بانی فرقہ بریلویہ مولانا احمد رضا خان کا تعارف

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
تنقید:
خط کشیدہ الفاظ قرآن مجید کے الفاظ کا ترجمہ نہیں ہے۔ یہ اعلیٰ حضرت نے اپنی طرف سے بڑھا دیا ہے۔ یہ قرآن مجید کے الفاظ کے خلاف ہے۔ چنانچہ آگے ذکر ہے۔ ’’وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ‘‘ اور ان ہڈیوں کو دیکھ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہڈیاں سلامت موجود تھیں چنانچہ حاشیہ میں مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں اور اپنے گدھے کو دیکھا تو وہ مر گیا تھا گل گیا اعضاء بکھر گئے تھے ہڈی سفید چمک رہی تھیں۔ پس ثابت ہوا کہ اعلیٰ حضرت بریلوی قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔
۱۱… وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰی فَارِغًا
’’اور صبح کو موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہو گیا‘‘(۱)
اور مراد آبادی صاحب حاشیہ میں لکھتے ہیں۔ ’’اور جوش محبت مادری میں وابناہ وابناہ (ہائے ہائے بیٹے) پکار اٹھیں)
تنقید:
یہ قرآن مجید کا ترجمہ نہیںہے بلکہ تحریف ہے۔ کیوںکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ حضرت موسیٰk کی والدہ نے بے صبری کا ارتکاب کیا اور ہائے بیٹے ہائے بیٹے پکار اٹھیں اور شیعہ ہائے حسین ہائے حسین بولتے ہیں فلہٰذا شیعہ کی تائید قرآن مجید سے ثابت ہوئی۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون) حالانکہ اس آیت کا صحیح معنی یہ ہے کہ حضرت موسیٰk کی والدہ کا دل پریشان ہو گیا آگے قرآن مجید میں ہے جس کا خلاصہ ہے کہ قریب تھا کہ حضرت موسیٰk کی والدہ بے صبری کا ارتکاب کرتیں اگر خدا تعالیٰ نے اس کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوا ہوتا۔‘‘
ـ
(۱) (ترجمہ رضویہ، پ۲۰ سورۃ القصص آیت نمبر۱۰)
تمام ائمہ تفسیر یہی ترجمہ و مطلب بیان کرتے ہیں مگر اعلیٰ حضرت بریلوی نے شیعہ کی حمایت کے لیے ترجمہ میں تحریف کر دی۔ یہ ہے اعلیٰ حضرت کا علمی کمال۔
(لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم)
اعلیٰ حضرت بریلوی کے ترجمہ سے پہلے کئی تراجم موجود تھے۔ شیخ سعدی شیرازی کا ترجمہ فارسی میں، شاہ ولی اﷲ کا فارسی میں، شاہ رفیع الدین صاحب کا اردو میں، (۱۲۵۵ھ) میں شاہ عبدالقادر کا (۱۲۰۵ھ میں) اردو میں سر سید احمد خان کا اردو میں (۱۳۰۸ھ/ ۱۸۹۱ء میں) ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمہ اردو میں (۱۳۱۳ھ/۱۸۹۵ئ) حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کا ترجمہ اردو میں (۱۳۲۵ھ/ ۱۹۰۸ء میں) اسی طرح مولانا عاشق الہٰی میرٹھی اور مولانا عبدالحق حقانی تفسیر حقانی والے کا ترجمہ بھی مولانا احمد رضا خان کے ترجمہ سے بہت پہلے ہو چکے تھے۔
اعلیٰ حضرت بریلوی نے ان تراجم سے نقل ماری ہے جہاں ان تراجم کی پیروی نہیں کی وہاں اکثر جگہ ٹھوکر کھائی ہے۔ اعلیٰ حضرت بریلوی کا ترجمہ (۱۳۳۰ھ/ ۱۹۱۱ئ) میں ہوا ہے۔
۱۲… سیدنا عمر فاروقl نے آٹھ برس میں برس سورہ بقر شریف ختم فرمائی اور بعد اختتام ایک اونٹ قربانی فرمایا۔ سیدنا عبداﷲ بن عمرo نے سورہ بقر شریف بارہ برس میں پڑھی۔ (۱)
تنقید:
اعلیٰ حضرت بریلوی نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملاں خطرہ ایمان کا مصداق ہیں۔ بات کیا تھی اور اعلیٰ حضرت نے کیا بنا دی۔ اصل بات یوں ہے کہ اعلیٰ حضرت بریلوی کے خلیفہ
ـ
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۵۹)
مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں۔ تفسیر فتح العزیز ص۸۶ میں ہے۔ بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمرo سے روایت کی کہ حضرت امیر المومنین عمر بن خطابl نے سورہ بقر کو اس کے حقائق و دقائق کے ساتھ بارہ سال میں پڑھ کر فارغ ہوئے تو آپl نے ختم کے روز ایک اونٹ ذبح فرما کر بہت کثیر کھانا پکوایا اور اصحاب رسول اﷲaکو کھلایا۔ (۱)
قارئین کرام!
