اسماعیلی آغا خانی گروہ

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
syria14.jpg

یہ مقبرہ امام اسماعیل بن جعفرالصادق رضی اللہ تعالی کا ہے ، جو ملک شام میں ہے ،

امام اسماعیل بن جعفرالصادق 103 ھجری میں پیدا ہوئےاور 138 ھجری میں وفات پائی ،
وکیپیڈیا میں لکھا ہے ،
وکیپیڈیا سے

اسماعیلی ، اہل تشیع کا ایک تفرقہ ہے جس میں حضرت امام جعفر صادق(پیدائش 702ء) کی امامت تک اثنا عشریہ اہل تشیع سے اتفاق پایا جاتا ہے اور یوں ان کے لیۓ بھی اثنا عشریہ کی طرح جعفری کا لفظ بھی مستعمل ملتا ہے جبکہ ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ اکثر کتب و رسائل میں عام طور پر جعفری کا لفظ اثنا عشریہ اہل تشیع کے لیۓ بطور متبادل آتا ہے۔ 765ء میں حضرت جعفر الصادق کی وفات کے بعد ان کے بڑے فرزند حضرت اسماعیل بن جعفر (721ء تا 755ء) کو سلسلۂ امامت میں مسلسل کرنے والے جعفریوں کو اسماعیلی کہا جاتا ہے جبکہ حضرت موسی بن جعفر (745ء تا 799ء) کی امامت کو تسلیم کرنے والوں کو اثنا عشریہ کہا جاتا ہے۔ اسماعیلی تفرقے والے حضرت علی رضی اللہ تعالی کے بعد صرف حضرت حسین رضی اللہ تعالی کی امامت کے قائل ہیں اور یوں امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالی ان کے لیۓ اثنا عشریہ اہل تشیع کے برخلاف چھٹے نہیں بلکہ ؛ پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالی ، دوسرے حضرت حسین رضی اللہ تعالی ، تیسرے زین العابدین رضی اللہ تعالی اور چوتھے محمد الباقر رضی اللہ تعالی کے بعد پانچویں امام بن جاتے ہیں اور اسماعیل بن جعفر رضی اللہ تعالی چھٹے ؛ جن کے بعد محمد بن اسماعیل رضی اللہ عنہ (746ء تا 809ء) کو ساتویں امام کا درجہ دیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
AK-Museum-Alam-16thCentury.jpg

یہ فولاد سے بنا ہوا نقش اس پر تین نام لکھے ہوئے ہیں ، یا اللہ ، یا محمد یا علی ،جو کہ ہر زاویہ سے پڑھے جا سکتے ہیں ،
اس کو ہر کھانے کے برتن پر سجاوٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، اور اسے ہر تقریب میں سامنے لایا جاتا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ دور کے اسماعیلی اور ان کے کچھ افکار مشاھدہ کریں ، یہ ان کی تازہ تعلیمات ہیں جو کہ اسلام کی اساس سے ہٹ گئی ہیں ،

1:آغا خانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن ساری کائنات اور ہمیشہ کے لیے نہیں اترا تھا۔ وہ اپنے آغا خان کو چلتا پھرتا قرآن سمجھتے اور کہتے ہیں اور اس کی ہر بات کو اللہ کا حکم مانتے ہیں:

2:آغا خان نے خود کو سب کیے سامنے "اللہ کا مظہر" کہا ہے اور مظہر کا مطلب ہوتا ہے "رخ یا کاپی" اور اسماعیلی ِ۔ ۔ ۔ ۔ آغا خان کو سجدہ بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ توحید کی روح اور اصل متاثر ہوتی ہے۔

3: اسماعیلی ۔ ۔ ۔ نماز روزہ ، حج ادا نہیں کرتے بلکہ انہوں نے نماز کے بجائے دن میں تین بار چند مشرکانہ دعاؤں کو بدل لیا ہے اور آغا خان کے دیدار کو حج کے مترادف قرار دے دیا ہے

4: آغا خان جماعت خانہ میں عام لوگوں کے گناہ معاف کرتے ہیں اور اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ جن کے گناہ معاف کر دئیے گئے تو وہ قیامت کے دن پوچھ گچھ سے بچ جائیں گے

