تقلید کی بحث ابک فریب

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد !
آج کل بحث و تمحیص کا مقصد یہ نہیں رہا کہ معلوم کیاجائے حق کیا ہے ناحق کیا ؟ درست کیا ہے نادرست کیا ؟بلکہ یہ تمام باتیں پہلے سے طے کرلی جاتی ہیں ،اور پھر انداز یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جس سے ایسا معلوم ہو کہ باحث پوری دیانت کے ساتھ حق کا متلاشی ہے ،اور جب ان کے سامنے حق کو پیش کیا جاتا ہے تو کج روی کا وہ بازار گرم کرتے ہیں کہ ابو جہل شرمائے،جب کہ بحث کے مفیدہونے کیلئے ضروری ہے کہ ا س میں اخلاص ہو ،حق کی تلاش اور اسے سمجھ کر مان لینے کا جذبہ ہو ،اگر یہ نہیں ہے تو باحث کو چاہئے کہ اپنے میدان میں رہے ،وہیں اپنی ڈینگیں مارے ،وہیں سے داد بٹورے،اور امت میں خلفشار کی کو شش سے باز آئے، میں نے یہ مضمون اسی مقصد کے تحت لکھا ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے وہ حضرات اس کو پڑھ کر اطمینان حاصل کرلیں جو اس طرح کی بحثوں سے منفعل ہوکر چالباز اہلِ باطل کا شکار ہو جاتے ہیں،اس مضمون کا مقصد کسی نجدی کو مطمئن کرنا ہر گز نہیں ،نہ ہمارے اوپر یہ فرض ہے کہ ہر کجرو کو ہم اپنے سیدھا ہونے کے دلائل فراہم کریں ،سکڑوں نہیں ہزاروں کتابیں اس سلسلے میں تصنیف ہو چکی ہیں جو ہر اس انسان کے لئے کافی ہیں جو حقیقت میں حق کا متلا شی ہے ،ان میں ہر قسم کی بحث کا تسلی بخش اور مدلل جواب دے دیا گیا ہے،اگر کسی کو ان سے تشفی نہیں ہوئی تو اسے چاہئے کہ جس موقف پر وہ علی وجہ البصیرت قائم ہے اس پر خاموشی کے ساتھ قائم رہے ،اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ فسادی ہے ،اور امت میں خلفشار پیدا کرنا اس کی ترجیحات میں شامل ہے ، ایسے کجرو کو اللہ تعالیٰ کا فی ہے ۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تقلید کے لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہیں ،اور یہ کہ اتباع اور تقلید ایک ہی معنی پر دلالت کرتے ہیں یا الگ الگ معانی پر؟تو یہاں یہ بحث بالکل بے معنی ہے ،کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ الفاظ جس عمل پر دلالت کرتے ہیں وہ کیا ہے ؟ نام اس کا کچھ بھی ہو ، بات اس کی اصلیت کی ہے ناکہ اس کے نام کی ،دنیا میں اسلامی اور غیر اسلامی جتنے بھی فرقے ہیں کسی نے بھی اپنے نام کو حسین بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی،اگر اہل ہنود اپنی پوجا پاٹھ کا نام صلوۃ رکھلیں تو یہ ہر گز وہ صلوۃ نہ بن سکے گی جو اسلام میں فرض کی گئی ہے ،اس کے برعکس صلوۃ اسلامی کا نام بعض عجمی ممالک میں نماز رکھ لیا گیا ہے ،تو اس سے مراد وہی صلوۃ ہے جو اسلام میں فرض کی گئی ہے،چنانچہ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ عربی میں نماز کو کیا کہتے ہیں اور وہ اپنے دل میں یہ نیت کر لے کہ میں اللہ کے لئے نماز پڑھتا ہوں تواس کے لئے وہی تمام اجر ہے جو عربی میں بولی گئی صلوۃ کے لئے ثابت ہے ۔
مثال کے بطور نجدی اپنا نام سلفی رکھتے ہیں حالانکہ اسلاف ِ اسلام سے ان کو اس درجہ نفرت ہے کہ یہودی بھی ان کے حق میں جن الفاظ کو استعمال نہیں کر سکے وہ ان کے علمابلا تکلف استعمال کر لیتے ہیں ،اسلاف کا اطلاق تو ہمارے نزدیک ان بزرگوں پر ہو تا ہے جو تبع تابعین کے بعد ہوئے ہیں ،یہاں تو حال یہ ہے کہ صحابہ تک ان کی لاف گذاف سے محفوظ نہیں ،ان حالات میں ان کو اسلاف سے کو نسی نسبت ہو سکتی ہے ؟ اس کا علم ہر صاحب بصیرت کو ہے ۔
یہی لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں ،اور عمل بالحدیث کا شور یہ لوگ اتنی تندہی سے بلند کرتے ہیں کہ ان پڑھ اور گنوار لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان سے بڑا تو محب حدیث شاید ہی کوئی ہو ،حالانکہ حدیث کا وجود ہی ان لوگوں نے مشکوک بنا ڈالا ہے ،جس حدیث میں اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق ترمیم نہیں کر پاتے ان کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا چاہتے ہیں اور ان کی اتنی قدر بھی نہیں کرتے جتنی اپنے علما کی تحریروں کی ،حالانکہ ہمارے ائمہ اور اسلاف کا وطیرہ ،طرزِ عمل یہ رہا ہے کہ ضعیف سے ضعیف حدیث بھی ہماری رائے پر ،خواہش پر ،فیصلے پر اور رویہ پر فوقیت رکھتی ہے ،جب کہ ان نام نہاد اہلِ حدیث کا طرزِ عمل اور موقف یہ ہے کہ ہماری رائے کے معارض اگر حدیث ہو تو جان لو کہ وہ حدیث ہی ردی کی ٹوکری کے لائق ہے ،صحابہ کا عمل تو دیکھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔
وہ بخاری جس کو صحیح کا معیا ر مانتے ہیں اس کے سلسلے میں ان کا حال یہ ہے کہ اما م پر سیکڑوں الزام لگاتے ہیں ،پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر تقلید کا مفہوم وہی ہے جس کو نجدی(بزعمِ خویش غیر مقلد) بیان کرتے ہیںتو کیوں ایک ایسے امام کے بیان کو قابل عمل جانا ہے جو تقلید جیسے شرک عظیم کا مرتکب رہا ہے؟جس نے مروان جیسے راویوں کو اپنی صحیح میں جگہ دی ؟
نجدیوں کا الزام یہ ہے مقلدین امام کی جو اقتدا کرتے ہیں تو وہ کفار کے اس موقف کی طرح ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ،
وإذا قیل لہم تعالوا إلیٰ ما أنزل اللہ وإلی الرسول قالو ا حسبنا ما وجدنا علیہ آباء نا
جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس بات کی طرف چلے آؤ جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے اور رسول ﷺ کی بات پر متفق ہو جاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم کو تو ہماری وہ راہ کا فی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ہے ۔
یہ لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ دیکھئے اپنے باپ دادوں کی روش پر چلتے رہنا کفار کا طور ہے ،جب کہ ان کا یہ استدلال خود اسی آیت کے اگلے جملے سے باطل ہوجا تا ہے ،آگے اسی آیت کا ٹکڑا یہ ہے :
أو لو کان آبائہم لا یعلمون شیئاً ولا یہتدون(مائدہ ۱۰۴)
بھلا کیا ایسی صورت میں بھی کہ ان کے آبا واجداد بے علمہوں اور ہدایت سے بھی کورے ہوں ؟
تمام مفسرین اس آیت کی تفسیر میں یہ بات بیان کرتے آرہے ہیں کہ وہ آبا واجدادجو ہدایت پر ہوں ان کی اقتدا کی جائے گی '،:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنزلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا
أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئًا } أي: لا يفهمون حقًا، ولا يعرفونه، ولا يهتدون إليه، فكيف يتبعونهم والحالة هذه؟ لا يتبعهم إلا من هو أجهل منهم، وأضل سبيلا. { لا يعلمون شيئاً ولا يهتدون } ، والمعنى أن الاقتداء إنما يصح بالعالم المهتدي وإنما يعرف اهتداؤه بالحجة. انتهى
تفسير ابن كثير - (3 / 211)
{ قالوا حسبنا ما وجدنا عليه آباءنا } يعني قد اكتفينا بما أخذنا عنهم من الدين ونحن لهم تقع قال الله رداً عليهم { أو لو كان آباؤهم لا يعلمون شيئاً ولا يهتدون } يعني إنما يصح الاقتداء بالعالم المهتدي الذي يبني قوله على الحجة والبرهان والدليل وأن آباءهم ما كانوا كذلك فيصح اقتداؤهم بهم .
