تقلید ،اجماع ، قیاس کی شرعی حیثیت ایک اہم فتویٰ از امام الحرمین فضیلۃ الشیخ محمد

شرر

وفقہ اللہ
رکن افکارِ قاسمی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مر کزی ادارہ برائے امور مسجد حرام ومسجد نبوی
مملکت عربیہ سعو دیہ
( ڈاکٹر عدنان حکیم کے سوالات کا جواب )​
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پرور دگا ر ہے ۔میں درود وسلام کہتا ہوں محمد ﷺ پر جو ہمارے آقا ہیں اور اس کے بندے اور رسول ، نیزآپ کی آل پر اور تمام اصحاب پر۔

سوال نمبر 1 : کیا صحابہ کرام ، تابعین عطام اور فقہا ء امت کا اجماع حجت شرعیہ ہے یا نہیں؟ اور کیا اجماع تشریع اسلام کا تیسرا ما خذ ہے یا نہیں ؟ اجماع کے حجت ہو نے کی کیا دلیل ہے ؟ اور با لکلیہ اجماع کے منکر کا کیا حکم ہے ؟
جواب : باتفاق علماء، صحابہ کرام کا اجماع حجت شرعیہ ہے اسی طرح جن تابعین اور فقہا ء کا اجماع بھی حجت شرعیہ ہے البتہ اس میں داؤد ظاہری نے اختلاف کیا ہے ان کی رائے یہ ہے کہ غیر صحابہ کا اجماع حجت شرعیہ نہیں لیکن حجت ہو نے کا قول صحیح ہے کیوں کہ حجیت اجماع کے دلائل عام ہیں ، صحابہ رضی اللہ عنہم غیر صحابہ سب کے اجماع کو شامل ہیں اس لئے صرف صحابہ کرام کے اجماع کو حجت کہنا سینہ زوری ہے ، اس پر کوئی دلیل قائم نہیں ! کتاب وسنت کے بعد اجماع کو تشریع اسلامی کے ما مآخذ میں سے تیسرا مآخذ تسلیم کیا گیا ہے ۔
دلائل حجیت اجماع ۔۔۔۔ جمہور علماء کے نزدیک اجماع حجت شرعیہ ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے اس پر کتاب وسنت کے بہت سے دلائل ہیں ہم ان میں سے چند ایک ذکر کرتے ہیں ۔
1۔۔ فر مان خداوندی ہے ومن یشاقق الرسول من بعد ( الایۃ) جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا ہے اور سبیل المو منین کے علاوہ کسی دوسرے راستہ پر چلتا ہے ہم اس کو ادھر پھیر دیتے ہیں جدھر وہ پھرتا ہے اور ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ ( نسا ء (110
اللہ تعالیٰ نے سبیل المو منین کے ترک پر وعید فر مائی ہے اگر یہ حرام نہ ہوتا تو اس پر وعید نہ وارد ہو تی ۔اور اس وعید میں سبیل المو منین کے ترک کو اورمخا لفت رسول کو جو حرام ہے جمع نہ کیا جاتا اور جب غیر سبیل المومنین کی اتباع حرام ہے تو سبیل المو منین کی اتباع واجب ہو گی اور اجماعی حکم سبیل المو منین ہے لہذا اس کی اتباع واجب ہے ۔
2۔۔۔ اور سنت سے دلیل یہ ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فر ماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے فر مایا بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا ۔( ترمذی) اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فر مایا بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو جماعت سے کٹا وہ آگ میں پڑا ۔ ( تر مذی)
ان سب احادیث کا اختلافِ الفاظ کے با وجود مفہوم ایک ہے ۔ یعنی مجموعی طور پر امت کا خطا سے معصوم ہونا ۔اس سے ثابت ہوا کہ علماء کا اجماع حجت شرعیہ ہے ۔ ہمیشہ ان احادیث سے بغیر کسی ردو وقدح کے پہلے صحابہ کرام پھر ان کے بعد والے علماءعظام حجت اجماع کو ثابت کرتے رہے ہیں تا آنکہ بعد میں مخالفین اجماع پیدا ہو گئے ۔
منکرین اجماع کا حکم اجماع قطعی کے منکر کے بارے میں علماء کے تین قول ہیں ۔
(1)مطلقا اجماع قطعی کا انکار کفر ہے ۔
(2 مطلقا اجماع قطعی کا انکار کفر نہیں
(3 اگر اجماعی حکم کادین میں سے ہونا امر قطعی ہو جیسے پانچ نمازیں تو اس کا انکار کفر ہے اور اگر اس کا دین میں ہونا امر قطعی نہ ہو تو اس کا انکار کفر نہیں ۔ تاہم اجماع کی مخالفت جائز نہیں ۔ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اجماع حجت شرعیہ ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔

سوال نمبر 2 ۔۔۔ قیاس کی بنیاد ظن پر ہے اور جس چیز کی بنیاد ظن پر ہو وہ ظنی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے طن کی اتباع سے منع فر مایا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فر مان ہے اور اس چیز کے پیچھے مت چل جسکا تجھے علم نہیں ) الاسراء : (36 )لہذا قیاس کے ساتھ حکم بتانا درست نہیں کیونکہ یہ اتباع ظن ہے۔ لہذا قیاس کے ساتھ حکم بتانا درست نہیں کیونکہ یہ اتباع ظن ہے ۔
جواب ۔۔۔ قیاس فقہ اسلامی کے مآ خذ میں سے چو تھاء ماخذ ہے اور اس کی حجیت کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے اس پر صحابہ کرام ، تا بعین اور فقہا ءامت نے قرنہا قرن سے عمل کیا ہے ۔ جمہور علماء کے نزدیک قیاس پر عمل کرنا واجب ہے جب کہ داؤدظاہری اور ان کے پیرو کار وں نے اس کا انکار کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ قیاس حجت شرعیہ نہیں ہے ،ان کے دلائل میں سے ایک دلیل وہی ہے جس کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے علماء نے ان کے دلائل کے جوابات دیئے ہیں ۔ ہم مختصر طور پر بعض جواب ذکر کرتے ہیں ،اور اگر آپ کو مزید وسعت درکار ہو تو کتب اصول فقہ کی طرف مراجعت کیجئے ۔ مثلا علامہ جوینی ؒ کی البر ہان ،امام رازیؒ کی المحصول ،الاحکام للآمدی ؒ ، شروح مختصر ابن حاجب ؒ ،اصول سر خسیؒ ،اور عبد العزیز بخاریؒ کی کشف الاسرار ان کتابوں میں منکرین قیاس کا تفصیلی رد ہے ۔ بہر کیف وہ آیات جن میں اتباع ظن سے نہی کی گئی ہے ان کا قیاس شرعی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس پر منطبق ہو تی ہیں کیونکہ ان آیات میں جس چیز سے نہی کی گئی ہے وہ ہے ۔ عقائد میں ظن کی اتباع ۔ رہے احکام عملیہ سو ان کے اکثر دلائل ظنی ہیں اگر ہم اس شبہ کا اعتبار کرلیں تو ہمیں تمام دلائل شرعیہ ترک کرنے پڑیں گے جو ظنی الدلالت ہیں اور یہ باطل ہے ۔ رہا ان کا اللہ تعالیٰ کے فر مان ولا تقف ما لیس لک بہ علم سے استدلال سواس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے مقصود نہی ہے اس بات سے کہ کوئی انسان محل یقین میں امکان تیقن کے با وجود حصول یقین سے انحراف کر کے ظن وتخمین پر اعتماد کرے پس یہ بھی قیاس شرعی کو شامل نہیں کیونکہ فرع واصول کے درمیان علت جامعہ پائے جانے کی وجہ سے حکم کے اعتبار سے فرع کو اصل کے ساتھ لاحق کرنا اس حکم کے قبیل سے نہیں جس سے آیت میں منع کیا گیا ہے ، یعنی بغیر علم کے قول کرنا، کیوں کہ مجتہد اسی چیز کو اختیار کرتا ہے جو اس کے نزدیک راجح ہو تی ہے اور اس کا اجتہاد اس تک پہنچتا ہے ۔

