سندھ کا علمی پس منظر

آفتاب علی

وفقہ اللہ
رکن
سندھ کا علمی پس منظر​

خطہ سندھ میں بڑے بڑے علماء و مشایخ پیدا ہوئے جنہوں نے دعوت و تبلیغ، تصنیف و تالیف،د رس و تدریس کے علاوہ مختلف انداز سے دینِ اسلام کی خدمت کی، اس موضوع پرکلام سے قبل سندھ میں اسلام کی آمد کے متعلق جان لیں۔
سندھ میں اسلام:
سندھ میں دین اسلام کون ، کس وقت لایا ؟ اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں۔
بعض نے کہا کہ آپ علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں سندھ میں دعوتِ اسلام پہنچ چکی تھی اس پر عموماً دو روایات سے استدلال کیا جاتا ہے۔
پہلی روایت یہ ہے کہ اسحاق بن ابراہیم سے مروی ہے کہ میں نے قنّوج (قدیم سندھ کے ایک علاقے کا نام ہےالبتہ اس کے محل وقوع میں خاصا اختلاف ہے،سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ایک مقالہ اس کی تعیین میں لکھا ہے ) کے راجہ’’ سرباتک‘‘ سے ملاقات کی اس کا کہنا تھا کہ آپ علیہ السلام نے اس کی طرف حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت حذیفہ،حضرت اسامہ اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہم کو دعوتِ اسلام کا خط دے کر بھیجا تھا تو میں نے اسلام قبول کیا اور نامہ مبارک کو بوسہ دیا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد علامہ ذہبی رحمہ اللہ تعالیٰ کا اس روایت کے بارے میں یہ قول نقل کیا۔ ’’ھذا کذب واضح‘‘ (یہ صریح جھوٹ ہے)۔[1]
دوسری روایت یہ ہے کہ سندھ میں آپ علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دعوتِ اسلام لے کر آئے جن میں سے دو حضرات واپس تشریف لے گئے اور تین حضرات نے سندھ قیام فرمایا اور یہیں ان کا انتقال ہوا روایت کے الفاظ یہ ہیں۔
روی ان رسول اللّٰہ علیہ السلام ارسل کتابہ الی اھل السند علی ید خمسۃ نفر من اصحابہ فلما جاؤا فی السند فی قلعۃ یقال ’’نیرون‘‘ اسلم بعض اھلہ ثم رجع من اصحابہ اثنان مع الوافد علیہ من السند و بقی ثلاثۃ منھم فی السند و اظھر اھل السند الاسلام و بینوا لاھل السند الاحکام و ماتوا فیہ و قبورھم فیہ الآن موجودۃ وجدت [2]
مولانا قاضی اطہر مبارکپوری اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ مستند نہیں ہے[3](البتہ مذکورہ بالا روایت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ نے بیاض ہاشمی میں مخدوم محمد جعفر بوبکانی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھی ہے) چناں چہ سندھ میں دخولِ اسلام کے سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہاں دعوتِ اسلام عہدِفاروقی میں پہنچی اور مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین سندھ تشریف لائے جن میں حضرت حکم بن ابی العاص، حضرت خرید بن راشد السامی، حضرت سنان بن سلمہ، حضرت سہل بن عدی انصاری رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ دیگر حضرات صحابہ شامل ہیں۔ چناں چہ معلوم ہوا کہ عہد صحابہ میں سندھ و عرب کا گہرا تعلق تھا جس کی عکاسی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک سندھی شخص کے آنے کا ذکر ہے۔
