یزید کے متعلق اہلسنت والجماعت کا موقف

ضرب فاروقی

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم
مولانا ناصر مظاھری صاحب امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ مجھے ایک سوال کا جواب درکار ہے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکال کرہم جیسے جہلا کی رہنمائی فرمائیں۔
سوال:
کیا فرماتے ہیں اکابر علمائے امت خصوصا علمائے دیوبند اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں کہ یزید کے بارے میں ہمیں عقیدت رکھنی چاہئیے؟ کچھ لوگوں کے خیال میں یزید بہت نیک انسان تھا اور وہ لوگ اس کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ استعمال کرتے ہیں۔ کیا ایسا کہنا جائز ہے؟ کیا یزید کو امیر المومنین کہنا جائز ہے؟ ہمارے ملک پاکستان میں کچھ لوگ اس بارے میں بہت شد و مد کے ساتھ باصرار اس پر زور دے رہے ہیں کہ کہ یزید امیر المومنین تھا اور تابعی تھا۔ خصوصا ہمارے ملک کی ایک جماعت “مجلس احرار اسلام“ جس کو حضرت عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادگان چلا رہے ہیں۔ حضرت کے صاحبزادگان کے نظریات بھی ایسے ہی ہیں اور وہ برملا اس کا اظہار اپنے بیانات میں کرتے رہتے ہیں۔ اس جماعت کے کارکن اپنے اصل کام کے علاوہ ناصبی عقائد و نظریات کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس بارے میں راہنمائی فرمائیں کیا یزید فاسق و فاجر انسان تھا؟ اور ہمیں اس کے بارے میں کیسا گمان رکھنا چاہیے؟
اللہ پاک آپ کو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں نصیب فرمائے۔ اللہ پاک آپ سے راضی ہو جائے۔ آمین
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یزید کے متعلق اہلسنت والجماعت کا موقف
صورت مسئولہ میں راقم الحروف نہ توکسی پرنقدکرناچاہے گانہ ہی بے جاتعریف۔البتہ میں اپنے چندبزرگوں بالخصوص حضرت عمربن عبدالعزیز رح،حضرت علامہ غزالی رح،حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ،حضرت مولانارشیداحمدگنگوہی رح،اورحضرت الامام مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ کے اقوال ونظریات نقل کردیناچاہتاہوں۔
اول الذکرحضرت عمربن عبدالعزیزکی محفل ایک شخص نے یزیدکاتذکرہ کیااورنام سے پہلے امیرالمؤمنین کہہ دیاتوحضرت عمربن عبدالعزیزکوغصہ آگیااوراس شخص کوبطورسزابیس کوڑے مارے جانے کاحکم صادرفرمایا۔یہ واقعہ نوفل بن عقرب نے یحیٰ بن عبدالملک سے بیان کیاہے اسی طرح لامع الدراری شرح بخاری میں اورحضرت ابن حجررحنے تہذیب التہذیب میں تہذیب الکمال کے حوالہ سے نقل کیاہی۔
علامہ غزالی رح کانظریہ حافظ ابن کثیررح نے نقل کیاہے جوالبدایہ والنہایہ میں موجودہے فرماتے ہیں۔
’’اورامام غزالی رح نے لعن یزیدمیں دوسرے علماء سے اختلاف کیاہے اوریزیدکوبرابھلاکہنے اوراس پرلعنت کرنے سے منع کیاہے ،کیونکہ وہ مسلمان تھااوریہ ثابت نہیں کہ قتل حسین سے راضی تھااوراگریہ ثابت بھی ہوتواس سے بھی لعنت جائزنہ ہوگی کیونکہ قاتل پرلعنت نہیں کی جاتی، خصوصاًجب کہ توبہ کادروازہ بھی کھلاہواہے اورجواپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے والاہے وہ بہت مغفرت فرمانے والاہے بڑامہربان ہے ۔امام غزالی نے فرمایاکہ رہی اس کے لئے دعاء رحمت تووہ جائزبلکہ بہترہے اورہم تمام مسلمانوں میں شامل کرکے اس کے لئے بھی رحمت کی دعاکرتے ہیں ۔
مورخ ابن خلکان نے تفصیل سے امام ’’کیا‘‘کے حالات میں ذکرکیاہے ۔ابن خلکان نے کہاکہ’کیا‘‘نہایت بلندمرتبہ اورباعظمت پیشوااورامام تھے ۔(البدایہ والنہایۃ)
اب میں نامورحنفی عالم دین قاضی ثناء اللہ پانی پتی کانظریہ بھی بیان کرتاچلوں تاکہ دونوں پہلوسامنے رہیں۔
قاضی صاحب اپنی نامورتفسیرابن کثیر(سورۂ ابراہیم پ ۳۱)میں لکھتے ہیں:
