بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں یہ دھاگہ ‘‘اصلی حنفی ’’ بھائی کی فرمائش ‘‘تقلید مجھے سمجھا دو’’ کے جواب میں کھول رہا ہوں ۔ یہاں میں اپنی بساط اور استعدادِ کار کے مطابق انہیں تقلید سمجھانے کی کوشش کروں گا، دوسرے تمام احباب اور بزرگوں سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ برائے مہربانی اس تھریڈ میں وہ کوئی پوسٹ نہ کریں ، کیونکہ اگر سمجھنے والا ایک ہو اور سمجھانے والے کئی تو پھر سمجھنے والا کسی بھی سمجھانے والے کی بات کو صحیح طرح سمجھ نہیں پاتا۔ اور نہ ہی کوئی ایک سمجھانے والا بہتر انداز میں سمجھا پاتا ہے ۔ اس لئے اگر آپ میرے یا اصلی حنفی بھائی کے اس دھاگے میں موجود معروضات پر اپنی رائے ، دلائل وغیرہ دینا چاہیں تو برائے مہربانی نیا دھاگہ کھول لیں ۔ شکریہ !
اپنی بات شروع کرنے سے پہلے میں ‘‘اصلی حنفی ’’ بھائی سے چند گذارشات کرنا چاہوں گاجو کہ یہ ہیں :۔
برادرم چونکہ بقول آپ کے ، آپ تقلید کوسمجھنا چاہتے ہیں ۔ اس لئے برائے مہربانی سمجھئے گا ہی سمجھانے کی کوشش مت کیجئے گا۔
سمجھنے سمجھانے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ادب یہ ہے کہ جب آپ واقعی تقلید سمجھنا چاہتے ہیں توآپ کو نیوٹرل (غیر جانبدار) ہونا پڑے گا۔کیونکہ کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان غیر جانبدار ہو ، اگر آپ بات سمجھنے سے پہلے ہی نتیجہ نکال کر بیٹھ جائیں گے تو پھر یہاں بات کرنا محض وقت کا ضیاع ہو گا۔
اور دوسری بات یہ کہ سمجھنے میں جہاں کوئی مسئلہ ہو کوئی اشکال ہو تو وہاں سوال کرنا بہت اچھی بات ہے مگر محض دوسروں کو تنگ کرنے کے لئے غیر سطحی اور بچگانہ قسم کے سوال کسی عاقل کو زیب نہیں دیتے ۔
امید ہے آپ ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے ایک بامعنی گفتگو کا موقع فراہم کریں گے۔
اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں
تقلید کیا ہے ؟
‘‘تقلید نام ہے اعتماد کا ، یعنی کسی بزرگ ، متقی عالم کے علم پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی بات کو حق تسلیم کرنا تقلید کہلاتا ہے ۔’’
اب میں اسکی ذرا وضاحت بیان کر تا ہوں ۔
تقلید کے لغوی معنی پیروی کرنا اور پیچھے چلنا کے ہیں اور اصطلاحاً تقلید سے مراد یہ ہے کہ کسی عالم باعمل اور متقی شخص نے قرآن و سنت کی روشنی میں جن شرعی مسائل (وہ شرعی مسائل جن کی کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ میں تصریح موجود نہیں ) کو سمجھ کر جیسے بیان فرمایا ہے ، ان کے علم وزہد پر اعتماد کرتے ہوئے ان مسائل کو اُسی طرح درست مان لینا تقلید کہلاتا ہے ۔
تقلید کن امور میں کی جاتی ہے ؟
جو احکام قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں ان میں کسی کی تقلید نہیں کی جاتی ۔ البتہ جو احکام کتاب اللہ اور احادیثِ رسول اللہ میں صراحت اور تفصیل سے بیان نہیں کیے گئے یا وہ احکامات جن کے بارے میں آپ ﷺ سے مختلف احادیث منقول ہوں (یعنی ظاہری تضاد نظر آتا ہو )ان امور میں کسی متقی اور عالمِ باعمل شخص کو اپنا امام مقرر کر کے اس کے قرآن وحدیث سے استنباط کردوہ فرمودات پر عمل کیا جاتا ہے ۔