وأعلم أن الاقتداء إنما يجوز بالعالم المهتدي ، وإنما يكون عالماً مهتدياً إذا بنى قوله على الحجة والدليل ، فإذا لم يكن كذلك لم يكن عالماً مهتدياً ، فوجب أن لا يجوز الاقتداء به
تفسير الخازن - (2 / 346)
واذا قيل لهؤلاء الجاحدين : تعالوا الى ما انزل الله من القرآن ، وما بيّنه الرسول من الشريعة لنهتدي به قالوا : لا نبغي زيادة ، بل يكفينا ما وجدْنا عليه آباءَنا ، فهم لنا أئمة وقادَة . بذلك يصرّون على التقليد الأعمى حتى لو كان آباؤهم لا يعلمون شيئا من الشرائع ، ولا يهتدون سبيلا الى الصواب .
تفسير القطان - (1 / 441)
اور ہم اس سلسلے میں بھی قرآن کریم سے ہی استدلال کیوں نہ کریں؟چنانچہ ارشاد ہے
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ(یوسف ۳۸)
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ } يقول: هجرت طريق الكفر والشرك، وسلكت طريق هؤلاء المرسلين، صلوات الله وسلامه عليهم أجمعين، وهكذا يكون حال من سلك طريق الهدى، واتبع المرسلين، وأعرض عن طريق الظالمين (3) فإنه يهدي قلبه ويعلّمه ما لم يكن يعلمه، ويجعله إماما يقتدى (4) به في الخير، وداعيا إلى سبيل الرشاد
تفسير ابن كثير - (4 / 389)
والذین آمنوا واتبعتہم ذریتہم بایمان الحقنا بہم ذریتہم
اور جو ایمان لائے ،اور پھر جنھوں نے ان کی اولاد میں سے ان کی تقلید کی ہم اس اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے
کیا یہاں اپنے آباو اجداد کی تقلید نہیں ہے اور کیا اس کو بھی نعوذ باللہ اسی قول کے ساتھ جوڑکر دیکھنا صحیح ہوگا یا یہ ہے کہ اتباع ،تقلید اور اقتدا میں متبوع،مقلد یا مقتدا کے حال سے فرق وامتیاز ہوگا ۔
کیا ہر کسی کی تقلید و اتباع کے ساتھ یہی تکمہ لگایا جائے گا جو کفار کی اتباع جہال پر لگایا جاتا ہے ؟
افسوس ان زبانوں پر جو چلتے ہوئے اس بات کی تمیز کھو بیٹھتی ہیں کہ کیا کہہ رہی ہیں اور کسے کہہ رہی ہیں ؟
کہا یہ جا رہا ہے کہ ائمہ کی تقلید شخصی تقلید ہے یہ بالکل خلاف واقعہ اور دروغ گوئی پر مبنی ہے ،امام ابو حنیفہ ؒ ایک شخص کانام نہیں بلکہ یہ ایک پوری جیوری ہے ،جس میں ایسے ایسے ائمہ شامل ہیں کہ انکی گرد پا کو بھی نجد ی شیوخ کا سرمہ نہیں پہنچتا۔
حق اور سچی بات یہ ہے کہ جس شخصی اور ناجائز تقلید کی قرآن وحدیث میں مذمت بیان کی گئی ہے اس پر نجدیوں کا عمل ہے ناکہ احناف وشوافع، موالک وحنابلہ کا ۔
چنانچہ احادیث کی مراد اور انطباق کے سلسلے میں خود رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اختلاف رہا ہے چنانچہ حدیث صحیح میں ہے،
عزمت عليكم أن لا تصلوا العصر حتى تأتوا بني قريظة فغربت الشمس قبل أن يأتوهم فقالت طائفة من المسلمين : إن النبي صلى الله عليه و سلم لم يرد أن يدعوا الصلاة و قالت طائفة : إنا لفي عزيمة النبي صلى الله عليه و سلم و ما علينا من إثم فصلت طائفة ايمانا و احتسابا و تركت طائفة ايمانا و احتسابا و لم يعب النبي صلى الله عليه و سلم أحدا من الفريقين
المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي في التلخيص - (3 / 37)
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم پر لا زم ہے کہ عصر کی نماز نہ پڑھو جب تک کہ بنی قریظہ میں نہ پہنچ جاؤ،صحابہ چلے مگر بنی قریظہ پہنچنے سے قبل ہی عصر کا وقت آ ن پہنچا تو صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے درمیان اس بابت اختلاف ہو گیا کہ عصر پڑھی جا ئے یا نہ،ایک جماعت کا موقف یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی مراد اس فرمان سے یہ تھی کہ بنو قریظہ کی طرف سرعت سے کوچ کیا جائے ،یہاں تک کہ عصر سے قبل وہاں پہنچ جانا چاہئے،اب جب کہ ہم نہیں پہنچ سکے تو نماز کو مؤخر کرنا درست اور منشاء آقا نہیں ہے، ﷺ ۔جبکہ دوسرے فریق کا موقف یہ تھا کہ آقا نے جو کچھ فرمایا ہے عمل اسی پر ہوگا ،اسی کا نام فرمانبراداری اور دین ہے ،چنانچہ ایک فریق نے اپنے تفقہ کے موافق نماز ادا کر لی جبکہ دوسرے فریق نے بنی قریظہ پہنچنے تک نماز عصر تک نماز کو مؤخرکیا جب ان دونوںفریقین کا یہ عمل آقا ﷺ کے سامنے آیاتو آپ نے کسی بھی فریق کو اس کے عمل پر غلط نہ کہا ،یہ مثال اس فقہی اختلاف کو سمجھنے کے لئے کا فی و شافی ہے جو مسالک کے در میان پایا جاتا ہے ،اس میں دونوں باتیں آگئیں ،یہ بھی کہ اس طرح کے اختلاف کا رونما ہونا فطری،لازمی اور ناگزیر ہے اور یہ بھی کہ یہ اختلاف قابل ملامت نہیں ہوتا ۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اختلاف اللہ کو محبوب و مطلوب ہے اور اس طرح وہ اپنے بندوں کی ذہنی ،دینی ،فقہی اور علمی صلاحیتوں کو چار چاند بھی لگانا چاہتا ہے اور یہ توسع امت کو ہزاروں قسم کی آسانیاں فراہم کرتا ہے ،نجدی حضرات امت سے اس آسانی کو چھین کر انہیں تنگی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ،جو نہ تو اللہ کو مطلوب ہے اور نہ محبوب ،وگرنہ اس کو بھی واضح اور ناقابل اختلاف بنانا اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔
