ہندوستان میں سعودی عرب کے مطابق رمضان وعید

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ہندوستان میں سعودی عرب کے مطابق رمضان وعید​
ایک علمی قفہی تبصرہ​
عام طور سے رمضان وعید کے چاند میں ہمارے ہندوستان میں نیز بعض اور ممالک میں اور سعودی عرب میں ایک یا دو دن کا اختلاف ہوتا ہے ،اس موقعہ پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب سعودی میں چاند نظر آگیا تو سب کو اسی کا اتباع کرنا چاہئے ۔اور بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ سعودی کے چاند کے حساب سے ہی سے یہاں روزے رکھتے اور عید مناتے ہیں ۔ ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک لندن ، امریکہ وغیرہ بعض اور ممالک میں بھی یہی اختلاف لوگوں میں دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے ۔اس سلسلہ میں کیا صحیح ہے ؟ اور جو لوگ سعودی عرب کی اتباع کرتے ہیں ان کی یہ بات صحیح ہے یا نہیں ؟ احقر کے پاس ایک صاحب کا اس سلسلہ میں سوال آیا تو اس کا جواب احقر نے لکھا اور وہ مسئلہ کی صورت حال کی وجہ سے ذرا تفصیلی لکھا گیا ۔ یہاں اسی جواب کو پیش کیا جارہا ہے ۔
سب سے پہلے ایک بات سمجھ لیں کہ اہل علم کااس بارے میں اختلاف ہےکہ ایک جگہ چاند نظر آجائے تو دوسرے تمام مسلمانوں پر اس کا اتباع لازم ہے یا نہیں اس میں متعد اقوال ہیں ، اور اس میں اکثر علماء کا مختار ومعتمد قول یہ ہے کہ اختلاف مطالع کی وجہ سے ایک جگہ کا چاند لازمی طور پر دوسری جگہ کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا ، کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ چاند کے مطالع میں علاقے کے لحاظ سے اختلاف ہوتا ہے ، لہذا یہاں کے لوگ یہاں کے مطلع کا اور وہاں کے لوگ وہاں کے مطلع کا اعتبار کریں۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے بھی اسی نظر یے کو اختیار کیا ہے ۔ نیز المجمع الفقہی الاسلامی ( جدہ) نے بھی اپنی قرار داد میں اسی کی تائید کی ہے ، جیسا کہ ہم نقل کریں گے ،اس پر تفصیلی کلام ہماری کتاب " نفائس الفقہ" میں دیکھئے ۔ تاہم ایک نقطہ نظر کے مطابق یہ گنجائش ہے کہ سعودی عرب کا اتباع کرلے ، مگر یہاں جس اہم پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص ایک ایسی بستی میں جہاں اہل علم کی کمیٹی ہو اور وہ رؤیت ہلال کے بارے میں جانکاری لیتی ہو اور سب لے لئے ایک لائحہ سناتی ہو، اور وہاں کے مسلمان اس کمیٹی کے فیصلوں کا اعتبار کرتے ہوئے روزہ وعید کرتے ہوں ،ایسی جگہ میں کسی کا یہ نعرہ لگانا کہ سعودی میں جو فیصلہ ہوا ہم اس کی اتباع کرتے ہیں،اور وہی قابل اتباع ہے ، یہ بات صحیح نہیں ہے ، ایک تو اس لئے کہ یہ کہنے والے سعودی کے علاوہ میں اگر چاند پہلے ہو تو اس کو ماننے تیار نہیں ہوتے، حالانکہ اسلام میں سعودی کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ،اور نہ کسی امام کا مسلک ہے کہ صرف سعودی کے چاند کا اعتبار ہے ، دوسرے اس لئے کہ اس سے امت میں انتشار واختلاف پیدا ہوتا ہے ، جو کہ صحیح نہیں۔
