱۳۲۰ھ) میں لکھوایا۔ (۱)
نومبر ۱۹۲۱ء ۲۵ صفر ۱۳۴۰ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ (۲)
اعلیٰ حضرت بریلویہ کا یہ ترجمہ قرآن کس طرح عالم وجود میں آیا اس کی تفصیل ان کے سوانح نگار مولانا بدر الدین احمد رضوی کی زبان سے سنیے:
’’صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی اعظمی نے قرآن مجید کے صحیح ترجمہ کی ضرورت پیش کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت سے ترجمہ کر دینے کی گزارش کی، آپ نے وعدہ فرمایا لیکن دوسرے مشاغل دیرینہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی۔ جب حضرت صدر الشریعہ کی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا چونکہ ترجمہ کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اس لیے آپ رات سونے کے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آ جایا کریں۔ چنانچہ حضرت صدر الشریعہ ایک دن کاغذ قلم اور دوات لے کر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہو گیا۔
ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلیٰ حضرت زبانی طور پر آیات کا ترجمہ بولتے جاتے اور صدر الشریعہ اس کو لکھتے جاتے۔ لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا کہ آپ پہلے کتب تفسیر و لغت کو ملاحظہ فرماتے بعدہٗ آیت کے معنی کو سوچتے پھر ترجمہ بیان کرتے بلکہ آپ قرآن مجید کا فی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر اس طرح بولتے جاتے جیسے کوئی پختہ یاد داشت کا حافظ اپنی قوت حافظہ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف روانی سے پڑھتا جاتا ہے۔
پھر جب حضرت صدر الشریعہ اور دیگر علماء حاضرین اعلیٰ حضرت کے ترجمے کا کتب
ـ
(۱) (محاسن کنز الایمان ص۱۸ شائع کردہ مرکزی مجلس رضا لاہور)
(۲) (انوار رضا ص۳۱)
تفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اعلیٰ حضرت کا یہ برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیر معتبرہ کے بالکل مطابق ہے۔ الغرض اسی قلیل وقت میں یہ ترجمہ کا کام ہوتا رہا۔ پھر وہ مبارک ساعت بھی آ گئی کہ حضرت صدر الشریعہ نے اعلیٰ حضرت سے قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کرا لیا اور آپ کی کوشش بلیغ کی بدولت دنیائے سنیت کو کنز الایمان کی دولت عظمیٰ نصیب ہوئی۔ (۱)
آج کل اعلیٰ حضرت کے ترجمہ کے ساتھ شروع اوراق میں بعنوان ’’اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ‘‘ ایک مضمون شامل اشاعت کیا گیا ہے اس میں ایک عنوان ہے ’’قرآن کریم کا تفسیری ترجمہ نہ کر لفظی ترجمہ‘‘ اس میں لکھتے ہیں:
’’اگر قرآن کریم کا لفظی ترجمہ کر دیا جائے تو اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوں گی۔ کہیں شان الوہیت میں بے ادبی ہو گی تو کہیں شان انبیاء میں اور کہیں اسلام کا بنیادی عقیدہ مجروح ہو گا۔
چنانچہ آپ مندرجہ بالا تراجم پر غور کریں تو تمام مترجمین نے قرآنی لفظ کے اعتبار سے براہِ راست اردو ترجمہ صحیح کیا ہے۔ (۲)
ناظرین فرقہ بریلویہ جس ترجمہ کو سب سے صحیح ترین ترجمہ کہتے ہیں ہم مثال کے طور پر اس کی چند غلطیاں آپ کو دکھاتے ہیں:
پہلی آیت :
۱… حسب ذیل تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ خاں صاحب اور صدر الافاضل دونوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وحی الٰہی اور شیطان کی بولی ایک ہو جاتی تھی۔
ـ
(۱) (سوانح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں ص۲۷۴، ۲۷۵)
(۲) (الخ مقدمہ ص۹)
دیکھیں قرآن پاک میں سورہ حج کی آیت ۵۲ رکوع۷ پارہ ۱۷
’’وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ اِلَّا ٓاِذَا تَمَنّٰی‘‘
’’اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول یا نبی بھیجے سب پر کبھی یہ واقعہ گزرا ہے کہ جب انہوں نے پڑھا { اَ لْقَی الشَّیْْطٰنُ فِیْ اُمْنِیَّتِہِ }
تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں لوگوں پر کچھ اپنی طرف سے ملا دیا۔
لا حول ولا قوۃ الا باﷲ
اس کے شان نزول میں صدر الافاضل منظر کشی کرتے ہوئے مزید وضاحت فرماتے ہیں:
’’جب سورہ والنجم نازل ہوئی تو سید عالم a نے مسجد حرام میں اس کی تلاوت فرمائی اور بہت آہستہ آہستہ آیتوں کے درمیان وقفہ فرماتے ہوئے جس سے سننے والے غور بھی کر سکیں اور یاد کرنے والوں کو یاد کرنے میں مدد بھی ملے جب آپ نے آیت وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی پڑھ کر حسب دستور وقفہ فرمایا تو شیطان نے مشرکین کے کان میں اس سے ملا کر دو کلمے ایسے کہہ دیے جن سے بتوں کی تعریف نکلتی تھی۔ جبریل امین نے سید عالمa کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ حال عرض کیا۔ اس سے حضورa کو رنج ہوا۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو تسلی کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔‘‘
اس ترجمہ اور تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی جو مدار ایمان ہے شیطان اس میں ملاوٹ کر سکتا تھا اور وہ معاذ اﷲ کبھی کبھی غیر محفوظ ہو جاتی تھی۔ یا پہلے غیر محفوظ ہوتی تھی پھر اصلاح و نسخ کے بعد وہ درست کی جاتی تھی اور یہ اعتقاد خلاف اسلام عصمت وحی اور حرمت قرآنی کے منافی ہے۔ کیا کنز الایمان پڑھنے والوں کا ایمان سلامت رہے گا اگر یہ جھوٹی روایت لکھنی ہی تھی تو پہلے تفسیر تو صحیح لکھ دی ہوتی۔ پھر لکھ دیتے کہ بعض لوگوں نے یہ روایت بھی بیان کی ہے جو غلط ہے لیکن انہوں نے غلط صحیح کی تمیز کیے بغیر صرف غلط ہی روایت پر مدار رکھا ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ انہیں علم حدیث پر دسترس نہ تھی اور ایسے آدمی کو نہ ترجمہ کرنا چاہیے نہ تفسیر۔
ہم بالکل صحیح بات کہتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کے ترجمہ میں ایسی ایسی خامیاں ہیں کہ جن سے ایمان و اسلام اور وحی الٰہی سب کی عمارت منہدم ہو جاتی ہے۔
مذکورۃ الصدر آیت کو ہی لے لیجیے کس خوبی سے اسلام کی بنیاد انہوں نے اکھاڑ پھینکی ہے کہ پڑھنے والے کی نظر میں تمام انبیاء اور رسولوںj اور جناب رسالت مابaکی وحی کا اعتبار نہ رہے۔
غرض اعلیٰ حضرت کے ترجمہ اور صدر الافاضل کی تفسیر کا ایک فائدہ تو یہی سامنے آیا کہ عصمت و حفاظت وحی کا انہوں نے صفایا کر دیا انہوں نے معاذ اﷲ خدا تعالیٰ کی، فرشتوں کی، تمام انبیاء کی، رسولوں کی، وحی الٰہی کی اور اسلام کی سب کی توہین کی ہے۔ کفریہ اور باطل باتوں کو قرآن اور اس کی تفسیر بنا دیا ہے۔ اب آپ کے اعلیٰ حضرت نے چھوڑا ہی کیا ہے جو آپ اسلام پر قائم ہیں یہ ہے دوسروں کو کافر کہنے کا اوبار!!!
دوسری آیت :
۲… دیکھیے تیئسویں پارہ میں سورہ ص نکالیے اس کے دوسرے رکوع میں ہے:
’’اِنَّ ہٰذَا اَخِیْ لَـــــہٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَۃً وَّلِیَ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ‘‘ (۱)
’’بے شک یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی۔‘‘
ـ
(۱) (پ۲۳، ص آیت:۲۳)
اس کی تفسیر میں صدر الافاضل نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں:
’’یہاں جو صورت مسئلہ ان فرشتوں نے پیش کی اس سے مقصود حضرت دائودk کو توجہ دلانا تھی اس امر کی طرف جو انہیں پیش آیا تھا وہ یہ تھا کہ آپ کی ننانوے بیبیاں تھیں اس کے بعد آپ نے ایک اور عورت کو پیام دے دیا جس کو ایک مسلمان پہلے ہی پیام دے چکا تھا۔ لیکن آپ پیام پہنچنے کے بعد عورت کے اعزہ و اقارب دوسرے کی طرف التفاق کرنے والے کب تھے۔ آپ کے لیے راضی ہو گئے اور آپ سے نکاح ہو گیا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس مسلمان کے ساتھ نکاح ہو چکا تھا آپ نے اس مسلمان سے اپنی رغبت کا اظہار کیا اور چاہا کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے دے وہ آپ کے لحاظ سے منع نہ کر سکا اور اس نے طلاق دے دی آپ کا نکاح ہو گیا۔‘‘
اور دنبی (یعنی آیت میں نعجہ کا لفظ) ایک کنایہ تھا جس سے مراد عورت تھی کیوںکہ ننانوے عورتیں آپ کے پاس ہوتے ہوئے ایک اور عورت کی آپ نے خواہش کی تھی اس لیے دنبی کے پیرایہ میں سوال کیا گیا۔ جب آپ نے یہ سمجھا۔
اب آپ فرمائیے کہ انبیائj کے بارے میں اسرائیلیات کی ایسی مکروہ اور غلط باتیں لکھنے کی جگہ قرآن پاک کا حاشیہ ہی رہ گیا تھا اور کیا ان باتوں سے عصمت انبیاء مجروح نہیں ہوئی۔ اس غلط تفسیر کی تعریف جائز ہے۔ اور ان کی تعریف کی وجہ سے جو مسلمان اس تفسیر کو پڑھے گا وہ گمراہ نہ ہوگا؟
میں اپنے بریلوی حضرات سے گزارش کروں گا کہ وہ اس ترجمہ و تفسیر کی اشاعت بند کر دیں۔ ایمان زیادہ عزیز ہے یا احمد رضا خاں اور نعیم الدین صاحبان؟
پہلی آیت اور تفسیر سے وحی الٰہی کا غیر محفوظ ہونا اور اس دوسری آیت کی تفسیر سے انبیاء کرامj کی عصمت کا صفایا ہو رہا ہے۔ فاضل بریلی احمد رضا خاں صاحب ہوں یا صدر الافاضل نعیم الدین صاحب مراد آبادی۔
معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی نظر احادیث پر نہ تھی۔ جو روایات نظر پڑیں چاہے وہ اسرائیلیات (یہودیوں کی بنائی ہوئی روایتیں اور ان کے یہاں معروف زبان زد قصے) ہی ہوں تفسیر میں درج کر ڈالیں۔ اگر حدیث پر نظر ہوتی تو پہلے صحیح تفسیر لکھتے پھر غلط تفسیر کی نشان دہی کرتے لیکن انہوں نے غلط تفسیر ہی پر بنیاد قائم کر ڈالی۔
وحی الٰہی اور شان انبیاء پر اس ترجمہ و تفسیر سے جو زد پڑتی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
تیسری آیت :
۳… ایک نمونہ اور ملاحظہ فرما لیجیے جس سے عصمت صحابہ کرامn مجروح ہوتی ہے۔
اٹھائیسویں پارہ کی آخری سورہ التحریم نکالیے اس کی چوتھی آیت ہے:
’’اِنْ تَتُوبَا اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا‘‘ (۱)
’’نبی کی دونوں بیبیو! اگر اﷲ کی طرف تم رجوع کرو تو ضرور تمہارے دل راہ سے کچھ ہٹ گئے ہیں۔‘‘ (ترجمہ اعلیٰ حضرت)
اعلیٰ حضرت نے یہ ترجمہ قرآن کی روح سمیت ترجمہ کیا ہے، حالانکہ ازواج مطہرات خصوصاً حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہo کی عظمت ملحوظ رکھتے ہوئے ’’فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا‘‘ کا ترجمہ ایسا کرنا چاہیے تھا جس میں یہ مفہوم ادا ہوتا کہ ضرور تمہارے دل توبہ کی طرف اور رسول اﷲa کی طرف مائل ہو گئے ہیں۔ یہی ترجمہ ان کی عظمت شان کے مناسب ہے۔ کیوںکہ وہ دنیا اور آخرت میں آپ کی ازواج مطہرات
ـ
(۱) (پ۲۸ رکوع۱۹ آیت۴)
ہیں اور ہم ازواج کے ساتھ ’’مطہرات‘‘ (یعنی خدا کی طرف سے پاکیزہ بنائی ہوئیں) کا لفظ بھی لگاتے ہیں۔ مگر اعلیٰ حضرت نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ حضرت عائشہ و حضرت حفصہo کے مناسب شان ترجمہ وہ ہے جو حضرت شیخ الہند اور ان کے ساتھیوں نے کیا ہے۔ ترجمہ شیخ الہند ملاحظہ فرمائیں:
{اِنْ تَتُوبَا اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا}
’’اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو تو جھک پڑے ہیں دل تمہارے‘‘
یعنی اب اگر توبہ کرتی ہو تو یقینا تمہارے دل توبہ کی طرف مائل ہو گئے ہیں قرآن کریم کے لفظی ترجمہ سے تو یہ اچھی بات بن رہی ہے۔ اور اعلیٰ حضرت نے جو اپنی طرف سے اپنے ترجمہ میں ’’راہ سے‘‘ اور ’’کچھ‘‘ کے الفاظ بڑھائے ان سے معنی خراب ہو رہے ہیں۔ اور یہاں بھی اعلیٰ حضرت نے ترجمہ میں تفسیر کو داخل کر کے ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ فاضل بریلوی کے ترجمہ میں ایسی باتیں جا بجا بھری پڑی ہیں۔ تو یہ ترجمہ کیسے افضل ہوا؟ حقیقتاً ایسا ترجمہ خلاف دیانت و تقویٰ ہے اور عوام کے لیے گمراہیوں کا سبب ہے کیوںکہ ایک عام آدمی اعلیٰ حضرت کی بڑھائی ہوئی عبارت کو بھی یہی کہے گا کہ ’’قرآن پاک میں آیا ہے۔‘‘ حالانکہ وہ خود خاں صاحب کے الفاظ ہوںگے، قرآنی الفاظ مبارکہ کا ترجمہ نہ ہو گا۔
حاشیہ دیکھیں تو صدر الافاضل نے اس قصہ کو مزے لے لے کر بیان کیا ہے کہ سید عالم a حضرت ام المومنین حفصہm کے محل میں رونق افروز ہوئے وہ حضور a کی اجازت سے اپنے والد حضرت عمرl کی عیادت کے لیے تشریف لے گئیں۔ حضور a نے حضرت ماریہ قبطیہ کو سرفرازِ خدمت کیا، یہ حضرت حفصہm پر گراں گزرا۔ حضور a نے ان کی دل جوئی کے لیے فرمایا کہ میں نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کیا اور میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ میرے بعد اُمورِ امت کے مالک ابو بکر و عمرo ہوں گے۔ وہ اس سے خوش ہو گئیں اور نہایت خوشی میں انہوں نے یہ تمام گفتگو حضرت عائشہm کو سنائی۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (۱)
بخاری شریف میں ان آیات کی شان نزول کا اور واقعہ آیا ہے وہ انہوں نے موخر کر دیا اور اسے خوب دلچسپ بنا کر پیش کیا، ہماری معلومات کے مطابق اعلیٰ حضرت نے تو باقاعدہ حدیث کی کتابیں پڑھی ہی نہ تھیں۔ زیارت حرمین شریفین کے موقعہ پر کچھ اکابر کو چند حدیثیں سنا کر ان سے سند حدیث لے لی تھی۔ لیکن صدر الافاضل نعیم الدین صاحب نے تو باقاعدہ حدیث شریف کی کتابیں پڑھی تھیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ صدر الافاضل کا حضور انورa کے دولت کدہ کے لیے عرفی محل کا لفظ لانا پھر اس میں حضرت ماریہm والی روایت سے دلچسپی اور اعلیٰ حضرت کا قلوب ازواج مطہرات کے لیے راہ سے ہٹنے کا جملہ استعمال کرنا ایک خاص بے راہ روی کا پتہ دیتا ہے۔ جس میں اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلی مبتلا تھے اور اس رو میں نعیم الدین صاحب بھی بہہ گئے فاضل بریلوی نے اس کا اظہار ذرا کھل کر ’’حدائق بخشش‘‘ حصہ سوم میں مدح حضرت عائشہ صدیقہm کے عنوان کی آڑ میں کیا ہے اس خرابی نے اشعار ذیل کی شکل اختیار کر لی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
حضرت عائشہm کی شان میں گستاخی:
تنگ و چست ان لباس اور وہ جوبن کا ابھار
مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک لے کر
ـ
(۱) (دیکھیں سورہ التحریم، فائدہ آیت نمبر۱ پ۲۸)
یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن مرے دل کی صورت
کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و بر
خوف کشتی ابرو نہ بنے طوفانی
کہ چلا آتا ہے حسن اہلہ کی صورت بن کر
خامہ کس قصد سے اٹھا تھا کہاں جا پہنچا
راہ نزدیک سے ہو جانبِ نشیب سفر (۱)
محترم بریلوی احباب! آپ حضرات نے جنہیں مقتدا بنانا چاہا ہے ذرا ان پر غیر جانبدرانہ نظر بھی ڈالیے ان کے ذہین کا اندازہ کیجیے ایسا شخص کس ذہن کا مالک ہو گا جو اپنی ماں کے بارے میں ایسے افکار رکھے اور ایسی شاعری کرے۔
آپ کے سامنے عصمت و حفاظت وحی پر سیرت انبیاء اور پھر سیرت ازواج مطہرات پر ضربہاء کاری کا بیان آ چکا ہے کہ اس ترجمہ اعلیٰ حضرت و تفسیر صدر الافاضل سے ان پر کیا کیا معاذ اﷲ زد پڑتی ہے۔
چوتھی آیت :
۴… اب ایک ایسی مثال پیش کرتا ہوں جس سے معاذ اﷲ عظمت قرآن کریم مجروح ہوتی ہے۔
پارہ ۲۹ نکالیے اس میں دوسری سورہ نٓ ہے جس کا نام سورۃ القلم ہے۔ اس کے پہلے رکوع میں ایک کافر کے بارے میں آیت ہے:
عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ (۲)
ـ
(۱) (حدائق بخشش حصہ سوم ص۳۷ سطر۸، ۹، ۱۰، ۱۱ شائع کردہ کتاب خانہ اہل سنت جامع ریاست پٹیالہ مطبوعہ نابھ سٹیم پریس نابھ)
(۲) (پ۲۹ رکوع۳)
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
’’درشت خو۔ اس سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا‘‘
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے صدر الافاضل فائدہ میں لکھتے ہیں:
یعنی بد گو ہر تو اس سے افعال خبیثہ کا صدور کیا عجب ہے۔ مروی ہے کہ جب آیت نازل ہوئی۔ تو ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر کہا (محمدa) نے میرے حق میں دس باتیں فرمائیں ہیں نو کو تو میں جانتا ہوں کہ مجھ میں موجود ہیں لیکن دسویں بات اصل میں یہ خطا ہونے کی اس کا حال مجھے معلوم نہیں یا تو مجھے سچ سچ بتا دے ورنہ میں تیری گردن مار دوں گا۔ اس پر اس کی ماں نے کہا کہ تیرا باپ نامرد تھا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ مر جائے گا تو اس کا مال غیر لے جائیں گے تو میں نے ایک چرواہے کو بلایا تو اس سے ہے۔
ترجمہ نگار اور حاشیہ نگار دونوں نے ایسی بات کو ترجیح دی ہے جو برائی کی طرف جائے اور جو کسی کو حرام زادہ کہے وہ اس آیت سے اپنے لیے جواز پیدا کرے۔
یہاں بھی اعلیٰ حضرت کی پیروی میں صدر الافاضل نعیم الدین صاحب کمزور روایات کو اصل قرار دے کر تفسیر لکھ دی ہے حالانکہ زنیم کے بارے میں امام بخاریe نے کتاب التفسیر میں نقل فرمایا ہے۔
قَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ لَہُ زَنَمَۃٌ مِثْلُ زَنَمَۃِ الشَّاۃِ (۱)
’’یعنی حضرت ابن عباسo نے فرمایا کہ قریش کے ایک شخص کا کان ایسا تھا جیسا بکری کا کٹا ہوا کان ہو۔‘‘
زمانہ جاہلیت میں اونٹ کے کان کا بھی کچھ حصہ کاٹ دیا جاتا تھا وہ لٹکا رہتا تھا اسے زنمۃ الابل کہتے تھے۔ یہ کون شخص تھا اس کے بارے میں کوئی معین بات ثابت نہیں ہے کہ وہ ولید تھا یا ابو جہل یا اسود بن یغوث یا اخنس بن شریق۔ (۲)
ـ
(۱) (بخاری ج۲ ص۷۳۱) (۲) (بخاری حاشیہ ۸ ص۷۳۱)
اب آپ اندازہ کریں کہ آغاز سورت میں تو جناب رسالت مابa کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے کہ انک لعلی خلق عظیم جس کا ترجمہ اعلیٰ حضرت نے ڈپنی نذیر احمد کے انداز میں یہ فرمایا:
’’اور بے شک تمہاری خو بو بڑی شان کی ہے۔‘‘
اور خود آقائے نامدارﷺ اپنے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ بلند ترین اخلاق مکمل کر کے دکھائوں۔
دیگر صحابہn اور حضرت عائشہm فرماتی ہیں کہ ’’آپa فحش باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘
یہاں قرآن پاک میں فوراً ہی زنیم گالی (حرام زادہ) کے معنی پر استعمال کرنا کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ تو صرف اعلیٰ حضرت کی دقت نظر یا ذوق سب و شتم کا نتیجہ ہے کہ ترجمہ قرآن تک میں ایسے الفاظ کو داخل کر دیا جس سے گالی کا جواز نکل سکے۔
اعلیٰ حضرت کے ترجمہ اور صدر الافاضل کی تفسیر میں بہت بڑی خامی یہ ہے کہ دونوں حضرات غلط اور کمزور روایات پر بنیاد کھڑی کر دیتے ہیں۔
