نام نہاد اہلحدیث یا شیعہ؟

sahj

وفقہ اللہ
رکن
برادران اہل سنت ! غیر مقلدین ایک ایسا گروہ ہے جو اپنے آپ کو حدیث کا تنہا وارث قرار دیتا ہے اور اپنے بلمقابل تمام مقلد مسلمانوں کو حدیث کا مخالف اور رائے کا پجاری کہتا ہے ۔
سیدھے سادھے حنفی مسلمان ان کے “اہل حدیث“ نام سے دھوکہ کھاکر ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اسلئیے ضروری ہے کہ انکی اصلیت کو واشگاف کیا جائے اور ان لوگوں نے اپنے اوپر منافقت کے جو پردے ڈال رکھے ہیں ،چاک کرکے ان کا اصلی چہرہ لوگوں کو دکھایا جائے،کہ جسے لوگ بے خبری کی وجہ سے “اہلحدیث“ سمجھتے ہیں وہ حقیقتاً رافضی اور شیعہ کا چہرہ ہے۔

میں نے مضمون میں انہی کے اکابر کی عبارات سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہندستان میں تحریک اہلحدیث درحقیقت رافضیت و تشیع کے سوا کچھ نہیں۔ یہ دور حاضر میں شیعت کی تجدید کا دوسرا نام ہے ۔ نہ ان کو حدیث سے محبت ہے ،نہ یہ اہلحدیث ہیں ۔ ان کا اہل حدیث کہلوانا ایسا ہی ہے جیسے ایک اور فرقے نے اپنا نام “اہل قرآن“ رکھ لیا ہے ۔ وہ قرآن کا نام لے کر حدیث کا انکار کرتے ہیں یہ حدیث کا نام لیکر قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہوجاتے ہیں۔ اسکی مثالیں آپ کو آئیندہ صفحات میں باافراط ملیں گی۔

مولوی عبدالحق بنارسی ہندستان میں تحریک “اہلحدیث“ کا بانی مبانی ہے، سب سے پہلے اسکا حدود اربعہ ملاحظہ فرمائیے۔


مولوی عبدالحق بنارسی اور قاضی شوکانی


یہ بنارس کا رہنے والا ایک شخص تھا جس نے ہندستانی علماء کے علاوہ یمن کے شوکانی زیدی شیعہ سے بھی علم حاصل کیا تھا ۔ شوکانی کے زیدی شیعہ ہونے کا ثبوت “تفسیر فتح القدیر“ کے مقدمہ میں موجود ہے۔
مقدمہ نگار لکھتا ہے۔

“تفقہ علی مزھب الامام زید و برع فیہ و الف وافتٰی
حتٰی صار قدرہ فیہ و طلب الحدیث و فاق فیہ اھل
زمان حتی خلع ربتہ التقلید و تحلی بمنصب الاجتھاد“
(فتح القدیر۔صفحہ5)



یعنی اس نے مزہب امام زید کے مطابق فقہ حاصل کی، حتٰی کہ اس میں پورا ماہر ہوگیا۔ پھر تالیفات کیں اور فتوے دئیے حتٰی کہ اسمیں ایک نمونہ بن گیا یا مقتدا ہوگیا، اور علم الحدیث کی طلب میں لگا تو اپنے اہل زمان سے فوقیت لے گیا، یہاں تک کہ اسنے اپنے گلے سے تقلید کی رسی کو اتار ڈالا اور منصب اجتہاد کا مدعی ہوگیا۔


یہ تو شوکانی کے زیدی شیعہ ہونے کی صراحت ہے، مولوی عبدالحق کا اس کے شاگرد ہونے کا مسئلہ وہ وہیں سے حل ہوجاتا ہے ، مقدمہ نگار چند سطر پہلے “بعض تلامیزہ الذین اخذوا عنہ العلم“ کے عنوان کے تحت لکھتا ہے،
اخذ عنہ العلم ۔۔۔۔۔ الشیخ عبدالحق بن فضل الھندی
(مقدمہ فتح القدیر مصری،صفحہ 5)
یعنی آپ سے علم حاصل کرنے والوں میں علامہ شیخ عبدالحق بن فضل ہندی بھی ہے یہی عبدالحق بنارسی ہے ۔
عبدالحق کے شیعہ اور غیر مقلد ہونے کے متعلق مولانا عبدالخالق کی تحریر ملاحظہ فرمائیں، جو غیر مقلدوں کے “شیخ الکل میاں*نزیر حسین دہلوی“ کے استاد اور خسر ہیں۔ آپ اپنی کتاب “تنبیہ الضالین،صفحہ 3“ پر لکھتے ہیں۔
“سو بانی مبانی اس فرقہ نو احداث کا عبدالحق ہے، جو چند روز سے بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیر المومنین (سید احمد شہید رحمۃ اللہ) نے ایسی ہی حرکت ناشائستہ کے باعث اپنی جماعت سے ان کو نکال دیا تھا اور علمائے حرمین نے اس کے قتل کا فتوٰی لکھا تھا ، مگر یہ کسی طرح بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا۔“

ایسے ہی انہوں نے اک اور مقام پر بھی یہ لکھا ہے کہ “عبدالحق بنارسی جو فرقہ غیر مقلدین کا بانی ہے اپنی عمر کے درمیانی حصہ میں رافضی(شیعہ) ہوگیا تھا۔


عبدالحق بنارسی کے شیعہ ہونے کا دوسرا ثبوت




مشہور غیر مقلد مصنف نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں۔

در اوسط عمر بعض درعقائد ایشاں و میل بسوئے
تشیع و جز آں معرفت است۔

(سلسۃ العسجد)
یعنی کہ عبدالحق بنارسی کی عمر کے درمیانی حصے میں اس کے عقائد میں تزلزل اور اہل تشیع کی طرف رجحان بڑا مشہور ہے۔

عبدالحق بنارسی کا علی الاعلان شیعہ ہونا




قاری عبدالرحمان صاحب محدث پانی پتی لکھتے ہیں،

“بعد تھوڑے عرصہ کے مولوی عبدالحق بنارسی صاحب ، مولوی گلشن علی کے پاس گئے، دیوان راجہ بنارس کے شیعہ مزہب تھے اور یہ کہا کہ میں شیعہ ہوں اور اب میں ظاہر شیعہ ہوں ، اور میں نے عمل بالحدیث کے پردے میں ہزار ہا اہل سنت کو قید مزہب سے نکال دیا ہے اب ان کا شیعہ ہونا بہت آسان ہے ۔ چنانچہ مولوی گلشن علی نے تیس روپے موہوار کی نوکری کروادی۔“
(کشف الحجاب،صفحہ 21)

ناظرین باتمکین کو اب تو غیر مقلدین کے مخفی شیعہ ہونے میں تامل نہیں ہونا چاھئے ، کیونکہ اس جماعت کے بانی “عبدالحق بنارسی“ کا علی الاعلان شیعہ ہونا ثابت ہوگیا ہے۔ جس جماعت کا بانی نوکری کے لئے شیعہ ہوگیا ہو وہ جماعت کیسے اہل سنت ہوسکتی ہے ؟ دراصل ان کا اپنے آپ کو اہل حدیث کہنا ازروے تقیہ ہے، جو روافظ کا مشہور عقیدہ ہے۔

بنارس کے ٹھگ​


آپ کو معلوم ہے کہ بنارس کے ٹھگ بہت مشہور ہیں ، یہ مولوی عبدالحق بنارسی اور اس کی پارٹی بھی ٹھگوں کا ایک گروہ ہے، جس نے مسلمانان احناف کے جان و مال کو ، انکے دین اور ایمان کو بنام “حدیث“ ٹھگ لیا ہے ۔ ٹھگی کرنے کے لئے کوئی خوبصورت اور دلکش سوانگ رچانا پڑتا ہے تاکہ شکار مشتبہ نہ ہو اور آرام سے اس کے جال میں پھنس جائے۔ جیسے مولانا ظفر علی خان رحمہ اللہ نے مرزائیوں کے متعلق کہا تھا،



مسیلمہ کے جانشین گرہ کٹوں سے کم نہیں
جیب کترے لے گئے پیمبری کی آڑ میں​


اسی طرح مولوی عبدالحق بنارسی اور اس کے جانشینوں نے حدیث کی آڑ میں بہت سے احناف کی جیب صاف کرلی اور انہیں اسلاف کرام سے ورثہ میں ملے ہوئے خالص اسلام اور ایمان سے محروم کردیا، اور اپنا خودساختہ دین اور مزہب اور اجماع امت کے برخلاف موقف و مسلک کا قائل کرلیا۔ “ فوااسفاہ“ جو بدنصیب لوگ ان کے حکمے آگئے وہ ہر وقت حدیث حدیث کا لفظ سن کر پختہ ہوجائیں گے ، مگر انہیں علم نہیں ہوگا کہ یہ ہمیں حدیث کی آڑ میں سنت سے دور کر رہے ہیں ، اور اہل حدیث کی رٹ لگا کر یہ ہمیں اہل سنت سے نکال رہے ہیں ۔


جاری ہے​
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
حدیث و سنت​


حالانکہ حدیث تو ہر طرح کی ہوتی ہے ، موضوع بھی، مرجوح بھی ، منسوخ بھی، معلول بھی ، متروک بھی اور محتمل بھی۔ پتانہیں جس حدیث کی طرف وہ(نام نہاد اہل حدیث فرقہ) بلارہے ہیں وہ کس درجہ اور کس زمرے کی حدیث ہے۔ مگر سنت ان تمام احتمالات سے پاک “صرف سنت“ ہوتی ہے، جس میں ایسی کوئی علت نہیں ہوتی اور وہ بہرحال قابل عمل اور معیار حق ہوتی ہے ، کیونکہ آخر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معمول رہی ہوتی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کا عمل بھی اس کے مطابق ہوتا ہے ، اسلئے حدیث کے بلمقابل سنت کا راستہ احوط،محفوظ،اور زیادہ قابل عمل ہے۔
ہم حنفی شافعی مالکی حنبلی سب “اہل سنت “ ہیں اور یہ لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث کہلوا کر خوش ہوتے ہیں ۔ اسلئے مقابلہ حدیث اور اقوال آئمہ کا نہیں ، جسے غیر مقلد مشہور کرتے ہیں، بلکہ مقابلہ حدیث اور سنت کا ہے۔ ان کے پاس برائے نام حدیث ہے اور ہمارے پاس سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
پھر ہر سنت حدیث ہوتی ہے مگر ہر حدیث سنت نہیں، اسلئے راستہ اہل سنت ہی کا واحد قابل نجات راستہ ہے، اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین عظام رحمہ اللہ ، آئمہ مجتہدین رحمہ اللہ اور فقہاء و محدثین رحمہ اللہ نے ہر دور میں چل کر دکھا یا ہے اور اس پر چلنے والے ان بزرگان امت اور اسلاف کے پیچھے پیچھے منزل مقصود تک پہنچے ہیں اور پہنچ رہے ہیں ۔



سنت کا معنی​


سنت کا معنی ہی یہ ہے کہ
الطریقۃ المسلمو کۃ فی الدین
یعنی دین میں جس راستے پر امت کی اکثریت چلتی ہو وہ سنت ہے۔


اور اب تقابل اور وضاحت کے بعد عیاں ہوجانا چاھئیے کہ سلامتی کی راہ سنت کی راہ ہے، جس کو ساری یا اکثر امت کی حمایت حاصل ہے اور حدیث کی راہ شاذ اور منفرد افراد کی راہ ہے، جس میں سلامتی کی کوئی امید نہیں۔

کسی بھی حدیث کو دیکھ یا سن کر اسکو اپنا معمول نہیں بنالینا چاھئیے جب تک معلوم نہ ہوجائے کہ امت نے اس کو “تلقی بالقبول“ بخشی ہے یا نہیں، کیونکہ اگر آئمہ مبتوعین نے اس کو معمول نہیں بنایا تو یقیناً اس میں کوئی مخفی علت ہوگی جس کی وجہ سے عمل نہیں ہے،ورنہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اکابر و اسلاف جو حدیث و سنت کے شیدائی تھے، اس کو بلاوجہ ترک کر دیتے، جیسے مغرب سے پہلے کی دورکعت ، ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا، خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمٰعین نے نہیں پڑھا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی کو عامل نہیں پایا تو یہ حدیث تو بے شک ہے لیکن قابل عمل سنت نہیں۔


مولوی عبدالحق بنارسی کے متعصب غیر مقلد اور گستاخ ہونے کی دلیل۔

مولانا سید عبدالحئی لکھنوی اپنی مایا ناز تصنیف (الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند،صفحہ104) پر لکھتے ہیں،
منھم من سلک مسلک الافراط جدا و بالغ فی
حرمۃ التقلید و جاوز عن الحدود و بدع المقلدین
و ادخلھم فی اھل الاھواء و وقع فی اعراض الائمۃ
لا سیما الامام ابی حنیفۃ رحمہ اللہ و ھذا مسلک
الشیخ عبدالحق بن فضل اللہ بنارسی
۔“
(الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند،صفحہ104)
یعنی ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو حد سے بڑھ گئے ہیں اور تقلید کی حرمت میں بے حد مبالغے سے کام لے کر حدود کو پھلانگ گئے، مقلدین کو بدعتی قرار دیا اور ان کو اہل ھواء میں داخل کردیا۔ آئمہ کرام بالخصوص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توہین و تنقیص میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ مسلک ہے عبدالحق بن فضل بنارسی کا۔


