تحفظ ختم نبوت اورمظاہرعلوم سہارنپور(قسط ۲)

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
تحفظ ختم نبوت [align=center]اورمظاہرعلوم سہارنپور(قسط ۲)
ناصرالدین مظاہری​
[/align]
انجمن ہدایت الرشیدکے قیام کی غرض وغایت:
حضرت مولانا نسیم احمد غازی مظاہر ی مدظلہ کے گہربا ر قلم سے آپ بھی پڑھئے ۔​

’’ مظاہرعلوم سہارنپورکا قیام دین کی حفاظت اوربقا ء کیلئے ایسے ہولناک وقت میں ہوا کہ ہندوستان میں انگریزی حکومت اپنے ظلم واستبدادکی پوری قوت کے ساتھ قائم ہوچکی تھی اور اسلام ومسلمین خطرات کی ہلاکت خیزبھنورمیں پھنس چکے تھے ،حکومت کا فرہ کی حمایت وتائیدکے نام سے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مسلسل سازشیںتیار ہورہی تھیں اورہر طرف سے باطل پرست اپنی تقریروں،تحریروںاورتدبیروںسے اسلام پر حملہ آور ہورہے تھے ،اس لئے اکابر مظاہر علوم باطل پرستوں اورہواوہوس کے متوالوں کے مقابلہ میں روزِ اول ہی سے بر سرپیکار ونبر د آزما تھے اورہر قسم کی گمراہیوںکے دفاع کی تیاریاں کرتے رہتے تھے ،یہاں طلبہ ٔ علوم دینیہ کو وعظ وتقریر،دعوت وتبلیغ اورمباحثہ ومناظرہ سکھانے کا خاص اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔(حیات اسعد) چنانچہ طلبۂ کرام پورے ذوق وانہماک سے علمی استعدادبہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ اہل باطل سے تحریری وتقریری جنگ اورمقابلہ کیلئے خوب تیاریاں کرتے اورموقعہ پراپنی قوت ِ مطالعہ وحسنِ تربیت کے جوہر دکھلاتے تھے ……۱۳۰۴ھ میں سہارنپورمیں ہونے والے ایک مناظرے کی تفصیل مدرسہ کی روداد میں ان الفاظ ذیل کے ساتھ شائع ہوئی کہ ’’اس علم کا نفع اہل شہر سہارنپورکو بخوبی معلوم ہوگیا ہے کیونکہ جو پارسال مباحثہ طلبہ مدرسہ کا معاندین ومخالفین کے مقابلہ میں ہوا تھا ہر فرد بشر کو اظہر من الشمس ہے کہ طلبہ مدرسہ ہذانے کیسے کیسے جو ابات مخالفین کو دندانِ شکن دئے اوربارہا گفتگومیں تمام اہل ادیان باطلہ کو بند کردیا جس کے باعث مخالفین تنگ آئے اوراپنا وعظ موقوف کردیا اوراعتراضاتِ اہل اسلام کو تسلیم کرلیا اورجب کہ حقانیت اسلام واہل اسلام کی اوربطلان مذاہب معاندین کا سب کو ظاہر ہوگیا تو ایک جماعت کی جماعت اسلام سے مشرف ہوئی ،یہ نفع کس قدر سہارنپورکو پہنچا کہ جومقصود علم سے اورمدرسہ سے ہے وہ مقصد اس مدرسہ سے …ہویداہوا ‘‘۔ (رودادمدرسہ ۱۳۰۵ھ ص ۱۱) انجمن کے قیام اورطریق کارپر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مولانانسیم احمدغازی مظاہری رقم طراز ہیں ۔ ’’اس کے بعد روز بروز حالات میں شدت آتی گئی اوراس سلسلہ کی اہمیت میں اضافہ ہوتا گیا ایک عرصہ کے بعد اربابِ مدرسہ نے محسوس کیا کہ اب اسی محنت پر اکتفاء مناسب نہیں جب تک خصوصی نظام کے تحت تربیت ونگہداشت کے ساتھ وعظ ومناظرہ میں مکمل مہارت وبصیرت رکھنے والے افراد وجود میںنہ آئیں گے اس وقت تک نت نئی گمراہیوں کے میدانوں میںنبرد آزمائی اورکامیاب جنگ لڑنا مشکل ہے ،ان عوامل ومحرکات کے باعث ۲۲؍جمادی الاولیٰ ۱۳۳۰ھ مطابق ۱۹۱۳ء میں ’’انجمن ہدایت الرشید‘‘کا قیام عمل میں آیا یہ وہ زمانہ ہے کہ ہندوستان میں ایک زبردست ہنگامہ بپا تھا ،آریہ سماج اورشدھی سنگٹھن کی تحریکیںاہل اسلام کے دین وایمان پر بھرپورحملے کررہی تھیں ،طاقت ،قوت ، دولت اورفریب کاریو ں سے سیدھے سادے مسلمانوں کو کفروارتداد کے غار میں دھکیل رہی تھیں ، دردمندانِ ملت وغیور پرستارانِ توحید اپنی اپنی صلاحیت ووسعت کے مطابق اس کی روک تھام میں مصروف تھے ،علمائے حقانی ومشائخ ربانی مواعظ وتقریرات اورمناظروں سے دفاع کررہے تھے ،دینی ادارے اورمدارس اسلامیہ کے اکابروذمہ دار حضرات علمی اورتحقیقی اندازسے متأثرہ علاقوں میں وفود وجماعتیں بھیج کر اپنی ذمہ داریوں کو بروئے کار لارہے تھے ، جمعیۃ العلماء ہند ودارالعلوم دیوبند وخانقاہِ تھانہ بھون کے اکابرنے اپنی تمام تر مساعی وتوجہات سے اس خطرناک سیلاب کو روکا ، اس موقع پر مظاہر علوم نے بھی اپنے سپوتوںکو میدان میں اتار دیا اورانہوں نے بھرپورمحنت وجدوجہد سے ان فتنوںکا ڈٹ کر مقابلہ کیا ،وعظ وتقریر،دعوت وتبلیغ مباحثوں اورمناظروں کے ذریعہ اورتصنیفات وتالیفات نیز مکاتب ومدارس قائم کرکے ایک نئی انقلابی روح پھونک دی اوران باطل تحریکات کوفنا کے گھاٹ اتاردیا۔ امام ربانی حضرت گنگوہی ؒکے نام نامی سے برکت حاصل کرتے ہوئے اس انجمن کا نام ’’انجمن ہدایت الرشید ‘‘ تجویز کیا گیا ۔ مژدہ اے دل کہ مسیحا نفسے می آید کہ زِنفاس خوشش بوئے کسے می آید شیخ الاسلام حضرت مولانا حافظ سید عبد اللطیف صاحبؒ ناظم اعلیٰ مظاہر علوم سہارنپوراس کے صدر تھے ۔ شیخ المشائخ حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب کامل پوریؒ ناظم ،حجۃ الاسلام حضرت مولانا الشاہ محمد اسعد اللہ صاحب ؒ اوررئیس الواعظین حضرت مولانا محمد زکریاصاحب قدوسی گنگوہیؒ نائب ناظم تھے ،تحریری واشاعتی امورکی نگرانی اورسالانہ کوائف کی ترتیب ،رئیس المناظرین حضرت مولانا نورمحمد خاں ؒمناظر مدرسہ کے ذمہ تھی ۔‘‘ (حیات ِ اسعد ص ۲۷۹) وعظ وتقریر میں حضرت مولانا محمد زکریا قدوسی ؒ ،حضرت مولانا احمد علی اغوان پوری ؒ،حضرت مولانا امیر احمد کاندھلویؒ ، حضرت مولانا ظریف احمد پورقاضوی ؒاورمفتی ٔ اعظم حضرت مفتی سعید احمد اجراڑوی ؒ نے ناقابل فراموش کارنامے انجام دئے ۔ اس وقت کی اسلام دشمن سازشوں،کفرکی دندناہٹ،مسلمانوں کے جمودوتعطل،ان کی غفلت شعاری،ان کے ایمانی سوزوسازکی ٹھنڈک اورجہل وجہالت کامختصرنقشہ نیزانجمن ہدایت الرشیدکی خدمات اوراغراض ومقاصدپرمشتمل ایک مختصرکتابچہ میں یوں منظرکشی کی گئی ہے۔ ’’آج کل شدھی وسنگھٹن کی موجودہ سرگرمیاں مسلمانوں کی جان ومال سے گزرکر ان کے ایمان واسلام پر نہایت شرمناک حملے کررہی ہیں اور ارتداد کے عالم گیر فتنہ نے مسلمانوں کے جذبات ملیہ کو ایسا مجروح کیا ہے کہ جس کا اندمال یقیناً ناممکن ہے بالخصوص شررانگیزوگمراہ کن فرقہ آریہ سماج نے شدھی وسنگٹھن کے ماتحت مسلمانوں اور ان کے ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم پر سینکڑوں بیجاالزامات قائم کرکے سادہ لوح وجاہل مسلمانوں کو نوراسلام سے نکال کر ظلمت کفرمیں ڈالنے کی کوشش کی ،مگرافسوس کہ مسلمانوں کی غفلت شعاری وبے توجہی میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا ،ہاں البتہ علماء اسلام کی بار بار چیخ وپکارنے اس قدرضروراحساس پیداکردیا کہ ایک مرتبہ فوری جوش کے ساتھ تمام ملک میں سینکڑوں انجمنیں اورمجلسیں عرصۂ شہودمیں آئیں اورخوب سرگرمیاں دکھلائیںمگرافسوس کہ چندروزبعدوہ بھی تغافل مسلم کی شکارہوگئیں جن میں سے بعض اب تک نیم جاں مسلمانوں کی اولوالعزمی وکرم نوازی کی طرف چشم برراہ ہیں۔ انھیں میں ایک انجمن ’’ہدایت الرشید‘‘متعلقہ مدرسہ مظاہرعلوم ہے جس کے مفیدکارنامے اورتبلیغ اسلام کی بیش بہاخدمات نے اس کو اپنے ابنائے جنس میں ممتازومشہورکررکھاہے،راجپوتانہ کے آتش ارتدادکو فروکرنے کے لئے اس انجمن کی جدوجہد،جانفشانیاںکیسی مقبول بارگاہ ہوئیں کہ اس کفرستان میں سینکڑوں کفارخداندقدوس کومعبودازلی تسلیم کرتے ہوئے سچے اور پکے مسلمان بن گئے اور ان کے بچوں وبچیوں کے لئے اکثر گاؤں میں مدارس ومکاتب اسلام قائم کئے گئے ‘‘۔ (الذکرالسعیدفی احوال الرشیدص ۲) مقاصد اوراصول وقواعد ’’انجمن ہدایت الرشید ‘‘اپنے مقاصد کوبروئے کارلانے کے لئے ان مندرجہ ذیل اصولوں پر عمل کرتی تھی (۱)مذہب اسلام کے پاک اورسچے اصول کو تشنگانِ ہدایت کے سامنے پیش کرنا (۲)مسائل ِ اعتقادی کی صحیح اورسادی شر ح کرنا اورشکوک وشبہات کا تسلی بخش ازالہ کرنا ۔(۳)مذاہب باطلہ کے مسائل واعتقادات جو عقل سلیم وفطرت ِ انسانی کے بالکل خلاف ہیں ،ان کی حقیقت مہذب الفاظ میں واضح کرنا اوربتلانا کہ حقیقی نجات کا حصول صرف اس طرح ممکن ہے کہ مذہب اسلام کو شمع راہ بنایا جائے نیز یہ کہ اسلام کی آغوش ہر طالب حق کے لئے آغوش ِ رحمت ہے ہر مذہب وملت اورہر قوم کا آدمی اس میں داخل ہوکر پچھلے تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے ۔(۴)دین اسلام کی تحریراً وتقریراً اشاعت کرنا (۵)مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت وخدمت کرنا اوران کو باہمی اخوت کا پیغام دینا (۶)ملک وملت کیلئے مقررین ومناظرین تیار کرنا ۔(رودادِ مدرسہ بابت ۱۳۴۹ھ ص ۳۰۵ ) انجمن کی خدمات اس مبارک انجمن کی آغوشِ تربیت میں ہزارہا طلبہ وعلماء نے تربیت پاکر وعظ وتقریراورمناظرہ میں کمال حاصل کیا اورانہوں نے ملک کے گوشہ گوشہ کو اپنے مواعظ سے گرمایا ، مناظروںاور مباحثوں کے ذریعہ اہل باطل کے چھکے چھڑاتے رہے ۔