عملیات کی پراسرار دنیا : قسط نمبر 01

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
تابوت کا قیدی​


چلتے چلتے میاں جی نے گھمبیر لہجے میں مجھے ایک بار پھر سمجھایا تھا۔
''ناگی پتر! تیرا علم ابھی کچا ہے۔ تو ضد کرکے جا تو رہا ہے لیکن میرے بچے ذرا پائوں جما کر رہنا۔ حرامزادی پچھل پیری ہے۔ وہ کسی روپ میں تمہارے سامنے اور پیچھے سے تجھے دھوکہ دے سکتی ہے۔ اس کا بھروسہ نہ کرنا ……اور ہاں۔ میں نے تجھے جس جگہ پر بیٹھنے کو کہا ہے وہیں پر بیٹھنا۔ اللہ جنت نصیب کرے۔ تیرے دادا بھی وہاں بیٹھ کر چلہ کاٹا کرتے تھے ……''
استاد مراد نے بھی مجھے کہا تھا۔
''مجھے ساتھ لے چلو۔ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔''
مگر میں نے دونوں کی نہیں سنی تھی۔
یہ رات بڑی قہرناک تھی۔ پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ رات آخری پہر میں داخل ہو رہی تھی۔ میں ابھی میانی صاحب سے ایک کوس دور ہی تھا جب رات کے سناٹے میں میرے دل و دماغ پر خوف کے پہرے بیٹھنے لگے تھے۔ مگر میں زیر لب وظائف کی گردان کئے آگے ہی آگے اس سیل رواں کی طرح بڑھ رہا تھا۔ جو اپنی آتش سے بپھرا ہوا ہو تو راستے میں حائل ساری رکاوٹیں بہا لے جاتا ہے۔ قبرستان سے جھینگروں اور کتوں کے شور سے ماحول میں کہرام سا مچا ہوا تھا …… اور کچھ یہی عالم میرے اندر بھی برپا تھا۔ میں آج جس غرض سے میانی صاحب میں چوکی لگانے جا رہا تھا اس پر میری زندگی کا دارومدار تھا۔ اپنے انتقام کی آگ بجھانے اور اس خرافہ بدروح سے معصوم جانوں کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنے جیون کا ایک نیا کھیل کھیلنے کے لئے آگ کے اس دریا میں کودنے جا رہا تھا جس نے میرے ہنستے بستے آشیانے کی خوشیوں کو اپنی ظالم لہروں میں لے کر غرق کر دیا تھا۔
میری زبان پر وظائف تھے اور دل و دماغ میں کہرام سا برپا تھا۔ یادوں کی ایک یورش تھی جو میرے اندر کے جوالا مکھی کو باہر اگلنے کے لئے بے تاب تھی۔ میں خدا سے اس توفیق کی دعا مانگ رہا تھا کہ جس کی مدد سے میں اس ظالم بدروح کو جہنم واصل کر سکتا تھا۔ میں جین مندر سے بہت آ گئے نکل گیا۔ اس زمانے میں لاہور کی یہ آبادی اتنی گنجان نہیں تھی۔ چوبرجی کشادہ اور ویران علاقہ تھا۔ میرے بائیں طرف مزنگ کی آبادی تھی۔ میں جوں جوں وہاں سے گزر رہا تھا' رات کے مہیب سیاہ اندھیروں میں بہت سے نادیدہ وجود لہراتے ہوئے' ناچتے ہوئے دکھائی دینے لگے تھے۔ مجھے لگا جیسے وہ خرافہ میرے استقبال کے لئے جشن کا اہتمام کر رہی ہے۔ فضا میں منحوس جانوروں کی کربناک چیخیں گونج رہی تھیں تو اندھیروں میں لپٹے بہیمانہ وجود بھوکی نظروں سے مجھے گھور رہے تھے۔ میں نے اپنا خیال فوراً وظائف پر مرکوز کر دیا اور دل و دماغ کو یکسوئی کے ساتھ وظائف کے زیر اثر کر دیا۔
میں جب میانی صاحب کی خستہ حال قبروں کے پاس پہنچا تو میرا پورا بدن پسینے سے بھیگ چکا تھا۔ میں نے صبح ہی اس جگہ کا تعین کر لیا تھا جہاں مجھے بیٹھنا تھا۔ میں چوبرجی اور مزنگ کے درمیان واقع میانی صاحب کی گھاٹی پر پہنچ کر برگد کے اس صدیوں پرانے شجر ظلمت کے نیچے بیٹھ گیا یہاں نہ جانے کتنے عاملوں نے چوکیاں لگا کر خانماں برباد بدروحوں کو جہنم واصل کیا تھا۔ یہ جوگیوں کا استھان بھی تھا۔ عیسائی اور ہندو عامل عموماً یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ میاں جی نے مجھے اس برگد کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا کہ اس پر عیسائی جنات کی ایک پکھی (قبیلہ) بھی رہتی ہے اور کئی بدروحوں کو جلا کر ان کی راکھ اس کہنہ سال آسیبی درخت کے تنے میں دفن ہے۔
