ایک گمنام درویش صفت ادیب وشاعر

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ایک گمنام درویش صفت ادیب وشاعر

میرے استاذحضرت مولانااطہرحسین کی شخصیت پرمولاناواضح رشیدندوی کااہم مضمون

حضرت مولانا محمدواضح رشیدحسینی ندوی ،دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
مولانا اطہر حسین صاحب استادادب عربی کی حیثیت سے معروف تھے لیکن ان کے انتقال پر تذکرہ نگاروں نے ان کی جو خصوصیات اورشخصی کمالات بیان کئے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بڑی جامع شخصیت کے مالک تھے ، وہ ادیب ،شاعر ،فقیہ، مدرس ،مصنف اورروحانی قوت اورزاہدانہ طبیعت کے مالک تھے ان کی سب سے بڑی خصوصیت تواضع وانکساری بیان کی جاتی ہے اوراظہاروریاء سے انتہائی احتیاط اوراختلاط سے پرہیزاور تنہائی پسندی ،خوف خدا کا غلبہ ۔
مولانا اطہر حسین صاحب ابتدائی تعلیم وتربیت ان کے والد محترم مفتی سعید احمد صاحب کی نگرانی وسرپرستی میں ہوئی ،ان کے انتقال کے بعد ان کے برادرِ اکبر مفتی مظفر حسین صاحب نے جو خودم فتی سعید احمد صاحب کی تربیت میں رہے تھے ،تربیت فرمائی ،مولانا کی عزلت پسندی اورزہد وتواضع کا تذکرہ خصوصی طورپرکیا گیا ہے ، یہ صفت غالباً ان کے والد محترم مولانامفتی سعید احمد صاحب کی تربیت کا نتیجہ تھی ،اس لئے کہ خود مولانا سعید احمد صاحب کی زندگی بھی اسی نہج پر تھی ۔
۱۹۵۳ء کی بات ہے ،رمضان المبارک مئی جون کی سخت گرمی میںپڑا تھا ،حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری کی صحت اورضعف کے پیش نظربہٹ کے شاہ مسعود صاحب نے حضرت کے آرام کے خیال سے منصوری میں ایک کوٹھی جو تھنت لاج کے نام سے موسوم تھی ،کرائے پر لی اوروہیں رمضان المبارک میں حضر ت کیلئے قیام کیلئے انتظام کیا ،اس میںحضرت اوران کے خدام اورجو اہل تعلق وارادت مند آتے تھے اورجتنی مدت کیلئے آتے قیام کرکے واپس ہوجاتے یہ سلسلہ پورے مہینہ جاری رہا ،قیام کے دوران حسب حیثیت اورتوفیق وہاں کے معمولات کی پابندی کی جاتی ۔
اس ناچیز کو بھی حضرت شیخ الحدیث محمد زکریاصاحب کاندھلویؒ مہاجرمدنی اوربڑوں کے مشورے سے رمضان المبارک حضرت اقدس راے پوری کی خدمت میں گذارنے کی سعادت حاصل ہوئی ،اس مدت میں خال معظم حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف لائے اورچند ایام قیام فرمایا ، استاذگرامی مولانا عبد اللہ عباس صاحب ندوی اورلکھنؤکے دوسرے اہل تعلق تشریف لائے ،کبھی کبھی اہل علم وادب کا اجتماع ہوتا ،علمی ادبی نشست کسی گوشہ میںہوجاتی تھی ۔
اس قیام کی مدت میں ایک بزرگ کی اکثرزیارت ہوتی تھی جن کا پورے مہینہ قیام رہا ان کو ہم دیکھتے تھے کہ وہ رمضان کے معمولات میں ہر وقت مشغول رہتے ہیں ،حضرت اقدس رائے پوری کی مجلس کے علاوہ کسی مجلس میں یا کسی علمی گفتگو میں شرکت نہیں کرتے یا توتلاوت یانوافل یاذکر میں مشغول رہتے ہیں کوئی مسئلہ کسی کو پوچھنا ہوتا تو ان سے ہی رجوع کرتا تھا وہ دوسروں کو تاکیدکرتے تھے کہ وقت ضائع کرنے سے بچیں اورکسی کو تفریحی گفتگومیں مشغول دیکھتے تو ناگواری ظاہر کرتے وہ عام مہمانوں سے الگ رہتے ،دینی اشغال میں مشغول رہتے ،اسی طرح رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچا ،۲۹؍رمضان کو رؤیت ہلال کے مسئلہ میں اختلاف ہوا تو سہارنپورسے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاصاحب نے ہدایت فرمائی کہ مفتی صاحب جو فرمائیں اسی پر عمل کیا جائے ۔