اس عبارت کو بار بار پڑھیں اور اعلیٰ حضرت کا علمی کمال ملاحظہ کریں۔
۱۳… خود کشی کرنے والے کے تضاد کے بارے میں اعلیٰ حضرت بریلوی لکھتے ہیں فتویٰ اس پر ہے کہ اس کے جنازے کی نماز پڑھی جائے گی۔ (۲)
پھر اعلیٰ حضرت بریلوی فرماتے ہیں ’’خود کشی کرنے والے اور اپنے ماں باپ کو قتل کرنے والے اور باغی ڈاکو کہ ڈاکہ میں مارا گیا ان کے جنازہ کی نماز نہیں۔ (۳)
فیصلہ قارئین حضرات پر ہے کہ کون سی بات سچی ہے اور کون سی جھوٹی ہے۔ یہ اعلیٰ حضرت صاحب کا فتویٰ ہے۔
۱۴… عرض: حضور نمازی کے سامنے سے نکلنے کے لیے کتنا فاصلہ درکار ہے۔ ارشاد خاشعین کی سی نماز پڑھے کہ قیام میں نظر سجود پر جمائے نظر کا قاعدہ ہے۔ جہاں جمائی جائے اس کے کچھ آگے بڑھتی ہے۔ میرے تجربہ میں یہ جگہ تین گز ہے یہاں تک نکلنا مطلقاً جائز نہیں اس سے باہر باہر صحرا اور بڑی مسجد میں نکل سکتا ہے۔ مکان اور چھوٹی مسجد میں دیوار قبلہ تک سامنے سے نہیں جا سکتا۔ فقہائے کرام نے جس کو بڑی مسجد فرمایا ہے یہاں کوئی
ـ
(۱) (کشف الحجاب عن مسائل ایصال الثواب ص۱۷ نوری کتب خانہ بازار داتا صاحب لاہور)
(۲) (فتاویٰ افریقہ ص۳۷ سوال نمبر۳۹)
(۳) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۹۰)
نہیں سوائے مسجد خورازم کے جس کا ایک ربع چار ہزار ستون پر ہے بڑی مسجد ہے یا مسجد حرام شریف میں نمازی کے سامنے طواف جائز ہے۔ کہ وہ بھی مثل نماز عبادت ہے۔ (۱)
پھر اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا مسئلہ نمبر۳۸:
ایک شخص نماز پڑھتا ہے اگر اس کے سامنے سے دوسرا شخص نکل جائے تو وہ شخص کتنے فاصلے پر نکل جانے سے گناہ گار نہ ہو گا؟
الجواب:
مکان یا چھوٹی مسجد میں دیوار قبلہ تک بغیر آڑ کے نکلنا حرام ہے اور جنگل یا بڑی مسجد میں ۳ گز کے فاصلے کے بعد نکلنا جائز ہے۔ ۴۷، ۴۸ گز مسافت کی جو مسجد ہو وہ بڑی مسجد ہے واﷲ تعالیٰ اعلم۔ (۲)
قارئین کرام! یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب فقہائے کرام کے نزدیک مسجد خوارزم جس کا ایک ربع چار ہزار ستون پر مشتمل ہے اور کل مسجد سولہ ہزار ستونوں پر مشتمل ہے۔ بڑی ہے اس کے سوا بڑی مسجد نہیں ہے اور مسجد حرام شریف بھی بڑی نہیں ہے تو اعلیٰ حضرت
بریلوی صاحب نے ۴۷، ۴۸ گز کی مسجد کو بیڑا کس لحاظ سے کہا ہے۔ اگر فقہاء کرام اس کو بڑا نہیں سمجھتے تو اعلیٰ حضرت بریلوی نے یہ مذہب کہاں سے نکالا ہے۔
۱۵… جدہ پہنچتے ہی مجھے بخار آ گیا اور میری عادت ہے کہ بخار میں سردی بہت معلوم ہوتی ہے۔ (۳)
پھر اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ارشاد فرمایا کہ اس بار مجھے ۳۴ دن کامل بخار رہا، کسی وقت
ـ
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۹۱)
(۲) (عرفان شریعت ج۱ ص۸، ۹)
(۳) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۲ ص۷)
کم نہ ہوا۔ انہوں نے کہا حضور جاڑا بھی آتا تھا۔ اس پر ارشاد ہوا، جاڑا طاعون اور وبائی امراض جس قدر ہیں اور نابینائی ویک چشمی برص جذام وغیرہ وغیرہ کا مجھ سے نبیa کا وعدہ ہے کہ یہ امراض تجھے نہ ہوں گے۔ (۱)
قارئین کرام!