برگد کے پاس سرسوں کا ایک بڑا سا دیا روشن تھا جس کی ملگجی روشنی نے مہیب گھنے آسیبی درخت کا ماحول انتہائی پراسرار بنا دیا تھا۔ برگد کی شاخیں ناگوں کی طرح لہرا رہی تھیں۔ میں نے چٹائی اس دئیے کے پاس بچھائی اور انگیٹھی نکال کر سامنے رکھ لی۔ پھر میںنے چٹائی اور انگیٹھی کے گرد حصار باندھا اور پورے اطمینان کے بعد چوکی کا سامان نکالنے لگا۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
میں نے 125منکوں والی سیاہ تسبیح نکالی اور انگیٹھی کے سلگتے خوشبودار سحرسوز دھوئیں پر نظریں جما کر پڑھائی کرنے لگا۔ ابھی میں نے پہلی تسبیح مکمل نہ کی تھی کہ برگد کے درخت پر جیسے بھونچال آ گیا۔ مجھے لگا جیسے بہت سارے پرندے درخت کے پتوں میں جان کنی کے عالم میں پھڑپھڑا رہے ہیں اور برگد کی آسیبی دنیا ان پرندوں کو نگل رہی ہے اور ہر ذی حس پر موت کمندیں ڈال رہی ہے۔
شاخیں جہنمی شعلوں کی طرح دیوانہ وار میرے اردگرد لہرانے لگی تھیں اور عیسائی جنات کی پوری پکھی پر مرگ ناگہانی طاری ہو گئی تھی۔ میرے سر کے اوپر اس قدر قیامت خیز شور تھا کہ برگد کا پور استھان اس پہاڑ کی طرح لرزنے لگا تھا جس کی پاتال میں آتش فشاں ابلنے لگتا ہے تو اس پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ اگر یہی عالم رہا تویہ استھان پھٹے گا اور میں اپنے حصار سمیت اس میں غرق ہو جائوں گا۔ ایک لمحہ کے لئے میری رگ رگ میں خوف اتر گیا۔ اگرچہ میں اس سے پہلے بھی کچھ خطرناک چلے کاٹ چکا تھا اور خوف مجھ پر کبھی غالب نہیں آیا تھا مگر وہ لمحے بڑے پرآشوب اور جاں گسل تھے۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے اندر آرا چل رہا ہے اور اعضائے قلب کو اپنے کھرنڈ دندانوں سے کاٹ رہا ہے۔ بے حد اذیت اور خوف کی صلیب پر میرا بدن لٹکا ہوا تھا۔ اس کے باوجود میں اپنے ذہن کو خوف کی دہلیز پار نہیں کرنے دے رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ذرا سی لغزش مجھے تباہ کر دے گا۔ جلالی عملیات کی آگ مجھے روئی کی مانند جلا کر راکھ کر دے گااور میں اک شعلہ بے آسرا کی طرح بجھ جائوں گا یہ میرے مضبوط اعصاب کی آزمائش کا وقت تھا اور مجھے بہت سے خوفناک قاتل لمحوں کو سرنگوں کرنا تھا۔ مجھے اس خرافہ بدروح کو تسخیر کرکے عبرتناک موت سے ہمکنار کرنا تھا۔جو میری خوشیوں کی قاتل تھی۔ جس نے میرے ارمانوں کا خون کیا تھا۔ میرے ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیا تھا۔ اور جو میرے بچوں کی قاتل تھی ……۔ پس مجھے اس امتحان سے سرخرو ہونا تھا۔
برگد کے استھان پر کپکپاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد برگد کے مکینوں کا شور کم ہوے لگا تھا۔ جوں جوں میرا عمل تیز ہو رہا تھا۔ استھان کا لرزہ بڑھتا جا رہا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد مجھے احساس ہوا جیسے کوئی بھاری بھرکم وجود دھپ دھپ کرتا ہوا میری طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پورے ماحول میں کافور کی ملی جلی ناگوار سی بو پھیل گئی اور پوری فضا پر بوجھل پن سا طاری ہو گیا۔ مجھے جیسے انہی لمحات کا انتظار تھا۔ میری پڑھائی کا تیر ٹھیک بیٹھا تھا۔ میں نے آنکھیں کھول دیں تو اس کے ساتھ ہی استھان کی کپکپاہٹ بھی رک گئی۔ انگیٹھی کا دھواں ایک دبیز سی چادر کی طرح میرے اردگرد پھیل گیا تھا۔ میں نے اپنی آنکھیں سماعت کی راہنمائی میں اس جانب مرکوز کرکے پڑھائی شوع کر دی جدھر سے وہ وجود ناگہاں آ رہا تھا۔