سوال نمبر3۔۔۔ قیاس شرعی کے حجت ہونے کی کیا دلیل ہے؟
جواب۔۔۔۔ علماء نے قیاس کی حجیت کو کتاب وسنت اور اجماع سے نیز عقلی دلیل سے ثابت کیا ہے ، تاہم ان میں سے بعض کا ذ کرتے ہیں اور اگر مزید دلائل معلوم کر نے کا ارادہ ہو تو ان کتب اصول کی طرف مراجعت کی جائے جن کا میں نے منکرین قیاس کے شہادت کے رد میں پہلے ذکر کیا ہے ، کتاب اللہ سے دلیل فرمان الہی ہے ۔ ھو الذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتاب الایۃ ۔اللہ وہ ہے جس نے اہل کتاب میں کافروں کو ان کے گھروں سے نکالا۔ پہلے حشر کے وقت تمہارا گمان نہیں تھا کہ وہ نکلیں گے اور انہوں نے گمان کیا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کے عذاب سے بچالیں گے سو ان پر اللہ کا عذاب ایسے طور پر آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں رکھتے تھے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا کیا وہ گراتے تھے اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوںاور مؤمنین کےہاتھوں ، پس عبرت پکڑو اے ارباب بصیرت : محل استدلال اللہ تعالیٰ کا فر مان فاعتبروا یا اولی الابصار ہے وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مسلمانوں کو اس عذاب کی خبر دی جو بنو نضیر پر نازل ہوا تو ان کو حکم دیا کہ وہ عبرت پکڑیں اور الاعتبارلعبور سے سے مشتق ہے ۔اور العبور کا معنیٰ ہے المجاوزۃ یعنی گذرنا مقصود یہ ہے کہ اپنے نفوس کو ان پر قیاس کرو کیونکہ تم بھی ان جیسے بشر ہو اگر تم ان جیسا کام کروگے تو تمہارے اوپر بھی وہی عذاب اتر پڑے گا جو ان پر اترا ۔ پس یہ آیت تمام انواع اعتبار کو شامل ہے اور جب قیاس میں فرع واصل کے درمیان موجود علت جامعہ کی وجہ سے فرع سے اصل کی طرف مجاوزت ہو تی ہے توہم بھی اس اعتبار کے انواع میں داخل ہوگا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور سنت سے دلیل یہ ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا تو دریافت فرمایا کہ آپ کیسے فیصلہ کریں گے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کتاب اللہ کے ساتھ ۔ فر مایا : اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو ؟ حضرت معاذ نے جواب دیا سنت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ فیصلہ کروں گا ۔ آپ نے فر مایا : اگر آپ کو سنت رسول ﷺ میں بھی نہیں ملے تو پھر ؟ کہنے لگے میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ۔اور اس میں کوتاہی نہ کروں گا ،رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینے پہ ہاتھ مارا اور فر مایا اللہ کا شکر ہے ۔ جس نے رسول اللہ ﷺکے قاصد کو اس چیز کی تو فیق دی جس پر اللہ کا رسول راضی ہے ( ابوداؤد، ترمذی، مسند احمد ، ابوداؤد طیالسی ) اور اس کی بہت سے محقیقین نے تصحیح کی ہے ۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فیصلہ کرنے میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے کتاب وسنت سے اجتہاد کی طرف منتقل ہو نے کو درست قرار دیا ہے اور قیاس بھی اجتہاد کے انواع میں سے ایک نوع ہے ۔
علاوہ ازین عمل با لقیاس پر صحابہ کرام کا اجماع ہےا ور ہر وہ امر جس پر صحابہ کرام کا اجماع ہو وہ حق ہے اس کاالتزام واجب ہے اس کی مثالوں میں ایک مثال یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف اپنا مشہور حکم نامہ تحریری طور پر بھیجا کہ اشباہ والنظائر کو پہچانئے اور امور میں اپنی رائے کے ساتھ قیاس کیجئے ( سنن کبریٰ، بیہقی ، الفقیہ والمتفقہ للخطیب) عقلی دلیل یہ ہے کہ کتاب وسنت کے نصوص محدود ومتناہی ہیں اور لوگوں کو در پیش مسائل غیر متناہی ہیں کیونکہ ہر زبان ومکان میں نئے مسائل ظہور پذیر ہوتے ہیں سو اگر ان کے احکام معلوم کر نےکے لئے کتاب وسنت کی نصوص پر قیاس نہ کریں تو وہ بغیر حکم شرعی باقی رہ جائیں گے اور یہ باطل ہے کیونکہ شریعت مقدسہ عام ہے اور تمام نئے پیش آمدہ مسائل کو شامل ہے : ہر ہر واقعہ کے لئے شریعت میں حکم موجود ہے اور مجتہدین پر لازم ہے کہ وہ استنباط کے قواعد معروفہ کے موافق استنباط کریں ۔

