بلاعنوان

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
غالب کا ایک شعر ہے
جانتاہوں ثواب طاعت وزہد
پر طبعیت ادھر نہیں جاتی​
شعر کا مطلب تو بالکل ہی واضح ہے کہ دینی احکامات کی پوری خبر ہے لیکن کیاکریں طبعیت نقد (دنیا)کوچھور کر ادھار(آخرت )کی طرف مائل نہیں ۔غالب نے یہ بات اپنے اعتبار سے کہی تھی لیکن یہ آفاقی حقیقت ہے اورہمارے دور میں جب اطلاعاتی ٹکنالوجی نے زمین آسمان ایک کردیاہے۔دم بھر میں دنیاکے ایک سرے کی خبر دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہیں۔امریکہ میں وقوع پذیر کسی واقعہ کے واقعہ کے قریبں رہنے والوں کو معلوم ہونے سے قبل دنیا کے دوسرے سرے پر ہنے والوں کو خبر ہوجاتی ہے۔
معلومات کا سیلاب امڈ رہاہے ۔ہرقسم کی معلومات ۔چاہے وہ دینی ہو یادنیاوی۔وہ کتابیں جن کو یورپ میں دیکھ کر اقبال کا دل سی پارہ (تیس ٹکرے)ہواجاتاتھااورہمارے بزرگ علماء جن کتابوں کودیکھنے کی حسرت دل میں لئے ہوئے دنیاسے چلے گئے۔آج انٹرنیٹ کی ایک کلک پر آپ کے کمپیوٹر اورمانیٹر پرحاضر ہے۔
لیکن کیااس کے باوجود یہ حقیقت نہیں کہ آج بے دینی پورے عروج ہے۔بے حیائی نے آج اپنے لئے زوردار فلسفہ اورجواز پیداکرلیاہے۔الحاد فیشن بن چکاہے۔آزادی فکر کے نام پر مذہبی احکامات کاتمسخر ہماراشیوہ بن چکاہے۔
یہ تضاد کیوں ہے؟
اقبال کہتے ہیں اورصحیح کہتے ہیں
واعظوں کے اندر سے روح بلالی اورتلقین غزالی رخصت ہوچکی ہے اس لئے ان کی خطابت بے اثر اوران کی جادو بیانی فیض اوراثر سے خالی ہے۔ان کی پکار دل کی آواز نہیں ہوتی جو دل میں بیٹھ جائے بلکہ مجمع کی امنگ اورروپئے کی ترنگ ہوتی ہے لہذا تقریرکا اثر تالیوں کے شور تک محدود رہ جاتاہے۔اسی کو اگرہم جگرمرآدآبادی کی زبان میں کہیں تو
واعظ کا ہرایک ارشاد بجاتقریر بہت دل چسپ مگر
آنکھوں میں سرور عشق نہیں چہرے پر یقین کا نور نہیں​
لیکن ذرا ٹھہرئیے ۔کچھ دل میں جھانکئے ۔اپنے ضمیر کو ٹٹولئے۔کیاساراالزام غریب واعظ اورملا کے سرپر رکھ دینادرست ہوگا ۔
اب ویسے بھی ہمیں عادت پڑگئی ہے کہ دین ودنیا کی ہرقسم کی تنزلی کا الزام مولویوں کے سررکھ دیاجائے اورخود کو بری الذمہ سمجھ لیاجائے۔اگرہم عصری تعلیم میں پیچھے ہیں توملاذمہ دار ہیں۔دینی احکامات پر عمل نہیں کرتے توملاقصوروار۔ٹیکس چوری کرتے ہیں تو ملاکی خاموشی۔زکوٰ ۃ ادانہیں کرتے تو مولویوں کی بات میں اثرنہیں رہا۔
لیکن اس غریب مولوی کی قدرافزائی ہماری نگاہوں میں کیاہے ؟یہ سوال نہ ہی کیاجائے توبہتر!کیونکہ کالجوں کے پروفیسر ،لکچرر،پرنسپل ،وائس چانسلراوردیگر دنیابھر کے دانشورمعاشرہ کیلئے ان کی کوئی ذمہ داری تھوڑی ہی نہ بنتی ہے۔انہیں تو ہمارامعاشرہ تمام سہولیات فراہم کرنے کے باوجود تمام سماجی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھتاہے ۔