محدثین و مفسرین کے نزدیک جب کوئی روایت کمزور ہوتی ہے تو وہ اسے یروٰی روایت کی گئی ہے جیسے الفاظ سے ذکر کرتے ہیں۔ اور اگر اس سے بھی زیادہ کمزور ہو تو اسے قیل ’’کہا گیا ہے‘‘ کے لفظ سے ذکر کرتے ہیں۔ ہمیں اس ترجمہ و تفسیر میں جا بجا یہ خامی نظر آتی ہے کہ دونوں حضرات قیل کے لفظ سے بتلائی بات کو بھی جہاں ان کی مرضی ہو بے دھڑک مستند بنا کر لکھ دیتے ہیں۔ اب پڑھنے والا اگر خود عالم نہ ہو گا ترجمہ قرآن پاک اور تفسیر سے یہ سمجھے گا کہ یہ بات قرآن پاک میں آئی ہے اور قرآن پاک سے ثابت ہے حالانکہ وہ بے حقیقت ہو گی۔
عَلَّمَہُ الْبَیان کے ترجمہ میں تصرف:
جیسے انہوں نے سورہ الرحمن میں عَلَّمَہُ الْبَیان کے ترجمہ میں تصرف کیا ہے کہ البیان سے مراد ما کان و ما یکون کا بیان مراد ہے؟ یہ تفسیر اسلاف میں سے کس نے کی ہے اور کیا سند ہے؟ اس سے انہیں کوئی بحث نہیں ترجمہ پڑھنے والا اگر غور کرے گا تو سمجھ جائے گا کہ بیان کے یہ معنی فاضل بریلوی نے اپنے خاص نقطہ نظر سے کیے ہیں۔ ورنہ سمجھے گا کہ جناب رسالت مابa کا ماکان و مایکون کا عالم ہونا قرآن میں آیا ہے۔
پانچویں آیت :
۵… ابھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ یہ ترجمہ فاضل بریلوی نے دوپہر کو سونے کے وقت اور رات کو سوتے وقت لکھوایا ہے اس لیے اس میں ایسی ایسی غلطیاں ہیں کہ جو آپ کے تصور سے بھی باہر ہیں مثلاً انہوں نے پہلے پارہ کے آخری صفحہ پر آیت نمبر۱۳۹ میں صبغۃ اﷲ کے ترجمہ میں غلطی کی ہے انہوں نے ترجمہ کیا ہے ’’اﷲ کی رینی‘‘ جب کہ رینی سونے کی سلاخ کو کہتے ہیں بریلی اور رام پور کے سنار یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ صبغۃ اﷲ کے معنی ہیں ’’اﷲ کا رنگ‘‘ یہ نامعلوم انہیں کیا ہوا تھا سو گئے تھے اونگھ رہے تھے یا کسی خیال میں تھے کہ یہ لکھا گیا پھر لکھنے والے صاحب صدر الشریعہ امجد علی صاحب کو کیا ہو گیا تھا کہ انہوں نے ان سے رجوع نہیں کیا یا تو یہ غلطی نیند کی وجہ سے ہوئی ہے یا پھر اس وجہ سے ہوئی ہے کہ نہ قرآن پاک فاضل بریلوی کو یاد تھا نہ صدر الشریعہ کو اور وہ صِبْغَہ کو صِیْغَہ (ڈھالنے کی چیز یا ڈھلا ہوا) پڑھ گئے اور اسی کا ترجمہ کرا ڈالا یہی ترجمہ ہر جگہ چل رہا ہے۔ ولا حول ولا قوۃ الا باﷲاس لیے اس ترجمہ کے مطالعہ سے پرہیز لازم ہے۔ خصوصاً عام مسلمانوں کو شاید اسی کمزوری کے باعث ۱۹۱۱ء سے لے کر اب تک احمد رضا خاں صاحب کا ترجمہ زاویہ خموں میں رہا۔ اسے خود بریلوی مکتب فکر کے لوگوں میں بھی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی حتی کہ اب کہیں سے بے تحاشہ روپیہ حاصل ہو گیا ہے۔ تو اس کی اشاعت ہوئی۔ مفت تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اور اس پر تقابلی جائزے لکھے گئے اور ہمیں بھی اس پر تبصرہ لکھنا پڑا۔
اعظمی صاحب کے تقابلی جائزہ میں خیانت:
فاضل بریلوی کے مترجم قرآن پاک پر مقدمہ نگار اعظمی صاحب نے ’’تراجم کے تقابلی جائزہ‘‘ میں یہ آیت لکھی ہے:
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآء ہُم مِّنْ ۰بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ٭ (۱)
اور کبھی تو چاہا ان کی پسند پر بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا تو تیرا کوئی نہیں کوئی اﷲ کے ہاتھ سے حمایت کرنے والا نہ مدد گار۔ (شاہ عبدالقادر)
ناظرین کرام دیکھئے کیا یہ اس آیت کا ترجمہ ہو سکتا ہے؟ دراصل رضاء المصطفیٰ اعظمی(۲) صاحب احمد رضا خاں صاحب کو بڑھانے کے لیے ان اکابر (شاہ ولی اﷲ صاحب، شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحبf) پر تنقید کرنے کی جلدی میں تھے۔ انہوں نے پ۱، رکوع۱۴ کی آیت۱۲۰ کا ترجمہ لکھ دیا اور آیت دوسرے پارہ کی لکھ دی، صحیح آیت یہ ہے:
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآئَ ہُم بَعْدَ الَّذِیْ جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ٭ اور اس کا ترجمہ وہ ہے جو اوپر درج ہے۔
اعظمی صاحب لکھتے ہیں :
ـ
(۱) (پ۲، سورۃ بقرہ، آیت:۱۴۵)
(۲) یہ صدر الشریعہ کے بیٹے ہیں اور کراچی کی میمن مسجد کے خطیب ہیں۔
’’نبی معصوم جن کی نسبت سے قرآن کے صفحات بھرے ہیں جو طہ، یٰسین، مزمل، مدثر جیسے القاب و آداب دیے گئے اچانک اس قدر زجر و توبیخ کے کلمات سے اﷲ تعالیٰ ان کو مخاطب کرے سیاق و سباق سے بھی کسی تہدید کا پتہ نہیں چلتا۔ لہٰذا مترجم کو چاہیے کہ کھوج لگائے نہ یہ کہ براہِ راست کلمات کا ترجمہ کر دے جو بات ان کی عصمت کے خلاف ہے وہ کیسے امکانی طور پر ان کی طرف منسوب کی جا سکتی ہے؟‘‘
پھر لکھتے ہیں:
’’تراجم مذکور میں بعض مترجمین نے خاص حاشیہ آرائی کی ہے مگر کسی مترجم کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ غور کرے کہ ڈانٹ ڈپٹ کے الفاظ حضور کی شان میں کیوں کہے جا رہے ہیں۔‘‘
چھٹی آیت:
جناب ذرا اس غصہ کا رخ اعلیٰ حضرت کی طرف بھی کیجیے انہوں نے بھی اسی مضمون کی آیت کا ایسا ہی ترجمہ کیا ہے۔
اِذاً لَّا َ ذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَکَ عَلَیْْنَا نَصِیْرًا٭ (۱)
’’اور ایسا ہوتا تو ہم تم کو دونی عمر اور دو چند موت (کے عذاب) کا مزہ دیتے پھر تم ہمارے مقابل کوئی مدد گار نہ پاتے۔‘‘ (۲)
ناظرین کرام اعظمی صاحب کا وایلا دکھاوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بریلوی علماء دعوے میں آگے اور علم و عمل میں بہت پیچھے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے دعوے کی طرح یہ دکھاوے کے بھی عادی ہیں اور سستی شہرت حاصل کرنے کا موقع نہیں جانے دیتے۔
ـ
(۱) (پ۱۵، رکوع۸، سورہ بنی اسرائیل:۷۵)
(۲) (ترجمہ اعلیٰ حضرت بریلویہ بین القوسین صدر الافاضل بریلویہ نعیم الدین صاحب)
اس بہانے سے کہ ہم نے قرآن پاک کا لفظی ترجمہ نہیں کیا تفسیری ترجمہ کیا ہے۔ انہوں نے دین اسلام میں تحریف کی کوشش کی ہے۔ خانہ ساز اختلافات کو قرآن پاک میں جگہ دی ہے اور اس کے مطالب کو بگاڑا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ان دلوں میں خوف آخرت نہیں ہے ورنہ ترجمہ قرآن پاک میں اپنی طرف سے زیادتی اور رد و بدل کی کیسے جرأت کر سکتے تھے اور کون مسلمان ایسی جرأت کر سکتا ہے۔
بات یہ چل رہی تھی کہ بریلوی علماء نے جو دل کھول کر وضاحتی ترجمہ کیا ہے اور اعظمی صاحب نے مذکور آیت کی مثال دے کر بتلایا ہے کہ احمد رضا کا ترجمہ ایسے الفاظ سے پاک ہے۔ احمد رضا نے خوب سوچ سمجھ کر سیاق و سباق دیکھ کر اور کتابوں کا مطالعہ کر کے ترجمہ لکھوایا ہے۔ اور قرآن پاک کے اگر کسی لفظ کا سخت ترجمہ بنتا بھی ہے تو اسے تفسیری ترجمہ میں لا کر نرم کر دیا گیا ہے اور اس کا بدل لایا گیا ہے یا ایسے الفاظ بڑھا دیے گئے ہیں جن سے کلام الٰہی کے مخاطب نبیa نہ رہیں بلکہ اور مخاطبین کی طرف خطاب کا رخ بدل جائے۔(خلاصہ)
اعظمی صاحب نے اور اسی طرح دوسرے بریلوی علماء نے اپنی جماعت کے علاوہ دیگر ترجمہ قرآن پر اعتراض کرنے کے لیے بعض آیات کو پیش کیا ہے مثلاً دوسرے لوگوں نے اِسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ اور لِیَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ کے لفظی ترجمہ پر اعتراض کیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے علاج کے لیے ان کے مابہ الفخر ترجمہ اعلیٰ حضرت اور مایہ ناز تفسیر صدر الافاضل کے کچھ نمونے ایسے بد زبانوں کے لیے سامنے رکھ دیئے جائیں تاکہ ان کے محض زبانی دعوئوں کی حقیقت سامنے آ جائے۔
ساتویں آیت:
پہلے پارہ کی آیت۳۵ میں ہے کہ حضرت آدم و حواi سے فرمایا گیا:
وَلاَ تَقْرَبَا ہٰـذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَــکُوْنَا مِنَ الْظّٰلِمِیْنَ٭ (۱)
مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جائو گے۔
(اعلیٰ حضرت نے ترجمہ میں مگر کا لفظ بڑھا دیا ہے حالانکہ نظم قرآن میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے فقط وائو ہے)
اس کے حاشیہ پر ص۹ میں صدر الافاضل نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں:
’’ظلم کے معنی ہیں کسی شے کو بے محل وضع کرنا یہ ممنوع ہے اور انبیاء معصوم ہیں ان سے گناہ سرزد نہیں ہوتا یہاں ظلم خلاف اولیٰ کے معنی میں ہے۔
مسئلہ:
انبیائj کو ظالم کہنا اہانت و کفر ہے جو کہے وہ کافر ہو جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ مالک و مولیٰ ہے جو چاہے فرمائے اس میں ان کی عزت ہے۔
آٹھویں آیت:
اس سے اگلی آیت ہے:
فَاَزَلَّہُمَا الشَّیْْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ (۲)
تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کر دیا۔ (ترجمہ احمد رضا)
اس کے حاشیہ پر ص۱۰ میں صدر الافاضل لکھتے ہیں:
’’حضرت آدمk کو خیال ہوا کہ لاتقربا کی نہی تتر یہی ہے تحریمی نہیں کیوںکہ اگر وہ
ـ
(۱) (پ۱ رکوع۴)
(۲) (پ۱ رکوع۴)
تحریمی سمجھتے تو ہر گز ایسا نہ کرتے کہ انبیائj معصوم ہوتے ہیں۔ یہاں حضرت آدمk سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطاء اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔‘‘
