دو بزرگوں کے عبرت آمیز قصے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دو بزرگوں کے عبرت آمیز قصے​

رائے بریلی میں دو تکیہ ہیں ایک شہر کے متصل ہے جو دائرہ شاہ علم اللہ سے مشہور ہے اس کو تکیہ بھی کہتے ہیں ۔دوسرا تکیہ محبت علی شاہ کے نام سے مشہور ہے ۔\
علم اللہ شاہ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے جد امجد ہیں ان کے یہان فاقہ بہت ہوتا تھا، شاہ عالمگیر کو اس کا علم ہوا اپنے ایلچی سےاچھی خاصی رقم ان کی خدمت میں بھیجی ،شاہ علم اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہہ کر واپس کر دی کہ ہمارا کام چل جاتا ہے اب ضرورت نہیں ،وہ ایلچی رقم واپس لے کر عالمگیر کی خدمت میں پہنچا ،حضرت شاہ علم اللہ صاحب کی بات ان سے بیان کر دی عالمگیر نے دوبارہ یہ کہہ کر بھیجا کہ ان کی اہلیہ کی خدمت میں پیش کردے ، یہ ایلچی پھر آیا اور حضرت کی اہلیہ کی خدمت میں وہ رقم پیش کی اہلیہ محترمہ نے فرمایا کہ میرے شوہر تو شاہ علم اللہ ہیں میرا نان نفقہ ان کے اوپر ہے عالمگیر کو اس کی فکر کیوں ہے؟
یہ کہہ کر رقم واپس کر دی یہ ایلچی پھر عالگیر کی خدمت پہنچا ۔عالگیر نے فر مایا میں نے طے کیا ہے کہ اس رقم کو بزرگوں کی خدمت میں پیش کرنا ہے اس لئے اس رقم کو محبت شاہ کی خدمت میں جا کر پیش کرو ،ایلچی ان کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے رقم کو قبول کر لیا۔
ایک صاحب شاہ علم اللہ شاہ کی خدمت میں پہنچے اور فرمایا جس رقم کو آپ نے واپس کیا تھا اس کی محبت علی شاہ نے قبول کر لیا ۔شاہ علم اللہ صاحب نے فرمایا کہ وہ دریا ہیں اس رقم کا ان کے اوپر کوئی اثر نہ ہوگا ہمارےاندر اسکی سہار نہ تھی ، معلوم نہیں کیا حال ہوتا اس کے بعد وہ شخص محبت علی شاہ کی خدمت میں پہونچا اور کہا کہ شاہ علم اللہ صاحب کے یہاں آئے دن فاقہ ہوتا رہتا ہے اللہ نے ایک رقم پہونچائی تھی اس کو ٹھکرا دیا۔ محبت علی شاہ نے جواب دیا کہ وہ زاہد ہیں بڑے درجہ کے لوگ ہیں دنیا کو منہ نہیں لگاتے ، ہم تو کتے کی طرح ہیں جس طرح وہ ہڈی کی طرف لپکتا ہے ہم دنیا کی طرف لپکتے ہیں۔
 
Last edited:

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
اللہ اکبر
کیا شان اللہ والوں کی، گلدستہ میں ہر پھول کی اپنی خوشبو ہوتی ہے اور اپنا ہی رنگ ہوتا ہے، مگر ہیں سب پھول ہی۔
 
Top