وجہ تخصیص مذاہب اربعہ ودر بعض بلا تخصیص مذہب حنفی

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وجہ تخصیص مذاہب اربعہ ودر بعض بلا تخصیص مذہب حنفی​

رہا یہ امر کہ مذاہب اربعہ ہی کی کیا تخصیص ہے مجتہد تو بہت سے گزرے ہیں ، جن کے اسما اقوال جا بجا کتابوں میں پائے جاتے ہیں ، پھر ان اربعہ میں سے تم نے مذہب حنفی ہی کو کیوں اختیار کیا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب اوپر ثابت ہو گیا کہ تقلید شخصی ضروری ہے اور مختلف اقوال لینا متضمن مفاسد ہے تو ضرور ہو کہ ایسے مجتہد کی تقلید کی جائے جس کا مذہب اصولا وفروعا ایسا مدون ومنضبط ہو کر قریب قریب سب سوالات کا جواب اس میں جزئیا وکلیا مل سکے تاکہ دوسرے اقوال کی طرف رجوع نہ کرنا پڑے اور یہ امر منجانب اللہ ہے کہ یہ صفت بجز مذاہب اربعہ کے کسی مذہب کو حاصل نہیں تو ضرور ہوا کہ ان ہی میں سے کسی ۢمذ ہب کو اختیار کیا جاوے کیونکہ مذہب خامس کو اختیار کرنے میں پھر وہی خرابی عود کرے گی کی جن سوالات کا جواب اس میں نہ ملے گا اس کے لئے دوسرے مذاہب کی طرف رجوع کرنا پے گا تو نفس کو وہی مطلق العنانی کی عادت پڑے گی جس کا فساد اوپر مذکور ہوچکا ہے یہ وجہ ہے انحصار کی مذاہب اربعہ میں اور اسی بناء پر مدت سے اکثر جمہو علماء امت کا یہی تعامل او توارث چلا آرہا ہے حتی کہ بعض علماء نے ان مذاہب اربعہ میں اہل سنت والجماعت کے منحصر ہونے پر اجماع نقل کیا ہے ۔
رہا یہ امر کہ مذاہب اربعہ اس طرح سے کیوں نہیں مدون ہوئے اس کے اسباب کی تحقیق اس مقام پر ضروری نہیں خواہ اس کے کچھ ہی اسباب ہوئے ہوں ۔ مگر ہم جب ایسے وقت میں موجود ہیں کہ ہم سے پہلے بلا ہمارے کسی فعل اختیاری کے اور مذاہب غیر مدون ہو نے کی حالت میں ہیں اور یہ مذاہب اربعہ مدون ہیں ، ہمارے لئے انحصار ثابت ہو گیا رہی دوسری بات کہ تم نے مذہب حنفی ہی کیوں اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم ایسے مقام پر ہیں جہاں سے بلا ہمارے اکتساب کے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کا مذہب شائع ہے اور اسی مذہب کے علماء اور کتابیں مو جود ہیں ۔اگر ہم دوسرا مذہب اختیار کرتے تو واقعات کا احکام کا معلوم ہونا مشکل ہوتا ہے ۔ کیوں کہ علماء بوجہ تحصیل وکثرت اشتغال ومزادلت جس درجہ اپنے مذہب سے واقف اور ماہر ہیں دوسرے مذہب پر اس قدر نظر وسیع ودقیق نہیں رکھ سکتے گو کتب کا معالعہ ممکن ہے ۔ چنا نچہ اہل علم پر یہ امر با لکل بدیہی وطاہر ہے ۔
رہا یہ کہ جہاں سب مذاہب شائع ہیں وہاں یہ کلفت بھی نہیں ، وہاں جا کر تم حنفی کیوں بنے رہتے ہو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ پہلے سے بوجہ ضرورت مذکور اس مذہب پر عمل کر رہے ہیں ۔اب دوسرا مذہب اختیار کرنے میں تقلید شخصی کا ترک لازم آتا ہے جس کی خرابیوں کا بیان ہو چکا ہے رہا یہ کہ ایسے مقامات پر پہنچنے کے بعد اب سے اس دوسرے ہی مذہب کی تقلید شخصی اختیار کر لی جائے کہ سب واقعات میں اسی پر عمل ہوا کرے اور یہ پہلا مذہب با لکلیہ چھوڑ دیاجائے اس کا جواب یہ ہے کہ آخرترک کرنے کی تو کوئی وجہ متعین ہونی چاہئے جس شخص کو قوت اجتہاد یہ نہ ہو اور اسی کے باب میں کلام ہو رہا ہے وہ تر جیح کے وجوہ تو سمجھ نہیں سکتا تو یہ فعل تر جیح بلا مرجح ہوگا اور اگر کوئی تھوڑا بہت سمجھ نہیں سکتا ہو تو اس کے ارتکاب میں دوسرے عوام الناس کے لئے جو متبع ہیں خواہش نفسانی کے ترک تقلید شخصی کا باب مفتوح ہوتا ہے اور اوپر حدیث سے بیان ہو چکا کہ جو امر عوام کے لئے باعث فساد ہو اس سے خواص کو بھی روکا جا سکتا ہے اور یہی مبنی ہے جو علماء کے اس قول کا کہ " انتقال عن المذاہب " ممنوع ہے ۔
رہا یہ کہ جو شخص آج ہی اسلام قبول کرے یا عدم تقلید چھوڑ کر تقلید اختیار کرے تو اس کے لئے مذہب حنفی کی تر جیح کی کیا وجہ ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ شخص ایسی جگہ ہے جہاں مذہب حنفی شائع ہے تب تو وہ اس کے لئےیہی امر مرجح ہے ۔جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور اگر ایسے مقام پر ہے جہاں چند مذاہب شائع ہیں تو اس کے لئے دعویٰ تر جیح مذہب حنفی کا نہیں کیا جاتا بلکہ وہ علی التساوی مختار ہے جس مذہب کو اس کا قلب قبول کرے اس کو اختیار کر لے ۔ مگر اس کا پا بند رہے البتہ کسی ایک مذہب مقلد ایسی جگہ پہنچے جہاں اس مذہب کا کوئی عالم نہ ہو اور یہ شخص خود بھی عالم نہ ہو اور اس کو کوئی پسئلہ پیش آوے چونکہ یہاں اپنے مذہب پر عمل ممکن نہیں ہے اور نہ دوسرے مذہب پر عمل کرنے میں کو ئی خرابی لازم ہے ایسے شخص کو جائز بلکہ واجب ہے کہ مذاہب اربعہ میں سے جو مذہب وہاں شائع ہو علماء سے دریافت کر کے اسی پر عمل کرے ایسے شخص کی بعد مذکور مذہب سابق کی تقلید شخصی کو واجب نہیں کہا جاوے گا لیکن ایسی صورت شاذ ونادر واقع ہو گی ورنہ اکثر حالات میں تو اس کے وجوب ہی کا حکم محفوظ ہے اب بفضلہ تعالیٰ اس مقصد کے متعلق کو ئی خدشہ موجب وسوسہ نہیں رہا ۔
( ہدیہ اہل حدیث ص78تا 80)
 
Top