حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری ؒکی رحلت
ناصرالدین مظاہری
امام المحدثین حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے قابل فخر ہونہار فرزند ارجمند ،ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے عظیم سپوت ،شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ کے لائق فائق شاگرد رشید، صاحب قلم انشاء پرداز حضرت مولانا سید ازہر شاہ قیصرؒ کے برادر اصغر اور ہزارہاہزار علماء ومحققین کے استاذ گرامی قدر محدث جلیل حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ مختصر علالت کے بعد ۶۲اپریل ۸۰۰۲ء بروز شنبہ بوقت صبح مولائے حقیقی سے جا ملے ؎
ضرورت جتنی بڑھ رہی ہے صبح روشن کی
اندھیرا اور گہرا اور گہرا ہوتا جاتا ہے
حضرت مولانا سیدانظر شاہ کشمیری ؒکی ذات گرامی علمی ،تحقیقی ،روحانی اور عرفانی میدانوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے وہ بیک وقت ہندوستان کے سب سے بڑے تعلیمی مرکز دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث، عظیم کتابوں کے مصنف ،خالص محدثانہ اور محققانہ ذوق رکھنے والے فردفرید،قرطاس قلم کے بادشاہ ،دینی اوراسلامی سیاست کے سپوت اور گونا گوں صفات و محاسن کے علاوہ امانت و دیانت، تقوی وطہارت ،خلوص و للٰہیت ،استغنا ء وبے نیازی ،سیاسی بصیرت ،ایمانی فراست ، صاحب درک وادراک ،عالم باعمل اور ملت اسلامیہ کا فکرودرداپنے دل میں رکھنے والے شخص تھے ۔
انہوں نے ۸۲۹۱ء میں آنکھیں کھولیں،صرف پانچ سال کی عمر میں آپ کے نامور والد حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیری ؒ داغ مفارقت دے گئے اس طرح بچپن ہی میں سنت نبوی کی تعمیل بھی ہوگئی کی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بھی تقریباً یہی تھی جب ان کے والد ماجد حضرت عبد اللہ کا انتقال ہوا تھا ۔
مولانا نے ۷۴۹۱ء میں پنجاب یونیورسٹی کے تحت کرنال سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ،لیکن جس کی گھٹی میں دین اور دینی مزاج، شریعت اور شرعی ذوق، سنت اور سنت کی پاسداری ،اللہ رب العزت نے ودیعت فرمارکھی تھی، ظاہر ہے عصری علوم ،دنیاوی چمک ،ڈالروں کی کھنک اور روپیوں پیسوں کی دمک سے ایسے شخص کی آنکھیں کیوں کر خیرہ ہوسکتی تھیں، اسلئے مولانا انظرشاہ کشمیری ؒ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیکر قرآن سنت کی تعلیم میں خود کو مشغول کرلیا ،اس وقت دارالعلوم دیوبند آپ کے والد ماجد حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒکے ہونہار شاگردوں سے نور اور نورانیت، روح اور روحانیت ،عرفان اور عرفانیت سے بقعۂ نور اور منبع سرور بنا ہو ا تھا اسلئے ان نیک طینت اور پاک باز شاگردان انور کی توجہات عالیہ اور عنایات غالیہ سے مولانا انظر شاہ کشمیریؒ پورے طورپر مالا مال رہے ۔
