مظاہرعلوم میں سلسلہ رحیمی ورشیدی کافروغ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مظاہرعلوم
سہارنپورمیں
سلسلۂ رشیدی ورحیمی کافروغ
ناصرالدین مظاہری
یوں توامام ربانی حضرت گنگوہیؒ نے مظاہرعلوم کی سرپرستی اورنگرانی روزاول سے ہی فرمائی لیکن۹؍ربیع الثانی ۱۳۱۴ھ کوآپ نے مظاہرعلوم سہارنپورکی باقاعدہ سرپرستی قبول فرمائی اورمسلسل دس سال تک سرپرستی فرماتے رہے،آپ کومظاہرعلوم سے بہت محبت تھی ،وقتاًفوقتاً تشریف لاکرمدرسہ کا معائینہ اورطلبہ کاامتحان لے کرخوشی کااظہارفرماتے تھے،کبھی کبھی یہاں کے رجسٹراوردیگردستاویزی چیزیں گنگوہ منگواتے اورباریکی کے ساتھ شرعی نقطۂ نظرسے بغورمعائینہ فرماکررائے گرامی سے نوازتے۔حضرت مولانامحمدمظہر نانوتویؒ، حضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒ اورحضرت سہارنپوریؒوغیرہ شخصیات کاآپ سے نیازمندانہ تعلق تھا۔فقہ اورتصوف میں تقریباً ۱۴کتابیں تصنیف فرمائیں۔
آپ کی سرپرستی میںمظاہرعلوم کوبہت جلدشہرت ملی،معیارتعلیم بلندہوگیا،طلبہ کارجوع بڑھ گیا،علماء وصلحاء کی توجہات اس کی جانب مبذول ہوئیں اورخودمظاہرعلوم گویاحضرت گنگوہیؒ کے تربیت یافتگان وفیض یافتگان کی ایک منڈی بن گیا۔
ذیل کی سطورمیں ذراتفصیل سے اس کی وصاحت پیش کی جارہی ہے کہ کس طرح ہرزمانہ اورہرعہدمیں اس ادارہ کوحضرت گنگوہی کے بابرکت سلسلہ سے عروج اورفروغ نصیب ہوا۔
حضرت مولانا محمدمظہر نانوتویؒ
آپ ؒنے قرآن کریم کے حفظ اور ابتدائی کتب کی پوری تعلیم اپنے والد ماجد حضرت حافظ لطف علی صاحبؒ کے پاس مکمل ہوئی،اپنی ذہنی صلاحیت اورعمدہ تعلیم وتربیت کی وجہ سے اپنی نوعمری ہی میں نہایت ہوشیار وہوشمند تھے اورآپ کے اسی وقت کے طوروطریق سے ذکاوت وذہانت آشکار تھی،وطن کی ابتدائی تعلیم کے بعد استاذ الکل حضرت مولانا ممکوک العلی صاحب ؒنانوتوی اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔۴؎اوراستاذالکلؒ کی بیمثال تعلیم وتربیت اوروہاں کے خالص ماحول نے بڑا کا م کیا چنانچہ اسی وقت اپنے رفقاء اورمولانا مملوک العلی صاحبؒ کے حلقہ میں آپؒ کی لیاقت وصلاحیت کا شہرہ ہوگیا تھا۔
دہلی میں حضرت مولانا مملوک العلی صاحب نانوتویؒ کے علاوہ صدرالصدور حضرت مفتی صدالدین آزردہ دہلوی،حضرت مولانا رشید الدین خاں صاحب دہلوی (۱۸۳۴ئ؁ )کے سامنے زانوئے تلمذبھی طے کیا۔
حدیث نبوی شریف کی تعلیم حضرت شاہ عبد الغنی مجددی(۱۸۲۰ئ؁-۱۸۷۹ئ؁ مدینہ)محدث کبیر حضرت مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوریؒ۱۸۱۰ئ؁-۱۸۸۰ئ؁)سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
ان حضرات کے علاوہ مدرسہ صولتیہ مکۃ المکرمہ کے بانی مناظراسلام حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانویؒ،ا ور مدینہ منورہ کے جلیل القدر عالم حضرت شیخ عبد الغنی بن سعید العمری سے بھی علمی استفادہ فرمایا تھا جس کا تفصیلی تذکرہ’’حج بیت اللہ‘‘کے تحت آئیگا۔
شوال ۱۲۸۳ھ؁ میں مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے مظاہرعلوم کو سرفراز فرمایا ۔
۱۳۰۱ھ؁میں حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ کی وفات سے ایک سال قبل مظاہرعلوم کے سرپرست حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒنے طلبۂ مظاہرکا امتحان لیا تو جوطلبہ حضرت مولانا محمد مظہرصاحب کے پاس پڑھتے تھے ان کی تعریف بایں الفاظ فرمائی۔
’’یہ احقر العباد جوچوبیسویں جمادی الثانیہ ۱۳۰۱ھ؁ میں مدرسہ عربیہ سہارنپور میں حاضر ہوا تو چند جماعت کا امتحان خواندگی ،ازاں جملہ دوشخص درمختار خواں کو کہ جماعت اولی مدرس اعلیٰ مولوی محمد مظہرصاحب مدفیوضہم کی تھی قابل اجازت وذی استعدادپایا کہ پڑھنے میں فکر وفہم کو حاضرکرتے تھے ،لہٰذا ان کو مجمع عام جامع مسجد میں روز جمعہ اجازت دیکر دستار باندھی گئی۔
حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب ؒ اپنے والدصاحبؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ نے ایک مرتبہ خواب دیکھا کہ ایک تخت ہے جس کے صدر پرحضرت گنگوہیؒ اورحضرت نانوتویؒ تشریف رکھتے ہیں،مولانا نے یہ خواب ایک عریضہ میں لکھکر جس میں بیعت کی درخواست بھی تھی ،حضرت حاجی امداداللہ صاحبؒ کی خدمت میں روانہ کردیا،حضرت نے جواب میں خواب کی تعبیریہ تحریرفرمائی کہ دونوں میں سے کسی سے بیعت کرلو،چنانچہ مولانا محمد مظہرصاحب حضرت نانوتویؒ کے پاس خط لے کر آئے کہ مجھے بیعت کرلو،انہوں نے گھبراکرفرمایا کہ آپ ہی مجھے بیعت فرمالیں،فرمایا کہ لویہ خط ہے اور حکم ہے ،حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے (اس خط کو پڑھکر)فرمایا کہ میں آپ کو صحیح مشورہ دیتا ہوں کہ گنگوہ تشریف لے جائیں وہاں گئے تو حضرت گنگوہیؒ نے بھی قائل فرمایا مگرپھر بیعت فرمالیا‘‘
حضرت مولانا عبدالحئی صاحب ؒ فرماتے ہیں:
’’وکان عالمامتبحراً متقنا للفنون بایع الامام رشید احمد الکنکوہی واجازۃ وکان کثیر القرأۃ للقراٰن ،دائم الذکر،رطب اللسان باسم الذات بعیداً عن التکلف ،زاہداً متقشفا وقوراقدالقیت علیہ المہابۃ‘‘
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد مظہرصاحب مہاجرمکیؒ فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا محمد مظہرصاحب ؒ اعلی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے عمرمیں بڑے تھے لیکن حضرت کے خلفاء اورمحبوب ترین خادم تھے‘‘
مولانا محمد ثانی حسنی مظاہری ؒ لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے اگرچہ عمر میں بڑے تھے لیکن انہیں سے بیعت ہوئے،بیعت کیا ہوئے ان کی محبت وعشق میں ڈوب گئے ،حضرت گنگوہیؒ بھی آپ کی بڑی عزت فرماتے،اجازت وخلافت سے بھی آپ کو مشرف کیا‘‘
حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھیؒ(متوفی یکم شعبان ۱۳۶۲ھ؁-۱۹۴۳ئ؁)فرماتے ہیں۔
’’مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ عمرمیں حضرت امام ربانی سے بڑے تھے مگرعقیدت کے اعتبارسے گویا حضرت کے جاں نثار خادم اورعاشق جانباز تھے،جب (گنگوہ)تشریف لاتے تو بے اختیار حضرت (گنگوہی) کے قدموں پربوسہ لیتے اورآنکھوں میں آنسوبھرلایا کرتے …حضرت امام ربانی شرماتے اور یوں فرماتے کہ’’مولانا آپ مجھے کیوں نادم فرمایا کرتے ہیں،آپ میرے بڑے ہیں،مجھ پر آپ کا ادب ضروری ہے،آپ ایسا کام کرتے ہیں تومجھ کو بڑی شرم آتی ہے،مولانا مظہرصاحبؒ صاحب بصیرت تھے حضرت کے علوشان اورمرتبت اوراپنی فرط محبت کے سبب جوکچھ کرتے تھے،وہ ان کا طبعی تقاضا تھا مگر حضرت امام ربانی کبرسنی کے پاس ولحاظ اورجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد من لم یرحم صغیرنا ولم یؤقرکبیرنا فلیس منا،کے امتثال کو بھول نہیں سکتے تھے۔
حضرت اما م ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ مولانا محمد مظہرصاحبؒ کا جواحترام کرتے تھے اس سے آپ واقف ہوچکے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علماء دیوبند کے روحانی پیشواسید الطائفہ حضرت حاجی امد اللہ صاحب کی نظروں میں اس گوہر کی جو وقعت اورعزت تھی اس کو بھی بیان کردیا جائے۔
مرقومات امدادیہ میں ہے کہ حضرت حاجی صاحبؒ نے تحریر فرمایا :
’’اگرمولوی محمد مظہرنانوتہ میں تشریف رکھتے ہوں تو بعد سلام شوق ملاقات فرماکر یہ پیام دیں کہ اس یکتائے زمانہ کو اپنی جماعت میں اپنے دوستوں میں شمار کرتا ہوں،دعاء خیر سے غافل نہیں ہوں،خاطرجمع فرمادیں اورجوکچھ ذکروشغل سے متعلق دریافت کرنا منظور ہوتو بذریعہ احقریا مولوی رشید احمد صاحب کہ ان کو بجائے احقرجانیں،معلوم کریں‘‘۔
سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ صاحب ؒکو مذکورہ تحریر سے مولانا محمد مظہرصاحب ؒ کے بلند وبالامقام ومرتبہ ،آپؒ کی عظمت وشان وجلالت برہان (جو حضرت حاجی صاحبؒ کی نظروں میں تھی)کا پتہ چلتا ہے۔
امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کو جب مولانا کے انتقال کی افسوس ناک خبرملی تو بہت زیادہ مغموم ہوگئے اور حضرت محدیث کبیر مولانا خلیل احمد صاحبؒ محدث کے پاس درج ذیل تعزیتی مکتوب ارسال فرمایا ۔
’’اب حادثۂ جدیدہ یہ ہوماکہ مولوی محمد مظہرمرحوم ۲۴؍شب ذی الحجہ کو فوت ہوئے عالم اندھیرا ہوا اب سب رفیق رخصت ہوئے دیکھئے کب تک میری قسمت میں اس دنیا میں دھکے لکھے ہیں‘‘۔
محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒانبہٹوی کو اپنے استاذ حضرت مولانا محمد مظہرصاحبؒ سے بے پناہ عقیدت ومحبت اورغایت انسیت والفت تھی چنانچہ ایک بارجمادی الثانی ۱۳۴۰ھ؁ میں جب سخت علیل ہوئے تو اپنا وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں لکھا کہ’’مجھے استادی مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ کے پہلو میں دفن کریں‘‘لیکن حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ کا عشق مدنی آقاء صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قد ر تھادنیا کی کسی ذات سے نہیں ہوسکتا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور گھٹن کی کشش نے مدینہ پاک کھینچ لیا اور دیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مدفون ہیں جہاں کاذرہ ذرہ آفتاب وماہتاب اورانوارالٰہی کی تجلیات سے تاباں ودرخشاں ہے۔
حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ
محدث کبیرحضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ اوائل صفر۱۳۶۹ھ مطابق دسمبر۱۸۵۲ء کواپنے نانیہال نانوتہ ضلع سہارنپورمیں پیداہوئے ،ظہیرالدین اورخلیل احمددونام تجویزہوئے،دوسرے نام سے عالم میں مشہورہوئے۔
عمرکے پانچویں سال آپ ؒکے ناناجان استاذالکل حضرت مولانامملوک العلی نانوتویؒ نے آپ کو بسم اللہ پڑھائی اس طرح آپؒ کی تعلیم اورتعلم کاطویل سلسلہ چلا،ابتدائی تعلیم انبہٹہ اورنانوتہ میں حاصل کی پھرحصول علم کی سچی تڑپ نے چچاجان حضرت مولاناانصارعلیؒ کی رفاقت میں گوالیارپہنچادیا،گوالیارمیں مختصرعرصہ قیام کے بعدپھروطن آگئے اورقصبہ کے مشہور استاذمولوی سخاوت ؒکے پاس کافیہ تک کی تعلیم حاصل کی ۔چھ ماہ کے لئے آپ نے ایک انگریزی اسکول میں بھی داخلہ لے کرانگریزی پڑھی اوراپنی خوش استعدادی وذہانت کے باعث چھ ماہ میں اس قدرتعلیم حاصل کرلی کہ دوسال کے پرانے طلبہ بھی پیچھے ہوگئے،آپ کاماسٹرجوہندوتھاوہ بھی آپ کی لیاقت وصلاحیت کو دیکھ کرحیران وششدرتھاچنانچہ ایک بارکہہ بھی دیاکہ تم انتی جلدی انگریزی گرامرکی ترکیب کرلیتے ہوکہ میں بھی قادرنہیں اس کی کیاوجہ ہے ؟حضرت سہارنپوریؒکے چچازادبھائی مولاناصدیق احمدبھی اسی اسکول میں زیرتعلیم تھے انہوں نے کہاکہ ہم نے عربی زبان کی ایک کتاب شرح جامی پڑھ رکھی ہے جونحوی ترکیب کی بہترین کتاب ہے اس لئے ترکیب نحوی کسی بھی زبان میں ہومشکل نہیں ہے ۔حضرت مولانااپنی ذہانت اورفطانت کی وجہ سے انگریزی پڑھ تو رہے تھے لیکن طبیعت اچاٹ اورکبیدہ رہتی تھی ،اسی زمانہ میں آپ کویہ مسرت افزاخبرملی کہ دیوبندمیں ایک عربی مدرسہ قائم ہواہے جس کے صدرمدرس آپؒ کے ماموں حضرت مولانامحمد یعقوب نانوتویؒ ہیں چنانچہ آپ نے والدین سے اجازت مانگی جومل گئی ،دیوبندپہنچے توآپ کے ماموں نے آپ کوکافیہ کی جماعت میں داخل فرمادیالیکن دیوبندمیں بھی آپ کادل نہ لگا،اتفاق سے اسی زمانہ میں سہارنپورمیں مدرسہ مظاہرعلوم قائم ہوایہاں کے پہلے صدرمدرس بھی حضرت سہارنپوریؒکے قریبی ماموں حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒتھے چنانچہ آپ دیوبندسے سہارنپورتشریف لے آئے اوربقول حضرت اقدسؒ کے کہ ’’جس وقت یہاں پہنچاہوں بس اس طرح مانوس ہوگیاکہ گویاہمیشہ سے یہیں رہتاتھا‘‘
حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒ،حضرت مولاناعبدالقیوم بڈھانویؒ،حضرت شیخ احمددحلانؒ اورحضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ جیسی برگزیدہ شخصیات سے آپ کو اجازت حدیث حاصل تھی۔
فراغت کے بعدہی آپؒاپنی مادرعلمی میں معین مدرس بنادئے گئے لیکن اس درمیان عربیت میں مہارت اورکمال پیداکرنے کیلئے لاہورحضرت مولانافیض الحسنؒ ادیب سہارنپوری کے پاس پہنچ کرعلوم عربیہ وادبیہ کی تکمیل کی،پھرواپسی پرحضرت مولانامحمدیعقوبؒ نے قاموس کاترجمہ کرنے کے لئے منصوری پہاڑپربھیج دیا،وہاں چندماہ گزارکرمنگلور، بھوپال،بھاول پور،بریلی اوردارالعلوم دیوبندمیں تدریس کاموقع ملااورآخرکارحضرت مولانارشیداحمدگنگوہیؒ کے حکم پر۱۳۱۴ھ میں اپنی مادرعلمی مظاہرعلوم میں تشریف لے آئے اورترقیات کاتاریخی دورشروع ہوا،جس طرح آپ کومظاہرعلوم میں پے روپے ترقیات ملیں اسی طرح آپ کی ذات سے مادرعلمی کوبھی خوب ترقی ملی۔
حضرت سہارنپوریؒیہاں استاذحدیث سے شیخ الحدیث،اورصدرمدرس،سرپرست اعلیٰ اورپھرمدارالمہام بن گئے تھے، مدرسہ کی پرشکوہ عمارت دارالطلبہ قدیم حضرتؒہی کی کاوشوں،کوششوں کانتیجہ ہے جوفن تعمیرکاشاندارشاہکارہے۔
آپ کے عہدمیں مدرسہ کی مسجدکلثومیہ بھی تعمیرہوئی جوخوبصورتی اوردلآویزی میں بہت ہی عمدہ عمارت ہے،اس کے علاوہ قدیم کتب خانہ کی تعمیراورکتابوں کی فراہمی،عالم اسلام میں ادارہ کی شہرت ومقبولیت،علماء وخواص کارجوع،طلبہ کی کثرت غرض کہ ہرطرح مظاہرعلوم کوترقیات حاصل ہوئیں ۔
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ آپ ؒکے عزیز شاگرد،خصوصی مسترشداورخادم خاص تھے،چنانچہ ابوداؤدشریف کی معرکۃ الآراء شرح ’’بذل لمجہود‘‘ کامعتدبہ حصہ مدینہ منورہ میں لکھا،اس کی تسوید،تبییض،مراجعت کتب اورتحقیق وغیرہ کااہم کام حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاکاندھلویؒہی سے لیتے تھے،حضرت سہارنپوریؒ کوچونکہ حب رسول بلکہ عشق رسول تھااورآپ کی دلی تمناوآروزوتھی کہ خاک طیبہ میں دفن ہونانصیب ہوجائے اس لئے باربارسفرحج فرماتے ،وہاں طویل قیام فرماتے اوربذل کی تکمیل بھی۔
۱۵؍ربیع الثانی ۱۳۶۴ھ کوآفتاب علم فضل کایہ آفتاب ماہتاب اپنی تمنااوردعاکے مطابق مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں غروب ہوگیا۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔مدرسہ شرعیہ مدنیہ منورہ کے صدرمدرس مولاناشیخ طیب ؒنے نمازجنازہ پڑھائی اوربقیع میں تدفین عمل میں آئی ۔
حضرت اقدس شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ
حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم رائے پوریؒنہایت بزرگ،متقی وپرہیزگار ،خداترس اورولی کامل تھے،آپؒ امام ربانی حضرت گنگوہیؒ کے خلیفۂ اکبرتھے،دارالعلوم دیوبنداورمظاہرعلوم سہارنپورکی مجلس کے اہم ممبرتھے۔
حضرت شیخ الہندؒکی تحریک کے سرگرم رکن اوراہم ستون بن گئے تھے۔حضرت شیخ الہندؒ جب حجازتشریف لے گئے توہندوستان میں حضرت رائے پوریؒ کو اپنامعتمدخاص اورقائم مقام بنایاتھا۔