''حاضر ہو جا …… آجا …… آگے اور آگے ……'' میری بوجھل اور قہر میں غرقاں آواز گونجی۔ مجھے لگا جیسے میرے اندر سے کوئی اور ہی بول رہا ہے۔ مجھے اپنا آپ اجنبی سا لگا۔ میں نے پڑھائی کے دوران دوبار یہ جملہ بولا تھا۔ پھر ایک دو ثانیے بعد ہی دبیز دھوئیں میں کفن بردار ایک طویل القامت وجود سر پر تابوت اٹھائے ہوئے میری طرف بڑھ آیا۔ وہ جیسے بہت لمبی مسافتیں طے کرکے آیا تھا' بری طرح کانپ رہا تھا۔ اس کی بوجھل اور گھمبیر آواز سے استھان کے ماحول پر سنسناہٹ دوڑ گئی۔ وہ حصار سے باہر انگیٹھی کے سامنے آ کے رک گیا۔ تابوت حصار کے باہر رکھ کر اور دونوں ہاتھ باند ھ کر بڑبڑایا۔
''آقا میرے لئے کیا حکم ہے؟''
''اپنا حصہ لے اور چلا جا……''
میں نے سخت لہجے میں کہا اور پھر تھیلے میں سے سات دالوں سے بنا ہواپتلا اس کی جانب پھینک دیا۔ وہ ندیدوں کی جھپٹا اور غائب ہو گیا۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
میں جلدی سے اٹھا اور آسمان کی طرف دیکھا۔ نو چندی رات اپنے جوبن پر تھی۔ میری سماعتوں اور بصارتوں کی بندشیں کھل گئی تھیں۔ میں اب کائنات اسرارمیں سرگرداں مخفی مخلوق کو دیکھ سکتا تھا۔ ہوائی مخلوق آسمان پر چہلیں کرتی گھوم پھر رہی تھی۔ میں نے مخصوص عمل پڑھااور پھر تابوت کو حصار کے اندر کھینچ کر تابوت کا ڈھکن کھول دیا پھر میں نے تابوت میں دفن ہونے سے پہلے آخری بار پڑھائی کی اور وظیفہ پڑھتے ہوئے ماش کے دانے تابوت کے چاروں طرف پھیلا دئیے تھے۔ مشک بور کا چھڑکائو بھی کر دیا تھا۔ تابوت والی جگہ کو اگر کی خوشبو سے مہکا دیا اور میں دم بخود سا خود سپردگی کے انداز میں موت کے تابوت میں لیٹ گیا اور زیر لب اس قاتلہ کی حاضری کے لئے وظیفہ پڑھنے لگا۔ تابوت میں موت کا سکون اور گھپ اندھیرا تھا۔ ہوا کا ایک جھونکا بھی داخل نہیں ہو رہا تھا لیکن عجیب بات تھی کہ مجھے آکسیجن کی کمی کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ ایک عجیب سی مسرور کن خوشبو میرے ذہن پر مسلط ہو رہی تھی اور رگ و پے میں لذت آمیز سنسنی پھیل رہی تھی۔ میری سماعت اور ذہن میں انتظار کی گھڑیاں بج رہی تھیں۔
''ٹھک … ٹھک… ٹھک……'' دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔ مجھے لگا کہ میں جہان اسرار میں کھو گیا ہوں۔ میری آنکھیں تو پہلے ہی بند تھیں۔ لیکن اعصاب کی ساری حسیات بیدار تھیں اور کسی متوقع خطرے کے گلے ملنے کے لئے مجھے تیار کیا جا رہا تھا۔ مشک بو کی مہک تیز رفتار ہوا کے جھونکوں کی مانند تابوت میں گردش کر رہی تھی۔ لمحے سرک رہے تھے۔ دل کی دھڑکن کی صدا آہستہ آہستہ دور ہوتی جا رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے آواز معدوم ہو رہی ہے اور میرا بدن خوشبوئوں کا غبار بن کر گہرائیوں میں گر رہا ہے۔ مجھے چلہ کے تقاضوں کے مطابق کسی قسم کے خوف میں مبتلا نہیںہونا تھا اور نہ ہی حرکت کرنی تھی۔
یہ خود سپردگی کا عمل تھا۔
میں خواب و خیال کی دنیا میں اتر گیا تھا۔ میرے ذہن سے تاریکی کی چادر سرک گئی تھی اور کھلا آسماں اپنی تابناکیوں اور رفعتوں کے ساتھ پھیلا ہوا نظر آیا۔ پوری کائنات کے اسرار کے قفل جیسے کھل گئے تھے۔ میںفضائوں میں تیر رہا تھا مگر پڑھائی کا عمل پھر بھی نہیں رکا تھا۔ ایک خودکار طریقے سے ہی ایک طرف کو بڑھ رہا تھا۔ میں جدھر سے بھی گزرتا ہوائی مخلوق کے بدوضع' بدصورت وجود حیرت و استعجاب سے میری طرف دیکھتے لیکن میرے براق وجود کی روشنیاں انہیں مجھ سے دور کر دیتیں۔ ایک دو بار کچھ شوریدہ سر اور شرارتی وجود مجھے چھونے اور ڈرانے کی خاطر میری طرف لپکے بھی تھے مگر جونہی وہ میرے براق کی لہراتی طلسماتی روشنیوں کے قریب آئے ان پر ان گنت سے شہاب گرے اور وہ عبرتناک چیخیں مار کر لمحہ بھر میں راکھ ہو گئے تھے۔