5:آغا خان کی بیٹی نے ایک عیسائی مبلغ سے شادی رچائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اسماعیلیوں پر غیر مسلموں سے شادی کے دروازے کھل گئے ہیں اور کئی آغا خانی لڑکیاں اسی وجہ سے غیر مسلموںسے شادی کر چکی ہیں۔

6: آغا خان نے اللہ کی حرام ٹھہرائی ہوئی کئیہ اشیا کو حلال قرار دے لیا ہے جیسے سود وغیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماعیلی فرقے کی عبادت والی عمارت کو ہر جگہ جماعت خانہ کہا جاتا ہے ، مسجد نہیں کہا جاتا ،

ریاست ٹورنٹو۔کینیڈا۔ میں ان کا سب سے بڑا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا ہے جس کا رقبہ 80 ہزار مربع فٹ ہے ،
اس میں ایک جماعت خانہ ، ایک لائبریری اور ایک عجائب خانہ ( میوزیم) بھی بنایا گیا ہے میٹنگ رومز، زمین دوز پارکنگ، دو منزلہ عمارت بنائی گئی ہے۔ اسے ایک جاپانی انجنیر نے اس کا ڈیزائن تشکیل دیا ہے ۔
Wynford-Park-Toronto-Designs025.preview.jpg

Wynford-Park-Toronto-Designs040%20Model.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان کا عبادت خانہ ہے ،( اسے غور سے دیکھیے کیا یہ مسجد سے مشابہت رکھتا ہے)۔ٹورنٹو۔(Toronto - Wynford Park)
میں یہ جگہ موجود ہے ،
Wynford-Park-Toronto-Designs039%20Prayer%20Hall.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.youtube.com/watch?v=AMOMEfq-m5Y
http://www.youtube.com/watch?v=ZNjpiuz6c0o&feature=related
پرنس عبدالکریم آغاخان اپنے دوستوں کے ساتھ ،
http://www.paklinks.com/gsmedia/files/50382/AgaKhan_GirlFriends.jpg

مزید تفصیل جلد آئے گی ۔
 

صدف

وفقہ اللہ
رکن
تواریخ میں اس فرقہ کا ذکر ملتا ہے تفصیل اور اختصار کے ساتھ۔
لیکن بے باک صاحب نے جو اختصار یہاں پیش کیا ہے اس کے متعلق
یہی کہا جا سکتا ہے۔ع مدعی لا کھ پہ بھاری ہے گواہی میری

یقین نہیں آتا تو ویڈیو چلا کر دیکھ لیں۔
محترم بزرگ کی خدمت میں عرض ہے مزید تفصیل عنایت فر مائیں
 

جذبہ

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ بے باک بھائی، بہت اچھی شیئرنگ ہے۔
اُمید ہے کہ اس کے متعلق بہت کچھ نیا بھی پیش کیا جائے گا۔
 

گلاب خان

وفقہ اللہ
رکن
بہت خوب بےباک صاحب ، آپ نے زبردست معلومات دیں ، ماشاء اللہ جناب ، جاری رکھیے یہ سلسلہ ، جزاک اللہ جناب
 

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
علامہ نصیر الدین ناصر سے انٹرویو ،

اوپر جو تصاویر آپ نے دیکھی ہیں ،جس میں خواتین کے قدم بوسی کے مناظر ہیں وہ اسماعیلی رھنماء علامہ نصیر الدین ناصر ھنزی کی ہیں اور اسماعیلی فرقے کے بارے اس کا ایک خاص انٹرویو مشاھدہ فرمائیں ۔








اسماعیلی گروہ کا قصیدہ ، اسماعیلی فرقے کے پیشوا کے استقبال کے لیے پڑھا جاتا ہے ،
خود ان کی زبان سے سنیے ، ان کے الفاظ پر غور کریں ،

پارٹ 1:
http://www.youtube.com/watch?v=J01vBwVz0lo&feature=related
پارٹ 2:
http://www.youtube.com/watch?v=6hc8mWYzGLM&feature=related
 

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
بےباک جی بہت دلچسپ اور بہت زبردست ہے
جوں جوں پڑھیں دلچسپی بڑھ رہی ہے ۔ امید ہے مزید شیئرنگ جاری رکھیں گے ۔۔۔تھینکس
 