سمجھنے کی بات یہ نہیں کہ تقلید ہے کیا ، بلکہ اب تو صرف یہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ تقلید کریں کس کی ؟تقلید تو کرنی ہی پڑیگی ،چاہے اپنا نام تم غیر مقلد رکھ کے شیخ نجدی کی تقلید کرو یا کسی اور کی، فرق یہ کہ ائمہ کرام کی تقلید اور اس تقلید میں جس کو ان کے پیرو کرتے ہیں توسع پایا جاتا ہے ، چنانچہ علماء احناف کے درجنوں مسائل میں دوسرے مسالک کے مطابق فتاوی اس بات کا بین ثبوت ہیں ۔
اور نجدیوں کے یہاں جو تقلید کی جاتی ہے اس میں جمود اور سڑاند پائی جاتی ہے ،جھوٹ اور دروغ گوئی ملتی ہے ،سطحیت پائی جاتی ہے۔
ایک تقلید اس دور کے علما کی ہے جس کے خیرپر ہونے کی خبرقرآن و حدیث میں وارد ہے ،یہ تو ائمہ کی اتباع ہے ،دوسری اس دور کے علما کی تقلید ہے جس کا شر پرہونا نص سے ثابت ہے،اس تقلید کو نجدی حضرات نے پہنا ہے۔
اور یہ بھی پوری طرح ثابت کیا جا چکا ہے کہ ہر طرح کی تقلید مبغوض نہیں ،بلکہ ان لوگوں کی تقلید حرام ہے جو فاسق وفاجر ہوں کاذب و مفتری ہوں اور سواد امت کے اندر اختلاف کے درپے ہوں ،یہ تمام اوصاف آج کل کے دور میں عام ہیں اور جس کسی کو بھی دیکھئے وہ حب جاہ کا شکار،حب مال کا شیدا،اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹ اور علمی خیانت کا مرتکب ملتا ہے ،اب سوال یہ ہے کہ اس دور میں اٹھنے والے جھوٹے مجتہدین کی تقلید کی جائے یا اسلاف امت جو تقوی وطہارت میں ضرب المثل تھے ان کی تقلید کی جائے ؟
یہ دروازہ جس طرح بند کیا گیا ہے اس سے اسلام دشمن عناصر کو بڑی تکلیف ہو گئی ہے ،ان کی اس تکلیف کا خیال ان خیر خواہوںکو ہوا ہے ۔ تاکہ وہ اس دروازے میںداخل ہوکر امت کے اندر سے ہر وہ چیز نکال پھینکیں جو اس کے ایمان کو قوت دینے والی ہے ۔
ایک عجیب بات یہ بھی ہر شخص نوٹ کرلے کہ امت کے سواد اعظم سے انحراف کرکے جب بھی کسی طائفے نے کسی معاملے میں غلو کیا ہے تو اس کے لئے یہ امر ضروری قرار پایا ہے کہ اس نے اپنے سوا تمام طبقات کو گمراہ قرار دیا اور ان کی تکفیر کی ہے ،چاہے ان کی تکفیر کرنے کے لئے اسے کتنی بھی دور کی کوڑی لانی پڑی ہو اور کتنا بھی دروغ گوئی سے کام لینا پڑا ہو ،چنانچہ روافض نے حضرت علی کو اپنے تئیں دوسروں سے سوا محبوب قرار دیا اور ان کی محبت میں غلو کیا تو ان کو بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ نظر آیا کہ باقی تمام امت کو کافر ومشرک اور حضرت علی کا دشمن قرار دیں۔
ایک طرف انھوں نے حضرت علی کو الہ کے درجے پر فائز کیا اور دوسری طرف دوسرے تقریباً تمام صحابہ کو اسلام سے خارج بلکہ اسلام کا بد ترین دشمن بتایا ،باطنیوں نے ان الحکم الا للہ کا بڑا حسین نعرہ لگایا ،لیکن اس کے پیچھے بھی یہی کارستانی کار فرما تھی کہ چند لوگوں کو حد سے زیادہ اٹھاکراور باقی تمام کو حد سے زیادہ گراکریہاں تک کہ کافر قرار دے کر امت کا شیرازہ منتشر کیا جائے ،خوارج کیا ،اثنا عشری کیا سب کو اس شیطانی ہتھیار کو بہر حال اٹھانا پڑاکہ تما م امت خصوصاً جو اکابر گذر چکے ہیں ان کو کافر مشرک اور ناقابل اعتبار قرار دیا جائے ،سب سے قریب ترین اس کی مثال بریلوی حضرات ہیں ،انہوں نے آقا ﷺ کی محبت کے دعوے میں غلو کیا چنانچہ ہر وہ عالم جس نے بدعت کے خلاف زبان کھولی تکفیر کی گولی کا نشانہ بنا،بڑے بڑے کبار علما کرام اس کا شکار ہوکر ناقابلِ اعتبار قرار دے دئے گئے ۔
اب نجدیوں کا حال بھی ملاحظہ کرلیں تمام مسالک کے لوگ کافر و مشرک قرار دے دئے گئے إتخذو ا أحبارہم کے زمرے میں آنے کے بعد گنجائش ہی کہا ںتھی کہ کوئی بچتا ،اب وہ ادلہ اربع کہاں ٹھہریں گے جن کی دہا ئی دی جاتی ہے کیونکہ اما م بخاری شافعی المسلک تھے ،امام ترمذی شافعی تھے وغیرہ، تو یہ لوگ کس طرح بچے رہ سکیں گے اس تلوار سے؟یہ تو یہ بھی نہ کہہ سکیں گے کہ یا اللہ ہم تو عالم نہ تھے اس لئے علما پر بھروسہ نہ کرتے تو کیا کرتے؟وہ ادلہ اربع جن سے ثبوت اور دلیل مانگی جاتی ہے خود اپنے ادلہ بننے کے لئے دلیل کے محتاج ہیں اور انکے ادلہ ہونے کے لئے جو دلیل ہے اس کا حال بھی وہی ہے ، جب یہ حضرات ناقابل اعتبار ٹھہریں گے تو وہ سرمایہ جو ان کے توسط سے امت کو ملا ہے کیونکر معتمد رہے گا ؟احادیث انہیں کے توسط سے میرے اور آپ کے درمیان تک آئی ہیں ۔
ان کے اس رویے کا ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو ان کی تکفیر کی تلوار اس قدر تیز ہے کہ اس کی زد میں کبار علما متأخرین ہی نہیں بلکہ تابعین تک آگئے ہیں ،علماء حق کے لئے تو ان کا معیار یہ ہے کہ ذرا ذرا سی لفظی مماثلت ڈھونڈ ڈھونڈکر انکو کافر قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب اہل باطل کے لئےان کے یہاں اتنا توسع کہ ہلکی سے ہلکی قدر مشترک بھی ان کو مومن قرار دینے کے لئے کافی ہے چنانچہ مسلمانو ں کے لئے ان کی تیغ براں کا حال آپ کو معلوم ہی ہے ،قادیانیوں کے لئے ان کے دل میں اتنی جگہ کہ اس کو اپنی بیٹی پیش کی اور اس کا نکاح مولوی نذیر حسین صاحب نے پڑھایاجو اہل نجد کے امام ہیں اور وہ بھی ایسی حالت میں جبکہ وہ اس قدر ضعیف اور بیمار تھے کہ چلنے سے معذور تھے،چنانچہ پالکی میں بیٹھ کر تشریف لائے ،مگر آئے ،ایک نبی دامادی میں آرہا تھا جھوٹا ہی سہی۔