یہ میں کیاقصہ لے بیٹھا۔بات چل رہی تھی کہ کیاساراقصور واعظ اورمولوی ہی کاہے۔سننے میں بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ ہم یہ کہہ کر ٹال دیں مولویوں کی زبان میں اثر نہیں ۔وہ خود عمل نہیں کرتے اوراسی طرح کے دسیوں حیلے۔
لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں!کیاپوری حقیقت یہی ہے؟
کیاخود ہمارے دل میں چور نہیں ہے؟کیاہم خود سگ دنیا نہیں ہیں؟اوردنیاوی زیب وزینت نے ہمارے دماغ میں جنت کا تصور دھندلانہیں کردیاہے؟
چلئے آپ نے ڈھٹائی سے کام لے کر کہہ دیاکہ نہیں جی ہمارے دل میں کوئی چور نہیں ،اگر مولویوں کی زبان میں اثر ہوتی اوروہ خود پورے عامل ہوتے تو ہم پر بھی اثر پڑتااورہم بھی ان کی باتوں پر عمل کرتے۔
اسکا بھی امتحان ہواجاتاہے۔
آپ ماشاء اللہ پڑھے لکھے ہیں۔لکھے پڑھے نہیں ہیں۔دینی کتابیں کون سادسترس سے دور ہے پھر کون ساگھر ایساہے جہاں باترجمہ قرآن اورکوئی دینی کتاب نہیں ہے ۔کسی بھی دینی کتاب کو پڑھئے اورعمل کیجئے۔غریب مولوی کی ضرورت ہی نہیں ہوگی ۔
لیکن نہ!زبردستی اینٹتھے مینٹتھے تھوڑی دیر کیلئے کوئی دینی کتاب کھولیں گے توفوراہی بند کردیں گے کہ کیابورکتاب ہے۔کوئی دلچسپ ناول ہوتا،عشق ورومان اورہیروہیروئن کے رومانی مکالمات ہوتے۔ کوئی فلمی پرچہ ہوتا۔کرکٹ اورکھیل کامیگزین ہوتا۔
دیکھادل کا چور سامنے آگیانا!
ابھی بھی وقت ہے ۔درتوبہ بند نہیں ہواہے۔غریب مولویوں کو کوسنے بند کردیجئے۔اورتنہائی میں اپناجائزہ لیجئے کہ زیادہ کمی کہاں ہے مولوی اورواعظ میں یااپنے آپ میں!اگرخلوص نیت سے جواب مانگیں تو صحیح جواب ملے گا۔
کمی ہمارے اندر ہے!
وماابری نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء۔(سورہ یوسف)میں اپنے آپ کو بری نہیں کرتا بے شک نفس تو برائی کا ہی حکم دیتاہے۔آیت کے پس منظر پر نہ جائیے بلکہ آیت کا جو صاف مطلب ہے اس کو دیکھئے ۔
توآئیے آج سے عہد کریں کہ ہم قرآن وسنت کا مطالعہ کریں گے۔اورکہنے والے کی جانب نہ دیکھ کر کہی گئی بات پر غورکریں گے ۔
 

شرر

وفقہ اللہ
رکن افکارِ قاسمی
جمشید صاحب السلام علیکم
جناب والا آپ کا مضمون بہت ہی سنجیدہ ہے واقعی آج ہمارے لیئے لمحہ فکریہ ہے گفتار کے غازیوں سے میدان پٹا پڑا
ہے عمل سے فارغ ہوامسلماں بنا کے تقدیر کابہانہ کے مصداق علماء کےاختلاف کو بہانہ بنالیا گیا ہے بدعمل خود ہیں اوراپنی بدعملی کا الزام دوسروں کو دیتے ہیں خدا خیرکرے
 

سرحدی

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ بہت خوب اور زبردست مضمون لکھا، واقعی آج کا مسلمان ہر چیز کا ذمہ داری علماء ہی کو سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔
 
Top