حکیم نور الدین قادیانی کا دورِ حکومت

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
حکیم نور الدین قادیانی نے تو اپنے دور اقتدار میں اُن کا مقاصد کو آگے بڑھایا۔ جب کہ اصل کام کا آغاز تو خود مرزا غلام احمد قادیانی کے اپنے دور میں ہی شروع ہو چکا تھا۔ ہندوستان میں قادیان مرزا غلام احمد کی خلافِ اسلام اور خلافِ ترک سلطنت سرگرمیوں کی وجہ سے تخریب کاری اور سازشوں کا مرکز بن چکا تھا۔ جہاں سے پورے بلادِ اسلامیہ کے اندر انگریزوں کی اطاعت، سلطنت عثمانیہ کی مخالفت اور جہاد کی مذّمت میں لٹریچر بھیجا جاتا تھا۔ مرزا غلام احمد نے سوڈان میں مہدی سوڈانی کی مخالفت کے لیے غلام نبی قادیانی کی سربراہی میں ایک مشن مصر بھیجا۔ اسی طرح عراق میں ترکی حکومت کے خلاف کام کرنے کے لیے ایک عرب قادیانی جس کا نام عبداللہ تھا مامور کیا گیا۔ اسی طرح وسط ایشیاء زارِ روس کے خلاف برطانوی جاسوسی کے لیے مشن روانہ کیے گئے جن میں مولوی قطب الدین قادیانی، میاں جمال الدین قادیانی، مرزا خدا بخش قادیانی معروف نام ہیں۔ افغانستان ایک مدّت تک قادیانی جاسوسوں کی زد پہ رہا۔ مولوی عبداللطیف قادیانی اس ضمن میں ایک نمایاں نام ہے۔ جسے اُس وقت کی حکومتِ افغانستان نے اُس کے مرتد ہونے کی بنا پر سنگسار کر دیا تھا۔ ترکی کی حکومت مسلمانوں کے اتّحاد کا نشان بن چکی تھی، مرزا غلام احمد کی خصوصی تنقید اور مذّمت کا نشان بنی رہی۔ مرزا غلام احمد بڑے تسلسل کے ساتھ ترکی کی تباہی اپنے الہاموں اور پیش گوئیوں میں بیان کرتے رہے۔

۱۸۹۷ء میں جب ترک کونسل کراچی سے لاہور آئے تو مسلمانوں نے اُن کا شاندار استقبال کیا۔ لاہورکی قادیانی جماعت کی طرف سے ترک کونسل کو ملاقات کی دعوت دی گئی۔ مسلمان ذرا مطمئن ہوئے کہ شاید خلافتِ عثمانیہ کے نمائندے سے مرزا کی ملاقات سے مرزا غلام احمد کی ترک مخالفت سرگرمیوں میں کچھ کمی آجائے گی۔ لیکن مرزا نے اپنی ملاقات میں انگریزوں اور یہودیوں کی حمایت اور ترکوں کی مخالفت کا اعادہ کیا تو ترک کونصل ناراض ہو کر واپس چلے گئے اُسے یقین ہو گیا کہ یہ شخص اپنے آپ کو مذہبی رہنما کہتا ہے درحقیقت انگریزوں کا ایجنٹ اور گماشتہ ہے جو اپنے قول و فعل سے اپنے آپ کو مسلمانوں کا ازلی و ابدی دشمن ثابت کر چکا ہے۔ مذاکرات ختم ہونے پر مسلمانوں کو ان مذاکرات کے نتائج کے بارے میں فطری طور پر تجسّس تھا۔ چنانچہ لاہور کے ایک اخبار ’’ناظم الہند‘‘ نے لاہور سے ترکی کونصل کے ساتھ رابطہ قائمکر کے مرزا سے اُن کی ملاقات کے بارے میں جب استفسار کیا تو اُنھوں نے صاف صاف الفاظ میں مرزا قادیانی کی مذّمت کی اور کہا کہ یہ شخص فریب کاری کا مجسّمہ ہے، جس کی رگ رگ میں اسلام کی مخالفت اور مسلمانوں کی دشمن کا جذبہ موجزن ہے اس سے زیادہ کچھ کہنا کارِ فضول ہے۔ چنانچہ ترکی کونصل کا یہ خط جب اخبار چھپا تو مسلمان اس پر سیخ پا ہو گئے اور اُنھوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی بڑی شدّت کے ساتھ مذمت کر کے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد مرزا صاحب ایک اشتہار کے ذریعے اپنے خیالات کو اس طرح بیان کرتا ہے۔