اندازہ کریں کہ جب اعلیٰ حضرت بریلوی کی عادت ہے کہ بخار میں سردی بہت معلوم ہوتی ہے۔ تو پھر رسول اﷲa کا وعدہ کیسے ہوا کہ بخار میں جاڑا (سردی) نہیں ہو گی۔
جب رسول اﷲa پر اعلیٰ حضرت بریلوی بہتان باندھ سکتے ہیں تو علماء حق پر بہتان باندھنا ان کا کوئی بڑا کمال نہیں ہے۔ بڑا کمال تو یہ ہے کہ وہ خدا و رسول پر بہتان باندھتے ہیں۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ ہر مسلمان کو راہ حق کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!!
۱۶… مجھے نوعمری میں آشوب چشم اکثر ہو جاتا اور بوجہ حدت مزاج بہت تکلیف دیتا تھا۔ ۱۹ سال کی عمر ہو گی کہ رام پور جاتے ہوئے ایک شخص کو رمد چشم میں مبتلا دیکھ کر یہ دعا پڑھی۔ جب سے اب تک آشوب چشم پھر نہ ہوا۔ (۲)
پھر اعلیٰ حضرت ہی فرماتے ہیں کہ ساڑھے پانچ مہینے سے زائد ہوئے کہ میری آنکھ پر آشوب آیا سوا پانچ مہینے تک لکھنا پڑھنا موقوف رہا۔ مسائل سن کر زبانی جواب لکھواتا رہا۔ اسی طرح بعض رسائل لکھوائے آنکھ پر اب تک بہت ضعف ہے مجبور ہو کر اب ایک ہفتہ سے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ مولیٰ تعالیٰ کافی ہے۔ ۱۲؍ ربیع الاول شریف سے طبیعت ایسی علیل ہوئی کہ کبھی نہیں ہوئی تھی، چار چار پہر پیشاب بھی بند رہا۔ میں نے وصیت نامہ بھی
ـ
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۴ ص۵۶، ۵۷)
(۲) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۹ و حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۹۱)
لکھوا دیا خدا تعالیٰ نے فضل کیا۔ مرض زائل ہوا۔ مگر آج دو مہینے کامل ہوئے ضعف میں فرق نہیں الخ (۱)
ناظرین کرام!
اعلیٰ حضرت بریلوی کی دونوں تحریروں کو پڑھ کر آپ خود ہی فیصلہ فرما لیں نیز اس واقعہ سے اس من گھڑت روایت کی حقیقت بھی آشکارا ہو گئی کہ جو شخص انگوٹھے چومتا ہے اس کی آنکھیں رمد (آشوب چشم) سے محفوظ رہتی ہیں۔ (ملخصاً)
اعلیٰ حضرت بریلوی سے زیادہ انگوٹھے چومنے والا کون شخص ہو سکتا ہے۔ جس نے اس مسئلہ پر دو کتابیں تصنیف کی ہیں۔
۱۔ منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین۔
۲۔ نہج السلامۃ فی حکم تقبیل الابہامین فی الاقامۃ۔
۱۷… مسئلہ نمبر۵
نبی کریمb کو فخر جہاں کہنا کیسا ہے بینوا توجروا
تنقید:
فخر عالم یا فخر جہاں کہنا بے معنی ہے۔ شاہ جہاں کہہ سکتے ہیں واﷲ تعالیٰ اعلم۔ (۲)
اعلیٰ حضرت بریلوی کے ایک مقلد یوں لکھتے ہیں: فخر عالم کے معنی وہ ہستی جس کی وجہ سے سارے جہانوں کو فخر حاصل ہوا ہو۔ حضور پیغمبر اسلام a کا لقب فخر دو عالم بھی ہے۔ (دیوبندی مذہب کا علمی محاسبہ طبع اول ص۳۱۷) اعلیٰ حضرت کے مقلد نے فخر عالم کا معنی بہت پسندیدہ کیا ہے مگر کیا وہ اعلیٰ حضرت بریلوی کا محاسبہ بھی کریں گے کہ اس نے نبی
ـ
(۱) (حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۲۹۸)
(۲) (عرفان شریعت ج۲ ص۷)
کریمaکے لقب کو بے معنی کہہ دیا ہے۔
۱۸… غزوہ (احزاب) میں رب عز و جل نے مدد فرمانا چاہی۔ شمالی ہوا کو حکم ہوا جا او رکافروں کو نیست و نابود کر دے۔ اس نے کہا الحلائل لا یخرجن باللیل ۔بیبیاں رات کو باہر نکلتیں فاعقمہا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کو بانجھ کر دیا۔ اسی وجہ سے شمالی ہوا سے کبھی پانی نہیں برستا۔ (۱)