اس کے بر خلاف یہ دیکھئے کہ اہل مسالک میں بھی سیکڑوں مسائل مختلف فیہ ہیں ،بڑے اختلافات بھی ہیں اور چھوٹے اختلافات بھی،رفع یدین کا اختلاف کوئی نیا اختلاف نہیں ،قرأت خلف الامام کا مسئلہ بھی نیا نہیں ،صدیوں سے علما ان مسائل پر بحث کرتے اور اپنے دلائل علمی اور مہذب زبان میں دیتے آرہے ہیں ،ایک دوسرے کا احترام برابر ہے ،ایک دوسرے کی علمی قابلیت اور آگہی کا اعتراف بھی ہے ،ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ،ان میں کبھی اتنا غلو نہ ہوا کہ نوبت ایک دوسرے کی تکفیر تک آن پہنچے ،لیکن نجدیوں نے آکر اس بحث کا آغاث نئے انداز سے کیا ،اس میں تکفیر ،تذلیل ،تحقیر کو ضروری قرار دیا گیا ،علما ء حق کسر نفسی کے بموجب اپنے آپ کو کم مایہ کہتے تو یہ اور سر پر چڑھ جاتے اور جاہلوں کا وطیرہ اپناتے ہوئے اپنے پندار کو اور بڑھا لیتے ،انھوں نے مساجد کو رفع یدین کی نورا کشتی کا اکھاڑا بنا ڈالا،امت مسلمہ کی مخالفت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ،مسلمانوں کی دشمنی کو اپنا مذہب قرار دیا ،چنانچہ بین المسالک اختلاف ہے کہ مس نسا سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں ؟نجدیوں کا مسلک یہ ہے کہ نہیں ٹوٹتا ،دوسرے بھی کئی ائمہ کا مذہب یہی ہے ،مگر یہ کسی کا مذہب نہیںکہ وضو کے بعد مس نسا موجب ثواب ہے ،یہ غلیظ مذہب نجدیوں کا ہے کہ اہل سنت کی مخالفت میں ایسا کرنے سے ثواب ملتا ہے ،ائمہ کے درمیان اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ فجرکی چھٹی ہوئی سنتیں قبل طلوع شمس پڑھی جائیں یا بعد ؟مگر اس اختلاف میں یہ کبھی نہ ہوا کہ کسی امام نے اس امر کو مستحسن قرار دیا ہو کہ فجر کی سنتیں جان بوجھ کر چھوڑ کر طلوع سے قبل پڑھو تو مخالفت کرنے کا اجر مل جائے گا،۔
اختلاف بین المسالک آج کا معاملہ نہیں صدیوں پرانا معاملہ ہے ،چنانچہ آقا ﷺکے فرمان
لا یبولن أحدکم فی الماء الدائم
کے سلسلے میں جب امام دااؤد ظاہری نے یہ مسلک بیان کیا کہ اگر کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی کے کنارے پیشاب کردے اور پیشاب بہ کر پانی میں چلا جائے تو پانی ناپاک نہ ہوگا یا اگر کوئی کسی برتن میں پیشاب کر کے اسے ٹھہرے ہوئے پانی میں ڈال دے تو بھی پانی ناپاک نہ ہوگا ،تو اہل ظواہر بھی دانتوں تلے انگلی دبا گئے ،امام نووی نے اس پر ریمارک کیا کہ ظاہر حدیث پر عمل کی یہ بد ترین مثال ہے ،اس کے باوجود نہ ان حضرات میں تکفیر کی تلوار چلی اور نہ طعن ش تشنیع کی ،تو پھریہ لڑائی ،یہ جھگڑا ، یہ تکفیری تلوار کب سے بے نیام ہوئی؟یہ جب بے نیام ہوئی جب نجدیوں کے مسلک کا نام ہندوستان کے اہل ہوا نے قبول کیا اور اس میں اپنا مفاد جانا ،پھر کیا کیا گل کھلے ہیں اس کا مطالعہ علماء اہل حق نے خوب کیا اور عوام کو واقف بھی کرا دیا ، فللہ الحمد ۔
ان کی مخالفانہ روش بلکہ التزام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے گویا یہودی ہیں جو آقا ﷺ کے قول :’’ خالفوا الیہود‘‘ کا بدلہ آپ ﷺ کے متبعین سے لے رہے ہیں ۔
علما نے لاکھ کہا تھاکہ اجتہاد مطلق کا اب وقت نہیں رہا ،وہ دور اب نہیں ،اور اس کی ضرورت بھی نہیں ،لیکن نجدیوں نے اس دروازے کو بہر حال کھول ہی لیا تھا ،اس دروازے کو کھول ڈالنے کی بنا پر کسی نے بھی ان کی نہ تکفیر کی تھی نہ ان کو برا ہی کہا تھا ایک نیا مسلک چاہئے تھا سو ان کو حاصل ہو ہی گیا تھا لیکن ان کا اصرار تو یہ ہے کہ ،نہیں جناب ،اتنا کا فی نہیں ہے بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ علما یہ اعلان کردیں کہ ہر کس وناکس کو اجتہاد کرکے اپنا دین آپ گھڑنے کی اجازت ہے،ورنہ تقلید لازم آجائے گی جو حرام ہے ، شرک ہے ، بلکہ یہ بھی اعلان کرنا چاہئے کہ ہمارے اسلاف تابعین اور تبع تابعین جنھوں نے تقلید کو روا رکھا سب کفرو ضلالت پر مرے۔
سوال یہ ہے کہ حدیث میں یحیٰ بن معین ،یحیٰ بن سعید القطان ،ابن مبارک وغیرہم کو ادلہ اربع کی کون سی شق سے یہ درجہ دیا گیا ہےکہ وہ جس
راوی کو صدوق کہدیں وہ صدوق ،جسے ثقہ کہدیں وہ ثقہ،جسے ضعیف کہدیں وہ ضعیف ؟
یہ تو وہی إتخذوا أحبارہم و رہبانہم میں داخل ہے ، اسی کا نام شخصی تقلید ہے ۔
سنو ،شخصی تقلید سے اگر کوئی خالی و عاری ہے تو وہ یہود ونصاریٰ ہیں ،یہ ہیں آزاد،یہ ہیں اپنا دین آپ بنانے والے ،ایسا سائنس میں ممکن ہے ، کیونکہ اس کا کوئی اصول بتانے کے لئے نہ نبی بھیجے گئے ،نہ کتاب نازل کی گئی ،لہذا اس کے مبادیات بھی روز بدلتے ہیں اور مرادیات بھی، وہ اپنے پیش رؤںپر تنقید کریں تو بجا ،کہ کل ان کا قول یہ تھا کہ سورج ایک جگہ کھڑا ہے ،باقی تمام سیارے اس کے گرد گردش میں ہیں ،اور آج تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سورج اپنی پوری کہکشاں کے ساتھ ۸۶ ہزار میل فی سیکنڈکی رفتار سے دوڑا جا رہا ہے ۔آج کی تحقیق کے سامنے کل کی تحقیق بچکانہ ،مضحکانہ اور جاہلانہ نظر آتی ہے، لیکن دین کو اللہ تعالی نے ایسی ہدایت اور رہنمائی پر نہیں چھوڑا جو آج کسی گھاٹی میں لے جاکر پٹخ دے کل کسی اور گھاٹی میں۔
لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے اپنے پیش رؤں پر طعن و تشنیع کی وہ زبان نہ کھولی جو نجدیوں نے اسلاف کے لئے دراز کی ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلائے جن پر اس کا انعام ہوا ہے۔آمین
محمد عمران مظاہری​
 

نوید

وفقہ اللہ
رکن
مظاہری نے کہا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد !
آج کل بحث و تمحیص کا مقصد یہ نہیں رہا کہ معلوم کیاجائے حق کیا ہے ناحق کیا ؟ درست کیا ہے نادرست کیا ؟بلکہ یہ تمام باتیں پہلے سے طے کرلی جاتی ہیں ،اور پھر انداز یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جس سے ایسا معلوم ہو کہ باحث پوری دیانت کے ساتھ حق کا متلاشی ہے ،اور جب ان کے سامنے حق کو پیش کیا جاتا ہے تو کج روی کا وہ بازار گرم کرتے ہیں کہ ابو جہل شرمائے،جب کہ بحث کے مفیدہونے کیلئے ضروری ہے کہ ا س میں اخلاص ہو ،حق کی تلاش اور اسے سمجھ کر مان لینے کا جذبہ ہو ،اگر یہ نہیں ہے تو باحث کو چاہئے کہ اپنے میدان میں رہے ،وہیں اپنی ڈینگیں مارے ،وہیں سے داد بٹورے،اور امت میں خلفشار کی کو شش سے باز آئے، میں نے یہ مضمون اسی مقصد کے تحت لکھا ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے وہ حضرات اس کو پڑھ کر اطمینان حاصل کرلیں جو اس طرح کی بحثوں سے منفعل ہوکر چالباز اہلِ باطل کا شکار ہو جاتے ہیں،اس مضمون کا مقصد کسی نجدی کو مطمئن کرنا ہر گز نہیں ،نہ ہمارے اوپر یہ فرض ہے کہ ہر کجرو کو ہم اپنے سیدھا ہونے کے دلائل فراہم کریں ،سکڑوں نہیں ہزاروں کتابیں اس سلسلے میں تصنیف ہو چکی ہیں جو ہر اس انسان کے لئے کافی ہیں جو حقیقت میں حق کا متلا شی ہے ،ان میں ہر قسم کی بحث کا تسلی بخش اور مدلل جواب دے دیا گیا ہے،اگر کسی کو ان سے تشفی نہیں ہوئی تو اسے چاہئے کہ جس موقف پر وہ علی وجہ البصیرت قائم ہے اس پر خاموشی کے ساتھ قائم رہے ،اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ فسادی ہے ،اور امت میں خلفشار پیدا کرنا اس کی ترجیحات میں شامل ہے ، ایسے کجرو کو اللہ تعالیٰ کا فی ہے ۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تقلید کے لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہیں ،اور یہ کہ اتباع اور تقلید ایک ہی معنی پر دلالت کرتے ہیں یا الگ الگ معانی پر؟تو یہاں یہ بحث بالکل بے معنی ہے ،کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ الفاظ جس عمل پر دلالت کرتے ہیں وہ کیا ہے ؟ نام اس کا کچھ بھی ہو ، بات اس کی اصلیت کی ہے ناکہ اس کے نام کی ،دنیا میں اسلامی اور غیر اسلامی جتنے بھی فرقے ہیں کسی نے بھی اپنے نام کو حسین بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی،اگر اہل ہنود اپنی پوجا پاٹھ کا نام صلوۃ رکھلیں تو یہ ہر گز وہ صلوۃ نہ بن سکے گی جو اسلام میں فرض کی گئی ہے ،اس کے برعکس صلوۃ اسلامی کا نام بعض عجمی ممالک میں نماز رکھ لیا گیا ہے ،تو اس سے مراد وہی صلوۃ ہے جو اسلام میں فرض کی گئی ہے،چنانچہ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ عربی میں نماز کو کیا کہتے ہیں اور وہ اپنے دل میں یہ نیت کر لے کہ میں اللہ کے لئے نماز پڑھتا ہوں تواس کے لئے وہی تمام اجر ہے جو عربی میں بولی گئی صلوۃ کے لئے ثابت ہے ۔
مثال کے بطور نجدی اپنا نام سلفی رکھتے ہیں حالانکہ اسلاف ِ اسلام سے ان کو اس درجہ نفرت ہے کہ یہودی بھی ان کے حق میں جن الفاظ کو استعمال نہیں کر سکے وہ ان کے علمابلا تکلف استعمال کر لیتے ہیں ،اسلاف کا اطلاق تو ہمارے نزدیک ان بزرگوں پر ہو تا ہے جو تبع تابعین کے بعد ہوئے ہیں ،یہاں تو حال یہ ہے کہ صحابہ تک ان کی لاف گذاف سے محفوظ نہیں ،ان حالات میں ان کو اسلاف سے کو نسی نسبت ہو سکتی ہے ؟ اس کا علم ہر صاحب بصیرت کو ہے ۔
یہی لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں ،اور عمل بالحدیث کا شور یہ لوگ اتنی تندہی سے بلند کرتے ہیں کہ ان پڑھ اور گنوار لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان سے بڑا تو محب حدیث شاید ہی کوئی ہو ،حالانکہ حدیث کا وجود ہی ان لوگوں نے مشکوک بنا ڈالا ہے ،جس حدیث میں اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق ترمیم نہیں کر پاتے ان کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا چاہتے ہیں اور ان کی اتنی قدر بھی نہیں کرتے جتنی اپنے علما کی تحریروں کی ،حالانکہ ہمارے ائمہ اور اسلاف کا وطیرہ ،طرزِ عمل یہ رہا ہے کہ ضعیف سے ضعیف حدیث بھی ہماری رائے پر ،خواہش پر ،فیصلے پر اور رویہ پر فوقیت رکھتی ہے ،جب کہ ان نام نہاد اہلِ حدیث کا طرزِ عمل اور موقف یہ ہے کہ ہماری رائے کے معارض اگر حدیث ہو تو جان لو کہ وہ حدیث ہی ردی کی ٹوکری کے لائق ہے ،صحابہ کا عمل تو دیکھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔
وہ بخاری جس کو صحیح کا معیا ر مانتے ہیں اس کے سلسلے میں ان کا حال یہ ہے کہ اما م پر سیکڑوں الزام لگاتے ہیں ،پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر تقلید کا مفہوم وہی ہے جس کو نجدی(بزعمِ خویش غیر مقلد) بیان کرتے ہیںتو کیوں ایک ایسے امام کے بیان کو قابل عمل جانا ہے جو تقلید جیسے شرک عظیم کا مرتکب رہا ہے؟جس نے مروان جیسے راویوں کو اپنی صحیح میں جگہ دی ؟
نجدیوں کا الزام یہ ہے مقلدین امام کی جو اقتدا کرتے ہیں تو وہ کفار کے اس موقف کی طرح ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ،
وإذا قیل لہم تعالوا إلیٰ ما أنزل اللہ وإلی الرسول قالو ا حسبنا ما وجدنا علیہ آباء نا
جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس بات کی طرف چلے آؤ جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے اور رسول ﷺ کی بات پر متفق ہو جاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم کو تو ہماری وہ راہ کا فی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ہے ۔
یہ لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ دیکھئے اپنے باپ دادوں کی روش پر چلتے رہنا کفار کا طور ہے ،جب کہ ان کا یہ استدلال خود اسی آیت کے اگلے جملے سے باطل ہوجا تا ہے ،آگے اسی آیت کا ٹکڑا یہ ہے :
أو لو کان آبائہم لا یعلمون شیئاً ولا یہتدون(مائدہ ۱۰۴)
بھلا کیا ایسی صورت میں بھی کہ ان کے آبا واجداد بے علمہوں اور ہدایت سے بھی کورے ہوں ؟
تمام مفسرین اس آیت کی تفسیر میں یہ بات بیان کرتے آرہے ہیں کہ وہ آبا واجدادجو ہدایت پر ہوں ان کی اقتدا کی جائے گی '،:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنزلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا
أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئًا } أي: لا يفهمون حقًا، ولا يعرفونه، ولا يهتدون إليه، فكيف يتبعونهم والحالة هذه؟ لا يتبعهم إلا من هو أجهل منهم، وأضل سبيلا. { لا يعلمون شيئاً ولا يهتدون } ، والمعنى أن الاقتداء إنما يصح بالعالم المهتدي وإنما يعرف اهتداؤه بالحجة. انتهى
تفسير ابن كثير - (3 / 211)
{ قالوا حسبنا ما وجدنا عليه آباءنا } يعني قد اكتفينا بما أخذنا عنهم من الدين ونحن لهم تقع قال الله رداً عليهم { أو لو كان آباؤهم لا يعلمون شيئاً ولا يهتدون } يعني إنما يصح الاقتداء بالعالم المهتدي الذي يبني قوله على الحجة والبرهان والدليل وأن آباءهم ما كانوا كذلك فيصح اقتداؤهم بهم .