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
شجرہ نسب اسماعیلیہ

1. Alī ibn Abī Ṭālib
2. Husayn
3. ʿAlī Zayn al-ʿĀbidīn
4. Muḥammad al-Bāqir
5. Jaʿfar aṣ-Ṣādiq
6. Ismāʿīl
7. Muhammad
8. Wafi Ahmad
9. Taqi Muhammad
10. Razi Abdullah
11. ʿUbaydullāh al-Mahdī billāh
12. Muḥammad al-Qāʾim bi-ʾAmrillāh
13. Ismāʿīl al-Manṣūr
14. Maʿād al-Muʿizz li-Dīnillāh
15. Abū Manṣūr Nizār al-ʿAzīz billāh
16. Al-Ḥakīm bi-Amrillāh
17. ʿAlī az-Zāhir li-Iʿzāz Dīnillāh
18. Abū Tamīm Ma'add al-Mustanṣir bi-llāh
19. Nizār ibn al-Mustanṣir billāh
20. Al-Hādī
21. Al-Muhtadī
22. Al-Qāhir
23. Hasan ala-dhikrihi as-Salaam (Hasan II)
24. Nūru-d-Dīn Muḥammad II
25. Jalālu-d-Dīn Ḥassan III
26. ʿAlāʾu-d-Dīn Muḥammad III
27. Ruknud-Dīn Khurshāh
28. Shamsuddin Muhammad
29. Qāsim Shāh
30. Islām Shāh
31. Muḥammad ibn Islām Shāh
32. Mustanṣir billāh II
33. ʿAbdu-s-Salām Shāh
34. Gharīb Mīrzā / Mustanṣir billāh III
35. Abū Dharr ʿAlī Nūru-d-Dīn
36. Murād Mīrzā
37. Dhu-l-Fiqār ʿAlī Khalīlullāh I
38. Nūru-d-Dahr (Nūru-d-Dīn) ʿAlī
39. Khalīlullāh I ʿAlī
40. Shāh Nizār II
41. Sayyid ʿAlī
42. Ḥassan ʿAlī
43. Qāsim ʿAlī (Sayyid Jaʿfar)
44. Abu-l-Ḥassan ʿAlī (Bāqir Shāh)
45. Shāh Khalīlullāh III
46. Ḥassan ʿAlī Shāh Āghā Khān I
47. Āqā ʿAlī Shāh Āghā Khān II
48. Sulṭān Muḥammad Shāh Āghā Khān III
49. Shāh Karīmu-l-Ḥussaynī Āghā Khān IV grandson of Aga KhanIII​
 