تنقید:
ہوا، فرشتے، چاند، سورج، ستارے، یہ سب مجبور ہیں، ان کو کسی قسم کا انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت بریلوی کی یہ بات بالکل بہتان پر مبنی ہے۔ بارہا تجربہ سے ثابت ہے کہ شمالی ہوا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے۔
۱۹… اور بارہا دیکھا کہ جہاں قبروں پر بیٹھ کر جوا کھیلتے، فحش بکتے قہقہے لگاتے ہیں کہ بعض کی یہ جرأت کہ معاذ اﷲ مسلمان کی قبر پر پیشاب کرنے میں باک نہیں رکھتے۔ فانا اﷲ وانا الیہ راجعون۔ (۲)
تنقید:
مسلمانوں کی قبروں پر مسلمان پیشاب کرتے ہوں۔ یہ بات بہتان نظر آتی ہے۔ اعلیٰ حضرت بریلوی کی چونکہ آنکھیں خراب رہتی تھیں اس لیے ان سے خطا ہو گئی ہے۔ بریلی شہر کے مسلمان ایسے بے باک نہیں تھے کہ مسلمان قبر پر پیشاب کریں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی غیر مسلم کی قبر پر پیشاب کرنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔
اعلیٰ حضرت بریلوی کا یہ کمال ہے ورنہ کوئی مسلمان اس بات کو زبان پر نہیں لا سکتا اور
ـ
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۴ ص۱۱۱)
(۲) (احکام شریعت ج۱ ص۶۸ مسئلہ نمبر۲۰)
نہ ایسی گواہی دے سکتا ہے۔
 

اُلفت خان

وفقہ اللہ
رکن
۲۰… عہد ماضی میں سلاطین اسلام رذیلوں کو ضرورت سے زیادہ علم نہیں پڑھتے دیتے تھے۔ اب دیکھو نائیوں اور منہاروں نے علم پڑھ کر کیا کیا فتنے پھیلا رکھے ہیں۔ (۱)
تنقید:
اعلیٰ حضرت بریلوی کا یہ بیان محض غلط بیانی پر مبنی ہے ایک سلطان اسلام کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ جس نے دینی علوم میں رذیل لوگوں کے لیے حد بندی کی ہو۔
یہ اعلیٰ حضرت بریلوی کا سلاطین اسلام پر افترا ہے۔ اور مسلمان پیشہ وروں کو رذیل کہنا کافروں کا دستور تھا۔ چنانچہ حضرت نوحk کی قوم نے آپ کے ماننے والوں کو رذیل کہا۔ (۲)
مولانا نعیم الدین صاحب لکھتے ہیں: ’’کمینوں سے مراد ان کی وہ لوگ تھے جو ان کی نظر میں خسیس پیشے رکھتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ قول جہل خالص تھا کیوںکہ انسان کا مرتبہ دین کے اتباع اور رسول کی فرماںبرداری سے ہے۔ مال و منصب و پیشے کو اس میں دخل نہیں۔ دین دار، نیک سیرت، پیشہ ور کو نظر حقارت سے دیکھنا اور حقیر جاننا جاہلانہ فعل ہے۔ (خزائن العرفان) پھر کچھ آگے چل کر مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں:
’’ایمان داروں کو رذیل کہتے ہو اور ان کی قدر نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ وہ تم سے بہتر ہیں۔‘‘
پھر سورۃ الشعراء پ۱۹ آیت نمبر۱۱۱ میں نوحk کی قوم نے ایمان داروں کو ارذل کہا۔ تو مولانا مراد آبادی صاحب اس کے تحت لکھتے ہیں ’’کمینے سے مراد ان کی غرباء اور
ـ
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۲ ص۹۶)
(۲) (دیکھئے پ۱۲ سورہ ہود آیت نمبر۲۷)
پیشہ ور لوگ تھے۔ اورا ن کو رذیل و کمین کہنا یہ کفار کا متکبرانہ فعل تھا۔ ورنہ درحقیقت صنعت اور پیشہ حیثیت دین سے آدمی کو ذلیل نہیں کرتا۔
غنا اصل میں دینی غنا ہے اور نسب تقویٰ کا نسب (ہے)
مسئلہ:
مومن کو رذیل کہنا جائز نہیں، خواہ وہ کتنا ہی محتاج و نادار ہو یا وہ کسی نسب کا ہو (۱)
قارئین کرام! اس سے ثابت ہوا کہ اعلیٰ حضرت کا مسلمان پیشہ ور لوگوں کو رذیل کہنا شریعت کی صریح مخالفت ہے۔ نائی (حجام) آپ کے نزدیک رذیل ہیں۔ منہار (چوڑیگر) آپ کے نزدیک رذیل ہیں۔ جیسا کہ ملفوظات کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔ چوہڑے اور چمار (موچی) آپ کے نزدیک ناپاک (پلید) ہیں۔ دیکھئے اعلام الاعلام بان ہندوستان دار الاسلام) اور اعلیٰ حضرت کے ایک مقلد نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ چمار (موچی) تو بے ایمان ہونے کی حیثیت سے بھی ذلیل ہے۔ (۲)
لیجیے بے چارے موچی، بریلوی حضرات کے ہاں پلید و بے ایمان ہیں۔ (انا ﷲ وانا الیہ راجعون) نائیوں، منہاروں اور موچیوں کو عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ بریلوی مذہب میں ان کے متعلق کیا خیالات ہیں۔ جب کہ اعلیٰ حضرت بریلوی کے نزدیک ولد الحرام، ولد الزنیٰ بھی قابل قدر ہیں۔
مسئلہ نمبر۶:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید ایک بازاری عورت طوائف کا بیٹا ہے۔ بچپن سے زید کی طبیعت علم کی طرف مائل تھی۔ حتی کہ وہ عالم ہو
ـ
(۱) (مدارک، خزائن العرفان)
(۲) (دیوبندی مذہب کا علمی محاسبہ طبع اول ص۱۲۰)
گیا۔ نماز اس کے پیچھے پڑھنا جائز ہے یا نہیں کیوںکہ اس کے والد کا پتہ نہیں کہ کون تھا؟
الجواب:
نماز جائز ہونے میں تو کلام نہیں بلکہ جب وہ عالم ہے اگر عقیدہ کا سنی ہو اور کوئی وجہ اس کے پیچھے منع نماز کی نہ ہو تو وہی امامت کا مستحق ہے جب کہ حاضرین میں اس سے زیادہ کسی کو مسائل نماز و طہارت کا علم نہ ہو۔ (۱)
بلکہ یہ اور بھی اولیٰ ہے کہ ولد الزنا ہونے میں اس کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ (۲)
عرض: ولد الحرام کے پیچھے نماز ہو جائے گی یا نہیں۔
ارشاد: اگر اس سے علم و تقویٰ میں زیادہ اس کی مثل جماعت میں موجود ہو تو اسے امام بنانا نہ چاہیے ہاں اگر یہی سب حاضرین سے علم و تقویٰ میں زائد ہو تو اسی کو امام بنایا جائے۔(۳)
عرض: رنڈی کو مکان کرایہ پر دینا جائز ہے یا نہیں؟
ارشاد: اس کا مکان میں رہنا کوئی گناہ نہیں رہنے کے واسطے مکان کرایہ پر دینا کوئی گناہ نہیں باقی رہا اس کا زنا کرنا یہ اس کا فعل ہے۔
اس کے واسطے مکان کرایہ پر نہیں دیا گیا۔ (۴)
۲۱… عرض: حضور کیا جن و پری بھی مسلمان ہوتے ہیں؟
ارشاد: ہاں (اور اسی تذکرہ میں فرمایا) ایک پری مشرف بہ اسلام ہوئی اور اکثر
ـ
(۱) (احکام شریعت ج۲ ص۱۶۷)
(۲) (احکام شریعت ج۲ ص۲۹۶ مسئلہ نمبر۱۰۸)
(۳) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۲ ص۸۲، ۸۳)
(۴) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۳ ص۴۱)
خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتی تھی۔ ایک بار عرصہ تک حاضر نہ ہوئی۔ سبب دریافت فرمایا: عرض کی حضور میرے ایک عزیز کا ہندوستان میں انتقال ہو گیا تھا وہاں گئی تھی راہ میں میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑ پر ابلیس نماز پڑھ رہا ہے میں نے اس کی یہ نئی بات دیکھ کر کہا کہ تیرا کام نماز سے غافل کر دینا ہے تو خود کیسے نماز پڑھتا ہے اس نے کہا شاید رب العزت تبارک و تعالیٰ میری نماز قبول فرما لے اور مجھے بخشے۔ (۱)