تاحد نظر ارض و سما کی وسعتیں جلوہ فگن تھیں۔ میں فضائوں کے سینے سے اترتا ہوا ایکجانب کو بڑھنے لگا تو اسی لمحے نو چندی رات کا شباب اترنے لگا جس سے پورے ماحول میں بے چینی و بے قراری بڑھ گئی۔ میں نے دیکھا کہ جدھر کو مجھے لے جایا جا رہا تھا… دور بہت دور ایک کھنڈر نما عمارت ہے جس پر سونے کا کلس نمایاں ہے' کسی غمزدہ بیوہ کی طرح اداس نظر آ رہا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد نادیدہ راہنما قوتیں مجھے اس کھنڈر میں لے گئیں۔ میں قریب پہنچا تو یہ ایک مندر کی عمارت تھی جس پر کائی اور مکڑیوں کے جالے جال کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ مندر سے باہر انسانوں کی کھوپڑیاں اور ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ مندر کی عمارت ناگوار بو میں سانسیں لے رہی تھی۔ میں مندر کے بڑے سے دروازے کے سامنے اترا تو دروازہ بے آواز صدا کے ساتھ دھیرے دھیرے کھل گیا اور ناگوار بو کا بھبکا باہر کو نکلا۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
میں دروازے کے اندر داخل ہوا۔ گہرے نارنجی رنگ کا دھواں پھیلا ہوا تھا۔ میں جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا دھوئیں میں میرا راستہ بنتا جا رہا تھا اور میں ایک بڑے سے کمرے کے اندر پہنچ گیا۔
کمرے کا ماحول دیکھ کر میرے لبوں پر زہرناک مسکراہٹ تیر گئی۔ مندر کی ناگوار فضائوں کے برعکس کمرے کا ماحول نہایت خوشبودار احساس لئے ہوئے تھا اور نہایت آراستہ پھولوں سے سجا ہوا کمرہ … ایک بڑی سی مسہری' ریشمی پردے جس کے چاروں طرف لہرا رہے تھے۔ میٹھے میٹھے سروں میں گھنٹیاں بجنے لگیں' بے خود کر دینے والا ماحول تھا۔ میں دروازے کے درمیان کھڑا ہو گیا تو مسہری کے پردے بے تابی سے والہانہ انداز میں پھیل گئے اور ایک کمال نازاں و جمال صفت دوشیزہ مہین لباس میں لپٹی ہوئی مسہری پر بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت انگیز ہوس آمیز چمک تھیں۔
''ٹھہر کیوں گئے ہو۔ آگے آجائو ……'' وہ بولی تو فضا میں ترنم جاگ اٹھا۔
میں آگے بڑھا۔ میری چال میں تفاخر اور خمار تھا۔ زبان اس کے جلوہ حسن کے آگے گنگ ہو گئی تھی۔ اس وقت مجھے گماں ہوا کہ میں جس کی تلاش میں آیا ہوں یہ وہ نہیں ہے۔ پدمنی تو نفرت و کراہت کا ملغوبہ۔ ایک ایسی بدروح ہے جس کو دیکھتے ہی گھن آتی ہے۔ مگر یہ شفاف شبنموں جیسی میٹھی دوشیزہ کون ہے؟ شاید مخفی قوتوں نے اس مہربان وجود کو میری مدد کے لئے بھیجا ہے۔
وہ انگڑائی لیکر اٹھی تو اس کے ریشمی بدن کی پوروں میں آتش جوانی سے تلاطم برپا ہو گیا۔ اس کا ہر عضو بے باک ہو گیا۔ اتنی مکمل عورت میں نے زندگی میں نہیں دیکھی تھی۔وہ کسی مصور کی خیالی تصویروں جیسی تھی۔ اس کو دیکھ کر زاہد بھی کفر کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی میں خود فراموشی کے عالم میں کھو گیا۔ اس نازنیںپری جمال اپسرانے میرے پورے بدن کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ میں دم بخود حیرت سے اس مجسمہ فطرت کو دیکھ رہا تھا۔
''آئو میرے ہمدم آگے بڑھو۔ میں کب سے تمہارے انتظار میں پیاسی بیٹھی ہوں۔''
اس کی آواز جذبات سے مغلوب ہو رہی تھی اور وہ جل پری کی طرح مخملی مسہری پر بے قراری سے پہلو بدلنے لگی۔
