تصوف کی حقیقت اورحیثیت

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
از:شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندھلوی


مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کا سوال اور بندہ کا جواب حقیقت تصوف کے بارے میں: مولانا حبیب الرحمن صاحب رئیس الاحرا ر کے دیکھنے والے تو ابھی بہت ہوں گے اور نام سننے والے تو بہت زیادہ۔ منتہاء میں تو مرحوم کو مجھ سے بہت زیادہ محبت ہوگئی تھی اورتعلق اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ وہ بجائے دہلی کے سہارنپور میرے پاس رہنے کی تمنائیں بڑی کثرت سے کیا کرتے تھے بلکہ اصرار بھی، اورمیں اپنے بیکار اوران کے باکار ہونے کے وجہ سے اس کو کبھی قبول نہیں کرتا تھا۔ لیکن ابتداء میں میرے اورمرحوم کے تعلقات بہت ہی خراب تھے۔ ان کی تو مظاہر میں کبھی اس زمانے میں آمد نہیں ہوتی تھی لیکن مجھے دیوبند کبھی کبھی حضرت قدس سرہ ٗکا فرستادہ بن کر کتب خانہ سے کسی کتاب کی تلاش میں یا محترمین مہتممین رحمہم اللہ تعالیٰ سے کسی بات میں مشورہ کے لئے جانا ہوتا تھا۔ ایک بجے والی سے جانا ہوتا تھا اور ہمروزہ واپسی کے ارادہ سے جانا ہوتا تھا۔ رئیس الاحرار صاحبؒ مجھ سے بہت واقف تھے کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں، مدرسہ کا مدرس ہوں، اورمیں ان سے صرف اتنا واقف تھا کہ لدھیانہ کا کوئی طالب علم، جس کو پڑھنے پڑھانے سے کوئی تعلق نہیں، لیڈری کرتا ہے۔ وہ چونکہ گھومتے رہتے تھے، اس واسطے میری دیوبند کی ہر مرتبہ کی آمد پر دو تین مرتبہ ان کا سامنا ہوتا، اوروہ بہت ہی چلّا کر مجھے سنا کر بہت ناراضی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس لئے کہ انہیں معلوم تھا کہ میںسیاست سے بالکل بے تعلق، اخبار بینی کا دشمن ہوں، اوراس زمانے میں دیوبند سہارنپور میں اخبار بینی آئی بھی نہیں تھی۔ سہارنپور کا کوئی طالب علم یا مدرس تو اخبار بینی جانتا ہی نہ تھا کہ کیا بلا ہے۔ حضرت قدس سرہٗ کی چار پائی پرعصر کے بعد دو چار اخبار پڑے رہتے تھے جن کو کوئی باہر کا مہمان اٹھا کر دیکھ لیتا تھا۔ دیوبند میں مولانا اعزاز علی صاحب اور ان کے ہمنوا تو نہایت مخالف اور اخبار کے دشمن، لیکن مولانا شبیراحمد عثمانیؒ وغیرہ مدرسین کوئی ایک آدھ دیکھ لیتا تھا۔ رئیس الاحرار صاحب مجھے دیکھتے، دور سے چلا کر کہتے۔ایسے شخص کا وجود زمین پر بوجھ ہے، یہ مر کیوں نہیں جاتے، ان کے لئے زمین کا اندرون زمین کے بیرون سے بہتر ہے وغیرہ وغیرہ، اور اس ناکارہ کی اتنی جرأت تو نہیں ہوتی تھی کہ پکارکے کچھ کہتا، مگر ایک دو طالب علم جو مجھے دیکھ کر میرے ساتھ ہولیتے تھے، ان سے پیاماً کہلوا دیتا تھا کہ اس شخص کو مدرسہ کی روٹی کھانا حرام ہے، مدرسہ کا چندہ لیڈری کے واسطے نہیں آتا۔ جس شخص کو پڑھنے پڑھانے سے کوئی واسطہ نہ ہو، مطالعہ وسبق سے کوئی کام نہ ہو، اس کو مدرسہ کی روٹی کھانا حرام ہے، مدرسہ کے اندرقیام ناجائز ہے، مدرسہ کی ہرقسم کی اعانت حاصل کرنا گناہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پیام پرمرحوم اوربھی زیادہ برافروختہ ہوا کرتے۔ کئی سال یہی قصہ رہا مگر اللہ جل شانہٗ نے مرحوم کی دستگیری فرمائی کہ اعلیٰ حضرت قدوۃ الاتقیائ، فخرالاولیاء حضرت مولانا الحاج شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری نوراللہ مرقدہٗ کے اخیر زمانۂ حیات میں حضرت قدس سرہٗ سے حضرت الحاج مولانا شاہ عبد القادر صاحب نور اللہ مرقدہٗ کے ہاتھ پربیعت ہوگئے کہ اس زمانے کا دستور یہی تھا کہ اعلی حضرت سے جو شخص بیعت ہونا چاہتا، ضعف ونقاہت کی وجہ سے حضرت خود تو نہ فرماتے تھے، حضرت مولانا شاہ عبد القاد ر صاحب نور اللہ مرقدہٗ بیعت کے الفاظ کہلادیتے تھے ۔
بڑوں کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اثر سے خالی نہیں جاتا:
بڑوں کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اثر سے خالی نہیں جاتا۔ چنانچہ یہ تعلق رنگ لائے بغیر نہیں رہا۔ اوراخیر میں تو رئیس الاحرار کو حضرت مولانا عبد القادر صاحب نور اللہ مرقدہٗ سے عشق کا تعلق ہوگیا تھا اورحضرت کی وجہ سے اس سیہ کار سے بھی۔ لیکن شروع کے چند سال ایسے گذرے کہ مرحوم اپنی سیاحت میں رہتے۔ کلکتہ، بمبئی اورپشاور وغیرہ ان کی روز مرہ کی گذر گاہ تھی، اورسہارنپور ہر جگہ کا جنکشن۔ اس لئے جب سہارنپور سے گذرہوتا تو ہمروزہ واپسی یا ایک شب قیام کے لئے رائے پور بھی جاتے۔
حضرت رائے پوری ؒکا بندے کے ساتھ غایت تعلق اور اس کی چند مثالیں: اس کے دیکھنے والے تو آج بھی سینکڑوں ہیں کہ حضرت اقدس شاہ عبد القاد ر صاحب کو اس سیہ کار کے ساتھ عشق کا سا تعلق تھا۔ جملہ معترضہ کے طور پرایک واقعہ لکھتا ہوں کہ میرے مخلص دوست صوفی اقبال پاکستانی ثم المدنی جو پاکستان میں ملازم تھے، جب حضرت رائے پوری پاکستان جاتے اورصوفی اقبال مجھے خط لکھتے تو بہت اصرار سے مجھے لکھا کرتے کہ میرے خط کے جواب میں حضرت رائے پوریؒ کوسلام ضرور لکھ دیجیو۔ اس لئے کہ جب میں عصر کے بعد کی مجلس میں یوں کہہ دیتا ہوں کہ شیخ کا خط آیا ہے حضرت کو سلام لکھا ہے تو فوراً چار پائی کے قریب بلایا جاتا ہوں اور فوراً خیریت وحالات وغیرہ دریافت کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے مغرب تک چارپائی کے قریب بیٹھنا نصیب ہوجاتا ہے۔ اس تعلق کی بناء پر جب کوئی شخص رائے پور حاضر ہوتا تو حضرت کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ شیخ سے مل کر آئے یا نہیں۔اگر وہ کہتا کہ مل کر آیا ہوں تو بڑی بشاشت سے بات پوچھتے، خیریت پوچھتے، کیا کررہے تھے، کوئی پیام دیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر وہ کہتا کہ نہیں مل کر آیا ہوں تو زیادہ التفات نہ فرماتے، بلکہ جیسا تعلق ہوتا ویسا برتاؤ کرتے۔ اس مجبوری کو بہت سے ایسے لوگ جن میں رئیس الاحرار بھی تھے، باوجود دل نہ چاہنے کے نہایت گرانی کے ساتھ کھڑے کھڑے مصافحہ کرنا ضرو ری سمجھتے تاکہ وہ یہ کہہ سکیں کہ ہوکر آیا ہوں اورسلام عرض کیا ہے۔ اورمیں بھی اس قسم کے لوگوں سے باوجود جی نہ چاہنے کے چاہے کتنی ہی مشغولی کا وقت ہو اورکتنا ہی ضروری کام کررہا ہوتا، ضرور بلاکر حضرت کی خدمت میںسلام عرض کردیتا، مبادا وہ جاکر کہہ دیں کہ میں تو حاضر ہوا تھا لیکن بار یابی نہ ہوئی ۔