مولوی عبدالحق بنارسی کے شیعہ اور تبرائی ہونے کی اک اور دلیل

مولوی عبدالحق بنارسی کے دوست اور ہم سبق مشہور محدث قاری عبدالرحمٰن صاحب پانی پتی ، اپنی کتاب (کشف الحجاب،صفحہ 21) پر لکھتے ہیں،

“اس نے میرے سامنے یہ بات کہی کہ “عائشہ( رضی اللہ عنہا) علی (رضی اللہ عنہ) سے لڑی، اگر توبہ نہیں کی تو مرتد مری۔
(نعوذبااللہ من ذالک البکواس)


کہتے ہیں کہ دوسری مجلس میں اس نے یہ بھی کہا کہ صحابہ کرام کا علم ہم سے کم تھا ، انکو پانچ پانچ حدیثیں یاد تھیں اور ہمیں ان سب کی حدیثیں یاد ہیں۔(استغفراللہ العظیم)

کیا کوئی سنی مسلمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمٰعین اور اپنی روحانی ماں اور زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ گستاخانہ الفاظ استعمال کرسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔
یہ تھا کچھ حدود اربعہ اور تعارف مولوی عبدالحق بنارسی بانی جماعت اہل حدیث یعنی غیر مقلدین کا۔



غیر مقلد عالم کی رائے کہ اھل حدیث شیعہ اور روافض کے خلیفہ و وارث ہیں

“پس اس زمانے کے جھوٹے اہل حدیث، مبتدعین ، مخالفین سلف صالحین جو حقیقت “ماجاء بہ الرسول“ سے جاہل ہیں، وہ صفت میں وارث اور خلیفہ ہیں شیعہ اور روافض کے، یعنی جسطرح شیعہ پہلے زمانوں میں باب اور دہلیز کفر و نفاق تھے اور مدخل ملاحدہ و زنادقہ کا ہے اسلام کی طرف، اسی طرح جاہل بدعتی اہل حدیث اس زمانے میں باب اور دہلیز اور مدخل ہیں ملاحدہ اور زنادقہ منافقین کے، بعینہ مثل اہل الشیعہ کے۔۔۔۔ مقصود یہ ہے کہ رافضیوں میں ملاحدہ تشیع ظاہر کرکے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسنین رضی اللہ عنھما کی غلو سے تعریف کرکے سلف کو ب=ظالم کہہ کے گالی دیں اور پھر جس قدر الحاد و زندقہ پھیلادیں کچھ پروا نہیں۔ اسی طرح ان جاہل کاذب اہل حدیثوں میں ایک “رفع یدین“ کرلے اور تقلید کا رد کرے اور سلف کی ہتک کرے، مثل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جن کی امامت فی الفقہ اجماع کے ساتھ ثابت ہے، اور پھر جس قدر کفر بد اعتمادی اور الحاد و زندقہ ان میں پھیلادے بڑی خوشی سے قبول کرلیتے ہیں اور ایک ذرہ چیں بچیں نہیں ہوتے۔ اگرچہ علماء فقہاء اہل سنت ہزار دفعہ ان کو تنبیہ کریں ، ہرگز نہیں سنتے۔“
(از کتاب التوحید و السنۃ فی رد الحاد و البدعہ، صفحہ 262، قاضی عبدالاحد خانپوری)



غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دھلوی کے استاد مولانا عبدالخالق کا تبصرہ

“ان غیر مقلدین کا مزہب اکثر باتوں میں روافض کے مزہب سے ملتا جلتا ہے۔ جب روافض پہلے رفع یدین اور آمین بلجہر اور قراءت خلف الامام کے مسئلہ میں شافعی رحمہ اللہ کی دلیلوں سے ثابت اور ترجیع دے کر عوام کو خصوصاً مزہب حنفی والوں کو شبہ میں ڈالتے ہیں ، پھر جب یہ بات خوب اپنے مقلدوں میں ذہن نشین کراچکتے ہیں تب آگے اور مسئلوں میں متشکک اور مردد بناتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔“
(تنبیہ الغافلین،صفحہ 5)


مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان کا تبصرہ


“تو پھر جو آئمہ علماء آخرت ہیں، جو شخص ان کی غیبت کرتا ہے تو اس کا لعن طعن اسی مغتاب پر عود کرتا ہے یہ مزہب رفض کا شیوہ ہے نہ مزہب اہل سنت و الجماعت کا “۔
(آثار صدیقی،جلد 4،صفحہ 23)



قصص الاکابر کا اقتباس کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہیں

سید احمد بریلوی شہید رحمۃ اللہ کے قافلہ میں مشہور تھا کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہوتے ہیں۔“
(قصص الاکابر،صفحہ26)

یاد رہے کہ مزکور الصدر مولوی عبدالحق بنارسی بانی جماعت غیر مقلدین نے حضرت امیر شہیدرحمۃ اللہ کے قافلے میں رفع یدین اور آمین بالجہر کرکے فتنہ کھڑا کیا تھا، جس کی وجہ سے حضرت امیر رحمہ اللہ نے اسے جماعت سے خارج کردیا تھا، اور یہ بھی یاد رہے کہ رفع یدین اس زمانے میں ہندستان میں صرف شیعوں کا شعار تھا۔ تو اس کا یہ فعل بھی شیعوں کی موافقت میں تھا۔ باقی رہے شافعی یا حنبلی تو وہ یہاں تھے ہی نہیں اور اب تک نہیں ہیں اور اس وقت تو حرمین شریفین میں بھی حنفیوں کی حکومت تھی۔ حنبلی شافعی اگر کرتے بھی ہوں گے تو ان کا انفرادی فعل ہوگا۔حرم شریف میں یا سعودی عرب میں اس وقت جماعتی طور پر رفع یدین نہیں ہوتا تھا ۔ لہٰزہ عبدالحق بنارسی کا اسے اپنانا یا اسے رواج دینا یہ اپنی شیعت کا اظہار تھا۔ اگرچہ نام حدیث کا لیتا تھا مگر کام رافضیوں کا کرتا تھا۔


میاں نزیر حسین کا فتوٰی کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہیں

جو آئمہ دین کے حق میں بے ادبی کرے وہ چھوٹا رافضی ہے یعنی شیعہ ہے۔“
(تاریخ اہل حدیث ،از مولانا ابراھیم سیالکوٹی، صفحہ 73)

تو یہ آئمہ کی توہین کرنا بالخصوص امام الائمہ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کو جلی کٹی سنانا اور ان کے مقلد حنفی فقہاء و محدثین پر تعن کرنا اور تمام حنفیوں کو مشرک کہنا یہ آج کل غیر مقلدوں کا دن رات کا وظیفہ ہے، اسلئے بحفوائے فتوائے میاں نذیر حسین یہ لوگ چھوٹے رافضی نہیں تو اور کون ہیں ؟


جاری ہے​
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
مولانا قاری عبدالرحمٰن محدث پانی پتی کا تجزیہ

“چنانچہ روافض کی ساری علامتیں اس فرقہ میں موجود ہیں جیسے۔
1
تراویح کا انکار کرنا اور انہیں بدعت بتانا۔
2
جب ان کا مزہب پوچھئے تو محمدی بتلائیں گے یہی قول روافض کا ہے کہ مزہب اور دین کو ایک جانتے ہیں۔
3
اہل سنت کو حنفی،شافعی ہونے کی وجہ سے مشرک کافر جاننا،یہ عین قول روافض کا ہے۔
4
سنن ماثورہ کو چھوڑ دینا یہ عین عمل شیعہ کا ہے۔
5
مخالف اہل سنت کو مزاہب اربعہ سے دلیل درحقیقت جاننا عین عقیدہ شیعہ کا ہے۔
6
جمع بین الصلوٰتین عین مزہب روافض کا ہے۔
7
ایک حدیث جہر آمین کی لے کر قرآن کو رد کرنا یہ عین قول شیعہ کا ہے۔
8
بموجب قول الحرج مدنوع عورت غیبت شوہر میں جب دیر ہوجائے جب چاہے نکاح کرلے، یہ بدلہ متعہ کا ان لوگوں نے قرار دیا ہے۔ اور مولوی عبدالحق بنارسی کا فتوٰی جوز متعہ کا میرے پاس موجود ہے۔“
(کشف الحجاب،صفحہ 21،22)

میاں نزیر حسین کا امام ابوحنیفہ کو بدنام کرنے کے لئے شیعوں سے مدد لینا

مولانا قاری عبدالرحمٰن محدث پانی پتی لکھتے ہیں،
نزیر حسین صاحب نے سید محمد مجتہد شیعہ سے مطاعن ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طلب کئے اور ہمت آپ کی بلکل طرف مطاعن آئمہ فقہاء اور تجہیلات صحابہ کے مصرف ہے۔“
(حاشیہ ، کشف الحجاب ، صفحہ 9)

ہر انسان اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ہم مسلک لوگوں کی حمایت حاصل کرتا ہے، تو میاں نزیر حسین جو شیعوں سے امداد لیکر ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کو مدلل کرتا ہے تو لازماً یہ ان کا ہم مسلک ہے۔ اس کے شیعہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

قاضی شوکانی زیدی شیعہ تھا اور اس کی پارٹی نیم شیعہ

محدث پانی پتی لکھتے ہیں،
اور اقوال شوکانی قاضی زید کے نقل کرتے ہیں۔
(کشف الحجاب ، صفحہ 11)

اور زیدی شیعوں کو عالمگیری میں کافر لکھا ہے، دیکھئے۔

و یجب اکفار الزیدیۃ کلھم فی قولھم بانتظار نبی من العجم ینسخ دین نبینا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔“
(فتاوٰی عالمگیری۔صفحہ283،جلد2)
یعنی تمام زیدی شیعوں کو کافر قرار دینا واجب ہے ان کے اس قول کی وجہ سے کہ عجم میں سے اک نبی اٹھے گا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو منسوخ کردے گا۔(معاذ اللہ)

جماعت غیر مقلدین کا بانی زیدی شیعہ کا شاگرد تھا اور خود بھی شیعہ ہوگیا تھا جس کی تفصیل آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ اور زیدی شیعہ کا کوفر کہنا واجب ہے۔ لہٰزہ جماعت غیر مقلدین کو اہل حق میں سے کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ نہ ہی ان کو اہل سنت سمجھا جاسکتا ہے ، کیونکہ یہ خود کو اہل سنت کہلوانا پسند نہیں کرتے، ورنہ یہ اپنا نام اہل حدیث نہ رکھتے۔ اسلئے ان کو نرم سے نرم الفاظ میں شیعہ یا چھوٹے رافضی کہہ سکتے ہیں ، ورنہ بقول قاری عبدالرحمٰن محدث ان کا کفر شیعوں سے کہیں بڑھا ھوا ہے۔


قاری عبدالرحمٰن صاحب کے الفاظ یہ ہیں۔
ان موحدوں کے اسلام میں کلام ہے، بظور تنزل کے ان کو شیعہ کہنا چاھئے کہ جمیع کیود شیعوں کے یہ استعمال کرتے ہیں، واللہ شیعہ ان سے ہزار درجہ بہتر ہیں وہ پابند ایک طریقہ کے ہیں اور یہ لوگ تابع اپنے نفس کے ہیں۔
(کشف الحجاب،صفحہ25)


غیر مقلدین باالاتفاق علماء دہلی اہل سنت سے خارج اور اہل بدعت میں داخل ہیں۔

تیرھویں رمضان 1298ھ اجماع و اتفاق علماء دہلی کا بعد تفتیش عقائد اس فرقہ لامزہب کے اس بات پر ہوا کہ یہ فرقہ مانند اور اہل اہوا کے خارج مزہب اہل سنت سے ہے اور مانند اور اہل اہوا کے ان سے معاملہ رکھنا چاہیئے۔
(کشف الحجاب،صفحہ26)

منکر حقانیت مزاہب اربعہ جہنمی ہے، اس کی کوئی عبادت قبول نہیں

کسیکہ مزاہب اربعہ را مرجوح داندو بزعم خود حدیثے راصحیح دانستہ برخلاف مزاہب
اربعہ درعمل آرد او مبتدع است و فی النار و از اہل حدیث ھم نیست و صوفیان باصفا نیز ازاں گمراہ بیزار اندو کسیکہ حقیقت مزاہب اربہ را انکار کند و خلاف محمدیت پنداشتہ حنفی یا شافعی یا حنبلی یا مالکی شدن بدعت سئیہ داندواز گفتن آں نفرت نمایداوراز اہل آں بدعت است کہ نماز و روزہ و جہاد و غزوہ و حج صاحب آں مقبول نمی شود و بدین عقیدت اوراز اہل اسلام خارج مے کند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واز چنیں کس محبت کردن واز بدعت گزشتن خرام شدید است
۔“
(تنبیہ الضالین،صفحہ70، مولانا عبدالخالق صاحب)


یعنی جو شخص مزاہب اربعہ کو مرجوح جانے اور مزاہب اربعہ کے برخلاف کسی حدیث کو بزعم خود صحیح سمجھتے ہوئے اس پر عمل لرے وہ بدعتی اور جہنمی ہے وہ اہل حدیث میں سے بھی نہیں ہے اور صوفیان باصفا بھی گمراہ سے بیزار ہیں۔ اور جوشخص مزاہب اربعہ کی حقانیت کا انکار کرے اور اسے خلاف محمدیت سمجھتے ہوئے حنفی،شافعی،مالکی یا حنبلی ہونے کو بدعت سئیہ گردانے اور اس نسبت سے نفرت کرے وہ اہل بدعت میں سے ہے جن کی نماز ، روزہ ، جہاد و غزوہ اور حج وغیرہ ، کوئی عبادت قبول نہیں۔ اور اس عقیدے کی وجہ سے اسے اہل اسلام سے خارج سمجھنا چاھئیے۔ اس سے کچھ آگے یہ عبارت بھی ہے کہ ایسے شخص سے محبت کرنا اور اس کی بدعت کو نظر انداز کرنا سخت حرام ہے۔