مولانا انظرشاہ کشمیریؒ نے اپنے تعلیمی عہدکو جس عسرت وتنگ دستی مکمل فرمایا وہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور اس کو دیکھ کر ان اسلاف کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جنہوں نے حصول تعلیم کے لئے بہت ہی پر خار وادیوں کوطے کیاتھا۔
مولانا نے ۲۷۳۱ھ مطابق ۲۵۹۱ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت پائی اور اسی سال آپ کی علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے دارالعلوم کی انتظامیہ نے تدریس کے لئے منتخب فرمالیا ۔
آپؒ کی تعلیم وتربیت میں یوں تو اکابر علماء کی ایک پوری فہرست ہے جنہوں نے آپؒ کی تعلیم وتربیت کواپنا حق اور اپنے استاذ علامہ کشمیری ؒ کا قرض سمجھ کر پورا کیا لیکن حضرت مولانا فخر الدین مرادآبادیؒ کی عنایات، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کی توجہات اور دارالعلوم دیوبند کے دیگر کبار اساتذہ کی شفقتیں پورے طورپر شامل حال رہیں ۔
مولانا بیک وقت دارالعلوم کے اساتذہ میں ممتاز، طلبۂ دارالعلوم کے درمیان مقبول، عوام وخواص کے درمیان نیک نامی کے ساتھ مشہور، علمی اور تحقیقی ذوق رکھنے والے افراد کے درمیان ایک بلند پایہ مصنف، اسٹیج کے میدان میں بے باک مقر ر، تحریر اور انشاء کی لائن سے صاحب قلم اور فکر ونظر کی بلندی اور وسعت نظر اور دقت فکر کے معاملے میں بہت ہی امتیازی شان رکھتے تھے ۔
ان کی تعلیمات ،حدیث کے میدان میں ان کے کارنامے ہند اور بیرون ہند ان کے مواعظ وخطبات ، اساتذہ اور طلباء کے درمیان میں کی گئی ان کی عالمانہ وفاضلانہ گفتگو ،دارالعلوم کے مسند تعلیم ،مسند صدارت اور معہد انورکی قیادت، سیاست کے میدان میں ان کی بصیرت اور عوام و خواص کے مابین ان کی علمیت ،لیاقت ، صلاحیت اور صالحیت کے چرچے اس بات کا ثبوت ہیں کہ مولانا انظرشاہ کشمیریؒ عند اللہ بھی مقبول ہوں گی۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ اورحضرت مولانا سالم قاسمی مدظلہ کا دایاں بازو بنکرانہوں نے وقف دارالعلوم دیوبند کی آبیاری اور آبپاشی میں جو کردار اور لازوال کارنامہ انجام دیا تاریخ اس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی اور لیل و نہار کی گردشیں مولانا کی خدمات اور لازوال کارناموں پر کبھی اثراندازنہیں ہوسکتیں ۔
نامور صاحب قلم اور عصر حاضر کے بے باک انشاء پرداز مولانا نسیم اختر قیصرنے مولانا کی تدریسی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’میرے عہد کے لوگ‘‘نامی کتاب میں لکھا ہے کہ
’’اول دن سے ان کی تدریسی صلاحیتوں کے چرچے شروع ہوئے ،میزان سے ابتداء اور بخاری شریف پر آکر ٹھہرائو ،مقامات حریری کی تدریس، ملا حسن اور سلم العلوم پر گرفت، جلالین اور بیضاوی ان کی نکتہ آفرینیوں کا مرکز بنی،مختصر المعانی ،شرح عقائد اور ہدایہ میں پختگی کا ثبوت دیا، ترمذ ی، مسلم، ابو داؤد ،مشکوٰۃ جیسی کتب احادیث بھی طویل زمانے تک پڑھانے کی سعادت حاصل رہی، فقہ وحدیث ،تفسیر وکلام، منطق و فلسفہ ، معانی وادب ہر جگہ شہرتوں اور محبوبیت نے ان کے قدموں تلے پھول بچھادیئی،۵۵سال سے زائد ان کی تدریسی زندگی کے گزر رہے ہیں