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
اسماعیلیہ فرقہ کیسے بنا ، اس پر ایک جگہ ایک مضمون ملا ہے جسے کسی شیعہ نے ہی ترتیب دیا ھے ، آپ اس کو یہاں سے مطالعہ کر لیں ۔
اسماعیلیہ شیعہ اوران کے مختلف فرقے
امام ششم حضرت جعفر صادق علیہ السلام کے ایک بیٹے جن کا نام اسماعیل تھا اوروہ امام جعفر صادق(ع) کی اولاد میں سب سے بڑے تھے (۲)،نے اپنے والد کی زندگی میں ھی وفات پائی تھی ۔خود حضرت امام جعفر صادق(ع) نے اسماعیل کی وفات کی گواھی دی تھی اور حتیٰ کہ حاکم مدینہ نے بھی اس گواھی کی تصدیق کی تھی کہ اسماعیل فوت ھوچکے ھیں مگر بعض لوگوں کا ایمان او راعتقاد تھا کہ وہ فوت نھیں ھوئے بلکہ غائب اور روپوش ھوگئے ھیں اور اسی لئے دوبارہ ظاھر ھوں گے اور وھی مھدی موعود بھی ھوں گے ۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ اسماعیل کی وفات کے بارے میں امام ششم(ع) کی گواھی ایک قسم کی پردہ پوشی ھے جو جان بوجھ کرعباسی خلیفہ منصور کے خوف سے دی گئی ھے ۔ اسی طرح بعض لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اگرچہ اسماعیل اپنے والد کی زندگی میں ھی فوت ھوگئے ھیں لیکن امامت پھر بھی انھی کا حق ھے اور اسماعیل کی وفات کے بعد یہ امامت خود بخود ان کے بیٹے محمد اور پھر ان کی اولاد میں منتقل ھوگئی ھے ۔
مجموعی طور پر اسماعیلیوں کافلسفہ ایک ایسا فلسفہ ھے جو ستارہ پرستوں کے فلسفے سے مشابھت رکھتا ھے اور یہ فلسفہ در حقیقت ھندی عرفان اور تصوف کے ساتھ گھل مل گیا ھے۔ اسی طرح قرآنی معارف اور اسلامی احکام کے بارے میں بھی ان کا ایمان ھے کہ ھرظاھر کے لئے ایک باطن اور ھرباطن کے لئے ایک ظاھر موجود ھے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ تنزیل کے لئے ایک تاویل پر بھی ایمان رکھتے ھیں ۔
اسماعیلیوں کا ایمان اور اعتقاد یہ ھے کہ یہ دنیا ھرگز حجت خدا سے خالی نھیں ھوتی او ر خدا کی حجت دوطرح کی ھوتی ھے ۔ ایک ناطق اور دوسری صامت ، حجت ناطق تو خود پیغمبر ھوتے ھیں او ر حجت صامت (خاموش )ولی یا امام ھوتے ھیں جو پیغمبر کے جانشین او روصی ھیں ۔ بھر حال حجت ، خدائے تعالی کی ربوبیت اور خدائی کامظھر ھے ۔
حجت کی بنیاد ھمیشہ سات کے عدد کے ارد گرد گھومتی ھے اس طرح کہ ایک نبی یا رسول آتا ھے جس کوخدا کی طرف سے نبوت (شریعت)اورولایت ملی ھوتی ھے اوراس کے بعد اس پیغمبر کے سات جانشین ھوتے ھیں جن کو ولایت ملتی ھے ۔ ان سب جانشینوں کاایک ھی درجہ یا مقام ھوتا ھے ، سوائے اس کے کہ ساتواں جانشین نبی بھی ھوتاھے ۔ اس کے تین درجے ھیں یعنی نبوت ، جانشینی او رولایت۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جانشینی کاسلسلہ شروع ھوجاتا ھے اور پھلے کی طرح سات جانشین ھوتے ھیں۔ ساتواں جانشین ان تینوں مقامات او ر درجات کا حامل ھوتا ھے او ر یہ سلسلہ اسی نھج اور طریقے پر چلتا رھتا ھے اور کبھی ختم نھیں ھوتا ۔ اسماعیلی کھتے ھیں کہ حضرت آدم(ع) نبوت اور ولایت کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے تھے اوران کے سات جانشین تھے جن میں سے ساتویں حضرت نوخ(ع) تھے اور حضرت ابراھیم(ع)کے ساتویں جانشین حضرت موسیٰ (ع) تھے ۔ حضرت موسیٰ (ع)کے ساتویں جانشین حضرت عیسیٰ(ع) تھے اور حضرت عیسیٰ(ع) کے ساتویں جانشین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔ اور اسی طرح حضرت محمد کے ساتویں جانشین محمد بن اسماعیل تھے ۔ حضرت محمد کے جانشین بالترتیب حضرت علی(ع) ، حضرت امام حسین(ع) ، حضرت علی بن حسین(ع) (زین العابدین )، حضرت امام محمد باقر (ع)، حضرت امام جعفر صادق (ع) ، حضرت اسماعیل اور حضرت محمد بن اسماعیل ھوتے ھیں (یہ لوگ دوسرے امام یعنی حضرت امام حسن(ع)بن علی(ع) کواپنا امام نھیں مانتے )۔ محمد بن اسماعیل کے بعد ان کی اولاد سے سات افراد جانشین ھیں جن کا نام پوشیدہ ھے ۔ اس کے بعد فاطمی بادشاھوں میں سے پھلے سات افراد جن میں سب سے پھلے عبد اللہ مھدی تھے جو فاطمی سلطنت کے بانی ھوئے ،جانشین تھے ۔