حسب ذیل دو آیات کے تراجم پر ضیاء کنز الایمان اور محاسن کنز الایمان میں بحث کی گئی ہے اور قاری رضاء المصطفیٰ صاحب نے مقدمہ قرآن پاک میں بہت شور مچایا ہے اور خوب بدزبانی کی ہے۔ حالانکہ دوسرے لوگوں نے جو ترجمہ اور اس کے ساتھ تفسیر کی ہے اس کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ اگر آپ تاویل کرتے ہیں تو دوسرے کو بھی یہ حق ہونا چاہیے۔ ملاحظہ فرمائیں ہمارے اکابر کا ترجمہ و تفسیر ان آیات کا۔
الف: اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا٭ لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَــــہٗ عَلَــیْْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا٭ وَیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا٭
ترجمہ حضرت شیخ الہند: ہم نے فیصلہ کر دیا تیرے واسطے صریح فیصلہ تاکہ معاف کرے تجھ کو اﷲ جو آگے ہو چکے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے اور پورا کر دے تجھ پر اپنا احسان اور چلائے تجھ کو سیدھی راہ اور مدد کرے اﷲ تیری زبردست مدد۔
ب: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ (۱)
ترجمہ شیخ الہند: اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اور ایمان دار مردوں اور عورتوں کے لیے۔
اس کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
ہر ایک کاذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے مطابق ہوتا ہے، کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدود و جواز و استحسان میں ہو بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ کو سمجھا جاتا ہے۔ حسنات الابرار سیئات المقربین کے یہی معنی ہیں۔ (۲)
ـ
(۱) (پ۲۶، رکوع۶، سورہ محمد) (۲) (پ۲۶، رکوع۶، ص۶۵۹، حاشیہ ۱۳)
شیخ عبدالحق صاحب محدثe نے لکھا ہے: توجیہ مشہور انیست کو حسنات الابرار سیئات المقربین اشعتہ اللمعات ص۱۲۸ باب الاع lang=span style=quot;;text-align: justify; line-height: 150%; direction: rtl; unicode-bidi: embed;text-align: justify; line-height: 150%; direction: rtl; unicode-bidi: embed;quot;;quot;; mso-bidi-language: FA;تصام بالکتاب والسنۃ فصل اول شرح حدیث انس متفق علیہ اور لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ کے بارے میں علامہ عثمانی لکھتے ہیں کہ ہمیشہ سے ہمیشہ تک کی سب کوتاہیاں جو آپ کے مرتبہ رفیع کے اعتبار سے کوتاہی سمجھی جائیں بالکلیہ معاف ہیں۔ (۱)
آپ کے سامنے صدر الافاضل کی عبارتیں بھی ہیں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ مالک و مولیٰ ہے جو چاہے فرمائے اس میں ان کی عزت ہے۔‘‘
صدر الافاضل کی یہ بات مانئے یا لفظی تراجم کی عیب جوئی سے توبہ کیجیے۔
نویں آیت:
فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہِ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ (۲)
’’پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات تو اﷲ نے اس کی توبہ قبول کر لی۔‘‘ (ترجمہ اعلیٰ حضرت)
اس کے حاشیے پر صدر الافاضل ص۱ میں لکھتے ہیں:
’’طبرانی و حاکم و ابونعیم و بیہقی نے حضرت علی المرتضیٰl سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جب حضرت آدمk پر عتاب ہوا۔ الخ‘‘
پہلے نمبر۲ میں ہم نے صدر الافاضل کا حاشیہ نقل کیا ہے کہ وہ لکھتے ہیں حضرت آدمk کو خیال ہوا ہو کہ لاتقربا کی نہی تنزیہی ہے اور یہاں ’’عتاب‘‘ کا صریح لفظ لکھا اور فاضل بریلوی نے بھی اپنے فتاویٰ میں مکروہ تنزیہی کی یہی تعریف لکھی ہے کہ جس کام کا کرنا مطلقاً
ـ
(۱) (پ۲۶ سورہ انا فتحنا)
(۲) (پ۱، رکوع۴)
موجب استحقاق عتاب ہو۔ (۱)
بریلوی حضرات کے حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی نے بھی اپنی تفسیر میں سیدنا آدمk کی شان میں ’’عتاب‘‘ اور ’’خطائ‘‘ کے لفظ استعمال کیے ہیں وہ لکھتے ہیں:
’’اس خطا سے رب تعالیٰ کی بندہ نوازی بندہ پروری ان سے بند نہ ہوئی۔‘‘ (۲)
اور اسی صفحہ پر سطر نمبر۱۱ میں ہے ’’یہاں پوچھ گچھ عتاب کی ہے۔‘‘ پھر سطر نمبر۱۴، ۱۵ میں ہے ’’اولاً تو کھا لینے دیا پھر یہ عتاب فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس عتاب و خطاب میں صدہا راز ہیں۔‘‘ پھر سب انبیاء کرام کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’حضرات انبیاء کی خطائیں بھی رب کی طرف سے ہوتی ہیں۔‘‘
دسویں آیت :
مولوی احمد رضا صاحب نے بالقصد جان بوجھ کر قرآن کریم میں چار جگہ لفظ وکیل کا ترجمہ مجہول وغیر معروف الفاظ میں کیا تاکہ ان کے ماننے والے کچھ سمجھ نہ سکیں۔ گویا جناب قرآن کریم کے مطلب، مقصد و مفہوم کو چھپانے کے مرتکب ہوئے۔
قرآن کریم میں لفظ ’’وکیل‘‘ تقریباً ۲۴ جگہ آیا ہے۔ مولوی احمد رضا صاحب نے بیس جگہ یہ ترجمہ کیا:
’’اﷲ کار ساز ہے۔‘‘ (۶ بار)، ’’ذمہ دار ہے‘‘ (۴ بار)، ’’کام بنانے والا ہے‘‘ (۲ بار)، ’’وکیل ہے‘‘ (۲ بار)، ’’نگہبان ہے‘‘ (۱ بار)، ’’نگہبانی کا ذمہ دار ہے‘‘ (۱ بار)، ’’ہر چیز پر محافظ ہے‘‘ (۱ بار)، ’’مختار ہے‘‘ (۱ بار)، ’’اس کے علاوہ کوئی حمایتی نہیں‘‘ (۱ بار)
ـ
(۱) (اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام ص۱۲، بحوالہ فتاویٰ رضویہ ج۱، از ص۱۷۳ تا ۱۷۵)
(۲) (تفسیر نعیمی ج۸ ص۴۱۱ سطر۷)
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
معلوم ہوا مولوی صاحب ’’وکیل‘‘ کا مطلب خوب سمجھتے تھے۔ دراصل ایکال، موکول توکل کے معنی یہ بھروسہ کرنا، اعتماد کرنا، اپنے کو سپرد کرنا اور سونپنا ہے۔ جب کہ وکیل کے معنی جس پر بھروسہ کیا جائے۔ عاجز انسان اپنا سب کچھ اس کے سپرد کر دے وہ اسے مکمل کفایت بھی کرتا ہے۔
قرآن کریم میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ وحدہ لاشریک خالق کائنات رب العالمین پر مکمل اعتماد، بھروسہ کیا جائے۔ ہر بھلائی و برائی، راحت و مصیبت سب اﷲ ہی کی طرف سے ہے۔ کارخانہ عالم میں اسی کا اور صرف اسی کا حکم چلتا ہے۔ وہ کارساز ہے، ذمہ دار ہے، کام بنانے والا ہے، وکیل ہے، نگہبان ہے، محافظ ہے، مالک و مختار ہے۔ معلوم ہوا اسلام نے ببانگ دہل انانیت کی خود اعتمادی کے بجائے خدا اعتمادی کا حکم دیا ہے۔
نوحk کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو لوگ ان کے بعد ہوئے۔ حضورa کی امت تک ان کی تعداد کہ وہ کتنے تھے کوئی نہیں جانتا۔ انہیں صرف اﷲ جانتا ہے۔ ان کے رسولوں نے اپنی اپنی امتوں سے کہا کہ ہم تو تمہاری طرح بشر ہیں، انسان ہیں، آدمی ہیں، یعنی خدا کی خدائی میں انسانوں کی طرح محتاج و فقیر ہیں۔ ہمارا کام نہیں، ہمارے قبضہ و اختیار میں نہیں کہ بنا حکم خداوندی کوئی معجزہ دلیل لا سکیں۔ ہم اﷲ پر بھروسہ اعتماد کیوں نہ کریں؟ ایمان والوں کو تو اﷲ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (۱)
ہمارے سامنے ابراہیمk کا نمونہ پیش کیا گیا کہ ان کے عزیز و اقارب سب چھوٹ گئے اور ان کے درمیان بغض و عداوت کی آگ دہک گئی۔ ابراہیمk نے کہا ’’مجھے خدا کے کام میں کوئی اختیار نہیں۔ اے ہمارے پروردگار! ہم نے تو تجھی پر بھروسہ کیا ہے۔ وَمَا
ـ
(۱) (سورہ ابراہیم:۹۔۱۲)
اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْْئٍ رَّبَّنَا عَلَیْْکَ تَوَکَّلْنَا (۱)
یعقوبk نے کہا: کارساز حقیقی تو خدا ہے، تدبیروں سے خدا کا حکم نہیں ٹلتا، اس لیے تدبیروں پر نہیں خدا کی کارسازی پر بھروسہ ہے۔‘‘ عَلَیْْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُونَ٭ (۲)
موسیٰk نے فرعونی لائو لشکر و قوت کے مقابلہ میں بنی اسرائیل سے کہا: ’’اسی خدا پر بھروسہ رکھو! قوم نے کہا: ہم نے تو خدا پر ہی بھروسہ کیا ہے۔‘‘
فَعَلَیْْہِ تَوَکَّلُواْ اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ٭ فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا (۳)
اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہُ (۴)
موسیٰk نے کہا: ’’بے شک اﷲ اسے جلدی باطل اور درہم برہم کر دے گا۔‘‘
خود حضور سرور انبیائb کو حکم ہوا کہ کسی کی سازش کی پروا نہ کرو، خدا پر بھروسہ رکھو۔
فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَکَفَی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً (۵)
اور اسی کو کار ساز بنائو… فَاتَّخِذْہٗ وَکِیْلاً… (۶)
یہی وہ خدا اعتمادی و خدا سپردگی تھی کہ بدر و احد، خندق و حنین کی سرخ و سفید آندھیوں میں آپ نے اپنے عزیز و اقارب، اپنے اصحاب کو، سواروں کو، تیر اندازوں کو، تیغ آزمائوں اور بنفس نفیس خود اپنے آپ کو اﷲ کے سپرد کر دیا۔ آخر اﷲ پر توکل و اعتماد کی اس سے بہتر اور
ـ
(۱) (ممتحنہ:۴)
(۲) (یوسف:۶۷)
(۳) (یونس:۸۴، ۸۵)
(۴) (یونس:۸۱)
(۵) (النسائ:۸۱)
(۶) (مزمل:۹)
کیا مثال ہو سکتی ہے۔ جزی اﷲ عنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم
لیکن اسی اﷲ نے اسی قرآن میں حضورa کو یہ بھی حکم دیا کہ یہ کہو:
قُل لَّسْتُ عَلَیْْکُمْ بِوَکِیْلٍ (۱)
’’کہو کہ میں تم پر وکیل ’’ذمہ دار‘‘ نہیں‘‘
وَمَا اَنْتَ عَلَیْْکُمْ بِوَکِیْلٍ (۲)