میں کسی سحرزدہ موکل کی طرح مسہری کے پاس پہنچا تو میری رگوں میں آتش لہو بھڑکنے لگی۔ اس نے نرم گداز شیر و شہد میں گندھا ہوا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور میں نے اس کا ہاتھ بے اختیاری سے تھام لیا۔ اس نے سسکاری بھری تو آگ نفس میرے بدن کو یوں جلانے لگی جیسے آگ سے بھڑکتے تندور کے پاس موم رکھ دیا جائے تو وہ پگھل کر مائع ہو جاتا ہے۔ اس نے میرا ہاتھ تھاما تو میرا پورا بدن موم کی طرح پگھل گیا۔ وہ اٹھی اپنا چہرہ میرے قریب لا کر بولی ''تم اتنے برسوں سے کہاں تھے۔''
میں خاموش کسی بت کی طرح اس کا تمازت بھرا چہرہ دیکھتا رہا۔
اس نے میرے دونوں ہاتھ اپنے گداز مخروطی ہاتھوں میں تھام لئے اور انہیں اپنی تپتی آنکھوں پر لگا کر بولی۔
''یہ آنکھیں وصل ہجر میں سلگ سلگ کر موم ہو گئی ہیں۔'' اس کی آنکھوں سے موتیوں جیسے آنسو گرے اور میرے ہاتھوں میں جذب ہو گئے۔ میرا دل بے اختیار ہو گیا۔
''میں اب آ گیا ہوں نا''
میرے لبوں سے نکلا
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
''اب مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائو گے۔''
وہ اپنے قریب کر کے بے تابی سے پوچھنے لگی۔
نہ جانے اس وقت کیا ہوا کہ میں موم کی طرح اس کی قربت میں پگھلتا چلا گیا۔ میرا نفس بہک گیا اور مجھے کچھ ہوش نہ رہا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مجھے تو اس وقت ہوش آیا تھا جب حسن آتش رواں نے مجھے پانی پانی کرکے میری روح کو آب گناہ میں غرق کر دیا تھا۔
پس اس وقت جب میں گناہ وندامت کی دلدل میں ڈبکیاں کھا رہا تھا' وہ دلفریب حسن اپنی حقیقت کے ساتھ آشکار ہو گیا اور اس نے بے حد و بے حساب بلند قہقہہ لگایا۔ میں جیسے ہوش میں آگیا اور چونک کر اس کی جانب دیکھا تو مجھ پر لرزا طاری ہو گیا۔ مسہری پر میں جس کے قرب وصل کی آگ سے موم ہو گیا تھا اب اس کا جہنمی پیرہن عیاں ہو گیا تھا۔ کچھ لمحے پہلے جس کے حسن دلفریب نے میرے قلب و نظر کو بدگماں کرکے مغلوب کر لیا تھا اب اپنے مکروہ خدوخال کے ساتھ نمایاں ہو گیا تھا۔ وہ مسہری پر ایک سراپۂ نفرت اپنی قہرسامانیوں حقارتوں کے نشہ میں مغرور ہوئے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ اس کا مکروہ چہرہ میرے سامنے مکڑی کے جالے کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ خوشبوئوں کی بجائے تعفن آمیز بو کا احساس بڑھ گیاتھا۔
وہ سراپۂ آگ' نفرت و جلال کا روپ پدمنی مجھے دغا دے گئی تھی۔ مجھے بات ہو گئی تھی۔ میں اپنے چلے کی ریاضتوں کے انبار تلے دب گیا تھا۔
پدمنی فتح سے چور تھی۔ وہ کسی فاتح درندے کی طرح ڈکرائی اور بولی
''میں نے تیری شکتی' تیرا مان' تیرا گیان اور تیرا استھان پلید کر دیا' تباہ کر دیا' تجھے برباد کر دیا ہے۔ ہا …ہا… ہا…ہا… ''۔اس کا قہر و نفرت کی مستی میں ڈوبا قہقہہ مجھے ذلت ناک شکست سے دوچار کر گیا تھا۔ میں نے بے بسی کے عالم میں خود کو مجتمع کرنے کی کوشش کی اور اس کے بال اپنی مٹھی میں جکڑنے لگا۔ لیکن اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا اور میں مسہری سے نیچے گر گیا۔
میری حیثیت برفیلی سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے اس نومولود بچے کی سی ہو گئی تھی جس کے اوپر سے بھاری لحاف اتار کر بے دردی سے باہر پھینک دیا جائے۔ ندامت اور شرمندگی کی لہر نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا اور پھر میں نے اپنی حیثیت کا ادراک کرتے ہی اس قاتلہ کی جانب دیکھا جو اپنے خبیث باطن کی خباثتوں کے ساتھ میرے سر پر کھڑی تھی۔