دجال و کذاب غیر مقلدوں سے بچ کر رہنے اور ان کے ساتھ دشمنی رکھنے کے متعلق فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم​

“عن ابن عمر قال واللہ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول
لیکونن بین یدی الساعۃ الدجال و بین یدی الدجال کذابون ثلثون
او اکثر قلنا ما آیاتھم قال ان یاتوا کم بستۃ لم تکونوا علیھا لغیروا
بھا ملتکم و دینکم فاذا رایتمواھم ج=فاجتنبو اھم و عادو ھم۔“
(رواہ الطبرانی۔ نظام اسلام ،صفحہ 128)​
“حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ضرور بضرور قیامت سے پہلے دجال آئے گا ، اور دجال سے پہلے تیس یا اس سے زائد کذاب آئیں گے ، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نشانی کیا ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تمہارے پاس ایسا طریقہ لے کر آئیں گے جو تمہارے ہاں معمول بہ نہیں ہوگا، تاکہ اس کے ذریعے تمہاری ملت اور تمہارے دین کو بدل دیں۔ پس تم ان سے بچ کر رہو اور ان سے پوری دشمنی کرو۔“​


دیکھئے حضرات غیر مقلد جس رفع یدین ،آمین بالجہر، اور فاتحہ خلف الامام پر حنفیوں سے عمل کروانا چاھتے ہیں یہ ہمارے ہاں متعارف اور معمول نہیں اور بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگ غیر متعارف احادیث اور غیر معمولی سنتوں کو پیش کرکے ان پر عمل کے طالب ہوں ان کو دجال ، کذاب سمجھو ان سے بچ کر رہو اور ان سے دشمنی اختیار کرو۔




غیر مقلد جدید رافضی ہیں

قاری عبدالرحمٰن صاحب محدث فرماتے ہیں
“یہی تقریر ان روافض جدید کی ہے اس قدر فرق ہے قدیم،اہل بیت کے پردے میں اہل سنت کو بہکاتے ہیں، اور یہ عمل بالحدیث کے پردے میں اہل سنت کو گمراہ کرتے ہیں۔ حاصل دونوں کا “کلمۃ حق قصد بھا الباطل“ ہے، جیسے عمل بالقرآن کو بیچ میں لاکر حضرت علی رضٰ اللہ عنہ کو دھوکہ دیا کرتے تھے۔“
(کشف الحجاب،صفحہ 12)



غیر مقلد اصولی طور پر اہل سنت سے خارج اور شیعہ ہیں

حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ اہل سنت کو چاہئے کہ ان غیر مقلدوں سے ایسا معاملہ رکھیں جیسا شیعوں سے، دینیات میں ان سے بلکل شرکت و گفتگو قطع کردیں جیسا بطور رد و قدح ضرورت کے وقت شیعوں کو جواب دیتے ہیں ایسا ہی ان کو بھی جواب دیں، واللہ کچھ غرض نہ رکھیں۔ہمارا ان کا اصول بھی جدا ہے۔
(کشف الحجاب،صفحہ13)

غیر مقلد اپنے آپ کو اھل سنت تقیہ سے کہتے ہیں

محدث پانی پتی صاحب لکھتے ہیں
“دیکھو یہ سب باتیں اس کید کی سید نزیر حسین او حفیظ اللہ خان و مولوی عبدالحق بنارسی پر برابر صادق ہیں، پہلے خدمت مولانا شاہ اسحاق کی میں معتقدانہ حاضر ہوتے تھے اور اپنے تئیں پکا اہل سنت ظاہر کرتے تھے اور جب کوئی ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر تعن کرتا ، قرآن و حدیث سے جواب دینے کا دعوٰی کرتے اور غصے کے مارے منہ میں کف آجاتا تھا تاکہ آدمی ہم کو اہل سنت حنفی مزہب متقی شاگرد میاں صاحب کا خیال کریں اور معتقد ہوجاویں۔ جب یہ اعتقاد آدمیوں کے ذہن میں جمادیا ، بعد حجرت جناب مغفور کے اور اہل دہلی کے خالی ہونے کے علم سے بتدریج اپنا مزہب رواج دینا شروع کیا، پر تقیہ نہ چھوڑا اور آہستہ آہستہ عوام کو رفض کی سڑک پر ڈال دیا اور قرآن و حدیث سے عوام کا دل پھیر دیا عمل بالحدیث کے پردے میں صدہا آیات و احادیث کو رد کردیا۔ نعوذباللہ من ھٰذا۔“
(کشف الحجاب،صفحہ11)


دعوٰی اھل حدیث کا مطلب برھمی دین محمدی ہے



“ایسا ہی لوگ عمل بالحدیث کا دعوٰی کرتے ہیں اور مقصود ان کا برہمی دین محمدی ہے اور ترویج مزہب باطل شیعہ ، جبریہ ، قدریہ وغیرہ کی ہے۔ ناحق علماء اہل سنت کا نام لے کر خلق کو بہکاتے ہیں۔“
(کشف الحجاب،صفحہ33)

مولانا شاہ اسحٰق صاحب کا فتوٰی


محدث پانی پتی صاحب لکھتے ہیں۔
جناب مولانا اسحٰق صاحب وعظ میں لامزہبوں (غیر مقلدوں) کو ضال و مضل فرماتے تھے۔ یعنی خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے۔“
(حاشیہ کشف الحجاب،صفحہ 10)



علماء احناف کی خدمت میں۔​

حنفی بزرگوں کو مولانا شاہ محمد اسحٰق صاحب کے اس فتوے سے سبق حاصل کرتے ہوئے غیر مقلدین کے متعلق اپنی مداہنت اور رواداری پر نظرثانی کرنی چاہئے ، کیونکہ ہم نے ان سے رواداری کرکے بہت نقصان اٹھایا ہے، حنفی بزرگ تو یہ سمجھتے رہے کہ ہمارا غیر مقلدوں سے صرف رفع یدین اور آمین بالجہر کا اختلاف ہے جو چنداں مضر نہیں، اور اس میں حق و باطل والی کوئی بات نہیں، مگر یہ لوگ ہمارے عوام کو اغوا کرتے رہے اور حدیث حدیث کے واسطے دے کر انہیں حنفیت سے برگشتہ کرکے غیر مقلد بناتے رہے، میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر ہمارے بزرگ مداہنت سے کام نہ لیتے اور ان لوگوں پر وہی فتوے لگاتے جو علماء دہلی نے لگایا تھا ، انہیں ضال مضل کہتے جیسے شاہ محمد اسحٰق صاحب نے کہا، انہیں برملہ شیعہ کہتے جیسے قاری عبدالرحمان محدث کہہ رہیں ہیں ، تو یہ فتنہ اپنے پنگھوڑے سے باہر قدم نہ رکھتا بلکہ یہ اپنی موت آپ مرجاتا۔​


اصحاب صحاح اور دیگر محدثین سب مقلد تھے۔

غٰر مقلد یہ کہہ کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہم محدثین کے مزہب پر ہیں، گویا محدث بھی ان کی طرح غیر مقلد تھے، حاشا و کلا ایسا ہرگز نہیں ۔ دیکھئے

محدث پانی پتی صاحب لکھتے ہیں۔

“بخاری رحمہ اللہ مجتہد صاحب مزہب تھے، باقی مسلم رحمہ اللہ، ترمزی رحمہ اللہ ، ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ اور ابوداؤد رحمہ اللہ وغیرہ مزہب شافعی یا حنفی رکھتے تھے ، ان کو مزہب اختیار کرنے سے عیب نہ لگے تم کو عیب لگ جائے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین علوی و عثمانی موافق تصریح بخاری کے رکھیں، ان کو مزہب سے عیب نہ لگے تم کو عیب لگے، غیض تم محدٹین کے اور فقہا اور صحابہ کے سب کے مخالف ہو اور نام عمل بالحدیث کا لیتے ہو۔“
(کشف الحجاب،صفحہ33)

نواب صدیق حسن خان غیر مقلد نے بھی اپنی تصنیف “ الحطہ فی ذکر صحاح ستہ “ میں تمام اصحاب صحاح کو مقلد مانا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ صاحب نے بھی “ الانصاف “ میں ایسے ہی لکھا ہے، اور خود طبقات شافعیہ میں انہیں شافعی قرار دیا گیا ہے۔ لہزہ غیر مقلدین کا کہنا کہ ہم محدثین کے مزہب پر ہیں محض دھوکہ اور فراڈ ہے۔


جاری ہے​
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
اجماع امت اور قیاس کی حجیت کے غیر مقلد اور شیعہ دونوں منکر ہیں ۔


قارئین کو معلوم ہونا چائیے کہ اصول شریعت اسلام بالتفاق علماء امت چار ہیں۔
نمبر1
کتاب اللہ

نمبر2
سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

نمبر3
اجماع امت

نمبر4
قیاس شرعی

انہیں چاروں پر اصول و فروع کا مدار ہے، تمام اہل سنت خواہ وہ حنفی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنبلی، ان چاروں کی حجیت تسلیم کرتے ہیں، اور جو ان چاروں کو حجت نہ مانے اس کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔
لیکن غیر مقلد ٹولہ ان میں سے پہلے دو کے ماننے کا دعوٰی کرتا ہے مگر دوسرے دونوں کا انکار کرتا ہے ، یہ اجماع امت اور قیاس شرعی کو نہیں مانتے محض اس وجہ سے ان کا آدھا اسلام تو رخصت ہوا۔ باقی آدھا جس کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مدار ہے اس کو اپنی مرضی سے مانتے ہیں۔ یعنی آیت کی تفسیر اور حدیث کی تشریح میں یہ علماء سلف کے پابند نہیں۔ ان کے ہاں اس کے وہ معنی و مفہوم معتبر ہیں جو ان کی اپنی سمجھ میں آجائے۔ خواہ وہ اجماع امت کے خلاف ہو، فقہا و محدثین کے خلاف ہو ان کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ لہٰزہ کتاب و سنت کو ماننا بھی ان کا برائے نام ہے، یہ بھی کوئی ماننا ہے جو تفسیر بالرائے کے زمرے میں آتا ہو ۔ ساری امت کہتی ہے آیت “واذاقری القرآن فاستمعوا لہ و انصتو لعلکم ترحمون“ نماز کے متعلق نازل ہوئی مگر یہ بضد ہیں کہ خطبہ کے متعلق ہے۔

ساری امت متفق ہے کہ اک مجلس کی دی ہوئی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور بیوی اس سے مغلظ ہوجاتی ہے، اسکے بعد “ فلا تحل لہ من بعدہ حتٰی تنکح زوجا غیرہ“ کا حکم اس پر لازم آتا ہے ، مگر یہ کہتے ہیں کہ اک مجلس کی دی ہوئی طلاقیں خواہ سو ہو ، وہ ایک ہی بنتی ہے اس سے بیوی مغلظہ نہیں ہوتی بلکہ خاوند کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے ۔ اور خدا نا ترس لوگ ایسے کیس میں بیوی کو واپس کرادیتے ہیں۔ وہ ساری زندگی زنا کراتی اور ولد الزنا جنم دیتی ہے۔ جسکا وبال اس پر کم اور ان غلط کار مفتریوں پر زیادہ ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے غلیظ فتوے کی آڑ میں اس کو زنا کا موقع فراہم کیا ہے۔ تو یہ قرآن و حدیث کو ماننا نہیں ، اسکو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنا ہے ۔ جس کو اسلام نہیں کہہ سکتے ، بلکہ یہ تو اسلام کے ساتھ مزاق ہے۔



اب اجماع و قیاس کو نہ ماننے کا شیعہ وغیر مقلد توافق ملاحظہ فرمائیں۔

خلفائے ثلاثہ حضرات
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
عمر فاروق رضٰ اللہ عنہ
عثمان غنی رضی اللہ عنہ

کی خلافتیں امت کے اجماع سے ثابت ہیں ، مگر شیعہ ان کو نہیں مانتے تو وہ اجماع کے منکر ہوئے۔


حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب بیس تراویح رائج کیں، مجلس واحد میں تین طلاقوں کو تین قرار دیا ، نکاح متعہ کی حرمت کا اعلان کیا تو کسی صحابی نے اس سے اختلاف نہیں کیا ، یہ تینوں مسئلے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اجماع سے ثابت ہوئے، پھر ان مسئلوں کو نہ شیعوں نے مانا اور ناہی غیر مقلدوں نے، تو اسطرح یہ دونوں فریق اجماع امت کے منکر ہوئے ۔ اور اجماع امت تیسرا اصول اسلام ہے تو اس کے انکار کی وجہ سے ہم شیعوں کو تو کافر کہتے ہیں ، مگر ابھی غیر مقلدوں کو نہیں ، کیونکہ ان کا انکار ابھی کھل کر علماء کے سامنے نہیں آیا، اور ناں ہی یہ عوام کے علم میں ہے، اسلئے فی الحال ان کے کفر کا فتوٰی نہ دینا ایک احتیات ہے۔