’’کہو کہ میں تم پر وکیل ’’مختار و نگہبان‘‘ نہیں‘‘
وَمَا اَنْتَ عَلَیْْہِمْ بِوَکِیْلٍ (۳)
’’تم ان پر وکیل ’’ذمہ دار و کارساز‘‘ نہیں‘‘
وَمَا اَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمْ وَکِیْلاً (۴)
’’ہم نے تم کو ان پر وکیل ’’ذمہ دار حمایتی نہیں بنایا‘‘
ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ نفع و نقصان، حق کی پیروی پر ہے۔ آپa کسی کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں، اگر اﷲ کو منظور ہو تو کوئی بھی انسان شرک نہ کرے، نہ آپ کسی پر مسلط ہیں، نہ آپ حفیظ، نگہبان ہیں اور نہ ہی آپa ان پر مختار ہیں۔
مگر افسوس صد افسوس مولوی احمد رضا صاحب نے ایک دین کی بنیاد رکھی۔ جس میں اولیاء کو کن فیکونی اختیارات حاصل ہیں۔ حضور a کو الوہیت کے سوا تمام اختیارات کی عطا ہے۔ جس دین میں اﷲ پر توکل و اعتماد پر شاطرانہ ضرب ہے۔ جس دین میں خدا
ـ
(۱) (انعام:۶۶)
(۲) (یونس:۱۰۸)
(۳) (انعام:۱۰۷)
(۴) (اسریٰ:۵۴)
اعتمادی، خدا پرستی، خدا سپردگی چھوڑ کر اولیاء پرستی کی دعوت ہو، اس خود ساختہ دین و مذہب کے لیے یہ آیات تازیانہ تھیں، اس لیے خاں صاحب نے ان آیات کا یہ ترجمہ کیا…
قُل لَّسْتُ عَلَیْْکُمْ بِوَکِیْلٍ ’’تم فرمائو میں تم کچھ کڑوڑا نہیں‘‘ (۱)
وَمَا اَنْتَ عَلَیْْکُمْ بِوَکِیْلٍ ’’اور کچھ میں کڑوڑا نہیں‘‘ (۲)
وَمَا اَنْتَ عَلَیْْہِمْ بِوَکِیْلٍ ’’اور تم ان پر کڑوڑا نہیں‘‘ (۳)
وَمَا اَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمْ وَکِیْلاً ’’اور ہم نے تم کو ان پر کڑوڑا بنا کر نہیں بھیجا‘‘ (۴)
احمد رضا نے ترجمہ قرآن میں لفظ کڑوڑا جو استعمال کیا ہے۔ آخر یہ ’’کڑوڑا‘‘ ہے کیا؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟
’’کڑوڑا … بڑا عہدے دار جس کے ماتحت اور بھی عہدے دار ہوں، وہ شخص جو اور حاکموں پر حاکم ہو۔‘‘
قول فیصل: صاحب فرہنگ اثر لکھتے ہیں:… یہ عورتوں کی زبان ہے، اس شخص کو کہتے ہیں جو دوسروں پر رعب جمائے۔ (۵)
’’کڑوڑا … وہ شخص جو عاملوں اور محصول پر خیانت کی نگرانی کے واسطے کوئی حاکم مقرر کرے۔ افسروں کا افسر۔‘‘ (۶)
ـ
(۱) (انعام:۶۶، کنز الایمان ص۱۹۷)
(۲) (یونس:۱۰۸، کنز الایمان ص۲۲۲)
(۳) (انعام:۱۰۷، کنز الایمان ص۲۰۵)
(۴) (اسریٰ: ۵۴، کنز الایمان ص۴۱۶)
(۵) (مہذب اللغات ج۷ ص۳۹۱)
(۶) (فرہنگ آصفیہ ص۵۰۵)
’’کڑوڑا … حاکموں کا حاکم، افسروں کا افسر، وہ حاکم جو اور افسروں پر افسر ہو۔‘‘(۱)
’’کڑوڑا … حاکم اعلیٰ، وہ حاکم جو اور افسروں پر افسر ہو، افسروں کا افسر۔‘‘ (۲)
دراصل مولوی احمد رضا صاحب نے عورتوں کی زبان بول کر، قرآن کے واضح اعلان کو چھپایا ہے۔ خود مولوی نعیم الدین مراد آبادی نے ان آیات کی یہ تفسیر کی ہے:
انعام:۶۶… ’’میرا کام ہدایت ہے قلوب کی ذمہ داری مجھ پر نہیں‘‘ (۳)
یونس:۱۰۸… ’’کہ تم پر جبر کروں‘‘ (۴)
انعام: ۱۰۷…’’ کوئی تفسیر نہیں کی‘‘
اسریٰ:۵۴… ’’کہ ان کے اعمال کے ذمہ دار ہوتے‘‘ (۵)
ناظرین مولانا نعیم الدین کی وضاحت کے بعد اس لفظ کی اہمیت آپ پر واضح ہو گئی ہو گی کہ مولانا احمد رضا نے کیسے کیسے لفظ اپنے ترجمہ میں استعمال کیے ہیں مگر پھر بھی کہا جاتا ہے کہ یہی ترجمہ سب سے فائق ہے۔ اﷲ بچائے ایسے ترجمے سے۔
ـ
(۱) (قاعد اللغات ص۷۱۷)
(۲) (فیروز اللغات ص۷۵۱)
(۳) (خزائن العرفان ۱۴۳/۱۹۷)
(۴) (خزائن العرفان ۲۲۲/۳۰۹)
(۵) (خزائن العرفان ۱۱۳/۴۱۶)
حدیث رسولﷺ میںمولوی احمد رضا کی عجب کارستانی
صرف ایک مثال
قرآن پاک کی طرح احادیث میں بھی احمد رضا نے یہ ہی کام کیا ہے۔ ہم صرف یہاں پر ایک مثال نقل کرتے ہیں۔
حدیث رسولa میں مولوی احمد رضا کی عجب کارستانی:
حدیث نبویa ہے: انما انا قاسم واﷲ یعطی
ملفوظات مولوی احمد رضا صاحب جلد اول ص۲۳ پر فاضل بریلوی نے اس حدیث کا یہ ترجمہ کیا ’’میں بانٹنے والا ہوں اور اﷲ عطا فرماتا ہے۔‘‘
اور اسی ملفوظات جلد چہارم ص۷۱ پر اسی حدیث کا جناب نے یہ ترجمہ فرمایا انما انا قاسم واﷲ یعطی ’’جز ایں نیست کہ میں ہی بانٹنے والا ہوں اور اﷲ دیتا ہے۔‘‘
خاں صاحب بریلوی نے اپنے مشن خاص و مقصد کی خاطر ملفوظات جلد اول ص۲۳ کے ترجمے میں انما کا ترجمہ چھوڑ دیا۔ جب کہ ملفوظات چہارم ص۷۱ میں جناب نے ’’جز ایں نیست کہ‘‘ ان چہار الفاظ کا اضافہ فرمایا۔ دراصل خاں صاحب نے قرآن کریم و حدیث سرور عالمa میں انما کا ترجمہ کبھی چھپا کر کبھی بڑھا کر وہ خیانت اور دھوکہ دیا ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ انما کا ترجمہ نہ جانتے ہوں کیوںکہ خود موصوف نے قرآن کریم کے ترجمے میں متعدد جگہ انما کا ترجمہ فرمایا۔ مثلاً:
قُلْ اِنَّمَا اُنْذِرُکُم بِالْوَحْیِ (۱)
ـ
(۱) (انبیائ:۴۵)
’’تم فرمائو میں تم کو صرف وحی سے ڈراتا ہوں۔‘‘
قُلْ اِنَّمَا ہُوَ اِلَـہٌ وَاحِدٌ (۱)
’’تم فرمائو وہ تو ایک ہی معبود ہے۔‘‘
قُلْ اِنَّمَا الْاٰیَاتُ عِنْدَ اللّٰہِ (۲)
’’تم فرمائو نشانیاں تو اﷲ ہی پاس ہیں۔‘‘
قُلْ اِنَّمَا اَنَا مُنْذِرٌ (۳)
’’تم فرمائو میں ڈر سنانے والا ہی ہوں۔‘‘
اور حضرت عائشہ صدیقہm کے قول … انما ہما زوجی وابی … کا ترجمہ ملفوظات سوئم ص۳۵ میں کیا ہے… ’’میرے شوہر اور میرے باپ ہی تو ہیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ کلمہ اِنَّمَا کے معنی فاضل بریلوی کے نزدیک بھی ’’صرف‘‘ ، ’’ہی‘‘ اور ’’جز نیست‘‘ وغیرہ کلمہ حصر کے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں اِنَّمَا سے جو حصر مقصود ہے وہ اردو میں کلمہ ’’صرف‘‘ سے تو کچھ حاصل ہوتا ہے۔ کلمہ ’’ہی‘‘ سے اتنا نہیں۔
خاں صاحب بریلوی نے اس حدیث کے دو ترجمے کیے ہیں کیا دونوں جملوں کا مطلب و معنی ایک ہی ہیں؟ یقینا ایک نہیں ہے تو جناب نے ایک جگہ ضرور خیانت کی ہے۔
لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ مولوی صاحب نے دونوں ہی جگہ دیدہ و دانستہ یہ کارستانی فرمائی۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے وگرنہ انہوں نے قرآن کریم میں شروع سے آخر تک بہت چالاکی و ہوشیاری اور ساری ذہانت و فطانت سے یہ کام کیا ہے۔ مثلاً:
ـ
(۱) (انعام:۱۹)
(۲) (عنکبوت:۵۰)
(۳) (ص:۶۵)
قُلْ اِنَّمَا الْاٰیَاتُ عِنْدَ اللّٰہِ (۱)
’’تم کہو نشانیاں صرف اﷲ کے پاس ہیں۔‘‘
وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکُوْا وَمَا جَعَلْنٰکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظًا وَّمَآ اَنْتَ عَلَیْْہِم بِوَکِیْلٍ٭ وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُ مَّۃٍ عَمَلَہُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِم مَّرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ٭ وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْْمَانِہِمْ لَئِن جَآئَ تْہُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِہَا قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّہِ (۲)
’’اور اﷲ چاہتا تو وہ شرک نہیں کرتے اور ہم نے تمہیں ان پر نگہبان نہیں کیا اور تم ان پر کڑوڑے نہیں۔ اور انہیں گالی نہ دو جن کو وہ اﷲ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اﷲ کی شان میں بے ادبی کریں گے، زیادتی اور جہالت سے۔ یوں ہی ہم نے ہر امت کی نگاہ میں اس کے عمل بھلے کر دیئے ہیں پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے اور وہ انہیں بتا دے گا جو کرتے تھے اور انہوں نے اﷲ کی قسم کھائی اپنے حلف میں پوری کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو ضرور اس پر ایمان لائیں گے تم فرما دو کہ نشانیاں تو اﷲ کے پاس ہیں‘‘ (۳)
کیوںکہ مولوی احمد رضا صاحب کو حضور a کو مختار کل و معجزات کا مالک بنا کر مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا تھی جب کہ یہ اور اس طرح کی تمام آیات ان کے عقیدہ و مشن کے خلاف ہیں۔ اس لیے خاں صاحب نے شروع ہی سے ترجمہ بگاڑا اول ’’وکیل‘‘ کا ترجمہ ’’کڑوڑے‘‘ کیا پھر اس کے بعد انما کا ترجمہ چھوڑ دیا۔
ـ
(۱) (انعام: ۱۰۹)
(۲) (انعام:۱۰۷ تا ۱۰۹)
(۳) (ترجمہ احمد رضا خاں صاحب، کنز الایمان)
اﷲ کا ارشاد ہے کہ تم ان پر حفیظ، نگراں، محاسب و قاضی نہیں۔ تم ان کے ذمہ دار نہیں، معجزات و نشانیاں تو صرف ہمارے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ ہم چاہیں انہیں ایمان دیں، ہم چاہیں نہ دیں۔ دراصل قرآن کریم کی اسی تاکید پر مولوی احمد رضا صاحب نے ضرب لگائی ہے۔
فقل انما الغیب ﷲ (۱)
’’دراصل غیب کا علم صرف اﷲ ہی کو ہے۔ کافر کہتے ہیں کہ اﷲ کی کوئی نشانی کیوں نہیں اتری۔ آپa کو حکم ہوا یہ کہو غیب کا علم تو صرف اﷲ ہی کو ہے۔‘‘
مولوی احمد رضا صاحب نے اسی حصر کو ختم کیا اور اولیاء کو علم غیب کا مالک بنایا۔ اس لیے انہوں نے یہاں انما کا ترجمہ چھوڑ دیا اور ترجمہ کیا: ’’تم فرمائو غیب تو اﷲ کے لیے ہے۔‘‘ (۲)
خود مولوی نعیم الدین صاحب نے بھی اسی طرح ترجمہ کیا کہ آپ فرما دیجیے کہ غیب تو اﷲ کے لیے ہے۔ (۳)
قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ (۴)