وأعلم أن الاقتداء إنما يجوز بالعالم المهتدي ، وإنما يكون عالماً مهتدياً إذا بنى قوله على الحجة والدليل ، فإذا لم يكن كذلك لم يكن عالماً مهتدياً ، فوجب أن لا يجوز الاقتداء به
تفسير الخازن - (2 / 346)
واذا قيل لهؤلاء الجاحدين : تعالوا الى ما انزل الله من القرآن ، وما بيّنه الرسول من الشريعة لنهتدي به قالوا : لا نبغي زيادة ، بل يكفينا ما وجدْنا عليه آباءَنا ، فهم لنا أئمة وقادَة . بذلك يصرّون على التقليد الأعمى حتى لو كان آباؤهم لا يعلمون شيئا من الشرائع ، ولا يهتدون سبيلا الى الصواب .
تفسير القطان - (1 / 441)
اور ہم اس سلسلے میں بھی قرآن کریم سے ہی استدلال کیوں نہ کریں؟چنانچہ ارشاد ہے
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ(یوسف ۳۸)
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ } يقول: هجرت طريق الكفر والشرك، وسلكت طريق هؤلاء المرسلين، صلوات الله وسلامه عليهم أجمعين، وهكذا يكون حال من سلك طريق الهدى، واتبع المرسلين، وأعرض عن طريق الظالمين (3) فإنه يهدي قلبه ويعلّمه ما لم يكن يعلمه، ويجعله إماما يقتدى (4) به في الخير، وداعيا إلى سبيل الرشاد
تفسير ابن كثير - (4 / 389)
والذین آمنوا واتبعتہم ذریتہم بایمان الحقنا بہم ذریتہم
اور جو ایمان لائے ،اور پھر جنھوں نے ان کی اولاد میں سے ان کی تقلید کی ہم اس اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے
کیا یہاں اپنے آباو اجداد کی تقلید نہیں ہے اور کیا اس کو بھی نعوذ باللہ اسی قول کے ساتھ جوڑکر دیکھنا صحیح ہوگا یا یہ ہے کہ اتباع ،تقلید اور اقتدا میں متبوع،مقلد یا مقتدا کے حال سے فرق وامتیاز ہوگا ۔
کیا ہر کسی کی تقلید و اتباع کے ساتھ یہی تکمہ لگایا جائے گا جو کفار کی اتباع جہال پر لگایا جاتا ہے ؟
افسوس ان زبانوں پر جو چلتے ہوئے اس بات کی تمیز کھو بیٹھتی ہیں کہ کیا کہہ رہی ہیں اور کسے کہہ رہی ہیں ؟
کہا یہ جا رہا ہے کہ ائمہ کی تقلید شخصی تقلید ہے یہ بالکل خلاف واقعہ اور دروغ گوئی پر مبنی ہے ،امام ابو حنیفہ ؒ ایک شخص کانام نہیں بلکہ یہ ایک پوری جیوری ہے ،جس میں ایسے ایسے ائمہ شامل ہیں کہ انکی گرد پا کو بھی نجد ی شیوخ کا سرمہ نہیں پہنچتا۔
حق اور سچی بات یہ ہے کہ جس شخصی اور ناجائز تقلید کی قرآن وحدیث میں مذمت بیان کی گئی ہے اس پر نجدیوں کا عمل ہے ناکہ احناف وشوافع، موالک وحنابلہ کا ۔
چنانچہ احادیث کی مراد اور انطباق کے سلسلے میں خود رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اختلاف رہا ہے چنانچہ حدیث صحیح میں ہے،
عزمت عليكم أن لا تصلوا العصر حتى تأتوا بني قريظة فغربت الشمس قبل أن يأتوهم فقالت طائفة من المسلمين : إن النبي صلى الله عليه و سلم لم يرد أن يدعوا الصلاة و قالت طائفة : إنا لفي عزيمة النبي صلى الله عليه و سلم و ما علينا من إثم فصلت طائفة ايمانا و احتسابا و تركت طائفة ايمانا و احتسابا و لم يعب النبي صلى الله عليه و سلم أحدا من الفريقين
المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي في التلخيص - (3 / 37)
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم پر لا زم ہے کہ عصر کی نماز نہ پڑھو جب تک کہ بنی قریظہ میں نہ پہنچ جاؤ،صحابہ چلے مگر بنی قریظہ پہنچنے سے قبل ہی عصر کا وقت آ ن پہنچا تو صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے درمیان اس بابت اختلاف ہو گیا کہ عصر پڑھی جا ئے یا نہ،ایک جماعت کا موقف یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی مراد اس فرمان سے یہ تھی کہ بنو قریظہ کی طرف سرعت سے کوچ کیا جائے ،یہاں تک کہ عصر سے قبل وہاں پہنچ جانا چاہئے،اب جب کہ ہم نہیں پہنچ سکے تو نماز کو مؤخر کرنا درست اور منشاء آقا نہیں ہے، ﷺ ۔جبکہ دوسرے فریق کا موقف یہ تھا کہ آقا نے جو کچھ فرمایا ہے عمل اسی پر ہوگا ،اسی کا نام فرمانبراداری اور دین ہے ،چنانچہ ایک فریق نے اپنے تفقہ کے موافق نماز ادا کر لی جبکہ دوسرے فریق نے بنی قریظہ پہنچنے تک نماز عصر تک نماز کو مؤخرکیا جب ان دونوںفریقین کا یہ عمل آقا ﷺ کے سامنے آیاتو آپ نے کسی بھی فریق کو اس کے عمل پر غلط نہ کہا ،یہ مثال اس فقہی اختلاف کو سمجھنے کے لئے کا فی و شافی ہے جو مسالک کے در میان پایا جاتا ہے ،اس میں دونوں باتیں آگئیں ،یہ بھی کہ اس طرح کے اختلاف کا رونما ہونا فطری،لازمی اور ناگزیر ہے اور یہ بھی کہ یہ اختلاف قابل ملامت نہیں ہوتا ۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اختلاف اللہ کو محبوب و مطلوب ہے اور اس طرح وہ اپنے بندوں کی ذہنی ،دینی ،فقہی اور علمی صلاحیتوں کو چار چاند بھی لگانا چاہتا ہے اور یہ توسع امت کو ہزاروں قسم کی آسانیاں فراہم کرتا ہے ،نجدی حضرات امت سے اس آسانی کو چھین کر انہیں تنگی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ،جو نہ تو اللہ کو مطلوب ہے اور نہ محبوب ،وگرنہ اس کو بھی واضح اور ناقابل اختلاف بنانا اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔
سمجھنے کی بات یہ نہیں کہ تقلید ہے کیا ، بلکہ اب تو صرف یہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ تقلید کریں کس کی ؟تقلید تو کرنی ہی پڑیگی ،چاہے اپنا نام تم غیر مقلد رکھ کے شیخ نجدی کی تقلید کرو یا کسی اور کی، فرق یہ کہ ائمہ کرام کی تقلید اور اس تقلید میں جس کو ان کے پیرو کرتے ہیں توسع پایا جاتا ہے ، چنانچہ علماء احناف کے درجنوں مسائل میں دوسرے مسالک کے مطابق فتاوی اس بات کا بین ثبوت ہیں ۔