''پدمنی میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا''۔ میں ہانپتا کانپتا ہوا بولا تو اس نے استہزائی قہقہہ لگایا اور پھر نفرت سے بھرپور نگاہ مجھ پر ڈالی اور بولی۔
''اب تو مجھے کوئی نہیں مار سکے گا۔ نہال شاہ کی پوری نسل بھی مجھے مارنے پر لگ جائے تو میں اس کے ہاتھ نہ آسکوں گی''۔
پدمنی دو قدم پیچھے ہٹ کر نفرت سے دہاڑی۔ ''میں تجھے واپس بھیج رہی ہوں۔ تمہیں عبرت کی تصویر بنا کر۔ جائو اور اپنے میاں جی اور اس کالے نامراد سے کہو۔ وہ تمہیں ایسا گیانی بنا دیں۔ ایسا علم سکھادیں جو پدمنی کو جلا کر راکھ کر سکے۔ جائو اور اس لمحے کا انتظار کرو جب میں دوبارہ تیری خوشیاں چھیننے آئوں گی۔ اب میں ہر کالی منگل کو تیرے پاس آیا کروں گی اور تم میری پیاسی اور سلگتی آتما کی آگ بجھایا کرو گے۔ آج پدمنی نے صدیوں بعد ایک منش کے وجود سے وہ کچھ حاصل کر لیا ہے ۔ جس کی تمنا میں وہ جل کر مر گئی۔ سنو جانے سے پہلے یہ سنتے جائو کہ تمہارے بابا نہال شاہ نے اگر مجھے میرے بدن کو چھو لیا ہوتا اورمجھ سے بیاہ رچا لیا ہوتا تو میں اس کے عوض تمہارے خاندان کی رکھشا کرتی''۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
''پدمنی تو جھوٹ بولتی ہے۔ میرے باوا جی سرکار نے تجھے اس وقت بخش دیا تھا جب تو ان کی موت بن کر ان پر نازل ہوئی تھی۔ لیکن انہوں نے تمہارے ساتھ رحمدلی کا سلوک کیا۔ تو نے ان سے علم سیکھنے کی بھیک مانگی اور انہوں نے تجھے نہ صرف پناہ دی بلکہ علم سکھانے شروع کئے۔ اے ظالم بدروح تو اپنی شرارتوں اور شیطانیوں کے باعث باوا جی کی نظروں میں گر گئی تھی تو اپنی آگ میں خود جل گئی اور اس کا الزام باوا جی کو دیتی ہے۔ تو نے میرے خاندان کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا ہے۔ میرے بچوں کو تو نے مار ڈالا اے ظالم… تو نے معصوم سندھ کو برباد کر دیا۔خدا کی قسم میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ایک دن تجھے پکڑنے میں کامیاب ہو گیا تو تجھے ذلت کی موت ماروں گا۔''
پدمنی میری بات پر قہقہے لگاتی رہی۔ میری باتوں کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔
میں نے اپنی قوتوں کو یکجا کر کے اپنے وجود پر نظر ڈالی تو مجھے اپنی پور پور میں پدمنی کی غلاظت بکھری ہوئی نظر آئی۔ ظالم نے اپنی صدیوں کی پیاس بجھانے کے لئے مجھے بھرپور استعمال کیا تھا۔ میں اپنی قوتوں کو یکجا نہ کر سکا۔ میرے نورانی علوم کی طاقتیں ناراض ہو گئی تھیں۔ پدمنی اپنی خوابگاہ میں فاتح کی طرح تن کر کھڑی تھی اور میں فرش پر بکھرا پڑا تھا۔ میری روح اپنی کم مائیگی پر بلک رہی تھی۔ مجھے یہ احساس کوڑے مارنے لگا تھا کہ میں نے میاں جی کی ہدایات پر عمل کیوں نہیں کیا تھا۔ انہوں نے تو مجھے واضح بتادیا تھا کہ دیکھ پتر پدمنی نہ جانے کس روپ میں تیرے سامنے آئے اور تو اس سے دغا کھا جائے۔ اگر تو اس بار اس کے دھوکے میں آ گیا تو تجھے بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ میں نے میاں جی کی نصیحت کو اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے فراموش کر دیا تھا اور اب پدمنی کے رحم و کرم پر بیٹھا بلک رہا تھا۔
نہ جانے میں کب تک شرمندگی کی آگ میں جلتا رہتا کہ اچانک مجھے پدمنی کی بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے چہرے پر اذیت ناک کھچائو اور گھبراہٹ طاری ہو گئی تھی۔ اسی لمحہ ایک نورانی ہیولہ اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لمبی سی چھڑی تھی جس کی نوک سے آگ کا شعلہ نکل رہا تھا۔ ہیولے نے چھڑی کی نوک پدمنی کی طرف کی تو پدمنی نے دلخراش چیخ ماری۔