یہودیوں نے نبی کریمa سے سوال کیا کہ قیامت کب قائم ہو گی۔ حضور a کو اﷲ کا حکم ہوا کہ یہ کہو قیامت کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے۔ وہ اچانک آئے گی اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا۔ اس آیت اور دوسری آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے

ـ
(۱) (یونس:۲۰)
(۲) (کنز الایمان ۳۰۴)
(۳) (خزائن العرفان ۴۸/۳۰۴)
(۴) (اعراف: ۱۸۷)
کہ اﷲ حکیم و خبیر نے علم قیامت کو اس قدر پوشیدہ رکھا ہے کہ اس کی خبر نہ کسی نبی کو ہے نہ کسی رسول کو اور نہ کسی مقرب فرشتے کو اسے تو صرف وہی جانتا ہے۔
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
مولوی احمد رضا صاحب نے قرآن کریم کے اسی حصر کو توڑا ہے۔ جناب نے ترجمہ کیا ’’تم فرمائو اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے۔‘‘ (۱)
قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ (۲)
’’آپ کہیے کہ میں تم ہی جیسا بشر ہوں۔‘‘
یہاں بھی مولوی احمد رضا صاحب انما کا ترجمہ کھا گئے اور یہ ترجمہ کیا ’’تم فرمائو ظاہر صورت بشر میں تو تم جیسا ہوں۔‘‘
یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جب یہی آیت سورہ فصلت، حم سجدہ میں آتی ہے تو قرآن کا اعجاز کہیے یا اﷲ کی حکمت مولوی احمد رضا چوک گئے۔ اور انما کا ترجمہ کر بیٹھے ’’تم فرمائو آدمی ہونے میں تو تم ہی جیسا بشر ہوں۔‘‘
قَالَ اِنَّمَا اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَہَبَ لَکِ غُلَامًا زَ کِیًّا (۳)
’’(فرشتے نے) کہا میں صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تم کو پاکیزہ لڑکا دوں۔‘‘
مولوی احمد رضا صاحب کو ثابت کرنا تھا کہ حضرت جبرئیل بیٹا دیتے ہیں۔ اولیاء اﷲ بیٹا دیتے ہیں۔
جب کہ اِنَّمَا حرف حصر و تاکید سے ان کے اس باطل و شرکیہ عقیدہ پر کاری ضرب لگ
ـ
(۱) (اعراف:۱۸۷)
(۲) (کہف:۱۱۰)
(۳) (مریم:۱۹)
رہی تھی۔ اسے جڑ سے ہی صاف کیا جا رہا تھا۔ اس لیے جناب نے انما کا ترجمہ چھوڑ دیا اور ترجمہ کیا: ’’بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں۔‘‘ (۱)
نوٹ: کس قدر مہذب ترجمہ ہے۔ قربان جائیے کیوںکہ جناب حضور پرنور تھے اس لیے آپ کو حق ہے کہ جبریل و مریمi کو بولا و بولی لکھیں۔
یہی کارنامہ خاں صاحب بریلوی نے اس حدیث کے ساتھ انجام دیا ہے۔
امام بخاریe نے اس حدیث کو کتاب الجہاد کے باب قول اﷲ تعالیٰ فَاِنَّ لِلّٰہِ تَعَالٰی خَمْسُہُ یعنی اﷲ کے رسول کو تقسیم خمس کا اختیار ہے۔ رسول اﷲa نے فرمایا: اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَخَازِنٌ وَاﷲُ یُعْطِی ’’میں تو صرف خزانچی اور بانٹنے والا ہوں۔‘‘ حضورa کل غنیمت کا پانچواں حصہ تقسیم کرنے والے ہیں۔ خود مولوی نعیم الدین صاحب تفسیر کے مطابق بروایت عبادہ بن صامتl فتح بدر کے موقع پر غنیمت کے معاملے میں صحابہ کرامn کے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور بدمزگی کی نوبت آئی تو اﷲ تعالیٰ نے معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکال کر اپنے رسول کے سپرد کر دیا کہ تقسیم اس طرح کریں کہ پانچواں حصہ اﷲ اور رسول اور رسول کے قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کا باقی چار حصے غانمین کے ہیں۔ دراصل حضورa اور آپ کی امت کے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا۔ یہ آپa کے خصائص میں ہے کہ آپ غنائم تقسیم کرنے والے ہیں۔
بخاری شریف میں اس باب میں چار روایتیں ہیں۔ پہلی دو روایتیں حضرت جابر بن عبداﷲl سے ہیں کہ کسی انصاریl کے یہاں بچہ پیدا ہوا۔ بچے کا نام قاسم رکھا جس پر دیگر انصارn نے کہا کہ ہم اس بچے کہ وجہ سے تم کو ابو القاسم نہیں کہیں گے اس مبارک کنیت سے تمہاری آنکھوں کو کیسے ٹھنڈک دے سکتے ہیں۔ بچے کے باپ نے یہ واقعہ
ـ
(۱) (ترجمہ مولوی احمد رضا صاحب)
حضورa کی بارگاہ عالیہ میں عرض کیا۔ آپaنے فرمایا: سموا باسمی ’’تم میرا نام تو رکھو میری کنیت نہ رکھو۔‘‘ فانما انا قاسم ’’بے شک میں صرف قاسم ہوں‘‘
تیسری روایت حضرت امیر معاویہl سے ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’غنیمت اﷲ دیتا ہے میں صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔‘‘
چوتھی روایت حضرت ابوہریرہl سے ہے۔ ’’رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا أُعْطِیکُمْ وَلَا أَمْنَعُکُمْ إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ أَضَعُ حَیْثُ أُمِرْتُ‘‘
’’حضورa نے فرمایا نہ میں تم کو کچھ دیتا ہوں اور نہ تم کو روکتا ہوں میں تقسیم کرنے والا ہوں جس طرح مجھے حکم دیا جاتا ہے میں اسی طرح کرتا ہوں۔‘‘
بخاری شریف میں تو یہ ہے لیکن بریلی شریف کے فاضل سپوت نے کیا سے کیا بنا ڈالا لکھتے ہیں:
’’اﷲ نے اپنے کرم کے خزانے، نعمتوں کے خواں، حضور کے قبضے میں کر دیئے ہیں جس کو چاہیں دیں جس کو چاہیں نہ دیں، کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا مگر حضور کے دربار سے کوئی دولت کسی کو نہیں ملتی مگر حضور کی سرکار سے۔ انما انا قاسم واﷲ یعطی ’’جز ایں نیست کہ میں ہی بانٹنے والا ہوں اور اﷲ دیتا ہے۔‘‘
خاں صاحب کو شاید معلوم نہیں کہ انما حرف تاکید و حصر ہے یہ خبر کی تاکید و حصر کرتا ہے۔ نہ کہ مبتدا کا یہ بات تو عربی قواعد کا مبتدی بھی جانتا ہے۔ مولوی احمد رضا صاحب بریلوی نے اس جملے انما انا قاسم میں مبتدا کا حصر کیا ہے جو سراسر نحوی قواعد کے بھی خلاف ہے۔
قل انما العلم عند اﷲ (۱)
ـ
(۱) (ملک:۲۶)
’’آپ کہہ دیجیے علم تو صرف خدا ہی کو ہے۔‘‘ یعنی قیامت کب آئے گی اس کا علم تو صرف اﷲ کو ہے۔
لیکن مولوی احمد رضا نے ترجمہ کیا … ’’تم فرمائو یہ علم تو اﷲ کے پاس ہے۔‘‘
یہاں بھی جناب نے وہی مذموم حرکت کی کہ اِنَّمَا کا ترجمہ چھوڑ دیا۔
ہم نے صرف ایک مثال حدیث سے پیش کی ہے اگر اﷲ تعالیٰ نے موقعہ دیا تو اس پر تفصیل سے بحث کریں گے۔ ان شاء اﷲ
مولانا احمد رضا کا
کارنامہ نمبر۲فتاویٰ رضویہ
فتاویٰ رضویہ کی ۱۲ جلدوں کی حقیقت:
مولانا احمد رضا خاں صاحب کا کچھ کام اگر کسی شکل میں موجود ہے تو وہ فتاویٰ رضویہ ہے۔ آپ کے شاگرد مولانا ظفر الدین بہاری نے آپ کی تصنیفات کی ایک فہرست المبمل المعدد لتالیفات المجدد شائع کی جس میں آپ نے آپ کی ۳۵۰ کتابوں کے نام ذکر کیے ہیں ان لوگوں کو بعد میں کچھ اور نام بھی ملquot;Jameel Noori Nastaleeqquot;;MsoNormalے اور انہوں نے پھر ۵۴۸ تصنیفات کی فہرست ایک نئی ترتیب سے پیش کی اس وقت وہی ہمارے سامنے ہے۔ اس میں فتاویٰ رضویہ نمبر۲۶۳ میں مذکور ہے۔
ہم نے ایک دفعہ فتاویٰ رضویہ مکمل حاصل کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ ۱۲ ضخیم جلدیں کہیں موجود نہیں اب تک صرف اس کی پانچ جلدیں شائع ہوئی ہیں۔ کتاب کی مقبولیت کاا ندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مولانا موصوف کی وفات کو اب تقریباً ساٹھ ستر سال ہو رہے ہیں اور ان کا فتاویٰ رضویہ اب تک مکمل صورت میں چھپا ہوا دنیا میں کہیں موجود نہیں۔
اس فہرست میں فتاویٰ رضویہ کے علاوہ ہمیں ان کتابوں کے نام بھی ملے جن میں سے بعض کو ان کے متعلقہ نمبر کے ساتھ ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:
۱۵۱۔ تبیان الوضوء
۲۱۸۔ الاحکام والعلل فی اشکال الاحتلام والبلل
۲۳۲۔ الجود الحلو فی ارکان الوضوء
۲۳۳۔ تنویر القندیل فی احکام المندیل
۲۳۴۔ الطراز العلم
۲۳۵۔ لمع الاحکام ان لا وضوء من الزکام
۲۸۵۔ قوانین العلماء
ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کے یہ رسالے ان کے فتاویٰ رضویہ کی جلد اول میں بھی موجود ہیں اور فہرست مذکور میں انہیں فتاویٰ رضویہ کے علاوہ مستقل کتابوں کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے قارئین کرام سمجھ گئے ہوں گے کہ فتاویٰ رضویہ کی ضخامت بڑھانے کی یہ ایک تدبیر تھی اور دوسری طرف مولانا کی کثرت تصنیفات اور علمی خدمات کا شہرہ بھی پیش نظر تھا۔
پھر ہم نے مندرجہ ذیل رسالوں کو اس فہرست کے ان نمبروں میں دیکھا۔
۱۲۷۔ منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین
۱۳۲۔ الاحلی من السکر
۱۸۴۔ سلب الثلب عن القائلین بطہارۃ الکلب
۱۸۷۔ حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلوٰتین
۲۵۸۔ ایذن الاجر فی اذان القبر
منیر العین ۱۰۵ صفحات پر، الاحلی من السکر ۲۷ صفحات پر، سلب الثلب ۲۵ صفحات پر، حاجز البحرین ۱۱۳ صفحات پر اور ایذان الاجر بڑی تقطیع کے ۱۵ صفحات پر مشتمل رسال جات ہیں اور ان کے مجموعی صفحات ۲۸۵ بنتے ہیں۔
یہ رسائل بھی فتاویٰ رضویہ کی جلد دوم جو ۵۵۹ صفحات پر مشتمل ہے اس میں ص ۴۲۵، ۸۸، ۵۸، ۲۳۱ اور ۵۴۵ پر ملے ہم پھر حیران ہوئے کہ فتاویٰ رضویہ کی ضخامت بڑھانے کے لیے کس طرح ان کتابوں کو اس میں شامل کر لیا گیا ہے اور پھر یہ کہ فہرست تالیفات میں ان کا نام فتاویٰ رضویہ کے نام کے علاوہ مستقل تصنیفات کی حیثیت سے بھی اس میں موجود ہے۔ اس طرح مولانا احمد رضا خاں صاحب کے ان رسالوں کو فہرست تالیفات میں ان نمبروں میں دیکھا۔
۱۴۰۔ انہار الانوار من لم صلوٰۃ الاسرار