ان کے انداز درس اور طریقۂ درس نے مقبولیت کا دامن نہیں چھوڑا، کسی فن میں نہ عاجز اور نہ کسی کتاب سے متوحش ،ہر جگہ ان کی صلاحیتوں کے قطاراندر قطار چراغ روشن ہوئے اور ان کی روشنی طالبان علوم نبوت کے لئے ایک مثال بنکر سامنے رہی، خدانے ذہن ،فکر ،حافظے اور افہام وتفہیم کی بے پناہ دولتوں سے نوازا اور قدرت کی ان فیاضانہ عنایات کا انہوں نے فیاضانہ استعمال کیا ،دارالعلوم کے وہ چند نام جو اپنے علم وعمل صلاحیت اور قبولیت میں شہرتوں کی منزلوں تک پہونچے ان میں شاہ صاحب کا نام نمایا ںہے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور اپنے وجودمیں ایک ادارہ تھے اس انجمن کی روشنی جب تک کہ آپ حیات رہے بڑھتی ہی رہی ‘‘
مولانا کے تصنیفی کارناموں میں سوانحات، فقہ،ایمانیا ت، تقریر وخطابت ،تفسیر و حدیث اور دیگر موضوعات پر ان کے قلم حقیقت رقم کے نادر اور نایاب نمونے صدیوں تک ہمارے درمیان موجود رہیں گے اور ایک درجن سے زائد ان کی قلمی کاوشیں آنے والی نسلوں کے لئے مآخذ اور مصادر کی حیثیت اختیارکئے رہیں گی۔
مولانا کو جس طرح تحریری عبور حاصل تھا اسی طرح تقریری میدان میں عطاء اللہ شاہ بخاریؒ،شورش کاشمیریؒ ؒاور زکریا قدوسیؒ کے سچے جانشین محسوس ہوتے تھی۔
آپ نے قرآن وسنت کے پیغام کو عام وتام کرنے کے لئے دور دراز ملکوں کا سفربھی کیا چنانچہ افریقہ ، کناڈا،پناما ،برطانیہ، شارجہ، دبئی،کویت،بنگلہ دیش،پاکستان،سعودی عرب ،ماریشش،مصر،ری یونین وغیرہ مختلف ممالک کے نہ صرف اسفار فرمائے بلکہ اپنی اعلیٰ خطابت اور تقریر سے بھی نوازا۔
انہوں نے اپنے ادارہ معہد انور سے ایک علمی ودینی مجلہ ’’محدث عصر‘‘کے نکالنے کا بھی اہتمام فرمایا ،اس ادارہ کے نصاب تعلیم اور نظام تربیت کو اپنے فہم وبصیرت اور تدبیر و تدبر سے بہت ہی ٹھوس بنایا ،تدریس کے لئے اساتذہ اور عملہ بھی فنی رکھا اس سے مولاناکی انتظامی مہارت کے ساتھ تعلیم کے معاملہ میں ان کے مزاج کی ندرت کابھی پتہ چلتاہی۔
دارالعلوم دیوبند کے میں رہنے کے دوران بھی اورحکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیبؒکے ساتھ وہاں کی چہاردیواری سے نکلنے کے بعدوقف دارالعلوم دیوبندمیں ہرجگہ ان کی شخصیت امتیازی رہی،ان کے سامنے بڑے بڑے علماء خودکوچھوٹامحسوس کرتے تھی،ان کی علمی گفتگوسے حاضرین مجلس عش عش کراٹھتے تھی،ان کے زوربیان اوراستدلالی طرزواداسے ان کے معاصرین بھی اپنے دانتوں تلے انگلیاں رکھ لیتے تھی، ماہرین علم وفن اورتحقیقی کام کرنے والے حضرات کسی بحث یااپنے مطلب کی کسی چیزکوتلاش کرنے میں مغزماری کے بجائے مولاناہی سے معلوم کرلینے میں اپنی عافیت تصورکرتے تھے اورمولاناکسی کوبھی ناکام ونامرادواپس نہ فرماتے تھی۔
