دین الٰہی اور اکبر اعظم

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
[size=x-large]دین الٰہی اور اکبر اعظم​

(1) آفتاب کی عبادت دن میں چار وقت یعنی صبح وشام دوپہر اور آدھی رات میں لازمی طور پر کر تے تھے اور ایک ہزار ایک آفتاب کے ہندی ناموں کو اپنا وظیفہ بنایا تھا ،ٹھیک دوپہر کو آفتاب کو آفتاب کی طرف متوجہ ہو کر حضور قلب کے ساتھ ان ناموں کو پڑھا کرتا تھا اور اپنے دونوں کانوں کو پکڑ کر با دشاہ ایک چرخ کھاتا اور کانوں کے لو پر ٹکے لگاتا اور اسی قسم کی دوسری حرکات بہت سی بادشاہ سے صادر ہوتی تھیں وہ قشقشہ بھی لگا تا تھا اور آدمی رات کو ایک دفعہ روزآنہ نوبت ونقارہ بھی مقرر تھا ۔
(2)اسی طرح آگ ،پانی ،درخت اور تمام مظاہرہ فطرت حتیٰ گائے اور گائے کے گوبر تک کو پوجتا تھا ۔قشقشہ جنیو سے اپنے بدن کو آراستہ کرتا ۔اور آفتاب کے مسخر کرنے کی دعا جس کی تعلیم ہندوؤں نے دی تھی ۔ورد کے طور پرآدھی رات کو اور طلوع آفتاب کے وقت پڑھا کرتا تھا۔
آفتاب نیر اعظم ہےاور سیارے عالم کو داد ودہش کرتا ہے بادشاہوں کا مربی وسر پرست سورج ہی ہے اور سلاطین اس کو رواج دلانے والے ہیں۔

(3)بادشاہ اپنے لباس کا رنگ سات ستاروں کے رنگ کے مطابق رکھتے تھے ،چونکہ ہردن کسی سیارہ کے ساتھ منسوب ہے اس لئے ہردن کے لباس کا رنگ جدا گانہ مطابق رنگ سیارہ ہوتا۔
(4)بادشاہ صرف سر کے بیچ کے بال منڈوایا کرتا تھا اور چاروں طرف کناروں کے چھوڑدیئے جاتے تھے ۔عقیدہ یہ تھا کہ چونکہ بادشاہ کی روح کا مل ہو چکی ہے اور کامل ومکمل لوگوں کی روح کھوپڑی (تالو) کی راہ سے نکلا کرتی ہے جو دس سوراخوں یعنی بدن کے سوراخوں میں سے دسواں سوراخ ہے جس وقت کاملوں کی روح کھوپڑی سے نکلتی ہے اس وقت ایک کڑاکے کی آواز پیدا ہوتی ہے اور یہ آواز روح کی سعادت ونجات کی دلیل ہو تی ہے اور یہ کہ مردہ کو گناہوں سے نجات ہو گئی ( شاید جلنے کے وقت آخر میں جو مردوں کی کھوپڑی پھٹتی ہے اور اس وقت ایک سخت آواز قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہے ۔بر ہمنوں نے اسی کو نجات کی دلیل بنا لیا ہو گ بھر حال اس آواز کو یہ لوگ اس کی دلیل بھی قرار دیتے تھے کہ ایسے آدمی کی روح کسی صاحبِ شوکت مطلق العنان کے بدن میں جنم لیتی ہے ۔
(5)حکم تھاکہ "لا الٰہ الا اللہ "کے ساتھ اکبر خلیفۃ اللہ کہنے پر لوگوں کے ساتھ اصرار کیا جائے اور اس کا ان کو مکلف بنایا جائے
(6)سود اور جوا:سود اور جوا حلال کر دیا گیا تھا اور جواریوں کو خزانہ سے سودی قرض دیا جاتا تھا ۔
(7)شراب کی حلت کا فتویٰ صادر کر دیا گیا تھا بشرطیکہ اس کے پینے سے کوئی فتنہ وفساد پیدا نہ ہو ۔اسی وجہ سے نو روز کی مجلسوں میں اکثر علماء وصلحاء بلکہ قاضی ومفتی تک شراب نوشی کے میدان میں اتارے جاتے تھے ۔
(8)داڑھی کی درگت :شراب کی حلت کے بعد دین الٰہی میں سب سے زیادہ زور ریش تراشی پر دیا جاتا تھا بڑی ہی مضحکہ خیز دلیل دی جاتی تھی " داڑھی چونکہ خصیتین سے ہوتی ہے اور ان ہی سے داڑھی پانی لیتی ہے (اسی وجہ سے خواجہ سراؤں کی داڑھی نہیں ہوتی ) پھر اس کے رکھنے سے کیا ثواب مل سکتا ہے ۔
(9)پردہ: جوان عورتیں جو کوچہ وبازار میں نکلتی ہیں ،باہر نکلنے کے وقت میں چاہئے کہ چہرہ کھلا رکھیں۔
(10)جواز متعہ کا فتویٰ صادر کر دیا گیا تھا ۔ شہر سے باہر آبادی بنائی گئی اور اس کا نام "شیطان پورہ" رکھا گیا اور وہساں با ظابطہ محافظ، نگراں ،داروغہ مقرر تھے تاکہ جو اس بازار حسن سے کوئی پری ناز ،عشوہ تراز اپنے گھر لے جانا چاہے اپنا نام ونسب لکھوائے اور ان دلالوں کو خوش کر کے جو چاہے کرے۔
(11)ختنہ : بارہ سال سے کم عمر لڑکوں کا ختنہ نہ کرایا جائے ۔بارہ سال کی عمر کے بعد لڑکے کو اختیار ہو گا چاہے ختنہ کرائے یا نہ کرے۔
(12)میت: غلہ اور پکی اینٹیں مردہ کی گردن میں باندھ کر اس کو پانی میں ڈال دیا جائے اگر پانی نہ ہو تو اس کو جلا دیا جائے یا چیبنیوں کی طرح کسی درخت سے مردہ کو باندھ دیا جائے۔

یہ چند عقائد ‘‘مہابلی اکبر اعظم ‘‘کے دین الٰہی کے ہیں جس نے دین محمدی کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا۔گویا اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔


[/size]
 
Top