۱۴۲۔ انھی الاکید عن الصلٰوۃ وراء عدی التقلید
۱۵۷۔ التبصیر المنجد بان صحن المسجد مسجد
۱۶۲۔ سرور العید فی حل الدعاء بعد صلٰوۃ العید
۱۷۸۔ وصاف الرجیح فی بسملۃ التراویح
۱۷۹۔ القلاوۃ المرصعۃ فی نحر الاجوبۃ الاربعۃ
۱۹۰۔ القطوف الدانیہ لمن احسن الجماعۃ الثانیۃ
۲۰۸۔ الجام الصاد عن سنن الضاد
۲۱۶۔ تیجان الصواب فی قیام الامام فی المحراب
۲۱۹۔ مرقاۃ الحجما فی الہبوط عن المنبر لمدح السلطان
۲۲۲۔ اوفی اللمعۃ فی اذان الجمعۃ
۲۳۶۔ ہدایۃ المتعال فی حد الاستقبال
۲۵۹۔ رعایۃ المذہبین فی رعایۃ بین الخطبتین
۲۷۳۔ نعم الزاد لروم الضاد
۲۷۶۔ اجتناب العمال عن فتاوی الجہال
۳۷۷۔ ازہار الانوار من صبا صلٰوۃ الاسرار
ہم نے دیکھا کہ یہ سولہ کتابیں بھی فتاویٰ رضویہ کی تیسری جلد کے ص۵۴۳، ۲۹۷، ۵۹۹، ۷۹۶، ۵۷۸، ۳۴۱، ۳۵۸، ۱۳۱، ۴۴۷، ۷۵۳، ۷۹۱، ۳۸، ۷۸۳، ۱۲۵، ۵۱۰، ۵۷۱ میں درج ہیں تب معلوم ہوا کہ فتاویٰ رضویہ کی جلد اتنی ضخیم کیسے ہو گئی۔
پھر ہم نے فہرست تصنیفات میں ان نمبروں پر ان کتابوں کے نام بھی دیکھے۔
۷۳۔ حیات الموات ۱۴۳۔ صیقل الرین
۱۴۴۔ ازکی الہلال ۱۵۵۔ الزہر الباسم
۱۵۶۔ تجلی المشکٰوۃ ۱۶۱۔ الحجۃ الفائحہ
۱۶۰۔ الحرف الحسن ۱۷۔ جلی الصوت
۱۷۴۔ بذل الجوائز ۱۹۵۔ النہی الحاجز
۲۰۰۔ الاعلام بحال النجور فی الصیام ۲۰۲۔ الوفاق المبین
۲۰۴۔ تفاسیر الاحکام ۲۱۳۔ افصح البیان
۲۱۵۔ طریق اثبات الہلال ۲۲۸۔ ہدایہ الجنان فی احکام رمضان
۲۴۵۔ الہادی الحاجب ۲۵۴۔ البدور الاجلہ
۳۵۳۔ اتیان الارواح ۳۴۳۔ راوع التعسف
۳۷۹۔ العروس المعطار ۳۸۰۔ المنۃ الممتازہ
۳۸۵۔ اعز الکتناز
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
یہ چوبیس رسالے پھر ہمیں فتاویٰ رضویہ کی جلد چہارم کے ص۲۳۵، ۶۷۱، ۵۲۳، ۴۷۸، ۴۰۶، ۱۹۵، ۱۲۶، ۱۳۸، ۲۳، ۳۴، ۵۸۷، ۳۲۴، ۶۰۲، ۴۶۲، ۵۴۶، ۶۳۱، ۷۷، ۵۶۷، ۴۴۴، ۲۳۱، ۶۵۲، ۸۸، ۴۳۳ میں بھی ملے اس جلد چہارم میں مولانا احمد رضا خاں کی کتابیں بریق المنار بشموع المزارحجل النور اور انوار البشارۃ فی مسائل الحج والزیارۃ بھی شامل ہیں اور اس طرح فتاویٰ رضویہ جلد۴ کی ضخامت ۷۲۴ صفحات بنائی گئی ہے۔ المختصر سارے فتاویٰ رضویہ کا یہی حال ہے کہ موصوف کے رسالوں کو اس میں شامل کر کے اس کی جلدیں ضخیم کی گئی ہیں ہم نے یہاں چار جلدوں کا حال لکھ دیا ہے باقی کا اندازہ اس سے کر لیں۔ مولانا احمد رضا خاں نے سو کے قریب چھوٹے بڑے رسالے لکھے تھے اور کوشش کی کہ ایک ایک مسئلے کو ایک ایک رسالے کا عنوان دے دیا جائے اور پھر ان رسالوں کو فتاویٰ رضویہ میں لا کر فتاویٰ کو ایک ضخیم کتاب کی صورت میں پیش کیا جائے سو مولانا کا اگر کوئی کام ہے تو صرف یہی فتاویٰ رضویہ ہے اس کے علاوہ جو ان کی تصنیفات کا ڈھنڈورا ہے وہ صرف اعلان ہی اعلان ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
ان کتابوں کو فتاویٰ رضویہ میں شامل کر کے اس کا حجم بڑی حکمت سے بڑھ/p lang= style=۵۷۱text-align: justify; line-height: 150%; direction: rtl; unicode-bidi: embed;AR-SAایا گیا ہے اور اپنے حلقوں میں اثر دیا گیا ہے کہ گویا فتاویٰ رضویہ مولانا کی ایک بہت بڑی خدمت تھی اس کی ۱۲ ضخیم جلدوں کا ڈھنڈورا مولانا کے وقت سے اس عمل کے ساتھ پیٹا جا رہا ہے اور پھر لطف یہ کہ ان کتابوں کے نام فتاویٰ رضویہ کے بالمقابل مستقل تالیفات کی حیثیت سے بھی اس فہرست میں مذکور ہیں قارئین کرام انہیں ان نمبروں میں جو ہر کتاب سے پہلے ہم نے لکھ دیے ہیں المیزان کے احمد رضا نمبر کی فہرست تالیفات میں دیکھ لیں۔
مولانا احمد رضا خاں صاحب کی تالیفات میں بس یہی ایک فتاویٰ رضویہ ہے۔ جس کی جلدیں ان کی دیگر تالیفات کو اپنے میں شامل کر کے ضخیم بنائی گئی ہیں۔
اب یہ ان حضرات کی مرضی ہے کہ مولانا کی تالیفات پانچ سو بتائیں یا ہزار کسی کے قلم کو کوئی کیسے روک سکتا ہے۔
باقی رہے متفرق مسائل جن کو شامل کر کے فتاویٰ رضویہ کی چند جلدیں اب تیار ہوئی ہیں۔ ان کا حال بھی دیکھے اور انہیں ملاحظہ کیجیے خان صاحب نے ان میں وقت کے کن کن اہم اور نازک مسائل پر قلم اٹھایا ہے آپ کو ان کی تحقیق ان رسائل کے عنوانوں سے بھی ہو جائے گی۔
’’انہار الانوار من لم صلٰوۃ الاسرار‘‘ اس کا موضوع فہرست میں یہ بیان کیا گیا ہے ’’نماز غوثیہ کے بیان میں‘‘ ایک دوسری کتاب ’’ازھار الانوار من صبا صلٰوۃ الاسرار‘‘ ہے اس کا موضوع حسب بیان یہ ہے۔ ’’نماز غوثیہ کے نکات اور طریقہ‘‘ یہ عنوانات مولانا احمد رضا خاں کی علمی خدمات کا پتہ دیتے ہیں کہ آپ نے عمر کس قسم کی باتوں میں صرف کی اور کس قسم کے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھایا اور قوم کو آپ کی کاوشوں سے کیا ملا۔ ناظرین ان کتابوں کے عربی اور قافیہ دار ناموں سے یہ نہ سمجھیں کہ ان میں کوئی علمی مسائل ہوں گے ان کے زیادہ تر موضوعات ختم حلوہ اور پلائو شیرینی فیرینی قبور و ارواح کے گرد گھومتے ملیں گے۔
مولانا احمد رضا کو فقہی حوالے غلط دینے کی عادت تھی:
فتاویٰ رضویہ تو ہر بریلوی کے پاس نہیں ہو گا۔ لیکن مولانا احمد رضا خاں کے ملفوظات تو ہر جگہ عام ملتے ہیں۔ مولانا کی فقہی ثقاہت کی ایک جھلک ان میں دیکھ لیجیے۔
۱… فتح القدیر اور طحطاوی اور ردالمحتار میں ہے ’’المرور فی سکۃ حادثۃ فی المقابر حرام‘‘ قبرستان میں جو نیا راستہ نکلا ہو اس پر چلنا حرام ہے۔ (۱)
فتح القدیر میں یہ عربی عبارت ہمیں نہیں ملی۔ ایک دفعہ ہمارے ایک عالم نے مولانا سردار احمد لائل پوری سے گزارش کی کہ فتح القدیر میں اس کی نشان دہی فرمائیں تو انہوں نے فرمایا بدعقیدہ کو حوالہ دکھانا جائز نہیں۔ درمختار کے حواشی اور ردالمحتار میں مسئلہ تو یہ موجود ہے لیکن عربی عبارت یہ نہیں۔ خان صاحب کے فی المقابر کے الفاظ ان میں نہیں ہیں۔
ـ
(۱) (ملفوظات حصہ۱ ص۷)
اصل عبارت یہ ہے کہ ’’المرور فی سکۃ حادثۃ فیھا حرام‘‘ (۱)
اور جوتوں سے چلنا اور جوتوں کے بغیر چلنا اس کی سرے سے اس میں بحث ہی نہیں۔
۲… خان صاحب علامہ شامی کی کتاب العفود الدریہ کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ عقیقہ کے گوشت کا حکم قربانی کے گوشت کا ہی ہے بچہ کے ماں باپ اسے کھا سکتے ہیں عقود الدریہ میں ہے احکامہا احکام الاضحیہ (۲) عقود الدریہ کی عبارت یہ ہے حکمہا کاحکام الاضحیہ (۳) یہاں بھی مولانا احمد رضا خاں کو حوالے غلط دینے کی داد دیجیے۔
۳… مولانا احمد رضا خاں یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہ شیعہ کے مرد یا عورت کا کسی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ فتاویٰ عالم گیری کی ایک عبارت اس طرح پیش کرتے ہیں:
’’لایجوز نکاح المرتد مع مسلمۃ ولا کافرۃ اصلیۃ ولا مرتدۃ وکذا لا یجوز نکاح المرتدۃ مع احد‘‘ (۴)
فتاویٰ عالم گیری کی اصل عبارت یہ ہے:
’’ولا یجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولا مسلمۃ ولا کافرۃ اصلیۃ وکذالک لا یجوز نکاح المرتدۃ مع احد‘‘ (۵)
خان صاحب کی پیش کردہ عبارت میں نکاح کا لفظ ہے اصل عبارت میں تزوج کا لفظ
ـ
(۱) (طحطاوی علی الدر المختار ج۱ ص۱۲۶، رد المحتار للشامی ج۱ ص۳۴۳)
(۲) (ملفوظات حصہ۱ ص۴۶)
(۳) (العقود الدریہ ج۲ ص۲۱۳)
(۴) (ملفوظات حصہ دوم ص۱۰۰)
(۵) (فتاویٰ عالم گیری ج۱ ص۲۸۳)
تھا۔ پھر خان صاحب کی پیش کردہ عبارت میں (۱)مسلمہ (۲)کافرہ اصلیہ (۳)اور مرتدہ کی ترتیب ہے جب کہ اصل عبارت میں (۱)مرتدہ پھر (۲)مسلمہ اور پھر کافرہ اصلیہ کی ترتیب ہے۔
۴… اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں: اور وہابیہ گمراہ نہ ہوں گے تو ابلیس بھی گمراہ نہ ہو گا کہ اس کی گمراہی ان سے ہلکی ہے وہ کذب کو اپنے لیے بھی پسند نہیں کرتا۔ اس نے اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ استثناء کر دیا تھا یہ اﷲ عز وجل پر جھوٹ کی تہمت رکھتے ہیں۔ (۱)
تنقید:
شیطان کو سچا کہنا شیطان کے ساتھ محبت کی دلیل ہے حالانکہ شیطان بہت بڑا جھوٹا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں آتا ہے۔ ’’وَقَاسَمَھُمَا اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ فَدَلّٰہُمَا بِغُرُوْرٍ‘‘ ’’اور ان سے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں تو اتار لایا انہیں فریب سے۔‘‘ (ترجمہ رضویہ) (۲)
صدر الافاضل مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’معنی یہ ہیں کہ ابلیس ملعون نے جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدمb کو دھوکہ دیا۔ اور پہلی جھوٹی قسم کھانے والا ابلیس ہی ہے۔ حضرت آدمk کو گمان بھی نہ تھا۔ کہ کوئی اﷲ کی قسم کھا کر جھوٹ بول سکتا ہے اس لیے آپ نے اس کی بات کا اعتبار کیا۔‘‘
بخاری شریف و مشکوٰۃ وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریرہl کو رسول اﷲa نے دانوں کے ڈھیر پر مقرر فرمایا تو شیطان آیا اور دانے اٹھانے لگا حضرت ابوہریرہl نے پکڑ کر چھوڑ دیا۔ اور رسول اﷲa کی خدمت میں واقعہ بیان کیا۔ تو رسول
ـ
(۱) (احکام شریعت ج۲ ص۱۳۴ مسئلہ نمبر۳۹، نعیمی کتب خانہ گجرات)
(۲) (پ۸ سورۃ الاعراف)
اﷲ a نے فرمایا کہ یہ بڑا جھوٹا ہے پھر آئے گا اس کا خیال رکھنا۔ (ملخصاً)
قارئین کرام!