یہ بزرگ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب تھے ،مفتی سعید احمد صاحب کی اس مشغولیت کا منظر اور رمضان المبارک کا یہ اہتمام ابھی تک ہماری نگاہوں میں ہے ۔
نفح المشموم في مدح مظاھر علوم میں خود مولاناا طہر حسین صاحب نے مفتی سعید احمد صاحب کے ترجمہ میں لکھا ہے :
’’کان رحمہ اللّٰہ وعاً تقیاً ،قانعاً بالکفاف ، زاھداً عن الدنیا،لا یمیل الی زخارفھا، بعیدا عن الریاء والسمعۃ ، وحب المال والجاہ ،وترک الضیعۃ لاقاربہ ولم یستفدمنھا، وکان طیب السریرۃ،حسن الأخلاق،مواظباً علی الأذکار،والتھجد فی اللیل ، حاد الذھن، عمیق الفکر ،دقیق النظر،حاذقاًبالمعتدل والمنقول ،فقیھاً متبحراً، واسع الاطلاع علی الفتاویٰ۔
آپ متقی اورپرہیزگار،دنیااوردنیا کی آرائش وزیبائش سے بے نیاز ،بقدر کفا ف پر قانع ،نمود ونمائش ، جاہ ومنصب اورمال ودولت کی محبت سے دور تھے ،زمین وجائداداپنے رشتہ داروں کو دیدی تھی اوراس سے ذر ابھی فائدہ نہیں اٹھایا،آپ پاکبازوپاک طینت ،حسن اخلاق اورحسن کردارکے مالک تھے ،ذکر واذکارکے پابنداورشب بیدار تھے ،آپ کا ذہن انتہائی تیز،فکر عمیق اورنظر دوررَس تی ، معقولات ومنقولات میں آپ کو بڑا درک حاصل تھا ،فقہ وفتاویٰ میںبڑی مہارت اوروسیع نظر رکھتے تھے ‘‘
آخرمیں لکھتے ہیں
’’وکان رحمہ اللّٰہ یحب السذاجۃ فی المأکل والمشرب والملبس ، ویعمل أعمال البیت بنفسہ ولا یستخدم عامۃ، وتارۃ یخصف النعل ویقطع الثیاب ویخبزویطبخ عندالضرورۃ۔
(مرحوم کھانے پینے اورلباس میں سادگی پسند فرماتے تھے ،آپ گھرکے کام کاج خود کرلیا کرتے تھے ،عام طورپرکسی سے مدد نہیں لیتے تھے اوربسا اوقات ضرورت کے وقت اپنے جوتے گاٹھ لیتے ، کپڑے سل لیتے اورکھانا بھی خود پکالیتے تھے )۔‘‘
اس تذکرہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا اطہر حسین صاحب کی تربیت کس ماحول میں ہوئی اوران کے والد محترم کا کیا ذوق اورمعیار تھا نیز مذکورہ بالا عبارت سے مولانااطہر حسین صاحب کی عربی نثر کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ایک خصوصیت جو اس خاندان میں مشترک طورپر پائی جاتی ہے وہ فقہ سے تعلق اوراس میں رسوخ ہے ، مفتی سعید احمدصاحب کے بعدمفتی مظفر حسین صاحب اوران کے بعدمولانا اطہر حسین صاحب بنیادی موضوع فقہ رہا ہے اس موضوع پر ان کی تصنیفات بھی ہیں۔
فقہ سے علمی اشتغال کے ساتھ مولانا اطہرحسین صاحب کا ادب کی طرف طبعی میلان تھا ،یہ رجحان غالباً مولانا اسعداللہ صاحب رامپوری ؒ ناظم مظاہر علوم سے استفادہ اورتاثر کی بناء پر تھا جو مولانا اسعد اللہ صاحب کے سارے شاگردو ںمیںپایا جاتا ہے ،مولانا اسعد اللہ صاحب عربی ،اردو اورفارسی ادب کابہت ہی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے ،ان کی مجلسوں میں اس کااظہار ہوتا تھا ۔
مولانا اطہر حسین صاحب کی ایک دوسری خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے فقہ اورادب کو جمع کیا جب کہ اہل ادب اس اجتماع کے قائل نہیں ہے ۔
ادب اورخاص طورسے شعر سے اشتغال رکھنے والا عزلت پسند نہیں ہوسکتا وہ عوام وخواص سے اختلاط اوراپنے فن کی دادحاصل کرنے کا طالب ہوتا ہے ،روحانی تربیت یا مزاجی کیفیت یا وراثتی اثرات کی بناء پر مولانا اطہر حسین صاحب باوجود بڑے ادیب اورمطبوع شاعر ہونے کے عزلت پسند تھے اوراپنے اس ذوق اوردلچسپی کااظہار کرنے سے گریز کرتے تھے ۔