’’میرے نزدیک واجب التعظیم اور واجب الاطاعت اور شکر گزاری کے لائق گورنمنٹ انگریزی ہے۔ جس کے زیر سایہ امن سے یہ آسمانی کا رروائی کر رہا ہوں۔ ترکی سلطنت آج کل تاریکی سے بھری ہوئی ہے اور شامتِ اعمال بھگت رہی ہے اور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ اس کے زیر سایہ رہ کر ہم کسی راستی کو پھیلا سکیں۔ میں نے صاف کہہ دیا ہے کہ سلطان کی سلطنت کی حالت ٹھیک نہیں اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ اس کا انجام اچھا نہیں یہی وہ باتیں تھیں جو سفیرِ مذکور کو اپنی بدقسمتی سے بُری معلوم ہوئیں۔‘‘ (تبلیغِ رسالت، جلد ہشتم۔ مؤلفہ مولوی قاسم علی قادیان، صفحہ ۵)

مرزا غلام احمد کی ترک دشمنی اُن کی موت تک جاری رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کسی قسم کی کمی کی بجائے بلا کی شدّت ہی پیدا ہوتی گئی۔ ہندوستان کے مسلمان جو دل و جان سے ترکی سلطنت کے ساتھ تھے مرزا کی اس حکمتِ عملی کو بخوبی سمجھتے تھے اور مرزا کی اس برطانیہ نواز ترک دشمن حکمتِ عملیوں پر کڑی تنقید بھی کرتے تھے۔ چنانچہ جہلم سے شائع ہونے والے مسلمان اخبار ’’سراج الاخبار‘‘ نے اپنے خصوصی مقالے میں مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا:

’’مرزائے قادیان کے جھوٹے دعوے اور انبیاء علیہم السلام کی نسبت اس کی توہین آمیز تحریریں اور مدّت سے مسلمانوں کی سخت دل آزاری کا باعث ہو رہی تھیں مگر اب کی مرتبہ ۲۴؍ مئی کو ایک اشتہار ’’حسین کامی سفیر سلطانِ روم‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس سے تو ہندوستان کے ہر طبقہ کے مسلمانوں کو سخت قلق ہوا ہے۔ اس اعلان سے صریحاً ثابت ہو گیا ہے کہ یہ شخص علمائے امّت ہی کا دشمن نہیں بلکہ ملّتِ اسلامیہ اور روئے زمین کے مسلمانوں کا جانی دشمن ہے اور جس طرح انگلستان میں ’’گلیڈ سٹون‘‘ اسلام اور ترکی کی سلطنت کا مخالف ہے اسی طرح ہندوستان میں یہ شخص اسلام اور اہل اسلام کا دشمن ہے۔ حیف ہے کہ یہ خلیفۃ المسلمین جو روئے زمین کے مسلمانوں کا واجب الاحترام مقتدیٰ ہے اور جو حرمین شریفین کا محافظ ہے اس کی نسبت ’’گلیڈ سٹون‘‘ کا یہ بے باک مقلّداہی میں دریدہ دہنی کرتا ہے۔

اخبار بین طبقہ جانتا ہے کہ مرزا قادیان نے جو کچھ لکھا ہے یہ وہی ہے جو ’’گلیڈ سٹون‘‘ (اس وقت برطانیہ کاوزیر اعظم تھا) اور اُس کے یورپین پیرو ترکی سلطنت کی نسبت بکا کرتے ہیں۔ قادیان کے اس قول سے کہ میں نے سفیر کو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا۔ ’’بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ‘‘ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا الہام کرنے والا خدا بھی صرف مسلمانوں کا ہی دشمن ہے ان کے خون کا پیاسا ہے اور جو لوگ دینِ اسلام کے دشمن اور اس کے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں ان سے خوش ہے اور انہی کو دنیا میں قادیانی اور اس کے گروہ کو باقی رکھنے کے لیے منتخب کیا ہے۔‘‘ (مولانا ابو قاسم دلاوری، رئیس قادیان)