تنقید:
راقم الحروف نے جب یہ حدیث پڑھی جو اعلیٰ حضرت نے بیان فرمائی ہے تو اس کی تحقیق شروع کر دی۔ علماء کرام سے پوچھا مگر کسی نے نشان و پتہ نہ دیا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جوئندہ یا بندہ کے تحت میزان الاعتدال ج۴ ص۱۹۰ (نمبر ۸۸۰۱) میں منتصر بن الحکم کے ترجمہ میں مل گئی۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ روایت موضوعات ابن الجوزی میں واقع ہے۔ اور منقر بن الحکم مجہول ہے۔ شاید کہ اس نے اس حدیث کو گھڑا ہے۔ معلوم ہوا اعلیٰ حضرت بریلوی نے من گھڑت و جھوٹی روایت کی نسبت رسول اﷲa کی طرف کر دی ہے۔
۲۲… اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: یہ مرگی فی الحقیقت ایک شیطان ہے۔
جو انسان کو ستاتا ہے حضور اقدسa کے دربار میں ایک عورت اپنی لڑکی کو لائیں۔ عرض کی صبح و شام یہ مصروشہ ہو جاتی ہے۔ حضور نے اس کو قریب کیا اور اس کے سینہ پر ہاتھ مار کر فرمایا: اخرج عدو اﷲ وانا رسول اﷲ۔ نکل اے خدا کے دشمن میں اﷲ کا رسول ہوں۔ اسی وقت اسے قے آئی ایک سیاہ چیز جو چلتی تھی اس کے پیٹ سے نکلی اور غائب ہو گئی اور وہ
ـ
(۱) (ملفوظات ج۱ ص۱۳، ۱۴)
عورت بے ہوش گئی۔ (۱)
تنقید:
راقم الحروف اس حدیث کو پڑھ کر پریشان ہوا کہ بدمعاش پیر اس حدیث کی آڑ میں لڑکیوں کے سینوں پر ہاتھ لگانا اور ٹٹولنا کہیں شروع نہ کر دیں۔ تو حدیث کی جستجو کی۔ (مشکوٰۃ شریف ص۵۴۱) میں یہ حدیث ملی۔ اس حدیث میں ہے کہ وہ لڑکا تھا۔ نہ کہ لڑکی جیسا کہ اعلیٰ حضرت بریلوی نے رسول اﷲ a پر بہتان باندھا ہے۔
اصل حدیث علماء و خطباء عظام کے لیے نقل کی جاتی ہے:
’’وَعن ابْن عباسo قال ان امرأۃ جاء ت بابن لھا الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان ابنی بہ جنون انہ لیاخذہ عند غدائنا وعشاء نا فمسح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صدرہ و دعا فشع ثعۃً وخرج من جوفہ مثل الجر والاسود ویسعٰی (۲)
یہ ہے اعلیٰ حضرت کا علمی کمال۔
۲۳… ’’اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں‘‘ حدیث میں لا تمارضوا فتمھضوا بہ بغیر تکلیف بیمار نہ بنو۔ کہ حقیقت بیمار ہو جائو گے۔ دوسری حدیث سخت تر ہے۔ ’’لا تمارضوا فتمرضوا فتموتوا فتدخلوا النار‘‘ جھوٹے بیمار مت بنو کہ سچے بیمار ہو جائو گے۔ اور مر جائو گے تو جہنم میں داخل ہو گے۔ (۳)
ـ
(۱) (ملفوظات ج۳ ص۹۳)
(۲) (رواہ الدارمی مشکٰوۃ ص۵۴۱)
(۳) (ملفوظات ج۴ ص۴۶)
تنقید:
پہلی حدیث بھی ضعیف ہے امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ منکر (اوپری) یعنی ضعیف ہے۔ (۱)
دوسری حدیث جو اعلیٰ حضرت بریلوی نے پیش کی ہے وہ جاہل عوام کی بنائی ہوئی ہے۔ چنانچہ ملا علی قاری فرماتے ہیں واما یزید العوام من قولہم فتموتوا فتدخلوا النار فلا اصل لہ اصلا (۲)
پس ثابت ہوا کہ فن حدیث میں اعلیٰ حضرت بریلوی عوام الناس میں شامل ہیں ورنہ جان بوجھ کر رسول اﷲa پر بہتان باندھنا لازم آئے گا۔
