فری میسن یہودی سازش حقیقت کے آئینہ میں(قسط۳)

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
فری میسن یہودی سازش حقیقت کے آئینہ میں(قسط۳)

ترتیب وتحقیق:مفتی ابولبابہ شاہ منصور
حا شیہ:مفتی مہربان علی شاہ بڑتوی
ہیشکش:ناصرالدین مظاہری
ریشنلائزیشن کا دوسرا طریقہ ڈیموکریٹائزیشن ہے ۔
اس کا مفہوم ہے نظم معاشرت کو اوربطور خاص سیاست مدنیہ کو عامی بنانا ، اس کا مطلب نہ تو قطعاً آمریت کا خاتمہ کرنا ہے اورنہ عوام الناس کی رائے کا احترام کرنا بلکہ اس کا مطلب ہے معاشرے کے ذہین ، صاحب علم اورذمہ دار افراد یعنی اسلامی اصطلاح میں اہل الرائے اوراہل فتویٰ کو بے دخل کرکے ایک ایسی عام عوامی یا جمہوری تنظیم قائم کرنا جس کے پردے میں یہودی ساری دنیا پر اپنی آمریت قائم کرسکیں ، ڈیموکریٹائزیشن کا نصب العین ڈیمو کریسی یعنی آج کل کی اصطلاح میں جمہوریت قائم کرنا ہے جو ریشنلزم کی دوسری بنیادی شرط ہے ، جمہوریت کا نعرہ بظاہر بڑا دلکش ،سحرانگیز اورانصاف پر ور ہے ، غریب اورامیر برابر ہوں،جاہل اورعالم یکساںہوں ، نہیں بلکہ جہلاء اورعوام امیروں پر بھی سبقت لے جائیں ، ہر انسان کے حقوق مساوی ہوں ، ہرانسان انسان ہے ، اس لئے اسے اپنی حکومت اپنی قوم اوراپنے ملک کے معاملات میں حصہ ملنا چاہیے ، کوئی مذہب ، کوئی سیاسی نظام ، کوئی عدل ، کوئی انصاف اس حق کو چھین نہیں سکتا یہ تمام باتیں اپنی جگہ بڑی وقیع ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے الفاظ ہیں جن کے پیچھے ایک فیصد بھی حقیقت نہیں ایسے سبز باغ ہیں جن کو آج تک کوئی دیکھ نہیں سکا ، اگر جمہوریت کی ابتداء اوراس کے پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یورپ کے بادشاہ عرصہ ٔ دراز تک یہودیوں کو اپنا کھلونا بنا کر استعمال کرتے رہے ، کبھی ان سے دولت چھین کر انہیں ملک بدر کردیا ، کبھی عوام کو اکساکر انہیں مروادیا ، کبھی انہیں مذہبی جنون کی آڑ میں لوٹ لیا،طاقت کے ان خود علمبرداروں کے ہوتے ہوئے یہود کیلئے کہیں جائے ، امان ممکن نہ تھی البتہ ایک صورت کا رگر ہوسکتی تھی کہ ان چند افرادکی بجائے طاقت ان چند لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے جنہیںاپنی طاقت کا علم ہی نہ ہو اگر ایک کی بجائے ایک لاکھ یا ایک کروڑانسانوں میں بادشاہت کے حقوق تقسیم ہوجائیں تو ظاہر ہے کہ یہودکی باز پرس کرنے والا کون ہوگا، وہ تجارت علم اوردولت کے حربوںسے لوگوں کے ذہنوں،مزاجوں اورمعاشرے کو بدل دیںگے وہ روپے سے ووٹ خرید سکیںگے ،اور ان سے جوکا م لینا چاہیںگے لے سکیںگے ،یہودی سوچ کے اس فیصلے نے ’’جمہوریت‘‘ کا نام ایسا چلا کہ آج اس کے خلاف بولنا جہالت اورپسماندگی دلیل سمجھا جاتا ہے ۔جمہوریت اس وقت مقبول ترین طریقہ حکومت اورساری دنیا کا سکہ رائج الوقت ہے جب کہ در حقیقت یہ نظام حکومت نہ کسی عقلی کسوٹی پر پورا اترتاہے ، نہ عملاً مفید ثابت ہوا ہے ، نہ فطری طورپر درست ہے ،اسے یہودی دماغوں نے گھڑا ہے اوریہ ان کے تسخیر عالَم کے منصوبے کی سب سے اہم کڑی ہے ، اس کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے عالم اسلام سے خلافت اورعالم کفر سے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور ساری دنیا پر اپنے غلبہ کلی کے لئے راہ ہموار کی ، شروع شروع میں اس طرز حکومت کو مقبول بنانے کے لئے دنیا کو یہ نعرہ دیا گیا کہ یہ ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں ’’عوام کی حکومت ، عوام کے لئے اورعوام میں سے ‘‘ہوگی ،لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے کٹرجمہوری ممالک میں ایک دن کے لئے بھی یہ نعرہ صادق نہیں آسکا ،یہ پرفریب نعرہ دھوکے اورسراب کے علاوہ کچھ نہیں ؟ یہ ایسا خواب ہے جو دیکھتے تو سب ہیں لیکن اس کی تعبیر کسی کو نہیں مل سکتی ، اس موقع پر اگر ہم یہودی دانش وروں کے ترتیب دئے گئے منصوبو ں کے مجموعے پر نظر ڈالیں تو حیر ت انگیز انکشافات سامنے آتے ہیں جن کا جاننا جمہوریت کے سائے میں پروان چڑھنے والے نئی نسل کے مسلمانو ں کے لئے بہت ضروری ہے جو خلافت کے نام سے بیزار اوربادشاہت کو گالی سمجھتے ہیں ، اس لئے ذرا تفصیل سے اس نظام کے مختلف گوشوںپر صہیونی داناؤں کی مشہورزمانہ خفیہ دستاویزکا مرکزی عنوان ہے ’’اقتدار کی تیاری ‘‘ذیلی عنوانات ، عام رائے دہندگی اورجمہوریتوں کا آغاز سے شروع ہوکر ’’فرمانروائے عام کا اعلان ‘‘پر ختم ہوتے ہیں (قارئین اسی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جمہوریت اگر دنیا پر قائم رہی تو اس کا انجام کس موڑ پر جاکر ہوگا )آئیے جمہوریت کے پرفریب نظام کو ترتیب سے دیکھتے ہوئے چلتے ہیں ، سب سے پہلے درج ذیل اقتباس کے ذریعے یہ ملاحظہ فرمائیے کہ اس نظام حکومت کو کس طرح اورکس مقصد کے لئے ایجاد کیا گیا ۔