ہمارے لیے تقلید کیوں ضروری ہے ؟
دین چونکہ ہم پرنازل نہیں ہوا کہ ہمیں دین کے سارے احکامات خود بخود وحی ٔ الٰہی کی صورت میں پتہ چل جائیں ، اس لئے ہمیں کسی ایسے رہنما اور رہبر کی ضرورت ہو گی جو ہمیں دین کے سارے احکام بتا سکے ۔ اور وہ رہنما اور خود صاحبِ دین یعنی حضرت محمد ﷺ ہیں ۔ قرآنِ مجید اور آپ ﷺکی احادیث مبارکہ دین کے بے شمار تصریح شدہ اور غیر تصریح شدہ امور سے بھری ہوئی ہیں ۔ اب تصریح شدہ امور میں تو آپ ﷺ کی احادیث اور قرآن پاک ہمارے پاس موجود ہیں ۔مگر وہ امور جن کی مکمل وضاحت کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ میں موجود نہیں ہے یا وہ امور جن کے بارے میں آپ ﷺ سے مختلف احادیث روایت ہیں (یعنی ظاہری تضاد نظر آتا ہے ) ان کی تصریح اور وضاحت کرنے کے لئے ہمیں پھر کسی رہبر کی ضرورت ہے ۔ سب سے بڑے رہبر تو خود آپ ﷺ ہیں مگر چونکہ ہم نے ان کا زمانہ نہیں پایا اس لئے ان امور کی وضاحت آپ ﷺ سے نہیں پوچھ سکتے ۔ آپ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مبارک دور آتا ہے ۔ مگر صحابہ کا دور بھی ہم نے نہیں پایا اور نہ ہی ان تشنہ بہ وضاحت امور کی تصریح صحابہ کرام سے لکھی ہوئی شکل میں منقول ہے اس لئے ہم ان سے رہنمائی حاصل نہیں کر سکتے ۔ صحابہ کے بعد تابعین اور تبع تابعین یعنی قرونِ اولیٰ کا دور آتا ہے ۔ مگر ہم نے وہ دور تونہیں پایا مگر اس دور میں اللہ نے ایسے ایسے متقی اور علم والے پیدا کیے جنہوں نے ان تشنہ بہ وضاحت امور کی وضاحت فرمائی اوروہ سارے کے سارے امور آج تک لکھی ہوئی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں ۔ اس لئے ہم پر ضروری ہے کہ ہم ان غیر تصریح شدہ امور میں بجائے اپنی عقل کے استعمال کے ان کے فرمودات پر عمل کریں کیونکہ ہمارے علم و عمل اور عقل و دانش سے کہیں زیادہ ان کا علم و عمل اور ان کی فراستِ ایمانی تھی کیونکہ ان میں سے بعضوں نے صحابہ وتابعین سے علم حاصل کیا وہ صحابہ جنہوں نے خود نبیﷺ سے علم حاصل کیا اور پھر وہی علم تا بعین کو منتقل کیا ۔ اورتابعین نے وہ علم تبع تابعین کو منتقل کیا ۔ اس لئے دین کے ان غیر تصریح شدہ امور میں ہم لازم ہے کہ ہم قرونِ اولیٰ کے زمانے میں موجود متقی عالموں اور اماموں میں سی کسی ایک کی تقلید کریں ۔
تقلید کسی ایک کی کیوں ؟ زیادہ کی کیوں نہیں ؟
قرون اولیٰ اور اس کے بعد دور میں چونکہ اسلام اپنی اصل تابناکی کے ساتھ موجود تھا اور اسلام لوگوں کی روح میں رچ بس گیا تھا اس لئے وہ لوگ دین کے معاملہ میں بد دیانتی کے مرتکب نہیں ہوتے تھے ، اس لئے وہ لوگ کوئی بھی مسئلہ اس وقت کے کسی بھی عالم سے دریافت کر کے اس کی تقلید کیا کرتے تھے ۔ مگر بعد میں جب مسلمانوں پر خواہش پرستی اور نفس پرستی کا غلبہ ہونا شروع ہوا تو لوگ دین کے معاملے میں بھی بددیانتی کے مرتکب ہونے لگے ۔اگر اپنے امام کاقول ان کی طبیعت پر گراں گزرتا تو وہ دوسرے امام کے قول کا سہارا لے کر اپنے لئے تن آسانیاں پیدا کرنے لگے ، اس طرح انہوں نے دین کو اپنے نفس کے تابع کرنا چاہا تو اس وقت کے علماء نے عوام پریہ لازم کر دیا کہ وہ تقلید کسی ایک امام کی کریں ۔
