اجماع کی شرعی حیثیت

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت آپ نے فتوی نمبر6531 میں فرمایا ہے کہ چار ہجری کے بعد قابل معتبر علماء نے فرمایا کہ اب چار میں سے ایک امام کی تقلید ضروری ہے۔ آپ ان قابل معتبر علماء کے دس نام بتائیں جنھوں نے تقلید کو چوتھی سیڑھی سے لازم قرار دیا ہے؟



فتوی: 665=175/ل
ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں: اول یہ کہ امت کے قابل قدر علماء متفق ہوکر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کرلیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو، یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کردیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علماء مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علماء اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔ اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔ نور الانوار میں ہے: رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ․ ورخصة: وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا: ۲۱۹۔ چنانچہ جب علماء نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بے مہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علماء نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہوکر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے او رعدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علماء نے عدم تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:

(۱) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروعالمسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․ یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (فتاویٰ رحیمیہ: ۸۰ جدید، بحوالہ تفسیر مظہری:۲/۶۴)

(۲) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۷۵ جدید، بحوالہ حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)

(۳) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔ ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۷۹، بحوالہ التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)

(۴) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں: وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)

(۵) شیخ احمد المعروف بملا جیون تفسیرات احمدیہ رقم طراز ہیں: قد وقع الإجماع علی أن الاتباع إنما یجوز للأربع الخ یعنی اس پر اجماع منعقد ہوچکا ہے کہ اتباع صرف ائمہ اربعہ کی ہی جائز ہے آگے فرماتے ہیں: وکذا لا یجوز الاتباع لمن حدث مجتھدًا مخالفًا لھم یعنی اسی بنا پر جو مجتہد نیا پیدا ہو اور اس کا مذہب ان ائمہ اربعہ کے خلاف ہو تو اس کی اتباع بھی جائز نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ ۱/۷۹)

(۶) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ر وأما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۰ بحوالہ الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)

(۷) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/ ۸۰، بحوالہ فتح المبین ۱۶۶)

(۸) شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں: أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۱ بحوالہ نورالہدایہ: ۱/۱۰)

(۹) سید احمد طحطاوی فرقہ ناجیہ میں شامل ہونے کی تاکید کرتے ہوئے فرقہ ناجیہ کے بارے میں بتلاتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں: وھذہ الطائفة الناجیة قد اجتمعت الیوم في المذاھب الأربعة ھم الحنیفون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون ومن کان خارجًا من ھذہ الذاھب الأربعة في ذلک الزمان فھو من أھل البدعة والنّار اور یہ نجات پانے والا گروہ آج مجتمع ہوگیا ہے چار مذاہب میں اور وہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ہیں اور جو شخص اس زمانہ میں ان چار سے خارج ہے وہ اہل بدعت اور اہل نار سے ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۲، بحوالہ طحطاوی علی الدر المختار: ۴/۱۵۳)

(۱۰) سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام اولیاء دہلوی رحمہ اللہ کتاب : راحة القلوب، میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ سید العابدین شکر گنج نے بتاریخ ۱۱/ ماہ ذی الحجہ ۶۵۵ھ فرمایا کہ ہرچار مذہب برحق ہیں (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۱) اسی طرح اور بہت سے علماء ہیں جنھوں نے تقلید کو لازم قرار دیا اور خود مقلد ہوکر تقلید پر اجماع کا ثبوت دیا، چنانچہ کتب ستہ کے اکثر مصنّفین کسی نہ کسی امام کے مقلد تھے اور ان کے بہت سے بڑے علماء مقلد رہے ہیں جیسے: حافظ حدیث علامہ ان حجر رحمہ اللہ، شاہ عبد الرحیم دہلوی رحمہ اللہ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ، شیخ محمد طاہر پٹنی گجراتی وغیرہم ۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۷۷) ان حضرات کا اور ان کے علاوہ دیگر علماء کا تقلید کرنا اس بابت کی دلیل ہے کہ حضرات ائمہ اربعہ ہی کی تقلید ضروری ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں کے اقوال موجود ہیں، جن کو تطویل کے خوف سے ترک کیا جاتا ہے۔ والعاقل تکفیہ الاشارة۔

واللہ تعالیٰ اعلم

بشکریہ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


 
Top