کبھی کبھی مولانا اطہر حسین صاحب پر ادبی مزاج غالب آجاتا تھا جیسا کہ مولاناجاوید اشرف میرٹھی ندوی نے ماہنامہ ارمغان میں (ج:۱۵،شمارہ:۸،اگست ۲۰۰۷ء )اپنے مقالہ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ اسی سال (۱۴۲۷ھ)حج کے بعد جب مرحوم مدینہ منورہ تشریف لائے تھے تو مجھ سے فرمانے لگے ’’مولوی جاوید !ہم ایک بدو کی ٹیکسی میں بیٹھے تو ہم نے اس کو عربی اشعارسنانے شروع کئے وہ حیرت میں پڑگیا اوراشعار کی فصاحت وبلاغت سے مرعوب ہوگیا اس کی حیرت سب سے زیادہ اس بات سے تھی کہ ہندوستان کا رہنے والا ایک شخص اس قدر قوی الحافظہ اورعربی زبان وادب کا ماہر ہے کہ روانی کے ساتھ اس کی زبان پر اشعار جاری ہیں ‘‘۔
مولانا اطہر حسین صاحب کی عزلت پسندی اورعلم وفن کے اخفاء کی ایک دلیل یہ ہے کہ سہارنپورحضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاصاحب کی خدمت میں حاضری کی غرض سے اس ناچیزکا اکثر جاناہوتا تھا اورکئی کئی دن قیام رہتا تھا، رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں حاضری کا معمول تھا ،خال معظم حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی ؒ کے ساتھ بھی متعددبارحاضری ہوئی ،قیام کے دوران مہمان خانہ میں قیام رہتا اورمدرسہ کے اکابر خاص طورسے مولانا اسعد اللہ صاحب اورمفتی مظفرحسین صاحب سے نیا ز حاصل کرنے کا موقع ملتا تھا، حضرت شیخ کے وصال کے بعد بھی کئی بار حاضری ہوئی ،مفتی مظفر حسین صاحب ہمیشہ بڑی محبت سے پیش آتے تھے ،اجراڑہ کے جامعہ کے جامعہ گلزار حسینیہ کے سالانہ پروگرام میںمولانا عبد اللہ مغیثی صاحب کی دعوت پر اوربرادر گرامی قدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کی معیت میں کئی بار حاضری ہوئی ،مفتی مظفر حسین صاحب تشریف لائے اوران سے ملاقات ہوئی اورمظاہر علوم کے اکثراساتذہ سے بھی ملاقات کاموقع ملتا تھا مگر مولانا اطہرحسین صاحب کے اس ادبی ذوق اورشاعری کا علم نہ ہوسکا ،اس کاعلم اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنا منظوم رسالہ ’’نفح المشموم فی مدح مظاھر علوم ‘‘ارسال فرمایا یہ گذشتہ سال کی بات ہے میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چند سطورتاثراتی تحریرکیں اگر چہ اس رسالہ پر اس سے قبل استاذ گرامی مولانا عبد اللہ عباس ندوی صاحب سابق معتمد تعلیم ندوۃ العلماء اپنا تاثرتحریر فرماچکے تھے اورمتعدداہل علم اورایک عرب عالم کی بھی رائے اس میں شامل تھی لیکن مولانا اطہر حسین صاحب نے اس ناچیزکی چند سطروںپر بڑی مسرت کااظہار فرمایا اوراس کا اپنے حلقہ میں ذکر کیا جس کا تذکرہ مولوی جاوید اشرف میرٹھی ندوی نے ارمغان میں اپنے مضمون میں کیا ہے ،یہ میرے لئے شرف کی بات ہے ،میں نے زبان کی سلاست کے اعتراف کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ عربی ادب میں تاریخی شاعر ی کی مثالیںکم ملتی ہیں ،ایک قصیدہ عباسی شاعر عبد اللہ بن معتزکاہے جو خلفاء عباسیہ کے تذکرہ میں ہے جو خلفاء عباسیہ کے تذکرہ میں ہے اورایک ارجوزہ ابن عبدربہ کا خلفاء بنی امیہ کے تذکرہ میں ہے تاریخ ادب عربی میں ان دونوں قصیدوں کا ذکرآتا ہے ۔