’’ابن مردویہ کی روایت ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھمانے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے پوچھااے امیرالمومنین !الذین بدلوانعمت اللہ کفراً(جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کے شکرکوناشکری سے بدل دیا)سے کون لوگ مرادہیں؟فرمایا:قریش کے وہ دوقبیلے جوسب سے زیادہ بدکارتھے (۱)بنی مغیرہ اور(۲)بنی امیہ ۔ بنی مغیرہ کے شرسے توغزوۂ بدرمیں تمہاری حفاظت ہوچکی(یعنی جنگ بدرمیں ان کازورٹوٹ گیاہی)اوربنی امیہ کوایک زمانہ تک مزے اڑانے کاموقع دیاگیاہے ۔امام بغوی نے بھی حضرت عمرکایہ ارشاداسی طرح نقل کیاہی۔
اس کے بعدقاضی صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’میں کہتاہوں کہ بنی امیہ کوحالت کفرمیں مزے اڑانے کاموقع دیاگیا،یہاں تک کہ ابوسفیان،معاویہ اورعمروبن العاص وغیرہ صحابہ کرام مسلمان ہوگئے ۔ پھریزیداوراس کے ساتھیوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اوراہل بیت نبی کی دشمنی کاجھنڈابلندکیا،آخرحضرت حسین رضی اللہ عنہ کوظلماًشہیدکردیااوریزیدنے تودین محمدی ہی کاانکارکردیا(آگے یزیدکی بے راہ روی کے کئی واقعات نقل کئے ہیں)یہ تمام تفصیل ’’حقیقت یزیدص ۴۷و۵۷پراورمحرم پرماتم ص ۴۶۱پرموجودہے ۔
مناسب سمجھتاہوں کہ طبقہ دیوبندکے سرخیل حضرت گنگوہی کاارشادگرامی بھی نقل کردوں تاکہ حجت رہے ۔
حضرت گنگوہی سے کسی نے یزیدکے کفراورفسق کی بابت سوال کیاتوارشادفرمایا:کسی مسلمان کوکافرکہنامناسب نہیں،یزیدمؤمن تھابسبب قتل کے فاسق ہوا،کفرکاحال دریافت نہیں،کافرکہناجائزنہیں کہ وہ عقیدۂ قلب پرموقوف ہی۔(فتاوی رشیدیہ)
فتاوی رشیدیہ میں اوربھی کئی سوال اورجوابات موجودہیں جولائق مطالعہ ہیں۔
نامورفقیہ حضرت مفتی عزیزالرحمن مفتی دارالعلوم دیوبندنے بھی اس سلسلہ میں توقف کاحکم دیاہے ،چنانچہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں۔
’’اہل سنت والجماعت کے نزدیک یزیدکوکافرنہ کہنااوراس پرلعنت نہ کرناہے ،اگرچہ اس کے ظلم وستم اورفسق وفجورمیں کوئی کلام نہیں ہے ،لیکن یہ چیزیں موجب کفروارتدادنہیں ہیں اوراگرہوں بھی توجب تک پورایقین نہ ہوجائے کافرنہیں کہناچاہئے اورصحیح بات وہ ہے جوابن الحاج نے کہی ہے جس کوشرح فقہ اکبر میں بھی ان سے نقل کیاگیاہے وہ یہ کہ اس کے معاملہ کواللہ کے حوالہ کرکے توقف اورسکوت کرناچاہئی۔(فتاویٰ دارالعلوم جلد۱ص ۸،عزیزالفتاویٰ)
قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی کاایک مکتوب مطبع مجتبائی سے شائع ہواتھاجس کی اصل فارسی عبارت اوراردوترجمہ’’محرم پرماتم‘‘نامی کتاب میں موجودہی( جس کے مؤلف ہندوستان کے نامورعالم دین حضرت مولانانسیم احمدغازی مظاہری شیخ الحدیث دارالعلوم جامع الہدیٰ مرادآبادہیں) اس میں’’ یزیدپلید‘‘مرقوم ہے اوراس کوآوارہ گرداورشراب وشباب کادلدادہ فرمایاگیاہی۔
حکیم الامت حضرت تھانوی نے بھی امدادالفتاویٰ میں تفصیل کے ساتھ اس موضوع پرکلام فرمایاہے اورلعنت بھیجنے سے منع کیاہے اورتوقف یعنی کف لسان کامشورہ عنایت فرمایاہی۔
الشیخ الہندی حضرت علامہ عبدالحی لکھنوی نے بھی سکوت اورخاموشی کواحوط بتلایاہی۔
ہمارے حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنی محدث مظاہرعلوم سہارنپورنے بھی لامع الدراری میں اسی کامشورہ دیاہے کہ خواہ مخواہ اس بحث میں نہ پڑاجائے اوراس معاملہ کواللہ تعالیٰ کے حوالے کردیاجائی۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
ناصرالدین مظاہری
مظاہرعلوم( وقف )سہارنپور
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒکاایک مکتوب مطبع مجتبائی سے شائع ہواتھاجس کی اصل فارسی عبارت اوراردوترجمہ’’محرم پرماتم‘‘نامی کتاب میں موجودہی( جس کے مؤلف ہندوستان کے نامورعالم دین حضرت مولانانسیم احمدغازی مظاہری شیخ الحدیث دارالعلوم جامع الہدیٰ مرادآبادہیں) اس میں’’ یزیدپلید‘‘مرقوم ہے اوراس کوآوارہ گرداورشراب وشباب کادلدادہ فرمایاگیاہی
واقعہ حرہ بھی اسی کے دور میں ہوا جب مسجد نبوی کی حرم کعبہ کی توھین ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یزید نے قاتلان حسین سے بدلہ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر بدلہ لیا پھر اسے قتل حسین سے بری کہا جا سکتا ہے ÷÷÷÷÷÷÷÷ اگر نہیں لیا تو قتل حسین برضا ء یزید ظہور پذیر ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top