’’مطلق اکثریت ، چوں کہ صرف تعلیم یافتہ متمول لوگوں کے ووٹ دینے سے حاصل نہیں کی جاسکتی اس لئے اس مقصد کے حصول کے لئے ہم ہر فرد کو اس کے طبقے اورتعلیم کے امتیاز کے بغیر ووٹ دینے کا حق دلوائیںگے اوراس طرح ہر فرد میں اپنی اہمیت کا احساس اجاگر کرکے ہم غیر یہودمیںخاندان کی اہمیت اورتعلیم کی قدر وقیمت ختم کردیں گے اورکسی فرد کی اس امکانی صلاحیت کو کہ وہ کوئی اختلافی رائے دے سکے مفلوج کردیں گے ، عوام ، جن کی قیادت ہمارے ہاتھ میں ہوگی ایسے افراد کو آگے آنے کا موقع نہیں دیں گے اوران کی بات سننے کے روادار نہیں ہوں گے ،عوام ہماری بات سننے کے عادی ہوچکے ہوں گے اورہم ہی ان کی اطاعت اورتوجہ خریدسکیں گے ۔
اس طرح ہم ایک کور چشم ناعاقبت اندیش عظیم قوت پیدا کرسکیں گے جو کبھی بھی اس قابل نہیں ہوسکے گی کہ ہمارے گماشتوںکی رہنمائی کے علاوہ جنہیں ہم نے عوام کا قائد بنایا ہے کسی اورکی رہنمائی قبول کرے ، لوگ صرف ان ہی کی رہنمائی قبول کریں گے چوں کہ انہیں باورکرادیا گیا ہوگا کہ ان کی معاشی فلاح ، خوشحالی اورحقوق کے حصول کا انحصاران ہی قائدین پر ہے ، حکومت کی منصوبہ بندی صرف ایک فرد کو کرنی چاہیے اگر اس منصوبہ بندی میں بہت سے دماغ شامل ہوجائیں تو اس پر کبھی کامیابی سے عمل در آمد نہیں کیا جاسکتا ۔(دسویں دستاویز ، جمہوریتوں کا آغازص :۱۱۶)
اب اگلے اقتباس کو پڑھئے جس میں جمہوری نظام حکومت کا غیرفطری ، غیر معقول اورغیرمفید ہونا بخوبی واضح ہوگا ۔
’’انہوں نے (یعنی غیر یہودیوں نے )کبھی اس بات پر غورنہیں کیا کہ عوا م کورچشم ہوتے ہیں اوراس لئے جو لوگ ان عوام میں سے منتخب ہوکر حکومت کرنے کیلئے آئیں گے وہ بھی رموزمملکت سے اتنے ہی نا بلند ہوںگے جتنے کہ عوام جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہوگا وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ رموزمملکت کا ایک ماہر خواہ وہ کتنا ہی بیوقوف کیوں نہ ہو پھر بھی حکمت کرسکتا ہے اس کے بر خلاف کوئی شخص خواہ کتنا ہی ذہین کیوںنہ ہو اس میں امورمملکت سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوسکتی ، ان تمام امور پر غیر یہود ی توجہ گئی ہی نہیں ۔ (پہلی دستاویز ، نئی اشرافیہ ص :۸۳)
شریعت اسلامیہ نے حکومت کرنے کا حق اورنظام مملکت کے مرکزی اختیار فرد واحد یعنی خلیفۃ المسلمین کو دئے ہیں اوراس کو منتخب کرنے کا اختیار اہل علم واصحاب بصیرت کو دیا ہے ،اگر تغلب سے بھی کوئی خلافت قائم کردے تو اس کی خلافت کو منعقد مانا گیا ہے کیوں کہ وہ طوائف الملوکی یا جاہلوں کے منتخب کردہ کاٹھ کے الوسے بہرحال بہتر ہے ،یہودیت نے اس اسلامی نقطہ نظرپر کاری وار کرتے ہوئے ’’طاقت کا سر چشمہ ‘‘عوام کو قرار دیا اوریو ں نظام خلافت کے تار پو د بکھیر کر معاشرے کے خسیس افراد کے ہاتھ میں زمام کار دے دی ، عوام کے منتخب کردہ ان نمائندوں کی رذالت اورسفلہ پن کامظاہرہ آج کل اسمبلی اورسینسیٹ کے اجلا س کے دوران بخوبی ہوتا رہتا ہے ، آئیے دیکھتے ہیں کہ خود یہ نظام وضع کرنے والوں کے نزدیک عوام کو حکمران کے انتخاب کا حق دینا کس قدر ضرررساں اورخلیفۃ المسلمین کا وجود کس قدر ضروری اورمفید ہے ۔
منصوبے کے عملی پہلوؤںکی تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے یہ خیال رکھناضروری ہے کہ ہمیں عوام کی کمینہ خصلت ، ان کی سہل انگاری ، تلون مزاجی اوران کا اپنی زندگی کے حالات اوراپنے نیک وبد کو سمجھنے کی صلاحیت کے فقدان سے پورا فائدہ اٹھانا ہے ، ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلینی ہے کہ عوام کی طاقت کو ر چشم بے شعور اور منطق سے عاری ہوتی ہے اورہر وقت کسی اشارے کی منتظراسے جس سمت میں بھی چاہیں موڑا جاسکتا ہے ۔
