آج کا دن کیسے گزرا؟؟؟؟؟؟؟؟

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
انسان کے مرنے کے بعد اس کا تعلق ایک اور عالم سے ہوجاتاہے، جس کوعالمِ برز خ (اورعرفِ عام میں عالمِ قبر) کہتے ہیں۔اب جو کچھ اس پرگزرتاہے وہ دنیوی عالم میں نہیں، اس دوسرے عالم میں ہوتاہے، دنیا میں جیسی عملی زندگی گزاری ہوتی ہے، اس اعتبار سے عالمِ برزخ کی زندگی ہوتی ہے ، سزا اور جزا ہوتی ہے، اوراس دوسرے عالم کواللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے عام انسانوں سے مخفی رکھاہواہے، اس کا اس دنیا میں مشاہدہ عام طورپرنہیں ہوتا، مردہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اور اس پر عذاب یاراحت کامعاملہ ہوتاہے؛ مگراس کے باوجود چوں کہ یہ معاملہ عالمِ برزخ کاہے؛ اس لیے ہمیں محسوس ومشاہد نہیں ہوتا۔ حدیثِِ پاک میں ہے کہ قبر میں جو عذاب دیا جاتاہے انسان اور جنات کے علاوہ تمام مخلوقات اسے محسوس کرتی ہیں۔ چوں کہ انسان اور جنات مکلف ہیں؛ اس لیے انہیں یہ دکھایا نہیں جاتا، تاکہ آزمائش اور انسان کا اپنا اختیار باقی رہے، اور اپنے اختیار سے اچھی یا بری راہ منتخب کرنے کی صورت میں اجر و ثواب اور سزا کا مستحق بنے۔

فقط واللہ اعلم
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
عالم برخ کونسی دنیا اور اس کے باسی کون ہیں اور کہاں ہے تفصیل مائی لارڈ

سورۃ المؤمنون
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ[99]
لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ[100]

[ترجمہ فتح محمد جالندھری]

(یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے [99] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کیا کروں۔ ہرگز نہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ وہ اسے زبان سے کہہ رہا ہوگا (اور اس کے ساتھ عمل نہیں ہوگا) اور اس کے پیچھے برزخ ہے (جہاں وہ) اس دن تک کہ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے، (رہیں گے) [100]۔


بعد از مرگ ٭٭

بیان ہو رہا ہے کہ موت کے وقت کفار اور بدترین گناہگار سخت نادم ہوتے ہیں اور حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کرتے ہیں کہ کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں۔ تاکہ ہم نیک اعمال کر لیں۔ لیکن اس وقت وہ امید فضول، یہ آرزو لا حاصل ہے چنانچہ سورۃ المنافقون میں فرمایا جو ہم نے دیا ہے ہماری راہ میں دیتے رہو، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آ جائے اس وقت وہ کہے کہ اے اللہ ذرا سی مہلت دیدے تو میں صدقہ خیرات کر لوں اور نیک بندہ بن جاؤں لیکن اجل آ جانے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ مثلا «وَاَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَاْتِيْهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ» ‏‏‏‏ [ 14- ابراهيم: 44 ] ‏‏‏‏ اور آیت «يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بالْحَقِّ فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ» [ 7- الاعراف: 53 ] ‏‏‏‏ اور آیت «وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ» [ 32- السجدة: 12 ] ‏‏‏‏ تک اور آیت «وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ» [ 6-الأنعام: 27، 28 ] ‏‏‏‏ تک اور آیت «وَتَرَى الظّٰلِمِيْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ يَقُوْلُوْنَ هَلْ اِلٰى مَرَدٍّ مِّنْ سَبِيْلٍ» [ 42- الشورى: 44 ] ‏‏‏‏ تک اور آیت «قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ» [ 40- غافر: 11 ] ‏‏‏‏ اور اس کے بعد کی آیت «وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ» [ 35- فاطر: 37 ] ‏‏‏‏، وغیرہ۔
5810