لیکن ان کی منہ زوری اور بے لگامی کا یہی حال رہا اور یہ اکابرین اسلاف کرام کی گستاخی بے ادبی تحقیر میں بڑھتے ہی گئے اور اسلام کے مسلمہ اصولوں سے انحراف پر پختہ ہوتے چلے گئے تو پھر وہ وقت بھی آجائے گا کہ یہ اسی مقام پر کھڑے ہوں گے جس مقام پر حضرت مولانا حق نواز شہید رحمہ اللہ کی کوششوں سے آج شیعہ کھڑے ہیں، قدرت ان کے لئے بھی کسی حق نواز کو کھڑا کرے گی۔
(ان شاء اللہ)



قیاس شرعی کے انکار میں غیر مقلد اور شیعہ دونوں متفق ہیں


علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی بینظیر کتاب “منہاج السنۃ“ میں روافض کا درج ذیل اعتراض نقل کرتے ہیں ، جس کو غیر مقلدین بڑے فخر سے اچھالتے ہیں کہ

“قال الرافضی و ذھب الجمیع منھم الی القول
بالقیاس و الا خلد بالرای فادخلو فی دین اللہ
ما لیس منہ و حرفو ا احکام الشریعۃ و اتخزوا
مذھب اربعۃ لم تکم فی ذمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔قالوا ان اول من قاس ابلیس۔

(منھاج السنۃ،صفحہ89،جلد1)

یعنی رافضی کہتا ہے کہ سارے اہل سنت والجماعت قیاس اور عمل بالرائے کے قائل ہیں اور اس کے عامل ہیں، انہوں نے خدا تعالٰی کے دین میں ایسی چیز داخل کردی ہے جو اس میں سے نہیں ہے۔ اور انہوں نے احکام شریعت کو بدل دیا ہے اور چار مزھب بنارکھے ہیں، جو نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے اور ناں ہی صحابہ کرام کے دور میں۔ حالانکہ صحابہ کرام نے ترک قیاس کی تاکید کی ہے اور یہ کہا ہے کہ جس نے سب سے پہلے قیاس کیا وہ ابلیس ہے۔


بعینہ یہی اعتراض غیر مقلد احناف پر کرتے ہیں ، حتٰی کہ اگر “قالو“ کا فاعل الروافض کی بجائے غیر مقلدین کو فرض کرلیا جائے تو ہوبہو درست ہے۔ غیر مقلدوں کو قیاس کی حجت سے بھی انکار ہے۔ جو اصول اسلام میں سے اور چار مزاہب پر بھی اعتراض ہے کہ یہ مزاہب بدعت ہیں، غیر مقلدوں کو تقلید ائمہ پر بھی اعتراض ہے کہ یہ شرک و کفر ہے۔ دیکھئے بڑے چھوٹے بھائی آپس میں کتنے مشابہہ ہیں۔

شیعہ کے اعتراض کی تفصیل

حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ صاحب شیعوں کے اس اعتراض کو نقل کرکے اس کا دندان شکن جواب بھی دیتے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ “شیعوں کا پچاسواں مکر و فریب یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مزاہب پر کیوں عمل کرتے ہیں؟“
(تحفہ اثناعشریہ،صفحہ 109)


یہی اعتراض بعینہ غیر مقلدوں کا ہے۔ انکا اک شعر ہے ۔

دین حق را چار مزہب ساختند
رخنہ در دین نبی اند اختند


اس سے قارئین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ غیر مقلدوں نے یہ اعتراض شیعوں سے لئے ہیں جو اپنی طرف سے پیش کرکے بڑے تیس مارخان بنتے ہیں، لیکن یہ جرائت نہیں کہ اپنے بڑوں کا نام لیتے جن سے یہ اعتراض لے کر اہل سنت والجماعت بالخصوص احناف کو کافر و مشرک بناتے ہیں۔

شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ محدث دہلوی کا جواب

(مزہب اور شریعت کی تمیز)
جواب ایں کیدایں کہ نبی صاحب شریعت است نہ صاحب مزہب زیرا کہ مزہب نام راہے است
کہ بعض امتیاں رادرفہم شریعت کشادہ شود و بعض خود چند قواعد مقرر کنند کہ موافق آں قواعد
استنباط مسائل شریعیہ از ماخزآں نمایند ولھزا محتمل صواب و خطا مے باشد و لھزا مزہب را بسوئے
خدا و جبرائیل و دیگر ملائکہ نسبت کردن کمال بے خروے است
۔“
(تحفہ اثناعشریہ،صفحہ109)

یعنی اس مکر کا جواب یہ ہے کہ نبی صاحب شریعت ہوتا ہے نہ کہ صاحب مزہب کیونکہ مزہب تو راہ کا نام ہے جو فہم شریعت کے سلسلے میں بعض امتیوں پر کھولی جاتی ہے۔ اور پھر وہ اپنی عقل و خرد سے چند قواعد مقرر کرتے ہیں ان قواعد کے مطابق شرعی مسائل انکے ماخز (کتاب و سنت و اجماع و قیاس) سے نکالے جاتے ہیں۔ اسی لئے مسائل نکالنے میں خطا و ثواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ خدا تعالٰی ، جبرائیل و ملائکہ ، و انبیاء علیھم السلام کی طرف مزہب کی نسبت کرنا بے وقوفی ہے (اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کہا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزہب نہیں کہا کرتے، یوں کہنا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مزہب یہ ہے ، صریح حماقت اور سخت جہالت ہے)

یہی حماقت غیر مقلدین کر رہے ہیں کہ دین اور مزہب کو ایک چیز سمجھ کر لوگوں کو ورغلاتے ہیں کہ خدا کا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مزہب تو ایک تھا ، مگر ان مقلدوں نے چار مزہب بنالئے ہیں، ہم پھر اسکو ایک کرنا چاہتے ہیں۔عوام بے چارے دین اور مزہب کا فرق کیا سمجھیں ، وہ ان کے چکر میں آجاتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ دین تو سب مقلدین کا اب بھی اک ہے ، لیکن مزہب مختلف ہیں، جیسے چار شخصوں کی منزل تو ایک ہو لیکن وہ چاروں مختلف راستوں سے اس منزل تک پہنچیں ۔ کوئی مشرق سے، کوئی مغرب سے، کوئی شمال سے، کوئی جنوب سے۔ جیسے خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں آنے کے لئے کوئی باب السلام سے آئے یا باب عبدالعزیز سے ، کوئی باب صفا سے آئے یا باب عمرہ سے، وہ بہرحال مسجد حرام میں پہنچ جائے گا۔
مزہب کا معنی راستہ ہے اور راستے کئی ہوسکتے ہیں ، مگر منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ اب دین و شریعت کے معروف راستے یہی چار ہیں۔ حنفی،شافعی، مالکی، اور حنبلی ، ان کو تو موٹر وے کہنا چاھئے۔ ان کے علاوہ جو اور لوگوں نے راستے بنائے ہیں یا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ غیر معروف برانچیں ہیں، انکے زریعے منزل تک پہنچنا یقینی نہیں۔ وہ راہیں خطرناک اور پر صعوبت ہیں اور دانش مندوں نے کہا ہے۔


برو راہ راست گرچہ دور است

اسی لئے سلامتی اور منزل تک یقینی رسائی کا تقاضا یہی ہے کہ انہی معروف شاہراہوں پر چلاجائے جن پر چل کے اکابر ملت منزل پر پہنچے ہیں اور غیر مقلدین کی بنائی ہوئی برانچوں اور پگڈنڈیوں میں اپنی عمر عزیز ضائع نہ کی جائے۔

جاری ہے​
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
غیر مقلدین علامات قیامت میں سے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی رضٰ اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جب میری امت میں چودہ خصلتیں پیدہ ہوجائیں گی تو اس پر مصیبتیں نازل ہونا شروع ہوجائیں گی،۔۔۔ان میں سے چودھویں خصلت یہ ہے کہ اس امت کے پچھلے لوگ پہلوں پر لعن طعن کریں گے۔
(ترمزی۔جلد2،صفحہ44)

قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اب پندرھویں صدی کے غیر مقلد کس طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین پر زبان دراز کرتے ہیں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کو (معاذاللہ) بدعتی کہتے ہیں۔ جیسے بیس تراویح کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو، اور آذان اول کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو، کبھی فقہ و اجتہاد کی وجہ سے آئمہ مجتہدین کو کہتے ہیں کہ انہوں نے دین محمدی کے بلمقابل اک اور ہی دین بنالیا ہے، اور کبھی تقلید و اتباع کی وجہ سے تمام مقلدین مزاہب اربعہ کو مشرک گردانتے ہیں، جیسا کہ حنفیوں ،شافعیوں،مالکیوں، حنبلیوں کو یہ لوگ گمراہ ، مشرک اور تارک سنت کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس حدیث کا صحیح مصداق غیر مقلدوں کے سوا دوسرا کوئی نہیں۔ لہزا ہم مقلدین پر بھی لازم ہے کہ ان(فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث )کو گمراہ سمجھتے ہوئے ان سے بچ کر رہیں، ان سے قطع تعلق کریں اور ان کو اپنی مساجد سے دور رکھیں، کیونکہ یہی لوگ وہ فتنہ ہیں جو قیامت کا پیش رو اور اس کا نشان ہیں۔


فقہ حنفی کی مذمت میں غیر مقلدین شیعہ کے خوشہ چیں ہیں۔

ہندستان میں فقہ حنفی کی مزمت میں سب سے پہلی کتاب “استصقاءالافحام“ لکھی گئی جو ایک متعصب شیعہ حامد حسین کستوری کی تصنیف ہے، اسکے بعد غیر مقلدین کی طرف سے جتنی کتابیں لکھی گئیں ہیں، وہ سب اسی کتاب کی نقالی اور شیعوں کی قے خوری ہے۔ ہماری اس بات کی تصدیق مشہور غیر مقلد عالم مولوی محمد حسین بٹالوی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں۔ وہ لکھتے ہیں۔

امام الآئمہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جو اعتراضات و مطاعن اخبار اہل الزکر میں مشتہر کئے گئے ہیں یہ سب کے سب ہزیانات بلا استثناء اکاذیب و بہتانات ہیں، جن کا ماخز زمانہ حال معترضین کے لئے حامد حسین شیعی لکھنوی کی کتاب “استصقاءالافحام“ ہے“۔
(بحوالہ السیف الصارم لمنکر شان الامام الاعظم رحمہ اللہ)

اس کے بعد فقہ حنفی کی مزمت میں دوسری کتاب “الظفرالمبین“ ہے، جو ایک برائے نام مسلم “ہری چند کھتری“ کی لکھی ہوئی ہے۔ اس سلسلہ نامشکورہ کی تیسری کتاب جس میں فقہ کی حقیقت کم اور امام الآئمہ ، فقیہ الامت، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توہین و تزلیل زیادہ ہے۔ یہ کتاب دجل و تلبیس اور کزب و افتراء کا شاہکار ہے، اس میں عبارتوں کی قطع و برید ہے، حوالوں کی جعل سازی ہے اور فقہ پر اعتراضات ہیں۔ یہ سب بہت برا توشہ آخرت ہے، جو اس کے بد نصیب مصنف کے لئے تیار کیا ہے۔

مطلق فقہ سے نفرت و انکار۔

جسطرح شیعہ حضرات مطلق فقہ اہل سنت کے منکر ہیں اسی طرح غیر مقلدین بھی بلا استثنا چاروں مزاہب کی فقہ کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ فقہ کا نام آتے ہیں ان کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں، تنفس تیز ہوجاتا ہے اور منہ سے کف آنے لگتی ہے۔ حالانکہ فقہ کا حکم قرآن پاک نے دیا ہے اور مطلق فقہ کی فضیلت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے ، دیکھئے قرآن پاک کا کہنا ہے ،

فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین
“کہ کیوں نہ نکلی ان کے ہر گروں میں سے اک جماعت جو دین کی فقہ حاصل کرتی؟“

من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین
“یعنی جس شخص کے ساتھ اللہ تبارک و تعالٰی خیر کا ارادہ کرتے ہیں اسے تفقہ فی الدین کی دولت سے نوازتے ہیں“

جس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالٰی “شر“ کا ارادہ رکھتے ہیں اسے فقہ کی دولت سے محروم کردیتے ہیں۔ جیسے غیر مقلدین فقہ کی دشمنی اختیار کرکے اس دولت عظمٰی اور نعمت عالیہ سے محروم ہیں اور جو خوش قسمت افراد اس نعمت سے مالا مال ہیں ، جیسے فقہا امت اور مجتہدین ملت یا ان کے خوش نصیب مقلدین یہ لوگ ان کے نام سے جلتے ہیں اور ان کی خداداد شہرت سے انگاروں پر لوٹتے ہیں۔

فقہ و اجتہاد میں ان کی سعی مشکور کو نیست و نابود کرنے کے مواقع کی تلاش میں ہیں۔ ان کا بس چلے تو فقہ کا تمام دفتر غرق مئے ناب کردیں۔ مگر خداوند تعالٰی گنجے کو کبھی ناخن نہیں دے گا۔ مطلق فقہ حنفی کا آفتاب نصف النہار پر سدا چمکتا دمکتا رہے گا۔(ان شاء اللہ) ان چمگادڑوں کی آنکھیں اس کو دیکھ دیکھ کر خیرہ ہوجائیں گی، مگر یہ فقہ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ جیسے دنیا بھر کے کفار قرآن پاک کو مٹادینے پر تلے ہوئے ہیں، مگر قرآن پاک کا اک حرف بھی تبدیل نہیں کرسکیں گے اور ناں ہی قرآن پاک کی کسی زیر زبر کو مٹاسکیں گے۔

فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے​


جاری ہے​
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
ساری امت کو گمراہ کہنے والا خود کافر ہے