جس وقت آپ کا وصال ہواتوحضرت شیخ الہندؒمالٹاکی جیل میں قیدوبندکی صعوبتیں جھیل رہے تھے،جیل ہی میں آپ کے وصال کی اطلاع ملی توایک مرثیہ بھی تحریرفرمایاجوحضرت شیخ الہندکے قصائدمیں موجودومطبوع ہے۔
۱۳۲۰ھ کومظاہرعلوم سہارنپورکے سرپرست منتخب ہوئے اوراپنی ذات سے مدرسہ کو مالامال فرمایا۔
۱۳۲۸ھ مطابق ۱۹۱۰ء میں اپنی اہلیہ اورصاحب زادہ حضرت حافظ عبدالرشیدؒکے ہمراہ حرمین شریفین کاقصدفرمایا،راستے میں صاحب زادہ محترم بمرض اسہال انتقال کرگئے ،حضرت مولاناشاہ عبدالقادررائے پوریؒ بحیثیت خام آپ کے ہمراہ تھے ۔
اخیرمیں مختلف امراض واسقام کاشکارہوگئے ،انتقال سے چندیوم قبل آب وہواکی تبدیلی کے لئے قریب کے ایک گاؤں موضع پیلوں تشریف لے گئے اوروہیں انتقال فرمایا۔۲۶؍ربیع الثانی ۱۳۳۷ھ مطابق ۲۹؍جنوری ۱۹۱۹ء کورائے پورکے باغ کے جنوبی سمت میں مسجدسے متصل مدفون ہوئے۔
حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرمایاکرتے تھے کہ
’’ اگرحضرت شیخ الہندؒاورحضرت سہارنپوریؒ کی گودمیں بیٹھاجائے توکوئی خوف نہیں لیکن حضرت رائے پوریؒ کی تومجلس میں بھی بیٹھنے سے ڈرلگتاہے کہ کہیں کشف سے کچھ معلوم نہ کرلیں‘‘۔
انتقال سے پہلے آپ کے پاس جو نقدی تھی سب تقسیم فرمادی تھی تاکہ ترکہ نہ بنے ،حضرت شاہ عبدالقادرؒکوبھی اس میں سے تین سوروپے عنایت فرمائے۔
حضرت شیخ الحدیثؒنے تاریخ مظاہرمیں ناظم مظاہرعلوم کاتأثرتحریرفرمایاہے کہ
’’حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کمالات علمیہ وعملیہ سے آج دنیاواقف ہے ،اس لئے اس بحرتوحیدکے درفریدکی برکات وفیوضات سیمدرسہ کو جوکچھ روحانی قوت پہنچی اس کو اہل مدرسہ کبھی فراموش نہیں کرسکتے اوراسی لئے آج یہ گلستان علم اپنے چارطرف مہکنے والے گلاب کی نظروں سے اوجھل ہوجانے پربے چینی کے ساتھ دست بہ دعاہے کہ بارالہا!اپنی رضامیں فناہونے والے درۃ التاج کے مراتب عالیہ اورقرب میں بے انتہاترقی عطافرمااورجنت الفردوس کے اعلیٰ ترین مقام میں سکونت بخش۔ویرحم اللّٰہ عبداقال آمینا‘‘
حضرت مولانامحمدیحیٰ کاندھلویؒ
حضرت مولانامحمدیحیٰ بن مولانامحمداسمعیل کاندھلویؒ محرم ۱۲۸۸ھ کوپیداہوئے ،تاریخی نام بلنداخترتھا،آپ کے والدماجدبہادرشاہ ظفرکے سمدھیانہ میں تعلیم دیتے تھے ،آپ نے سات برس کی عمرمیں قرآن کریم حفظ کرلیاتھا،اسی عمرمیں تلاوت کام پاک کایہ عالم تھاکہ صبح سے ظہرتک پوراقرآن کریم پڑھ لیاکرتے تھے۔
عربی تعلیم کی ابتداء اپنے والدماجدسے کی ،خدادادذہانت کایہ عالم تھاکہ درسیات کی اکثرکتابیں آپ نے اپنے علم اورمطالعہ کی مددسے حل کرلی تھیں ،معاصرعلماء میں آپ کی ذہانت کاشہرہ تھا اوربڑے بڑے علماء کوآپ سے علمی مکالمہ کرنے میں فخرمحسوس ہوتاتھا۔عربی زبان وادب میں آپ کو اتنی مہارت ہوگئی تھی کہ آپ نظم اورنثردونوں میں بے تکلف لکھتے تھے۔تاہم مقامات حریری کے نومقامے مولاناحکیم محمدحسن دیوبندی (برادرحضرت شیخ الہندؒ)سے اس طرح پڑھے کہ حضرت الاستاذاپنے مکان سے جب باہرآتے یامکان پر تشریف لے جاتے تو راستہ میں چلتے چلتے پڑھتے رہتے تھے،جس لفظ کاترجمہ استاذصاحب کو معلوم نہ ہوتاتوصاف کہدیتے کہ اس کے معنی مجھے معلوم نہیں ہیں تم خودحل کرلینا۔
ایک اوراستاذمولوی یداللہ ؒسے آپ نے صرف اٹھارہ دن میں حمداللہ جیسی مشکل کتاب پڑھ لی تھی،سلم العلوم آپؒ کو ازبریادتھی بلکہ تسبیح لے کردودوسوبارسلم العلوم ازاول تاآخرپڑھ لی تھی۔ایسابھی ہواہے کہ طلبہ کے پاس کتابیں نہیں تھیں توآپ نے اپنے حافظہ کی مددسے پوری پوری کتاب لکھ کرطلبہ کو دیدی۔