مولانااطہرحسین صاحب نے اسی قصیدہ میں صرف علماء سہارنپورہی کا تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ ندوۃ العلماء اوراس کے اکابرکابھی تذکرہ کیا ہے ،خاص طورعلامہ شبلی نعمانی اورسید سلیمان ندوی کا ،اس میں صرف علماء اوراصحاب تصنیف کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں دین تعلیم کی تاریخ آگئی ہے ،اہم مصنفین کا تذکرہ اوراہم شروح وحواشی خاص طورپرحدیث کی کتب کی تحقیق اس طر ح یہ قصیدہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ،یہ قصیدہ ۱۴۲؍اشعارپر مشتمل ہے اس کامطلع یہ ہے ۔
الحمد للہ العلی الأمجد
ذی الفضل والنعم البوادی العوِّد
مولانا اطہر حسین صاحب کادوسرا قصیدہ ’’عقد النجوم فی جید دارالعلوم ‘‘علماء دیوبند کے تذکرہ میں ہے یہ قصیدہ پچاس شعروں پر مشتمل ہے اس کامطلع یہ ہے ۔
ذکر الصبا وحدیث عھد حذام
أذکی نیار تشوق وغرام
اس طرح مظاہرعلوم ،دارالعلوم دیوبنداورندوۃ العلماء کے مشاہیرکا تذکرہ ان دونوں قصیدوںمیں آگیا ہے ۔
قصیدہ میں اشخاص اوراداروں کا تعارف حاشیہ میں آسان نثر میں ہے اس سے مولانا کی نظم ونثرعربی میں مہارت کا ثبوت ملتا ہے ۔
مولانااطہر حسین صاحب صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ان کو عربی اشعار کثرت سے یاد تھے ایک تذکرہ میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی نے ان کے اشعار کے علم اورحفظ شعر کو سنا تو تعجب کا اظہار فرمایا ۔
سہارنپورکے تعلق سے مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپورکی شاعری اورشعر عربی کی تحقیق وتشریح کا تذکرہ کیاگیا ہے ،تاریخ ادب پر کام کرنے والوں کو اس فہرست میں مولانا اطہر حسین صاحب کو شامل کرنا چاہیے ۔
مولانا اطہر حسین صاحب صرف عربی ادب کے مدرس اورشاعر ہی نہیں تھے ۔بلکہ ادب عربی پر ان کی متعدد کتابیں بھی ہیں ۔
(۱) بہجۃ الادب (۲) نخبۃ البیان (۳)حریری ومقاماتہ (۴)البیان المطرب فی انتخاب المغرب (یہ کتاب لغوی مباحث پر مشتمل ہے )(۵)عطرالورود (۶)جھینۃ الأحبار۔
اس طرح وہ اعلیٰ مدرس ،شاعر اورمؤلف تھے ،تدریس ،تخلیق اورتالیف کااجتماع کم ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ فقیہ اورروحانی شخصیت کے مالک تھے ان کے کشوف وکرامات کا ذکر بھی ان کے تذکرہ نگاروں نے تفصیل سے کیاہے ،مولانااطہر حسین صاحب کی خشیت کا یہ حال تھا کہ اس سال جب حج کے لئے تشریف لے جانے لگے تو سفر کی شب میں ٹیلی فون پر اس ناچیز نے حج کی مبارک باد دی اوردعا کی درخواست کی تو مولانا رقت آمیز اورخوف ودہشت کے لہجہ میں صرف یہ کہتے رہے کہ دعاکیجئے کہ حج ہوجائے دعاکیجئے کہ حج ہوجائے اہل اللہ کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی عبادت کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں کہ قبول ہونے کے قابل ہے یا نہیں۔
عزلت کی زندگی گزارنے کی وجہ سے ایک نقصان یہ ہوا کہ ان کی ذات سے جتنا فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا وہ اٹھایانہ جاسکا اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اورپسماندگان کو خاص طورپرخلف صالح مولانا محمد سعیدی صاحب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اورمظاہر علوم وقف کو ایسی جامع شخصیت کے رحلت فرمانے سے جونقصان ہوا ہے اس کا بہترین بدل عطافرمائے (آمین)
 
Top