ہم یہاں اس سلسلے کے چند اہم فیصلے وفتاویٰ نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں ، تاکہ بات واضح ہوجائے ۔ سب سے پہلے ہم سعودی عرب کے بڑے بڑے علماء کی مجلس کا متفقہ فیصلہ نقل کرتے ہیں جس کو " مجلس ھئۃ کبا ر العلماء " کہا جاتا ہے ،اس مجلس نے جو فیصلہ کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ " چاند کے مطلع میں اختلاف کا ہونا اس امور میں سے ہے جس حساً وعقلاً معلوم ہیں اور اس میں کسی بھی عالم کا اختلاف نہیں ہاں اس میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار ہے یا نہیں؟
اور اختلاف مطالع کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ ان نظری مسائل میں سے ہے جن میں اجتہادا کی گنجائش ہے اور اس میں ان حضرات کی جانب سے اختلاف ہوا ہے جن کے علم ودین میں ایک شان حاصل ہے اور یہ وہ جائز اختلاف ہے جس پر حق کو پا جانے والے کو دو اجر ایک اجتہاد کا اور ایک حق کو پانے کا ملے گا اور خطا کر نے والے کو ایک اجر ملے گا ۔۔۔۔۔۔ پس اس دین پر چودہ صدیاں گز ر گئیں جس میں سے کبھی ایک ہی رویت پر پوری امت اسلامیہ اکٹھاد ہوا ہو یہ ہم نہیں جانتے ۔ لہذا کبار علماء کی اس مجلس کا نطریہ یہی ہے کہ اس مسئلہ کو اپنی سابقہ حالت پر رہنے دیا جائے ۔اور اس موضوع کو نہ چھیڑا جائے اور یہ کہ ہر ملک کے لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے علماء کے واسطے سے ان میں سے جس رائے کو چاہیں اختیا کریں ۔ بحوالہ فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ
اس اصولی بحث کے بعد خاص زیر بحث صورت کے بارے میں بھی علماء عرب کے فتاویٰ ملاحظہ کیجئے کہ وہ کیا فر ماتے ہیں ؟ سعودی عرب کے معتبر عالم دین اور وہاں کے مفتی اعظم علامہ شیخ عبد العزیز بن باز علیہ الرحمۃ کا فتویٰ نقل کرتا ہوں جو اس سلسلہ میں نہایت واضح وبصیرت افروز ہے ، اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ :
" الذی یظہر لنا من حکم الشرع المطھر إن الواجب علیکم الصوم مع المسلمین لدیکم الإمرین : احدھما : قول النبی ﷺ ( الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون والإضحیٰ یوم تضحون ) خرجہ ابو داؤد وغیرہ باسناد حسن، فإنت واخوانک مدۃ وجودکم فی الباکستان ینبغی إن یکون صومکم حین یصومون ، وافطارکم معھم حین یفطرون ،لإنکم داخلون فی ھذا الخطاب ، ولإن الروایہ تختلف بحسب اختلاف المطابع ، وقد ذھب جمع من اھل العلم منھم ابن عباس الیٰ ان لإھل کل بلدۃ رؤیتھم ۔الإمر الثانی : إن فی مخالفتکم المسلمین لدیکم فی الصوم والإفطار تشویشاً ودعوۃ للتساؤل والإستکنکار واثارۃً للنزاع والخصام ۔ والشریعۃ الإسلامیہ الکاملۃ جاءت با لحث علی الإتفاق والوئام والتعاون علیٰ البر والتقویٰ، وترک النزاع والخلاف الخ ۔ مجموعہ فتاویٰ ابن باز

( اس سلسلہ میں پاکیزہ شریعت کا جو حکم ہمارے سامنے واضح ہوا وہ یہ ہے کہ آپ پر اپنے یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ روزہ رکھنا واجب ہے ،اس کی دو وجوہ ہیں : ایک یہ کہ اللہ کے بنی ﷺ نے فر مایا کہ " روزہ اس دن ہے جس دن تم ( مسلمان ) روزہ رکھو یعنی عید اس دن ہے جس دن تم مسلمان افطار کرو اور قربانی اس دن ہے جس دن تم قربانی کرو ، اس حدیث کو ابو داؤد وغیرہ نے سند حسن سے وایت کیا ہے ۔ لہذا آپ اور آپ کے بھائی جب تک پاکستان میں ہیں آپ پر ضروری ہے کہ وہاں کے مسلمان جب روزہ رکھیں اس وقت ان کے ساتھ روزہ رکھیں اور وہ جب افطار ( یعنی ) عید کریں اس وقت ان کے ساتھ افطا کریں ،کیونکہ آپ بھی اس خطاب میں داخل ہیں ، اور اس لئے بھی کہ اختلاف مطالع کی وجہ سے رؤیت میں بھی اختلاف ہوتا ہے اور علماء کی ایک جماعت جن میں ابن عباس بھی ہیں اس طرف گئی ہے کہ ہر بستی والوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہے ۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تمہارا وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وزہ افطار میں اختلاف کرنا تشویش وانتشار اور سوال وجواب کے سلسلہ کی دعوت اور نزاع واختلاف کو بھڑ کانے کا باعث ہے جبکہ اسلامی شریعت کاملہ اتفاق واتحاد اور ایک دوسرے سے تقویٰ ونیکی میں تعاون پر ابھارتی ہے اور ترک اختلاف کی تعلیم دیتی ہے )

شیخ بن باز نے اسی سلسلہ کے ایک سوال کے جواب میں ایک اور فتوے میں لکھا ہے کہ:
"علی المسلم إن یصوم مع الدولۃ التی ھو فیھا ویفطر معھا لقول النبی ﷺ ( الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون والإضحی یوم تضحون ) واللہ اعلم۔ فتاویٰ شیخ ابن باز
ّمسلمان پر واجب ہے کہ وہ اس ملک کے لوگوں کے ساتھ روزہ رکھے اور افطار کرے جس میں وہ رہتا ہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ وزہ اس دن ہوگا جس میں تم روزہ رکھو اور افطار اس دن جس میں تم افطار کرو اور قربانی اس دن میں جس میں قربانی کرو ،واللہ اعلم
اور معروف عربی عالم ومفتی علامہ شیخ محمد بن صالح العثیمین نے اپنے بض فتاویٰ میں اگر چہ اس کی اجازت دی ہے کہ علماء کے ایک نظریہ کے مطابق کوئی چاہئے تو مملکت سعودیہ کی اتباع کر سکتا ہے ، تاہم ہم نے جہاں اختلاف وانتشار کا خطرہ محسوس کیا تو اس سے منع کیا ہے اور یہی کہا ہے کہ ہر علاقے کے لوگوں کو اپنے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہی روزہ وعید کرنا چاہئے ۔اس سلسہ میں ان کے ایک دو فتاویٰ ملاحظہ کیجئے ۔ان سے کسی نے سوال کیا کہ :
" کہ ہم فلاں۔۔۔ ملک میں خادم الحرمین کی جانب سے سفیر ہیں ، یہاں ہمیں رمضان المبارک کے روزوں اور عرفہ کے وزے کے بارے میں پریشانی ہے ۔ اس بارے میں ہمارے ساتھی تین قسم کے ہیں :ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مملکت سعودیہ کے ساتھ روزہ رکھیں گے اور افطا ریعنی عید بھی کریں گے ، دوسرے وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم جس ملک میں ہیں وہاں کے مطابق روزہ وعید کریں گے ،اور تیسرے وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم روزہ تو اس ملک کے مطابق رکھیں گے اور یوم عرفہ سعودی کے مطابق مانیں گے ۔آپ اس میں شافی جواب سے رہنمائی کریں ۔
اس سوال کے جواب میں علامہ العثیمین نے لکھا کہ:
"ایک ملک میں چاند نظر آئے اور دوسرے میں نہ دکھائی دے تو اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا تمام مسلمانوں پر اس پر عمل لازم ہے یا صرف ان پر جنہوں نے دیکھا اور جو ان کے مطلع میں ان کے موافق ہیں ِ یاصرف ان پر جو ایک ولایت کے تحت رہتے ہیں ، اس میں متعدد اقول ہیں ،اور اس میں راجح قول یہ ہے کہ اگر دو ملکوں کا مطلع ایک ہو تو وہ ایک مانا جائے گا لہذا ان میں سے ایک جگہ چاند دکھائی دے تو دوسرے ملک میں بھی اس کا حکم ثابت ہوگا ، لیکن اگ مطلع میں اختلاف ہو تو ہر ملک کا الگ حکم ہوگا ۔۔۔۔۔( پھر اس کے دلائل ذکر کے فر ماتے ہیں )۔۔۔۔ اس بنا پر تم لوگ روزہ رکھو اور افطار کرو جس طرح کہ اس ملک کے لوگ کرتے ہیں جس میں تم لوگ ہیں ِ خواہ وہ تمہارے اصل وطن ( سعودی عرف) کے موافق ہو یا اس کے خلاف ہو ۔ فتاویٰ شیخ العثیمین ص