آئمۂ اربعہ کی تقلید ضروری کیوں ؟
اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ چاروں اماموں( امام ابو حنفیہ ؒ، امام مالک ،ؒ امام شافعی ؒاور امام احمد بن حنبلؒ )میں سے کسی ایک کی تقلید کیوں ضروری ہے ۔ اس دور میں اور بھی تو بڑے بڑے امام گذرے ہیں ، ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟ تو اس سوال کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ چونکہ ان امامِ اربعہ کے علاوہ کسی بھی امام کا سارا فقہ کتب کی شکل میں ہمارے پاس موجود نہیں ہےاور نہ ہی ان کی فقہ کے اس دور میں کوئی عالم موجود ہیں اس لئے ان کی تقلید نہیں کی جا سکتی ۔
پاک وہند والوں پر امام ابو حنیفہ ؒکی تقلید کیوں ضروری ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے چونکہ پاک و ہند میں تقریباً سارے علماء بھی حنفی ہی ہیں اور علماء احناف کی کتب بھی کثیر تعداد میں یہاں دستیاب ہیں جبکہ باقی اماموں کے علماء اور کتابیں بہت قلیل تعداد میں ہیں ۔ اس لئے پاک و ہند والے اگر امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ کی تقلید کرے تو انہیں مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
ہر شخص حقیقت میں مقلد ہوتا ہے ؟
جی ہاں ! ہر شخص حقیقت میں مقلد ہوتا ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی کا مقلد ہوتا ہے ، بعض باتوں میں وہ اپنے والدین کی تقلید کرتا ہے ، بعض معاملات میں اپنے دوستوں کی اور رشتہ داروں کی تقلید کرتا ہے اور بعض معاملات میں معاشرے کی ۔۔ حتیّٰ کہ اپنے آپ کو غیر مقلد کہنے والا بھی حقیقت میں مقلد ہی ہوتا ہے مگر وہ مانتا نہیں ہے کہ میں مقلد ہوں ۔جب وہ اپنے مسائل اپنے علماء سے پوچھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو وہ اپنے عالم کا مقلد ہو گیا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم تقلید آئمہ اربعہ کی کرتے ہیں اور غیر مقلدین تقلید اپنے موجودہ دور کے علماء کی ۔ ہم کہتے ہیں کہ آئمہ اربعہ نے دین صحابہ اور تابعین سے سمجھا ہے اس لئے ان کےعلم وعمل اور ان کی فراست ایمانی کے مقابلے آج کل کے اہلِ علم حضرات کا اجتہاد کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔
غیر مقلدین سے ایک سوال
آخر میں میں تمام غیر مقلدین بھائیوں سے ایک سوال پوچھنا ہوں اور اس کا جواب مجھے بھی قرآن و حدیث سے چاہئے ۔
سوال یہ ہے کہ
تمام غیر مقلدین کا اس بات پر اتفاق ہے اور بڑے زور وشور سے یہ کہتے ہیں کہ جی ہمارے دلائل بخاری شریف سے ہیں جو قرآن مجید کے بعد سب سے اصح ترین کتاب ہے ، تو سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے دکھاؤ کہ بخاری شریف قرآن کے بعد اصح ترین کتاب ہے ؟ ہمیں کسی بزرگ کا قول نہیں چاہیے کیونکہ آپ بزرگوں کے اقوال کو نہیں مانتے ۔ ہمیں صرف قرآن و احادیث سے یہ دکھا دو کہ بخاری شریف کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب ہے ۔!
اصلی حنفی بھائی اور تمام غیر مقلدین بھائیوں سے اس سوال کے جواب کا شدت سے انتظار رہے گا!