اگر کوئی نابینا کسی دوسرے نابینا کی قیادت میں چلتا ہے تو اس کے ساتھ خو د بھی خندق میں گرجاتا ہے اسی طرح عوام کے کورچشم اورناعاقبت اندیش ہجوم میں سے جو افراد اوپر ابھر آتے ہیںخواہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں چوں کہ ان میںسیاسی شعوراورادراک نہیں ہوتا وہ اپنے پیچھے چلنے والی پوری قوم کو لے ڈوبتے ہیں۔(پہلی دستاویز ، بنیادی اصول، ص :۸۰)
یہودیوں کی برپاکردہ جمہوریت نامی سازش سے پہلے دنیا میں دوہی نظام حکومت ہوتے تھے ،خلافت اور بادشاہت ، دونوں میں اختیارات کا ارتکازفرد ِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ نظام خلافت میں اقتدار اعلیٰ آسمانی تعلیمات کا پابند ہوتا تھا جب کہ بادشاہی نظام میں ایسی کوئی پابندی نہ تھی ، یہودیوں نے جمہوریت کا غلغلہ بلند کرکے ان دونوں نظامو ںکا استیصال کردیا اب دنیا بھر میں یہودیوں کادیا ہوا ’’عوامی طرزِ حکومت ‘ ‘ رائج ہے جو ان کے مفادات کانگہبان ہے البتہ جہاںانہیں اس نظام حکومت سے خطر ہ نظر آنے لگتا ہے وہاں وہ اب بھی خود مختار بادشاہتوں کو قائم ودائم رکھنے کے لئے کوشاں ہے ،راقم کا اشارہ خلیجی ریاستوں کی طرف ہے ، جہاں کے حکمرانوں کا انتخاب ووٹ کے بغیر قدیم ملوکیت کے طرز سے ہوتا ہے لیکن مغربی دنیا اس پر معترض نہیں ، اس کے برعکس ساری دنیا کے ممالک کی امداد اورتجارتی معاہدے وغیرہ جمہوری نظام حکومت اپنانے کے ساتھ مشروط ہیں اس فرق کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ خلیج میں یہودی مفادات کے پاسبان حکمران اسی قدیم طرز نیابت سے ہی میسر آسکتے ہیں ،حال ہی میں اردن کے حکمران شاہ حسین کے جانشین شاہ عبد اللہ کا انتخاب اس کی بہترین مثال ہے ، ان ممالک میں جمہوری قدروں کے رواج پاجانے سے اندیشہ ہے کہ مغربی اقوام اوریہودیوں کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچے کیونکہ کہ وہاں دینی روایات کی جڑیں اس قدر گہری ہیں اوردینی حلقوںکا شعوراس قدر قوی ہے کہ وہ یہودیوں کے مطلب کے آدمی کو آگے نہیں آنے دیں گے یہی وجہ ہے کہ وہاں جمہوریت شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی لیکن مغربی ممالک کے ان کے ساتھ تعلقات پر آنچ نہیں آتی جب کہ یہی ممالک دنیا بھر میں کسی بھی ملک کے ساتھ روابط کی بنیاد جمہوریت کے ہونے یا نہ ہونے پر رکھتے ہیں اورمارشل لاء تک برداشت نہیں کرتے ، آئیے یہودیوںکی خفیہ دستاویزات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ یہودی نظام خلافت وبادشاہت کے اس قدر دشمن اور جمہوریت کے ساتھ حامی کیوں تھے ۔
یہودی عرصۂ دراز سے تمام عالم کے انسانوں کے خلاف بلا امتیاز مسلم وغیر مسلم اس قدرگھناؤنی سازشیں کرتے چلے آرہے تھے اوران کے خفیہ منصوبوں نے ساری دنیا کو درہم برہم کررکھا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ان سازشوںکا دنیا کو شعورکیوں نہیں اوروہ اس کے توڑکے لئے اس عیار قوم کے خلاف کیوں نہیں اٹھ کھڑی ہوتی ، خصوصاًمسلمان جن کے پاس تعلیمات الٰہیہ اپنی اصل میں موجود ہیں اورجذبہ ٔ جہاد جن کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے وہ ان منصوبوں کا ادراک کرکے ان کے بانیوں کو کیفرکردارتک پہنچانے میں کیوں سست ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ یہودیوںنے ایسی حکمت عملی اپنا رکھی ہے اوراپنے منصوبوں کو روبعمل لانے کے لئے ایسے زیر زمین طریقے وضع کررکھے ہیں کہ ان کی زد میں آنے کے بعد دنیا کو اپنا ہی ہوش نہیں رہا وہ ان کی چالوں کامقابلہ کیوں کر تے رہ گئے مسلمان تو ان کی کامیابی کی تین بنیادی اورموٹی موٹی شرائط تھیں۔
۱۔ احکاماتِ الٰہیہ اورسنت نبویہ پر پورا پورا عمل ۔
۲۔ فریضہ ٔ جہاد فی سبیل اللہ کی ادائیگی ۔