''اشرف میاں۔ اگر تو نے مجھے جلایا تو میں تیرے ناگی کو مار ڈالوں گی۔''پدمنی نے کربناک آواز میں کہا تو ہیولے نے چھڑی فضا میں روک لی اور اس کا رخ اوپر کر دیا ۔ پھر ایک بھاری بھر کم آواز گونجی۔
''بدبخت تو نے اس کو اپنی غلاظت کے جال میں پھانس لیا ہے۔ آج میں تجھے جانے دے رہا ہوں صرف اس کی زندگی کی خاطر۔ پھر دوبارہ کبھی اس کو تنگ کیا تو اسی وقت جلا کر راکھ کر دوں گا''۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
ہیولے کی آواز میں اسقدر دبدبہ تھا کہ پدمنی جھرجھری لیکر رہ گئی اور آناً فاناً نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
بس مجھے اتنا یاد ہے کہ اس کے بعد ہیولہ میری طرف بڑھاتھا۔ اس نے چھری میری طرف بڑھائی تو میرے ذہن کو زور دار جھٹکا آیا۔ یوں لگا جیسے میرا وجود غلاظت سے باہر نکل آیا ہو۔ میں زوردار چیخ مار کر اٹھا تو میرا سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔
''میاں جی…'' میں نے آنکھیں کھولیں تو میرے گرد گھپ اندھیرا تھا اور میرا پورا بدن مردے کی طرح تنگ سی جگہ پر اکڑا پڑا تھا۔ مانوس خوشبوئیں میرے گرد ہنوز پھیلی ہوئی تھیں۔
اسی لمحہ ڈھک سے میرے اوپر کوئی ڈھکن سا اٹھا تو مجھے یاد آیا کہ میں تو تابوت میں قید ہو کر پڑھائی کر رہا تھا۔ تابوت کا ڈھکن کھلا تو دئیے کی روشنی میں دو وجود کھڑے نظر آئے۔
'' ناگی باہر نکلو۔'' میاں جی کی آواز سنائی دی۔
''لے تو میرا ہاتھ تھام لو'' دوسرا وجود استاد مراد کا تھا۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا ۔ تابوت سے باہر نکال کر بولا ۔ ''میرے کاندھے پر ہاتھ رکھو کہیں گر نہ جانا''۔ مجھے بے حد نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔
''شکر کر 'زندہ بچ گیا ہے''۔ میاں جی گھبمیر آواز میں بولے
'' آپ کا شک صحیح نکلا تھا۔ میاں جی'' استاد مراد نے کہا'' اسے بہت سجھایا تھا کہ مجھے ساتھ لے چلو۔ مگر اسے اپنی پراسرار طاقتوں پر بہت گھمنڈ تھا''۔ استاد مراد اور میاں جی مجھے بڑی مشکل سے آستانے پر لے کر آئے تھے۔ سحری کا وقت ہو چلا تھا۔ مجھ سے تو چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ میں نیم بے ہوش تھا۔ انہوں نے مجھے آستانے کے اندر لٹایا اور میرے کپڑے اتار کر میرے بدن پر مختلف عملیاتی تیلوں کی مالش کرنے لگے۔ یہ مانوس سی بو تھی مجھے یاد آیا کہ برسوں پہلے میں نے استاد مراد کو جب اس طرح کے تیلوں سے مالش کراتے دیکھا تھا تو مجھے گھن آنے لگی تھی۔ لیکن آج میرے بدن کو پدمنی کی نحوست سے پاک کرنے کے لئے عملیاتی تیل سے مالش کی جا رہی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ استاد مراد اور میاں جی نے سورج طلوع ہونے تک عملیات اور دھونیوں کے ذریعے میرے ہوش قائم رکھنے کی کوشش کی تھی۔ میاں جی نے استاد مراد سے یہ کہا تھا۔
''سورج پھوٹنے سے پہلے پہلے اس کو ہوش میں لاناہے۔ اگر یہ بے ہوش ہو گیا تو پدمنی کا خوف اس کے ذہن میں پنجے گاڑھ کر بیٹھ جائے گا''۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
لہذا انہوں نے سورج نکلنے سے پہلے مجھے مکمل ہوش دلا دیا۔ استاد مراد اور میاں جی نے پورا دن مجھے اپنے پاس رکھا اور مجھے عملیات کی پراسرار دنیا کی اونچ نیچ سے آگاہ کرتے رہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا۔ ''ناگی یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ اندھے جذبات' غصہ اور بے شعوری سے عامل کو بچنا چاہیے۔ چلہ کے وقت کبھی خلاف علم حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ چھوٹے موٹے علم میں بھی عامل کی گستاخی اور بے پروائی برداشت نہیں ہو سکتی''۔
