دیکھ غافل اپنی آنکھوں کا ذرا شہتیر بھی(ملفوظات اعلیٰ حضرت

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
دیکھ غافل اپنی آنکھوں کا ذرا شہتیر بھی(ملفوظات اعلیٰ حضرت)​

خان صاحب ( مولانا احمد رضاخاں صاحب) نے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ شیخ مرید سے جدا نہیں ہر آن ساتھ ہے ایک واقعہ لکھا ہے ۔ ہم اسے ملفوظ جلد دوم کے ص 45۔46 سے نقل کرتے ہیں ۔
“ حافظ الحدیث احمد سلجماسی کہیں تشریف لے جاتے تھے۔راہ میں اتفاقا آپ کی نظر ایک نہایت حسینہ عورت پر پڑ گئی ۔یہ نظر اول تھی ، بلا قصد تھی ،دوبارہ پھر آپ کی نظر اٹھ گئی ۔اب دیکھا کہ پہلو میں حضرت سیدی غوث الوقت عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ آپ کے پیر ومرشد تشریف فرماء ہیں اور فرماتے ہیں ! احمد عالم ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔
انھیں سیدی احمد سلجماسی کی دو بیویاں تھیں ۔ سیدی عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رات کو تم نے ایک بیوی کے جاگتے ہوئے دوسری سے ہمبستری کی ایسا نہیں چاہئے ، عرض کیا “ حضور وہ اس وقت سوتی تھی “ فر مایا !
“سوتی نہ تھی سوتے میں جان ڈال دی تھی “
عرض کیا ! حضور کو کس طرح علم ہوا ؟
فر مایا ! جہاں وہ سورہی تھی کوئی اور پلنگ کالی تھا “
عرض کیا !“ ہاں ایک پلنگ خالی تھا “
فرمایا ! “ اسی پر میں تھا
تو کسی وقت شیخ مرید سے جدا نہیں ہرآن ساتھ ہے“ ۔

کرشن کنہیا ایک وقت میں کئی جگہ موجود
الملفوظ حصہ اول ص 101 کھول لیں ۔خان صاحب فر ماتے ہیں۔
“ کرشن کنہیا کافر تھا اور ایک وقت میں کئی جگہ مو جود ہو گیا ۔ ابو الفتح اگر چند جگہ ایک وقت میں ہو گیا تعجب ہے ۔ یہ ذکر کر کے فر مایا ! “ کیا یہ گمان کرتے ہو کہ شیخ ایک جگہ موجود تھے باقی جگہ مثالیں حاشا بلکہ شیخ بذات خود ہر جگہ موجود تھے ۔

اولیا ء دس ہزار شہروں میں دس ہزار جگہ دعوت قبول کر سکتے ہیں ۔
کسی نے در یافت کیا کہ حضور! اولیاء ایک وقت میں چند جگہ حاضر ہونے کی قوت رکھتے ہیں ۔ خاں صاحب نےجو جواب دیا وہ ملاحظہ فر مائیں ۔
“ اگر وہ چاہیں تو ایک وقت میں دس ہزار شہروں میں دس ہزار جگہ دعوت قبول کر سکتے ہیں “ (الملفوظ حصہ اول ص 101)