۳۔ خلافت اسلامیہ کا قیام ، یہودیوںنے ایسا طریق کار اپنا یا کہ وہ رفتہ رفتہ ان تینوں میںکمزورہوتے ہوتے محروم ہونے کے قریب پہنچ گئے ،مسلمانو ں میں سے جن افراد ،تحریکوں یا اداروں کو ان باتوں کا شعور اور ملت اسلامیہ میں ان کے احیاء کی فکر ہے وہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ، اس شعور کو سلب کرنے کے لئے یوں تو یہودیوںنے بیسیوںنہیں سینکڑوںطریقے استعمال کئے لیکن بطورخاص ایک اصولی طریقہ اپنایاگیا یہ ایک پیچیدہ اورعام لوگوں کے لئے ناقابل فہم طریقہ ہے لیکن چوں کہ یہ اتنا اہم ہے کہ سارے یہودی سازشی نظام کی بنیادیںاس پر کھڑی ہیںاس لئے اسے ذرا تفصیل سے اورخفیہ دستاویزات کے حوالوں کے ساتھ دکر کیا جاتا ہے اللہ کرے مسلمان اس کو پڑھ کر فکر مندہوںاوراس نہج پر لوٹ آئیں جو رسول اللہ ا نے انہیں دیا تھا اورجسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عملاً بتاکران تک پہنچایا تھا اورجس کا خلاصہ اوپرلکھی گئی تین باتیںہیں یہ اصولی طریق کار تعقلیت (Rationalisation)کہلاتا ہے،ریشنلائزیشن وہ عمل ہے جس سے ان کے نزدیک ریشنلزم (Rationalism)کا قیام مقصود ہے ،ریشنلزم کامفہوم ہے عقل کو مذہب میں آخری فیصلہ کرنے والا قرار دینا اوران تمام نظریات کا رد کرنا جو عقل سے مطابقت نہیں رکھتے ،ریشنلائزیشن کی تین شاخیںمشہورہیں یعنی تین ایسے طریقے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن اصول کے اعتبار سے ایک یعنی عقل پر مبنی ہیں یہ تین طریقے درج ذیل ہیں ۔
۱۔ سیکولزائزیشن (Secularisation)
۲۔ ڈیموکریٹائزیشن (Democratisation)
۳۔ کمرشلائزیشن (Commercialisation)
گزشتہ پانچ سوسال سے یورپ میں ان مقاصد کے حصول کے لئے بلا مبالغہ ہزاروں تحریکیں تنظیمیں حلقے اورزاویے مختلف ناموں سے کام کررہے ہیں ،ان تینوں اصطلاحوںکا مختصر تعارف یہ ہے
۱۔ سیکولزائزیشن (Secularisation)سے مراد انسان کے فکر ونظر معاملات ، تہذیب ، ثقافت اورتمدن کو عقیدہ اوردین سے منقطع کرنا یعنی اسے ریگولر(Regular)یعنی متشرع کے بجائے سیکولر(Secular) بنانا ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بنی نوع انسان کو آسمانی ہدایت اورپیغمبرانہ تعلیمات کی پیروی سے ہٹاکر اسے ہمہ قسم کی پابندیوں سے آزاد اورتمام حدود وقیودسے باغی بنادینے کا نام سیکولرائزیشن ہے ، آج کل غیر مسلم دنیا اسی سیکرلرازم کا شکار ہوکر جانوروں کی طرح زندگی گزاررہی ہے ،پیٹ کی بھوک اورشرمگاہ کی خواہش پوری کرنے کے بعد اسے دنیا ومافیہا سے کوئی سروکار نہیں ،عیسائی دنیا تو یہودیوں کی برپا کردہ اس یلغارکے سامنے روندی جاچکی ہے ،لے دے کے مسلمان رہ جاتے ہیں جو ابھی تک آسمانی وحی کی بنیاد سے چمٹے ہوئے ہیں ، سیکولرائزیشن در اصل ایک وسیع وہمہ جہت عمل کا نام ہے اس کا نصب العین حقیقی سیکولرازم قائم کرنا ہے جو ریشنلزم (Rationalisation)کی لازمی شرط ہے ، ذرا چشم بصیرت سے ان خفیہ دستاویزات کادرج ذیل اقتباس پڑھئے اوراس کی بین السطورپر غورکیجئے ۔
’’عرصہ ہوا پرانے زمانے میں ہم نے سب سے پہلے عوام الناس کے سامنے آزادی ، مساوات اوراخوت کے نعرے پیش کئے تھے ، بعد کے زمانوں میں اطراف وجوانب کے احمق طوطے ان کی رٹ لگاتے ہوئے اس جال میں پھنستے چلے گئے اوراس کے ساتھ ہی دنیا سے خوشحالی بھی رخصت ہوگئی ،یہ خوشحالی تھیں فرد کی اصل آزادی جو عوام کے دباؤ سے محفوظ تھی۔
غیر یہودی مفکرین ان مجر د الفاظ کے معنی کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے ، انہوں نے ان الفاظ کے معانی کے تضاد اورباہمی تعلق پر غورنہیں کیا ، وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ مساوات اورآزادی نظام فطرت کے خلاف ہیں ، قدرت نے انسانوں کو یکساں صلاحیتیں نہیں دیں ، یہ اصول اتنا ہی ناقابل تبدیل ہے جتنا خود یہ اصول کہ قانون قدت سے انحراف ناممکن ہے ۔
ہمارے بھولے اورنا سمجھ گماشتوں کی وجہ سے جو ہم نے غیر یہودی معاشرے میں پیدا کردیتے تھے ، آزادی ، مساوات اوراخوت کے الفاظ دنیا کے گوشے گوشے میں زبا ں زد خلائق ہوگئے ، جوق در جوق لوگ سرگرمی سے ان الفاظ کے جھنڈے تلے آنے لگے اوررفتہ رفتہ یہ الفاظ غیر یہودکی خوشحالی کو گھن کی طرح چاٹ گئے ، امن واستحکام رخصت ہوا اورغیریہودی سلطنتوںکی بنیادیںہل گئیں ،جیسا کہ بعد کے صفحات سے معلوم ہوگا اس عمل نے ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرنے میںکافی مددکی خوشحالی کو گھن کی طر ح چاٹ گئے ، امن واستحکام رخصت ہو اور غیر یہودی سلطنتوںکی بنیاد یں ہل گئیں جیسا کہ بعد کے صفحات سے معلوم ہوگااس عمل نے ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کافی مد د کی اورمنجملہ دوسرے فائدوں کے ہمیں ایک شاہ کلید حاصل ہوگئی ۔
