غزل
یعقوب راہی
نہ راستا ہے نہ رہنما ہے بتاؤ تو کیا تمھیں پتا ہے؟
یہ قافلہ پھر بھٹک گیا ہے بتاؤ تو کیا تمھیں پتا ہے؟
طرح طرح کے اِدھر اُدھر سانپ پل رہے ہیں ،اُبل رہے ہیں
لہو لہو زہر گھل چکا ہے ، بتاؤ تو تمہیں کیا پتا ہے؟
سیاست عصر کے تحفظ میں جینے والو ،رجھانے والو
نظام سارا گلا سڑا ہے ، بتاؤ تو کیا تمہیں پتا ہے؟
کبھی تو مانو، کبھی تو سمجھو،تمام تر خوش گمانیاں ہیں
کہاں کوءی دشتِ گُل کھلا ہے ، بتاؤ کیا تمھیں پتا ہے
یعقوب راہی
نہ راستا ہے نہ رہنما ہے بتاؤ تو کیا تمھیں پتا ہے؟
یہ قافلہ پھر بھٹک گیا ہے بتاؤ تو کیا تمھیں پتا ہے؟
طرح طرح کے اِدھر اُدھر سانپ پل رہے ہیں ،اُبل رہے ہیں
لہو لہو زہر گھل چکا ہے ، بتاؤ تو تمہیں کیا پتا ہے؟
سیاست عصر کے تحفظ میں جینے والو ،رجھانے والو
نظام سارا گلا سڑا ہے ، بتاؤ تو کیا تمہیں پتا ہے؟
کبھی تو مانو، کبھی تو سمجھو،تمام تر خوش گمانیاں ہیں
کہاں کوءی دشتِ گُل کھلا ہے ، بتاؤ کیا تمھیں پتا ہے