الادریسی

abusufiyan

وفقہ اللہ
رکن

الادریسی

ان کا نام “ابو الحسن محمد بن ادریس الحموی الحسنی الطالبی” ہے، وحموی ادریسیوں کی نسل سے ہیں اس نسبت سے انہیں “الشریف الادریسی” بھی کہا جاتا ہے، وہ وعرب کے مایہ ناز جغرافیا دان اور سیاح تھے، ان کی ادب، شعر اور علمِ نبات پر بھی طبع آزمائیاں ہیں، وہ “سبتہ” میں 493 ہجری کو پیدا ہوئے اور وہیں پر غالباً 560 ہجری کو وفات پائی، قرطبہ میں ہیئت، فلسفہ، طب، نجوم، جغرافیا اور شعر کی تعلیم حاصل کی چنانچہ قرطبی بھی کہلاتے ہیں، انہوں نے اندلس، مغرب، پرتگال، مغربی یورپ کے ساحلی علاقے، فرانس، انگلینڈ، قسطنطینیہ اور ایشیا کے کچھ سواحلی علاقوں کی سیاحت کی اور آخر کار صقلیہ آٹھہرے جہاں بالرم میں روجہ دوم نورمانی جو عربوں کے ہاں “رجار” کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں کے دربار سے منسلک ہوگئے اور اس نسبت سے صقلی بھی کہلائے، وہ ان چند سائنسدانوں میں سے تھے جنہوں نے چاندی سے زمین کا دائرہ بنایا اور اس کی تفسیر وضع کی، معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے زندگی کے آخری ایام میں صقلیہ چھوڑ دیا تھا اور اپنے ملک سبتہ واپس چلے گئے جہاں ان کی وفات ہوئی.

صقلیہ کے شاہ رجار کے کہنے پر انہوں نے “نزہہ المشتاق فی اختراق الآفاق” لکھی جو “کتاب رجار” یا “الکتاب الرجاری” کے نام سے مشہور ہے، یہ کتاب جغرافیا کی مشہور ترین کتاب ہے جس سے اہلِ یورپ نے مشرق اور اہلِ مشرق نے اہلِ مغرب کے ملکوں کے بارے میں کافی معلومات حاصل کیں، دونوں فریقوں نے اس کتاب سے بھرپور استفادہ کیا، اس کے نقشہ جات نقل کیے اور اس کے مختلف حصوں کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا، شاہ نے ان سے ایک چاندی کا کرہ بھی بنانے کو کہا جس پر ساتوں اقالیم کا نقشہ بنایا گیا ہو، کہا جاتا ہے کہ یہ کرہ بننے کہ کچھ ہی عرصہ بعد صقلیہ میں ایک انقلاب کے نتیجے میں تباہ ہوگیا.

جس سال انہوں نے اپنی یہ معروف کتاب لکھی اسی سال شاہ رجار انتقال کر گئے اور ان کی جگہ ان کے بیٹے غلیام یا غلیوم اول نے لے لی، مگر ادریسی بدستور دربار سے منسلک رہے اور نئے شاہ کے لیے جغرافیا کی ایک اور کتاب لکھی جس کا نام “روض الانس ونزہہ النفس” یا “کتاب الممالک والمسالک” ہے، اس کتاب کا صرف ایک مختصر حصہ ہی ہم تک پہنچا ہے جو حکیم اوغلو پاشا لائبریری اسطنبول میں موجود ہے، ادریسی کی مفردات پر ایک کتاب بنام “الجامع لصفات اشتات النبات” اور “انس المہج و روض الفرج” کا تذکرہ بھی کتبِ تاریخ میں ملتا ہے.
 
Top