(پہلی دستاویز،آزادی ،مساوات اوراخوت ص :۸۳و۸۴)
کتاب وسنت کی تعلیمات سے منھ پھیرنے اورآزاد روی اختیار کرنے کے نتائج کیا ہوتے ہیں خود یہود کی زبانی سنئے ۔
’’جب ہم نے ریاست کے جسم میں آزاد خیالی کا زہرداخل کردیا تو اس کا پوراسیاسی نظام درہم برہم ہوگیا، ملک ایک لا علاج مرض میں مبتلا ہوگیا ، زہراس کے خون میںسرایت کرگیا اب صرف یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسے سسکنے کیلئے چھوڑدیا جائے اوراس کی موت کا انتظار کیاجائے۔ (دسویں دستاویزاقتدار کی تیاری ص :۱۱۷)
یہ سوچ دنیا کو کس نے دی ؟سکولر ذہنیت کا منبع کیاہے ؟ اور ایک مخصوص مدت کے بعد یہ نعرے خود بخود کس طرح ختم کردیئے جائینگے ، آزاد خیا لوں(Libarals) اقوال یعنی ’’آزادی ’’ اور اخو ت عملا ہمارے فری میسن (Freemasion) ہی کے دیئے ہوئے نعرے ہیں جب ہم اپنی بادشاہت قائم کریں گے تو ان نعروں کی اتنی قلب ماہیت کردیں گے کہ یہ ہمارے نعرے نہیں رہیں گے اس کے بجائے یہ صرف خیالی تصور(Idealism)کا ذریعہ اظہار رہ جائیں گے یعنی ان کے معنی بدل کر ’’آزادی کا حق ‘‘’’مساوات کا فرض ‘‘اوراخوت کاتصور‘‘رہ جائیں گے ، یہ ہیں وہ معنیٰ جو ہم ان الفاظ کو دیں گے اوراس طرح ہم ان نظریات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے ۔ (نویں دستاویز ص :۱۱۰)
یہ آزادخیالی پھیلائی کس طرح مذہب سے بیزار اورروحانیت سے برگشتہ کیاجاتا ہے اس کا طریق کار بھی اسی خفیہ کتاب سے پتہ چلتا ہے ، درج ذیل اقتباس پر نگاہ بصیرت ڈالئے ’’اس خیال کے پیش نظر کہ غیر یہودی ادارے مقررہ وقت آنے سے پہلے ہی نیست ونابود نہ ہوجائیں ہم نے اس کا بندو بست بڑی عیاری اورنفاست سے کیا ہے ، ہم نے ان کمانیوں پر قبضہ کیا ہوا ہے جو اس مشین کو چلاتی ہیں یہ کمانیاں انتظامیہ کی مشین میں انتہائی حساس مقامات پر واقع ہیں ہم نے وہاں آزاد خیالی کے نام پر افراتفری پھیلانے والوں کو بٹھایا ہوا ہے ، ہمارے ہاتھ قانون نافذکرنے والے اداروں میں موجود ہیں،انتخابات کراے والے اداروں میں موجود ہیں ، پریس میںہیں ، انسانی حقوق کے علمبردار اداروں میں ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ تعلیمی اورتربیتی اداروں میں ہیں جو آزاد وجود کاسنگ بنیاد ہیں ، ہم ان خو د ساختہ نظریات اورمسالک کی تعلیم وترویج کے ذریعہ جن کے متعلق ہم خود جانتے ہیں کہ یہ غلط ہیں غیر یہود کے نوجوان طبقے کو ورغلاکراخلاقی طورپر کنگال اورذہنی طورپر پراگندہ کرچکے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر غیر یہود کو معینہ وقت سے پہلے اس کا علم ہوجائے تو یہ ہوشیار ہوکر ہمارے خلاف شمشیر بکف صف بستہ ہوجائیں گے اس متوقع خطرے کی ہم پہلے ہی پیش بندی کرچکے ہیں اوریہ منصوبہ اتنا خوفناک ہے کہ اسے سن کر بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوجائے گا ، زیر زمین خفیہ تنظیمیںایسی بارودوی سرنگیں ہیں جومعینہ وقت آنے سے پہلے ہی تمام دارالحکومتوںکے نیچے بچھی ہوئی ہوں گی اورایسے دھماکے سے پھٹیںگی کہ ان کے سارے ادارے معہ ان کی یادداشتوں کے محافظ خانوں کے اپنے ساتھ اڑادیں گی ۔‘‘(نویں دستاویز،ہمہ گیردہشت گردی کامنبع، ص :۱۱۳)
کمرشلائزیشن کیاہے ؟
کمرشلائزیشن کا مطلب ہے تمام انسانی زندگی اوراس زندگی کی تگ ودو کو مادیت میں محدود کردینا اورتمام مادی اشیاء خدمات بات حتی کہ فطری خواہشات کو خالص مادی پیمانے کے اعتبار سے قابل تبادلہ بنانا یعنی بیع وشرا کے دائرے میں لانا اس کے تحت ہر چیز خدمت جذبہ اورفطرت مادی اشیاء کی طرح مال ہوجاتی ہے اورقابل قیمت ٹھہرتی ہے لہٰذا قابل بیع وشراہوکر قابل تبادلہ ہوجاتی ہے کمر شلائزیشن کی انتہا یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شئے خدمت جذبہ اورفطرت ایسی باقی نہ رہے جو مال کی طرح قیمت نہ رکھتی ہو اورقابل تبادلہ بصورت بیع وشرا نہ ہوکمرشلائزیشن کاہدف ہے دنیا میں پائے جانے والے تمام مادی غیر مادی انسانی وسائل بشمول حیاتیاتی وجماداتی وسائل پر یہودیوں کی اجارہ داری قائم کرنا