اور نجدیوں کے یہاں جو تقلید کی جاتی ہے اس میں جمود اور سڑاند پائی جاتی ہے ،جھوٹ اور دروغ گوئی ملتی ہے ،سطحیت پائی جاتی ہے۔
ایک تقلید اس دور کے علما کی ہے جس کے خیرپر ہونے کی خبرقرآن و حدیث میں وارد ہے ،یہ تو ائمہ کی اتباع ہے ،دوسری اس دور کے علما کی تقلید ہے جس کا شر پرہونا نص سے ثابت ہے،اس تقلید کو نجدی حضرات نے پہنا ہے۔
اور یہ بھی پوری طرح ثابت کیا جا چکا ہے کہ ہر طرح کی تقلید مبغوض نہیں ،بلکہ ان لوگوں کی تقلید حرام ہے جو فاسق وفاجر ہوں کاذب و مفتری ہوں اور سواد امت کے اندر اختلاف کے درپے ہوں ،یہ تمام اوصاف آج کل کے دور میں عام ہیں اور جس کسی کو بھی دیکھئے وہ حب جاہ کا شکار،حب مال کا شیدا،اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹ اور علمی خیانت کا مرتکب ملتا ہے ،اب سوال یہ ہے کہ اس دور میں اٹھنے والے جھوٹے مجتہدین کی تقلید کی جائے یا اسلاف امت جو تقوی وطہارت میں ضرب المثل تھے ان کی تقلید کی جائے ؟
یہ دروازہ جس طرح بند کیا گیا ہے اس سے اسلام دشمن عناصر کو بڑی تکلیف ہو گئی ہے ،ان کی اس تکلیف کا خیال ان خیر خواہوںکو ہوا ہے ۔ تاکہ وہ اس دروازے میںداخل ہوکر امت کے اندر سے ہر وہ چیز نکال پھینکیں جو اس کے ایمان کو قوت دینے والی ہے ۔
ایک عجیب بات یہ بھی ہر شخص نوٹ کرلے کہ امت کے سواد اعظم سے انحراف کرکے جب بھی کسی طائفے نے کسی معاملے میں غلو کیا ہے تو اس کے لئے یہ امر ضروری قرار پایا ہے کہ اس نے اپنے سوا تمام طبقات کو گمراہ قرار دیا اور ان کی تکفیر کی ہے ،چاہے ان کی تکفیر کرنے کے لئے اسے کتنی بھی دور کی کوڑی لانی پڑی ہو اور کتنا بھی دروغ گوئی سے کام لینا پڑا ہو ،چنانچہ روافض نے حضرت علی کو اپنے تئیں دوسروں سے سوا محبوب قرار دیا اور ان کی محبت میں غلو کیا تو ان کو بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ نظر آیا کہ باقی تمام امت کو کافر ومشرک اور حضرت علی کا دشمن قرار دیں۔
ایک طرف انھوں نے حضرت علی کو الہ کے درجے پر فائز کیا اور دوسری طرف دوسرے تقریباً تمام صحابہ کو اسلام سے خارج بلکہ اسلام کا بد ترین دشمن بتایا ،باطنیوں نے ان الحکم الا للہ کا بڑا حسین نعرہ لگایا ،لیکن اس کے پیچھے بھی یہی کارستانی کار فرما تھی کہ چند لوگوں کو حد سے زیادہ اٹھاکراور باقی تمام کو حد سے زیادہ گراکریہاں تک کہ کافر قرار دے کر امت کا شیرازہ منتشر کیا جائے ،خوارج کیا ،اثنا عشری کیا سب کو اس شیطانی ہتھیار کو بہر حال اٹھانا پڑاکہ تما م امت خصوصاً جو اکابر گذر چکے ہیں ان کو کافر مشرک اور ناقابل اعتبار قرار دیا جائے ،سب سے قریب ترین اس کی مثال بریلوی حضرات ہیں ،انہوں نے آقا ﷺ کی محبت کے دعوے میں غلو کیا چنانچہ ہر وہ عالم جس نے بدعت کے خلاف زبان کھولی تکفیر کی گولی کا نشانہ بنا،بڑے بڑے کبار علما کرام اس کا شکار ہوکر ناقابلِ اعتبار قرار دے دئے گئے ۔
اب نجدیوں کا حال بھی ملاحظہ کرلیں تمام مسالک کے لوگ کافر و مشرک قرار دے دئے گئے إتخذو ا أحبارہم کے زمرے میں آنے کے بعد گنجائش ہی کہا ںتھی کہ کوئی بچتا ،اب وہ ادلہ اربع کہاں ٹھہریں گے جن کی دہا ئی دی جاتی ہے کیونکہ اما م بخاری شافعی المسلک تھے ،امام ترمذی شافعی تھے وغیرہ، تو یہ لوگ کس طرح بچے رہ سکیں گے اس تلوار سے؟یہ تو یہ بھی نہ کہہ سکیں گے کہ یا اللہ ہم تو عالم نہ تھے اس لئے علما پر بھروسہ نہ کرتے تو کیا کرتے؟وہ ادلہ اربع جن سے ثبوت اور دلیل مانگی جاتی ہے خود اپنے ادلہ بننے کے لئے دلیل کے محتاج ہیں اور انکے ادلہ ہونے کے لئے جو دلیل ہے اس کا حال بھی وہی ہے ، جب یہ حضرات ناقابل اعتبار ٹھہریں گے تو وہ سرمایہ جو ان کے توسط سے امت کو ملا ہے کیونکر معتمد رہے گا ؟احادیث انہیں کے توسط سے میرے اور آپ کے درمیان تک آئی ہیں ۔
ان کے اس رویے کا ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو ان کی تکفیر کی تلوار اس قدر تیز ہے کہ اس کی زد میں کبار علما متأخرین ہی نہیں بلکہ تابعین تک آگئے ہیں ،علماء حق کے لئے تو ان کا معیار یہ ہے کہ ذرا ذرا سی لفظی مماثلت ڈھونڈ ڈھونڈکر انکو کافر قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب اہل باطل کے لئےان کے یہاں اتنا توسع کہ ہلکی سے ہلکی قدر مشترک بھی ان کو مومن قرار دینے کے لئے کافی ہے چنانچہ مسلمانو ں کے لئے ان کی تیغ براں کا حال آپ کو معلوم ہی ہے ،قادیانیوں کے لئے ان کے دل میں اتنی جگہ کہ اس کو اپنی بیٹی پیش کی اور اس کا نکاح مولوی نذیر حسین صاحب نے پڑھایاجو اہل نجد کے امام ہیں اور وہ بھی ایسی حالت میں جبکہ وہ اس قدر ضعیف اور بیمار تھے کہ چلنے سے معذور تھے،چنانچہ پالکی میں بیٹھ کر تشریف لائے ،مگر آئے ،ایک نبی دامادی میں آرہا تھا جھوٹا ہی سہی۔
اس کے بر خلاف یہ دیکھئے کہ اہل مسالک میں بھی سیکڑوں مسائل مختلف فیہ ہیں ،بڑے اختلافات بھی ہیں اور چھوٹے اختلافات بھی،رفع یدین کا اختلاف کوئی نیا اختلاف نہیں ،قرأت خلف الامام کا مسئلہ بھی نیا نہیں ،صدیوں سے علما ان مسائل پر بحث کرتے اور اپنے دلائل علمی اور مہذب زبان میں دیتے آرہے ہیں ،ایک دوسرے کا احترام برابر ہے ،ایک دوسرے کی علمی قابلیت اور آگہی کا اعتراف بھی ہے ،ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ،ان میں کبھی اتنا غلو نہ ہوا کہ نوبت ایک دوسرے کی تکفیر تک آن پہنچے ،لیکن نجدیوں نے آکر اس بحث کا آغاث نئے انداز سے کیا ،اس میں تکفیر ،تذلیل ،تحقیر کو ضروری قرار دیا گیا ،علما ء حق کسر نفسی کے بموجب اپنے آپ کو کم مایہ کہتے تو یہ اور سر پر چڑھ جاتے اور جاہلوں کا وطیرہ اپناتے ہوئے اپنے پندار کو اور بڑھا لیتے ،انھوں نے مساجد کو رفع یدین کی نورا کشتی کا اکھاڑا بنا ڈالا،امت مسلمہ کی مخالفت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ،مسلمانوں کی دشمنی کو اپنا مذہب قرار دیا ،چنانچہ بین المسالک اختلاف ہے کہ مس نسا سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں ؟