اسی طرح شیخ العثیمین نے اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ :
" مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کے کلمہ ایک ہو اور وہ اللہ کے دین میں تفرقہ نہ ڈالیں ،اور یہ کہ ان کا روزہ اور ان کی عید بھی متحد ہو اوروہ اپنے یہاں کے دینی مر کز کی اتباع کریں، اور وہ اختلاف نہ کریں حتیٰ کہ اگر ان کے یہاں روزہ سعودی مملکت یا کسی اور اسلامی ملک کے لحاظ سے بعد ہی میں کیوں نہ ہو ، بہرحال وہ اپنے مر کز کا اتباع کریں۔ فتاویٰ شیخ العثیمین ص

سعودی عرب کے مشہور دارالافتاء " الجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء‘ کے فتاویٰ میں بھی یہی بات لکھی گئی ہے ،ایک سوال اس کے مفتیان سے کیا گیا کہ:
" ہم ریڈیو سے سعودیہ میں چاند ہو جانے کی خبر سنتے ہیں ، جبکہ ہمارے یہاں چاند نظر نہیں آتا، تو بعض لوگ اس پر روزہ رکھ لیتے ہیں اور اکثر لوگ انتظار کرتے ہیں ،اس سے بہت سخت اختلاف پیدا ہو گیا ہے ، لہذا اس سلسلہ میں فتویٰ دیں؟ اس کے جواب میں فتوے میں اولآ اختلاف مطالع کا ذکر اور اس میں ائمہ کے مسالک کا ذکر کیا گیا ہے ، پھر آخر میں لکھتے ہیں کہ جب ریڈیو یا کسی اور ذریعہ سے اپنے علاقے کے مطلع کے علاوہ کسی اور جگہ چاند ہو نے کا ثبوت ہو تو آپ لوگوں پر لازم ہے کہ وزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ وہاں کے حاکم کے حوالے کریں ۔فتاویٰ للجنۃ الائمہ
اسی طرح ایک فتوے میں لکھتے ہیں کہ اگر اختلاف ہو تو وہاں اگر مسلمان حاکم ہو تو اس فیصلہ لے اور اگر مسلمان نہ ہو تو وہاں کے مرکز اسلامی کی مجلس کا فیصلہ مانیں تاکہ اس ملک کے مسلمانوں کا روزہ وعید وغیرہ میں اتحاد رہے۔ اور سعودی عرب کے ایک اور معروف عالم علامہ شیخ صالح بن فوزان سے سوال کیا گیا:
" اگر کسی اسلامی مملکت مثلاً سعودی میں رمضان کے آنے کا ثبوت ہو جائے اور دوسرے ممالک میں اس کے آنے کا اعلان نہ ہوتو کیا حکم ہے؟ کیا ہم سعودیہ کے مطابق روزہ رکھیں؟ اور دونوں ممالک میں اختلاف ہو تو حکم کیا ہے
شیخ صالح فوازان نے اس کا جواب یہ دیاکہ:" ہر مسلمان اپنےملک میں موجود مسلمان کے ساتھ روزہ وافطار کرے، اور مسلمانوں پر اپنے علاقے کی رؤیت کا اہتمام کرنا لازم ہے اور وہ لوگ دوسرے ایسے علاقے کی رؤیت پر روزہ نہ رکھیں جو دوری پر واقع ہو، کیونکہ مطالع مختلف ہیں ،اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کچھ مسلمان کسی غیر اسلامی ملک میں ہیں اور وہاں مسلمان نہیں ہیں جو رویت کا اہتمام کریں تو وہ لوگ سعودیہ کے ساتھ روزہ رکھیں تو کوئی حرج نہیں"
یہ علماء عرب میں سے مصروف اصحاب افتاء کے چند فتاوے ہیں جن سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہو گئی یو یہاں کہیں اور رہتے ہوئے شعودی عرب کے چاند پر رمضان وعید کرتے ہیں ، لہذا ان کو اس طرح کی غلطی سے باز آنا چاہئے اور مسلمانوں میں اختلاف وانتشار پھیلانے سے احتراز کرنا چاہئے۔رمضان اور جدید مسائل ۔مؤلفہ مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب





ّ
 
Top