اورساری دنیا کو اپنا دائمی غلام بنالیناکمرشلائزیشن کے لئے ہزاروں طریقے روبہ عمل لائے گئے ہیں اقوام متحدہ کی ساری کارروائیاں سلامتی کونسل کے فیصلے اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمیںعالمی مالی اورعالمی بینک کی کارروائیاں دیگر بین الاقوامی ادارہ جات ، اسلحوں کی تخفیف کی روائیاں، خاندانی منصوبہ بندی کی کوششیں،ماحولیاتی تحریکیں،اسقاط حمل کو قانونی قراردینا ، سب کی سب کمرشلائزیشن کی ذیلی شاخیں ہیں حتی کہ یو تھنیریایعنی اپنے پسند سے اپنی موت کا فیصلہ کرنا اورمیڈیکل سائنس کے وہ تمام تجربے اور ایجادات کی کوششیںجس میں انسانی جسم کی ہر چیز قابل استعمال اورقابل بیع وشرا ہوا اسی کا حصہ ہے ، چنانچہ فیملی پلاننگ اسقاط حمل کو قانونی بناناکے تجربات (جس کے تحت انسانی اعضاء مصنوعی طورپرتیار کرنے کے تجربات ہورہے ہیں حتی کہ مصنوعی جاندار بنانے کے تجربات ہورہے ہیںاوراب تو کلوننگ کے ذریعہ ہم شکل انسان پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہیں)در اصل اس کمرشلائزیشن کی انتہائی منزل پرپہنچنے کی کوشش ہے جہاں یہودی ایک عالمگیرطاقت کے اعتبارسے اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کتنے لوگوں کو زندہ رہنا چاہیے اورکتنوںکو نہیں ، ساتھ ہی ساتھ یہودیوں کے علاوہ دیگرانسانی آبادی کے سلسلے میں ان کا منشاء وہی ہے جو سامان اورآلہ جات کے بارے میں ہے یعنی اگر کسی وقت خاص میں انسانی وسائل کی زیادہ ضرورت ہے تو اتنے انسان پیدا کرلئے جائیں اورجب ضرورت نہ ہو تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ،ٹیسٹ ٹیوب بے بی ،کلوننگ اورمرغبانی کے مراکزمیں جو تجربات ہورہے ہیں (یعنی مثلاً وہ کسی دن ایک لاکھ چوزے نکالتے ہیں اگر پچاس ہزار بک سکے تو بقیہ پچاس ہزار کو برقی چولہوں میں جلا ڈالتے ہیں اس لئے کہ پچاس ہزار کو ایک دن پالنا دوسرے دن نئے پچاس ہزار پیدا کرنے کے مقابلے میں مہنگاہوتا ہے )اسی کمرشلائزیشن کا حصہ ہے ۔
سیکولرائزیشن کے تحت کئے گئے تجربات
اس کا تو موقع نہیں کہ سیکولزائزیشن (Secularisation)ڈیموکریٹائزیشن(Democratisation) کمرشلائزیشن(Commercialisation)تینوںکے تجربات بیان کئے جائیں ، لہٰذا صرف سیکولرائزیشن کے پیٹرن (Patter)کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔گذشتہ دو سال میں مسلمان ممالک کے مختلف خطوںمیں سیکولرائزیشن کے کم ازکم دس تجربات کئے گئے ، اس کے تحت ان کی بنیادی کوشش مسلمانوںکو دین کے سرچشمے سے فکری ، ایمانی اورعملی طورپر الگ کردینے کی تھی ، اختصارکے پیش نظر یہاں صرف ترکی ،مصر،غیر منقسم ہندستان اورپاکستان میں کئے جانے والے تجربات اورکوششیںذکر کی جاتی ہیں۔
ترکی میں یہودی سازشیں
یورپ کے اکثرملکوں کا سیاسی اوراخلاقی ڈھانچہ تباہ کرنے اورروس میں زار کی حکومت ختم کرکے وہاں اشتراکیت قائم کرنے کے بعد یہودیوں کااگلا منصوبہ فلسطین کی جانب پیش قدمی کرنا تھا کہ وہاں ایک آزاد یہودی ریاست قائم کی جاسکے ۔فلسطین اس زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا لہٰذا کوشش کی گئی کہ سلطنت عثمانیہ کو رام کرکے وہاں زمین خریدی جائے ، سلطان عبد الحمید جب اس پر کسی طرح تیار نہیں ہوئے تو ان کے خلاف وہ عظیم سازش کی گئی جس کی کامیابی پریہودی آج تک فخر کرتے ہیں ترکی کے انقلا ب کا تفصیلی منصوبہ اوراس کی جزئیات کو عملی جامہ پہنانا بین الاقوامی صہیونیت کا شاہ کار ہے ۔
ایک بین الاقوامی صہیونی لیڈر سلیمان منصورنے اپنے ایک خفیہ مراسلے میں لکھا۔
’’ہم نے فلسطین میں ( جو ترکوں کی عملدار ی میں ہے )تھوڑی سی اراضی خریدنے کے لئے سلطان عبد الحمید کو منھ مانگی قیمت کی پیش کش کی تھی لیکن وہ نہیں مانے اورہمار ے آدمیوں کو بے عزت کرکے اپنے دربارسے نکال دیا ،لیکن آپ یقین رکھئے ہم اس سرکش حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اورترکوں کو ایسی سزادیں گے کہ ان کا حال اس سے بدتر ہوگا جو ریڈ انڈیالوگوں کا امریکہ میں ہے ۔‘‘
اب یہ ہر شخص کو معلوم ہے کہ کس طرح انجمن اتحاد وترقی (COMITTEE OF UNION AND PROGRESS) قائم ہوئی اورکس طرح بین الاقوامی صہیونیت نے پس پردہ رہ کر اپنی خفیہ تنظیم فری میسن کے ذریعہ سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کرایا ۔
