اَسّی سال 80کی عبادت کا ثواب

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دِن نمازِ عصر کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے 80مرتبہ یہ درُود شریف پڑھے:۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ سَلِّمْ تَسْلِیْمًا۔
اُس کے 80سال کے گناہ معاف ہوں گے اور 80سال کی عبادت کا ثواب اس کے لیے لکھا جائے گا۔

DaroodJumaKyDin.jpg
 
محمد ارمغان نے کہا ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دِن نمازِ عصر کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے 80مرتبہ یہ درُود شریف پڑھے:۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ سَلِّمْ تَسْلِیْمًا۔
اُس کے 80سال کے گناہ معاف ہوں گے اور 80سال کی عبادت کا ثواب اس کے لیے لکھا جائے گا۔

DaroodJumaKyDin.jpg
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دِن نمازِ عصر کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے 80مرتبہ یہ درُود شریف پڑھے:۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ سَلِّمْ تَسْلِیْمًا۔
اُس کے 80سال کے گناہ معاف ہوں گے اور 80سال کی عبادت کا ثواب اس کے لیے لکھا جائے گا۔

DaroodJumaKyDin.jpg
 

ابوتراب

وفقہ اللہ
رکن
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دِن نمازِ عصر کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے 80مرتبہ یہ درُود شریف پڑھے:۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ سَلِّمْ تَسْلِیْمًا۔
اُس کے 80سال کے گناہ معاف ہوں گے اور 80سال کی عبادت کا ثواب اس کے لیے لکھا جائے گا۔
DaroodJumaKyDin.jpg
اس حدیث کا حوالہ؟؟؟؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دِن نمازِ عصر کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے 80مرتبہ یہ درُود شریف پڑھے:۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ سَلِّمْ تَسْلِیْمًا۔
اُس کے 80سال کے گناہ معاف ہوں گے اور 80سال کی عبادت کا ثواب اس کے لیے لکھا جائے گا۔
DaroodJumaKyDin.jpg

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دِن نمازِ عصر کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے 80مرتبہ یہ درُود شریف پڑھے:۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ سَلِّمْ تَسْلِیْمًا۔
اُس کے 80سال کے گناہ معاف ہوں گے اور 80سال کی عبادت کا ثواب اس کے لیے لکھا جائے گا۔
DaroodJumaKyDin.jpg
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
اس درود شریف سے متعلق دو مضمون نقل کرتا ہوں ۔ جس میں دو مختلف نقطہ نظر پیش کئے گئے ہیں ۔ اور دونوں کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔

البتہ اس بارے میں آج کل کے اہل حدیث حضرات اور عرب کےاکثر سلفی علماء چونکہ یہ نظریہ اختیار کر چکے ہیں کہ ضعیف حدیث پر عمل بالکل نہیں ہوسکتا۔ان کے نزدیک عملاََ موضوع اور ضعیف ایک ہی جیسی ہیں۔ ان کے نزدیک اس عمل کی بالکل گنجائش نہیں ہے ۔ان کا اپنا نقطہ نظر ہے ضعیف احادیث کے بارے میں۔جو کہ ظاہر ہے نیا ہی ہے ۔ورنہ سلف و خلف جمہور علماء اور اہلحدیث کے پہلے اکابر علماء اورکئی عرب کے سلفی علماء بھی فضائل ، ترغیب و ترہیب ، میں ضعیف حدیث پر کسی درجہ میں عمل جائز ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں۔اس کی تفصیلات کا موقع نہیں ۔

بہرحال اس میں حدود و قیود ضرور ہیں ۔۔جیسے کہ ان دو مضامین سے بھی ظاہر ہوں گی۔
پہلا مضمون۔ مفتی محمد رضوان ۔راولپنڈی کا ہے ۔
دوسرا۔۔۔۔مولانا عبد اللہ گل ۔ بنوری ٹاؤن
riz-1.jpg

riz-2.jpg

riz-3.jpg


دوسرا مضمون۔
gul-1.jpg

gul-2.jpg

gul-3.jpg

gul-4.jpg

gul-5.jpg

gul-6.jpg

gul-7.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا عبد اللہ گل کے مضمون کے مطابق فضائل میں اسے بیان کرنے میں اور عمل کرنے میں حرج نہیں ہے ۔
کیونکہ یہ موضوع نہیں ہے ضعیف ہے ۔

اور مفتی رضوان کے مضمون میں سلفی عالم شیخ البانی ؒ کی بھی تحقیق ہے اور انہوں نے بھی اس کو موضوع نہیں کہا ۔حالانکہ وہ ایسے معاملات میں متشدد ہیں ۔

اور یہ کسی درجہ میں عمل اس اصل کے تحت بھی داخل ہے کہ جمعہ کے دن مطلق درود شریف کی صحیح احادیث میں بھی فضیلت آئی ہے ۔

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے۔ اِس دن کثرت سے دُرود پڑھاکرو؛کیونکہ تمہارا دُرود پڑھنا مجھے پہونچایا جاتا ہے (مسند احمد، ابوداوٴد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان)۔