میں اس رو ز بے حد رنجیدہ بھی تھا اور میر اخون بھی کھول رہا تھا۔ میں نے میاں جی سے صاف صاف کہہ دیا تھا۔ ''میاں جی میں پدمنی کو معاف نہیں کر سکتا۔ وہ میری خوشیوں کی قاتل ہے۔ میں اپنی جان قربان کر کے بھی آنے والی نسلوں کو اس کے قہر سے بچائوں گا''۔
''پہلے تجھے عملیات کی تعلیم مکمل کرنی ہو گی''۔میاں جی نے کہا۔ '' تمہیں علوم پر دسترس ہو گی تو تبھی اس خرافہ کو پکڑنے میں کامیاب ہو سکو گے۔ دیکھو علم تو ہمارے پاس بھی ہے لیکن بعض حالات میں ہماری قوتیں بے بس ہو جاتی ہیں۔'' میاں جی نے اس کی وجوہات سے مجھے آگاہ کیا اور مجھے احساس ہو گیا کہ جب انسان دو کشتیوں کا سوار ہو تو اس کے ڈوب مرنے کا امکان بھی ہوتا ہے۔ ایک وقت میں کالے علم اور نوری علم سیکھنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ اگر ایک عامل صرف نوری علوم حاصل کرے تو گندی قوتیں اس پر غالب نہیں آ سکتیں۔ کالے اور سفید علوم کے ملغوبہ سے استفادہ کرنے والا عموماً کالی قوتوں سے مات کھا جاتا ہے۔
اس روز میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے اگر ایک بڑا اور کامیاب عامل بننا ہے تو مجھے نوری علوم پر دسترس حاصل کرنا ہو گی۔ میں نے میاں جی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ بے حد خوش ہوئے البتہ رنج کے عالم میں کہا '' کاش ہم نے بھی صرف نوری علم سیکھا ہوتا''۔
میں میاں جی کی بات سمجھتا تھا۔ انہوں نے بھی خاندانی روایات کی طرح کالے علم اور نوری علم سے استفادہ کیا تھا۔ اس علم کے باعث ہی بعض اوقات وہ طاقتور کالی قوتوں کو مکمل طور پر شکست نہیں دے سکتے تھے۔
استاد مراد نے میرے فیصلے کو پسند نہیں کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں سفلی اور نوری دونوں علوم سیکھنے کا عمل جاری رکھوں۔ اگرچہ اس وقت تک میں نے کچھ سفلی علوم بھی سیکھ رکھے تھے اور نوری علوم سے بھی راہنمائی لیتا تھا لیکن ایک عامل کامل بننے کے لئے مجھے ایک کشتی پر سوار ہونا تھا۔ میرے سامنے پدمنی کی طاغوتی قوتوں کا ایک کوہ گراں تھا جس کو میں نے گرانا تھا۔ پھر میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آخر ایسی پراسرار قوتیں حاصل کرنے کا کیا فائدہ جس پر عامل کو پوری دسترس نہ ہو۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ دنیا میں صرف نوری طاقتیں ایسی ہیں جنہیں زوال نہیں آسکتا۔ کالے علوم والا تو زندگی بھر عذابوں سے درچار رہتااور ذلتیں اٹھاتا ہے۔
میں نے نوری علوم اور عملیات کی راہ پر چلنے سے پہلے اپنی باطنی غلاظتوں کو دھونے کا فیصلہ کیا۔ میاں جی نے میری بھرپور مدد کی اور مجھے وہ روشن راہیں دکھا دیں جن پر چل کر میں روحانی علوم کا ماہر بن سکتا تھا۔ میں آپ کی اپنی اس آپ بیتی میں ان علوم سے آگاہ کروں گا۔ یہ ایک لمبا صبر آزما اور کھٹن سفر تھا مگر یہ تھا بہت ثمرآور۔ روحانی علوم کے لئے مزید راہنمائی کیلئے میاں جی نے اپنے خاندانی عامل جن طرطوش کو بھی بلایا تھا اور مجھے کئی مہینے تک اس کے سپرد کیا تھا۔ طرطوش کی نگرانی اور سرپرستی میں مجھے عجیب و غریب تجربات سے بھی گذرنا پڑا تھا۔
ٹھہرئیے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ میں جہانِ عملیات کے اسرار بیان کرنے سے پہلے آپ کو اپنا مکمل تعارف کرادوں اور اپنے اس خاندانی پس منظر اور حالات سے آگاہ کردوں جن کی وجہ سے مجھے عملیات کی دنیا میں آنا پڑا۔
 
Top