واضح ہوکہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، یہ نام ہے اہل سنت والجماعت کا ، جو مزاہب اربعہ میں منقسم ہے۔ حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی ان چاروں کو شیعہ بھی کافر کہتے ہیں اور غیر مقلدین بھی مشرک کہتے قرار دیتے ہیں۔

اگر یہ سارے مشرک ہیں تو مسلمان کیا اس شرمئہ قلیلہ اور گروہ آوارہ کا نام ہے جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں؟؟؟ کیا روز محشر امتیوں کی ایک سو بیس صفحوں میں سے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی 80 صفحیں ان غیر مقلدین سے بنے گی جو تعداد میں شیعوں سے بھی کم ہیں؟؟؟ اگر ان کی صف بنائی جائے تو لاہور سے لے کر مریدکے تک ختم ہوجائے گی۔ حق یہ ہے کہ ناجی صرف اہل سنت والجماعت ہیں ، جو دنیا کے آخری کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اور واضح رہے کہ قرون اولٰی کے اہل حدیث خود اہل سنت میں شامل تھے ، موجودہ فرقہ اہل حدیثوں کو ان اہل حدیثوں سے کوئی نسبت نہیں ۔ وہ اک علمی طبقہ تھا جس کا کام الفاظ حدیث کی خدمت کرنا اور سند حدیث کو محفوظ کرنا تھا، ان میں سے کوئی بھی جاہل نہیں ہوتا تھا ، بلکہ وہ کم از کم ایک لاکھ حدیث کے حافظ ہوتے تھے،(موجودہ فرقہ اہل حدیث نامیوں کی طرح موچی ڈرائیور اور دودھ فروش نہیں تھے) اور وہ کسی ایک فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے وہ حنفی بھی تھے اور شافعی بھی، وہ مالکی بھی تھے اور حنبلی بھی۔ ان مومنین صادقین اہل سنت والجماعت کو جو گمراہ اور مشرک قرار دیتا ہے وہ خود گمراہ اور کافر ہے، جیسا کہ حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اپنی بے مثال تصنیف “ الشفاء“ میں لکھا ہے کہ آپ فرماتے ہیں،۔

ونقطع بتکفیر کل قائل قال قولاً یتوصل بہ الٰی تضلیل الامۃ و تکفیر جمیع الصحابۃ۔“
(کتاب الشفاء،جلد2،صفحہ286)

یعنی ہم اس شخص کے کفر کے بالیقین قائل ہیں جو ایسا قول کہتا ہے جس سے امت کی تضلیل اور جمیع صحابہ کی تکفیر لازم آتی ہو۔

اس عبارت کے پہلے حصے کے مصداق غیر مقلد ہیں اور دوسرے کے شیعہ، کیونکہ شیعہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کو کافر کہتے ہیں اور غیر مقلدین جمیع آئمہ اربعہ کو مشرک بتاتے ہیں۔


وحید الزمان مشہور غیر مقلد عالم فرقہ اہل حدیث کا، شیخین رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کی فضیلت کا بھی قائل نہیں

لکھتا ہے۔
والامام الحق بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ ثم
عمر رضی اللہ عنہ ثم عثمان رضی اللہ عنہ ثم علی رضی اللہ عنہ ثم الحسن
رضی اللہ عنہ بن علی رضٰ اللہ عنہ ولا ندری ایھم افضل عنداللہ“
۔
(نزل الابرار،صفحہ 7،جلد1)
“یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام برحق ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ پھر عثمان رضٰ اللہ عنہ پھر علی رضی اللہ عنہ پھر حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہیں، لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ان میں سے عنداللہ افضل کون ہے

جبکہ اہل سنت والجماعت کے تمام فرقوں کے ہاں حضرات شیخین تمام صحابہ سے افضل ہیں، پھر ان میں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہیں۔ گویا افضل الخلائق بعد الانبیاء اہل سنت والجماعت کے نزدیک ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فضیلت شیخین و محبت ختنین اور مسح علی الخفین کو اہل سنت کا شعار بتلایا ہے۔


مولوی وحید الزمان غیر مقلد کے نزدیک حجت کتاب و سنت کی بجائے کتاب و عترت ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے،

ھم القائمون علی وصیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم معمسکون بالکتاب والعترۃ
(نزل الابرار،جلد1،صفحہ7)
یعنی اہل حدیث ہی وصیت نبوی پر قائم ہیں اور کتاب و عترت کو مضبوطی سے پکڑنے والے ہیں۔“

واضح ہو کہ یہ بعینیہ شیعوں کا موقف ہے کہ ان کے نزدیک کتاب و سنت کوئی چیز نہیں ، اصل چیز کتاب اللہ اور عترت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ انہیں سے تمسک پر وہ زور دیتے ہیں ،ہماری حدیث و سنت کو تو وہ مانتے ہی نہیں اور ان کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی نہیں ۔ وہ آئمہ اطہار پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔

جاری ہے​
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
غیر مقلد مولوی وحید الزمان غیر مقلد نے پانچ صحابہ کو فاسق لکھا ہے۔ (معاذاللہ)

چنانچہ وہ نزل الابرار کی جلد 3، کے حاشیہ صفحہ 94 پر لکھتا ہے۔

“ومنہ تعلم ان من الصحابۃ من ھو فاسق کالولید و مثلہ یقال فی حق معاویۃ و عمرو و مغیرو سمرۃ“۔

“یعنی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے جو فاسق تھے، جیسے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ ایسے ہی کہا جاتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ،عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ،مغیرہ بن شیبہ رضی اللہ عنہ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے متعلق“



تو یہ پانچوں اس کے نزدیک فاسق و فاجر ہیں۔(معاذاللہ)۔جبکہ اہل سنت کے ہاں “الصحابۃ کلھم عدول“ کا کلیہ مسلم ہے، یعنی تمام صحابہ عادل اور پرہیز گار ہیں۔ جیسا کہ آیت قرآنی گواہ ہے۔

“ ولکن اللہ حبب الیکم الایمان و زینہ فی قلوبکم و کرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولئک ھم الراشدون “
(سورۃ حجرات)
“لیکن اللہ تعالٰی نے (اے صحابہ رضی اللہ عنہ) تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے یہی لوگ راشدوں کی جماعت ہے۔“
یعنی یہی لوگ “صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمٰعین“ ہدایت یافتہ اور عادل و متقی ہیں۔

قارئین کو معلوم ہونا چاہئے ،کوئی بھی اہل سنت کسی بھی صحابی کے فسق کا قائل نہیں ، یہ غیر مقلد ہی ہیں جن کو شیعہ کی آب چڑھی ہوئی ہے کہ بے دھڑک ایسے عظیم القدر صحابہ کو فاسق کہہ دیتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ اگر صحابہ بھی فاسق ہوسکتے ہیں تو پھر ہم لوگوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ہمارے لئے پھر فسق کچھ بھی معیوب نہیں ہوگا۔



وحید الزمان غیر مقلد کی معاویہ رضی اللہ عنہ سے دشمنی۔

ترجمہ بخاری شریف میں صفحہ 90 جلد 5 پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتا ہے،


“صحابیت کا ادب ہم کو اس سے مانع ہے کہ ہم معاویہ کے حق میں کچھ کہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی الفت اور محبت نہ تھی۔ ان کا باپ ابوسفیان ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتا رہا، یہ خود حضرت علی سے لڑے، ان کے بیٹے ناخلف یزید پلید نے تو غضب ڈھایا امیر المومنین امام حسین علیہ السلام کو مع اکثر اہل بیت کے بڑے ظلم اور ستم کے ساتھ شہید کرادیا۔“

ایسے ہی ترجمہ بخاری جلد5،صفحہ 61 پر رقم طراز ہے،

“ابوسفیان زندگی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے رہے، ان کے فرزند ارجمند معاویہ بن ابی سفیان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق سے مقابلہ کیا، ہزاروں مسلمانوں کا خون گرایا، قیامت تک اسلام میں جو ضعف آگیا ،یہ انہیں (معاویہ) کا طفیل تھا۔“

نیز لکھتا ہے،

“ایک سچے مسلمان کا جس میں ایک ذرہ برابر بھی پیغمبر صاحب کی محبت ہو دل یہ گوارہ نہیں کرے گا کہ وہ صحابہ کی تعریف اور توصیف کرے، البتہ ہم اہل سنت کا طریقہ ہے کہ صحابہ سے سکوت کرتے ہیں، اسلئے معاویہ سے بھی سکوت کرنا ہمارا مزہب ہے اور یہی اسلم اور قرین احتیاط ہے، مگر ان کی نسبت کلمات تعظیم مثلاً حضرت و رضی اللہ عنہ کہنا سخت دلیری اور بے باکی ہے ،اللہ محفوظ رکھے،“
(لغات الحدیث مادہ عز)

ہم “اللہ محفوظ رکھے“ وحید الزمان غیر مقلد کی دعا پر آمین کہتے ہیں لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو رضی اللہ عنہ کہنے اور حضرت کہنے سے نہیں بلکہ غیر مقلدی سے اور اللہ تبارک و تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو غیر مقلدیت سے محفوظ رکھے کیونکہ غیر مقلد ہوکر آدمی صحابہ، آئمہ اور اسلاف کرام کا گستاخ اور بے ادب ہوجاتا ہے۔ وہ خود تو صحابہ کا ادب نہیں کرسکتا لیکن ادب کرنے والوں کو بھی روکتا ہے۔ کہ صحابہ کو حضرت اور رضی اللہ عنہ نہ کہنا۔ نعوذباللہ من العمٰی بعد الھدٰی۔



وحید الزمان ھرگز اہل سنت نہیں ہوسکتا

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو فاسق لکھ کر اور حضرت و رضی اللہ عنہ کے القاب سے محروم کرکے بھی یہ اپنے آپ کو اہل سنت سمجھتے ہیں۔ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر یہ بے لگام شخص اہل سنت نہیں ہوسکتا۔ جس کے دل میں اک عظیم صحابی ، کاتب وحی ، مسلمانوں کے خالو ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی کے متعلق اتنا بغض اور کینہ بھرا ہوا ہو کہ وہ اس کے لئے تعظیمی الفاظ تک کو ناجائز سمجھتا ہو۔ تفو بر تفو اے چرخ گردان تفو۔




غیر مقلدین کا مایہ ناز مصنف علامہ وحید الزمان ا قراری شیعہ ہے۔

وحید الزمان ، بخاری شریف کے ترجمہ جلد 2 صفحہ 193 پر سورت حجر کی آیت “صراط علی مستقیم“ کی تفسیر کے حاشیہ میں لکھتا ہے،

“اسی سے ہے شیعہ علی یعنی حضرت علی اور ان کے دوست اور ان سے محبت رکھنے والے۔ یا اللہ ! قیامت کے دن ہمارا حشر شیعہ علی میں کر اور زندگی بھر ہم کو حضرت علی رضٰ اللہ عنہ اور سب اہل بیت کی محبت پر قائم رکھ۔“

نیز “نزل الابرار،جلد1صفحہ7“ پر لکھتا ہے،

“اہل حدیث شیعہ علی “ یعنی کہ اہل حدیث علی رضی اللہ عنہ کے شیعہ ہیں۔



قارئین کرام ! اس قدر واضح بیان کے بعد بھی کیا موصوف کے شیعہ اور رافضی ہونے میں کوئی شبہ باقی رہ جاتا ہے؟ بعض تقیہ باز غیر مقلد ، سادہ لوح مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کہتے ہیں کہ ہم اسے (وحید الزمان) نہیں مانتے ، حالانکہ اسی وحید الزمان کی کتابیں، ان غیر مقلدوں کے ہر گھر اور مسجد کی لائبریریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ یقین نہ آئے تو جاکر دیکھ لیں۔


وحید الزمان غیر مقلد ، کے نزدیک متعہ حلال قطعی ہے۔

وہ کہتا ہے،

“وکذالک بعض اصحابنافی نکاح المتعۃ فجوزو ھا ونرٰی کان ثابتاً جائزاً
فی شریعۃ کما ذکرہ اللہ فی کتابہ فما استمتعتم بہ منھم الی اجل مسمی یدل
صراحۃ علی اباحتہ فالاباحتہ قطعیۃ لکونہ قد وقع الاجماع علیہ و تحریم ظنی
۔“
(نزل الابرار جلد2صفحہ33)

“اور ایسے ہی ہمارے بعض اصحاب نے نکاح متعہ کو جائز قرار دیا ہے جبکہ وہ شریعت میں ثابت اور جائز تھا جیسے اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی کتاب میں اسکا تزکرہ یوں کیا ہے کہ، ان میں سے تم جس سے متعہ کرو گے تو اس سے اس کی مزدوری ہی دے دیا کرو۔ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود کی قراءت میں الی اجل مسمی کی زیادتی ہے، جو صراحتاً جواز کی دلیل ہے۔ یعنی جس سے تم مدت مقررہ تک کے لئے متعہ کرو۔ پس اباحت اور جواز قطعی ہے اسلئے کہ اباحت پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور جہاں تک حرمت کا تعلق ہے تو وہ ظنی ہے “


اس عبارت میں وحید الزمان غیر مقلد نے متعہ کو صرف جائز ہی نہیں کہا ہے ، بلکہ اس کے جواز کے لئے قرآنی اور اجماعی ٹھوس دلائل بھی مہیہ کردئے ہیں جو شاید شیعوں کو بھی نہ سوجھے ہوں۔

ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

پتانہیں نام نہاد اہل حدیث اپنے اسی محبوب مصنف و محدث کے قطعی فتوے پر عمل کرکے اس کا ثواب عظیم حاصل کرتے اور اپنے علامہ کو اس کا ایصال ثواب پہنچاتے ہیں یا ظنی باتوں پر عمل کرکے اس ثواب عظیم سے محروم رہتے ہیں۔

غیر مقلدوں کی آبادی چونکہ بہت کم ہے اسلئے انہیں اس فتوے کی آڑ میں اپنی نفری بڑھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاھئے۔


وحید الزمان نے ہدیۃ المہدی کے صفحہ 112 پر بھی متعہ کو جائز قرار دیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں “ بااختیار قول اھل مکۃ فی المتعۃ “ یعنی متعہ کے بارے میں اہل مکہ کے قول جواز کے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔




وحید الزمان اھل تقلید کی مخالفت اور اھل تشیع کی موافقت پر بڑا فخر کرتا ھے

وہ لکھتا ہے،

“ولا یجوز تقلید المجتھد المیت و حکیٰ بعضھم الاجماع علیہ و قیل یجوز و رجحہ
الشیخ ابن القیم لان القول لایموت و تقلید السلف الاقوال الصحابۃ و تابعین تدل علی
و قال ابن مسعود رضی اللہ عنہ من کان متبعاً فلیستن بمن قدمات و خالفتنا فیہ المقلد
و افقنا فیہ امامیۃ“

(ہدیۃ المہدی جلد 1صفحہ 112)

“یعنی فوت شدہ مجتہد کی تقلید جائز نہیں اور بعض نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ جائز ہے، اور شیخ ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے کیونکہ قول تو نہیں مرتا اور سلف صالحین نے جو اقوال صحابہ و تابعین کی تقلید کی ہے وہ اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے جو کسی کی اتباع کرنا چاہتا ہو اسے چاھئے کہ فوت شدہ لوگوں کی اتباع کرے، اس بارے میں مقلدین نے ہماری مخالفت کی ہے اور فرقہ امامیہ ہمارے موافق ہے۔“



دیکھئیے ! حرمت تقلید میں فرقہ امامیہ کی موافقت پر وحید الزمان کتنا خوش ہوتا اور فخر کرتا ہے ،

یہ بیں کہ از کہ گستی وبا پیوستی

دیکھ تو لے کہ تونے کس سے توڑی اور کس سے جوڑی؟​


وحید الزمان شیعوں کی طرح پاؤں کے مسح کا قائل تھا۔

وہ کہتا ہے،

“قال ابن جریر من اصحابنا یتخیر المتوضی ان یغسل رجلیہ او یمسح علیھا لان ظاھر
الکتاب ینطق بالمسح ولکن الصحابۃ اتفقوا علی الغسل الا ماروی عن ابن عباس رضی
اللہ عنہ و حکی عنہ الرجوع ویحکی من الشیخ ابن عربی جواز مسح الرجلین فی الوضوء
و ھو المنقول عن عکرمۃ ووجدنا فی کتب الزیدیۃ والامامیۃ الروایات المتواترۃ عن آئمۃ
اہل البیت رضی اللہ عنھم تشعر بجواز المسح۔

(نزل الابرار،جلد1،صفحہ13)

“یعنی ہمارے اصحاب میں سے ابن جریر نے کہا ہے کہ وضو کرنے والے کو اختیار ہے چاہے وہ پاؤں دھوئے چاہے ان پر مسح کرلے۔ اس لئے کہ کتاب اللہ ظاہر مسح ہی کو بیان کرتی ہے، لیکن صحابہ کرام دھونے پر متفق ہیں، مگر جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے جس سے ان کا رجوع بھی منقول ہے ، شیخ ابن عربی سے بھی پاؤں کے مسح کا جواز نقل کیا گیا ہے، اور یہی حضرت عکرمہ رضٰ اللہ عنہ سے بھی۔ اور ہم نے زیدی اور امامی شیعوں کی کتابوں میں آئمہ اہل بیت کی متواتر روایات پائی ہیں جو مسح کے جواز کو ثابت کرتی ہیں۔“


اس اقتباس میں وحید الزمان غیر مقلد نے پاؤں کے مسح کا جواز ہی نقل نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف غسل رجلین پر صحابہ کا اجماع بھی نکل کیا ہے، تعجب ہے کہ پھر بھی مسح کے جواز کا قائل ہے اور اپنی تائید میں صحابہ اور اہل سنت کے آئمہ کو چھوڑ کر شیعوں کے اماموں سے متواتر روایات بیان کرتا ہے ، تو کیا یہ اس کے شیعہ ہونے کی اٹل دلیل نہیں ؟ کہ جن شیعی روایات کی تردید اسے کرنی چاھئیے تھی وہ بڑے فخر سے اپنی تائید میں نقل کرتا ہے۔




حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیر العمل کہیں

وحید الزمان غیر مقلد کہتا ہے کہ اگر حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیر العمل کہا جائےتو کوئی حرج نہیں۔

اسکے الفاظ یہ ہیں،

“ولو زاد بعد الحیعلتین حی علی خیر العمل فلا باس بہ۔“

(نزل الابرار ،جلد 1،صفحہ 59)
“یعنی اسمیں کوئی حرج نہیں کہ حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیر العمل کہا جائے۔“



مہربان من ! حرج کیوں نہیں ؟ یہ حی علی خیر العمل شیعوں کی آزان کا شعار ہے پھر وہ اہل حدیث کی آذان میں کیوں ہے؟ اور اگر اسے بے کھٹک لانا ہی ہے تو پھر اہل حدیث کہلوانے کا تکلف کیوں؟ صاف صاف اہل تشیع کہلوائیں۔



تھوڑے پانی کے ناپاک نہ ہونے میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت

وحید الزمان نے لکھا ہے،

“لا یفسد ماء البئر ولو کان صغیراً والماء فیہ قلیلاً بوقوع النجاسۃ۔“

(نزل الابرار ، جلد 1،صفحہ31)
یعنی کنویں کا پانی نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا خواہ وہ کنواں چھوٹا ہو اور پانی بھی اس میں کم ہو۔

ادھر شیعہ کہتے ہیں،

فان وقع فی البئر زمبیل من عذرۃ رطبۃ او یابس او زمبیل من سرقین فلا باس بالوضوء منھا ولا ینزح منھا شئی۔“
یعنی کنویں میں پاخانے کی بھری ہوئی زنبیل گرگئی خواہ نجاست تر ہو یا خشک،یا گوبر والی زنبیل گرگئی ،تو کوئی حرج نہیں،اس سے وضو کرسکتے ہیں اور اس میں سے پانی نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(من لا یحضرہ الفقیہ،صفحہ5)

دیکھئے کنواں دونوں کے ہاں پلید نہیں ہوا ، نہ شیعوں کے ہاں نہ غیر مقلدوں کے ہاں۔ نیز حدیث قلتین جو ہمارے نزدیک ضعیف قریب موضوع ہے۔ اس کی وجہ سے غیر مقلدین کہتے ہیں کہ جب پانی دومٹکوں کے برابر ہوتو کسی صورت پلید نہیں ہوسکتا اگر ایک گھڑا پانی کا ہو اور دوسرا پیشاب کا ، ان دونوں کو ملالیں تو قلتین ہونے کی وجہ سے ناپاک نہیں ہوگا۔
اور شیعہ کہتے ہیں ، ایک پرنالہ پانی کا ہو دوسرا پیشاب کا، ان کا پانی ملنے کے بعد کسی کپڑے کو لگ جائے تو کوئی حرج نہیں۔دیکھئے فروع کافی،جلد1،صفحہ7۔




ساس کے ساتھ زنا کی وجہ سے بیوی کے حرام نہ ہونے پر شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت

شیعہ کہتے ہیں ،

عن ابی جعفر علیہ السلام وانہ فی رجل زنا بام امراتہ او بابنتھا او باختھا فقال لا یحرم ذالک علیہ امراتہ۔“
(فروع کافی،جلد2،صفحہ174)
یعنی“ حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی ساس یا اس کی پچھ لگ بیٹی یا اپنی سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی حرام نہیں ہوئی۔“

اور غیر مقلد کہتے ہیں،
“وکذالک لو جامع ام امراتہ لا تحرم علیہ امراتہ“
(نزل الابرار ،جلد2،صفحہ28)
یعنی “ اگر کسی نے اپنی بیوی کی ماں سے جماع کیا تو اس پر اسکی بیوی حرام نہیں ہوتی۔“




مشت زنی کے جواز میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت

شیعہ کہتے ہیں ،

عن ابی عبداللہ علیہ السلام سالتہ عن الدلک قال ناکح نفسہ لا شئی علیہ ۔“
(فروع کافی،جلد 2،صفحہ 234)
یعنی “ امام جعفر علیہ السلام مشت زنی کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے وجود سے فعل کرتا ہے اس پر کوئی مواخزہ نہیں۔“

فرقہ نام نہاد اہل حدیث یعنی غیر مقلد کہتے ہیں

“وبالجملتہ استنزال المنی بکف یا چیزے از جمادات نزد دعائے حاجت مباح است
لا سیما چوں فاعل ناشی از وقوع فتنہ یا معصیت کہ اقل احوالش نظر بازی است
باشد کہ دریں حین مندوب است بلکہ گاہے گاہے واجب گرد“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بعض اہل فہم نقل ایں استمناء از صحابہ نزد غیبت از اہل خود کردہ اند
۔“
(عرف الجادی،صفحہ207)
یعنی“ہاتھ سے منی نکالنا یا جمادات میں سے کسی چیز کے ساتھ رگڑ کر جبکہ اس کا تقاضہ ہو بالکل مباح ہے، بالخصوص جبکہ فاعل کو فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو جس کی کم از کم حد نظر بازی ہے، تو ایسے وقت میں مستحب ہے بلکہ کبھی تو واجب ہوجاتی ہے۔جس وقت اس کے سوا گناہ سے بچنا نا ممکن ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض اہل فن نے اس کا ارتکاب صحابہ سے بھی نقل کیا ہے جبکہ وہ اپنے اہل سے دور ہوتے تھے۔“

ناظرین غور کریں کہ شیعوں نے اس فعل قبیح کو صرف مباح کہا تھا مگر غیر مقلدوں نے اسے ناصرف واجب کا درجہ دے دیا بلکہ اسے سنت صحابہ کے طور پر ثابت کرنے کی سعی نامشکور بھی کی ہے۔




خنزیر کے اجزاء کی ناپاکی میں شیعوں اور غیر مقلدوں کا توافق۔

شیعہ کہتے ہیں،
عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال سالتہ من الحبل یکون من شعر الخنزیر یستسقٰی بہ
الماء من البئر ھل یتوضاً من ذالک الماء قال لاباس بہ۔“

(فروع کافی،جلد2،صفحہ103،جز2)
یعنی““زرارہ کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ خنزیر کے بالوں کی رسی سے کنویں میں سے پانی نکالیں تو اس سے وضو کیا جاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔ “قال العشر و الصوف کلہ ذکی۔“ آپ نے فرمایا اسکے بال اور اون سب پاک ہیں۔

اور فرقہ اہل حدیث والے غیر مقلد کہتے ہیں،

وشعر المیتہ والخنزیر طاھر و کذا عظمھا و عصبھا و حافرھا و قرنھا
(نزل الابرار ،جلد1،صفحہ 30)
یعنی“مردار کے بال اور خنزیر کے بال پاک ہیں اور ایسے ہی ان کی ہڈیاں اور ان کا پٹھا اور ان کے کھر اور ان کے سینگ پاک ہیں۔




جمع بین الصلٰوتین میں شیعوں سے موافقت

قارئین کو معلوم ہونا چاھئے کہ عرفات میں ظہر اور عصر کی جمع تقلدین اور مزدلفہ میں مٍرب و عشاء کی جمع تاخیر بلاشبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں بھی بلاعزر شرعی جمع نہیں فرمائی۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،
عن عبداللہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی الصلوٰۃ لوقتھا الا بجمع و عرفات۔“
(نسائی،جلد2،صفحہ36)
یعنی “ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نماز ہمیشہ اپنے وقت پر پڑھا کرتے تھے سوائے مزدلفہ اور عرفات کے۔


نیز مسلم شریف میں یہی بات قدرے تفصیل کے ساتھ کہی گئی ہے کہ مزدلفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرکے پڑھا۔ اب دیکھئے غیر مقلد اور شیعہ دونوں اس کے برخلاف کیا کہتے ہیں ۔ کہ بغیر عزر کے گھر میں بھی جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔ غیر مقلدوں کا علامہ وحید الزمان ہدیۃ المہدی میں فرماتا ہے۔

الجمع بین الصلوٰتین من غیر عزر ولا سفر ولا مطر جائز عند اہل حدیث
و التفریق افضل و اشترط بعضھم ان لا یتخذوہ عادۃ و رواہ امامیۃ کتبھم
عن العترۃ الطاھرۃ
۔“
(ھدیۃ المھدی،جلد1،صفحہ109)
یعنی“ اہل حدیث کے نزدیک بغیر کسی عذر ، بغیر کسی سفر، بغیر کسی بارش کے بھی ، دونمازوں کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔ اور تفریق افضل ہے، اور بعضوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ لوگ اسے عادت نہ بنالیں اور جمع بین الصلوٰتین کو امامیہ نے اپنی کتابوں میں آل پاک سے روایت کیا ہے۔“

ملاحظہ فرمائیے ! یہاں غیر مقلد مصنف شیعہ اماموں کو اپنی تائید میں پیش کررہا ہے تو پھر اہل سنت کی بجائے شیعوں کے زیادہ قریب نہیں تو اور کیا ہے۔؟