ثم انہ دخل علیھا رجل سندی فقال لھا انت مطبوبۃ فقالت لہ عائشۃ و یلک من طببنی؟ قال امراۃ من نعتھا کذا و کذا و فوضعھا: الی اخرہ۔[4] اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ایک زوجہ کا تعلق سندھ سے تھا جن کا نام ’’حضرت خولہ‘‘ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے ’’محمد بن حنفیہ‘‘ انہی کے بطن سے تھے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ رأیت ام محمد بن الحنفیۃ سندیۃ سوداء و کانت امۃ لبنی حنفیۃ(میں نے محمد بن حنفیہ کی ماں کو دیکھا جو سیاہ رنگ کی سندہیہ خاتون تھیں اور بنو حنفیہ کی باندی تھیں)۔[5]
سندھ میں علومِ اسلامیۃ:
پہلی صدی ہجری (عہدِ فاروقی) میں اسلامی مجاہدین کے قافلے سندھ کی طرف دعوتِ اسلام لے کرآئے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی، چناں چہ سندھ میں علمِ حدیث کا سلسلہ فروغ پانے لگا۔ جب محمد بن قاسم ۹۳ھ میں سندھ داخل ہوئے تو ان کے ساتھ بہت سارے حضرات تابعین بھی جہادِ سندھ کے لیے آئے تھے اور فتحِ سندھ کے بعد عربوں نے سندھ میں آبادیاں قائم کرلیں اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے اس طرح علمِ حدیث اور دیگر علوم کو ترقی ملی جگہ جگہ کتب خانے اور درس و تدریس کے حلقے قائم ہوئے عربوں کے اس دور میں سندھ میں بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کرام پیدا ہوئے جن کے نام آج بھی اسماء الرجال کی کتب میں موجود ہیں۔
سندھ کے محدثین عظام:
عربوں کے اس دور میں سندھ میں بڑے بڑے محدثین، فقہاء اورشعراء پیدا ہوئے جنہوں نے علوم و فنون کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا بطور مثال چند علماء و محدثین کا ذکر کیا جاتا ہے۔
مولانا اسلامی دیبل کے رہائشی تھے جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو مولانا اسلامی نے علم و فضل میں بلند مقام حاصل کیا محمد بن قاسم نے ان کو راجہ داہر کے پاس دعوتِ اسلام دے کر بھیجا تھا۔[6]
۲۱۷ھ میں منصورہ کے ایک عالم نے قرآن کا سب سے پہلے سندھی میں ترجمہ کیا۔[7]
فتحِ سندھ کے بعد عرب یہاں کے لوگوں کو غلام بنا کر مدینہ منورہ، بغداد،کوفہ وغیرہ لے گئے ان حضرات نے وہاں علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل کی اور اپنے وقت کے بڑے بڑے محدثین اور ائمہ قرار پائے۔
امام ربیع بن صبیح بہت بڑے محدث تھے انہوں نے سب سے پہلے بصرہ میں احادیث کو ابواب کی صورت میں ترتیب دے کر کتاب لکھی۔ چناں چہ صاحب کشف الظنون لکھتے ہیں۔
قیل ان اول من صنف و بوب الربیع بن صبیح البصرۃ ثم انتشر جمع الحدیث و تدوینہ و تسطیرہ فی الاجزاء والکتب۔ (کہا گیا ہے کہ سب سے پہلا وہ شخص کہ جس نے بصرہ میں احادیث کو ابواب کی شکل میں ترتیب دیا اور لکھا وہ ربیع بن صبیح ہیں پھر احادیث کو جمع کرنا ان کو مدون کرنا اور اجزاء اور کتب میں لکھنا پھیل گیا۔ [8]
حافظ ابن حجرنے ان کے بارے میں نقل کیا ہے:
قال الرامھرمزی ھو اول من صنف الکتب بالبصرۃ من السابعۃ:
’’امام رامہرمزی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’رواۃ کے ساتویں طبقے میں سے ربیع بن صبیح پہلے شخص ہیں جنہوں نے بصرہ میں کتب احادیث کو لکھا۔‘{9}
محدث ابوجعفر سندھی ’’امام بخاری‘‘ سے قبل یا ان کے ہمعصر تھے، انہوں نے حدیث شریف کی کتاب لکھی جس میں عمرو بن مالک راسبی نے چند جھوٹی احادیث ملا دی ۔ چناں چہ علامہ ذہبی نقل کرتے ہیں۔
قال الترمذی: قال محمد بن اسماعیل ھذ(ای عمرو بن مالک راسبی) کذاب کان استعار کتاب ابی جعفر فالحق فیہ احادیث۔