مرزا غلام احمد عمر بھر اسلامی ممالک کے خلاف زہر اُگلتے رہے اور برطانوی استبداد کی معاونت کر کے اُس کی عظمت کا ڈھنڈورہ پیٹتے رہے۔ کبھی اپنے آپ کو انگریزی سامراج کا تعویذ کہتے اور کبھی یہ بھی کہتے کہ خدا انگریزوں کے ساتھ بڑا خوش ہے اور اُن مسلمانوں کے ساتھ ناراض ہے جو اُن کی مخالف کرتے ہیں۔ مرزا غلام احمد کی انگریز نوازی اور مسلم دشمنی کا سلسلہ اُس کی موت تک جاری رہا۔

۱۹۰۷ء میں یعنی اپنی موت سے ایک برس پہلے اُنھوں نے اپنی قوم قادیانیوں کے لیے ایک نصیحت نامہ شائع کیا جو قادیانیوں کے لیے نصیحت کے ساتھ ساتھ قادیانی جذبات کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے جو مرزا قادیانی اسلامی ممالک کے بارے میں رکھتے تھے۔ اس تحریر سے ایک تقابل بھی اُبھر کر سامنے آتا ہے جو قادیانی سربراہ کے ذہن میں موجود تھا اور اس تقابل سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں یہودیوں اور انگریزوں کے بارے میں وہ کیا خیالات رکھتے ہیں اور کیوں؟ نصیحت نامہ ملاحظہ فرمائیں:

’’چونکہ میں دیکھتا ہوں ان دنوں جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندؤں میں سے اور مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل ایسی ایسی حرکتیں ظاہر کرتے ہیں جن سے بغاوت کی بو آتی ہے۔ بلکہ مجھے شک ہوتا ہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو جائے گا۔ اس لیے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہیں اور بفضلِ تعالیٰ کئی لاکھ تک ان کا شمار پہنچ چکا ہے نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میری تعلیم کو یاد رکھیں، جو تقریباً ۲۶ برس تقریری اور تحریری طور پر ان کے ذہن نشین کرتا آیا ہوں یہ کہ اس گورنمنٹ انگریزی کی پوری پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ ہماری مُحسن حکومت ہے۔ ان کی ہی حمایت میں ہمارا فرقۂ احمدیہ چند سال میں لاکھوں تک پہنچ گیا ہے۔ اور اس گورنمنٹ کا احسان ہے کہ اس کے زیرِ سایہ ہم ظالموں کے پنجے سے محفوظ ہیں۔ خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت ہے کہ اس نے اس گورنمنٹ کو اس بات کے لیے چُن لیا تا کہ یہ فرقہ احمدیہ اس کے زیر سایہ ہو کر ظالموں کے حملوں سے اپنے تئیں بچا دے اور ترقی کرے۔ کیا تم یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم سلطانِ روم کی عملداری میں رہ کر یا مکّہ اور مدینہ میں اپنا گھر بنا کر شریرلوگوں کے حملوں سے بچ ر ہو ، نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں بلکہ ایک ہفتے میں ہی تم تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کیے جاؤ گے۔ تم سُن چکے ہو کہ کس طرح عبداللطیف جو ریاست کابل کے ایک معزز، بزرگ اور نامور رئیس تھے جن کے مرید پچاس ہزار تھے جب وہ میری جماعت میں داخل ہوئے تو محض اس مقصد سے کہ میری تعلیم کے موافق جہاد کے مخالف ہو گئے تھے۔ امیر حبیب اللہ خان نے نہایت بے رحمی سے اُن کو سنگسار کرا دیا۔ پس کیا تمھیں کچھ توقع ہے کہ تمھیں اسلامی سلاطین کے ما تحت کوئی خوشحالی میّسر آئے گی۔ بلکہ تم تمام اسلامی اور مخالفت علماء کے فتوؤں کی رُو سے واجب القتل ٹھہر چکے ہو۔

یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سائے سے باہر نکل جاؤ ، تمھارا ٹھکانہ کہاں ہے ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمھیں اپنی پناہ میں لے لی گی۔ ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کے لیے دانت پیس رہی ہے ،کیونکہ ا ن کی نگاہ میں تم کافر او رمرتد ٹھہر چکے ہو سو تم اس خدا داد نعمت کی قدر کرو اور تم یقیناًسمجھ لو کہ خدا تعالیٰ نے سلطنت انگریزی تمہاری بھلائی کے لیے ہی اس ملک میں قائم کی ہے اور اگر اس سلطنت پرکوئی آفت آئے تو وہ تمہیں نابود کردے گی اور یہ مسلمان لوگ جو اس فرقہ احمدیہ کے مخالف ہیں تم ان کے علماؤں کے فتوے سُن چکے ہو یعنی تو اُن کے نزدیک واجب القتل ہو اور اُن کی آنکھ میں ایک کُتّا بھی رحم کے لائق ہے مگر تم نہیں ہو، تمام پنجاب اور ہندوستان کے فتوے بلکہ تمام ممالکِ اسلامیہ کے فتوے تمھاری نسبت رہیں کہ تم واجب القتل ہو۔ تمھیں قتل کرنا اور تمھارا مال لوٹ لینا اور تمھاری بیویوں پر جبر کر کے نکاح میں لے لینا اور تمھاری میّت کی توہین کرنا۔ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ بڑے ثواب کا کام ہے سو یہی انگریزوں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمھیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کیے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذرا اور کسی سلطنت کے زیرِ سایہ رہ کر دیکھ لو تم سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے ، سو انگریزی حکومت تمھارے لیے ایک رحمت ہے۔ تمھارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے ایک سپر ہے، تم اس سپر کی قدر کرو۔‘‘ (تبلیغِ رسالت، جلددہم، صفحہ۱۲۴، اشتہار مؤرخہ ۷؍ مئی ۱۹۰۷ء)