نجدیوں کا مسلک یہ ہے کہ نہیں ٹوٹتا ،دوسرے بھی کئی ائمہ کا مذہب یہی ہے ،مگر یہ کسی کا مذہب نہیںکہ وضو کے بعد مس نسا موجب ثواب ہے ،یہ غلیظ مذہب نجدیوں کا ہے کہ اہل سنت کی مخالفت میں ایسا کرنے سے ثواب ملتا ہے ،ائمہ کے درمیان اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ فجرکی چھٹی ہوئی سنتیں قبل طلوع شمس پڑھی جائیں یا بعد ؟مگر اس اختلاف میں یہ کبھی نہ ہوا کہ کسی امام نے اس امر کو مستحسن قرار دیا ہو کہ فجر کی سنتیں جان بوجھ کر چھوڑ کر طلوع سے قبل پڑھو تو مخالفت کرنے کا اجر مل جائے گا،۔
اختلاف بین المسالک آج کا معاملہ نہیں صدیوں پرانا معاملہ ہے ،چنانچہ آقا ﷺکے فرمان
لا یبولن أحدکم فی الماء الدائم
کے سلسلے میں جب امام دااؤد ظاہری نے یہ مسلک بیان کیا کہ اگر کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی کے کنارے پیشاب کردے اور پیشاب بہ کر پانی میں چلا جائے تو پانی ناپاک نہ ہوگا یا اگر کوئی کسی برتن میں پیشاب کر کے اسے ٹھہرے ہوئے پانی میں ڈال دے تو بھی پانی ناپاک نہ ہوگا ،تو اہل ظواہر بھی دانتوں تلے انگلی دبا گئے ،امام نووی نے اس پر ریمارک کیا کہ ظاہر حدیث پر عمل کی یہ بد ترین مثال ہے ،اس کے باوجود نہ ان حضرات میں تکفیر کی تلوار چلی اور نہ طعن ش تشنیع کی ،تو پھریہ لڑائی ،یہ جھگڑا ، یہ تکفیری تلوار کب سے بے نیام ہوئی؟یہ جب بے نیام ہوئی جب نجدیوں کے مسلک کا نام ہندوستان کے اہل ہوا نے قبول کیا اور اس میں اپنا مفاد جانا ،پھر کیا کیا گل کھلے ہیں اس کا مطالعہ علماء اہل حق نے خوب کیا اور عوام کو واقف بھی کرا دیا ، فللہ الحمد ۔
ان کی مخالفانہ روش بلکہ التزام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے گویا یہودی ہیں جو آقا ﷺ کے قول :’’ خالفوا الیہود‘‘ کا بدلہ آپ ﷺ کے متبعین سے لے رہے ہیں ۔
علما نے لاکھ کہا تھاکہ اجتہاد مطلق کا اب وقت نہیں رہا ،وہ دور اب نہیں ،اور اس کی ضرورت بھی نہیں ،لیکن نجدیوں نے اس دروازے کو بہر حال کھول ہی لیا تھا ،اس دروازے کو کھول ڈالنے کی بنا پر کسی نے بھی ان کی نہ تکفیر کی تھی نہ ان کو برا ہی کہا تھا ایک نیا مسلک چاہئے تھا سو ان کو حاصل ہو ہی گیا تھا لیکن ان کا اصرار تو یہ ہے کہ ،نہیں جناب ،اتنا کا فی نہیں ہے بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ علما یہ اعلان کردیں کہ ہر کس وناکس کو اجتہاد کرکے اپنا دین آپ گھڑنے کی اجازت ہے،ورنہ تقلید لازم آجائے گی جو حرام ہے ، شرک ہے ، بلکہ یہ بھی اعلان کرنا چاہئے کہ ہمارے اسلاف تابعین اور تبع تابعین جنھوں نے تقلید کو روا رکھا سب کفرو ضلالت پر مرے۔
سوال یہ ہے کہ حدیث میں یحیٰ بن معین ،یحیٰ بن سعید القطان ،ابن مبارک وغیرہم کو ادلہ اربع کی کون سی شق سے یہ درجہ دیا گیا ہےکہ وہ جس
راوی کو صدوق کہدیں وہ صدوق ،جسے ثقہ کہدیں وہ ثقہ،جسے ضعیف کہدیں وہ ضعیف ؟
یہ تو وہی إتخذوا أحبارہم و رہبانہم میں داخل ہے ، اسی کا نام شخصی تقلید ہے ۔
سنو ،شخصی تقلید سے اگر کوئی خالی و عاری ہے تو وہ یہود ونصاریٰ ہیں ،یہ ہیں آزاد،یہ ہیں اپنا دین آپ بنانے والے ،ایسا سائنس میں ممکن ہے ، کیونکہ اس کا کوئی اصول بتانے کے لئے نہ نبی بھیجے گئے ،نہ کتاب نازل کی گئی ،لہذا اس کے مبادیات بھی روز بدلتے ہیں اور مرادیات بھی، وہ اپنے پیش رؤںپر تنقید کریں تو بجا ،کہ کل ان کا قول یہ تھا کہ سورج ایک جگہ کھڑا ہے ،باقی تمام سیارے اس کے گرد گردش میں ہیں ،اور آج تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سورج اپنی پوری کہکشاں کے ساتھ ۸۶ ہزار میل فی سیکنڈکی رفتار سے دوڑا جا رہا ہے ۔آج کی تحقیق کے سامنے کل کی تحقیق بچکانہ ،مضحکانہ اور جاہلانہ نظر آتی ہے، لیکن دین کو اللہ تعالی نے ایسی ہدایت اور رہنمائی پر نہیں چھوڑا جو آج کسی گھاٹی میں لے جاکر پٹخ دے کل کسی اور گھاٹی میں۔
لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے اپنے پیش رؤں پر طعن و تشنیع کی وہ زبان نہ کھولی جو نجدیوں نے اسلاف کے لئے دراز کی ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلائے جن پر اس کا انعام ہوا ہے۔آمین
محمد عمران مظاہری​
ماشاء اللہ کتنا عمدہ مضمون ہے لیکن :‘‘ کون سنتا ہے فغان درویش؟ کتنے لوگون نے پڑھا؟
 

ندوی

وفقہ اللہ
رکن
توبہ توبہ !
کیا ضرورت تھی اتنا اسپیس گھیرنے کی ؟ اتنا لمبا مضمون لکھ مارا،یہ دیوبندی حضرات اپنے منہ میاں مٹھو بنتے رہتے ہیں ،ان کی ایک الگ ہی دنیا ہے،ان کی سمجھ میں کبھی یہ بات نہیں آتی کہ علم جتانا جہالت ہے ،علم وہ ہے جس سے دین کا نفع اٹھا یا جائے ،کیا ہمارے مظاہری صاحب نے ،اطیعواللہ واطیعوالرسول کا حکم قرآن شریف میں ابھی تک نہیں پڑھا؟میری گذارش ہے کہ قرآن وحدیث سے اپنا رشتہ مضبوط کریں اور بس!
 

نوید

وفقہ اللہ
رکن
سبحان اللہ کیا بات ہے ندوی صاحب!
آپ کا توبہ توبہ کرنا تو کچھ یوں ہی کہہ رہا ہے کہ اس مضمون کی خاص ضرورت تھی
کیا آپ نے یہ مضمون پڑھا؟یا یوں ہی توبہ کر رہے ہیں؟غالبا آپ بھی غیر مقلد ہیں؟اور شاید اسی لئے آپ نے مظاہری صاحب کا محض نام دیکھ کر نفس مضمون کو سمجھ لیا ہے،اور اسے اپنا مخالف جان کر دیوبندیوں کے خلاف ایک سخت تبصرہ کر دیا ہے۔
 
Top