دہلی کے مدرسہ حسین بخش میں آپ نے منطق اورادب کے علاوہ تعلیم حاصل کی ،البتہ حدیث پڑھنے کے لئے بوجوہ حضرت گنگوہیؒ کومنتخب کیااوردورۂ حدیث شرف پڑھا،آپ نے بخاری ،سیرت ابن ہشام،طحاوی،ہدایہ اورفتح القدیروغیرہ کاامتحان محض مطالعہ سے نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ ممتحن حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ بے فرمایاکہ ایسے جوابات مدرس بھی نہیں لکھ سکتاتھا۔
آپ نے بارہ برس تک حضرت گنگوہیؒ کی خدمت کی اورحضرت گنگوہیؒ نے کسی طلب کے بغیرآپ کو خلعت خلافت واجازت سے سرفرازفرمایا۔
آپ روزآنہ رمضان میں ایک قرآن کریم ختم کرتے تھے۔مظاہرعلوم میں طویل عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دیں لیکن کبھی کوئی معاوضہ یاتنخواہ نہیں لی۔
ذیقعدہ ۱۳۳۴ھ میں آپ نے وصال فرمایا۔
حضرت مولانا عبد القادر رائے پور یؒ
چودہ یا پندرہ سال کی عمرمیںحصول علم کیلئے سہارنپورتشریف لائے اورمظاہرعلوم سہارنپور میںاکابرعلماء واعیان علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیابالخصوص حضرت مولانا ثابت علی پورقاضویؒ سے شرح جامی پڑھی ،اس دوران محدث کبیرحضر ت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کے صاحبزادے مولانا حبیب الرحمن سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا ،یہی وہ زمانہ ہے جب حضر ت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری کی زیارت سے مشرف ہوئے ،
۱۹۴۷ء کے خونچکاں حالات میںحضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ حضرت مدنی ؒاورشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ کی دوررس نظرنے مسلمانو ں کے لئے ڈھارس کا کام کیا اورمسلمانوں کی کثیر تعداد نے ہندوستان کے انخلاء کا ارادہ ترک کردیا ۔
رودادمظاہرعلوم ۱۳۸۲ھ میں آپ کے سانحۂ ارتحال کی اطلاع بایں الفاظ دی گئی۔
’’اس سال کا ایک بڑا حادثہ اورزبردست حادثہ ہے ،حضرت اقدس الحاج مولانا الشاہ عبد القادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت اقدس مولاناشاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری قدس اللہ اسرارھم کی وفات حسرت آیات ۔
آپ نے ۱۴؍ربیع الاول ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۶؍اگست ۱۹۶۲ء یوم پنجشنبہ کو دن کے ۳۰:۱۱بجے لاہور میں انتقال فرمایا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔حضرت شیخ اعظم تھے ،شریعت وطریقت کے جامع ایک ایسے عارف کامل ومرد صوفی جن سے رشد وہدایت کے چشمے پھوٹتے تھے ،سلسلہ ٔامدادی کے پرانے شیوخ کبارمیں سے یہ ایک آخری شخصیت باقی رہ گئی تھی جس کی شمع حیات بھی خاموش ہوگئی ۔وہ کس قدر سادگی کا پیکر اوران کے کتنے فیوض وبرکات تھے یہ محتاج تعارف نہیں،حضرت مدرسہ کے سرپرست بھی تھے ۔ مدرسہ پر مخصوص توجہ اورشفقت ورافت کا معاملہ فرماتے تھے حضرت کے اہل مدرسہ سے خصوصی روابط ومراسم تھے ۔
حضرت کی وفات امت مسلمہ کیلئے ایک ناقابل تلافی نقصان عظیم ہے اور اربابِ مدرسہ نے بھی دل کی گہرائیوں اور روح کی پنہائیوںسے اس حادثہ ٔ جانکاہ کو محسوس کیا ہے ۔ حضرت کی شب جمعہ میں صبح قریب ڈھڈھیاں ضلع سرگودھا (پاکستان ) میں تدفین عمل میں آئی ……حق تعالیٰ حضرت موصوف کو جنت الفردوس میں درجات عالیہ عطا فرمائے اورپسماندگان کو ان کی طرح دین وشریعت کی مثالی زندگی گزارنے کی توفیق ارزانی فرمائے‘‘ ۔ (روداد ۱۳۸۲ھ )
حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندہلویؒ۱۱؍رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ بمقام کاندھلہ پیداہوئے، ابتدائی تعلیم کے علاوہ ڈاکٹرعبدالرحمن صاحبؒ( جوحضرت گنگوہیؒکے خصوصی لوگوں میں سے تھے )کے پاس حفظ کلام اللہ مکمل کیا۔