انہوں نے زندگی کے سخت اورکٹھن حالات میں بھی باغیوں،طاغیوں اوراسلاف واساتذہ کوستانے اوراذیت دینے والوں سے ہاتھ ملانے کواپنی عزت نہیں بلکہ مخالف کالحاظ ہی سمجھا،اسلام کے خلاف اسلام دشمنوں کی تحریکات،دینی مدارس کے خلاف یہودی اورہنودی لابی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کرگفتگوکی،وہ سلطان جائرکے سامنے بھیگی بلی بن کرنہیں شیرببربن کرگرجے اوربادل بن کربرسی،مولاناکے یہاں مصلحتوں کا دروازہ سرے سے تھاہی نہیں اس لئے اس کا کھلناہی محال تھا،اپنے پاک اورپاکیزہ دامن پرکیچڑاچھالنے والوں کونرمی اورلطف کے ساتھ سمجھانے کی کوشش توضرورکی لیکن اس کے پیچھے لاٹھی لیکرنہیں دوڑی،ہرقدم،زندگی کے ہرموڑاورہرزاویہ پرسیرت وسنت کوقطعی اورآخری سمجھنے کامزاج بنایا، غیبت،جھوٹ، چغلخوری،استہزا، اورتمسخر کوکبھی پسندنہیں کیا،ان کی مجلس علمی تھی،ان کی گفتگوعلمی تھی،ان کے سونے جاگنے اورنشست وبرخاست سے سنت کی خوشبومحسوس کی جاسکتی تھی۔
وہ اخیروقت تک چلتے پھرتے رہی،ان کاذہن ودماغ بھی اخیروقت تک جوان رہا،ان کے عزائم اورارادے بھی اخیروقت تک جوان رہی،کوہوں اورکہساروں سے ٹکراناتوجانتے تھے اورمرعوبیت ،احساس کمتری اورروباہی سیکھی ہی نہیں تھی۔
جمعیۃ علماء ہندکے حالیہ نزاع پران کی پردروپراثرتحریرشایدان کی آخری تحریرہے جس میں انہوں نے اپناسینہ کھول کراورقلم کواپنے آنسوؤں میں ڈبوکرچندمعروضات پیش فرمائی تھیں۔
۶دسمبر۵۰۰۲ء کو حکومت ہندنے مولاناکی عظمتوں،خدمات اورکارناموں کے پیش نظرصدرجمہوریہ ایوارڈسے بھی نوازاتھا،اس کے علاوہ وہ اترپردیش میں کانگریس کے نائب صدربھی رہے اس کے باوجودجب بھی حق بولنے کی نوبت آئی،سچ کی ضرورت محسوس ہوئی،باطل کی دندناہٹ نے حق کو کچلنا چاہا تومولانا سید انظرشاہ کشمیریؒ شعلۂ جوالہ بن کرخرمن اعداء پرٹوٹ پڑی،انہوں نے اپنے پرکیف اورپرفریب نعروں سے کبھی بھی قوم کا استحصال نہیں کیا،سب سے پہلے اورسب سے آگے آکرقربانی دینے کا مزاج بنائے رکھا ان کی ان ہی اداؤں نے ان کے معاصرین پرامتیاز اورتفوق بخشاتھا،ان ہی چیزوں نے ان کی عظمتوں میں چارچاندلگائے رکھااوراپنے کرداروعمل سے اپنے بعدوالوں کو ان ہی خطوط اورنقوش پرچلنے کا خوگربنایا۔
نوٹ:
یہ سطورحضرت مولاناکشمیریؒ کی تدفین سے پہلے لکھی گئیں-
 
Last edited by a moderator:

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
دسمبر۵۰۰۲ء کو حکومت ہندنے مولاناکی عظمتوں،خدمات اورکارناموں کے پیش نظرصدرجمہوریہ ایوارڈسے بھی نوازاتھا،اس کے علاوہ وہ اترپردیش میں کانگریس کے نائب صدربھی رہے اس کے باوجودجب بھی حق بولنے کی نوبت آئی،سچ کی ضرورت محسوس ہوئی،باطل کی دندناہٹ نے حق کو کچلنا چاہا تومولانا سید انظرشاہ کشمیریؒ شعلۂ جوالہ بن کرخرمن اعداء پرٹوٹ پڑی،انہوں نے اپنے پرکیف اورپرفریب نعروں سے کبھی بھی قوم کا استحصال نہیں کیا،سب سے پہلے اورسب سے آگے آکرقربانی دینے کا مزاج بنائے رکھا ان کی ان ہی اداؤں نے ان کے معاصرین پرامتیاز اورتفوق بخشاتھا،ان ہی چیزوں نے ان کی عظمتوں میں چارچاندلگائے رکھااوراپنے کرداروعمل سے اپنے بعدوالوں کو ان ہی خطوط اورنقوش پرچلنے کا خوگربنایا۔
نوٹ:
یہ سطورحضرت مولاناکشمیریؒ کی تدفین سے پہلے لکھی گئیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top