البتہ مفتی محمد رضوان صاحب کی یہ بات خاص طور پہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ جس طرح آج کل بعض لوگوں کا مزاج بن چکا ہے کہ اس کو بہت بڑے پیمانے پہ بورڈ پوسٹر وغیرہ بنا کر لگاتے ہیں تشہیر کرتے ہیں ۔ اس طرح عوام میں کچھ زیادہ ہی رجحان بڑھ جاتا ہے ۔ حالانکہ زیادہ رجحان درود ابراہیمی وغیرہ پر ہونا چاہیے ۔
اس کی ایک اور مثال ۔۔ تراویح کے دوران پڑھی جانے والی ’’تسبیح تراویح ‘‘ جس طرح پوسٹر چھپتے ہیں اور عوام میں مشہور ہو چکی ہے ۔عوام اس کو تراویح کا حصہ سمجھنے لگے ہیں ۔۔۔
اس لئے ضرور توجہ دینی چاہیے کے ضعیف پر عمل اس کے درجہ میں ہی کرنا چاہیے ۔۔یعنی کبھی کبھی ، انفرادی طور پہ ، ۔۔
اور زیادہ اہتمام درود ابراہیمی وغیرہ کا ہو۔۔۔اگر کسی کو بتائیں تو اس کو بھی اس کا درجہ بتائیں ۔۔۔ واللہ اعلم

فورم پر موجود علماء میرے الفاظ کو ضرور دیکھ لیں ۔ چونکہ عالم نہیں ہوں ۔ اس لئے کوئی غلطی ہو یا کسی اصول کو غلط بیان کیا ہو تو ۔۔۔اس کی تصحیح ہو جائے۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
اس درود شریف سے متعلق دو مضمون نقل کرتا ہوں ۔ جس میں دو مختلف نقطہ نظر پیش کئے گئے ہیں ۔ اور دونوں کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔

البتہ اس بارے میں آج کل کے اہل حدیث حضرات اور عرب کےاکثر سلفی علماء چونکہ یہ نظریہ اختیار کر چکے ہیں کہ ضعیف حدیث پر عمل بالکل نہیں ہوسکتا۔ان کے نزدیک عملاََ موضوع اور ضعیف ایک ہی جیسی ہیں۔ ان کے نزدیک اس عمل کی بالکل گنجائش نہیں ہے ۔ان کا اپنا نقطہ نظر ہے ضعیف احادیث کے بارے میں۔جو کہ ظاہر ہے نیا ہی ہے ۔ورنہ سلف و خلف جمہور علماء اور اہلحدیث کے پہلے اکابر علماء اورکئی عرب کے سلفی علماء بھی فضائل ، ترغیب و ترہیب ، میں ضعیف حدیث پر کسی درجہ میں عمل جائز ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں۔اس کی تفصیلات کا موقع نہیں ۔

بہرحال اس میں حدود و قیود ضرور ہیں ۔۔جیسے کہ ان دو مضامین سے بھی ظاہر ہوں گی۔
پہلا مضمون۔ مفتی محمد رضوان ۔راولپنڈی کا ہے ۔
دوسرا۔۔۔۔مولانا عبد اللہ گل ۔ بنوری ٹاؤن
riz-1.jpg

riz-2.jpg

riz-3.jpg


دوسرا مضمون۔
gul-1.jpg

gul-2.jpg

gul-3.jpg

gul-4.jpg

gul-5.jpg

gul-6.jpg

gul-7.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا عبد اللہ گل کے مضمون کے مطابق فضائل میں اسے بیان کرنے میں اور عمل کرنے میں حرج نہیں ہے ۔
کیونکہ یہ موضوع نہیں ہے ضعیف ہے ۔

اور مفتی رضوان کے مضمون میں سلفی عالم شیخ البانی ؒ کی بھی تحقیق ہے اور انہوں نے بھی اس کو موضوع نہیں کہا ۔حالانکہ وہ ایسے معاملات میں متشدد ہیں ۔

اور یہ کسی درجہ میں عمل اس اصل کے تحت بھی داخل ہے کہ جمعہ کے دن مطلق درود شریف کی صحیح احادیث میں بھی فضیلت آئی ہے ۔

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے۔ اِس دن کثرت سے دُرود پڑھاکرو؛کیونکہ تمہارا دُرود پڑھنا مجھے پہونچایا جاتا ہے (مسند احمد، ابوداوٴد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان)۔

البتہ مفتی محمد رضوان صاحب کی یہ بات خاص طور پہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ جس طرح آج کل بعض لوگوں کا مزاج بن چکا ہے کہ اس کو بہت بڑے پیمانے پہ بورڈ پوسٹر وغیرہ بنا کر لگاتے ہیں تشہیر کرتے ہیں ۔ اس طرح عوام میں کچھ زیادہ ہی رجحان بڑھ جاتا ہے ۔ حالانکہ زیادہ رجحان درود ابراہیمی وغیرہ پر ہونا چاہیے ۔
اس کی ایک اور مثال ۔۔ تراویح کے دوران پڑھی جانے والی ’’تسبیح تراویح ‘‘ جس طرح پوسٹر چھپتے ہیں اور عوام میں مشہور ہو چکی ہے ۔عوام اس کو تراویح کا حصہ سمجھنے لگے ہیں ۔۔۔
اس لئے ضرور توجہ دینی چاہیے کے ضعیف پر عمل اس کے درجہ میں ہی کرنا چاہیے ۔۔یعنی کبھی کبھی ، انفرادی طور پہ ، ۔۔
اور زیادہ اہتمام درود ابراہیمی وغیرہ کا ہو۔۔۔اگر کسی کو بتائیں تو اس کو بھی اس کا درجہ بتائیں ۔۔۔ واللہ اعلم