سوال 4۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فر مان کا کیا مطلب ہے جو درست اجتہاد کرے اس کے لئے دو اجر ہیں اور جو غلط اجتہاد کرے اس کے لئے ایک اجر ہے ؟
جواب ۔۔۔۔ اس سے مرادحاکم یا قاضی یا عالم مجتہد ہے ۔ جب اس نے اجتہاد کیا اور اپنی ممکنہ استطاعت کسی مسئلہ کاحکم معلوم کرنے میں صرف کی اس کے با وجود اس سے حکم میں غلطی ہو گئی تو وہ گنہ گار نہ ہو گا بلکہ اپنے اجتہاد پر ماجور ہو گا اور اگر اس نے حق کو پا لیا تو اس کے لئے دو گنا اجر ہو گا ایک اجر اجتہاد پر دوسرا اصابۃ حق پر : بشر طیکہ شرائط اجتہاد کا عالم وحامل ہو اور اگر شرائط اجتہاد کاعالم وحامل نہ ہو اور محض تکلف کر کے اجتہاد کرے اور علم کا دعویٰ کرے تو یہ حدیث اس کو شامل نہیں ۔
سوال5۔۔۔ جب تمام فقہاء مجتہدین کی آرا کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہوں تو کیا وہ قانون شرعی ہو جاتا ہے ؟کیا اس کی اتباع واجب ہے ؟ یا اس کی مخالفت جا ئز ہے ؟
جواب۔۔۔ جب تمام فقہا ءمجتہدین کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہو جائیں تو اس کو اجماع شمار کیا جاتا ہے جس کی مخالفت نا جائز اور اتباع واجب ہے اور جو اس اجماع کی مخالفت کرتا ہے وہ اس وعید کی زد میں آتا ہے جس کو ہم نے حجیت اجماع کے دلائل میں ذکر کیا ہے ۔
سوال 6 ۔۔۔ کیا احکام شرعیہ کیلئے قیاس کا چوتھے ماخذ کے طور پر اعتبار کیا جاتا ہے ؟
جواب ۔۔۔ کتاب وسنت اور اجماع کے بعد احکام شرعیہ معلوم کرنے کیلئے قیاس چوتھا ماخذ ہے ۔ اسکے ذریعہ احکام شرعیہ معلوم کئے جاتے ہیں ۔ علامہ قرطبیؒ فر ماتے ہیں اما م بخاریؒ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ میں فر مایا ہے : مطلب یہ ہے کہ کسی کے لئے بچاؤ نہیں مگر کتاب اللہ میں یا سنت نبویہ میں یا علماء کے اجماع میں جبکہ ان میں حکم موجود ہو پس اگر ان میں حکم موجود نہ ہو تو پھر قیاس ہے ۔ اس پر امام بخاری ؒ نےتر جمۃ الباب قائم کیا باب الاحکام ا لتی تعرف با لدلائل وکیف معنی الدلالۃ وتفسیرھا۔یعنی یہ باب ہے ان احکام کے بیان میں جو دلائل سے معلوم کئے جاتے ہیں اور دلالت کیسی ہوتی ہے اور اسکی کیا تفسیر ہے ؟ ( احکام القرآن172)