نماز جنازہ جہراً پڑھنے میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت

ناظرین کو معلوم ہونا چاھئے کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک نماز جنازہ چونکہ دعا ہی کی اک صورت ہے، اور دعا کو آہستہ پڑھنے کا حکم قرآن پاک نے دیا ہے ، اسلئے بالاجماع جنازہ کی دعائیں آہستہ پڑھنی چاھئیں ۔ جیسا کہ قاضی شوکانی غیر مقلد نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔

وہ لکھتا ہے،

مذھب الجمھور الی انہ لا یستحب الجھر فی صلوٰۃ الجنازۃ
تمسکوا بقول ابن عباس رضی اللہ عنہ المتقدم لم اقرا ای جھراً
الا لتعلموا انہ سنۃ و بقولہ فی حدیث ابی امامۃ سراً فی نفسہ
۔“
(نیل الاوطار،جلد4،صفحہ 66)
یعنی جمہور علماء اس طرف ھئے ہیں کہ نماز جنازہ میں جہر متحب نہیں ، اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول سے جو پیچھے گزرا دلیل پکڑی ہے، یعنی آپ نے فرمایا کہ میں نے جہراً اسلئے پڑھا کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ پڑھنا سنت ہے، اور جمہور نے حضرت امامہ کے اس اس قول “سراً فی نفسہ“ سے بھی استدلال کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے اپنے جی میں پڑھو اور فقہ حنبلی کی مشہور کتاب مغنی ابن قدامہ میں ہے،

“ ویس القرات والدعا فی صلٰۃ الجنازۃ لا نعلم بین اہل العلم فیہ خلافھا۔“
(مغنی جلد2صفحہ486)
“نماز جمازہ میں قرات اور دعا آہستہ پڑھے اس سلسلہ میں ہم اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں جانتے۔“

مگر اس قول جمہور اور آئمہ اربعہ کے خلاف صرف شیعوں سے موافقت کرنے کے لئے غیر مقلد کہتے ہیں کہ جمازہ کی قرات اور دعائیں جہراً پڑھنی سنت ہے۔ دیکئے فتاوٰی علمائے حدیث (جلد5صفحہ152) نیز فتاوٰی ثنائیہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ اور اس کے بعد کی سورۃ بآواز بلند جہراً پڑھنا جائز بلکہ سنت ہے۔(فتاوٰی ثنائیہ جلد2،صفحہ56)




نماز میں ہاتھ اٹھاکر دعامانگنے میں غیر مقلدوں اور شیعوں کی موافقت

قارئین کو معلوم ہے کہ شیعہ حضرات نماز میں بار بار ہاتھ اٹھا کر دعامانگتے ہیں ۔ شیعوں کا یہ عمل غیر مقلدین کو اتنا پسند آیا کہ وتروں اور قنوت نازلہ میں بلکہ مطلق نماز میں انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو اپنا معمول بنالیا۔

وحید الزمان لکھتا ہے،

“ولاباس ان یدعو فی قنوتہ بما شاء فیرفع یدیہ الی صدرہ
یبسطھما و بطو نھا نحو السماء۔“
(نزل الابرار)
یعنی اس میں کوئی حرج نہیں کہ قنوت میں جو دعا پڑھے بس ہاتھوں کو اپنے سینے کے برابر تک اٹھا کر کھول لے ان کی ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوں۔“

ہدیۃ المہدی میں وحید الزمان لکھتا ہے،

“و یجوزون الدعاء برفع الایدی فی الصلوٰۃ ای دعاء کان ولو
من قبیل ما یسال عن الناس۔“
یعنی اہل حدیث ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو جائز کہتے ہیں خواہ کوئی سی دعا ہو خواہ ایسی دعا ہو جو لوگوں سے بھی مانگی جاسکتی ہے۔

حالانکہ یہ کسی حدیث میں نہیں آتا کہ یہاں یہ لوگ اپنے آپ کو شیعوں پر قیاس کرلیتے ہیں پھر ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے انہیں دعا پڑھ کر منہ پر بھی پھیر لیتے ہیں جو ہئیت نماز کے بلکل خلاف ہے۔ یہ اک قسم کا عمل کثیر ہے جس سے نماز ہی ٹوٹ جاتی ہے، جبکہ ہمارے پاس دعا میں ہاتھ اٹھانے کی مرفوع حدیث موجود ہے،

عن محمد بن یحیٰی الاسلمی قال رایت عبداللہ بن زبیر و راءی رجل رافعا یدیہ
یدعو قبل ان یفرغ من صلوتہ فلما فرغ منھا قال لہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلوٰتہ۔

(رواہ ابن ابی شیبہ)

یعنی محمد بن یحیٰی اسلمی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضٰ اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا وہ فراغت سے پہلے نماز میں ہاتھ اٹاکر دعا مانگ رہا تھا جب وہ فارغ ہوا تو آپ نے اسے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک نماز سے فارغ نہ ہوجاتے ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے۔“


جاری ہے
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
عورتوں کے ساتھ وطی فی الدبر میں شیعوں اور غیر مقلدوں میں موافقت

شیعہ لکھتے ہیں،

:عن حماد بن عثمان قال سالت ابا عبداللہ علیہ السلام عن الرجل یاتی المراۃ
فی ذالک الموحع وفی البیت جماعۃ وقال لی ورفع صوتہ قال رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم من کلف مملو کہ مالا یطیق فلیبہ ثم نظر فی وجوہ اھل البیت ثم
اصغی الی فقال لا باس بہ۔“

(الاستبصار،جلد2،صفحہ130)

“یعنی حماد بن عثمان روایت کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق سے دریافت کیا
کہ اپنی عورت کی دبر میں دخول کر سکتا ہے؟ آپ نے بلند آواز سے یہ فرمایا کہ اپنے غلام
سے اس کی طاقت سے بڑھ کر کام لینا جائز نہیں بلکہ اسے فروخت کردینا چاھئے، پھر اپنے اہل بیت کے چہروں کو دیکھ کر میری طرف سرجھکایا اور فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔“


غیر مقلد مجتہد وحید الزمان بخاری شریف جلد6 صفحہ 37اور38 پر آیت “نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم“ کی تفسیر کے حاشیہ میں لکھتا ہے،

“روایت میں اس کی صراحت موجود ہے کہ (یہ آیت) عورتوں سے دبر میں جماع کرنے کے باب میں اتری۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی اباحت منقول ہے۔ اور امام مالک اور امام شافعی بھی پہلے اسکے قائل تھے۔--------یہ آیت “وطی فی الدبر“ کی اجازت میں اتری -----ایک جماعت اھل حدیث جیسے بخاری،زیلعی،بزاز،نسائی اور بوعلی نیشاپوری اسی طرف گئی ہے کہ وطی فی الدبر کی ممانعت میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔----- مطلب یہ کہ آیت سے وطی فی الدبر کا جواز نکلتا ہے۔“

یہی رافضی مصنف “نزل الابرار،صفحہ123 پر رقم طراز ہے۔

و وطی الازواج و الاماء فی الدبر
یعنی اہل حدیث عورتوں اور باندیوں کی دبر میں عطی کرنے کے جواز کا انکار نہیں کرتے۔

گویا یہ فرقہ اہل حدیث کی خصوصیتوں میں سے ہے کہ وہ اس خلاف وضع فطری فعل کو جائز سمجھتے ہیں۔


کتے کے پاک ہونے میں شیعوں اور غیر مقلدوں میں موافقت۔

قارئین جانتے ہیں کہ کتا نجس ہے ،وہ اگر کنویں میں گرجائے تو کنواں ناپاک ہوجاتا ہے اور اس کا سارا پانی نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر شیعون کے ہاں صرف پانچ ڈول نکالنے سے کنواں پاک ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ فروع کافی کی جلد 1 اور صفحہ 4 پر لکھا ہے کہ،

“بکیف خمس ولاء “
“تجھے پانچ ڈول کافی ہیں


لیکن غیر مقلدوں کے ہاں پانچ ڈولوں کی بھی ضرورت نہیں جیسا کہ وحید الزمان نے نزل الابرار میں لکھا ہے،

ولو سقط فی الماء ولم یتغیر لا یفسد الماء وان اصاب فمہ الماء۔
(نزل الابرار،جلد1،صفحہ30)

یعنی اگر کتا پانی میں گرجائے اور پانی کے اوصاف تبدیل نہ ہوں تو پانی پلید نہیں ہوگا۔ اگرچہ اس کا منہ پانی میں ڈوب جائے۔

اس سے دوسطر پہلے اس نے کہا ، “ودم السمک طاہر وکذالک الکلب وریقہ عند المحققین۔“
نزل الابرار،جلد1،صفحہ30
اور مچھلی کا خون پاک ہے اور ایسے ہی کتا اور اس کا تھوک بھی پاک ہے۔

لیجئے شیعوں نے تو پانچ ڈول نکالنے کا تکلف کیا تھا مگر ٍغیر مقلدوں نے اسے بھی اٹھادیا اور کتے کو مطلق پاک کہہ دیا اور تین سطر بعد لکھا ہے کہ جوشخص کتے کو گود میں اٹھا کر نماز پڑھے اس کی نماز بلکل ٹھیک ہے، اور اس میں کوئی فساد نہیں۔
اس کے الفاظ یوں ہیں،

“ولا تفسد صلوٰۃ حاملہ“
یعنی اس کو اٹھانے والے کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔

گویا کتے کے مسئلے میں غیر مقلدوں نے شیعوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ خود بھی پاک ہے اور اس کا لعاب بھی پاک ہے اور اس کو اٹھا کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔




حفظ قرآن سے محرومی میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت۔


شیعہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں رکھتے، اسلئے ان کا حفظ کی دولت سے محروم ہونا تو سمجھ میں آسکتا ہے، مگر حیرت کی بات ہے کہ غیر مقلدوں میں بھی نسبتاً حافظ بہت کم ہیں، وجہ یہ ہے کہ حدیث حدیث کی رٹ میں قرآن کی اصل عظمت اور حفظ قرآن کی اہمیت ان کے دلوں سے نکال دی ہے۔ ان کے نزدیک اصل چیز حدیث ہی ہے لہٰزز اس کے ساتھ قرآن کو بھی دیکھنے کے روادار نہیں، جیسا کہ فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ میں یہ صریح قرآن کے خلاف چلتے ہیں، شوافع اور حنابلہ اگر خلف الامام فاتحہ پڑھتے ہیں تو وہ آیت قرآنی میں جہراً کی تاویل کرلیتے ہیں، یعنی مقتدی کو فاتحہ پڑھنا اس وقت منع ہے جب امام جہراً قراءت کررہا ہو لیکن سراً میں منع نہیں ۔ لیکن یہ لوگ مطلقاً قراءت کے قائل ہیں خواہ جہراً ہو یا سراً ہو۔ اور کہتے ہیں کہ “واذا قری القرآن “ کا نماز سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ تو خطبہ سے متعلق ہے۔ احمق لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جب خطبہ میں سامعین کی خاموشی مطلوب ہے تو جو نام ہی خشوع اور خضوع کا ہے اور “وقومو للہ قانیتین“ کا مصداق ہے، اس میں خاموشی کیوں مطلوب نہیں؟ جبکہ اس آیت کے نماز کے متعلق ہونے پر امت کا اجماع بھی ہے۔

حضرت امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

:اجمع الناس علی ان ھٰذہ الآیۃ فی الصلوٰۃ“
آیت کا نماز سے تعلق اک اجماعی مسئلہ ہے۔

مگر یہ لوگ خودرائی اور ذہنی آوارگی کی تسکین کے لئے اجماع امت کو بھی رد کردیتے ہیں۔





وقت واحد کی طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت۔


طلاق ثلاثہ تمام اہل سنت والجماعت حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی وغیرہ کے ہاں تین ہی قرار دی جاتی ہیں، اور سب کے نزدیک مطلقہ ثلاثہ مغلظ ہوجاتی ہے، اور بغیر حلالہ صحیحہ کے، پہلے خاوند کے پاس بنکاح جدید بھی واپس نہیں آسکتی۔

مگر شیعوں کی ریس میں غیر مقلد کہتے ہیں کہ ایک وقت کی دی تین طلاقیں تین ہوتی ہی نہیں۔ اور وہ صرف ایک واقع ہوتی ہے، اور وہ بھی رجعی کہ بغیر نکاح جدید کے سابق خاوند اس سے رجوع کرسکتا ہے۔


امت کے اس اجماعی موقف میں سات آٹھ سو سال کے بعد سب سے پہلے ابن تیمیہ نے رخنہ ڈالا اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوٰی دیا۔ غیر مقلدین نے ابن تیمیہ کے اس تفرد کی تقلید کی،، عجیب بات ہے کہ یہ لوگ ائمہ اربعہ کی تقلید کو حرام کہتے نہیں تھکتے لیکن ابن تیمیہ کی تقلید کو انہوں نے صرف شیعوں کے ساتھ موافقت کی وجہ سے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ حالانکہ جب ابن تیمیہ نے یہ موقف اختیار کیا تھا تو جمہور علماء امت نے اس کی سخت مخالفت کی تھی اور ابن تیمیہ کو اس فتوٰی کی وجہ سے بڑے مصائب کا شکار ہونا پڑا تھا۔ دیکھئے کہ مشہور غیر مقلد عالم “ابوسعید شرف الدین دہلوی“ نے اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں،