نوٹ:۔آخر میں میں اصلی حنفی بھائی سے گذارش کروں گا کہ وہ ان معروضات پر سوالات اٹھانے سے پہلے تقلید کے بارے میں ذرا اپنا دعویٰ ، اپنا خیال یا اپنا نظریہ ضرور پیش کریں ۔ تاکہ تقلید کے بارے میں ان کا نظریہ واضح ہو ۔ شکریہ
والسلام
خاکسار محمد ذیشان نصر
میں یہ دھاگہ ‘‘اصلی حنفی ’’ بھائی کی فرمائش ‘‘تقلید مجھے سمجھا دو’’ کے جواب میں کھول رہا ہوں ۔ یہاں میں اپنی بساط اور استعدادِ کار کے مطابق انہیں تقلید سمجھانے کی کوشش کروں گا، دوسرے تمام احباب اور بزرگوں سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ برائے مہربانی اس تھریڈ میں وہ کوئی پوسٹ نہ کریں ، کیونکہ اگر سمجھنے والا ایک ہو اور سمجھانے والے کئی تو پھر سمجھنے والا کسی بھی سمجھانے والے کی بات کو صحیح طرح سمجھ نہیں پاتا۔ اور نہ ہی کوئی ایک سمجھانے والا بہتر انداز میں سمجھا پاتا ہے ۔ اس لئے اگر آپ میرے یا اصلی حنفی بھائی کے اس دھاگے میں موجود معروضات پر اپنی رائے ، دلائل وغیرہ دینا چاہیں تو برائے مہربانی نیا دھاگہ کھول لیں ۔ شکریہ !
اپنی بات شروع کرنے سے پہلے میں ‘‘اصلی حنفی ’’ بھائی سے چند گذارشات کرنا چاہوں گاجو کہ یہ ہیں :۔
برادرم چونکہ بقول آپ کے ، آپ تقلید کوسمجھنا چاہتے ہیں ۔ اس لئے برائے مہربانی سمجھئے گا ہی سمجھانے کی کوشش مت کیجئے گا۔
سمجھنے سمجھانے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ادب یہ ہے کہ جب آپ واقعی تقلید سمجھنا چاہتے ہیں توآپ کو نیوٹرل (غیر جانبدار) ہونا پڑے گا۔کیونکہ کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان غیر جانبدار ہو ، اگر آپ بات سمجھنے سے پہلے ہی نتیجہ نکال کر بیٹھ جائیں گے تو پھر یہاں بات کرنا محض وقت کا ضیاع ہو گا۔
اور دوسری بات یہ کہ سمجھنے میں جہاں کوئی مسئلہ ہو کوئی اشکال ہو تو وہاں سوال کرنا بہت اچھی بات ہے مگر محض دوسروں کو تنگ کرنے کے لئے غیر سطحی اور بچگانہ قسم کے سوال کسی عاقل کو زیب نہیں دیتے ۔
امید ہے آپ ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے ایک بامعنی گفتگو کا موقع فراہم کریں گے۔
اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں
تقلید کیا ہے ؟
‘‘تقلید نام ہے اعتماد کا ، یعنی کسی بزرگ ، متقی عالم کے علم پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی بات کو حق تسلیم کرنا تقلید کہلاتا ہے ۔’’
اب میں اسکی ذرا وضاحت بیان کر تا ہوں ۔
تقلید کے لغوی معنی پیروی کرنا اور پیچھے چلنا کے ہیں اور اصطلاحاً تقلید سے مراد یہ ہے کہ کسی عالم باعمل اور متقی شخص نے قرآن و سنت کی روشنی میں جن شرعی مسائل (وہ شرعی مسائل جن کی کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ میں تصریح موجود نہیں ) کو سمجھ کر جیسے بیان فرمایا ہے ، ان کے علم وزہد پر اعتماد کرتے ہوئے ان مسائل کو اُسی طرح درست مان لینا تقلید کہلاتا ہے ۔
تقلید کن امور میں کی جاتی ہے ؟
جو احکام قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں ان میں کسی کی تقلید نہیں کی جاتی ۔ البتہ جو احکام کتاب اللہ اور احادیثِ رسول اللہ میں صراحت اور تفصیل سے بیان نہیں کیے گئے یا وہ احکامات جن کے بارے میں آپ ﷺ سے مختلف احادیث منقول ہوں (یعنی ظاہری تضاد نظر آتا ہو )ان امور میں کسی متقی اور عالمِ باعمل شخص کو اپنا امام مقرر کر کے اس کے قرآن وحدیث سے استنباط کردوہ فرمودات پر عمل کیا جاتا ہے ۔