ایک مغربی مصنف آر ، ڈبلیوسٹین واٹس (R.W.SETON WATSON)اپنی کتاب بلقان میں قومیت کی بیداری (مطبوعہ ۱۹۱۷ء ص ۱۳۵تا ۱۳۶)لکھتا ہے ۔
’’انجمن اتحاد وترقی (COMITTEE OF UNION AND PROGRESS)کی اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طورپرغیر ترک اور غیر مسلم خطوط پر قائم کی گئی تھی اس انجمن کے اہم ترین عہدے داروں میں سے بمشکل ایک فرد ترک تھا ، انورکا باپ پولینڈ کا باشند ہ تھا اورجاوید یہودی تھا ، طلعت ’’بلغاریہ ‘‘کا خانہ بدوش تھا جس نے بظاہراسلام قبول کرلیا تھا ، احمد رضا کا باپ ’’میرا سین ‘‘تھا اورماں ’’میگلیار‘‘۔
در حقیقت یہودیوںکی فری میسن تنظیم ترکی میں تقریباً سوسال سے سرگرم عمل ہے جب ۱۳؍اگست ۱۸۷۸ء کو ایک نوجوان انقلابی علی سوادی ، سلطان مراد پنجم کو ترکی کاتخت واپس دلانے میں ناکام ہوگیا اوراسے بمعہ اس کے ساتھیوں کے قتل کردیا گیا تو یہودیوںنے فورا ً ہی اپنے ایک دوسرے گماشتے نکینتھن اسکالیری (SCALERI CLEANTHIES) کو اس کام پر مامورکردیا ۔ یہ شخص ایک یونانی تھا جو استنبول میں رہائش پذیر تھا اورفر ی میسن میں لاج کا ماسٹر تھا اس نے ترکی کے چنداعلیٰ افسران سے مل کر مراد پنجم کو تخت نشین کروانے کی سازش کی۔
(حوالہ کے لئے ملاحظہ ہو جارج حداد کی کتاب (REVOLUTIONS AND MILITARY RULE IN MIDDLE EAST یونیورسٹی آف کیلفورنیا مطبوعہ نیویارک صفحہ نمبر ۴۸)
۱۸۷۸ء میں جب سلطان کومعزول کرکے مراد کو تخت نشین کرانے کی سازش ناکام ہوگئی تو مراد کو مالٹا میں نظر بند کردیا گیا وہاں سے اس نے اپنے ایک دوست کو خط لکھا کہ اگر تم نے مجھے یہاں سے نکالنے کی کوشش نہیں کی تو یہ جگہ میرا قبرستان بن جائے گی ،یہ خط جس دوست کے نام لکھا تھا وہ کلینتھی اسکالیری وہی یونانی تھا جو استنبول میں فری میسن لاج کا ماسٹر تھا اوراس عہدے کی وجہ سے پورے یورپ میں ا س کااثر تھا اسکالیری نے فوراً ایک کھلا خط سلطان کے نام لکھا اوراسے ایک انگریزی اخبار ایسٹرن ایکسپریس میں اشاعت کے لئے بھیج دیا ، اس خط میں دھمکیوں کے ساتھ یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسے ضرورشائع کیا جائے ، اخبار نے یہ خط چھاپنے سے پہلے سعید پاشا کو جو شاہی محل میں کونسلر تھا دکھایا اوراس نے کندھے اٹھاکر کہ ’’چھاپ دو ‘‘اس خط کے چھپنے کا خاطرخواہ اثر ہوا اوراس کے نتیجے میں مراد کو وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ۔
اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ فری میسن کس طرح کام کرتے ہیں اسکالیری ایک معمولی مدرس تھا لیکن اس کی پہنچ کہاں تک تھی ، ساتھ ہی یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی کے ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا کتنا اثر تھا وہ جوچاہتے تھے اخبارو ں میں چھپواسکتے تھے ۔
سلطان عبد الحمید خاں چوںکہ یہودیوںپر سخت تھے اورانہوں نے یہودیوں کو فلسطین میں اراضی فروخت کرنے سے قطعی انکار کردیا تھا اس لئے یہودی فری میسن تنظیم سلطان کو معزول کرکے مراد کو تحت نشین کروانا چاہتی تھی جو نہ صرف آزاد خیال تھا بلکہ اس کے فری میسن تنظیم سے تعلقات بھی تھے ۔
بعد کے عرصے میں یہودی ، نوجوان ترکوں کو اپنا آلۂ کاربناکر اپنے مقاصد کے لئے کام کرواتے رہے اورنوجوانوں کے گرم خون کو استعمال کرکے انہیں لوٹ مار اورتخریب کاری کے لئے استعمال کیا ۔
یہ بات خصوصیت سے توجہ کی مستحق ہے کہ نوجوان ترکوں کی کامیابیوںکو مغربی ممالک میں خوب اچھالا گیا اورمغربی ذرائع ابلاغ نے جو کلی طورپر یہودیوں کے زیر اثر تھے ،اس کی تعریف کے پل باندھ دئے ،متذکرہ بالا جارج حداداپنی کتاب میں ان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے ۔
نوجوان ترک دوران جنگ بھی سلطنت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کررہے تھے اورانہوں نے نادانستہ طورپراس پالیسی کی بنیاد رکھی جو مصطفیٰ کمال کی جمہوریہ نے بعد میں اپنائی اوراس طرح انہوں نے جدید ترکی کی بنیاد رکھی ، انہوں نے قانونی مقدمات شرعی عدالتوں سے دیوانی عدالتوںمیں منتقل کردئے ، ترکی زبان کو رومی رسم الخط میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش ،قمری مہینوں کی بجائے شمسی مہینے شروع کروائے ، موسیقی کی درسگاہیں قائم کیں ،خواتین کو آزادی دلاکر انہیں ملازمتوںمیں جگہ دی ،اسلامی قوانین منسوخ کرکے عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی اورایک سے زیادہ بیوی رکھنے پر پابندی عائد کی ‘‘۔