حقیقت تصوف: رئیس الاحرار مرحوم سے کئی سال سے صرف اس نوع کی ملاقات رہی۔ ایک مرتبہ ۱۰ بجے صبح کو میں اوپر اپنے کمرہ میں نہایت مشغول تھا۔ مولوی نصیر نے اوپر جاکر کہا کہ رئیس الاحرار آئے ہیں، رائے پور جارہے ہیں، صرف مصافحہ کرنا ہے۔ میں نے کہا جلدی بلادے۔ مرحوم اوپر چڑھے اورزینے پرچڑھتے ہی سلام کے بعد مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا کر کہا۔ رائے پور جارہا رہوں اورایک سوال آپ سے کرکے جارہاہوں، اورپرسوں صبح واپسی ہے۔ اس کا جواب آپ سوچ رکھیں، واپسی میں جواب لوں گا۔ یہ تصوف کیا بلا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟ میں نے مصافحہ کرتے کرتے یہ جواب دیا کہ صرف تصحیح نیت ، اس کے سوا کچھ نہیں۔ جس کی ابتداء انما الاعمال بالنّیّات سے ہوتی ہے اورانتہاء اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّک تَراہ ہے۔میرے اس جواب پرسکتہ میں کھڑے ہوگئے اورکہنے لگے، دلّی سے یہ سوچتا آرہا ہوں کہ تو یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض کروں گا، اوریہ جواب دے گا تو یہ اعتراض، اس کو تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ میں نے کہا۔ جاؤ تانگے والے کو بھی تقاضا ہوگا، میرا بھی حرج ہورہا ہے۔ پرسوں تک اس پراعتراض سوچتے رہیو۔ ا س کا خیال رہے کہ دن میں مجھے لمبی بات کا وقت نہیں ملنے کا، دو چا ر منٹ کو تو دن میں بھی کرلوں گا، لمبی بات چاہوگے تو مغرب کے بعد ہوسکے گی۔ مرحوم دوسرے ہی دن شام کو مغرب کے قریب آگئے اورکہا کہ کل رات کو تو ٹھہرنا مشکل تھا، اس لئے کہ مجھے فلاں جلسہ میں جانا ہے، اوررات کو تمہارے پاس ٹھہرنا ضروری ہوگیا اسلئے ایک دن پہلے ہی چلا آیا، اوریہ بھی کہا کہ تمہیں معلوم ہے،مجھے تم سے کبھی نہ عقیدت ہوئی نہ محبت۔ میں نے کہا علیٰ ھذا القیاس۔ مرحوم نے کہا، مگر تمہارے کل کے جواب نے مجھ پر تو بہت اثر کیا۔ اورمیں کل سے اب تک سوچتا رہا، تمہارے جواب پرکوئی اعتراض سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا، انشاء اللہ مولانا اعتراض ملنے کا بھی نہیں۔
اِنّما الاعمال بالنّیّات سارے تصوف کی ابتداء ہے اوراَنْ تَعْبُد اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَراہُ سارے تصوف کا منتہاء ہے۔ اسی کو نسبت کہتے ہیں۔ اسی کو یاد داشت کہتے ہیں، اسی کو حضوری کہتے ہیں۔
حضوری گرہمی خواہی، ازو غافل مشو حافظ
متی ما تلق من تہوی دع الدنیا و امہلہا