گدہے کو بھی غیب کا علم :
خان صاحب ارشاد فر ماتے ہیں !
“ ایک صاحب اولیا ء کرام رحمۃ اللہ علیہم میں سے تھے ۔آپ کی خدمت میں بادشاہ وقت قدمبوسی کے لئے حاضر ہوا ۔حضور کے پاس کچھ سیب نذر میں آئے تھے ۔ حضور نے ایک سیب دیا اور کہا کھاؤ “ عرض کیا حضور بھی نوش فر مائیں “ آپ نے بھی کھائے اور بادشاہ بھی بھی ۔ اس وقت بادشاہ کے دل میں خطرہ آیا کہ یہ جو سب میں بڑا اچھا خوش رنگ سیب ہے اگر اپنے ہاتھ سے اٹھا کر مجھ کو دے دیں گےتو جان لوں گا کہ یہ ولی ہیں ۔آپ نے وہی سیب اٹھا کر دے دیا“ ۔
“ ہم مصر گئے تھے ۔وہاں ایک جگہ جلسہ بڑا بھاری تھا ۔ دیکھا کہ ایک شخص ہے اس کے پاس ایک گدھا ہے اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے ۔ایک چیز ایک شخص کی دوسرے کے پاس رکھ دی جاتی ہے ۔اس گدھے سے پوچھا جاتا ہے ۔گدھا ساری مجلس میں دورہ کرتا ہے جس کے پاس ہوتی ہے سامنے جاکر سر ٹیک دیتا ہے ۔یہ حکایت ہم نے اسلئے بیان کی کہ اگر یہ سیب ہم نے دیں تو ولی ہی نہیں اور اگر دے دیں تو اس گدھے سے بڑھ کر کیا کمال کیا “یہ فر ماکر سیب بادشاہ کی طرف پھیک دیا ۔
بس سمجھ لیجئے کہ وہ صفت جو غیر انسان کے لئے ہو سکتی ہے انسان کیلئے کمال نہیں اور جو غیر مسلم کیلئے ہو سکتی ہے مسلم کیلئے کمال نہیں ( الملفوظ حصہ چہارم ص 11)
نتائج ذہین قارئین بآسانی اخد کر سکتے ہیں ۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جو لوگ محض خواب کو بنیاد بناکر فتوں کی بوچھار کر دیتے ہیں ۔یہاں حضرت والا اجنبیہ کے پلنگ کے پاس کے پلنگ پر تشریف رکھ کر زوجین کے تعلق خاص کا نطارہ فر مارہے ہیں۔کیا حکم لگائیں گے؟۔
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
تو کسی وقت شیخ مرید سے جدا نہیں ہرآن ساتھ ہے“
کیا فلسفہ ہے ۔ ۔ ۔ اعلٰی حضرت کے کام بھی تو اعلٰی ہی ہونے چاہیے ۔ جو کوئی عام حضرت نہ کر سکے ۔ ۔ ۔ افسوس ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
حافظ الحدیث احمد سلجماسی کہیں تشریف لے جاتے تھے۔راہ میں اتفاقا آپ کی نظر ایک نہایت حسینہ عورت پر پڑ گئی ۔یہ نظر اول تھی ، بلا قصد تھی ،دوبارہ پھر آپ کی نظر اٹھ گئی ۔اب دیکھا کہ پہلو میں حضرت سیدی غوث الوقت عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ آپ کے پیر ومرشد تشریف فرماء ہیں اور فرماتے ہیں ! احمد عالم ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔
انھیں سیدی احمد سلجماسی کی دو بیویاں تھیں ۔ سیدی عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رات کو تم نے ایک بیوی کے جاگتے ہوئے دوسری سے ہمبستری کی ایسا نہیں چاہئے ، عرض کیا “ حضور وہ اس وقت سوتی تھی “ فر مایا !
“سوتی نہ تھی سوتے میں جان ڈال دی تھی “
عرض کیا ! حضور کو کس طرح علم ہوا ؟
فر مایا ! جہاں وہ سورہی تھی کوئی اور پلنگ کالی تھا “
عرض کیا !“ ہاں ایک پلنگ خالی تھا “
فرمایا ! “ اسی پر میں تھا “
تو کسی وقت شیخ مرید سے جدا نہیں ہرآن ساتھ ہے“ ۔

یہ ہے بریلویت کا اصل چہرہ ۔ ۔ ۔ اور اسی چہرے پہ انہوں نے محبتِ رسول کا لیبل لگا رکھا ہے ۔ ۔ ۔ اور دعوٰی ہے کہ ہم سے بڑا عاشق رسول کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ صرف رضا خانی باقی سب تو کچھ بھی نہیں اسلام کے ٹھیکیدار تو مولانا احمد رضاخاں تھے جس نے بھی مسلمان رہناہے وہ خاں بابا کو اپنا امام مان لیں ورنہ یک جنبش قلم وہ کافر قرار دے دیے جائیں گے ۔ ۔ ۔ واہ خان بابا کمال ہے ۔ ۔ ۔ اور اس صنعت میں کوئی بھی آپ کا ثانی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top