یہ انجمن آج بھی زندہ وتابندہ ہے ۔ اس انجمن کے تربیت یافتہ حضرات نے ،آریہ سماج کے کارکنوں ،قادیانیو ں ،رضاخانیوں ،غیر مقلدوں وغیرہ سے بکثرت مناظرے کئے ہیں جن مبلغین ومناظرین کو انجمن کی جانب سے بھیجا گیا ،ان کی کارکردگی کا تفصیلی ریکارڈ مدرسہ میں محفوظ رکھا جاتا تھا اورمناظروں کی رپورٹیںملک کے متعدد اخبارات میں شائع ہوتی تھیں۔ ذیل میںعلمائے مظاہر علوم کے مناظروں کی رودادمیں سے صرف ایک مناظرہ کا تذکرہ بطورنمونہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ قارئین کرام ’’لسانی جہاد ‘‘کے اس پہلو سے بھی واقف ہوجائیں ۔ کریم پورضلع جالندھر کامناظرہ :مؤرخہ ۲۶؍۲۷؍ذی الحجہ ۱۳۴۸ھ جب قادیانیوں کو اہل حق کی وجہ سے شہروں اورباخبر حلقوںمیںاپنے مذہب کی اشاعت دشوار تر ہوگئی تو مضافات کو گمراہ کرنا شروع کیا چنانچہ موضع مذکورمیں بھی کوشش کی ،وہاں کے سیدھے سادے مسلمانوںنے حسب استطاعت مدافعت کی لیکن مناظرہ کی شکل پیدا ہوگئی اورمرزائیوں نے ان لوگوں سے ایک ناجائز شرائط نامہ لکھوایا جس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ اسلامی مناظرکو مولوی فاضل ہونا ضروری ہے لیکن الحمد للہ فرقہ ٔ حقہ میں اس کی بھی فراوانی ہے ۔ چنانچہ حسب الطلب مولانا رحمت علی صاحب لدھیانویؒ ،جناب مولانا عبد الرحمن صاحب صدر مدرس مدرسہ ومولانا محمد اسعد اللہ صاحب ؒ(مولوی فاضل )مدرس مدرسہ مظاہر علوم سہارنپورعازم سفرنوا شہر اورمولوی نورمحمد خانصاحب ؒ مبلغ مدرسہ ہذا روانہ ہوئے ۔مضمون مناظرہ دو تجویز ہوئے ۔اول ؔ صدق مرزا ثانی ؔ حیات مسیح ؑ ۔ اول الذکر میں قادیانیوںکے مایہ ناز مناظرمولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مدعی اورمولانا محمد اسعد اللہ ؒ مدرس مدرسہ معترض تھے ،مولانا نے مرزا صاحب کے کئی درجن سفید جھوٹ ودیگرآیات قرآنیہ کوپیش کرکے خرمن مرزائیت کو خاکسترکردیا ،اس پر مرزائی مناظر کی پراگندگی قابل دید تھی ۔ دوسرے روز مولانا نے مدعی ہوکر آیاتِ قرآنیہ واحادیث نبویہ کی روشنی میںحیات مسیح علیہ السلام کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ مرزائی مناظر کی کچھ بنائے نہ بنی ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۳؍مرزائیوں نے مجمع عام میں توبہ کی اوربعد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔ (رودادمظاہر علوم سہارنپور ۱۳۴۹ھ ص :۳۱۴) اکابر علماء مظاہر علوم کے مذکورہ کارناموں ،خدمات ،محنت ،لگن اورخلوص واخلاص کے ساتھ بے لوث وبے غرض جذبہ کے باعث اپنی خدمات کی کبھی داد وتحسین وصول نہیں کی جو کام کیا اللہ کی رضا وخوشنودی کے حصول اوردین حنیف کے عروج وفروغ کے جذبہ کے تحت کیا ،انجمن ہدایت الرشید کے ہمہ جہت کاموں سے مطمئن ہوکر نہیں بیٹھے بلکہ مزید خدمت کیلئے غوروفکر اورلائحۂ عمل مرتب کرتے رہے ،تدریس کے ساتھ تحریر اورمناظرہ وتقریرپر اپنی توجہات مبذول کیں ،رجال سازی پر دھیان دے کر افراد وشخصیات کی پوری جماعت تیار کردی ،خود انجمن کے پلیٹ فارم سے الحاد وزندقہ ،کفر وارتداد ،بدعات ورسومات ،شیعیت وغیر مقلدیت ،مودودیت وبریلویت غرض ہر غلط فرقہ ،غلط نظریہ اورغلط طریقے کی مخالفت کی ،تحریر وتقریر،پندو نصائح ،مناظرہ ومباہلہ تمام طریقے اختیار کرکے خر من کفر پر شعلہ جوالہ بن کر گرے اورتمام غلط عقائد ونظریات کی تردید قرآن وسنت کی روشنی میں اس انداز میں کی کہ باطل انگشت بدنداںرہ گیا ،ان تمام خدمات اورکارناموں کو اگر یکجا کیا جائے تو پوری کتاب تیار ہوجائے گی اوران کا احاطہ ان مختصرصفحات میںناممکن ہے لیکن ختم نبوت کے ثبوت اورمنکرین ختم نبوت کے رد میں علماء مظاہر علوم کی چند تصنیفات محض اس لئے لکھی جارہی ہیں تاکہ قارئین کرام سمجھ سکیں کہ قوم کی امانت کو اکابر علماء مظاہرکس اندازمیں صرف کرتے ہیں اوریہا ں خوشہ چینی کرنے والوں کے دلوں میں اسلام کی حفاظت وصیانت کا صالح جذبہ کس طرح فراواں ہوتا ہے ۔ ایک صاحب نے ۱۳۳۶ھ م ۱۹۱۸ء کو مظاہرعلوم سہارنپورکے دارالافتاء سے ایک سوال مرزا غلام احمدقادیانی کے فاسدخیالات،مضحکہ خیزتاویلات، افسوسناک دعاوی اورشیطانی الہاما ت کے متعلق پوچھاتواکابرمظاہرنے پہلی فرصت میں اس سوال درج ذیل جواب تحریرفرمایا: ’’سوال مذکورالصدرمیں اکثرایسے امور ذکرکئے گئے ہیں جومسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ناجائزاورموجب کفروارتدادقائل ہیں،پس جوشخص ایساعقیدہ رکھتاہو اوران اقوال کا مصداق ہوتواس کے کفرمیں کچھ کلام نہیں ،وہ شرعاً مرتدہوگاجس کے ساتھ نکاح جائزنہیںاورجوپہلے سے بعدنکاح قادیانی عقائدہوگیااس کا نکاح فوراً شرعاًباطل ہوجائے گا،قضاء قاضی اورحکم حاکم کی بھی شرعاً اس میں ضرورت نہیں،ارتداحدہما(الزوجین)فسخ عاجل بلاقضائ(شامی جلدثانی ص ۴۲۵)لایجوزان یتزوج مسلمۃ الخ،یحرم ذبیحۃ وصیدہ بالکلب،والبازی والرمی(عالمگیری ص ۸۷۷) حررہ:عنایت الٰہی مہتمم مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور ۱۹؍اپریل ۱۹۱۸ء قادیانی سلسلہ میں مظاہرعلوم سہارنپورکایہ پہلااجتماعی فتویٰ تھا، حالات کی نزاکت اورقادیانی دجل وفریب کے پیش نظر درج ذیل اکابرمظاہرنے اس پردستخط ثبت فرمائے۔(یہ فتویٰ دارالافتاء کے ریکارڈکے علاوہ ’’القول الصحیح فی مکائد المسیح‘‘’’مباحثہ رنگون‘‘ اور’’قادیانیت کی پہچان‘‘ نامی کتابوں میں بھی دیکھاجاسکتاہے) حضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ،حضرت مولاناثابت علیؒ،حضرت مولاناعبدالرحمن کامل پوریؒ، حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ،حضرت مولاناعبدالوحیدسنبھلیؒ،حضرت مولاناممتازمیرٹھیؒ،حضرت مولانا منظوراحمدخا ںؒ، حضرت مولانامحمدادریسؒ،حضرت مولانابدرعالم میرٹھیؒ، حضرت مولاناعبدا لکریم نوگانویؒ،حضرت مولانافصیح الدین سہارنپوریؒ،حضرت مولانانورمحمدخانؒ، حضرت مولاناظریف احمدمظفرنگریؒوغیرہ۔

انجمن ہدایت الرشید کے قیام کے شروع دنوں میں جب ختم نبوت کے اثبات اورقادیانیت کی تردیدمیں انجمن کے فعال ومتحرک علماء شمشیربرہنہ تھے اسی زمانہ میں ’’خدائی فیصلہ ‘‘کے نام سے انجمن ہدایت الرشیدنے ایک اشتہارقادیانی دجل وفریب کے تعلق سے شائع کیا ، یہ اشتہارقادیانیوں کے خرمن پر برق بے اماں بن کر گراتو ایم قاسم علی قادیانی نامی ایک مرزائی نے چونسٹھ صفحات پر مشتمل ایک مستقل کتابچہ’’بلعم ثانی ‘‘کے نام سے ’’خدائی فیصلہ ‘‘کے رد میں شائع کیا ،بلعم ثانی کی زبان اس قدر جارحانہ ، غلیظ اورافسوس ناک ہے کہ اس کو من وعن ’’مغلظات مرزا‘‘میں شامل کیاجانا چاہیے تھا یہ کتاب فروری ۱۹۱۹ء میں شائع ہوئی اس کتاب میںاکابر مظاہر کی شان میں نام بہ نام مغلظات لکھی گئی ہیں ۔
بہر حال قادیانیوں کی زبان اوران کے قلم کی غلاظت کا مکمل ثبوت اس کتاب سے مل جاتا ہے ،یہ کتاب مدرسہ کے مرکزی کتب خانہ میں موجود ہے ،تحقیقی کام کرنے والوںکو اس کتاب کا مطالعہ مفیدثابت ہوگا ۔ فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی اوراس کے تعاقب کیلئے تمام دینی مدارس میں مستقل شعبہ ہونا چاہیے اوردار العلوم ، مظاہر علوم اورندوۃ العلماء جیسے مرکزی دینی اداروں میں تو اپنے مسلک ومشرب کی حفاظت وصیانت کے لئے الگ الگ شعبہ جات کا قیام نا گزیر ہوگیا ہے غیر مقلدیت ،شیعیت ،مودودیت ،رضا خانیت اورقادیانیت جیسے فتنو ں کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی ایک شعبہ بھی ناکافی ہوگا ہر فتنہ کے لئے الگ شعبہ ہونا چاہیے ،اسی طرح دینی مدارس میں تاریخ اورمطالعۂ ادیان ومذاہب پر خصوصی توجہ دینا چاہیے اورنشیمن پر نشیمن کی اس قدر تعمیر ہونی چاہیے کہ بجلیاں گر گر کر بیزا ر ہوجائیں ، دین کے مضبوط ومستحکم ایسے قلعے ہونے چاہئیںجن سے ٹکراکر ہوائیں اپنا راستہ اورموجیں اپنی سمت کو تبدیل کرنے پر مجبورہوجائیں۔ اکابر علماء مظاہر علوم نے شروع ہی سے اس پہلو کو مد نظر رکھا ہے چنانچہ انجمن ہدایت الرشید کے قیام واستحکام کے باوجود کام میں مزید تیزی اورخوبی پیدا کرنے کے لئے مستقل شعبہ کے قیام پر زور دیتے رہے چنانچہ مظاہر علوم کی روداد۱۳۴۸ھ میں اس ضرورت کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا ہے ۔ ’’اس شعبہ کے متعلق ہر سال ناظرین کی خدمت میں نہایت زورد ار الفاظ سے عرض کیا جاتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کیلئے اس شعبہ کا ہونا نہایت ضروری امر ہے بالخصوص اس زمانہ میں جب کہ عالم اسلام پر چاروں طرف سے مصائب وآلام کے انبارنظر آتے ہیں اورہر طرف سے ایک نئی آندھی چلتی نظر آتی ہے تو اس کی تلافی اورروک تھام کے لئے تمام مدارس اسلامیہ میں اس شعبہ کا ہونا ضروری معلوم ہوتا ہے چنانچہ ایک مدت درازسے یہ شعبہ بحمد اللہ مدرسہ مظاہر علوم میں انجمن ہدایت الرشید کے نام سے جاری ہے ، اس شعبہ میں التزاماً وعظ وتقریر،مناظرہ کی مشق کرائی جاتی ہے اورہر آنے والے اسلام پر حملہ کو روکا جاتا ہے اوراس کا تدارک کافی طورسے کیاجاتا ہے …مگر اس میں آمدنی کی بہت قلت ہے ،اس لئے کہ شب وروزآئے دن قیامت خیزفتنے وشورشیںاورہر وقت کے مناظرے وغیرہ کی وجہ سے اس کاانتظام کا فی طورسے کیا جاتا ہے کیونکہ تحفظ اسلام کے لئے جارحانہ ودافعانہ تدابیرکی سخت ضرورت ہے اورہر ممکن طریقہ سے اس میں سعی کی جاتی ہے کہ اس شعبہ میں ترقی نظرآئے کیونکہ تبلیغ ایک ایسا ذریعہ ہے کہ جس کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورخود بانی ٔ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ کو وسیع پیمانہ پر چلایا ہے کہ جس کا سلسلہ بحمد اللہ اب تک جاری ہے اوران شاء اللہ جاری رہے گا ۔(روداد مدرسہ بابت ۱۳۴۸ء ص:۲۳) ۱۳۵۱ھ کی رودادمیں پھر اسی ضرورت کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا ۔ ’’اس درجہ کی ضرورت جس قدر ہے اسے قریب قریب تمام ہی اہل اسلام محسوس کررہے ہیں کیونکہ تعلیم کے بعد قومی خدمت صرف اسی درجہ سے ہوسکتی ہے ،ضرورت تو اس کی ہے کہ فارغ التحصیل حضرات کو وظائف دے کر اس شعبہ میں رکھاجائے اوران کو وعظ وتقریرومناظرہ اورتصنیف وتالیف اورضروری علوم وفنون کا ماہر بنایا جائے ۔ (روداد مدرسہ بابت ۱۳۵۱ء ص:۱۶) سرزمین سہارنپورچونکہ دینی علوم اورروحانیت کا عظیم مرکز ہے ،دیوبند، کاندھلہ ،نانوتہ ،جھنجھانہ ،کیرانہ ، رائے پور، پھلت،گنگوہ ،تھانہ بھون،جلال آباد ،شاملی،پوقاضی ،منگلور،انبہٹہ اوربڈھانہ جیسے قدیم علمی وروحانی قصبات ومواضعات اسی علاقے میںہیں اسی وجہ سے باطل تحریکات نے اس علاقہ کو اپنا ہدف بنالیا ہے ،عیسائی مشنریاں ، یہودی سرگرمیاں ، قادیانی ریشہ دوانیاں اورہنود کی فتنہ سامانیاں مسلسل اورمنصوبہ بندی کے ساتھ مصروف ہیں، مسلمانوں کے ایمان ویقین کو مشکوک اوران کے یقین واعتماد کومتزلزل کرنے کیلئے تمام اسلام دشمن طاقتیںپورا زورصرف کررہی ہیںاورسادہ لوح مسلمان ان کے بہکاوے میں آرہے ہیں اس خطرناک اورنازک حالات کی حساسیت کو اربابِ مظاہرعلوم ودارالعلوم نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ ان تحریکا ت کو سر اٹھانے سے پہلے دبانے کی حکمت عملی کو اختیار کیا ۔ چنانچہ چند سال قبل جب معلوم ہواکہ شہر سہارنپورمیں قادیانی لٹریچرنہ صرف کھلم کھلا تقسیم ہورہا ہے بلکہ قادیانی لوگ سادہ لوح افراد کو دین اسلام سے بیزار اورمتنفرکرکے قادیانیت میں شامل کررہے ہیں تو حضرت ناظم صاحب مدظلہ نے شہر کے سرکردہ افرادوشخصیات اورپڑھے لکھے حضرات کے ذریعہ جگہ جگہ کارنرمیٹنگیں کرائیں،مفید مشورے کئے گئے ،عوام کو قادیانیت اورقادیانی عقائد سے واقف کرانے کی کوششیں کی گئیں ، مظاہرعلوم وقف کے دفتر اہتمام میںبھی ناظم مدرسہ حضرت مولانامحمدسعیدی صاحب مدظلہ کی زیرصدارت شہر کے معززین نے میٹنگ کرکے رہنمائی حاصل کی اورمتعینہ امورپر قادیانیت کی سرکوبی کیلئے مصروف ہوگئے،اسی طرح عوام وخواص کودین اسلام کی صحیح تعلیمات اوراسلام مخالف فتنوں سے واقف کرانے کے لئے شہرکی مرکزی مساجدمیں ’’تفاسیرقرآن‘‘ کابابرکت سلسلہ بھی شروع کرایااوراس سلسلہ کی مبارک ومسعودکوششیں آج بھی جاری ہیں جس کے بہترین نتائج واثرات مرتب ہورہے ہیں۔دینی جذبے اورصالح طبیعتوں کوہرطرح کے فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے مختلف علاقوں میں اپنے نمائندوں کے ذریعہ وعظ وتقریرکاالتزام بھی نہایت ہی سودمندثابت ہورہاہے۔ ۳؍شعبان ۱۴۲۹ھ میں ختم بخاری شریف کے موقع پر دسیوںہزار کے مجمع میں قادیانیت کے پروپیگنڈہ اورقادیانی دسیسہ کاریوںسے عوام کو آگاہ کیا گیا اوراتفاق رائے سے درج ذیل تجاویز بھی پاس کی گئیں۔ تجویز(۱) قادیانیوںکے بارے میں پورا عالم اسلام متفق ہے کہ وہ دائرہ ٔ اسلام سے خارج ہیں اوریہودی عیسائی یا دیگر مذاہب وفرقوں کی طرح ایک الگ گروہ ہیں لہٰذاقادیانیوںکو غیر مسلم اقلیت ماناجائے۔