میں نے کہا ۔مولوی صاحب سارے پاپڑ اسی کے لئے بیلے جاتے ہیں۔ذکر بالجہر بھی اسی واسطے ہے۔ مجاہدہ مراقبہ بھی اسی واسطے ہے۔ اورجس کو اللہ جل شانہٗ اپنے لطف وکرم سے کسی بھی طرح سے یہ دولت عطا کردے ، اس کو کہیں کی بھی ضرورت نہیں۔
مجاہدات واذکار کا مقصد: صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کیمیا اثر سے ایک ہی نظر میں سب کچھ ہوجاتے تھے اوران کو کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی۔ اس کے بعد اکابر اور حکماء امت نے قلبی امراض کی کثرت کی بناء پر مختلف علاج جیسا کہ اطباء بدنی امراض کے لئے تجویز کرتے ہیں، روحانی اطباء روحانی امراض کے لئے ہر زمانے کے مناسب اپنے تجربات جو اسلاف کے تجربات سے مستنبط تھے، نسخے تجویز فرمائے ہیں جو بعضوں کو جلد نفع پہنچاتے ہیں، بعضوں کو بہت دیر لگتی ہے۔ پھر میں نے مرحوم کو متعدد قصے سنائے۔ جن میں سے ایک قصہ تو میں نے اپنے والد صاحب سے سنا اورکئی مرتبہ سنا اورمیں نے بھی حدیث کے اسباق میں اور دوستوں کی مجالس میں ہزاروں مرتبہ اس کو سنایا ہوگا ۔ وہ یہ کہ
اخلاص کی برکت اور جمنا کا راستہ دینا اور اس کے نظائر:
قصبہ پانی پت کاضلع کرنال ہے۔جمنا چلتی تھی معلوم نہیں اب بھی ایسا ہے یا نہیں۔ جمنا کا ہر جگہ دستور یہ ہے کہ خشکی کے زمانے میں لوگ جوتے ہاتھ میںلے کر پار ہوجاتے ہیں، جہاں پانی زیادہ ہو وہاں کشتیاں کھڑی رہتی ہیں۔ ملاّح دو چار پیسے لے کر ادھر سے ادھر پہونچادیتے ہیں، لیکن جب جمنا طغیانی پر ہو تو پھر عبور ناممکن ہوتا ہے۔ ایک شخص پانی پت کارہنے والا جس پر خون کا مقدمہ کرنال میں تھا، اورجمنا میں طغیانی اور نہایت زور۔ وہ ایک ایک ملاّح کی خوشامد درآمد کرتا، مگر ہر شخص کا ایک جواب کہ اس میں تیرے ساتھ اپنے آپ کو ڈبوئیں گے، وہ بے چارہ غریب پریشان روتا پھر رہا تھا ایک شخص نے اس کی بدحالی دیکھ کر کہا کہ اگر میرا نام نہ لے تو ترکیب میں بتلاؤں۔ جمنا کے قریب فلاں جگہ اک جھونپڑ ی پڑی ہوئی ہے اس میں ایک صاحب مجذوب قسم کے پڑے رہتے ہیں۔ ان کے جاکر سرہوجا، خوشامد، منت،سماجت (خوشامد پرایک قصّہ کیمیا کا یا د آگیا۔ وہ باب ہشتم میں یاد رہا تو انشاء اللہ لکھواؤں گا) جو کچھ تجھ سے ہوسکے، کسر نہ چھوڑنا اوروہ جتنا بھی برا بھلا کہیں، حتی کہ اگر تجھے ماریں بھی تو منہ نہ موڑنا۔ چنانچہ یہ شخص ان کے پاس گیا اور ان سے خوشامد درامد کی اورانہوں نے اپنی عادت کے موافق خوب ملامت کی کہ میں کوئی خدا ہوں، میں کیا کرسکتا ہوں، مگر جب یہ روتا ہی رہا( اوررونا تو بڑے کام کی چیز ہے اللہ تعالیٰ مجھے بھی نصیب فرماوے ) تو ان بزرگ نے کہا کہ جمنا سے کہہ دے کہ اس شخص نے جس نے نہ عمربھر کچھ کھایا، نہ بیوی کے پاس گیا، اس نے بھیجا ہے کہ مجھے راستہ دیدے۔ چنانچہ یہ گیا اور جمنا نے راستہ دے دیا۔ اس کا تو کام ہوگیا۔ اس میں کوئی استبعاد نہیں۔ پہلے انبیاء کے معجزات اس امت کی کرامات ہیں، اورپانی پرچلنے کے قصے تو صحابہ کرامؓکی بھی تواریخ میں منقول ہیں۔ اورکرامات صحابہ ؓ تو مستقل ایک رسالہ حضرت تھانویؒ کے حکم سے لکھا گیا تھا، جس میں علا ء بن حضرمی صحابیؓ کی ماتحتی میں ایک جہاد میں جو کسریٰ سے ہوا تھا، سمندر میں گھوڑے ڈال دینا اورسمندر کو پار کردینا جس میں زینیں بھی نہ بھیگیں، نقل کیا گیا ہے۔ عامل کسریٰ یہ دیکھ کر ایک کشتی میں بیٹھ کر یہ کہہ کر بھاگ گیا کہ ان سے ہم نہیںلڑسکتے۔ اس واقعے کو ابن عبد البر اور تاج الدین سبکی نے بھی مختصراً ذکر کیا ہے۔
اس جھونپڑی میں ان بزرگ کے بیوی بچے بھی تھے۔ دین داروں کی بیویاں ڈیڑھ خصم ہوتی ہیں۔ یہ بیچارے اس فکر میں رہتے ہیں کہیں زیادتی نہ ہوجائے وہ اس سے غلط فائدہ اٹھاکرسر پر چڑھ جاتی ہیں۔ ان بزرگ کی بیوی نے رونا شروع کیا، تو نے عمر بھر کبھی کچھ کھایا نہیں، بغیرکھائے ہاتھی بن رہا ہے، اس کو تو توجانے تیرا خدا، مگر تونے جو یہ کہا کہ میں بیوی کے پاس کبھی نہیں گیا، یہ ستّہ کی دھاڑ میں کہاں سے لائی؟ انہوں نے ہر چند سمجھایا کہ یہ میری ہی اولاد ہے میں نے ان کے اولاد ہونے سے انکار نہیں کیا۔مگر اس نے اتنا رونا چلانا شروع کیا، کہ تونے میرا منہ کالا کردیا۔ وہ ساری دنیا میں جاکر کیا کہے گا کہ پیر صاحب توبیوی کے پاس گئے نہیں یہ اولاد کہاں سے آگئی۔ ہر چند پیر صاحب نے سمجھانا چاہا مگراس کی عقل میں نہیں آیا اورجتنا جتنا وہ کہتے، وہ روتی۔ جب بہت دیر ہوگئی تو ان پیر صاحب نے یوں کہا کہ میں نے ساری عمر خوب کھایا، اللہ کا شکر ہے۔ اورتیرے سے صحبت بھی ہمیشہ خوب کی، تجھے بھی معلوم ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ میں نے بچپن میں ایک مولانا سے وعظ میں ایک بات سنی تھی، وہ یہ کہ جو کام اللہ کے واسطے کیا جاوے وہ دنیا نہیں دین بن جاتا ہے اورعبادت بن جاتا ہے اورثواب بن جاتا ہے۔ اس وقت سے میں نے جب بھی کوئی چیز کھائی یا تو اس نیت سے کھائی کہ اس سے اللہ کی عبادت پرقوت حاصل ہو یا اس نیت سے کھائی کہ لانے والے اور کھلانے والے کا دل خوش ہو۔ اسی طرح سے میں شادی کے بعد سے تیرے پاس خوب گیا، لیکن یہ قصّہ پہلے سے سنا ہوا تھا، اسلئے جب بھی میں تیرے پاس گیا، تیرا حق ادا کرنے کی نیت میں نے پہلے سے کرلی کہ اللہ نے بیوی کا حق رکھا ہے۔ میں نے تو یہ قصّہ اپنے والد صاحب سے بار بار ایسے ہی سنا، مگر مولانا الحاج ابوالحسن علی میاں صاحب دام مجدہم نے حضرت الحاج شاہ محمد یعقوب صاحب مجددی، نقشبندی بھوپالی کے جو ملفوظات جمع کئے ہیں، اس کے صفحہ ۳۵۶ پریہ قصہ دوسری نوع سے نقل کیا ہے۔ جو حسب ذیل ہے۔
حضرت شاہ صاحب نو ر اللہ مرقدہٗ نے فرمایا کہ ایک بزرگ دریا کے کنارے پر تھے۔ دوسرے بزرگ دوسرے کنارے پر۔ ایک بزرگ نے جومتاہل (بیوی وبچوں والا) اورصاحبِ اولاد تھے، اپنی بیوی سے کہا کہ کھانے کا ایک خوان لگا کر دریا کے دوسرے کنارے جو دوسرے بزرگ رہتے ہیں، ان کے پاس لے جاؤ اور ان کو کھانا کھلا کر آؤ۔ بیوی نے کہا کہ دریا گہرا ہے، میں اس کو کس طرح پار کرکے دوسرے کنارے جاؤں گی۔ فرمایا کہ جب دریا میں قدم رکھنا تو میرا نام لے کہنا کہ اگر میرے اور میرے شوہر کے درمیان وہ تعلق ہوا ہوجو زن وشوہر میں ہوا کرتا ہے تو مجھے ڈبودے، ورنہ میں پار ہوجاؤں۔ اس نے یہی کہا۔ یہ کہنا تھا کہ دریا پا یاب ہوگیااور گھٹنوں گھٹنوں پانی میں وہ دریا کے پار ہوگئیں، انہوں نے کھانے کا خوان ان دوسرے بزرگ کو پیش کیا۔ انہوں نے اس کو اکیلے تناول فرمالیا۔ (یعنی ختم کردیا) جب واپس ہونے کا وقت ہوا تو ان کو فکر ہوئی کہ آنے کا وظیفہ تو مجھے معلوم ہوگیا اب جاتے وقت کیا کہوں؟ ان بزرگ نے ان کی پریشانی دیکھی، تو ان سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں دریا سے کس طرح پار ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ پہلی مرتبہ دریا کو کس طرح پار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے شوہر نے مجھے یہ ہدایت کی تھی کہ میں اس طرح کہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ اب جائے تو میرا نام لے کر کہنا کہ اس نے ایک لقمہ بھی کھایا ہو تو میں ڈوب جاؤں ورنہ پارہوجاؤں۔ چنانچہ وہ پار ہوگئیں۔ اب انھوں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ آپ نے صاحبِ اولاد ہوکر خلافِ واقعہ بات کیوں کہی، اوران بزرگ نے آنکھوں کے سامنے پورا کھانا تناول کرنے کے باوجود ایک لقمہ بھی کھانے سے انکار کیوں کیا۔ تو ان بزرگ نے جواب دیا کہ میں نے جو کچھ کیا،ا مرِ الٰہی سے کیا، اپنے نفس کی خواہش سے نہیں کیا۔اور انہوں نے جو کچھ کیا وہ امرِ الٰہی سے کیا، نفس کا اس میں کچھ حصہ نہ تھا۔ اور دنیا جو کچھ کرتی ہے اور جس کا رواج ہے وہ نفس کے تقاضے کو پورا کرنا ہے امر الٰہی پیش نظر نہیں ہوتا۔ اس لئے دنیا جس کو ازدواجی تعلق اور شکم پروری اور ناؤ نوش سمجھتی ہے، ہم دونوں میں سے کوئی اس کا مرتکب نہیں ہوا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ واقعہ وہ پہلا ہو۔ اس قسم کے واقعات متعدد ہوسکتے ہیں۔ صحابۂ کرامؓ کے اس قسم کے واقعات پانی پر چلنا، دریا میں گھوڑوں کا اتار دینا مشہور ہیں۔ یہاں تک پہنچا تھا کہ عصر کے بعد کی مجلس میں شاہ علم اللہ صاحب رائے بریلی نوراللہ مرقدہٗ کے حالات سنائے جارہے تھے۔ اس میں ایک قصّہ کا ن میں پڑا تھا۔ اس میں لکھا ہے کہ شاہ علم اللہ صاحب نے حضرت بایزید بسطامیؒ کا تذکرہ فرمایا کہ ایک مرتبہ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستہ میں ایک نہر حائل تھی۔اس کے قریب پہنچتے ہی اچانک اس میںصاف راستہ بن گیا۔ حضرت خواجہ صاحب نے یہ دیکھ کر فرمایا ’’ھذا مکر اللّٰہ، ھذا مکر اللّٰہ‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے اللہ سے دعاء کی کہ یہ نہر اسی حالت میں ہوجائے، بندہ لوٹ جائے گا یا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلے گا۔ لیکن تیری اس آزمائش سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ جب سلطان العارفین کو کرامات سے اس درجہ خوف اور گریزتھا اور خدا کی شانِ بے نیازی سے وہ اس قدر ترساں ولرزاں رہتے تھے تو دوسرے کس شمار میں ہیں۔ طالبِ حق کو چاہئے کہ اللہ جل جلالہٗ کے سامنے حضور درحضور کے سوا کسی اور چیز کا طلب گار نہ ہو۔ کل مَا شَغلکَ عن اللّٰہِ فہُو صَنَمُکَ۔ جو چیزتمہیں اللہ سے مشغول کردے وہی تمہار ا بت ہے۔ فقط