اسماعیلیوں کا اعتقاد اور ایمان ھے کہ خداوندتعالیٰ کی طرف سے ھمیشہ روئے زمین پر بارہ افراد موجود رھتے ھیں جن کو ” حواری یا خواص یاحجت “ کہا جاتا ھے لیکن اسماعیلیوں کے بعض فرقے (دروزیہ یا باطنیہ )ان کی تعداد چھ بتاتے ھیں اور باقی چھ افراد کو اماموں میں سے لیتے ھیں ۔
۲۷۸ ھ میں(افریقہ میں عبیداللہ مھدی کے ظھور سے چند سال پھلے )خوزستان کے صوبے میں ایک شخص جس نے اپنا کبھی نام اور پتہ نھیں بتایا تھا ، کوفہ کے گرد و نواح میں ظاھر ھوا ۔ یہ شخص دن کو روزہ رکھا کرتا تھا اوررات کو عبادت میں گزار دیا کرتا تھا ۔ اپنے ھاتہ سے روزی کماکر کھاتا تھا ۔ساتھ ھی ساتھ عوام کو مذھب اسماعیلیہ کی دعوت دیا کرتا تھا ۔ اس کی تبلیغ کے ذریعے بھت سے لوگ اسکے گرد جمع ھوگئے تھے ۔ اس نے اپنے پیروکاروں میں سے بارہ افراد کو اپنے ” نقیب “ یعنی مبلغ کے طور پر منتخب کرلیا تھا اور خود کوفہ سے شام کی طرف چلا گیاتھا اس کے بعد اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نھیں چلا ۔
اس ناشناختہ شدہ شخص کے بعد ایک شخص بنام احمد جو قرمط کے نام سے مشھور ھوا ، عراق میں اس کا جانشین بنا۔ اس نے باطنیہ مذھب کی تبلیغ شروع کی او رجیسا کہ مورخین نے لکھا ھے کہ اس نے پنجگانہ نماز کے مقابلے میں ایک نئی نماز شروع کی تھی۔ اس نے غسل جنابت کو باطل اور منسوخ کردیا تھا اورشراب کو حلال اور جائز قرار دیا تھا۔ اسی دوران باطنیہ فرقے کے بعض دوسرے افرادنے بھی اس مذھب کی تبلیغ جاری رکھی اور ایک جماعت کو اپنا گرویدہ اور پیروکار بنالیاتھا ۔
یہ لوگ ان افراد اور اشخاص کے جان و مال کا کچھ احترام نہ کرتے تھے جو باطنیہ فرقے کو نھیں مانتے یا اس کے قائل نھیں تھے ۔ اسی طرح انھوں نے مختلف شھروں یا ملکوں مثلا ً عراق ، بحرین ، یمن اور شام (آج کل کے شام ، لبنان ، فلسطین ، اسرائیل اور اردن وغیرہ سارے علاقے کو شام کھا جاتا تھا )میں اپنی اس تحریک کو مضبوط اور جاری رکھ کر بے اندازہ لوگوں کا قتل عام کیا تھا۔ وہ ان کے مال و متاع کو لوٹ لیا کرتے تھے ، انھوں نے بارھا حاجیوں کے قافلوں پر حملے کئے اور ھزاروں انسانوں کوموت کے گھاٹ اتار کے ان کے مال اور سامان سفر کو لوٹاتھا ۔
باطنیہ فرقے کے سرداروں اور سرکردہ لوگوں میں سے ایک شخص ابوطاھر قرمطی تھا ، جس نے ۳۱۱ ھ میں بصرہ پر قبضہ کرلیا اور لوگوں کے مال کو لوٹنے اور ان کو قتل کرنے میں ذرہ برابربھی دریغ نہ کیا تھا ۔ وہ شخص ۳۱۷ھ میں باطنیہ فرقے کی ایک بھت بڑی فوج لے کر حج کے زمانے میں مکہ معظمہ گیا اور وھاں کی حکومت کی طرف سے مختصر سی رکاوٹ کو ختم کرکے مکہ شھر میں داخل ھوگیا وھاںاس نے مکہ معظمہ کے عوام اور تازہ وارد حاجیوں کا قتل عام شروع کردیا حتیٰ کہ مسجد الحرام اور خانۂ کعبہ میں خون کی ندیاں بھادیں ۔ اس نے خانۂ کعبہ کے پردے کو پھاڑ کر اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرکے خانۂ کعبہ کو ڈھا دیا اور حجراسود کو خانۂ کعبہ کی دیوار سے نکال کر اپنے ساتھ یمن لے گیا جوبائیس سال تک قرمطیوں کے قبضے میں رھا ۔
انھی واقعات اور حوادث کی وجہ سے مسلمانوں نے باطنیہ فرقے سے منہ موڑلیااور ان کو دین اسلام سے خارج یعنی کافر سمجھنے لگے یھاں تک کہ عبیداللہ مھدی فاطمی جومصرمیں ظاھر ھوا اوراپنے آپ کو مھدی موعود اور اسماعیلیوں کاامام کھا کرتا تھا ، نے بھی قرمطیوں سے بیزاری کا اعلان کردیا تھا ۔
مورخین کے بیانات کے مطابق باطنیہ فرقے کا مذھبی تشخص یہ ھے کہ اس فرقے کے افراد ظاھری قوانین اور دینی احکام کی تفسیر، باطنی اور روحانی طریقے سے نیزعرفانی تاویل کرتے ھیں اور ظاھری شریعت کو صرف انھی لوگوں سے مختص جانتے ھیں جو کم عقل اورمعنوی کمال سے بے بھرہ ھوتے ھیں اور یہ حکم بعض اوقات ان کے اماموں سے صادر ھوا کرتا ھے ۔