سوال 7۔۔۔ اس آدمی کا کیا حکم ہے جو کہتا ہے کہ سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا ہے ؟
جواب۔۔۔ اگر قائل کی مراد "انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین "والا قیاس ہے تو قائل کا یہ قول درست ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حسن بصری اور ابن سیرین سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فر مایا سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا اور غلط قیاس کیا اور حکماء نے کہا کہ اللہ کے دشمن نے غلط کہا کیونکہ اس نے آگ کو مٹی پر فضیلت دی حالانکہ وہ دونوں ایک درجہ میں ہیں کہ وہ دونوں بے جان مخلوق ہیں اور اگر قائل کا مقصد قیاس شرعی کا انکار ورد ہے اور اس پر طعن ! تو یہ نا جائز ہے ، کیونکہ ماہرین علماء کا اجماع ہے اخذ بالقیا س پر : اور اجماع کی مخالفت حرام ہے ، جبکہ شاذ اقوال کا کوئی اعتبار نہیں۔( یعنی قیاس کو غلط کہنے والا مر تکب حرام ہے اور ایسے شخص کا قول شاذ ہے لائق اعتبار نہیں ۔ناقل)

سوال نمبر 8۔۔۔ اسلامی شریعت میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید ( یعنی تقلید شخصی) کا کیا حکم ہے؟
جواب ۔۔۔۔ مسئلہ تقلید کے اعتبارسے مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں :
مجتہدین یعنی وہ علماء جو دلائل سے مسائل مستنبط کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ان کے لئے تقلید جائز نہیں ۔بلکہ ان پر اجتہاد واجب ہے ۔
2 ۔۔عوام ، یعنی وہ لوگ جو اجتہاد کی قدرت واہلیت نہیں رکھتے ان کیلئے ائمہ اربعہ میں ے کسی ایک کی تقلید جائز ہے ۔ اور تقلید سے مراد یہ ہے کہ فقہی مسائل میں دلیل جانے بغیر مجتہد کے قول کی اتباع کرنا ۔ اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ۔ پس پو چھو اہل علم سے اگر تم نہیں جانتے ۔ ( الانیباء: .اور رسول اللہ ﷺ کا فر مان زخمی صحابی کے مشہور واقعہ میں کہ : جب و ہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے
پو چھ کیوں نہ لیا : عاجز آدمی کیلئے بجز سوال کے کسی بات میں شفا نہیں ،( ابوداؤد، ابن ماجہ، احمد ،حاکم ، طبرانی ) اور عامۃ الناس کو اجتہاد کا مکلف بنا نامتعذر(مشکل) ر ہے کیونکہ اجتہاد کا تقاضا ہے کہ مجتہد میں خاص ذہنی صلاحیت ہو۔ علم میں پختگی ہو اور لوگوں کے احول اور وقائع کی معرفت اور طلب علم اور اس پر صبر کی عادت اور اگر سب لوگ ان شرائط کو پورا کرنےکے لئےان کے حصول میں مشغول ہو جائیں تو کارو بار معیشت باطل ہو جائیں گے اور نظام دنیا درہم بر ہم ہو جائیگا۔