اکابر کے یہاں تصرفات کی کوئی وقعت نہیں تھی اس کی ایک مثال:
اس قصّہ پر مجھے میرے حضرت میرے محسن میرے ماویٰ میرے ملجا حضرت مولانا خلیل احمد صاحب قدس سرہٗ کا ایک عجیب واقعہ یاد آیا۔ میرے جملہ اکابر کے یہاں تصرفات کی کوئی وقعت کبھی نہیں ہوئی، بلکہ ان کو روکنے کی کوشش ہوئی۔ میرے ایک مخلص دوست جو عمر میں مجھ سے بہت بڑے مولوی حافظ عبد الرحمن صاحب گنگوہی، میرے والد صاحب کے بہت خاص شاگردوں میں تھے اوریہ بہت بڑی پارٹی تھی ۲۰- ۲۵ لڑکوں کی جو عربی پڑھتے تھے۔ فارسی اور قرآن پڑھنے والے تو سو سے بھی زائد تھے۔ یہ گنگوہ میں والد صاحب سے پڑھا کرتے تھے۔ جب ۲۸ھ؁ میں میرے والد صاحب قدس سرہٗ مستقل قیام کے ارادہ سے مظاہر میں آگئے تو یہ سب خدّام بھی آگئے، اور علوم کی تکمیل ان سب کی مظاہر میں ہوئی۔ اور پھر علوم ظاہریہ کی تکمیل کے بعد یہ سب میرے حضرت مرشدی مہاجر مدنیؒ سے بیعت بھی ہوئے۔ ان میں سے مولوی عبد الرحمن صاحب شملہ کے قریب کسولی ایک جگہ ہے، وہاں کے امام ہوگئے، اوربڑے اونچے اونچے حالات خطوط میں لکھا کرتے تھے اور چونکہ حضرت قدس سرہٗ کی ڈاک بھی میں ہی لکھتا تھا اس لئے دوستوں کے حالات بھی معلوم ہوتے رہتے تھے۔ مولوی عبد الرحمن مرحوم کا، اللہ تعالیٰ ان کو بہت بلند درجات عطا فرمائے، ایک بہت ہی طویل عجیب خط آیا، جس میں اپنے بہت ہی مکاشفات، تصرفات خوارق بہت ہی لمبے لکھے تھے اور میں حضرت قدس سرہٗ کو خط سنا رہا تھا اور باغ باغ ہورہا تھا کہ لَونڈا چوتھے آسمان پر پہنچ گیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب خط کے جواب میں میرے حضرت قدس سرہٗ نے یہ لکھوایا کہ فرائض اور نوافلِ مسنونہ کے سوائے جملہ نوافل،جملہ اذکار واوراد یک قلم موقوف رکھیں۔ میں بالکل حیرت میں رہ گیا کہ یہ کیا ہوا۔ اور بھی متعدد قصّے ہمارے اکابر کے اس قسم کے پیش آئے۔ میرے چچا جان نور اللہ مرقدہٗ قدس سرہٗ کے متعدد خطوط میں بھی جب خوارق اورتصرفات یا مکاشفات ہوتے تھے تو میرے حضرت بجائے حوصلہ افزائی کے اس قسم کے الفاظ لکھوایا کرتے تھے۔ ان چیزوں کی طرف التفات ہرگز نہ کریں کہ یہ ترقی سے مانع ہیں۔ میں نے مولانا رئیس الاحرار صاحب سے یہ بھی کہا کہ بچپن میں اس قسم کے قصّے، کہانیوں کے ذیل میں سنے جاتے تھے یا والد صاحبؒ اسباق میں سناتے تھے کہ میرے والدصاحب کا اسباق میں قصّے سنانے کا معمول ہوگیا تھا۔ جس کا ایک واقعہ ان کے حالات میں فتح القدیر کے سلسلہ میں بھی آوے گا۔ لیکن جب مشکوٰۃ شریف پڑھنے کی نوبت آئی تو یہ مضمون حدیث پاک میں تشریح سے ملا۔ (آپ بیتی)​
 
Top