اندازہ کریں کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولa شیطان کو جھوٹا کہتp class=/spanFAاعلیٰ حضرت لکھتے ہیں: اور وہابیہ گمراہ نہ ہوں گے تو ابلیس بھی گمراہ نہ ہو گا کہ اس کی گمراہی ان سے ہلکی ہے وہ کذب کو اپنے لیے بھی پسند نہیں کرتا۔ اس نے اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ استثناء کر دیا تھا یہ اﷲ عز وجل پر جھوٹ کی تہمت رکھتے ہیں۔ (۱ے ہیں مگر اعلیٰ حضرت بریلوی شیطان کو سچ بولنے والا کہتے ہیں اب بریلوی حضرات کی مرضی کہ وہ خدا تعالیٰ اور رسول اکرمa پر ایمان لائیں یا اعلیٰ حضرت بریلوی پر ایمان لائیں۔ اعلیٰ حضرت بریلوی فرماتے ہیں اس سے اکذب کون جن کی تکذیب کرے قرآن۔ (۱)
۵… ارشاد رب العزت تبارک و تعالیٰ نے چار روز میں آسمان اور دو دن میں زمین یک شنبہ تا چہار شنبہ آسمان و پنج شنبہ تا جمعہ زمین نیز اس جمعہ میں بین العصر والمغرب آدم علی نبینا علیہم الصلوٰۃ والسلام کو پیدا فرمایا۔ (۲)
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
تنبیہ:
’’وذکر شیخ الاسلام لہ ثلاثۃ شروط احدھا ان یکون الضعف غیر شدید فیخرج من انفرد من الکذابین والمتھمین بالکذب ومن فحش غلطہ نقل العلائی الاتفاق علیہ الثانی ان یندرج تحت اصل معمول بہ الثالث ان لایعتقد عند العمل بہ ثبوتہ بل یعتقد الاحتیاط وقال ہٰذان ذکرہما ابن عبدالسلام وابن دقیق العید‘‘ (۱)
’’اور شیخ الاسلام نے ضعیف حدیث بیان کرنے کی تین شرطیں ذکر کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو۔ لہٰذا جھوٹے راویوں میں سے اور ایسا راوی جس پر جھوٹے ہونے کا الزام ہو اور ایسا محدث جو فحش غلطیاں کرتا ہو، جب اکیلا روایت کرے گا تو اس قسم کے سب راویوں کی روایت (اس شرط کے تحت) خارج ہو جائے گی۔ حافظ علائیe نے اس شرط پر سب کا اتفاق نقل کیا ہے۔ ضعیف کو قبول کرنے کی دوسری شرط یہ ہے کہ وہ کسی معمول بہ حدیث اور قاعدہ کے تحت آتی ہو۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس پر عمل کرنے میں یہ عقیدہ نہ رکھے کہ یہ حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ احتیاطاً (مثلاً گناہ سے بچنے کے لیے) اس پر عمل کرے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ یہ دو شرطیں ابن عبدالسلام اور ابن دقیق العید نے بیان کی ہیں۔ (۲)
مثلاً حنفی مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں اتنی زور سے ہنسے کہ آس پاس کے لوگ ہنسی کی آواز سن لیں تو اس کی نماز بھی ٹوٹ جائے گی اور وضو بھی۔ (اب اس وضو سے نماز نہیں ہو گی) کیوںکہ یہ مسئلہ حدیث مرسل صحیح میں آیا ہے۔ اور باقی ضعیف روایات تو آٹھ دس ہیں۔ لیکن شافعی حضرات کہتے ہیں کہ وضو نہیں ٹوٹے گا۔ کیوںکہ یہ مسئلہ کسی ایسی حدیث میں نہیں آیا ہے جو مرفوع بھی ہو اور صحیح بھی ہو۔
تنقید:
اعلیٰ حضرت قرآن مجید کا ترجمہ بھی نہیں جانتا اگر ترجمہ جانتا ہوتا ایسے علمی کمالات کا
اظہار نہ کرتا۔ حالانکہ قرآن مجید کے اندر صاف موجود ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں پیدا فرمایا۔ پھر اس میں پہاڑ و نباتات کو دو دن میں پیدا فرمایا۔ یہ چار دن ہوئے پھر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے سات آسمانوں کو دو دن میں پیدا فرمایا۔ (۳)
کمال نمبر۵ کے تحت جو عبارت اعلیٰ حضرت بریلوی ی پیش کی گئی ہے اس میں اور بھی کئی چیزیں قابل گرفت ہیں مگر راقم الحروف اسی پر اکتفا کرتا ہے۔ آسمان کو چار دن میں پیدا کرنے کا قول قرآن مجید کی نص قطعی کے خلاف ہے اور آج تک یہ قول کسی عقل مند سے
ـ
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۴ ص۷۴)
(۲) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۷)
(۳) (دیکھئے پ۲۴ سورہ حم السجدہ)
منقول نہیں ہے۔ مگر اعلیٰ حضرت بریلوی کے کمالات کا کیا کہنا۔ بریلوی حضرات کا کہنا ہے کہ اعلیٰ حضرت بریلوی کی زبان و قلم نقطہ برابر خطاء نہیں کرتی۔
فلہٰذا بریلوی حضرات سے التماس ہے کہ وہ اپنے اس جھوٹے نظریہ سے تائب ہو جائیں یا پھر قرآن مجید کے اس واضح فیصلہ کا ارتکاب کریں تاکہ بریلوی بننے کا لطف حاصل ہو جائے۔
۶… عرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے خَتَمَ اﷲُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ تو بعض انبیاء شہید کیوں ہوئے۔ ارشاد رسولوں میں سے کون شہید کیا گیا۔ (انبیاء البتہ شہید کیے گئے رسول کوئی شہید نہ ہوا یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖن فرمایا نہ کہ یَقْتُلُوْنَ الرسل ۔ (۱)
تنقید:
قرآن مجید میں ختم اﷲ نہیں بلکہ اس موقع پر کتب اﷲ ہے۔ (۲)
مگر اعلیٰ حضرت بریلوی بھی اپنے جاہل سائل کی طرح قرآن مجید سے ناواقف ہیں اس سائل پر گرفت کرتے اور قرآن مجید کو غلط پڑھنے سے روکتے۔
مگر اس موقعہ پر پروفیسر مسعود احمد صاحب کی ایک تحریر پیش کر دی جائے تو دلچسپی سے خالی نہ ہو گی۔
ملاحظہ ہو فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ اپنے عہد کے جلیل القدر عالم تھے مگر علمی حلقوں میں اب تک صحیح تعارف نہ کرایا جا سکا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ تو بڑی حد تک بالکل نابلد ہے چنانچہ ایک مجلس میں جہاں یہ راقم بھی موجود تھا ایک فاضل نے فرمایا کہ مولانا احمد رضا خان کے پیرو تو زیادہ تر جاہل ہیں۔
ـ
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۴ ص۳۶)
(۲) (دیکھئے پ۲۸ سورہ المجادلہ)
گویا آپ جاہلوں کے پیشوا تھے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون (۱)
اعلیٰ حضرت بریلوی کا یہ فرمان کہ ’’رسول کوئی شہید نہیں ہوا۔‘‘ قرآن مجید کی کئی آیات کے خلاف ہے۔ قرآن مجید میں تین مقامات پر رسولوں کے قتل و شہید ہونے کی تصریح موجود ہے۔ (۲)
اعلیٰ حضرت بریلوی لکھتے ہیں: ’’ہارورنb بھی انبیاء کرام بلکہ بالخصوص ان اٹھارہ رسولوں میں ہیں جن کا نام پاک اس رکوع میں بالتصریح ذکر فرما کر ان کی اقتداء کا حکم ہوا۔ قال سبحانہ وَمِنْ ذُرِّیَتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَہَارُوْنَ وَکَذَالِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (۳)
اعلیٰ حضرت بریلوی نے جن اٹھارہ رسولوں کا ذکر کیا ہے وہ پ۷ سورۃ الانعام رکوع نمبر۱۶ میں موجود ہیں۔ ان میں زکریا ویحییٰi کا نام بھی ہے جو شہید ہوئے۔ فلھٰذا اعلیٰ حضرت بریلوی ہی کے قول سے ثابت ہوا کہ رسول بھی شہید ہوئے۔ پس اعلیٰ حضرت بریلوی کی ایک بات یقینا غلط ہے اور یہ اعلیٰ حضرت بریلوی کے علمی کمال کی دلیل ہے۔
۷… ڈاڑھی منڈانے اور کتروانے والا فاسق معلن ہے اسے امام بنانا گناہ ہے۔ فرض ہو یا تراویح کسی نماز میں اسے امام بنانا جائز نہیں۔
حدیث شریف میں اس پر غضب اور ارادہ قتل وغیرہ کی وعیدیں وارد ہیں۔ اور قرآن شریف میں اس پر لعنت ہے نبیa کے مخالفوں کے ساتھ اس کا حشر ہو گا۔ (۴)
ـ
(۱) (فاضل بریلوی اور ترک موالات ص۵ مطبوعہ لاہور)
(۲) (دیکھئے پ۱ رکوع نمبر۱۱ سورۃ البقرۃ آیت نمبر۸۷، پ۴ سورۃ آل عمران آیت۱۸۳، پ۶ سورۃالمائدہ آیت۷۰)
(۳) (لمعۃ الضحٰی ص۲۳ ڈجکوٹ روڈ فیصل آباد)
(۴) (احکام شریعت ج۲ ص۲۲۲ مسئلہ نمبر۷۰ مطبوعہ گجرات)
تنقید:
اعلیٰ حضرت بریلوی کی مذکورہ بالا عبارت میں دو باتیں بالکل جھوٹی ہیں۔
۱۔ حدیث شریف میں ڈاڑھی منڈانے والے پر غضب و ارادہ قتل کی وعید نہیں ہے اگر ہے تو بریلوی حضرات اس کا ثبوت پیش کریں۔
۲۔ قرآن شریف میں بھی ڈاڑھی منڈانے والے پر لعنت نہیں ہے اگر ہو تو ثبوت پیش کریں۔
پھر اعلیٰ حضرت بریلوی سے پوچھا گیا۔ عرض: ڈاڑھی منڈانا اور کتروانا گناہ صغیرہ ہے یا کبیرہ، ارشاد: کتروانا یا منڈانا ایک دفعہ کا صغیرہ گناہے اور عادت سے کبیرہ جسے فاسق معلن ہو جائے گا اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھرنی واجب اگر اعادہ نہ کیا گناہگار ہو گا۔ (۱)
پھر اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ایک تعریف کبیرہ کی یہ ہے کہ جس پر حدیث میں لعنت
آئی ہو یا وعید وارد ہو۔ (۲)
پس اعلیٰ حضرت بریلوی کا علمی کمال… ملاحظہ کرو۔ ڈاڑھی منڈانا قرآن و حدیث کی رو سے لعنت و قتل کا حکم رکھتا ہے اور منڈانا ایک دفعہ کا صغیرہ بھی ہے۔ (لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم)
۸… مسئلہ نمبر۶۴ کیا قرآن شریف میں ڈاڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کا حکم ہے اگر ہے کس جگہ ہے۔ اگر نہیں ہے تو حدیث شریف میں کس جگہ سے سند لی گئی ہے؟
ـ
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۴ ص۹۹)
(۲) (ملفوظات ج۱ ص۴۶)
تنقید:
رسول اﷲ a فرماتے ہیں اہو الشوارب واعفوا اللحی خالفوا المجوس لبیں پست کرو اور ڈاڑھیاں بڑھائو آتش پرستوں کا خلاف کspan style=span style=)span style=quot;Jameel Noori Nastaleeq style=۴ style=رو۔ فقیر نے اپنے رسالہ لمعۃ الضحیٰ فی اعفاء اللحی میں پانچ آیتوں اور چالیس سے زیادہ حدیثوں سے داڑھی رکھنے کا ثبوت دیا ہے۔ (۱)
تنقید:
قرآن مجید کی پانچ آیتیں کون سی ہیں جس میں داڑھی رکھنے کا حکم ہو۔ امید یہ کہ بریلوی حضرات اپنے اعلیٰ حضرت بریلوی کے علمی کمال کو ضائع نہیں کریں گے۔
۹… مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِّیْنَۃٍ ’’جو درخت تم نے کاٹے‘‘(۲)
تنقید:
یہ ترجمہ درست نہیں کیوںکہ لینۃ کے معنی کھجور کا درخت ہے۔ مطلق درخت مراد نہیں۔ ما قطعتم میں ما موصولہ ہے اور من لینۃ اس کا بیان ہے۔ چنانچہ شاہ عبدالقادر صاحب ترجمہ یوں کرتے ہیں جو کاٹ ڈالا تم نے کھجور کا پیڑ۔ لینہ مدینہ شریف میں ایک خاص نوع کی کھجور ہے۔
۱۰… وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ (۳)
اور اپنے گدھے کو دیکھ کر جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں۔‘‘ (ترجمہ رضویہ)
ـ
(۱) (عرفان شریعت ج۱ ص۱۳)
(۲) (ترجمہ رضویہ پ۲۸)
(۳) (پ۳ سورۃ البقرہ)
 
Top