ہمارے لیے تقلید کیوں ضروری ہے ؟
دین چونکہ ہم پرنازل نہیں ہوا کہ ہمیں دین کے سارے احکامات خود بخود وحی ٔ الٰہی کی صورت میں پتہ چل جائیں ، اس لئے ہمیں کسی ایسے رہنما اور رہبر کی ضرورت ہو گی جو ہمیں دین کے سارے احکام بتا سکے ۔ اور وہ رہنما اور خود صاحبِ دین یعنی حضرت محمد ﷺ ہیں ۔ قرآنِ مجید اور آپ ﷺکی احادیث مبارکہ دین کے بے شمار تصریح شدہ اور غیر تصریح شدہ امور سے بھری ہوئی ہیں ۔ اب تصریح شدہ امور میں تو آپ ﷺ کی احادیث اور قرآن پاک ہمارے پاس موجود ہیں ۔مگر وہ امور جن کی مکمل وضاحت کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ میں موجود نہیں ہے یا وہ امور جن کے بارے میں آپ ﷺ سے مختلف احادیث روایت ہیں (یعنی ظاہری تضاد نظر آتا ہے ) ان کی تصریح اور وضاحت کرنے کے لئے ہمیں پھر کسی رہبر کی ضرورت ہے ۔ سب سے بڑے رہبر تو خود آپ ﷺ ہیں مگر چونکہ ہم نے ان کا زمانہ نہیں پایا اس لئے ان امور کی وضاحت آپ ﷺ سے نہیں پوچھ سکتے ۔ آپ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مبارک دور آتا ہے ۔ مگر صحابہ کا دور بھی ہم نے نہیں پایا اور نہ ہی ان تشنہ بہ وضاحت امور کی تصریح صحابہ کرام سے لکھی ہوئی شکل میں منقول ہے اس لئے ہم ان سے رہنمائی حاصل نہیں کر سکتے ۔ صحابہ کے بعد تابعین اور تبع تابعین یعنی قرونِ اولیٰ کا دور آتا ہے ۔ مگر ہم نے وہ دور تونہیں پایا مگر اس دور میں اللہ نے ایسے ایسے متقی اور علم والے پیدا کیے جنہوں نے ان تشنہ بہ وضاحت امور کی وضاحت فرمائی اوروہ سارے کے سارے امور آج تک لکھی ہوئی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں ۔ اس لئے ہم پر ضروری ہے کہ ہم ان غیر تصریح شدہ امور میں بجائے اپنی عقل کے استعمال کے ان کے فرمودات پر عمل کریں کیونکہ ہمارے علم و عمل اور عقل و دانش سے کہیں زیادہ ان کا علم و عمل اور ان کی فراستِ ایمانی تھی کیونکہ ان میں سے بعضوں نے صحابہ وتابعین سے علم حاصل کیا وہ صحابہ جنہوں نے خود نبیﷺ سے علم حاصل کیا اور پھر وہی علم تا بعین کو منتقل کیا ۔ اورتابعین نے وہ علم تبع تابعین کو منتقل کیا ۔ اس لئے دین کے ان غیر تصریح شدہ امور میں ہم لازم ہے کہ ہم قرونِ اولیٰ کے زمانے میں موجود متقی عالموں اور اماموں میں سی کسی ایک کی تقلید کریں ۔
تقلید کسی ایک کی کیوں ؟ زیادہ کی کیوں نہیں ؟
قرون اولیٰ اور اس کے بعد دور میں چونکہ اسلام اپنی اصل تابناکی کے ساتھ موجود تھا اور اسلام لوگوں کی روح میں رچ بس گیا تھا اس لئے وہ لوگ دین کے معاملہ میں بد دیانتی کے مرتکب نہیں ہوتے تھے ، اس لئے وہ لوگ کوئی بھی مسئلہ اس وقت کے کسی بھی عالم سے دریافت کر کے اس کی تقلید کیا کرتے تھے ۔ مگر بعد میں جب مسلمانوں پر خواہش پرستی اور نفس پرستی کا غلبہ ہونا شروع ہوا تو لوگ دین کے معاملے میں بھی بددیانتی کے مرتکب ہونے لگے ۔اگر اپنے امام کاقول ان کی طبیعت پر گراں گزرتا تو وہ دوسرے امام کے قول کا سہارا لے کر اپنے لئے تن آسانیاں پیدا کرنے لگے ، اس طرح انہوں نے دین کو اپنے نفس کے تابع کرنا چاہا تو اس وقت کے علماء نے عوام پریہ لازم کر دیا کہ وہ تقلید کسی ایک امام کی کریں ۔
آئمۂ اربعہ کی تقلید ضروری کیوں ؟
اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ چاروں اماموں( امام ابو حنفیہ ؒ، امام مالک ،ؒ امام شافعی ؒاور امام احمد بن حنبلؒ )میں سے کسی ایک کی تقلید کیوں ضروری ہے ۔ اس دور میں اور بھی تو بڑے بڑے امام گذرے ہیں ، ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟ تو اس سوال کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ چونکہ ان امامِ اربعہ کے علاوہ کسی بھی امام کا سارا فقہ کتب کی شکل میں ہمارے پاس موجود نہیں ہےاور نہ ہی ان کی فقہ کے اس دور میں کوئی عالم موجود ہیں اس لئے ان کی تقلید نہیں کی جا سکتی ۔
پاک وہند والوں پر امام ابو حنیفہ ؒکی تقلید کیوں ضروری ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے چونکہ پاک و ہند میں تقریباً سارے علماء بھی حنفی ہی ہیں اور علماء احناف کی کتب بھی کثیر تعداد میں یہاں دستیاب ہیں جبکہ باقی اماموں کے علماء اور کتابیں بہت قلیل تعداد میں ہیں ۔ اس لئے پاک و ہند والے اگر امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ کی تقلید کرے تو انہیں مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
ہر شخص حقیقت میں مقلد ہوتا ہے ؟
جی ہاں ! ہر شخص حقیقت میں مقلد ہوتا ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی کا مقلد ہوتا ہے ، بعض باتوں میں وہ اپنے والدین کی تقلید کرتا ہے ، بعض معاملات میں اپنے دوستوں کی اور رشتہ داروں کی تقلید کرتا ہے اور بعض معاملات میں معاشرے کی ۔۔ حتیّٰ کہ اپنے آپ کو غیر مقلد کہنے والا بھی حقیقت میں مقلد ہی ہوتا ہے مگر وہ مانتا نہیں ہے کہ میں مقلد ہوں ۔جب وہ اپنے مسائل اپنے علماء سے پوچھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو وہ اپنے عالم کا مقلد ہو گیا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم تقلید آئمہ اربعہ کی کرتے ہیں اور غیر مقلدین تقلید اپنے موجودہ دور کے علماء کی ۔ ہم کہتے ہیں کہ آئمہ اربعہ نے دین صحابہ اور تابعین سے سمجھا ہے اس لئے ان کےعلم وعمل اور ان کی فراست ایمانی کے مقابلے آج کل کے اہلِ علم حضرات کا اجتہاد کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔
غیر مقلدین سے ایک سوال
آخر میں میں تمام غیر مقلدین بھائیوں سے ایک سوال پوچھنا ہوں اور اس کا جواب مجھے بھی قرآن و حدیث سے چاہئے ۔
سوال یہ ہے کہ
تمام غیر مقلدین کا اس بات پر اتفاق ہے اور بڑے زور وشور سے یہ کہتے ہیں کہ جی ہمارے دلائل بخاری شریف سے ہیں جو قرآن مجید کے بعد سب سے اصح ترین کتاب ہے ، تو سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے دکھاؤ کہ بخاری شریف قرآن کے بعد اصح ترین کتاب ہے ؟ ہمیں کسی بزرگ کا قول نہیں چاہیے کیونکہ آپ بزرگوں کے اقوال کو نہیں مانتے ۔ ہمیں صرف قرآن و احادیث سے یہ دکھا دو کہ بخاری شریف کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب ہے ۔!
اصلی حنفی بھائی اور تمام غیر مقلدین بھائیوں سے اس سوال کے جواب کا شدت سے انتظار رہے گا!
نوٹ:۔آخر میں میں اصلی حنفی بھائی سے گذارش کروں گا کہ وہ ان معروضات پر سوالات اٹھانے سے پہلے تقلید کے بارے میں ذرا اپنا دعویٰ ، اپنا خیال یا اپنا نظریہ ضرور پیش کریں ۔ تاکہ تقلید کے بارے میں ان کا نظریہ واضح ہو ۔ شکریہ
والسلام
خاکسار محمد ذیشان نصر