“یہ (تین طلاق کو ایک ماننے کا مسلک) صحابہ ،تابعین تبع تابعین وغیرہ آئمہ محدثین و متقدمین کا نہیں ہے ،یہ مسلک سات سو سال بعد کے محدثین کا ہے، جو فتوٰی شیخ الاسلام نے ساتویں صدی کے آخر یا اوائل آٹھویں میں دیا تھا ۔ تو اس وقت کے علماء نے ان کی سخت مخالفت کی تھی۔“

نواب صدیق حسن خان صاحب نے “اتحاف النبلاء“ میں جہاں شیخ الاسلام کے تفردات لکھے ہیں اس فہرست میں طلاق ثلاثہ کا مسئلہ بھی لکھا ہے۔ “جناب شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تین طلاق کے ایک مجلس میں ایک ہونے کا فتوٰی دیا تو بہت شور شرابہ ہوا۔ شیخ الاسلام اور ان کے شاگرد ابن قیم پر مصائب برپا ہوئے، ان کو اونٹ پر سوار کراکے درے مار مار کر شہر میں پھرا کر توہین کی گئی، قید کئے گئے۔ اس لئے کہ اس وقت یہ مسئلہ علامت روافض کی تھی“
(اتحاف،صفحہ318،بحوالہ عمدہ الاثار،صفحہ103)



انکار تراویح میں غیر مقلدین اور شیعوں کی موافقت

عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اہل سنت اور غیر مقلدین کا تراویح میں اختلاف تعداد رکعت کے متعلق ہے کہ اہل سنت بیس رکعت سمجھتے ہیں اور غیر مقلد آٹھ رکعت۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں، اصل اختلاف یہ ہے کہ تراویح کا وجود ہے کہ نہیں، کیونکہ باتفاق اہل سنت والجماعت تراویح بیس رکعت سے کم نہیں ہیں۔ آٹھ رکعت جس کے یہ مدعی ہیں وہ تراویح ہیں ہی نہیں ، وہ تو تہجد کی رکعت ہیں۔ اسلئے اکثر محدثین نے آٹھ رکعت والی روایات کو باب تہجد میں نقل کیا ہے قیام رمضان میں نہیں۔ پھر امام ترمزی رحمہ اللہ نے جہاں تراویح کے متعلقہ مزاہب نقل کئے ہیں وہاں بیس تراویح یا چھتیس تراویح کا زکر کیا ہے مگر آٹھ تراویح کا کوئی زکر نہیں ہے۔ گویا امام ترمزی رحمہ اللہ کے زمانے تک تراویح بیس رکعات ہی پڑھی جاتی تھیں۔ یہ تو انگریز کے منحوس دور میں غیر مقلدوں کو آٹھ رکعات کی سوچھی ہے تاکہ اس سے امت حنفیہ میں اختلاف پیدہ کیا جائے۔ اور اس مسئلے پر ہر ہر مسجد میں فتنہ و فساد برپا کیا جاسکے۔
تو گویا جن آٹھ رکعات کو یہ تراویح کہتے ہیں وہ تراویح نہیں تہجد کی رکعات ہیں اور جو بیس رکعت تراویح کی ہیں ان کو یہ پڑھتے ہی نہیں اور نا ہی مانتے ہیں۔

اس لحاظ سے ان کا اور شیعوں کا مزہب ایک ہی ہے کہ بیس رکعت جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رائج کی تھیں، ہم اس کو نہیں مانتے۔ لہٰزہ دونوں فریق یکساں منکرین تراویح ٹھہرے۔



مسئلہ رجعت میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت


ملا باقر مجلسی نے ایک مستقل رسالہ اس مسئلہ میں لکھا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام مدینہ منورہ جاکر دریافت کریں گے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے تابعین اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا و حفصہ رحی اللہ عنہا کہاں مدفون ہیں۔ جب لوگ ان کی قبروں کا نشان دیں گے تو وہ ان کو کھینچ کر زندہ کریں گے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و حسنین اور ان کی ذریت اور شیعوں کو بھی زندہ کریں گے اور ان کے روبرو اصحاب رضی اللہ عنہما و ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اتباع کو طرح طرح کی اذیت پہنچا کر ماریں گے اور ان کی لاشوں کو درختوں سے لٹکادیں گے۔ حضرت علی و حسن اور حسین ان کی ذریت اور شیعہ یہ انتقامی منظر دیکھ کر باغ باغ ہوجائیں گے۔(معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)

غیر مقلد عالم ملا معین اپنی کتاب دراسات اللبیت کے صفحہ 219 پر لکھتا ہے،

من مات علی الحب الصادق الامام العصر المھدی علیہ السلام
ولم یدرک زمانہ اذن اللہ سبحانہ ان یحیہ فیفوز فوزا عظیما فی
حضورہ و ھذہ رجعتہ فی عھدہ
۔“

یعنی جو شخص امام مہدی علیہ السلام کی سچی محبت میں مرگیا اگر ان کا زمانہ نہ پاسکا تو اللہ تبارک و تعالٰی امام مہدی کو اجازت دیں گے کہ وہ اسے زندہ کرکے اپنے دیدار سے شادکام کریں اور یہ ان کے زمانہ میں اس کی رجعت ہوگی۔


تو گویا شیعوں نے سنیوں اور ان کے پیشواوں سے انتقام لینے کے لئے رجعت کا عقیدہ گھڑا ، اور غیر مقلدوں نے امام مہدی کی زیارت پانے کے لئے اس جھوٹ سے اتفاق کیا، تو دونوں ہی من گھڑت عقیدے میں باہم متفق ہیں۔ حالانکہ اہل سنت والجماعت کے ہاں یہ عقیدہ بالکل مردود ہے۔ چنانچہ امام نوی رحمہ اللہ شارح مسلم لکھتے ہیں کہ رفعت باطل ہے اور معتقد اس کے رافضی ہیں ۔ لیکن پتہ نہیں تھا کہ ایک قوم غیر مقلد نامی بھی آئے گی جو اسی عقیدے کی حامل ہوگی۔




عقیدہ عصمت آئمہ میں شیعوں اور غیر مقلدوں کو موافقت

حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ محدث دہلوی “تحفہ اثنا عشریہ“ (مطبوعہ استنبول،صفحہ358) پر شیعوں کا عقیدہ نقل کرتے ہیں،

“وشیعہ خصوصاً امامیہ و اسماعیلیہ گویند کہ عصمت از خطا در علم و از گناہ
در عمل یعنی امتناع صدور کہ خاصہ انبیاء است شرط امام است
۔“
کچھ شیعہ خصوصاً امامیہ و اسماعیلیہ کہتے ہیں کہ علم و عمل میں خطاء و گناہ سے عصمت انبیاء ہی کی طرح امامت کی شرط ہے۔


حالانکہ یہ عقیدہ قرآن پاک کے خلاف ہے ۔ اسی طرح ٍغیر مقلد عالم ملا معین دراسات اللبیت کے صفحہ 213 پر لکھتا ہے۔

“بارہ اماموں اور حضرت فاطمۃ الزھرا معصوم ہیں، یعنی ان سے خطا کا ھونا محال ہے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور جو صحابہ کہ مخالف ہوئے حضرت علی رضٰ اللہ عنہ کی بیعت خلافت میں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ارث دینے میں، وہ سب کے سب خطا وار ہیں۔ اور نیز عصمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عقلی ہے اور عصمت امام مھدی نقلی۔“

دیکھئیے ! غیر مقلدین شیعوں کے اس خلاف کتاب و سنت عقیدے میں کس طرح اشتراک و اتفاق کرکے اہل سنت سے خارج ہوئے ہیں۔(کیونکہ اہل سنت کے ہاں تو صرف انبیاء ہی معصوم ہیں)


جاری ہے​
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
گزارشات آخریں


مزکورہ بالا گزارشات سے آپ نے یقیناً جان لیا ہوگا کہ تحریک اہل حدیث یا دعوت غیر مقلدیت افراد ملت کو حدیث کی طرف لے جانے کی تحریک نہیں بلکہ اس نام سے لوگوں کو اہل سنت سے دور کرنے کی تحریک ہے یا اہل سنت سے نکال کر اہل تشیع کے قریب لانے کی تحریک ہے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھ لیا کہ ان “فرقہ اہل حدیث یا غیر مقلدوں“ کے اکثر مسائل و اعتقادات اہل سنت کی بجائے اہل تشیع اور روافض سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔


مثلاً

انکار اجماع
انکار قیاس
انکار تقلید
ظلاق ثلاثہ کو ظلاق واحد کہنا
انکار تراویح
جواز متعہ
جمع بین الصلوٰتین
توہین سلف
اکابر پر بدزبانی
آئمہ پر بدگمانی
ارسال یسین
نماز کی دعا میں رفع یدین
پاؤں کا مسح
حی علی خیر العمل
انکار افضلیت شیخین و فضائل صحابہ
انکار مزاہب اربعہ
اذان عثمانی
وغیرہ وغیرہ وغیرہ


ان تمام مسائل میں غیر مقلدین شیعوں کے ساتھ ہیں تو اب یہ افراد ملت کے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم اہل سنت کی عظیم برادری سے نکل کر اہل تشیع یا نام نہاد اہل حدیث بن کر کیا لیں گے ؟؟


پیچھے کو نظر اٹھا کر دیکھیں

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
شافعی رحمۃ اللہ علیہ
مالک رحمۃ اللہ علیہ
ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ
محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ
ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ
طحاوی رحمۃ اللہ علیہ
ابن ھمام رحمۃ اللہ علیہ
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ
بخاری رحمۃ اللہ علیہ
مسلم رحمۃ اللہ علیہ
ترمزی رحمۃ اللہ علیہ
ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ
ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ
نسائی رحمۃ اللہ علیہ


اور دیگر محدثین

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ
خواجہ بہاؤالحق نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ
عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ
ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ
نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ
قطب الدین بختیار کا کی رحمۃ اللہ علیہ
علی ھجویری رحمۃ اللہ علیہ
مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ
شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ
الیاس دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ
اور سید اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ

اور سید احمد شہید رحمہ اللہ وغیرہ علما اور فقہاء اور محدثین و صوفیاء یہ سب ہم اہل سنت کا سرمایہ ہیں ، کسی غیر مقلد یا شیعہ کا نہیں۔


غیر مقلد بن کر ان تمام اساطین امت اور اولیائے امت کو چھوڑنا پڑے گا اور ملے گا کیا ؟؟


عبدالقادر روپڑی،پروفیسر سعید،عبداللہ بہاولپوری،وحید الزمان، ساجد میر،ساجد نقوی،طالب کرپالوی،طالب الرحمان،عبدالعلیم یزدانی،اور مرید عباس یزدانی۔؟


میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ خسارے کا سودہ کوئی نہیں ہوسکتا ۔


فماربحت تجارتھم وما کانوا مھتدین


اسلئے اپنے اکابر و اسلاف سے منسلک رہنا آئمہ و فقہ و اجتہاد کی تقلید میں سفر زندگی طے کرنا ہی احوط و اسلم ہے،اس میں کسی قسم کی خودرائی اور اجماع امت کے خلاف ورزی کا کوئی امکان نہیں، بصورت دیگر اپنی من مانی، خودرائی اور نفس پرستی کے سوا کچھ نہیں ہوگا جس میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے ، بربادی ہی بربادی ہے۔


(اللہ تعالٰی ہمیں فتنہ غیر مقلدیت یا فرقہ اہل حدیثیت سے محفوظ فرمائے) آمین



اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابہ۔



جناب فضل الرحمان دھرم کوٹی صاحب
 

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
sahj صاحب شکریہ۔۔۔! ایک غلطی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔۔۔! پوسٹ نمبر ۲ میں آپ نے لکھا ہے ۔۔۔۔!

(نعوذبااللہ من ذالک البکواس)

بکواس اردو کا لفظ ہے جبکہ اس جملہ کے باقی سارے الفاظ عربی کے ہیں ۔۔۔۔ اس لئے یہ جملہ درست معلوم نہیں ہوتا۔۔۔! امید ہے اس کی طرف توجہ فرمائیں گے۔۔۔!
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
ان کی زبان، لہجہ اور طرزاستدلال سب ان کے رافضی ہونے پر ناطق ہیں
جزاک اللہ بہت درست لکھا
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
ذیشان نصر نے کہا ہے:
sahj صاحب شکریہ۔۔۔! ایک غلطی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔۔۔! پوسٹ نمبر ۲ میں آپ نے لکھا ہے ۔۔۔۔!

(نعوذبااللہ من ذالک البکواس)

بکواس اردو کا لفظ ہے جبکہ اس جملہ کے باقی سارے الفاظ عربی کے ہیں ۔۔۔۔ اس لئے یہ جملہ درست معلوم نہیں ہوتا۔۔۔! امید ہے اس کی طرف توجہ فرمائیں گے۔۔۔!

السلام علیکم
بھائی ذیشان نضر، بات آپ کی بھی ٹھیک ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ جہاں سے میں نے عبارت لی ہے وہاں بھی یہی نعوذبااللہ من ذالک البکواس ہی لکھا ہوا ہے ۔اسلئے میں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ اسے بغیر تبدیلی کے ویسا ہی لکھ دوں۔
دیکھیئے
bakwas.jpg



شکریہ

والسلام
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
واہ ۔ اتنی موافقت ، اتنا پیار ۔ جو بات ایک کہے وہی دوسرا بھی کہے کیا محبت ہے بلکل شیر و شکر کی طرح ۔ ۔ ۔ اللہ کریم دشمنانِ صحابہ اور دشمنانِ آئمہ کرام سے اہل ایمان کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین یا رب العٰلمین
 
Top