اس کیلئے نئے سرے سے قانون سازی کی ضرورت ہوتو ذمہ دار مسلم تنظیموںکے مشورہ سے قانون سازی کی جائے اوراس گروہ کوپابند کیاجائے کہ وہ مسلمانوں سے ملتے جلتے نام نہ رکھیں ،منافقین کی طرح مسلمان ہونے کا جھوٹا دعویٰ نہ کریں،مسجدوں جیسی عبادت گاہیںنہ بنائیں اورمسلم قبرستانوں میں اپنے مردوں کو دفن کرنے کی کوشش نہ کریں۔ تجویز(۲) ان کے نام نہاد رہنماؤں نے خود کو ہمیشہ ملک دشمن انگریزوں کانہ صرف غلام سمجھابلکہ جنگ آزادی کی تحریک کو سبوتاژکرنے کی بھرپورکوشش کی۔ انگریزوںکیلئے مخبری کی۔ان کے خود ساختہ رہنما آج بھی ان ملکوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں جہاں سے ہمارے ملک کو غلام بنانے کی سازشوں کے تانے بانے بنے گئے تھے ۔اسلئے ان کی سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھی جائے کہ وہ کہیں ملک دشمن اورتخریب کارانہ کارروائیوںمیں توملوث نہیں ہیں ۔ تجویز(۳) عام مسلمانوں سے یہ اجلاس اپیل کرتا ہے کہ وہ قادیانیوںکی اشتعال انگیزیوں سے متأثر ہوکر ہرگزمشتعل نہ ہو ں اورمکمل طورپرصبر وتحمل سے کام لیں۔قرآن کریم وسنت شریفہ کومشعل راہ بنائیں۔اپنے بزرگوں، مسجدوں، خانقاہوںاوردینی مدارس ومراکزسے رشتہ مضبوط رکھیں۔پیش آمدہ صورت حال میں معتبر علمائے دین سے رجوع کریں ۔ اپنے اوراپنی نئی نسل کے عقائد کے تحفظ کے بارے میں بیدار رہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی قزاق عقائد پر شب خون مارجائے یا مارِ آستین ڈس جائے ۔اورخدا نخواستہ ہماری عاقبت خراب ہوجائے ۔ تجویز(۴) اس ضمن میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جنوبی ہند کے بنگلوروغیرہ علاقوں میں ’’دیندار انجمن‘‘ کے نام سے جو تنظیم قائم ہے یہ در اصل قادیانیت ہی کی ایک بدلی ہوئی صورت ہے ۔اس کے بانی صدیق دیندار چن بسویشور کے نظریات وعقائد سراسر اسلام کے خلاف ہیں اس کے ماننے والے بھی مسلمانوں کے مسلم عقیدۂ ختم نبوت سے منحرف ہیں ۔ اس تنظیم کا مسلمانوں سے کوئی تعلق واسطہ کسی قسم کا نہیں ہے اوراس کی کسی بھی طرح کی سرگرمی وتخریب کاری کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی۔ ناظم صاحب کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ جلد ہی طلبہ اورائمہ کے لئے خصوصی تربیتی کیمپ کا انعقاد کرایا جائے گا تاکہ اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے مطلوبہ تیاری کا سلسلہ جاری رہے اورموعظت حسنہ کے ذریعہ متاثرہ علاقوں اورلوگوں کو ٹارگیٹ بناکر نتیجہ خیزکوششیںکی جاسکیں ۔ اخیرمیں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی چندحکیمانہ گزارشات جوانہوں نے ارباب مدارس کومخاطب بناکرارشاد فرمائی تھیں محض اس درداورفکرکے ساتھ شامل اداریہ کی جارہی ہیں کہ کاش !اہل مدارس حضرت تھانویؒ کی اِن نصائح پرعمل کرکے اسلام کی حفاظت اورترقی کا ذریعہ بن جائیں۔ حضر ت تھانوی ؒ نے اپنی تحریرات اورتقریرات میں دینی مدارس کے ارباب اہتمام وانتظام کوبطورخاص واعظین اورمبلغین کے باقاعدہ نظم کامشورہ دیاہے،کیونکہ اسلام دشمن تحریکات کاچیلنج قبول کرنے کی طاقت ،ان کے اعتراضات کا مدلل جواب اورکفروطاغوت کے ہروارکامقابلہ بروقت دعوتی اورتبلیغی شعبہ جات ہی کرسکتے ہیں ، چنانچہ مظاہرعلوم سہارنپورکے ایک سالانہ جلسے میںدوران تقریر ارشاد فرمایا کہ (۱)’’میں نے اپنے تعلق کے بعض مدارس کو باربارلکھاکہ جیسے آپ کے یہاں مدرسین کو تنخواہ ملتی ہے اوریہ تعلیم وتدریس گویاخاص تبلیغ ہے اسی طرح مدرسہ سے تبلیغ عام کا بھی انتظام ہوناچاہئے اورمدرسہ کی طرف سے تنخواہ دارمبلغ رکھے جائیں اوران کو اطراف وجوانب میں بھیجاجائے اوران کو یہ تاکید بھی کی جائے کہ چندہ نہ مانگیں صرف احکام پہنچائیں ‘‘۔ (مظاہرالآمال:ملحقہ دین ودنیاص ۵۶۱) انفاس عیسیٰ نامی کتاب میں حضرت تھانویؒ کایہ ارشادگرامی بھی ملاحظہ فرمائیں (۲)’’میری رائے ہے کہ مدارس اسلامیہ جیسے دیوبند،سہارنپورکی طرف سے ہرجگہ مبلغ رہیں تمام ممالک کے ہرحصہ میں مستقل طورپران کاقیام ہو،باضابطہ نظم ہواوردیگرممالک میں مبلغ تیارکرکے بھیجے جائیں‘‘(انفاس عیسیٰ ص۶۲۰؍۲) (۳)’’ہراسلامی مدرسہ وانجمن کم ازکم ایک واعظ بھی مقررکرے اوریہ سمجھے کہ ضرورت تعلیم کے لئے ایک مدرس کا اضافہ کیا،کیونکہ جس طرح مدرسہ کے معلمین طلبہ کے مدرسین ہیں اسی طرح واعظین عوام کے مدرسین ہیں اوراہل انجمن یہ سمجھیں کہ یہ تعلیم عوام کے لئے ان کی انجمن کی ایک شاخ ہے‘‘(تجدیدتعلیم وتبلیغ ص ۱۸۷) (۴)’’میں تمام اہل مدارس دینیہ کو رائے دیتاہوں کہ ہرمدرسہ کی طرف سے کچھ مبلغ بھی ہونے چاہئیں،یہ سنت نبویہ ہے اور پڑھناپڑھانااسی مقصودکامقدمہ ہے صل مقصودتبلیغ ہی ہے‘‘ (اضافات الیومیہ ص۳۸۹؍۶) اسی طرح حالات کی نزاکتوں اورماحول ومعاشرہ کی کثافتوں کواسلامی تعلیمات کے آب زلال سے صاف وشفاف کرنے کے لئے ناظم مدرسہ کے حکم سے مدرسہ کے ماہانہ علمی ترجمان ’’آئینہ مظاہرعلوم‘‘کاخصوصی شمارہ ’’ختم نبوت نمبر‘‘شائع کیاگیااورملک کے مختلف گوشوں ،خطوں اورعلاقوں میں بڑی تعدادمیں پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ دینی مدارس میں طلبہ ٔ عزیز کی تعلیم وتربیت اس انداز پر ہونی چاہئے کہ وہ معترضین ومنکرین کو مطمئن کرسکیں،طلبہ کا ذہن ودماغ نمو کا طالب ہے ،ان کے فکر کی کھیتی تشنگی محسوس کررہی ہے اوراگر اس پہلو پر توجہ نہ دی گئی تو نتیجہ وہی ہوگا جو اُن دریاؤ ںکا ہوتا ہے جس سے کھیتیاں سیراب نہیں کی جاتیں وہ دریا کسی جھیل یا سمندر میں جا گر تا ہے یا ریگستان میں جذب ہوکر رہ جاتا ہے ،جن صلاحیتوں کو وقت پر استعمال میں نہیں لایا جاتا وہ صلاحیتیںاپنی سمتیں،فکر کے پیمانے ،سوچ کے دریچے اورغورکی جہتیںبدل دیتی ہیں ،جس طاقت کو بروقت قوم کی تعمیر وتشکیل کے لئے استعمال میں نہیں لایا جاتا اس کو وقت کی گردش ، حالات کے مد وجز راورموسم کے تغیرات تخریب کی طرف مائل کردیتے ہیں اورجس مکان کو مکینوں سے خالی کردیا جائے تو پرندے ان مکانوں میں اپنے گھونسلے بناتے ہیں اورشیاطین ان گھروں کو اپنا مستقر بنالیتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ اسلام کے بہترین دماغ کوبہترین تربیتی سانچے میں ڈھال کر قوم کی تعمیر وترقی کیلئے ناقابل تسخیر قلعہ تعمیر کیا جائے اورایک فعال ومتحرک جماعت اوراس جماعت میں کام کرنے کی ایسی اسپیڈSpeed اوراسپرٹ Spritپیدا کردی جائے کہ زوردار آندھیاں اورخوفناک موجیں ان کے پایۂ ثبات میں لغزش نہ پیدا کرسکیں ۔ علماء مظاہر کی چند تصنیفات بسلسلہ ’’ختم نبوت ‘‘ (۱)اظہار البطلان لدعوی مسیح قادیان حضرت مولانا حبیب احمد کیرانویؒ (۲)آئینۂ کمالات مرزا حضرت مولانا محمد زکریامہاجر مدنیؒ (۳)اسلام اورمرزائیت کا اصولی اختلاف حضرت مولانا محمدادریس کاندھلویؒ (۴)حقیقتِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۵)ختم نبوت ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۶)دعاوی مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۷)مولانانانوتویؒ پر مرزائیوںکاالزام ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۸)مرزائی نبوت کا خاتمہ حضرت مولانا نورمحمد ٹانڈوی ؒ (۹)مغلظات مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۰)کرشن قادیانی ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۱)کفریات ِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۲)کذباتِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۳)اختلافاتِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۴)امراضِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۵)القادیانیۃما ھی(عربی ) حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری (۱۶)ختم نبوت حضرت مولاناحبیب الرحمن خیر آبادی (۱۷)فتنۂ ارتداد اورمسلمانوں کا فرض حضرت مولانامحمداسعداللہؒ (۱۸) رد قادیانیت حضرت مولانامحمد موسیٰ رنگونی (۱۹)متعارضات مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۲۰)ہندوستان کے دو مجددوں کی شیریں کلامی ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۲۱) ’’ختم نبوت نمبر‘‘(خصوصی شمارہ آئینہ مظاہرعلوم ) مرتبہ:احقرناصرالدین مظاہری (۲۲)دفع الالحاد عن حکم الارتداد (شائع کردہ انجمن ہدایت الرشید ) ان کتابوں کے علاوہ اوربھی بہت سی کتابیں علماء مظاہر کے قلم سے نکلی ہیں جن کو صفحات کی تنگی کے باعث حذف کیا جارہا ہے ۔ انجمن کے پروردہ وپرداختہ چندمعتبروناموراسماء گرامی حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضویؒ حضرت مولاناعبدالرحمن کامل پوریؒ حضرت مولانامنظوراحمدخانؒ سہارنپوریؒ حضرت مولاناقاری مفتی سعیداحمداجراڑویؒ حضرت مولاناعبدالشکورکیمبل پوریؒ حضرت مولاناشاہ محمداسعداللہؒرام پوری حضرت مولانامفتی محمودحسن گنگوہیؒ حضرت مولانامفتی جمیل احمدتھانویؒ حضرت مولانامحمدزکریاقدوسی گنگوہیؒ حضرت مولانانورمحمدٹانڈویؒ رام پوری حضرت مولاناجمیل الرحمن امروہویؒ حضرت مولانااخلاق احمدسہارنپوریؒ حضرت مولاناجوادحسینؒ حضرت مولانارشیداحمدؒ حضرت مولاناالطاف حسینؒ حضرت مولاناعبدالخالق ؒ حضرت مولاناہدایت علی بستویؒ حضرت مولانانذیراحمدسیالکوٹیؒ حضرت مولاناابرارالحق ہردوئیؒ حضرت مولاناانیس الرحمن لدھیانویؒ حضرت مولاناعبیداللہ بلیاویؒ حضرت مولاناعاشق الٰہی بلندشہریؒ حضرت مولانامحمدوجیہ ٹانڈویؒ حضرت مولاناممتازاحمدٹانڈویؒ۔ختم شد
 

بنت حوا

فعال رکن
وی آئی پی ممبر
RE: تحفظ ختمنبوت اورمظاہرعلوم سہارنپور(قسط ۲)

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جزاک اللہ خیرا
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
RE: تحفظ ختمنبوت اورمظاہرعلوم سہارنپور(قسط ۲)

علماء مظاہر کی چند تصنیفات بسلسلہ ’’ختم نبوت ‘‘ (۱)اظہار البطلان لدعوی مسیح قادیان حضرت مولانا حبیب احمد کیرانویؒ (۲)آئینۂ کمالات مرزا حضرت مولانا محمد زکریامہاجر مدنیؒ (۳)اسلام اورمرزائیت کا اصولی اختلاف حضرت مولانا محمدادریس کاندھلویؒ (۴)حقیقتِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۵)ختم نبوت ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۶)دعاوی مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۷)مولانانانوتویؒ پر مرزائیوںکاالزام ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۸)مرزائی نبوت کا خاتمہ حضرت مولانا نورمحمد ٹانڈوی ؒ (۹)مغلظات مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۰)کرشن قادیانی ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۱)کفریات ِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۲)کذباتِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۳)اختلافاتِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۴)امراضِ مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۱۵)القادیانیۃما ھی(عربی ) حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری (۱۶)ختم نبوت حضرت مولاناحبیب الرحمن خیر آبادی (۱۷)فتنۂ ارتداد اورمسلمانوں کا فرض حضرت مولانامحمداسعداللہؒ (۱۸) رد قادیانیت حضرت مولانامحمد موسیٰ رنگونی (۱۹)متعارضات مرزا ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۲۰)ہندوستان کے دو مجددوں کی شیریں کلامی ؍؍ ؍؍ ؍؍ (۲۱) ’’ختم نبوت نمبر‘‘(خصوصی شمارہ آئینہ مظاہرعلوم ) مرتبہ:احقرناصرالدین مظاہری (۲۲)دفع الالحاد عن حکم الارتداد (شائع کردہ انجمن ہدایت الرشید ) ان کتابوں کے علاوہ اوربھی بہت سی کتابیں علماء مظاہر کے قلم سے نکلی ہیں جن کو صفحات کی تنگی کے باعث حذف کیا جارہا ہے ۔ انجمن کے پروردہ وپرداختہ چندمعتبروناموراسماء گرامی حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضویؒ حضرت مولاناعبدالرحمن کامل پوریؒ حضرت مولانامنظوراحمدخانؒ سہارنپوریؒ حضرت مولاناقاری مفتی سعیداحمداجراڑویؒ حضرت مولاناعبدالشکورکیمبل پوریؒ حضرت مولاناشاہ محمداسعداللہؒرام پوری حضرت مولانامفتی محمودحسن گنگوہیؒ حضرت مولانامفتی جمیل احمدتھانویؒ حضرت مولانامحمدزکریاقدوسی گنگوہیؒ حضرت مولانانورمحمدٹانڈویؒ رام پوری حضرت مولاناجمیل الرحمن امروہویؒ حضرت مولانااخلاق احمدسہارنپوریؒ حضرت مولاناجوادحسینؒ حضرت مولانارشیداحمدؒ حضرت مولاناالطاف حسینؒ حضرت مولاناعبدالخالق ؒ حضرت مولاناہدایت علی بستویؒ حضرت مولانانذیراحمدسیالکوٹیؒ حضرت مولاناابرارالحق ہردوئیؒ حضرت مولاناانیس الرحمن لدھیانویؒ حضرت مولاناعبیداللہ بلیاویؒ حضرت مولاناعاشق الٰہی بلندشہریؒ حضرت مولانامحمدوجیہ ٹانڈویؒ حضرت مولاناممتازاحمدٹانڈویؒ
بہت شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/size]
 
Top