امام ابوالفرج سندھی نے حدیث شریف کی ایک کتاب لکھی چناں چہ ابوالفرج طوسی نے لکھا ہے، ابوالفرج السندی لہ کتاب اخبرنا بہ جماعۃعن التلعکبری۔
ان چند حضرات کا ذکر بطور مثال کیا ہے تمام حضرات کے ذکر سے یہ موضوع بہت طویل ہوجائے گا[10]
۲۵۰ھ تک سندھ پر عربوں کی حکومت رہی اس کے بعد عربوں کی بالادستی اختتام پذیر ہوئی لیکن سندھ کی دو ریاستیں منصورہ اور ٹھٹہ ۷۵۲ھ تک اسلامی ریاستوں کے طورپر باقی رہیں چناں چہ اس دوران عرب و سندھ کے لوگ اِدھر اُدھر منتقل ہوتے رہے اس مدت میں بھی سینکڑوں مایہ نازعلماء پیدا ہوئے چوتھی صدی ہجری، بنو عباسیہ کے دور میں اسلام پوری دنیا میں اپنے عروج پر تھا اس وقت سندھ بھی بغداد اور کوفہ کی نظیر تھا مولانا قاضی اطہرمبارکپوری اس کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں۔
’’چوتھی صدی ہجری ہباریوں (یہ حضرت ہبار بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے تھے) کے دور میں بغداد اور بصرہ کی طرح سندھ، منصورہ، دیبل بھی اسلامی علوم و فنون کے مراکز تھے جگہ جگہ علوم و فنون کی بساطیں بچھیں ہوئی تھی، گھر گھر دارالعلوم بنا ہوا تھا ایک ایک بستی میں سینکڑوں علمائے کرام تھے اس دور میں سندھ میں اسلامی زندگی اپنے پورے شباب پر تھی ہباری حکمراں بڑے علم دوست اور اہل علم کے قدر دان تھے ان کا مسلک اگرچہ امام داوٗد ظاہری کا تھا کہ وہ ظاہرِ حدیث پر عامل تھے مگر پورے سندھ میں فقہائے احناف کی کثرت تھی معتزلہ کی عقلیت پسندی سے نجات تھی عام مسلمانوں کا دینی حال نہایت اچھا تھا مذہبی تعصب اور گروہ بندی نہ تھی بڑے بڑے شہروں میں عربی اور سندھی دونوں زبانیں رائج تھیں دبیل علماء وفضلاء کا مرکز تھا منصورہ تو گویا دارالاسلام بن کر بغداد کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔[11]
امام مقدسی سندھ کا مذہبی حال یوں بیان کرتے ہیں ۔ مذاہب اکثر ھم اصحاب حدیث و لا تخلو القصبات من فقہاء علی مذہب ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ ولیس بہ مالکیۃ و لا معتزلۃ و عمل للحنابلۃ انھم علی طریقہ مستقیم و مذاہب محمودۃ و صلاح و عفۃ تداراحھم من الغلو و العصبۃ والفتنۃ۔ [12]
(سندھ کے اکثر مسلمان حدیث پر عامل ہیں اور مرکزی شہر حنفی فقہاء و علماء سے خالی نہیں ہیں۔ یہاں نہ مالکی ہیں نہ معتزلی اور نہ حنابلہ کے مسلک پر عمل ہے۔ یہاں کے لوگ صراط مستقیم اور اچھے مسلک پر ہیں اور صلاحیت و پرہیزگاری رکھتے ہیں۔ اللہ نے ان کو مذہبی غلو و تعصب اور فتنہ و فساد سے امان میں رکھا ہے۔)
دارالسلطنت ’’منصورۃ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’وللاسلام طراء ۃ و العلم لاھلہ کثیر والرسوم تقارب العراق مع و طاء وحسن اخلاق‘‘۔[13]
’’یہاں اسلام ترو تازہ ہے اور علم اور اہل علم کثرت سے ہیں، ان کے اخلاق و عادات اہلِ عراق سے ملتے ہیں اور ان میں بردباری اور حسنِ اخلاق ہے۔‘‘
امام یاقوت حموی سندھ کا حال یوں لکھتے ہیں:
’’مذاہب اھلھا الغالب علیھا مذہب ابی حنیفۃ‘‘۔(سندھ والوں پر حنفی مذہب کا غلبہ ہے۔)[14]
اور دیبل کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’و قد نسب الیھا قوم من الرواۃ۔‘‘(دبیل کی طرف رواۃِ حدیث کی ایک جماعت منسوب ہے۔)[15]
مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی چوتھی صدی ہجری کے سندھ کا نقشہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’سندھ کا ملک علم و فضل و تہذیب میں یہاں تک ترقی کرچکا تھا کہ اس کی شعاعیں بنگال و تبت تک پڑنے لگیں اور علم و علماء کی قدردانی نے ہندوستان کے باکمالوں کو عزت کے ساتھ بغداد پہنچایا، اس زمانے میں ’’قنوج‘‘ کے راجہ کو ’’ملک الہند‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتاتھا اور اس کے لیے خلیفہ بغداد کی طرف سے تحائف آتے تھے۔‘‘[16]
مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوگیا کہ چوتھی صدی ہجری میں سندھ علوم و فنون کا گہواراہ اور علماء و فضلاء کا مرکز تھا۔ چوتھی صدی کے بعد بھی سندھ میں بڑے بڑے علماء کرام پیدا ہوئے، جنہوں نے دینِ اسلام کی ہر طرح خدمت کی اور علم و عمل کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ حالاں کہ اس کے بعد سندھ میں سیاسی حالات سازگار نہ رہے بلکہ بار بار حکومتیں بدلتی رہی اور جنگ و جدال کا سلسلہ جاری رہا اس کے باوجود یہاں کے اہلِ علم حضرات دینی خدمات میں مشغول رہے۔
مولانا سید ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کی علمی و فکری تاریخ اور ان کی تصنیفی و تحقیقی سرگرمیوں کی طویل روداد کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی علمی و فکری زندگی و نشاط اور ان کی تصنیفی و تحقیقی سرگرمیاں، سیاسی عروج اور سلطنتوں کی ترقی و فتوحات سے مربوط و وابستہ نہیں رہی ہیں جیسا کہ اکثر غیر مسلم اقوام و ملل کی تاریخ میں نظر آتا ہے کہ ان کے سیاسی زوال، انقلابِ سلطنت اور بدنظمی و انتشار کے ساتھ ان کو علمی زوال اور قحط الرجال سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ سلطنتوں کی ہمت افزائی و سرپرستی اور قوموں میں خود اعتمادی و احساس برتری کے فقدان کے ساتھ ان کے ذہن و فکر کے سوتے خشک، مسابقت کا جذبہ سرد اور محرکاتِ عمل کمزور پڑ جاتے ہیں مسلمانوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے بارہا ان کے سیاسی زوال اور اندرونی انتشار کے زمانہ میں ایسے ممتاز اہلِ کمال پیدا ہوئے جو دورِ زوال و انحطاط کی پیداوار معلوم نہیں ہوتے۔ ‘‘[17]
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا کلام سندھ کی تاریخ کی حقیقی عکاسی کر رہا ہے۔
مراجع
[1]الاصابۃص:۳؍۲۲۹، اسد الغابۃص:۲؍۳۹۷
[2] البیاض الھاشمی(قلمی)
[3]عرب و ہند عہد رسالت میں ص: ۱۹۲
[4]موطا امام محمدص: ۳۶۱
[5]الاکمال فی اسماء الرجال ص: ۶۱۸
[6]سندھ کی تاریخی کہانیاں ص: ۱۰۳
[7]سندھ کی تاریخی کہانیاں ص: ۱۰۳
[8]کشف الظنون ص:۱؍۶۳۷
[9] تقریب التہذیب ص:۱؍۹۵
[10]مکمل تفصیل کے لیے یہ کتب دیکھیں۔ [رجال السند و الہند، موسوعہ التاریخ الاسلامی والحضارۃ الاسلامیۃ لبلاد السند والبنجاب]
[11]ہندوستان میں عربوں کی حکومتیں ص: ۱۴۹
[12] احسن التقاسیم ص: ۴۸۱
[13] احسن التقاسیم: ۴۷۹
[14]معجم البلدان ص :۴؍۱۱۸
[15] معجم البلدان ص:۴؍۱۱۸
[16] آئینہ حقیقت نماص:۱۴۹
[17] تاریخ دعوت و عزیمت ص: ۵؍۳۱
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بہت ہی مفی شیئرنگ ہے ۔سندھ سے متعلق معلومات تقریبا نہ کے برابر ہے ۔انشاء اللہ اس مضمون سے بڑی جانکاری ملے گی۔
 
Top