،یہ اس کا لنک ہے ،
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=9422
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن بن صباح ۔۔۔515ھ / 1124ء میں پیدا ہوا تھا ، بھی ایک اسماعیلی ہی تھا ، عبدالحلیم شرر نے اس پر ایک کتاب لکھی تھی ،فردوس بریں ، وہ حسن بن الصباح کی جعلی بنائی ہوئی جنت پر ہی تھی ،

اسماعیلہ فرقے کی ایک دہشت پسند اور خفیہ جماعت کا بانی ۔ قم ’’مشرقی ایران‘‘ میں پیدا ہوا۔ باپ کوفے کا باشندہ تھا۔ 1071ء میں مصر گیا اور وہاں سے فاطمی خلیفہ المستنصر کا الدعاۃ بن کر فارس آیا۔ اور یزد ، کرمان ، طبرستان میں فاطمیوں کے حق میں پروپیگنڈے میں مصروف ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ نظام الملک اور عمر خیام کا ہم سبق تھا۔ مگر بعد میں نظام الملک سے اختلاف ہوگیا تھا۔ چنانچہ ملک شاہ اول نے اس کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ اس نے 1090ء میں کوہ البرز میں الموت کے قلعے پر قبضہ کر لیا جو قزوین اور رشت کے راستے میں ہے۔ کئی دوسرے قلعے بھی اسماعیلیوں کے قبضے میں میں آگئے۔ 1094ء میں مصر کے اسماعیلیوں سے قطع تعلق کرلیا۔ اپنے آپ کو "شیخ الجبال" نامزد کیا اور قلعہ الموت کے پاس کے علاقے میں چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کر لی ۔ پھر اپنے پیروؤں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ اس میں داعی اور فدائی بہت مشہور ہیں۔ فدائیوں کا کام تحریک کے دشمنوں کو خفیہ طور پر خنجر سے ہلاک کرنا تھا۔ بہت سے مسلمان اور عیسائی فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ دہشت انگیزی کی یہ تحریک اتنی منظم تھی کہ مشرق قریب کے سبھی بادشاہ اس سے کانپتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ حسن بن صباح اپنے فدائیوں کو حشیش ’’گانجا‘‘ پلا کر بیہوش کر دیتا تھا اور پھر انھیں فردوس کی سیر کراتا تھا۔ جو اس نے وادی الموت میں بنائی تھی۔ حسن بن صباح نے طویل عمر پائی اور اس کے بعد بزرگ امیر اُس کا ایک نائب اس کا جانشین ہوا۔ اس جماعت کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ جس نے قلعہ الموت کو فتح کرکے حسن بن صباح کے آخری جانشین رکن الدین کو گرفتار کرلیا اور ہزاروں فدائیوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا۔
 

اویسی

وفقہ اللہ
رکن
اس جماعت کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ جس نے قلعہ الموت کو فتح کرکے حسن بن صباح کے آخری جانشین رکن الدین کو گرفتار کرلیا اور ہزاروں فدائیوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے شاید اسی جماعت کے ظلم کے خاتمہ کیلئے ہلاکو خان کو بھیجا تھا۔
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ چاچاجی آپ نے بہت مہنت سے کام کیا ہے اور ہم سب تک سچائی پہنچائی اللہ جی آپ کو مزید توفیق دیں آپ ان سب کا پردہ پاش کر سکو آمین
 
Top