ان تمام کارستانیوں ہی کانتیجہ ہے کہ چند دہائیوں قبل جو ملک تمام عالم اسلام کا مرکز اورسب کی عقیدت ومحبت کا محورتھا وہاں آج یہ قرارد اد پاس کردی گئی ہے کہ اذان اونچی آواز میں نہیں دی جائے گی ،طالبات تعلیمی اداروں میں حجاب استعمال نہیں کریںگی بے دینی کا یہ سیلاب اور مذہب بیزاری کا یہ سیلاب انہی دوررَس اقدامات کا نتیجہ تھا جو یہودی شیطا نی دماغوں نے تجویز کئے دراصل بین الا قوامی صیہونیت ایک بہت بڑے پیمانے کی سازش ہے ،صہیونیت سازش کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہودی سازش کے ذریعہ ہی دنیا پر اقتدار کا خواب دیکھتے رہے ہیں اورجس دورکاذکر برنا ڈلیوس نے کیا ہے وہ سازشوں اورریشہ دوانیوںسے بھرا ہوا ہے اورہر سازش کے پیچھے یہودی اورصرف یہودی ہی ہیںلیکن عوام کی توجہ حقائق سے ہٹانے کے لئے وہ کسی سازش کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں ، ذرا غورکیجئے کہ یہ خو د کتنی بڑی سازش ہے ۔
آخرمیںلارڈکنروس (LORD KINROSS)کی کتاب ’’اتاترک ،ایک قوم کا احیا (ATATURK THE REBIRTH OF A NATION)سے تھوڑا سا اقتباس دلچسپی سے خالی نہ ہوگا وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۲۸پر لکھتا ہے ۔
ترکی کی انجمن اتحاد وترقی نے فری میسن تنظیم کے طریقوں کو آزادی سے استعمال کیا اورانجمن کارکن بنانے کیلئے اسی طریقہ کا ر کو اختیار کیا جو فری میسن کرتے ہیں ، انجمن کارکن بنانے کیلئے وہی تقریب منعقد کی جاتی تھی جس میں امیدوار کن کی آنکھوںپر پٹی باندھ کر نقاب پوشوںکے سامنے پیش کیا جاتا جو لمبی لمبی عبائیںپہنے ہوئے ہوتے اوراسے تلوار اورقرآن پرحلف اٹھوایا جاتا کہ وہ اپنے ملک کو آزاد کرائے گا ،انجمن کے رازوںکی حفاظت کرے گا اوراس کے احکامات کی تعمیل کرے گا اس سلف میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر انجمن کسی کو قتل کرنے کاحکم دے گی تو اس کی تعمیل بھی کی جائے گی ۔،
اس قسم کی باتیں مصطفیٰ کمال جیسے آدمی کے مزاج کے لئے قابل قبول نہیں تھیں لیکن چوں کہ اس کے پاس یونیورسٹیوںکے ساتھ چلنے کی علاوہ اورکوئی چارہ کار نہیں تھا اسے یہ حلف اٹھانا پڑا ۔
مصطفیٰ کمال نے تین نقاب پوشوںکے سامنے حلف اٹھایا تھا اس کا اعتراض صرف قرآن کی موجودگی پر تھا ورنہ وہ یہودیوںکی فری میسن تحریک سے بالکل متفق تھا ۔
یہودیوںکی اس سازش کااثریہ ہوا کہ سلطنت عثمانیہ جس کی حدود مغرب سے مشرق تک پھیلی ہوئی تھیں اورجس نے یورپ کی عظیم الشان سلطنتوں کو لرزہ براندام کیا ہوا تھا پارہ پارہ ہوگئی ان علاقوں کے مسلمان جو ایک امت واحد ہ میں پروئے ہوئے پر سکون اورخوشحال زندگی گزاررہے تھے ،ان میں علاقائی عصبیت کا زہر داخل کرکے چھوٹی چھوٹی حقیر اکائیوںمیں تقسیم کردیا گیا ،بین الاقوامی صہیونیت اسرائیل کی ایک آزاد مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی اورجن عرب ملکوں کو ’’آزادی ‘‘کی نعمت سے نوازا گیا وہاں اقتدار کے حقدار صرف اسرائیل کے گماشتے قرار پائے جو صرف آپس میں لڑکر ایک دوسرے کو تباہ کرسکتے ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف متحدنہیں ہوسکتے ۔
اسرائیل جو ایک معمولی سے علاقہ پر قائم ہوا تھا ، آج اس کی حدود میں شام کا جولان کا علاقہ مصر کی غزہ پٹی ، اردن کا مغربی کنارہ اورجنوبی لبنان شامل ہوچکے ہیں ۔(ختم شد)

اس اہم ترین مضمون کی فراہمی پرادارہ حضرت مولانامفتی مہربان علی شاہ بڑوتوی مدظلہ کاممنون وشکرگزراہے اوردعاگوہے کہ اللہ تعالیٰ اس مقالہ سے امت مسلمہ کوصحیح اسلامی خطوط پرچلنے کاخوگربنائے۔مصنف،مرتب دونوں کواپنی رضانصیب فرمائے۔(ن م)
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
بہت ہی معلوماتی تحریر ہے اللہ کریم اہل اسلام کی حفاظت فرمائے اور اغیار کو ان کی سازشوں سمیت نیست و نابود کر دے آمین
 
Top