فورم پر موجود علماء میرے الفاظ کو ضرور دیکھ لیں ۔ چونکہ عالم نہیں ہوں ۔ اس لئے کوئی غلطی ہو یا کسی اصول کو غلط بیان کیا ہو تو ۔۔۔اس کی تصحیح ہو جائے۔
بہت عمدہ اور تحقیقی مضامین ہیں دونوں. جزاک اللہ خیرا
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
جزاك الله ۔ بیشک دونوں تحقیقی مضامین ہیں ۔
پہلے میں خود اپنے شوق کے تحت تحقیق کرنے لگا تو یہ مضامین نظر آگئے ۔۔جو کہ ظاہر ہے علماء کے ہیں۔جو کہ بہترین ہیں۔
آج کل عرب کے سلفی علماء اور اہلحدیث بھائی چونکہ زیادہ تر بدعات وغیرہ کے رد کی وجہ سے ایسے معاملات پر ہی زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ اور اکثر ضعیف روایات کو موضوع کہہ دیتے ہیں ۔
بیشک بعض کی نیت ٹھیک ہی ہوتی ہے کہ نبی اکرمﷺ سے کوئی بات غلط نہ منسوب ہو جائے ۔
لیکن وہ اس بات پر توجہ نہیں دیتے کے جو روایت موضوع نہیں ہوتی ۔۔ضعیف ہوتی ہے ۔۔چاہے ضعیف جداََ بھی ہو۔۔۔کسی درجہ میں چاہے ۱۰ فیصد ہی ہو احتمال ہوتا ہے کہ یہ بات فرمائی گئی ہو ۔بیشک ثبوت کا اعتقاد نہ رکھیں ۔لیکن اس کو قطعی کذب ،جھوٹ کہنا بھی زیادتی ہے ۔ ۔۔۔جو درجہ ہے وہی بیان کرنا چاہیے۔ اور جو حدود و قیود ہیں وہ بیان کرنا چاہییں۔
صحیح روایات سے ثابت مستحب پر اگر کوئی ساری عمر عمل نہ کرے تو اس پر کوئی ملامت نہیں ہوتی ۔۔۔
تو ضعیف کا درجہ تو اس سے بھی نیچے ہے۔
علماء کا انداز ہے کہ لوگوں کی نفسیات کے حساب سے بھی مسئلہ بتاتے ہیں ۔
جیسے بعض علماء کوئی مالدار دینی عام آدمی جان بوجھ کر توڑے ہوئے روزے کا کفارہ پوچھے تو علماء اسے روزوں کی قضا بتاتے ہیں ۔کہ اس کو کھانا کھلانا بتاؤ تو اس کے لئے مسئلہ ہی نہیں۔ ہاں اگر وہ دینی نہ ہو اور احتمال ہو کہ یہ شاید نہ رکھے تو اس کو وہ بھی بتا دیں۔
اسی طرح کسی جگہہ عوام مذکورہ درود شریف کی بارے میں غلو کرتے ہیں ۔۔اور ان میں رائج ہو چکا ہے تو مفتی رضوان کا مضمون بیان کرنا چاہیے ۔ لیکن ساتھ ساتھ اعمال میں فرق مراتب کا مسئلہ سمجھانا بھی چاہیے ۔
اور جہاں اتنی سختی ہو کہ کبھی کبھی انفرادی طور پہ پڑھنے کو بھی بدعت ضلالت کہہ دیا جائے تو پھر دوسرا مضمون مع حدود و قیود۔
واللہ اعلم۔
اگر کسی کا خیال ہو کہ اب سارے عوام ایسے معاملات میں غلو اور بدعات کے مرتکب ہی ہوتے ہیں ۔ اس لئے ضعیف کا مکمل انکار ہی مناسب ہے ۔۔تو ایسا نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔کیونکہ یہ جمہور علماء کے خلاف نظریہ ہے ۔۔۔اور یہ نظریہ اختیار کرنے والے کئی ثابت شدہ چیزوں کا انکار کر جاتے ہیں ۔۔۔بلکہ کرچکے ہیں ۔۔اور یہ بھی غلو ہے ۔
اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔۔۔ایک کا ذکر کرتا ہوں ۔۔ایک عمل جس کا انکار کئی حلقے کرنا شروع ہو گئے ہیں ۔۔۔یعنی ۔۔روزہ کھولنے کی دعا۔۔۔اللھم لک صمت۔۔ اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جمہور علماء اس کے قائل ہیں ۔۔لیکن آج کل کے متشددین حضرات اس کے بھی منکر ہورہے ہیں۔
 
Top