پہلے آپ اپنے والدماجدکے ساتھ گنگوہ ہی میں رہے لیکن جولائی ۱۹۱۰ء میں آپ والدمحترم کے ساتھ سہارنپورتشریف لے آئے اورشوال ۱۳۲۸ھ میں مظاہرعلوم میں داخلہ لے کردوسری جماعت سے درس نظامی کی تعلیم شروع کی اورمسلسل سات سال تک مظاہرعلوم میں مختلف درجات کی کتب پڑھ کر۱۳۳۴ھ میں فارغ ہوئے۔
اسی سال ۹؍ذیقعدہ ۱۳۳۴ھ میں آپ کے والدبزرگوارحضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒ وصال فرماگئے۔
اپنے والدومربی شیخ کامل ، فقیہ دہراورمحدث دوراں حضرت مولانامحمدیحییٰ نوراللہ مرقدہ کی زیرسرپرستی اپنی تعلیم کی ابتداء کی،حفظ کلام اللہ اور ابتدائی تعلیم کے بعدمظاہرعلوم سہارنپورمیں داخلہ لیااورکئی سال تک مختلف درجات کی تعلیم حاصل کرکے ۱۳۳۳ھ میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئے۔
فراغت کے بعد۱۳۳۵ھ میں مظاہرعلوم میں تدریس کی خدمت کاموقع ملا،اس وقت آپؒ تمام اساتذہ میں سب سے کم عمرتھے لیکن اپنی خدادادلیاقت اورصلاحیت کے باعث بہت جلدمظاہرعلوم کے منتہی اساتذہ میں شمار کئے جانے لگے۔
آپ نے اپنے استاذومرشدشیخ العرب والعجم حضرت مولاناخلیل احمدانبہٹویؒ کے حکم پرصرف ۲۶سال کی عمرمیں سب سے پہلی باربخاری شریف کادرس دیا۔
آپ کے والدماجدحضرت اقدس مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒچونکہ حضرت گنگوہیؒکے خادم اورخصوصی شاگردتھے اسی طرح حضرت شیخ الحدیث ؒکے استاذومربی حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ بھی حضرت گنگوہیؒ کے اجل خلیفہ تھے اس لئے ایسے بابرکت ماحول کااثرحضرت شیخ الحدیثؒ پرآناضروری تھاچنانچہ حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ کے مبارک ہاتھوں پربیعت ہوئے اوران ہی کے مجازہوکرعالم اسلام کو اپنی روحانی وعرفانی خدمات سے روشن ومنورفرمایا۔
حضرت سہارنپوریؒ جب ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپؒبحیثیت خادم ساتھ گئے اورحضرت کے آرام وراحت ،علمی وتصنیفی امورکوبحسن وخوبی انجام دیا۔
۲۴؍مئی ۱۹۸۲ء کوانتقال فرمایااورجنت البقیع مدینہ منورہ میں تدفین عمل میں آئی۔
حضرت الحاج حافظ عبدالعزیزرائے پوریؒ
۱۳۳۸ھ کومظاہرعلوم میں داخل ہوئے اورہدایۃ النحو،بحث فعل،مرقات،میزان الصرف وغیرہ سے اپنی تعلی کا آغازکیا اوردرجہ بدرجہ تعلیم حاصل کرکے۱۳۴۲ھ میں دورہ حدیث شریف پڑھ کرفارغ ہوئے ۔
آپ نے بخاری شریف،ترمذی شریف،طحاوی شریف حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒسے،مسلم شریف،نسائی شریف، مؤطاامام مالکؒ اورمؤطاامام محمدؒحضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒسے ابوداؤدشریف، ابن ماجہ شریف حضرت مولاناعبدالرحمن کامل پوریؒ سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔حضرت مولانامفتی جمیل احمدتھانویؒ آپ کے دورۂ حدیث شریف کے ساتھی ہیں۔
حضرت مولاناسررحیم بخشؒ کے انتقال کے بعدان کی جگہ پرکرنے کیلئے۲۰؍جمادی الثانی ۱۳۵۹ھ کو مظاہرعلوم کے رکن شوریٰ بنائے گئے۔چنانچہ سرپرست بننے کے بعدپہلی بار۱۰؍رجب المرجب ۱۳۵۹ھ مطابق ۱۶؍اگست ۱۹۴۰ء جمعہ کے دن مظاہرعلوم تشریف لائے اورتفصیل کے ساتھ دفترمالیات کے رجسٹروں کا معائینہ فرمایا۔
اس کے بعدپھر حضرت مولانااکرام الحسن کاندھلویؒ کے ساتھ مدرسہ کے حسابات کی جانچ پڑتال کے لئے تشریف لائے اورتقریباً ڈیڑھ ماہ تک حسابات کی جانچ کرتے رہے،اس سلسلہ میں حضرت مولانااکرام الحسن کاندھلویؒ نے کلیدی کردارادافرمایاتھا۔
یکم ذی الحجہ ۱۴۱۲ھ کوپاکستان میںانتقال فرمایا۔جنازہ ہندوستان لایاگیا،دہلی میں پہلی نمازجنازہ حضرت مولانااکرام الحسن کاندھلویؒنے پڑھائی پھربذریعہ ایمبولینس رائے پورجنازہ لایاگیاجہاں ایک جم غفیرنے حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے نمازجنازہ پڑھائی اوراپنے ناناجان کے پہلومیں مدفون ہوئے۔