۲۴… اعلیٰ حضرت قبلہ کی حدت مزاج کا تذکرہ تھا۔ ایک صاحب نے عرض کیا ایک تو مزاج گرم دوسرے علم کی گرمی۔ اس پر ارشاد فرمایا حدیث میں ہے ’’ان الحدۃ تعتری قراء امتی لعزۃ القران فی اجوافہم‘‘ قراء محاورہ حدیث میں علماء کو کہتے ہیں یعنی میری امت کے علماء کو گرمی پیش آئے گی قرآن کی عزت کے سبب جو ان کے دلوں میں ہے۔ (۳)
تنقید:
اس حدیث کی جہاں تک راقم الحروف نے تحقیق کی ہے یہ بھی جھوٹی و من گھڑت ہے۔ اور رسول اﷲa پر افتراء ہے۔ وہب بن وہب ابو البختری کذاب اس کی سند میں واقع ہے۔ چنانچہ میزان الاعتدال ج۴ ص۳۵۴ میں ہے ’’ان الحدۃ تعتری جماع
ـ
(۱) (علل الحدیث لابن ابی حاتم ج۲ ص۳۲۱ نمبر۳۴۸۱)
(۲) (موضوعات کبیر ص۱۳۸)
(۳) (ملفوظات ج۴ ص۳۹)
القرآن قیل لم یا رسول اﷲ قال لغیرۃ القرآن فی اجوافہم وہذہ احادیث مکذوبۃ‘‘ رسول اﷲa نے فرمایا جو شخص میری طرف جھوٹی نسبت کرتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
۲۵… اعلیٰ حضرت بریلوی لکھتے ہیں ایک بار عبدالرحمن قاری کہ کافر تھا اپنے ہمراہیوں کے ساتھ حضور اقدسa کے اونٹوں پر آ پڑا چرانے والے کو قتل کیا۔ اور اونٹ لے گیا۔ اسے قرأۃ سے قاری نہ سمجھ لیں بلکہ قبیلہ بنی قارہ سے تھا۔ (۱)
تنقید:
اس عبارت میں اعلیٰ حضرت بریلوی نے کئی جھوٹ بولے ہیں۔ (ا)عبدالرحمن قاری کو کافر کہنا (۲)اونٹوں پر حملہ آور قرار دینا (۳)چرانے والے کا قاتل قرار دینا (۴)اونٹوں کو لے جانا یہ سب جھوٹ ہیں اس لیے کہ حضرت عبدالرحمن قاری ایک قول کے مطابق صحابی رسول اکرمa کے ہیں اور ایک قول کے مطابق تابع ہیں اس کو کافر کہنا سخت جہالت ہے۔ انہوں نے نہ تو رسول اﷲa کے اونٹوں پر حملہ کیا ہے، نہ محافظ کو قتل کیا نہ اونٹ لے گیا تھا۔ بلکہ یہ سب کاروائی عبدالرحمن فزاری کی ہے جو کہ کافر تھا۔ (دیکھئے صحیح مسلم ج۲ ص۱۱۴۔ و ابودائود ج۲ ص۲۲) اعلیٰ حضرت بریلوی نے اسی ملفوظات ج۲ ص۴۳ میں لکھا۔ اس عبدالرحمن قاری سے پہلے کسی لڑائی میں ان سے وعدہ جنگ ہو لیا تھا۔ یہ وقت اس کے اس پورا ہونے کا آیا وہ پہلوان تھا اس نے کشتی مانگی انہوں نے قبول فرمائی۔ اس محمدی شیر (یعنی ابو قتادہl) نے خوک شیطان کو دے مارا خنجر لے کر اس کے سینہ پر سوار ہوئے (الخ) پھر اعلیٰ حضرت بریلوی کی یہ عبارت بھی کئی غلط بیانیوں کا مجموعہ ہے۔
ـ
(۱) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۲ ص۴۲)
(۱) عبدالرحمن قاری نہیں بلکہ عبدالرحمن فزاری تھا۔ (۲) ابو قتادہl سے کسی جنگ میں پھر لڑائی کا وعدہ نہیں ہوا تھا۔ نہ حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ (۳) عبدالرحمن فزاری کے پہلوان ہونے کا ذکر حدیث میں نہیں اور نہ کشتی مانگنے کا ذکر ہے۔ بلکہ حدیث میں یوں ہے کہ حضرت الاخرم اسدی نے عبدالرحمن فزاری کے گھوڑے کو قتل کر دیا۔ اور عبدالرحمن نے حضرت الاخرم الاسدیl کو شہید کر دیا۔ اور الاخرم اسدی کے گھوڑے پر سوار ہو کر پھر حضرت ابو قتادہl سے لڑائی ہوئی۔ تو عبدالرحمن فزاری نے حضرت ابوقتادہl کے گھوڑے کو قتل کر دیا اور حضرت ابو قتادہl نے عبدالرحمن کو قتل کر دیا۔ (۱)
یہ کشتی ایسی نہ تھی کہ حضرت ابو قتادہl نے عبدالرحمن کو اٹھا کر زمین پر دے مارا اور پھر خنجر لے کر سینہ پر سوار ہو گئے جیسا کہ اعلیٰ حضرت بریلوی نے سارے واقعہ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