ان آیتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسے بدکار لوگ موت کو دیکھ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے کی پیشی کے وقت جہنم کے سامنے کھڑے ہو کر دنیا میں واپس آنے کی تمنا کریں گے اور نیک اعمال کرنے کا وعدہ کریں گے۔ لیکن ان وقتوں میں ان کی طلب پوری نہ ہو گی۔ یہ تو وہ کلمہ ہے جو بہ مجبوری ایسے آڑے وقتوں میں ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہ کہتے ہیں مگر کرنے کے نہیں۔ اگر دنیا میں واپس لوٹائے بھی جائیں تو عمل صالح کر کے نہیں دینے کے بلکہ ویسے ہی رہیں گے جسے پہلے رہے تھے یہ تو جھوٹے اور لپاڑئیے ہیں کتنا مبارک وہ شخص ہے جو اس زندگی میں نیک عمل کر لے اور کیسے بدنصیب یہ لوگ ہیں کہ آج نہ انہیں مال و اولاد کی تمنا ہے۔ نہ دنیا اور زینت دنیا کی خواہش ہے صرف یہ چاہتے ہیں کہ دو روز کی زندگی اور ہو جائے تو کچھ نیک اعمال کر لیں لیکن تمنا بے کار، آرزو بےسود، خواہش بے جا۔

یہ بھی مروی ہے کہ ان کی تمنا پر انہیں اللہ ڈانٹ دے گا اور فرمائے گا کہ یہ بھی تمہاری بات ہے عمل اب بھی نہیں کرو گے۔ حضرت علاء بن زیاد رحمتہ اللہ علیہ کیا ہی عمدہ بات فرماتے ہیں۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، تم یوں سمجھ لو کہ میری موت آ چکی تھی، لیکن میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے چند روز کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں نیکیاں کر لوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کافر کی اس امید کو یاد رکھو اور خود زندگی کی گھڑیاں اطاعت اللہ میں بسر کرو۔
5811

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب کافر اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اپنا جہنم کا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب مجھے لوٹا دے میں توبہ کر لوں گا اور نیک اعمال کرتا رہوں گا جواب ملتا ہے کہ جتنی عمر تجھے دی گئی تھی تو ختم کر چکا پھر اس کی قبر اس پر سمٹ جاتی ہے اور تنگ ہو جاتی ہے اور سانپ بچھو چمٹ جاتے ہیں۔
5812

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں گناہگاروں پر ان کی قبریں بڑی مصیبت کی جگہیں ہوتی ہیں ان کی قبروں میں انہیں کالے ناگ ڈستے رہتے ہیں جن میں سے ایک بہت بڑا اس کے سرہانے ہوتا ہے ایک اتنا ہی بڑا پاؤں کی طرف ہوتا ہے وہ سر کی طرف سے ڈسنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے اور یہ پیروں کی طرف سے کاٹنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ بیچ کی جگہ آ کر دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں پس یہ ہے وہ برزخ جہاں یہ قیامت تک رہیں گے۔

من ورائہم کہ معنی کئے گے ہیں کہ ان کے آگے برزخ ایک حجاب اور آڑ ہے دنیا اور آخرت کے درمیان وہ نہ تو صحیح طور دنیا میں ہیں کہ کھائیں پیئں نہ آخرت میں ہیں کہ اعمال کے بدلے میں آ جائیں بلکہ بیچ ہی بیچ میں ہیں پس اس آیت میں ظالموں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ انہیں عالم برزخ میں بھی بڑے بھاری عذاب ہوں گے جیسے فرمان ہے «مِنْ وَّرَاىِٕهِمْ جَهَنَّمُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْهُمْ مَّا كَسَبُوْا شَيْـــــًٔا وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاءَ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ» [ 45- الجاثية: 10 ] ‏‏‏‏ ان کے آگے جہنم ہے اور آیت میں ہے «وَمِنْ وَّرَاىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ» [ 14- ابراھیم: 17 ] ‏‏‏‏ ان کے آگے سخت عذاب ہے برزخ کا۔ قبر کا یہ عذاب ان پر قیامت کے قائم ہونے تک برابر جاری رہے گا۔ جیسے حدیث میں ہے کہ وہ اس میں برابر عذاب میں رہے گا یعنی زمین میں۔ [سنن ترمذي:1071،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
 

رعنا دلبر

وفقہ اللہ
رکن
آپ اکثر غائب رہتے ہیں یا دور بین رکھی ہے دورت سے ہی چیک کیا اور نکل گیا کوئی پوسٹ کوئی علمی مو شوگافیاں نہیں ہوتٰیں
کچھ مصروفیت تھی اس لیے نہیں آ پارہی تھی جیسے ہی مصروفیت کا اختتام ہوتا ہے تو ان شاءاللہ موشوگوفیاں بھی لکھ دینگے
 
Top