۱۹۰۸ء میں حکیم نور الدین نے جب اقتدار سنبھالا اسلامیانِ عالم خصوصاً ترکی کی سلطنت نامساعد حالات سے دوچار تھی۔ یہودی اور انگریز ترکی کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ استعماری طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کی حدود میں قومیّت کے جذبات کو اُبھار کر ترک قوم کو داخلی انتشار جیسے مسئلے سے دوچار کر دیا تھا۔ بلقان کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں جن میں رومانیہ، بلغاریہ بھی شامل تھیں ترکوں کے خلاف بغاوت کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ نوجوان ترکوں کو ورغلا کر حکومت کے خلاف کر دیا گیا۔ اُنھوں نے ’’ینگ ٹرکس‘‘ کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کر لی۔ اس تنظیم کی غرض و غایت بھی سلطان عبدالحمید کو معزول کر کے اس کی جگہ محمد خامس نامی ایک شخص کو ترکی کا سلطان مقرر کرنا تھا۔ سلطنت عثمانیہ ان حالات کو دیکھ کرارد گرد کی غیر مسلم ریاستوں نے بھی ترکوں کے لیے مسائل پیدا کرنے شروع کر دیے۔ ’’آسٹریا‘‘ نے ’’بوسنیا‘‘ اور ’’ہرزہ گووینا‘‘ کی ریاستوں کے ساتھ الحاق کر کے انھیں ترکوں کے خلاف اُکسانا شروع کر دیا۔ اٹلی کی حکومت نے بھی ترکوں کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کر کے ۱۹۱۲ء میں طرابلس پر حملہ کر دیا جب ترکی نے مصر کے راستے اپنی فوج کو اٹلی کی فوجوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہی تو انگریزوں نے مصر کے راستے ترک فوجوں کو راستہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلقان نے بھی ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جو ترکوں کے زیر تسلّط ایک ریاست تھی۔ انگریزوں نے ان بغاوتوں کو نہ صرف شہہ دی بلکہ اپنے سوچے سمجھے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان کی فوجی مدد بھی کی اس طرح ترکی کی عظیم سلطنت عثمانیہ کو ان ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست پر ہندوستان کے مسلمانوں میں اضطراب پھیل گیا۔ ہندوستان کے مسلم زعماء کی تمام حالات پر گہری نگاہ تھی۔ وہ اس کے پس پردہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مذموم مقاصد سے پوری طرح آشنا تھے اور دل کی گہرائیوں سے سلطنتِ عثمانیہ کو بچانا چاہتے تھے۔ چنانچہ اُنھوں نے جنگ طرابلس اور بلقان کے موقع پر پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو غیرتِ ملّی کے جذبات سے سرشار کر کے میدانِ عمل میں لاکھڑا کیا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، شبلی نعمانی (رحمہم اللہ) ترکوں کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ اُنھوں نے اپنے اپنے اخبارات کے ذریعے مسلمانوں کے اندر خلافت عثمانیہ کے دفاع کے لیے ایک تحریک پیدا کر دی۔ جگہ جگہ جلسے کیے گئے، جلوس نکالے گئے چندے کر کے طرابلس اور بلقان کے مسلمانوں کے مدد کے لیے خطیر رقوم جمع کی گئیں۔ ڈاکٹر مختار انصاری کی قیادت میں ایک طبّی وفد ترکی بھیجا گیا تا کہ زخمی مسلمانوں کی مدد کی جا سکے اس وفد میں آٹھ ڈاکٹر، چھ مرہم پٹی کرنے والے کارکن، بارہ ایمبولنس کے رضا کار شامل تھے۔ اس کے علاوہ چند مسلمان طلباء بھی اس طبّی وفد شامل تھے۔ جنھوں نے مسلمانوں کی خدمت کے لیے اپنی تعلیمی مستقبل کو داؤ پر لگا دیا تھا۔ اس صورت کی عکاسی شبلی نعمانی کے مندرجہ ذیل اشعار سے ہوتی ہے۔ جو اُس وقت ہر با شعور مسلمان کی زبان پر تھے۔

مراکش جا چکا فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے

کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک

یہ سیلاب بلا جو بلقان سے بڑھتا چلا آتا ہے

اسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دھواں کب تک

زوالِ دولتِ عثمان زوالِ شرع و ملّت ہے

عزیزو ، فکرِ فرزند و عیال و خانماں کب تک

بکھرتا جاتا ہے شیرازۂ اوراقِ اسلامی

چلیں گی تند بادِ کفر کی یہ آندھیاں کب تک

ہندوستانی مسلمانوں کا یہ طبّی وفد جب واپس ہندوستان پہنچا تو مسلمانوں نے اس کا عظیم الشان استقبال کیا۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس موقعہ پر ڈاکٹر انصاری کے پاؤں چھونے چاہے۔ ڈاکٹر صاحب اُنھیں منع کیا تو جواب میں کہا ’’یہ آپ کے پاؤں نہیں اسلام کے مجسمۂ غربت کے پاؤں ہیں۔‘‘

ادھر ہندوستان کے غیرت مند مسلمانوں کے دل دشمنانِ اسلام کی مسلمانوں کے خلاف سازشوں پر خون کے آنسو بہا رہے تھے تو اُدھر قادیان کے بزعم خویش ’’اصلی مسلمان‘‘ اپنے قائد و پیشوا مرزا غلام احمد کی واضح ہدایات کے مطابق یہودیوں اور عیسائیوں سے گٹھ جوڑ کر کے کیسی کیسی اسلام دشمن سرگرمیوں میں مصروف تھے اس کا تذکرہ آئندہ قسط میں نذرِ قارئین کیا جائے گا۔ (باقی آئندہ)


پروفیسر خالد شبیر احمد
 

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
اعجاز الحسینی جی اپکی سبھی پوسٹس میں پڑھتی ہوں اور سبھی ایک سے بڑھکر ایک ہیں بہت مفید اور معلوماتی
بہت خوب شیئرنگ کی ہے اپ نے
جزاک اللہ


dil10.gif
 
Top