حدیث شریف کی مشہور کتابوں سے بھی اعلیٰ حضرت بریلوی ناواقف ہے اور جو آدمی حدیث شریف کے فن کے ناواقف ہے وہ فقیہ نہیں ہو سکتا مجتہد ہونا تو بڑی بات ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت خود فرماتے ہیں ’’محدث ہونا علم کا پہلا زینہ ہے اور مجتہد ہونا آخری منزل ہے۔‘‘ (۲)
بریلوی عالم فیض احمد اویسی لکھتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ کوئی عالم دین اس وقت تک فقیہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسے حدیث میں بہ تمام و کمال عبور نہ ہو کہ فقہ کی تعریف میں یہ حقیقت سموئی ہوئی ہے۔ (۳)
ـ
(۱) (صحیح مسلم و ابوداؤد)
(۲) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۲ ص۴۸)
(۳) (امام احمد رضا اور علم حدیث ص۶ مرکزی مجلس رضا لاہور)
فیض احمد اویسی لکھتے ہیں: اعلیٰ حضرت کسی دار العلوم یا یونیورسٹی میں داخل نہیں ہوئے بلکہ اپنے گھر پر علوم وفنون حاصل کیے۔ (۱)
نیز موصوف لکھتے ہیں: ایک وضعی حدیث کا بیان کرنا جہنم خریدنا ہے۔ (۲)
اعلیٰ حضرت نے تو کئی وضع حدیث کو بیان ہے۔
اعلیٰ حضرت خود فرماتے ہیں: ’’میں ایک بار ایک پیچیدہ حکم بڑی کوشش و جانفشانی سے نکالا اور اس کی تائیدات مع تفسیر آٹھ ورق جمع کیں جب والد ماجد قدس سرہٗ کے حضور پیش کیا تو انہوں نے ایک جملہ ایسا فرما دیا کہ اس سے یہ سب ورق رد ہو گئے۔ (۳)
واقعی اعلیٰ حضرت کے اکثر فتاویٰ رد کرنے کے لائق ہیں۔
ناظرین کرام ہم نے پچیس مثالیں پیش کر دی ہیں جس سے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کے فتاویٰ کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔
ـ
(۱) (امام احمد رضا اور علم حدیث ص۱۳)
(۲) (امام احمد رضا ص۳۸)
(۳) (ملفوظات ج۱ ص۹۹)
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
الفت بھیا آپ نے بہت ہی خوب لکھا ۔ اللہ آپ کو اور استقامت دے ۔ خان بابا کے جوتے انہی کے سر پر ۔ اس قوم کا کوئی علاج نہیں ہے ۔یہ جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکی ہے ۔ خان بابا کا اصلی چہرہ بے نقاب کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
میں نےپہلے کبھی اتنی تفصیلی معلومات نا کہیں پڑھی ہیں اور نا کبھی سنی تھیں ۔۔

آپ کا بہت بہت شکریہ
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔۔ الفت بھائی اللہ آُ کو جزائے خیر عطا فرمائے بہترین سلسلہ شروع کیا
اب رکئیے گا مت
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
اسلام علیکم الفت خان صاحب
ماشاءاللہ آپ نے بہت خوبصورت انداز میں خان بابا کے کمالات ان ہی کے آئینہ سے دکھا دئیے ۔ ۔ ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بندہ {احمد رضاخان } ایسا ہی انسان تھا جس نے امت کو دو فرقوں میں بانٹ دیا اور اس کے ماننے والے اسے مجدد ، مفسر ، مفتی اور رضی اللہ تعالی عنہ کے القاب سے یاد کرتے ہیں جب کہ حقیقت ِ حال یہ ہے خان بابا کی پوری زندگی امت کے تکڑے کرنے میں گزر گئی ۔ ۔ ۔
جزاک اللہ خیرا
 

مزمل شیخ بسمل

وفقہ اللہ
رکن
بہت ہی عمدہ شراکت ہے جناب۔ کیا کہنا۔ الفاظ میں شکریہ ادا نہیں ہوسکتا۔ اللہ ہی اجر عطا فرمائے گا آپ کی محنت کا۔
 
Top