حضرت مولانا مفتی عبد العزیز رائے پوریؒ
شعبان ۱۳۷۳ھ میں مظاہرعلوم میں دورۂ حدیث شریف پڑھ کر فراغت حاصل کی،شیخ الادب حضرت مولانا اطہرحسین اجراڑویؒ آپ کے رفقاء درس میں سے تھے ،مفتی صاحب کے اساتذۂ دورۂ حدیث شریف میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒمہاجرمدنی ،حضرت مولانا منظوراحمد خانؒ ، حضرت مفتی سعید اجراڑویؒ اورحضرت مولانا محمداسعد اللہ رحمہم اللہ تھے۔
۱۳۷۵ھ میں دوبارہ مظاہرعلوم میں داخلہ لیکر فنون کے درجے میں اقلیدس ،حمداللہ ،تصریح ،صدرا،رسم المفتی،درمختاروغیرہ پڑھیں ۔
۴؍شوال۱۳۷۶ھ کو ابتدائی عربی کے لئے مظاہرعلوم میں تقررہوگیا ۔
۱۳۸۱ھ کو کچھ وقت کیلئے اپنے مرشدحضرت رائے پوریؒ کے پاس تشریف لے آئے پھر ۱۳۸۲ھ میں مظاہرعلوم واپس آئے اور حسب سابق درس و تدریس اور شعبۂ دارالافتاء کے مفوضہ امور انجام دینے میں مصروف ہوگئے ۔
حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ کے وصال کے بعد شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا ؒ مہاجرمدنی سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا ۔
مفتی صاحب نے مدرسہ کے مالی استحکام کے لئے ملک وبیرون ملک کے متعدد اسفاربھی فرمائے ۔
۱۳۸۲ھ کو مدرسہ کے احاطہ دارالطلبہ جدید کا نگراں اور دارالطلبہ جدید کی مسجد کا امام وخطیب بھی مقررکیا گیا۔
۱۳۸۵ھ میں پہلی بار نائب مفتی کا عہدہ آپ کے سپر دہوا ۔
۱۸؍جمادی الثانی ۱۴۱۲ھ بعد نماز مغرب اللہ اللہ کہتے ہوئے انتقال فرماگئے ۔فرحمہ اللّٰہ تعالیٰ
حضرت مولانامفتی عبدالقیوم رائے پوری مدظلہ
شعبان ۱۳۷۶ھ میں مظاہرعلوم سہارنپورسے فارغ ہوئے ، حضرت مفتی صاحب اپنی خدادادصلاحیت کے باعث پورے مدرسہ میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے ۔
مظاہرعلوم میں آپ کا تقرریکم رمضان المبارک ۱۳۸۵ھ کو پچاس روپئے کے مشاہرہ پر’’ناقل فتاویٰ‘‘ کی حیثیت سے ہوا۔
یہاں قیام کے دوران مقامات ،ہدایہ اولین اور جلالین جیسی متداول کتابوں کا درس دیا۔فقہ حنفی پر آپ کواللہ تعالیٰ نے بڑی بصیرت سے نوازاہے۔
فتویٰ نویسی کے علاوہ آپ نے مختلف جماعتوں اورکتابوں کا درس بھی دیا،مدرسہ کے احاطہ دارالطلبہ جدیدکے نگراں بھی بنائے گئے اوروہاں کی مسجدمیں امامت بھی کی۔ آپ کے تحریرفرمودہ فتاویٰ کی معتدبہ تعداد’’ شعبۂ مخطوطات‘‘ میں محفوظ ہے۔
مناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہؒرام پوری ناظم مظاہرعلوم سہارنپورسے اصلاحی تعلق قائم کیاتھا،پھرحضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے ایک اجل خلیفہ سے اجازت وخلافت سے سرفرازہوئے ۔
نیک طینت،حلیم وبردبار،متواضع ،سادہ طبیعت،ذاکروشاغل ،کم گورہنے کے علاوہ زاہدانہ، قانتانہ، عارفانہ اورشان بے نیازی کی زندگی گزارنے کا معمول ہے،سخن فہم،ذہین وفطین فرد ہیں،تلاوت قرآن کامعمول اوراورادواذکارکی پابندی نیزاپنے کام میں یکسوئی اورانہماک میں مثالی شان کے حامل ہیں۔
شوال ۱۴۰۵ھ کومستقلاًخانقاہ رائے پورتشریف لے آئے ،چنانچہ یہاں کی خانقاہ اورمدرسہ گلزاررحیمی کو آپ کی ذات قدسی صفات سے خوب خوب تابندگی ملی اورعوام وخواص کی کافی مراجعت ہوئی۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ سے آپ کونہایت ہی تعلق اورمحبت تھی ،دونوں اکابرایک دوسرے کااکرام واحترام فرماتے تھے،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے اپنے دوراہتمام میں مفتی صاحب موصوف کو ۱۴۰۹ھ میںمظاہرعلوم کی مجلس شوریٰ کا رکن بھی بنالیاتھا،چنانچہ ہنوزحضرت مفتی صاحب مظاہرعلوم کی باعظمت مجلس شوریٰ کے اہم ترین رکن ہیں۔اللہ تعالیٰ صحت وعافیت عطافرمائے۔
٭٭٭
 
Top