سوال 9۔۔۔ کیا آیت کریمہ اتخذو احبارہم اربابا من دون اللہ ائمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ امام شافعیؒ ،امام احمد بن حنبلؒ کی تقلید پر منطبق ہو تی ہے یا نہیں ؟
جواب ۔۔۔۔ آیت سے مقصود یہ ہے کہ انہوں نے اپنے احبار کو ارباب کی طرح بنا لیا ، کیونکہ انہوں نے ان کی ہر چیز میں اطا عت کی چنا نچہ امام تر مذی نے عدی بن حاتم ؒ سے روایت نقل کی ہے وہ
فر ماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس اس حالت میں آیا کہ میری گر دن میں سونے کی صلیب تھی آپﷺ نے فر مایا اے عدی اس کو اتار پھینک ۔ یہ بت ہے اور میں نے آپ ﷺ سے سناآپ نے سورہ براءۃ کی آیت تلاوت کی"""""""" """""""""اتخذو احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح بن مریم ( توبہ (31)پھر فر مایا خوب سن لو وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے ، لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے یہ اس کو حلال سمجھتے اور جب وہ ان پر کوئی چیز حرام کرتے تو یہ اس کو حرام سمجھتے ۔سو کہاں ائمہ اربعہ اور کہاں وہ احبار جو اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال قرار دیتے ہیں اور اللہ کی حلال ٹہرائی ہو ئی چیز کو حرام ٹہراتے ہیں ۔اللہ کی پناہ اس بات سے کہ ائمہ اعلام کو ان احبار جیسا سمجھا جائے کیوں کہ ان ائمہ نے شریعت اسلامیہ کی خدمت میں اپنی پوری قوت صرف کی اور اس میں اپنی زندگیاں لگادیں اور ان کے درمیان جو مسائل میں اختلاف ہے وہ درحقیقت اختلاف اجتہادات کی وجہ سے ہے ۔ان کا یہ اختلاف باعث اجر ہے ۔اور یہ کہنا کہ مذکورہ بالا آیت ائمہ اربعہ کو بھی شامل ہے جھوٹ ہے ، بہتان ہے اس کا سبب جہالت عظیمہ ہے ۔( غیر مقلدین علماء اور عوام یہی کہتے ہیں لہذا وہ سب جھوٹے ہیں اور بڑے جاہل۔ناقل)

سوال نمبر 10۔۔۔ کیا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید شرک وکفر کے زمرہ میں داخل ہے ؟
جواب۔۔۔ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید غیر مجتہد کے لئے جائز ہے اس کا کفر وشرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ائمہ اربعہ حق اور دین حق کے داعی ہیں ۔ انہوں نے اپنے نفوس کو علم شریعت کے سیکھنے سکھانے کے لئے وقف کر دیا ۔ حتیٰ کہ اس علم کا بڑا حصہ پا یا جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کی قدرت وصلاحیت پیدا ہو گئی ۔ سو عامۃ المسلمین جو ان کے مقلد ہیں وہ راہ ہدایت اور راہ نجات پر ہیں ان شاء اللہ ۔( اور غیر مقلدین راہ ہدایت اور راہ نجات پر نہیں ہیں ناقل)

سوال نمبر 11۔۔۔ اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مقلدین شرک اور کفر کرتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب۔۔۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے اس کو معلوم ہو نا چاہئے کہ اس کا یہ عقیدہ غلط ہے اس کی قطعا کوئی بنیاد نہیں  اور یہ عقیدہ دلالت کرتا ہے شریعت اسلامیہ سے بڑی جہالت پر کیوں کہ شریعت اسلامیہ نے کفر وایمان شرک وتوحید کے درمیان فرق کیا ہے ایسے شخص پر لازم ہےکہ وہ دین کا اتنا حصہ ضرور سیکھے جس کے ساتھ وہ شرک وکفر اور اجتہاد کے درمیان فرق کر سکے۔
( گویا غیر مقلدین اتنے جاہل ہیں کہ وہ کفر وشرک اور اجتہاد کے درمیان فرق نہیں کر سکتے ۔اور اس پر دعویٰ یہ کہ وہ محقق اور مجتہد ہیں ۔ناقل)

سوال نمبر 12 ۔۔۔ کیا لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید کے محتاج ہیں یا نہیں  ؟اور جس مسئلہ میں نص نہ ہو اس میں تقلید گمراہی ہے یا نہیں ؟
جواب ۔۔۔۔ اس کا جواب ویسا ہی ہے جیسا ہم نے پہلے تفصیلا لکھا ہے کہ غیر مجتہد محتاج ہے مجتہد کی طرف اور مجتہد کی تقلید خواہ غیر منصوص مسئلہ میں ہو یا نص کے سمجھنے میں ہو جائز ہے یہ تقلید گمراہی کی طرف مفضی نہیں بلکہ اس کا گمراہی سے کوئی تعلق نہیں ۔اللہ تعالیٰ سے تو فیق کا سوال ہے۔
 
Top